Hikmat Diagnostic labs HDL

Hikmat Diagnostic labs HDL Hikmat Diagnostic labs is State of the Art Modern Diagnostic Pathology laboratory.

1. Malarial Parasite Test 1. Objective:The objective of the malaria test was to detect the presence of Plasmodium specie...
23/07/2025

1. Malarial Parasite Test

1. Objective:

The objective of the malaria test was to detect the presence of Plasmodium species in the blood of suspected individuals to confirm malaria infection.

2. Principle:

The test was based on detecting malaria parasites in blood either by microscopic examination of stained blood smears or through rapid diagnostic tests (RDTs) which identified specific antigens of Plasmodium species.

3. Procedure (Microscopic Method):

1. A thick and thin blood smear was prepared on a slide using a fresh blood sample.

2. The smear was air-dried and stained with Giemsa stain.

3. The slide was examined under a microscope using oil immersion.

4. Parasites were identified by morphology and counted for parasite load.

4. Procedure (RDT):

1. A finger-prick blood sample was applied to the RDT cassette.

2. Buffer was added and the cassette was left to develop.

3. Test results were read within 15–20 minutes based on line visibility (control and test lines).

5. Result:

Positive: Parasites or antigens of Plasmodium spp. detected.

Negative: No parasites or antigens detected.
Species may include P. falciparum, P. vivax, etc.

6. Uses:

Confirm diagnosis of malaria

Guide immediate treatment

Monitor treatment success

Support public health surveillance

---

2. Implication to the Community:

Positive Impacts:

Early detection reduces severe malaria cases and deaths.

Prevents outbreaks by identifying and isolating sources.

Guides vector control (e.g., insecticide spraying, net distribution).

Informs health policies for resource allocation and education.

Encourages health-seeking behavior through awareness.

Risks of Poor Testing:

Misdiagnosis can lead to untreated malaria or drug misuse.

Inaccurate results increase community spread and resistance.

Delay in detection burdens healthcare systems.

Get tested on Discounted Rates both Smear (Microscopy) and Rapid Device Test at

Hikmat Diagnostic Lab opposite DHQ Hospital Battagram

PCV (Packed Cell Volume) Test---1. Objective:The objective of the PCV test was to measure the proportion (%) of red bloo...
21/07/2025

PCV (Packed Cell Volume) Test

---

1. Objective:

The objective of the PCV test was to measure the proportion (%) of red blood cells (RBCs) in whole blood, which helped assess anemia, polycythemia, or dehydration.

---

2. Principle:

The test was based on centrifugation. Whole blood was drawn into a capillary tube and centrifuged. The red blood cells, being the heaviest, settled at the bottom, and the volume they occupied relative to the total blood column was measured as the PCV or hematocrit value.

---

3. Materials:

Capillary (heparinized) tube

Blood sample (usually from finger prick)

Clay sealant

Microhematocrit centrifuge

Hematocrit reading scale or reader

Gloves

Disinfectant swab

Lancet

---

4. Procedure:

1. The fingertip was cleaned and pricked using a sterile lancet.

2. A capillary tube was filled two-thirds with blood.

3. One end of the tube was sealed with clay.

4. The tube was placed in a microhematocrit centrifuge and spun at ~10,000–12,000 rpm for 5 minutes.

5. After centrifugation, the length of the RBC column was measured using a hematocrit reader.

6. The PCV was calculated as the percentage of the RBC column relative to the total blood column (RBCs + Buffy coat + Plasma).

---

5. Result:

Normal PCV values:

Males: 40–54%

Females: 36–48%

Children: 35–45%

Low PCV: Suggested anemia or overhydration

High PCV: Indicated dehydration or polycythemia

---

6. Uses:

It was used to diagnose and monitor anemia, polycythemia, and dehydration.

It was part of the complete blood count (CBC) profile.

It helped assess the need for blood transfusion.

---

7. Consultation:

Based on the results, patients were advised to consult a physician or hematologist for further evaluation. Additional tests like hemoglobin, iron studies, or bone marrow biopsy were recommended in abnormal cases.

Get tested at Discounted Rates

Hikmat Diagnostic Lab opposite DHQ Hospital Battagram

03209332936

عیدالفطر مبارک ❤️
31/03/2025

عیدالفطر مبارک ❤️

محکمہ صحت خیبرپختونخوا/ دوسالہ پیرامیڈیکل ڈپلومہ میں داخلے جاری ہیں۔ درخواستیں جمع کرنے کی آخری تاریخ 20 فروری ہے.
09/02/2025

محکمہ صحت خیبرپختونخوا/ دوسالہ پیرامیڈیکل ڈپلومہ میں داخلے جاری ہیں۔ درخواستیں جمع کرنے کی آخری تاریخ 20 فروری ہے.

