Dawa aur Roohani ilaj

Dawa aur Roohani ilaj THIS IS MY OFFICIAL SITE DUNIYA # and ilaj.

12/03/2025

اگر کسی کے دل میں رمضان میں بھی تلاوت قرآن کا خیال نہیں آرہا تو وہ ہجر قرآن جیسی موذی اور جان لیوا بیماری کا شکار ہے اور اس کے دل و دماغ کو لاپرواہی اور غفلت گناہوں کے غبار نے بری طرح سے متاثر کر رکھا ہے۔
ذرا غور کریں کہ معاملہ کتنا سنگین ہے قیامت والے دن اللہ کے سچے رسول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کی شکایت جناب باری تعالیٰ میں کریں گے کہ نہ یہ لوگ قرآن کی طرف مائل تھے، نہ رغبت سے قبولیت کے ساتھ سنتے تھے۔۔۔ اب بتائیں اگر اللہ کے رسول، اللہ سے ہماری شکایت کردے تو ہمارا کیا بچتا ہے؟
[وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا]
اور رسول کہے گا اے میرے رب! بے شک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑا ہوا بنا رکھا تھا۔۔ الفرقان: 30۔
نہ تلاوت، نہ سمجھنے کی کوشش، نہ احکام کی بجا آواری، بلکہ اس کے سوا اور کاموں میں مشغول و منہمک رہتے تھے جیسے شعر، اشعار، غزلیات، باجے، گانے، راگ، راگنیاں۔۔۔ ڈرامے، سیریلز، بے ہودہ ریلز، دنیاوی آرٹیکلز، فضول بحث و مباحثہ۔۔۔ یہی ہجر قرآن کہلاتا ہے۔

