16/10/2025
"ایک
ہی جگہ پر
کئی کئی مدارس"
حضرت مولانا مفتی خالد
سیف اللہ صاحب دامت برکاتہم
العالیہ فرماتے ہیں کہ: ہمارے یہاں فی الحال جس طرح مدارس قائم کئے جارہے ہیں؛ معلوم ہوتا ہے کہ ۔۔۔ کہیں خدا نخواستہ ہمارے ملک میں بھی عوام کے اندر علماء سے اسی طرح کی نفرت پیدا نہ ہوجائے؛ اس لئے اس سلسلے میں بنیادی باتیں عرض کی جاتی ہیں : اس وقت جو نئے مدارس قائم کیے جارہے ہیں، شاید مبالغہ نہ ہو کہ۔۔۔ ان میں 75 فی صد بلا ضرورت ہیں ، اور کسی خاص مقصد کے تحت قائم نہیں کئے جارہے ہیں ، شہر کے ایک ہی محلہ میں کئی کئی مدارس ، ایک ہی گلی میں کئی کئی ادارے ؛ حالانکہ صورت حال یہ ہے کہ محلہ کے ایک مدرسہ میں اگر تمام مدارس کے طلبہ کو جمع کر دیا جائے؛ تب جا کر وہ ایک چھوٹا موٹا مدرسہ کہلانے کا مستحق ہوگا .مدارس کی کثرت کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ اساتذہ ، منتظمین اور کارکنوں کی تنخواہوں کا بوجھ اُمت کے کاندھوں پر ڈالا جارہا ہے ۔بعض جگہ تو جتنے بھائی ہیں ، ہر بھائی کا الگ الگ مدرسہ ہے۔ اور اب لڑکیوں کی تعلیم گاہوں میں بھی یہی نوبت آرہی ہے کہ ہر بہن اور ہر بھاوج کے الگ الگ مدرسے ہیں۔یہ صرف شہروں ہی میں نہیں۔۔۔بلکہ چھوٹے چھوٹے قصبات میں بھی مدارس کا سیلاب اُمڈا پڑا ہے۔ جن دیہاتوں میں معاشی وسائل کم ہے اور مکاتب کی سخت ضرورت ہے ؛ لیکن اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔۔۔ اس لیے اس طرف توجہ کی اشد ضرورت ہے۔اسی طرح اس وقت عصری تعلیم گاہوں اسکولوں کی ضرورت ہے ؛ لیکن اس طرف توجہ نہیں ہے ؛ کیوں کہ اس کے لئے جو علمی لیاقت مطلوب ہے، وہ حاصل نہیں ہے۔ اور اسکول کے قیام کے لئے عام طور پر اہل خیر چندہ دینا ثواب ہی نہیں سمجھتے، اس لئے دیتے بھی نہیں۔ بلا ضرورت اور بے مقصد مدارس کا قیام خدمت نہیں بدخدمتی ہے، اس کی وجہ سے دینی تعلیم پر، علماء پر اور مدارس پر لوگوں کا اعتماد ختم ہوتا جارہا ہے، اور بجا طور پر بہت سے لوگ اس کو مولویوں کا کاروبار سمجھنے لگے ہیں۔ ایسی مثالیں بھی مل جائیں گی کہ کوئی دُکان لگائی، کاروبار شروع کردیا ہے؛ لیکن اس میں کامیابی نہیں ہوئی تو مدرسہ قائم کرلیا، غور کیجئے ، مدرسہ تعلیم کے لئے ہے یا کسبِ معاش کے لئے؟ اس پر خوب غور و فکر کی ضرورت ہے۔ (مجلس فیض محمد) ( )