31/12/2024

Happy New Year 🎉

*چکن گونیا کیا ہے اور اس کا علاج اور تشخیص کیا ہے؟*چکن گونیا ایک ایسی وائرل بیماری ہے جو خاص قسم کے مچھر کے ذریعے انسانو...
05/10/2024

*چکن گونیا کیا ہے اور اس کا علاج اور تشخیص کیا ہے؟*

چکن گونیا ایک ایسی وائرل بیماری ہے جو خاص قسم کے مچھر کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوتی ہے لیکن یہ ایک سے دوسرے فرد میں منتقل نہیں ہوسکتی، یہ بیماری یورپی ممالک میں زیادہ اثر انداز ہورہی ہے اور پاکستان کےکئی شهروں میں پھیل چکی ہے۔

اب تک اسے دنیا کے 60 سے زیادہ ممالک میں دریافت کیا جاچکا ہے، چکن گونیا سے متاثرہ مریضوں کی ہلاکت کا امکان نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے مگر اس کی علامات کی شدت زیادہ ہوسکتی ہے جبکہ طویل المعیاد بنیادوں پر مختلف منفی اثرات کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔

*علامات*
اس بیماری کی علامات میں بخار، جوڑوں میں تکلیف، سر درد، پٹھوں میں درد، خارش اور جوڑوں کے ارگرد سوجن وغیرہ شامل ہیں۔

مگر خسرہ جیسے دانے، قے اور متلی بھی اس کی ایسی علامات ہیں جن کا سامنا کم افراد کو ہوتا ہے۔
سال 2007میں یورپی ملک اٹلی میں پہلی بار چکن گونیا وائرس کے انفیکشن کا پھیلاؤ شروع ہوا۔ اس کے بعد سال2010 اور 2014 میں فرانس میں اس کے متعدد کیسز رپورٹ ہوئے۔ دسمبر2013 میں چکن گونیا وائرس کیریبین میں ابھرا اور دیکھتے ہی دیکھتے امریکہ تک پھیل گیا۔

*احتیاط اور علاج*
امریکی ویب سائٹ سنٹرز فار ڈیزیز کنڑول اینڈ پریونشن کی رپورٹ کے مطابق چکن گونیا کو روکنے یا اس کے مکمل علاج کی اب تک کوئی مخصوص دوا نہیں بنائی جاسکی۔

تاہم اس بیماری کی علامات کا علاج کرنا ضروری ہے، جس کیلئے درج ذیل اقدامات کیے جاسکتے ہیں کہ جس سے اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

مریض کو چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ آرام کرے، پانی زیادہ پیے، اور اپنے معالج کے مشورے سے بخار اور درد کی دوا کھائی جاسکتی ہے اور ساتھ ہی صحت کی بہتری کیلئے دودھ جوسز اور موسمی پھلوں کا استعمال لازمی کرے۔
*تشخیص*
چکن گونیا کی تشخیص صرف خون کے ٹیسٹ ہی ممکن ہوتی ہے۔
پی سی آر اور serology کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں ۔

حکمت لیب میں اب serology chinkengunya ڈسکاونٹ ریٹ پر کیا جاتا ہے ۔
Hikmat Diagnostic Labs
بلمقابل DHQ ہسپتال مین روڑ بٹگرام
03209332936

Anemia/ IDA     انیمیا / خون کی کمی کی وجہ اور حل؟انیمیا یعنی خون کی کمی کا مسلئہ بہت ہی عام مسلئہ ہے، پاکستان میں تقریب...
10/07/2024

Anemia/ IDA انیمیا / خون کی کمی کی وجہ اور حل؟
انیمیا یعنی خون کی کمی کا مسلئہ بہت ہی عام مسلئہ ہے، پاکستان میں تقریباً ہر تیسرا بندہ خون کی کمی کاشکار ہوتا ہے، اور خون کی کمی زیادہ تر چھوٹے بچوں ، عورتوں اور بوڑھوں میں ہوتی ہے، ہمارے ہاں خون کی کمی کے علاج کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیا جاتا, لیکن خون کی کمی چاہے معمولی بھی ہو، انتہائی اہم اور قابل توجہ میڈیکل مسئلہ ہے۔ یوں تو انیمیا کی بہت سی قسم ہوتی ہیں، لیکن دنیا بھر میں انیمیا کی سب سے بڑی وجہ آئرن کی کمی ہوتی ہے اور دوسری بڑی وجہ وٹامنز کی کمی جیسے وٹامن B12 اور فولک ایسڈ ہوتی ہے ،
ہمارے ہاں آئرن کی سب سے بڑی وجہ غیر متوازن غذا ہوتی ہے اور بھی خون کی کمی کی درجنوں وجوہات ہو سکتی ہیں جیسے معدے کا السر، مثانے اور گردوں کا مسلئہ ، بواسیر ،موشن ،گندم الرجی ، آنتوں کی سوزش ، ایچ پیلوری انفیکشن ، آنتوں کی ٹی بی ، پیٹ کے کیڑے، بون میرو کا مسلئہ اور حادثہ یا چوٹ کی وجہ سے خون ضائع ہونا شامل ہے،

آئرن / خون کی کمی کی عام علامات:
خون کی کمی کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے پورے جسم میں خون کے سرخ خلیے (RBC / Hct /HB)کافی نہیں ہیں۔
کیونکہ خون کے سرخ خلیے انسان کے پورے جسم میں آکسیجن لے جاتے ہیں، لیکن خون کی کمی کی صورت میں مریض کے دماغ ،دل، پھپڑوں، پٹھوں ، بچہ دانی اور جسم کی ہر چیز تک کافی آکسیجن نہیں مل پاتی ،اور مریض کا مدافعتی نظام بھی کمزور ہو جاتا ہے ،جس کی وجہ سے مریض کو علامتیں آتی ہیں ، جیسے

1:بے چینی ، جسمانی کمزوری اور تھکاوٹ کا ہونا
2: ہلکا سا کام کرتے ٹائم سینے میں درد، دل کی دھڑکن تیز یا سانس کی قلت کا ہونا
3:سر درد، چکر آنا یا ہلکا سر درد ہونا
4:ٹھنڈے ہاتھ پاؤں کا ہونا
5:زبان اورمنہ میں سوزش کا ہونا(glossitis stomatitis)
6: پیلی جلد ،بالوں کا گرنا اور پتلا ہونا اور ناخن کا ٹوٹنا
7: غیر غذائی اشیاء جیسے برف، گندگی یا مٹی وغیرہ کو کھانے کی غیر معمولی خواہش کا ہونا (pica)
8:بھوک میں کمی ہونا، خاص طور پہ چھوٹے بچوں میں
9: کمزور مدافعتی نظام کی وجہ سے بار بار وائرل بیماریوں جیسے کہ فلو، الرجی اور بدلتے موسم کے بخار کا زیادہ شکار ہونا ،
10:آئرن اور خون کی کمی کے کچھ مریض رات کو بستر پر لیٹتے ہیں تو انہیں ٹانگوں یا جسم میں بے چینی ہونے لگتی ہے جس کی وجہ سے وہ اچھی طرح سو نہیں پاتے۔ (RLS-) (Restless Leg Syndrome) اور مزید خون کی کمی نفسیاتی مسائل کی شدت کو بڑھا سکتی ہے ، جیسے انزائٹی ، مایوسی ، ڈیپریشن ،لو موڈ وغیرہ
(شدید خون کی کمی میں مریض کے دل کا سائز بڑا یا دل فیل ہو سکتا ہے, ایسی صورت میں موت بھی ہو سکتی ہے )


(وٹامن B12 کی کمی کی خاص علاماتِ
اوپر والی علاماتِ کے ساتھ ساتھ مریض کو یاداشت کی کمی اور اعصابی کمزوری یا بیماری کا ہونا، ھاتھ پاوں کا سن ہونا ،سوتے ھوے جسم یا ساٸیڈ کا سن ھو جانا اور ہاتھ ،پیروں کا جلنا وغیرہ شامل ہو سکتے ہیں)

آئرن یا خون کی کمی کی تشخیص و علاج،
1) CBC, peripheral smear and Serum ferritin
یہ خون کی کمی کی تشخیص کے بنیادی ٹیسٹ ہیں،
2) vitamin B12/ folic acid
یہ ٹیسٹ وٹامنز کی کمی کی تشخیص کے لیے ہیں ،
3) ultrasound / Endoscopy / LFT / LDH
یہ ٹیسٹ معدے اور جگر کے مسلئے کی تشخیص کےلئے کیے جا سکتے ہیں،
نوٹ:سب سے پہلے خون کی کمی کی تشخیص لیب ٹیسٹ سے کرنا چاہیے کہ مریض کو کس وجہ یا بیماری سے جون کی کمی کا مسلئہ آ رہا ہے، اور مریض کو خون کی ہلکی ، درمیانی یا شدید کمی تو نہیں ،پھر اس وجہ یا بیماری کا علاج کروانا چاہئے۔ اور خون یا آئرن کی کمی کو آئرن والی غذا، سپلیمینٹ، آئرن کے انجیکشن، اور خون چڑھا کر پورا کیا جا سکتا ہے۔
(ہموگلوبین کا نارمل لیول عموماً 12 سے 16 تک ہوتا ہے)
Regards Dr Akhtar Malik

خون کی کمی کی تشخیص کے لئے ٹیسٹ یا دیگر ٹیسٹ کرنے کے لیے یہ کسی بھی معلومات ک لئے رابطہ کریں ۔

حکمت لیبارٹری بلمقابل D H Q ہسپتال مین روڈ بٹگرام ۔

03021207111 رابطہ

خوشخبری ۔کنسلٹنٹ سکن  سپشلسٹ ڈاکٹر ضرار بن جمیل ماہر امراضِ جلدی امراض مثلاً خارش چہرے پر دانے جنپل پسوریاسس بالوں کا گر...
06/07/2024

خوشخبری ۔
کنسلٹنٹ سکن سپشلسٹ ڈاکٹر ضرار بن جمیل

ماہر امراضِ جلدی امراض مثلاً خارش چہرے پر دانے جنپل پسوریاسس بالوں کا گرنا وغیرہ

اب صبح 9 بجے سے شام 5بجے تک مریضوں کا چیک اپ کرینگے ۔
کلینک: البدر میڈیکل سنٹر اینڈ حکمت لیب
بالمقابل DHQ ہسپتال بٹگرام

رابطہ: قاری نُور اللّٰہ 03434642615

عیدالاضحٰی مبروک
17/06/2024

عیدالاضحٰی مبروک

افسوس ناک خبر۔۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون ۔ سابق  ایم ایس ڈی ایچ کیوں  ہسپتال بٹگرام  ڈاکٹر محبوب الرحمن صاحب  رضایےالہ...
16/04/2024

افسوس ناک خبر۔۔
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون ۔
سابق ایم ایس ڈی ایچ کیوں ہسپتال بٹگرام ڈاکٹر محبوب الرحمن صاحب رضایےالہی سے انتقال کر گیے ہے۔
نماز جنازہ آج منگل 16 اپریل رات 8 بجے کامرس
کالج گراؤنڈ ایبٹ اباد میں ادا کی جائے گی۔
ڈاکٹر محبوب سابق چیرمین رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمان کے بھائ اور ڈاکٹر نعیم الرحمن ۔ میجر ڈاکٹر انس محبوب اور ڈاکٹر حارث کے والد محترم تھے۔
اللہ ڈاکٹر محبوب صاحب کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمایں۔اور مادر بٹگرام ڈاکٹر کوثر محبوب صاحبہ اور ان کی غمزدہ خاندان کو یہ عظیم صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمایں۔
امین۔

سی ای او: حکمت لیبارٹری
بالمقابل Dhq ہاسپٹل مین روڈ بٹگرام ۔

آپ نے اکثر ادویات کے نام کے ساتھ اس طرح HCl لکھا دیکھا ہوگا، اور سکول میں کیمسٹری پڑھ کر اپکو یہ تو معلوم ہوگا کہ HCl یع...
30/01/2024

آپ نے اکثر ادویات کے نام کے ساتھ اس طرح HCl لکھا دیکھا ہوگا، اور سکول میں کیمسٹری پڑھ کر اپکو یہ تو معلوم ہوگا کہ HCl یعنی hydrochloric acid ایک تیزاب ہے۔ اسی طرح آپ نے کچھ ادویات کے ناموں کے ساتھ "citrate" یا "acetate" یا "sodium" یا "sulfate" وغیرہ لکھا دیکھا ہوگا۔ تو ادویات کے ناموں کے ساتھ ان کیمکلز کو کیوں لکھا جاتا ہے ؟ اس کے لیے ہمیں دو باتوں کو سمجھنا ہوگا

1- پہلی بات یہ کہ ہمارے پاس جتنی ادویات موجود ہیں ان میں سے اکثریت کو ہم دو کیٹاگریز میں تقسیم کرسکتے ہیں ؛ "ویک ایسڈز" (weak acids) اور "ویک بیسز" (weak bases)۔ اگر آپ نے بنیادی کیمسٹری پڑھ رکھی ہے تو آپکو ان چیزوں کے متعلق معلوم ہونا چاہیے۔

2- دوسری بات یہ کہ زیادہ تر ادویات اپنی اصل حالت میں ("اصل حالت سے کیا مراد ہے، اسکی وضاحت ابھی ہو جائے گی) اپنے اندر کچھ خامیاں رکھتی ہیں۔ سب سے بڑی خامی تو یہ کہ اکثر ادویات پانی میں صحیح سے حل نہیں ہوتیں، اور اگر آپ نے کوئی گولی کھائی ہے جو آپکے نظام انہضام میں پہنچ چکی ہے تو اسے پانی میں حل ہونا ضروری ہے، کیونکہ اپکے نظام انہضام کا ماحول aqueous ہے، یعنی نظام انہضام میں کھانا اور دوسری چیزیں پانی میں حل ہوکر پھر خون میں جذب ہوتی ہیں۔

تو اپنی دوائی کو پانی میں حل ہونے کے قابل بنانے کے لیے کیا کیا جائے ؟ اس کام کے لیے ہم اپنی دوائی کا "سالٹ" بنائیں گے۔ کیونکہ سالٹ کی کیمائی ساخت اسے اچھے سے پانی میں حل ہونے کے قابل بناتی ہے۔ یہاں سالٹ سے مراد ہمارے عام کھانے والا نمک تو نہیں ہے، البتہ وہ بھی ایک سالٹ ہی ہے۔

پھر سے اپکی کیمسٹری کا امتحان آتا ہے تو یہ بتائیں کہ سالٹ کب بنتا ہے ؟ جب ایسڈ اور بیس کا ریکشن ہوتا ہے تو سالٹ بنتا ہے (اور اکثر ساتھ میں پانی بھی بنتا ہے، لیکن ہمیشہ نہیں)۔

اور اب پہلی بات یاد کریں، وہ یہ کہ اکثر ادویات ویک ایسڈ یا ویک بیس ہوتی ہیں۔ تو فرض کریں کہ ہماری دوائی ایک ویکی بیس ہے، (جیسے تصویر میں آپکو metformin نظر آرہی ہے) تو اس دوائی کا ریکشن میں ایک "سٹرانگ ایسڈ" سے کرواؤں گا۔ جس سے میری دوائی کا سالٹ بن جائے گا، اور وہ سالٹ ہوگا "metformin hydrochloride"۔ تو اسی لیے دوائی کا نام metformin HCl لکھا گیا ہے۔

اسی طرح اگر کوئی دوائی ویک ایسڈ ہے تو اسکا سالٹ بنانے کے لیے اسے کسی "سٹرانگ بیس" سے ریکٹ کروایا جائے گا۔ جیسا کہ NaOH اور اس طرح جو سالٹ بنے گا اس کے نام کے ساتھ "سوڈیم" آئے گا۔

اس لیے اصل میں ادویات کے سالٹ کے نام کے ساتھ ان مختلف کیمیکلز کے نام لکھے جاتے ہیں۔ سالٹ کی صورت میں ادویات پانی میں بہت اچھے سے حل ہوتی ہیں، ساتھ ہی کچھ اور فوائد بھی ہوتے ہیں جن سے دوائی کی کارکردگی بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے زیادہ تر ادویات اپنے سالٹ کی صورت میں ہوتی ہیں۔

جاتے جاتے آپکے دماغ میں تھوڑی اور کیمسٹری "ٹھونس" دوں۔ وہ یہ کہ "زیادہ تر" صورتوں جب ایک "ویک ایسڈ" ایک "سٹرانگ بیس" سے ریکٹ کرتا ہے تو جو سالٹ بنتا ہے وہ "ویک بیس" کے طور پر عمل کرتا ہے۔ اسی طرح "ویک بیس" اور "سٹرانگ ایسڈ" کے ریکشن سے بننے والا سالٹ "ویک ایسڈ" کے طور پر عمل کرتا ہے۔

یہ بات دوائی کے نظام انہضام سے خون میں جذب ہونے کے لیے بہت ضروری ہے۔ کیونکہ نظام انہضام میں جاکر دوائی کو سالٹ کی صورت سے واپس اپنی اصل حالت میں آنا ہوتا ہے (اصل حالت یعنی سالٹ بننے سے پہلے والی حالت)، اور وہاں پر نظام انہضام کی پی ایچ کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔

لیکن ابھی کے لیے اتنا کافی ہے، مزید کیمسٹری جیسے "خشک" مضمون سے اپکو تنگ نہیں کروں گا، مجھے تو خود کیمسٹری پسند نہیں۔ البتہ یہ کیمسٹری تو ہمارے جسم کے اندر باہر ہر جگہ پھیلی ہوئی ہے۔۔۔

30/01/2024

یورک ایسڈ(Uric acid) کے بارے میں اھم معلومات

ایڈینین (Adenine) اور گوانین (Guanine) دونوں انتہائی اہم نامیاتی مرکبات(Organic compounds) ہیں جنہیں ہم نیوکلیو ٹائیڈز(Nucleotides) کہتے ہیں،اور ان دونوں نیوکلیوٹائیڈزکو ملا کر پیورینز(Purines) بھی کہا جاتا ہے۔یہ پیورینز ہماری زندگی کیلئے لازم و ملزوم چند اہم نامیاتی مرکبات مثلاً ڈی این اے(DNA)، آر این اے(RNA)، اے ٹی پی(ATP)، جی ٹی پی(GTP)، این اے ڈی(NAD) اور این اے ڈی پی ایچ(NADPH) وغیرہ بناتے ہیں۔ ہمارے بدن کے اندرونی فاضل اور خوراک میں لئے گئے پیورینز کی توڑ پھوڑ(Catabolism) سے ہمارے جگر مین جو فاصد مادہ بنتا ہے اسے ہم یورک ایسڈ(Uric acid,UA) کہتے ہیں۔خون میں 70% تک موجودیورک ایسڈ کا تعلق ہمارے جسم میں موجود پیورینز کی توڑ پھوڑ(Catabolism) سے، جبکہ30% تک ان پیورینز(Purines) سے بنتا ہے جو ہم اپنی خوراک میں استعمال کرتے ہیں۔اسکا مطلب یہ ہوا کہ خون کے یورک ایسڈ کو کم کرنے میں پیورینز سے بھرپور خوراک،مثلاً لوبیا، مٹر اور ہر قسم کے گوشت میں کمی اور کلیجی، گردے، مغز اور شراب سے مکمل پرہیز ہمارے خون کے یورک ایسڈ میں 30% تک کی کمی کاباعث بن سکتا ہے،جو ایک خاصا بڑا تناسب ہے۔
تحول (Metabolism) کی وجہ سے بننے والے فاصد مادوں کو یا تو ہمارا جگر بے اثر کر کے انہیں صفرے(Bile) کے ذریعے خارج کر دیتا ہے اور یا ہمارے گردے انہیں پیشاب کے ذریعے خارج کر دیتے ہیں۔ہمارے جسم سے 70% یورک ایسڈ کو ہمارے گردے جبکہ 30% کو ہماراجگر صفرے اور آنتوں کے ذریعے خارج کرتا ہے۔یعنی، ہمارے خون کے یورک ایسڈ کا تعین اسکے بننے اور اسکے خارج ہونے کے تناسب سے ہے اور عام طور پر خون کے یورک ایسڈ کےزیادہ ہونے کا تعلق اسکے اخراج میں کمی کی وجہ سے ہوتا ہے، نہ کہ خوراک میںاسکے زیادہ استعمال سے۔اور چونکہ چند دواؤں کا استعمال خون میں یورک ایسڈ کی مقدار زیادہ کرتا ہے، اسلئے اگر لیبارٹری ٹیسٹوں میں کسی شخص کا ہائیپر یوریسیمیا نکلے تو ڈاکٹر کا یہ فرض ہے کہ وہ ایسے مریضوں سے ان دواؤں کے بارے میں استفسار کرے جو وہ لے رہے ہیں، مثلاً پیشاب آور دوائیں (Diuretics)،پارازن آمائیڈ(Pyraziamide)،ایسپرین کی کم خوراک(Low dose Aspirin),جو عام طور پر دل کے دورے اور فالج کے امکانات کو کم کرنے کیلئے دی جاتی ہے،لیوو ڈوپا(Levodopa) اور سائکلو سپورین(Cyclosporin) وغیرہ۔ہمارے خون میں یورک ایسڈ کی نارمل سطح 4.5-6.8 کے درمیان رہتی ہے اور 6.9 او راس سے اوپر کی سطح کو ہائپر یوریسیمیا (Hyperuricemia) کہا جاتا ہے۔
خون میں یورک ایسڈ کی مقدار اور مختلف بیماریوں سے اسکے تعلق کی بابت کافی عرصے سےاس بات کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے کہ ساری دنیا میں پچھلے 20-30 سالوں میں لوگوں کے خون کے یورک ایسڈ کی سطح بتدریج بلند ہورہی ہے اور ایک اندازے کے مطابق امریکہ کے 20% لوگوں میں یورک ایسڈ کی مقدار نارمل سے زیادہ پائی جاتی ہے۔اب یہاں ایک عجیب اتفاق(Coincidence) نوٹ کیجئے کہ انہی 20-30 سالوں میں ہمارے کھانے پینے (Eating habits) اور رہن سہن کے طور طریقوں (Lifestyle)میں ایک بڑی واضح مگر بد قسمتی سے منفی تبدیلی آئی ہے،جسکی وجہ سے موٹاپا، میٹابولک سنڈروم(Metabolic syndrome)،ذیابیطس،بلڈ پریشر اور دیگر غیر متعددی بیماریوں (Non-communicable diseases) نے پوری دنیا میں اپنے پنجے گاڑ لئے ہیں۔ تاہم یہاں میںکسی عنصر(Factor) اور کسی بیماری کے درمیان ‘‘تعلق یا Association’’ اور ‘‘سبب یا Causative factor’’ کے درمیان فرق کو واضح کرنا چاہوں گا۔دیکھئے جن وجوہات کی بنا پر مندرجہ بالا بیماریاں (موٹاپا، میٹابولک سنڈروم وغیرہ)وقوع پذیر ہو رہی ہیں انہی وجوہات کی بنا پر یورک ایسڈ بھی بتدریج زیادہ ہو رہا ہے یعنی ہائی یورک ایسڈ دراصل ان بیماریوں کی نشاندہی کرتا ہے یعنی یورک ایسڈ ایک ‘‘Bio-marker’’ ہے نہ کہ انکی وجہ۔اور اگر ہم اپنا لائف سٹائل بدلیں اور اپنی خوراک میں میانہ روی اختیار کریں تو مندرجہ بالا بیماریوں کے ساتھ ساتھ ممکن ہے کہ مجموعی سطح پر لوگوں کےخون کا یورک ایسڈ بھی نارمل ہو جائے۔تاہم اگر دوسری طرف دیکھا جائے تو آجکل یورک ایسڈ کو لے کر سب لوگ، حتیٰ کہ ڈاکٹر صاحبان بھی ایک ذہنی الجھاؤ(Confusion) کا شکار ہیں اور، حقیقت کے برخلاف، لگتا ایسا ہے کہ جیسے ہماری ہڈیوں، پٹھوں، ایڑھیوں اور کمر میں درد کا (بلکہ شاید تمام بیماریوں کا) ذمہ دارصرف اورصرف یورک ایسڈ ہے۔یہاں ابتدا ہی میں میں عرض کرتا چلوں کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ہائپر یوریسیمیا (یعنی اگر یورک ایسڈ کی خون میں سطح 6.8 ملی گرام فیصد سے زیادہ ہو) انسان میں دو قسم کی بیماریاں پیدا کر سکتا ہے؛جن میں جوڑوں کا ایک خاص مرض گنٹھیا یاگاؤٹ(Gout) اور دوسرا گردوں کی تکلیف۔
گاؤٹ(Gout): یہ دراصل جوڑوں کا ایک ایسامرض ہے،جسےاردو میں گنٹھیا کا مرض بھی کہا جاتا ہے۔گاؤٹ خصوصی طور پر پاؤں کے بڑے جوڑوں مثلاً پاؤں کے انگوٹھے (1st Meta-tarso-phalyngeal)یا ٹخنے سے منسلک پاؤں کے بڑے جوڑوں (Tarsal joints)کو متاثر کرتا ہے۔تاہم کبھی کبھی گھٹنے اور کندھے کے جوڑ بھی گاؤٹ سے متاثر ہو سکتے ہیں۔یہ مرض اکثر ایک دورے کی شکل میں اچانک حملہ آور ہو کر شدید درد اورمتاثرہ جوڑ کے سوج کر سرخ ہو نے کاباعث بن جاتاہے۔گاؤٹ کا درد اتنا شدید ہوتا ہے کہ اگر پاؤں کے جوڑوں پر حملہ آور ہو تو یہ مریض کو ہفتہ دس دن کیلئے چلنے پھرنے سے قاصراور بستر برد(Bed-ridden) کر سکتا ہے۔میں یہاں گاؤٹ کے علاج پر بات نہیں کروں گا، تاہم ایک بات پر ضرور روشنی ڈالوں گا کہ آجکل یورک ایسڈ کا ٹیسٹ کافی نامناسب میڈیکل پریکٹس(Malpractice) کا باعث بن رہا ہے۔ہو یہ رہا ہے کہ اگر کوئی بھی مریض ایڑھیوں، کمر یا بدن میں درد کی شکایت کرے(جو اکثر موٹاپے کی وجہ سے ہوتا ہے)تو اکثر ڈاکٹر صاحبان مریض کا یورک ایسڈ کا ٹیسٹ کروا لیتے ہیں جو موٹاپے کی وجہ سے تھوڑا زیادہ آتا ہے(تفصیل مندرجہ بالا ملاحظہ فرمائیے) اور یہاں سے مریض کا غلط علاج شروع ہو جاتا ہے؛ مثلاً مریض پر گوشت وغیرہ مکمل بند کر دیا جاتا ہے اور یورک ایسڈ کو کم کرنے کیلئے مریض کو غیر ضروری دوائیں مثلاً ‘‘Allupurinol’’ یا ‘‘Feboxostat’’،بغیر کسی ‘‘Indication’’ کے شروع کرا دی جاتی ہیں۔ان دونوں دواؤں کے کافی زیادہ سائیڈ ایفیکٹس ہوتے ہیں اور کسی بھی مریض کو بغیر ضرورت کوئی بھی ایسی دوائی شروع کروا دینا جسکے کئی قابلِ ذکر اور خطرناک سائیڈ ایفیکٹس بھی ہوں ، انتہائی قابلِ اعتراض بات ہے۔یورک ایسڈ کی وجہ سے ہونے والے جوڑوں کی تکلیف کی علامات میں اوپر بیان کر چکا ہوں، اور اگر کوئی بھی ڈاکٹر بنا مریض کا معائنہ اور طبی تشخیص کئے صرف لیباٹری ٹیسٹ کی بنیاد پر مندرجہ بالا علاج کرے تو یہ ایک انتہائی ایک قابلِ اعتراض اور قابلِ مواخذہ بات ہے، جس کی جتنی بھی سرزنش کی جائے کم ہے۔ اور جہاں تک یورک ایسڈ کی وجہ سے گنٹھیا یا گاؤٹ(Gout) کےمرض کے بننے کا تعلق ہے تو 6.9-8.9 ملی گرام کی حد میں رہتے ہوئے گاؤٹ کے بننے کے صرف 0.5% فی سال امکانات ہوتے ہیں، جوانتہائی کم ہیں(یورک ایسڈ کے 59.48 مائکرو مول، ایک ملی گرام فیصد یورک ایسڈ کے برابر ہوتے ہیں )۔تاہم اگر کوئی اعتدال کو بالائےطاق رکھتے ہوئے بہت زیادہ گوشت اور مچھلی کا استعمال کرے تو یہ اسکے خون کی یورک ایسڈ کی مقدار اچانک زیادہ کر کے گاؤٹ کا باعث بن سکتا ہے۔تاہم ایک ٹیکنیکل نقطہ بھی ذہن میں رکھ لیجئے کہ عام طور پرخون کی یورک ایسڈ کی مقدار کا گاؤٹ سے کوئی براہِ راست تعلق نہیں ہوتا۔مستقل ہائپر یوریسیمیا ہمارے گردے خراب (Uric acid nephropathy)کر سکتا ہے یا گردوں میں یورک ایسڈ سے بنی پتھریاں(Uric acid stones) بنا سکتا ہے(جنکی تفصیل میں میں یہاں نہیں جانا چاہتا)۔
تاہم یہاں میں قارئین کو ایک اہم بات سے آگاہ کرنا چاہوں گا، اور وہ یہ ہے کہ ہائیپر یوریسیمیا مندرجہ بالا بیان کردہ جوڑوں اور گردے کی بیماری کے سوا،کسی دوسری بیماری، مثلاً جسم(خاص طور پر کمر ٹانگوں اور ایڑھیوں ) اور ہڈیوں میں درد کا باعث نہیں بنتا۔اور یورک ایسڈ کم کرنے کی دوائی صرف اور صرف گاؤٹ اور یورک ایسڈ کی وجہ سے گردوں کی تکلیف میں دینی چاہئے۔ہاں،یہ انتہائی ضروری ہے کہ بغیر علامت کے ہائیپر یوریسیمیا کے لوگوں کو اپنا لائف سٹائل بدلنے (خاص طور پر ایسے جوس کا استعمال جسے فرکٹوز سے میٹھاکیاگیاہو)، باقاعدگی کے ساتھ ورزش کرنے، کھانے میں اعتدال سے کام لینے اور موٹاپے سے حتی الامکان بچنے کی ہدایت ضرور کر دی جائے۔
یورک ایسڈ بحیثیت ایک اینٹی آ کسیڈنٹ:
قارئین کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ یورک ایسڈ (Uric acid,UA) محض ایک بیکار فاصد مادہ نہیں بلکہ یہ ایک انتہائی کارآمد اینٹی آکسیڈنٹ بھی ہے۔خون میں موجود تمام اینٹی آکسیڈنٹس میں UA کی مقدار سب سے زیادہ ہوتی ہے اور اگر خون کی تمام اینٹی آکسیڈنٹ صلاحیت (Capacity)پر ایک نظر ڈالی جائے تو UA اس تمام صلاحیت کا 50% سے زیادہ کا ذمہ دار ہے جو پر آکسی نائٹرائیٹ(−ONOO)،پر آکسائیڈز(Per-oxides) اور ہائپو کلورس ایسڈ(HOCl) کے زہریلے اثرات کو ذائل کرتا ہے۔اینٹی آکسیڈنٹ کے طور پر یورک ایسڈ کا کردار اونچے پہاڑی علاقوں(High altitude) میں رہنے والے ان لوگوں کیلئے بہت اہم ہے جہاں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے تکسیدی تناؤ(Oxidative stress due to high-altitude hypoxia) پایا جاتا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر انتخاب عالم۔

Address

Opposite DHQ Hospital Main Road Battagram
Battagram
21040

Telephone

+923209332936

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Hikmat Diagnostic labs HDL posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Hikmat Diagnostic labs HDL:

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram

Category