03/10/2024
13/09/2024
03/09/2024

بیٹی کی حق تلفی
اولاد اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اور ہر شخص کو اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے۔ انسان کے بیٹے اور بیٹیاں اس کے حسن سلوک کے مستحق ہیں‘ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ کئی لوگ بیٹیوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے۔ کئی مرتبہ اخبارات میں سگے باپ کے ہاتھوں بیٹی کے قتل تک کی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ بالخصوص ایسی خبریں ہم آئے روز پڑھتے رہتے ہیں کہ باپ نے غیرت کے نام پر بیٹی کو قتل کر دیا۔ کئی بار اس طرح کی خبریں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں کہ بیٹی کی پیدائش پر شوہر نے غضبناک ہو کر بیوی کو قتل کر ڈالا۔ ایسے ناحق خون کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ اکثر ان واقعات کی تفتیش نہیں ہوتی۔ گھریلو اور خاندانی سطح پر ہونے والے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں مجرم یا تو گرفتار نہیں ہوتا اور اگر گرفتار ہو جائے تو اسے قرار واقعی سزا نہیں ملتی۔ زمانہ جاہلیت میں بیٹی کے ساتھ بُرا سلوک کیا جاتا تھا۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹیوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا اور بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کی رسم بد کا خاتمہ کیا۔
اگرچہ کہنے کو تو ہمارا معاشرہ بہت ترقی کر چکا ہے، لیکن آج بھی درجنوں طریقوں سے عورت کا استحصال جاری ہے اور ہمارے طرز عمل سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم اب بھی دور جاہلیت کے غلط نظریات اور تصورات سے نجات حاصل نہیں کر سکے۔ کئی گھرانوں میں بیٹی کی پیدائش سے قبل ہی اس کا استحصال شروع ہو جاتا ہے۔ جاہل شوہر دوٹوک انداز میں بیوی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اسے ہر صورت میں بیٹے کو جنم دینا چاہیے، بچی کی پیدائش کی صورت میں اسے سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ شوہر اس بات کو فراموش کر دیتے ہیں کہ بیٹے یا بیٹی کی پیدائش عورت کے اختیار میں نہیں ہوتی، یہ خالق و مالکِ کائنات کا فیصلہ ہوتا ہے، وہ جسے چاہتا ہے بیٹی دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹا عطا فرماتا ہے۔ بیٹی کی پیدائش پر مغموم ہونا اہل ایمان کا طریقہ نہیں بلکہ کافرانہ ادا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ نحل کی آیت نمبر 58 اور 59 میں کافروں کے طریقے کا ذکر کیا ہے: ''جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوش خبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غم سے بھرا ہوتا ہے۔ اس خوشخبری کی وجہ سے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے۔ آیا ذلت کے باوجود اسے (اپنے پاس) رکھے یا مٹی میں گاڑ دے۔ آ گاہ رہو اس کا فیصلہ بہت برا ہے‘‘۔ اسی طرح سورہ زخرف کی آیت نمبر 17 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جب ان میں سے کسی کو اُس چیز کی خوش خبری دی جائے کہ جس کی اس میں رحمن کے لئے مثال بیان کی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غم سے بھرا ہوتا ہے‘‘۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو بیٹیوں کی پیدائش پر غم زدہ ہونے سے منع فرمایا ہے۔ امام احمد اور امام طبرانی رحمھما اللہ نے عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''بیٹیوں کو ناپسند نہ کرو کیونکہ وہ تو پیارکرنے والی قیمتی چیزیں ہیں‘‘۔
