بیماری کا علاج غذا کے ساتھ

بیماری کا علاج غذا کے ساتھ ہم بیمار خود ہوتے ہیں لیکن شفاء اللہ دیتا ہے

جہاں تک کا?

تمام نئے دوستوں کو خوش آمدید❤
ا❤
پوسٹ کو لائیک کریں کمنٹس کریں❤
۔ناپسندیدگی یا اختلاف رائےکی صورت میں بھی احترام اور تہذیب کو ملحوظ خاطر رکھیں۔
کہ آپ کے الفاظ ھی آپکی شخصیت اور تربیت کے آئینہ دار ھیں۔
بلاشبہ آپ سب اس پیج کی رونق ھیں۔❤
پیج پر دوستانہ ماحول کی ترویج میں اپنا کردار ادا کریں محبتیں بانٹئے ۔۔۔کہ بہت سے لوگ غم زندگی کو۔۔۔کسی مریض دوست رشتہ دار کی تکلیف کو فائدہ دینے کیلئے پیج جوائن کرتے ھیں۔۔۔کسی کی خوشی کا سبب بنئے۔۔۔
شکریہ
منجانب ٹیم

16/12/2024

رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا

ماں کی محبت سے متعلق ظفر اقبال اعوان عرف ظفر جی کی دل کو چھو لینے والی اور اردو ادب کی ایک شاھکار تحریر ۔
ہمیں اماں جی اس وقت زہر لگتیں جب وہ سردیوں میں زبردستی ہمارا سر دھوتیں-
لکس ، کیپری ، ریکسونا کس نے دیکھے تھے ..... کھجور مارکہ صابن سے کپڑے بھی دھلتے تھے اور سر بھی- آنکھوں میں صابن کانٹے کی طرع چبھتا ... اور کان اماں کی ڈانٹ سے لال ہو جاتے !!!
ہماری ذرا سی شرارت پر اماں آگ بگولہ ہو جاتیں... اور کپڑے دھونے والا ڈنڈا اٹھا لیتیں جسے ہم "ڈمنی" کہتے تھے ... لیکن مارا کبھی نہیں- کبھی عین وقت پر دادی جان نے بچا لیا ... کبھی بابا نے اور کبھی ہم ہی بھاگ لئے ...
گاؤں کی رونقوں سے دور عین فصلوں کے بیچ ہمارا ڈیرہ تھا - ڈیرے سے پگڈنڈی پکڑ کر گاؤں جانا اماں کا سب سے بڑا شاپنگ ٹؤر ہوا کرتاتھا ... اور اس ٹؤر سے محروم رہ جانا ہماری سب سے بڑی بدنصیبی !!
اگر کبھی اماں اکیلے گاؤں چلی جاتیں تو واپسی پر ہمیں مرنڈے سے بہلانے کی کوشش کرتیں .... ہم پہلے تو ننھے ہاتھوں سے اماں جی کو مارتے .... ان کا دوپٹا کھینچتے ... پھر ان کی گود میں سر رکھ کر منہ پھاڑ پھاڑ کر روتے-
کبھی اماں گاؤں ساتھ لے جاتیں تو ہم اچھلتے کودتے خوشی خوشی ان کے پیچھے پیچھے بھاگتے ..... شام گئے جب گاؤں سے واپسی ہوتی تو ہم بہت روتے.....ہمیں گاؤں اچھا لگتا تھا " ماں ہم گاؤں میں کب رہیں گے " میرے سوال پر اماں وہی گھسا پٹا جواب دیتیں ...." جب تو بڑا ہوگا ... نوکری کرے گا ... بہت سے پیسے آئیں گے ... تیری شادی ہوگی ... وغیرہ وغیرہ ... یوں ہم ماں بیٹا باتیں کرتے کرتے تاریک ڈیرے پر آن پہنچتے ...
مجھے یاد ہے گاؤں میں بابا مظفر کے ہاں شادی کا جشن تھا- وہاں جلنے بجھنے والی بتیاں بھی لگی تھیں اور پٹاختے بھی پھوٹ رہے تھے- میں نے ماں کی بہت منّت کی کہ رات ادھر ہی ٹھہر جائیں لیکن وہ نہیں مانی- جب میں ماں جی کے پیچھے روتا روتا گاؤں سے واپس آرہا تھا تو نیت میں فتور آگیا اور چپکے سے واپس گاؤں لوٹ گیا.....
شام کا وقت تھا .... ماں کو بہت دیر بعد میری گمشدگی کا اندازہ ہوا- وہ پاگلوں کی طرع رات کے اندھیرے میں کھیتوں کھلیانوں میں آوازیں لگاتی پھری - اور ڈیرے سے لیکر گاؤں تک ہر کنویں میں لالٹین لٹکا کر جھانکتی رہی -
رات گئے جب میں شادی والے گھر سے بازیاب ہوا تو وہ شیرنی کی طرع مجھ پر حملہ آور ہوئیں- اس رات اگر گاؤں کی عورتیں مجھے نہ بچاتیں تو اماں مجھے مار ہی ڈالتی-
ایک بار ابو جی اپنے پیر صاحب کو ملنے سرگودھا گئے ہوئے تھے- میں اس وقت چھ سات سال کا تھا- مجھے شدید بخار ہو گیا- اماں جی نے مجھے لوئ میں لپیٹ کر کندھے پر اٹھایا اور کھیتوں کھلیانوں سے گزرتی تین کلو میٹر دور گاؤں کے اڈے پر ڈاکٹر کو دکھانے لے گئیں- واپسی پر ایک کھالے کو پھلانگتے ہوئے وہ کھلیان میں گر گئیں ... لیکن مجھے بچا لیا ... انہیں شاید گھٹنے پر چوٹ آئ ... ان کے مونہہ سے میرے لئے حسبی اللہ نکلا ... اور اپنے سسرال کےلئے کچھ ناروا الفاظ ... یہ واقعہ میری زندگی کی سب سے پرانی یاداشتوں میں سے ایک ہے ....
