MInD Platter

MInD Platter we are prvdng our best

17/08/2023
30/05/2022
I know everything's ephemeral, but as much as possible, do not ruin your moment of happiness by questioning how you get ...
20/08/2021

I know everything's ephemeral, but as much as possible, do not ruin your moment of happiness by questioning how you get there, what have you done to gain it, what if there's an equal amount of sadness after it, or when will it end. So long as you do not hurt others for having it, know that you deserve to own it. Cherish it with all your heart.

—Ren Ednalig | 213

An overthinking person needs an understanding Person.
19/08/2021

An overthinking person needs an understanding Person.

اذیت سے نکلنے کا کلیہ تحریر : اسامہ رضا  فرائیڈ  نے کہا تھا انسان ایک اذیت پرست مخلوق ہے, جسے اپنی زندگیوں میں سے چن چن ...
30/07/2021

اذیت سے نکلنے کا کلیہ
تحریر : اسامہ رضا

فرائیڈ نے کہا تھا انسان ایک اذیت پرست مخلوق ہے, جسے اپنی زندگیوں میں سے چن چن کر غموں کو یاد کرکے انکا ماتم کرنا پسند ہے ۔ چاہے زندگی میں لاکھوں خوشیاں اسکے در کے آگئے سر باسجود رہیں ہوں لیکن وہ اپنے دکھوں اپنی تکلیفوں کو یاد کرکے ان پہ دکھی ہونے کو ترجیح دیتا ہے ۔
گویا انسان ایک عجب مخلوق ھے جو پہلے تو غموں کو اپنی زیست سے فرار ہونے کا کوئی موقع نہیں جانے دیتی اور پھر اس پر ان غموں کا ماتم بھی اپنے زور و شور سے کرتی ہے۔ اور اسکے ساتھ ہی ان ہی دکھوں اور تکلیفوں کی پرستش میں ان سے دور بھی بھاگنا چاہتی ہے اور انکا ماتم بھی کرنا چاہتی ہے۔ القصہ مختصر جو معاشرے کی شکل انسان کی اس فطرت و عادت کی بنا پر تشکیل پاتی ہے وہ بڑی بھیانک اور غمزدہ ہوتی ہے۔
میرے پاس جتنے بھی لوگ آتے ہیں اور اپنے غم کا اظہار کرتے ہیں اپنی دکھ بھری داستان سناتے ہیں انکا رویہ بھی یہی ہوتا ہے ایک تو وہ اپنے غموں کو چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے اور دوسرا وہ انہیں غموں اور رنجور پن سے نجات کیلئے مسیحا کی تلاش کرتے ہیں ۔
اگر ہم لوگ اپنے ماضی کے دکھ درد سے اور حال کی اذیت سے راہِ فرار چاہتے ہیں تو ہمت کیجیئے ان غموں کو اور دکھوں کو گریبان سے کھینچ کر گھسیٹتے ہوئے اپنی زندگیوں سے بے دخل کردیں ۔ حال میں رہنا سیکھیں حقیقت کو قبول کرنا سیکھیں ۔ اپنے ذہن کو اپنے بے وفا محبوب کے متبادلات دیں ۔ زندگی سے خوش ہو کر ہمت سے مسکراتے ملیں۔
یقین کیجیئے گا دوستو کوئی بھی نہیں جاننا چاہتا کے آپ کتنے دکھی ہیں نہ ہی کسی کو آپکے غم سے کوئی غرض ہے۔ ہمت کیجئیے جرات کیجیئے اپنے من کی اپنے دل کی تربیت کرلیجئے ۔ خود کو حقیقت پسند بنا لیجئے ۔ زندگی میں آگئے بڑھنے کیلئے مائینڈ کو ٹارگٹس سیٹ کردیں ۔
اور اگر پھر بھی حصولِ سکون کی دولت نہیں ملتی تو کوئی ننھا سا معصوم جانور پال لیجیئے ۔ کوئی کتا کوئی بلی کا ننھا سا بچہ پال لیجیئے اسکو پیار کریں ۔ اگر یہ بھی نہیں ہوسکتا تو نکلیے باہر ایک شاپر میں کچھ گوشت اٹھائیے آوارہ بھٹکتے کتوں کو کھانا کھلائیے بلیوں کو کھانا کھلائیے۔ صبح کو چھت پہ جائیے پرندوں کو دانا ڈال کر آئیے ۔ غریب انسانوں کو کھانا کھلائیے کسی دکھی کسی مجبور کی مدد کردیجئے ۔ اور پھر نماز پڑھ لیجیئے گا اپنے خدا کو یاد کرلیجئے گا۔