بیٹیوں کی پیدائش پر غم کرنے والے لوگ زندگی کے طویل برسوں کے دوران بھی ان سے شفقت کا وہ سلوک نہیں کرتے جس کی وہ مستحق ہوتی ہیں اور عام طور پر ان کی ضروریات کو بھی خندہ پیشانی سے پورا نہیں کیا جاتا۔ یہ رویہ ہر اعتبار سے قابل مذمت ہے۔ اہل ایمان کو ہر حال میں بیٹیوں کے ساتھ پیار اور محبت والا معاملہ رکھنا چاہیے اور کھلے دل سے ان کی ضروریات کو پورا کرنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والے باپ کی مختلف انداز میں تحسین فرمائی ہے۔ بخاری اور مسلم شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''جس شخص کو تین بیٹیوں کے ساتھ آزمائش میں ڈالا گیا اور اس نے ان کے ساتھ احسان کیا تو وہ اس کے لیے آگ کے مقابلے میں رکاوٹ ہوں گی‘‘۔ یہ بیٹیاں اپنے نیک باپ کو صرف آگ سے ہی نہیں بچائیں گی بلکہ اس کو جنت میں بھی داخل کروائیں گی۔ اسی طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ادب مفرد اور امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ نے سنن ابن ماجہ میں ایک اور حدیث کو نقل فرمایا ہے کہ ''کوئی شخص ایسا نہیں ہے کہ جس کے ہاں دو بیٹیاں ہوں اور وہ دونوں جب تک اُس کے ساتھ رہیں یا وہ ان کے ساتھ رہے، احسان کرتا رہے تو وہ دونوں اس کو جنت میں داخل کروائیں گی‘‘۔
بعض اوقات باپ تو بیٹیوں سے حسن سلوک کرتا ہے لیکن مائیں ان کے ساتھ بخل کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ وہ ماں جو اپنی بیٹیوں کے ساتھ ایثار والا معاملہ کرتی ہے وہ بھی حدیث کے مطابق جنت کی مستحق ٹھہرے گی۔ امام مسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں فرمایا: ''میرے ہاں ایک مسکین عورت اپنی دو بیٹیوں کو اُٹھائے ہوئے آئی، میں نے اسے کھانے کے لیے تین کھجوریں دیں، اس نے دونوں بیٹیوں کو ایک ایک کھجور دے دی اور ایک کھجور کو خود کھانے کے لیے منہ کی طرف اُٹھایا تو دونوں بیٹیوں نے اس سے وہ کھجور مانگ لی تو اس نے وہ کھجور بھی دونوں میں تقسیم کر دی۔ اس عورت کے طور طریقے نے مجھے حیرت زدہ کر دیا۔ میں نے اس کے طرز عمل کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''یقیناً اللہ تعالیٰ نے (اس کے اس عمل)کی وجہ سے اس پر جنت کو واجب کر دیا‘‘۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مقام پر بیٹیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والے کو قیامت کے روز اپنی معیت اور قربت کی بشارت دی ہے۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت انس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ ''جس شخص نے دو بیٹیوں کی بلوغت کو پہنچنے تک تربیت کی، وہ قیامت کے دن (اس طرح) آئے گا کہ میں اور وہ (اکٹھے ہوں گے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں کو ملا دیا‘‘۔
بعض لوگ رشتہ کرتے وقت اپنی بیٹیوں کی پسند ناپسند کا خیال نہیں کرتے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ نکاح کے وقت جہاں ولی کا ہونا ضروری ہے وہیں عورت کی رائے کا معلوم ہونا بھی ضروری ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں ایسا نکاح منسوخ کر دیا تھا جس میں عورت کی رضا مندی شامل نہیں تھی۔ بعض لوگ تحفے تحائف دیتے وقت بیٹے اور بیٹیوں میں تفریق کر تے ہیں، یہ بھی بیٹی کا استحصال ہے۔ از روئے شریعت ہدیہ دیتے وقت بیٹے اور بیٹیوں میں مساوات ہونی چاہیے۔ بیٹیوں کے استحصال کا ایک اور انداز ان کو وراثت سے محروم کرنا ہے۔ وراثت اللہ کا حکم ہے اور اس کو حیلے بہانے سے ہڑپ کرنے والے قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں جواب دہ ہوں گے۔ اسلام کی آفاقی تعلیمات کا مطالعہ کرنے کے بعد اس بات کو سمجھنا چنداں مشکل نہیں کہ جدید قوانین و نظریات کے ذریعے عورت کے حقوق کا تحفظ کرنے کی کوئی بھی کوشش عورت کے استحصال کو نہیں روک سکتی۔ عورت کا استحصال روکنے کا بہترین اور واحد طریقہ یہی ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھالیں اور ہر خاص و عام کو اسلام کی تعلیمات سے آگاہ کرنے کی کوشش کریں۔

01/09/2024

توکل‘ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کا خصوصی شعار
کیا رزق کے لیے جد وجہد توکل کے خلاف ہے؟

اللہ تعالیٰ پر توکل یعنی بھروسہ کرنا انبیاء کرام علیہم السلام کے طریقہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا حکم بھی ہے۔ قرآن وحدیث میں توکل علیٰ اللہ کا بار بار حکم دیا گیا ہے۔ صرف قرآن کریم میں سات مرتبہ ’’وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ‘‘ فرماکر مؤمنوں کو صرف اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کی تاکید کی گئی ہے، یعنی حکم خداوندی ہے کہ اللہ پر ایمان لانے والوں کو صرف اللہ ہی کی ذات پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ آئیے! سب سے قبل توکل کے معنی سمجھیں:

لفظی اور شرعی اصطلاح میں توکل کا مطلب
توکل کا لفظی معنی ’’کسی معاملہ میں کسی ذات پر اعتماد کرنا‘‘ ہے، یعنی اپنی عاجزی کا اظہار اور دوسرے پر اعتماد اور بھروسہ کرنا توکل کہلاتا ہے۔
اس یقین کے ساتھ اسباب اختیار کرنا کہ دنیوی واُخروی تمام معاملات میں نفع ونقصان کی مالک صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، اس کے حکم کے بغیر کوئی پتا درخت سے نہیں گر سکتا، ہر چھوٹی بڑی چیز اپنے وجود اور بقا کے لیے اللہ کی محتاج ہے، غرض یہ کہ خالقِ کائنات کی ذاتِ باری پر مکمل اعتماد کرکے دنیاوی اسباب اختیار کرنا توکل علیٰ اللہ ہے۔ اگر کوئی شخص بیمار ہوجائے تو اُسے مرض سے شفایابی کے لیے دوا کا استعمال تو کرنا ہے، لیکن اس یقین کے ساتھ کہ جب تک اللہ تعالیٰ شفا نہیں دے گا، دَوا اَثر نہیں کرسکتی۔ یعنی دنیاوی اسباب کو اختیار کرنا توکل کے خلاف نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کا نظام یہی ہے کہ بندہ دنیاوی اسباب اختیار کرکے کام کی انجام دہی کے لیے اللہ تعالیٰ کی ذات پر پورا بھروسا کرے، یعنی یہ یقین رکھے کہ جب تک حکم خداوندی نہیں ہوگا، اسباب اختیار کرنے کے باوجود شفا نہیں مل سکتی۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
’’قال رجل: یارسول اللّٰہ! أعقلہا وأتوکل؟ أو أطلقہا وأتوکل؟ قال: اعقلہا وتوکل۔‘‘ (سنن ترمذی،کتاب صفۃ القیامۃ، ج:۴، ص:۶۷۰، طبع: داراحیاء التراث العربی، بیروت)
’’ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا اونٹنی کو باندھ کر توکل کروں یا بغیر باندھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: باندھو اور اللہ پر بھروسہ کرو۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ: اہلِ یمن بغیر سازوسامان کے حج کرنے کے لیے آتے اور کہتے کہ ہم اللہ پر توکل کرتے ہیں، لیکن جب مکہ مکرمہ پہنچتے تو لوگوں سے سوال کرنا شروع کردیتے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی سورۃ البقرۃ میں آیت: ۱۹۷ نازل فرمائی کہ:’’ حج کے سفر میں زادِ راہ ساتھ لے جایا کرو۔‘‘ (صحیح بخاری )
جو بھی اسباب مہیا ہوں، انہیں اس یقین کے ساتھ اختیار کرنا چاہیے کہ کرنے والی ذات صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔حضرت ایوب علیہ السلام نے جب اپنی طویل بیماری کے بعد اللہ تعالیٰ سے شفایابی کے لیے دعا فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ اپنے پیر کو زمین پر ماریں۔ اب غور کرنے کی بات ہے کہ کیا ایک شخص کا زمین پر پیر مارنا، اس کی بیسیوں سال کی بیماری کی شفایابی کا علاج ہے؟ نہیں! لیکن انہوں نے اللہ کے حکم سے یہ کمزور سبب اختیار کیا، جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے ان کے زمین پر پیر مارنے سے پانی کا ایسا چشمہ جاری کردیا، جس سے غسل کرنے پر حضرت ایوب علیہ السلام کی بیسیوں سال کی بدن کی متعدد بیماریاں ختم ہوگئیں۔ حضرت ایوب علیہ السلام کے اس واقعہ کی تفصیلات کے لیے سورۃ الانبیاء، آیت: ۸۳ و ۸۴ اور سورۂ ص، آیت: ۴۱ سے ۴۴ کی تفسیر کا مطالعہ کریں۔ حضرت ایوب علیہ السلام کے اس واقعہ سے ہمیں متعدد سبق ملے، دو اہم سبق یہ ہیں: پہلا سبق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ارادہ سے بھی حضرت ایوب علیہ السلام کو شفا دے سکتے تھے، مگر دنیا کے دار الاسباب ہونے کی وجہ سے حضرت ایوب علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ کچھ حرکت کریں، یعنی کم از کم اپنے پیر کو زمین پر ماریں۔ دوسرا سبق یہ ہے کہ جو بھی اسباب مہیا ہوں، ان کو اس یقین کے ساتھ اختیار کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکم سے کمزور اسباب کے باوجود کسی بڑی سے بڑی چیز کا بھی وجود ہوسکتا ہے۔
حضرت مریم علیہا السلام نے جب اللہ کے حکم سے بغیر باپ کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جنا تو اُن کے لیے حکم خداوندی ہوا کہ کھجور کے تنے کو ہلائیں، یعنی حرکت دیں، اُس سے جب پکی ہوئی تازہ کھجوریں جھڑیں تو ان کو کھائیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے حضرت مریم علیہا السلام کو بغیر کسی سبب کے بھی کھجور کھلا سکتے تھے، لیکن دنیا کے دار الاسباب ہونے کی وجہ سے حکم ہوا کہ کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلاؤ، چنانچہ حضرت مریم p نے حکم خداوندی کی تعمیل میں کھجور کے تنے کو حرکت دی۔ کھجور کا تنا اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ چند طاقت ور مرد بھی اسے آسانی سے نہیں ہلاسکتے، لیکن صنف نازک نے اس کمزور سبب کو اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم سے سوکھے ہوئے کھجور کے درخت سے حضرت مریم علیہا السلام کے لیے تازہ کھجوریں یعنی غذا کا انتظام کردیا۔ اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ جو بھی اسباب مہیّا ہوں، اللہ پر توکل کرکے اُنہیں اختیار کرنا چاہیے۔
اسباب تو ہمیں اختیار کرنے چاہئیں، لیکن ہمارا بھروسا اللہ کی ذات پر ہونا چاہیے کہ وہ اسباب کے بغیر بھی چیز کو وجود میں لاسکتا ہے اور اسباب کی موجودگی کے باوجود اس کے حکم کے بغیر کوئی بھی چیز وجود میں نہیں آسکتی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلتی ہوئی آگ میں ڈالا گیا، جلانے کے سارے اسباب موجود تھے، مگر حکم خداوندی ہوا کہ آگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے سلامتی بن جائے تو آگ نے اُنہیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچایا، بلکہ وہ آگ جو دوسروں کو جلادیتی ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے ٹھنڈی اور سلامتی کا سبب بن گئی۔ اسی طرح حضرت اسماعیل علیہ السلام کی گردن پر طاقت کے ساتھ تیز چھری چلائی گئی، مگر چھری بھی کاٹنے میں اللہ کے حکم کی محتاج ہوتی ہے، اللہ نے اُس چھری کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی گردن کو نہ کاٹنے کا حکم دے دیا تھا، لہٰذا کاٹنے کے اسباب کی موجودگی کے باوجود چھری حضرت اسماعیل علیہ السلام کی گردن نہیں کاٹ سکی۔
اسباب وذرائع ووسائل کا استعمال کرنا منشائے شریعت اور حکم الٰہی ہے۔ حضور اکرم a نے اسباب ووسائل کو اختیار بھی فرمایا اور اس کا حکم بھی دیا، خواہ لڑائی ہو یا کاروبار، ہر کام میں حسبِ استطاعت اسباب کا اختیار کرنا ضروری ہے، لہٰذا جائز وحلال طریقہ پر اسباب ووسائل کو اختیار کرنا ، پھر اللہ کی ذات پر کامل یقین کرنا توکل علیٰ اللہ کی روح ہے۔ اگر توکل علیٰ اللہ کا مطلب یہ ہوتا کہ صرف اللہ کی مدد ونصرت پر یقین کرکے بیٹھ جائیں تو سب سے پہلے قیامت تک آنے والے انس وجن کے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اس پر عمل کرتے، حالانکہ آپ a نے ایسا نہیں کیا اور نہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایسا کوئی حکم دیا، بلکہ دشمنوں کے مقابلہ کے لیے پہلے پوری تیاری کرنے کی تاکید فرمائی۔
جیسا کہ عرض کیا گیا کہ قرآن کریم میں اللہ پر توکل یعنی بھروسہ کرنے کی بار بار تاکید کی گئی ہے، اختصار کے مدِ نظر یہاں صرف چند آیات کا ترجمہ پیش کررہا ہوں:
۱:-’’ تم اُس ذات پر بھروسہ کرو جو زندہ ہے، جسے کبھی موت نہیں آئے گی۔‘‘ (الفرقان: ۵۸)
۲:-’’جب تم کسی کام کے کرنے کا عزم کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔‘‘ (آل عمران: ۱۵۹)
۳:-’’جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ اس کے لیے کافی ہوجاتا ہے۔‘‘ (الطلاق: ۳)
۴:-’’بے شک ایمان والے وہی ہیں جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل نرم پڑجاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ آیات ان کے ایمان میں اضافہ کردیتی ہیں اور وہ اپنے رب ہی پر بھروسہ کرتے ہیں۔‘‘ ( الانفال :۳)
ہمارے نبی نے بھی متعدد مرتبہ اللہ پر توکل کرنے کی تعلیم دی ہے، فی الحال صرف ایک حدیث پیش ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’لوأنکم کنتم توکلون علی اللّٰہ حق توکلہٖ لرزقتم کما یرزق الطیر تغدو خماصا وتروح بطانا۔‘‘ (سنن الترمذی، باب التوکل علی اللہ، ج:۴، ص:۵۷۳)
’’ اگر تم اللہ پر توکل کرتے جیسے توکل کا حق ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ تم کو اس طرح رزق دیتا جیسا کہ پرندوں کو دیتا ہے کہ صبح سویرے خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس لوٹتے ہیں۔‘‘
مشاہدہ ہے کہ پرندوں کو بھی رزق حاصل کرنے کے لیے اپنے گھونسلوں سے نکلنا پڑتا ہے، لیکن رزق دینے والی ذات صرف اور صرف اللہ ہی کی ہے۔
جب کفارِ مکہ اُحد کی جنگ سے واپس چلے گئے توراستے میں اُنہیں پچھتاوا ہوا کہ ہم جنگ میں غالب آجانے کے باوجود خوا ہ مخواہ واپس آگئے، اگر ہم کچھ اور زور لگاتے تو تمام مسلمانوں کا خاتمہ ہوسکتا تھا۔ اس خیال کی وجہ سے انہوں نے مدینہ منورہ کی طرف لوٹنے کا ارادہ کیا۔ دوسری طرف حضور اکرم a نے اُن کے ارادہ سے باخبر ہوکر اُحد کے نقصانات کی تلافی کے لیے جنگِ اُحد کے اگلے دن صبح سویرے صحابہؓ میں یہ اعلان فرمایا کہ: ہم دشمن کے تعاقب میں جائیں گے، اور جو لوگ جنگِ اُحد میں شریک تھے، صرف وہ ہمارے ساتھ چلیں۔ صحابۂ کرامs جنگ کی وجہ سے زخمی اور بہت زیادہ تھکے ہوئے تھے، لیکن انہوں نے آپ a کی دعوت پر لبیک کہا۔ حضور اکرم a اپنے صحابہؓ کے ساتھ مدینہ منورہ سے حمراء الاسد کے مقام پر پہنچے تو قبیلہ خزاعہ کے ایک شخص نے مسلمانوں کے حوصلے کا خود مشاہدہ کیا۔ بعد میں اس شخص کی ملاقات کفارِ مکہ کے سردار ابوسفیان سے ہوئی تو اس نے مسلمانوں کے حوصلے کے متعلق بتایا اور مکہ مکرمہ واپس جانے کا مشورہ دیا۔ اس سے کفار پر رعب طاری ہوا اور وہ واپس مکہ مکرمہ چلے گئے، مگر ابوسفیان نے ایک شخص کے ذریعہ مسلمانوں کے لشکرمیں یہ خبر (جھوٹی) پہنچادی کہ ابوسفیان بہت بڑا لشکر جمع کرچکا ہے اور وہ مسلمانوں کا خاتمہ کرنے کے لیے ان پر حملہ کرنے والا ہے۔ اس پر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ڈرنے کے بجائے بول اُٹھے:’’ حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ‘‘(آل عمران: ۱۷۳) ’’ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔‘‘یہی توکل ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ہم ایک غزوہ میں حضور اکرم a کے ساتھ تھے۔ جب ہم ایک گھنے سایہ دار درخت کے پاس آئے تو اس درخت کو ہم نے رسول اللہ a کے لیے چھوڑ دیا۔ مشرکین میں سے ایک شخص آیا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی درخت سے لٹکی ہوئی تلوار لے لی اور سونت کر کہنے لگا: کیا تم مجھ سے ڈرتے ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ اس نے کہا کہ: تمہیں مجھ سے کون بچائے گا ؟ آپ a نے کہا: اللہ۔ یہ فرمایا ہی تھا کہ تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی۔ آپ a نے وہ تلوار پکڑ کر فرمایا: تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟ اس نے کہا: تم بہتر تلوار پکڑنے والے بن جاؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو ’’لا إلٰہ إلا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ‘‘ کی گواہی دیتا ہے؟ اس نے کہا: نہیں، لیکن میں آپ سے یہ عہد کرتا ہوں کہ نہ میں آپ سے لڑوں گا اور نہ میں اُن لوگوں کا ساتھ دوں گا جو آپ سے لڑتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا راستہ چھوڑ دیا۔ وہ شخص اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور کہنے لگا: میں ایسے شخص کے پاس سے آیا ہوں جو لوگوں میں سب سے بہتر ہے۔ (مسند احمد) [یہ واقعہ الفاظ کے فرق کے ساتھ بخاری ومسلم بھی موجود ہے] ۔
خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: میں نے مشرکین کے قدم دیکھے جب کہ ہم غار (ثور) میں تھے، وہ ہمارے سروں کے اوپر کھڑے تھے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر ان میں سے کوئی اپنے قدموں کی نچلی جانب دیکھے تو وہ ہمیں دیکھ لے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبکر! تیرا ان دو کے متعلق کیا گمان ہے کہ اللہ جن کا تیسرا ہے۔ (بخاری ومسلم)

توکل علیٰ اللہ کے حصول کے لیے ایک دعا
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص گھر سے نکلتے وقت یہ دعا پڑھے: ’’بِسْمِ اللّٰہِ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ‘‘ ۔۔۔۔’’میں اللہ کا نام لے کر گھر سے نکلتا ہوں اور اللہ پر بھروسہ کرتا ہوں، اور نہ کسی بھی کام کی قدرت میسر آسکتی ہے نہ قوت، مگر اللہ تعالیٰ کی مدد سے۔‘‘۔۔۔۔۔۔ تو اس کو کہہ دیا جاتا ہے کہ: تو نے ہدایت پائی ، تیری کفالت کردی گئی، تجھے ہر شر سے بچادیا گیا اور شیطان اس سے دور ہٹ جاتاہے۔ (ابوداؤد، ترمذی)

Address

Kamal Gora, Kapali, Saraikela Kharsawan
Jamshedpur

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dawa aur Roohani ilaj posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share