یقیناً وہ بڑی ہمت والی خاتون تھیں-اور آخری سانس تک محنت مشقت کی چکی پیستی رہیں ...
پھر جانے کب میں بڑا ہوگیا اور اماں سے بہت دور چلا گیا...
سال بھر بعد جب گھر آتا.....تو ماں گلے لگا کر خوب روتی لیکن میں سب کے سامنے ھنستا رہتا- پھر رات کو جب سب سو جاتے تو چپکے سے ماں کے ساتھ جاکر لیٹ جاتا اور اس کی چادر میں منہ چھپا کر خوب روتا-
ماں کھیت میں چارہ کاٹتی اور بہت بھاری پنڈ سر پر اٹھا کر ٹوکے کے سامنے آن پھینکتی- کبھی کبھی خود ہی ٹوکے میں چارہ ڈالتی اور خود ہی ٹوکہ چلاتی - جب میں گھر ہوتا تو مقدور بھر ان کا ہاتھ بٹاتا- جب میں ٹوکہ چلاتے چلاتے تھک جاتا تو وہ سرگوشی میں پوچھتیں ... " بات کروں تمہاری فلاں گھر میں ....؟؟ "
وہ جانتی تھی کہ میں پیداٰئشی عاشق ہوں اور ایسی باتوں سے میری بیٹری فل چارج ہو جاتی ہے-
پھر ہم نے گاؤں میں گھر بنا لیا ... اور ماں نے اپنی پسند سے میری شادی کر دی-
میں فیملی لے کر شہر چلا آیا اور ماں نے گاؤں میں اپنی الگ دنیا بسا لی-
وہ میرے پہلے بیٹے کی پیدائش پر شہر بھی آئیں .... میں نے انہیں سمندر کی سیر بھی کرائ...کلفٹن کے ساحل پر چائے پیتے ہوئے انہوں نے کہا " اس سمندر سے تو ہمارے ڈیرے کا چھپڑ زیادہ خوبصورت لگتا ہے....
ماں بیمار ہوئ تو میں چھٹی پر ہی تھا... انہیں کئ دن تک باسکوپان کھلا کر سمجھتا رہا کہ معمولی پیٹ کا درد ہے ... جلد افاقہ ہو جائے گا ... پھر درد بڑھا تو شہر کے بڑے ھسپتال لے گیا جہاں ڈاکٹر نے بتایا کہ جگر کا کینسر آخری اسٹیج پر ہے ......
خون کی فوری ضرورت محسوس ہوئ تو میں خود بلڈ بینک بیڈ پر جا لیٹا .... ماں کو پتا چلا تو اس نے دکھ سے دیکھ کر اتنا کہا..." کیوں دیا خون...خرید لاتا کہیں سے...پاگل کہیں کا "
میں بمشکل اتنا کہ سکا .... " اماں خون کی چند بوندوں سے تو وہ قرض بھی ادا نہیں ہو سکتا ... جو آپ مجھے اٹھا کر گاؤں ڈاکٹر کے پاس لیکر گئیں تھیں ... اور واپسی پر کھالا پھلانگتے ہوئے گر گئ تھیں .... "
وہ کھلکھلا کر ہنسیں تو میں نے کہا "امّاں مجھے معاف کر دینا ... میں تیری خدمت نہ کر سکا "
میرا خیال ہے کہ میں نے شاید ہی اپنی ماں کی خدمت کی ہو گی ... وقت ہی نہیں ملا ... لیکن وہ بہت فراغ دل تھیں .... بستر مرگ پر جب بار بار میں اپنی کوتاہیوں کی ان سے معافی طلب کر رہا تھا تو کہنے لگیں " میں راضی ہوں بیٹا ... کاہے کو بار بار معافی مانگتا ہے !!! "
ماں نے میرے سامنے دم توڑا .... لیکن میں رویا نہیں ... دوسرے دن سر بھاری ہونے لگا تو قبرستان چلا گیا اور قبر پر بیٹھ کر منہ پھاڑ کر رویا-
مائے نی میں کنوں آکھاں
درد وچھوڑے دا حال نی
ماں سے بچھڑے مدت ہوگئ...اب تو یقین بھی نہیں آتا کہ ماں کبھی اس دنیا میں تھی بھی کہ نہیں....!!!!
آج بیت اللّہ کا طواف کرتے ہوئے پٹھانوں اور سوڈانیوں کے ہاتھوں فٹ بال بنتا بنتا جانے کیسے دیوار کعبہ سے جا ٹکرایا...
یوں لگا جیسے مدتوں بعد پھر ایک بار ماں کی گود میں پہنچ گیا ہوں .... وہی سکون جو ماں کی گود میں آتا تھا ... وہی اپنائیت ... وہی محبت ... جس میں خوف کا عنصر بھی شامل تھا .... اس بار منہ پھاڑ کر نہیں .... دھاڑیں مار مار کر رویا !!!!
ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنیوالا رب کعبہ ..... اور ہم سدا کے شرارتی بچے !!!!
رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا

16/12/2024

جب کچھ کھاتے ہوئے غذا کا ٹکڑا گلے میں پھنس جاتا ہے جس سے سانس لینا یا بات کرنا دشوار ہوجاتا ہے اور سانس کی نالی بند ہوتی محسوس ہوتی ہے __ ایک سال سے کم عمر بچے اور بوڑھے اس طرح کی صورتحال سے جلد دوچار ہوجاتے ہیں__ اور بعض اوقات یہ صورت حال جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے

اسے طبی اصطلاح میں Throat Choking کہتے ہیں اور اس کے دو درجے ہیں

(١) جزوی طور پہ گلہ بند ہونا : اس صورت میں غذا کا ٹکڑا گلے میں پھنسنے کی صورت میں گلہ جزوی طور پہ بند ہوجاتا ہے، انسان بمشکل بول اور سانس لے سکتا ہے...آپ نے مدد کیسے کرنی ہے؟
متاثرہ شخص کو زور زور سے کھانسنے کا کہیں تاکہ پھنسا ہوا ٹکڑا باہر نکل آئے یا اُسے جھُکا کے اُس کی پِیٹھ پہ عین گلے والی جگہ پہ اپنی ہتھیلی کی مدد سے پانچ دفعہ رگڑنے کے انداز میں تھپڑ لگائیں ( مُکے نہیں مارنے) اور ساتھ ساتھ اُسے کھانسنے کا کہیں........ سیدھا کھڑا کرکے یہ کوشش نہ کریں ورنہ پھنسا ہوا ٹکڑا مزید نیچے چلا جائے گا اور نہ ہی متاثرہ شخص کو پانی پلائیں، قوی امکان ہوتا ہے کہ پانی ناک کے راستے باہر آئے گا اور مزید تکلیف کا باعث بنے گا

اگر آپ اکیلے ہیں اور آپ اس صورت حال سے دوچار ہوجائیں اور آس پاس کوئی مددگار نہ ہو تو کُرسی کی پشت پہ کھڑے ہوکے اپنے دونوں ہاتھ پیٹ پہ باندھ کے اپنے وزن کے ساتھ اپنے پیٹ پہ دباؤ ڈالیں ( طریقہ نیچے تصویر میں دکھایا گیا ہے)