18/07/2021

"حالات کی ذمہ داری"

سائیکالوجی میں "locus of control theory" کے مطابق لوگ دو قسم کے ہوتے ہیں۔ اندرونی اور بیرونی کنٹرول کے حامل لوگ۔ بیرونی کنٹرول والے لوگ وہ ہوتے ہیں جو اپنے حالات کا ذمہ دار بیرونی چیزوں کو قرار دیتے ہیں۔ مثلا اپنے برے حالات کے ذمہ دار اپنی فیملی کو، اپنی حکومت کو، دوسرے لوگوں کو, مہنگائی کو، کرپشن کو اور ملکی حالات کو قرار دیتے ہیں۔ جبکہ اندرونی کنٹرول کے لوگ اپنے حالات کا ذمہ دار خود کو قرار دیتے ہیں۔ ریسرچ کے مطابق جتنے بھی کامیاب لوگ ہیں وہ سارے اندرونی کنٹرول والے ہیں۔ وہ حالات کے سامنے خود کو بے بس محسوس نہیں کرتے۔
انسان جتنا خود کے بجائے دوسروں کو ذمہ دار قرار دیتا ہے تو اس کا کنٹرول کم ہوتا جاتا ہے۔ اسی طرح انسان جتنا خود کو ذمہ دار سمجھتا ہے اس کا اتنا ہی کنٹرول بڑھ جاتا ہے۔ اس کی گولڈن تھیوری کے مطابق "ذمہ داری"، "کنٹرول" اور "خوشی" ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ جتنا خود کو ذمہ دار سمجھیں گے اتنا خود پر کنٹرول محسوس ہوگا اور جتنا خود بھی کنٹرول محسوس ہو گا اتنی خوشی بڑھے گی۔ برے سے برے حالات میں بھی کہنا چاہیے کہ اس کا ذمہ دار میں ہوں۔ اس سے آپ کو اپنے اوپر کنٹرول حاصل ہوگا۔
مثلا اگر ایک انسان کو دوسرا انسان اس کی امید توڑتے ہوئے کسی معاملے میں اس کی مدد نہیں کرتا۔ ایسی صورت میں اسے غصہ بھی آئے گا اور وہ نا امید بھی ہو جائے گا۔ لیکن اگر وہ اندرونی لوکس آف کنٹرول والا ہوا تو وہ کہے گا کہ اس کا ذمہ دار میں ہوں، میں نے کیوں امید رکھی تھی، میں نے کیوں سوچا تھا کہ وہ میری مدد کرے گا۔ ایسا سوچتے ہی اس کا غصہ فوراً ختم ہو جائے گا اور اس کی اداسی بھی کافی حد تک کم ہو جائے گی۔
جبکہ ایک بیرونی کنٹرول والا بندہ جب یہ سوچتا ہے کہ اس کے حالات کا ذمہ دار باہر کے حالات ہیں، باہر کے لوگ، ان کے فیملی ممبر، اس کی غریبی، اس کے تعلقات نہ ہونا یا اس کا بچپن ہے۔ تو ایسی صورت میں وہ خود کو ایک مظلوم (victim) سمجھتا ہے, اس کا کنٹرول کھو جاتا ہے, وہ اپنے آپ کو لوگوں اور حالات کا غلام سمجھنے لگتا ہے۔
سگمنڈ فرائڈ کی تھیوری کے مطابق ریشنلائزیشن (rationalization)ایک ڈیفنس میکانیزم ہے۔ جس میں انسان اپنے کسی بھی غیر پسندیدہ کام کی وجوہات تلاش کرتا ہے۔ اور یہ وجوہات ہمیشہ دوسروں میں یا باہر حالات میں نظر آتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی کسی امتحان میں فیل ہوتا ہے تو وہ ہمیشہ اس طرح کے بہانے کرے گا کہ امتحان بہت مشکل تھا یا اس کے ٹیچر نے ایسا جان بوجھ کے کیا ہے یا اپنا کوئی فیملی کا مسئلہ بیان کرے گا کہ اس وجہ سے میں فیل ہوا۔ وہ کبھی بھی خود کو ذمہ دار قرار نہیں دے گا۔ سگمنڈ فرائیڈ کے مطابق وہ اس لئے کرتا ہے کہ وہ اپنی انا کو ٹھیس نہیں پہنچانا چاہتا۔ وہ اپنے آپ کو مجرم (guilty) محسوس نہیں کروانا چاہتا۔ وہ ایسا جان بوجھ کے نہیں کرتا بلکہ لاشعوری طور پر وہ سوچتا ہے اور ایسی باتیں کرتا ہے۔
رابرٹ انتھونی نے مینیجمنٹ کے اوپر بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں
"when you blame others، you give up the Power to change. "
" جب آپ دوسروں کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں تو آپ تبدیل کرنے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں"
برائن ٹریسی کہتے ہیں کہ آپ کو جب بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑے یا کبھی آپ پریشان ہوں، یا غصے میں ہوں تو آپ یہ کہنا شروع کر دیں "اس سب کا ذمہ دار میں ہوں" ۔ ایسا کہنے سے آپ کے اندر ایک کنٹرول محسوس ہوگا اور ایک امید پیدا ہو گئی۔
دوسروں کو الزام دینا اور دوسروں کو ذمہ دار قرار دینا ایک سوچ ہے۔ جو کئی دفعہ صحیح اور کئی دفعہ غلط ہوتی ہے۔ اگر یہ صحیح بھی ہو تب بھی آپ نا امید اور بے بس محسوس کرتے ہیں۔ اسی طرح خود کو ذمہ دار قرار دینا بھی ایک طرح کی سوچ ہے، جو کئی دفعہ صحیح اور کئی دفعہ غلط ہوتی ہے۔ اگر یہ غلط بھی ہو تب بھی آپ کو ایک اپنے اندر کنٹرول محسوس ہوگا، ایک نئی امنگ پیدا ہوگی کیونکہ آپ خود کو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ ہمیں صرف سوچ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ انسان کے پاس بےپناہ ذہنی صلاحیت ہوتی ہے۔ لیکن حالات کو اور دوسروں کو الزام تراشی کر کے وہ صلاحیت استعمال نہیں ہو پاتی۔ جب آپ اپنی سوچ کو شفٹ کرتے ہیں تو وہ صلاحیت ان لاک ہوتی ہے، تب آپ اس کو استعمال کر سکتے ہیں۔
الزام تراشی کرنے والے لوگ پیدا ہونے سے مرنے تک الزام تراشی میں ہی گزار دیتے ہیں۔ جبکہ کامیاب لوگ الزام تراشی کے بجائے اپنے اوپر کام کرتے ہیں۔ اقبال نے شاید انہی کے لیے لکھا ہوا ہے
" اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے"
اپنی دنیا آپ کو خود تب ہی بنا سکیں گے جب آپ اس کی ذمہ داری لیں گے۔
ایک اور جگہ اقبال نے فرمایا ہے
" جہاں تازہ کی ہے افکار تازہ سے نمود
کہ ہوتے نہیں سنگ و خشت سے جہاں پیدا"
" مٹی اور گارے سے نئے جہان پیدا نہیں ہوتے بلکہ نئی سوچ سے نئے جہان پیدا ہوتے ہیں"
اپنے حالات کی ذمہ داری خود قبول کریں۔ اپنی زندگی کی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھیے۔ آپ کی زندگی کی گاڑی آپ کی مرضی سے ہی چلنی چاہیے۔ ہمیشہ دوسروں کو الزام دینے کے بجائے خود ذمہ داری قبول کریں۔ یہ نئی سوچ آپ کو نئے راستے دکھائے گی۔

09/05/2021

ڈپریشن کی دھلائی🌀
کتھارسس catharsis ایک ایسا عمل ہے جس میں انسان اپنے دبے ہوئے شدید جذبات و احساسات کا کسی صورت میں اظہار کرکے ذہنی سکون، اطمینان اور تجدید حاصل کرتا ہے۔
اگر انسان کتھارسس مطلب اپنے اندر چلتی پریشانی لڑائی کا اظہار نہ کرے تو اس کے اندر دبے جذبات و احساسات غصہ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اگر یہ غصہ کسی بھی صورت نہ نکلے تو پھر اپنی ذات پر نکلتا ہے اس کے نتیجے میں انسان کسی نہ کسی نفسیاتی عارضہ کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کے نتیجہ میں ماحول میں غصہ، پریشانی، دکھ اور ذہنی دباؤ بڑھنے لگتا ہے۔
اس کا معنی cleansing اور purification ہے۔ میرے مطابق اس کا مطلب اپنے ہر طرح کے جذبات اور محسوسات کا اظہار ہے۔ جب ہم مختلف موقعوں پر اپنے محسوسات کا ٹھیک طرح سے اظہار نہیں کر پاتے تو ہم ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ نا مکمل اور ادھورے بے شکل محسوسات لاشعور میں اپنا گھر بنا لیتے ہیں۔
ہر انسان اپنے ہی انداز میں کتھارسس یعنی اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے۔ کوئی شعر کہہ کر تو کوئی نثر لکھ کر، کوئی تصویر بنا کر تو کوئی مجسمہ تراش کر، کوئی غصہ میں چیختا چلاتا ہے تو کوئی آنکھوں سے نمکین پانی بہاتا ہے تو کوئی خود کلامی کرتا ہے۔ کوئی خاموشی سے لڑتا ھے رشتوں سے نفرت کرنے لگتا ھے ، بات بات پہ چڑتا ھے بلاوجہ غصہ کرتا ھے اداس رھتا ھے خود کو لوگوں سے دور کر لیتا ھے ۔ کبھی کبھی خود سے نفرت منسوب کر لینا اسکی تکلیف کا اظہار ھے وغیرہ وغیرہ یہ انسان کے مزاج میں کتھارسس کا انداز ہوتا ہے یہ انسان پر ہے کہ وہ تلاش کرے کہ وہ کونسا کام یا طریقہ ہے جس کے ذریعہ وہ کتھارسس کر کے سکون حاصل کر سکتا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو جانتے ہی نہیں کہ ان کے کتھارسس مطلب اپنے چھپے ھوئے خیالات کے اظہار کا طریقہ کیا ہے۔
انسان کتھارسس کے ذریعہ اندر کے غبار کو نکال دیتا ہے تو اس کے اندر زندگی خوشی سے گزارنے کی امید پیدا ہوتی ہے۔ اپنے اردگرد کے ماحول سے پیار کرنے لگتا ہے۔ کائنات کی رعنائیوں سے لطف اندوز ہونے لگتا ہے۔ جینے لگتا ھے
ہمیں اپنی ذہنی صحت کا بہت ذیادہ خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ یہ براہ راست جسمانی صحت پر اثرانداز ہوتی ہے۔ ذہنی صحت کے لئے Catharsis کی بہت ضرورت ہے۔
زندگی کو بھرپور جینا سیکھیں۔ خوشی کے موقعوں کو کھل کر انجوائے کریں ۔ جب دکھ اور تکلیف محسوس کرتے ہیں تو اس کا اظہار کریں۔ کسی کی بات بری لگی تو اس کو بتائیں ۔ کسی نے مدد کی تو کھل کر شکریہ ادا کریں۔ کسی کی مدد کی ضرورت ہے تو کھل کر درخواست کریں۔ اگر کسی میں کوئی اچھائی نظر آتی ہے تو کھل کر تعریف کریں ۔ جس سے بات کرنا اچھا لگے اس سے بات کیجئے جس کام میں دل خوش ھو وہ کام کیجئے لیکن مثبت سوچ لازم ھے
ذہنی تناؤ اور بےسکونی تب پیدا ہوتی ہے جب ہم مثبت اور منفی احساسات کو دباتے ہیں اور اپنے subconscious مطلب لاشعور میں ان کا (baggage) تھیلا اٹھائے پھرتے ہیں۔ اس تھیلے میں برسوں پرانی عداوتیں، پچھتاوے، محرومیاں، نفرتیں ، شکوے شکایتیں، پیار محبت عشق ، کمیاں کوتاہیاں ، جمع کیے اپنی سوچ پہ بوجھ لادے پھرتے ہیں۔ یہ اذیت اور دبے ہوئے احساسات زندگی کی خوشی اور اطمینان چھین لیتے ہیں۔ اپنے ڈپریشن سے بھرے تھیلے کو صاف کرنے کے لئے اپنے اپ کو وقت دیجئے ۔
کتھارسس کے کچھ طریقے
♣️1۔ جذبات کا ہمیشہ کھل کر اظہار کریں، کچھ دل میں نہ رکھیں ۔ اچھے انداز اور الفاظ کے ساتھ ہر قسم کے اچھے برے جذبات کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔ جسکے لئے جو جذبات رکھتے ہیں انکے منہ پہ کہ دیجئے ۔ رزلٹ بعد کی بات ھے دل ہلکا ھو جائے گا لیکن ادب کے دائرے میں رہ کر ۔
♣️2۔ کسی ہمدرد کے سامنے دوسروں سے متعلق اپنے سب جذبات کا اظہار بھی کیا جا سکتا ھے ۔دل انکے سامنے کھولئے جو اپکے جزبات کو سننے سمجھنے کی اہلیت رکھتا ھو ۔ آپ سے مخلص ھو ۔
♣️3۔ شاعری کریں، نثر لکھیں، افسانے لکھیں یا تعمیری پیغامات لکھیں۔ فیس بک پر یہ کام بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ اور کیا جا بھی رہا ھے ۔
♣️4۔ پینٹنگ کریں، مصوری کریں۔
♣️5۔ سپورٹس میں حصہ لیں ، اپنی پسند کی گیم یا کھیل سے دل ہلکا ہوتا ہے۔
♣️6۔ اپنی پسند کی مزاحیہ یا پھر انفامیٹو کتابیں پڑھیں، ڈوکومینٹری دیکھیں، دلچسپ علم سے مستفید ہوں۔ ٹی وی پہ درجنوں ایسے ٹاک شو لگتے ہیں جن میں دلچسبی لی جا سکتی ھے
♣️7۔ کسی فلاحی کام میں حصہ لیں، معاشرے کو کچھ دیں، اپنے ملک کے لیے کچھ کریں، اپنے اللہ کے لیے کچھ کریں، مخلوق کو فائدہ پہنچائیں۔
♣️8۔ مراقبہ کریں، اس سے دل کو راحت اور وجدان ملتا ہے، جذبات کلیر ہوتے ہیں۔ مختلف قسم کی مراقبات انٹرنیٹ پہ موجود ہیں ۔
♣️9۔ روزانہ سب لوگوں کو معاف کر کے سویا کریں اس سے لا شعور کی گرہیں کھلتی ہیں۔
♣️10۔ اپنے اللہ کے سامنے اظہار کریں، شکایات کریں، گفتگو کریں۔ اور اس کے بعد دل صاف کر لیں، جب اللہ کو معاملہ دے دیا تو خود بیچ سے نکل جائیں۔
♣️11۔ کسی درخت سے باتیں کیجئے وہ بات جو آپ کسی سے نہ کر سکیں درخت سنتے ہیں ۔
اگر آپ کو یہ سب کچھ کرنے میں دقت محسوس ہو رہی ہے تو counseling حاصل کریں، کسی ماہر نفسیات کے سامنے کتھارسس کریں اور اپنے دل اور لا شعور میں سالوں پرانے دبے جذبات کا اظہار کر کے اپنی ذہنی صحت بحال کیجئے اور اپنی صلاحیتیں کے ساتھ کھل کر جینا سیکھیں کیونکہ آپ کا ذہنی تناؤ نہ صرف آپ کی بلکہ آپ سے منسلک لوگوں کی زندگی کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ اس کا حل بھی آپ ہی کے پاس ھے ہمت کیجئے اور سب کہ دیجئے دیکھی جائے گی ھوتا کیا ھے ☺

A shout out to all the tired moms out there ❤️انسان کا بچہ پالنا کوئی آسان کام نہیں۔  رات بھر بچے کو کبھی دودھ چاہیے، کب...
27/02/2021

A shout out to all the tired moms out there ❤️

انسان کا بچہ پالنا کوئی آسان کام نہیں۔ رات بھر بچے کو کبھی دودھ چاہیے، کبھی باتھ روم لے کر جانا ہے۔ کبھی کمبل ٹھیک کروانا ہے۔ کبھی کوئی ڈراؤنا خواب اور وہ ماں کا قرب چاہتا ہے۔ دن بھر انکے پیچھے بھاگنا۔ ان گنت بار کی سمجھائی ہوئی بات پھر سے سمجھانا۔ بہن بھائیوں کے نہ ختم ہونے والے جھگڑوں پر منصف بنے رہنا۔ ایک کو کچھ کھانا ہے اور دوسرے کو کچھ اور۔ کبھی فرش پر دودھ گرا دیا ، کہیں کھلونے کمرے میں بکھیر دیے۔ کسی دیوار پر نقش نگاری کر دی، کسی میز پر نشان ڈال دیا۔

مشکل ہے۔
آپ تھک جاتی ہیں۔
آپ میں سے “اپنا آپ” کھویا ہوا محسوس ہونے لگتا ہے۔
زندگی وہی لگی بندھی کھلانے، پہنانے، دھونے دھلانے میں غرق ہوتی لگتی ہے۔
نماز قرآن کے لئے دوڑے بھاگتے آتی ہیں۔
باقیوں کو دیکھ کر خود کو ملامت کرتی ہیں۔

آپ تھک رہی ہیں۔ میں سمجھ سکتی ہوں!
لیکن بس دعا کرتی جائیے کہ یہی اولاد آپکے سینے کی ٹھنڈک بنے۔ متقیوں کی امام بنے۔ آپکی تھکن اتر جائے۔ فی الحال کچھ وقت یوں گزرے گا، پھر ٹھیک ہو جائے گا سب ❤️

آپ بہت بڑا کام کر رہی ہیں۔ آپ بہت ہی مشکل کام کر رہی ہیں۔ خود کو کندھے پر تھپکی دیجیے۔ مسکرائیے۔ خود پر فخر کیجیے۔ اور بھاگ دوڑ زندگی میں سے کھینچ تان کر چند لمحے روزانہ کی بنیاد پر اپنے لئے جمع کیجیے۔ ان لمحوں میں اپنے اندر کو زندہ رکھیے۔ آپ ماں ہیں۔ آپ “آپ” بھی ہیں۔ خود میں سے خود کو کھونے نہ دیں۔

❤️

Address

Bhakkar

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when MInD Platter posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share