(٢) گلہ مکمل طور پہ بند ہوجانا : غذا کا بڑا ٹکڑا گلے میں پھنس جانے کی صورت میں گلہ مکمل طور پر بند ہوجاتا ہے اور گلے سے آکسیجن کی آمدورفت بھی رُک جاتی ہے .... یہ کنڈیشن زیادہ خطرناک اور زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے... متاثرہ شخص بول نہیں سکتا، بات نہیں کرسکتا، کھانس نہیں سکتا.... ہونٹ اور ناخن نیلے ہوجاتے ہیں... آپ نے مدد کیسے کرنی ہے 👇

متاثرہ شخص کو سیدھا کھڑا کرکے اُس کے پیچھے کھڑے ہوجائیں اور اُسے پیچھےسے جپھی ڈال کے اُس کی ناف اور پسلیوں کے درمیان اپنے دونوں ہاتھ اوپر نیچے باندھ کے اُسے اٹھانے کے انداز میں پانچ یا اس سے زائد دفعہ جھٹکے دیں. اور تب تک کرتے رہیں جب تک گلے میں پھنسی چیز باہر نہ آجائے (طریقہ نیچے تصویر میں دکھایا گیا ہے) اگر مریض بے ہوش ہوجائے تو ریسکیو کال کریں اور پروفیشنلز کے پہنچنے تک CPR کرتے ہوئے مریض کا سانس بحال کرنے کی کوشش کریں... لیکن CPR صرف اُس صورت میں مفید ہوگا جب گلہ صاف ہوچکا ہوگا..

ایک سال سے کم عمر بچوں میں تھراٹ چووکنگ کے چانسز زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ بچے اپنی فطرت کے مطابق ہاتھ میں آنے والے کوئی بھی چیز منہ میں ڈالتے ہیں...اگر خدا نخواستہ آپ کے بچے کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ ہوجائے تو...
بچے کو اپنی کلائی پہ اُلٹا لِٹا کے بچے کا چہرہ اپنے ہاتھوں پہ رکھیں اور دوسرے ہاتھ سے بچے کی پُشت کو اپنی ہتھیلی سے ہلکا سے دباتے ہوئے سَر کی طرف رگڑیں (طریقہ نیچے تصویر میں) اگر یہ طریقہ کارآمد نہ ہو تو بچے کو سیدھا لِٹا کے اُس کا چہرہ ٹھوڑی سے تھوڑا اوپر اُٹھا کے اپنی انگلی کی مدد سے بچے کے حلق میں پھنسی ہوئی چیز کو احتیاط سے نکالنے کی کوشش کریں، کچرا نکل جانے کے بعد بھی اگر بچے کا سانس بحال نہیں ہوتا تو ریسکییو کال کریں اور ٹیم پہنچنے تک بچے کا ناک بند کرکے اُسے اپنے منہ سے سانس دیتے ہوئے اُس کا سانس بحال کرنے کی کوشش کرتے رہیں.

16/12/2024

سخت سے سخت قبض ختم آسان نسخہ
چھوٹی کشمش روز صبح شام دو دو چمچ کھائیں
صرف 2 دن میں قبض ختم

15/12/2024

‏نفرتوں کے دروازے، خود پہ بند ہی رکھنا
اس وطن کے پرچم کو سر بلند ہی رکھنا

15/12/2024

بندۂ رب کو رب سے ملانے کو اب
ساری مخلوق کے رہنما ﷺ آ گئے

15/12/2024

‏وقت تہجد ہو , مکہ ہو , برسات ہو

کاش میری زندگی میں بھی اک ایسی رات ہو

15/12/2024

وقت کے ایک طمانچے کی دیر ہے صاحب
میری فقیری بھی کیا تیری بادشاہی بھی کیا

15/12/2024

علی بن فضیل رحمہ اللہ نے اپنے والد سے کہا :
”ابا جان! اصحابِ محمد ﷺ کی باتوں میں کتنی چاشنی ہوتی ہے“
والد فضیل بن عیاض رحمہ اللہ (١٨٧ھ) نے فرمایا :
”بیٹا جی! جانتے ہو اس چاشنی کی کیا وجہ ہے؟
کیونکہ وہ اللہ کی خاطر بولا کرتے تھے۔“

(حلية الأولياء لأبي نعيم : ٢٣/١٠)

15/12/2024

ٹوٹکے آزمانے کی بجائے تشخیص کروا کر اپنا علاج بالغذا + یا دوائی لیں

Address

Khan Dawa Khana Bahawalpur City
Bahawalpur
63100

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when بیماری کا علاج غذا کے ساتھ posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to بیماری کا علاج غذا کے ساتھ:

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram