Meat Stop

Meat Stop Meat Supplier, Distributor and Retail Unit. Halal Meat Experts. Each Piece, Master Piece!

25/04/2019

HELLO

23/02/2019

سگریٹ کی کہانی

کیا آپ جانتے ہیں کہ سگریٹ کس نے ایجاد کی؟ کیا آپ کے ذہن میں بھی یہ سوال ہے کہ تمباکو نوشی کی وجہ سے ہونے والی اموات کے لیے کیا اس شخص کو ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے؟

موجود شکل کا سگریٹ پہلی دفعہ "جیمز بکانن ڈیوک" نے بنایا تھا۔جیمز بکانن ڈیوک نہ صرف سگریٹ کو اس کی موجودہ شکل دینے کے ذمہ دار ہیں بلکہ انہوں نے سگریٹ کی مارکیٹنگ اور ترسیل میں بھی اہم کردار ادا کیا جس سے ساری دنیا میں اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔سنہ 1880 میں چوبیس سال کی عمر میں ڈیوک نے ہاتھ سے بنی سگریٹ کے کاروبار میں قدم رکھا جو اس وقت بہت وسیع کاروبار نہیں تھا۔ شمالی كیرولائنا کے شہر ڈرہم میں کچھ لوگوں نے مل کر ’ڈیوک آف ڈرہم‘ کے نام سے سگریٹ بنانے کی شروعات کی جس کے دونوں کونوں کو موڑ کر بند کیا جاتا تھا۔

دو سال بعد ڈیوک نے جیمز بونسیك نامی نوجوان مكینك کے ساتھ کام کرنا شروع کیا جس کا کہنا تھا کہ وہ مشین سے سگریٹ بنا سکتا ہے۔ ڈیوک کو بونسیك کی اس بات میں کاروبار کا ایک اچھا موقع دکھائی دیا۔ انہیں یقین تھا کہ ہاتھ سے بنی چھوٹے یا بڑے سائز کی سگریٹ کی جگہ لوگ مشین سے بنی، ایک ہی شکل کی سگریٹ پینا پسند کریں گے۔
ساتھ ہی اس وقت ڈیوک کے کارخانے میں جہاں لڑکیاں ایک شفٹ میں ہاتھ سے تقریباً دو سو سگریٹ بناتی تھیں، وہیں اس نئی مشین سے ایک دن میں ایک لاکھ بیس ہزار سگریٹ تیار ہونے لگے جبکہ اس وقت امریکہ میں صرف چوبیس ہزار سگریٹ کی ہی کھپت ہوتی تھی۔اردن گڈمین کہتے ہیں،’مسئلہ یہ تھا کہ سگریٹ کی پیداوار زیادہ تھی لیکن فروخت کم۔ اس لیے ڈیوک کو اب سگریٹ فروخت کرنے کے نئے طریقے تلاش کرنے تھے‘۔
وہ طریقہ تھا اشتہارات اور مارکیٹنگ۔ جیمز ڈیوک نے گھڑ دوڑ کو سپانسر کرنا، مقابلۂ حسن میں مفت سگریٹ تقسیم کرنا اور جرائد میں اشتہار دینا شروع کیا۔ سنہ 1889 میں ہی سگریٹ کی مارکیٹنگ پر انہوں نے آٹھ لاکھ ڈالر خرچ کیے جو آج تقریباً دو کروڑ پچاس لاکھ ڈالر کے برابر ہے۔صفائی سے بنی سگریٹ اور ان کے صحیح تشہیر، جیمز ڈیوک کی ابتدائی کامیابی کی یہی دو وجوہات تھیں۔ ایک اشتہار میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ہاتھ سے اور تھوک کے استعمال سے بنائی جانے والی سگار کے مقابلے میں مشین سے بنائی سگریٹ زیادہ صفائی سے بنائی جاتی ہے اور جیمز ڈیوک کی امید کے عین مطابق لوگوں کو مشین سے بنی سگریٹ ہی زیادہ پسند آئی۔
امریکہ میں پاؤں جمانے کے بعد جیمز ڈیوک نے برطانیہ کا رخ کیا۔ سنہ 1902 میں انہوں نے برطانیہ کی امپيريل ٹوبیكو کمپنی کے ساتھ مل کر برٹش امریکن ٹوبیكو نامی کمپنی قائم کی۔

کمپنی کی طرف سے فروخت کی جانے والی سگریٹ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی تھی۔، صرف مختلف صارفین کے حساب سے ان کی پیکیجنگ اور مارکیٹنگ حکمت عملی بدلی جاتی تھی۔مصنف اردن گڈمین کہتے ہیں،’میكڈانلڈز اور سٹاربكس کے طور پر ہم آج جسے گلوبلائزیشن کہتے ہیں، اس کے بانی ڈیوک اور ان کی سگریٹ تھے‘۔
دنیا بھر میں آج بھی سگریٹ نوشی بڑھ رہی ہے اور ترقی پذیر ممالک میں سگریٹ کی طلب میں ہر سال تین اعشاریہ چار فیصد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔

عالمی ادارۂ صحت نے خبردار کیا ہے کہ اگر سگریٹ نوشی کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات نہیں کیے گئے تو اگلے تیس سال میں دس کروڑ افراد تمباکو سے متعلقہ بیماریوں کی وجہ سے موت کا شکار ہو جائیں گے۔ یہ تعداد ایڈز، ٹی بی، کار حادثوں اور خودکشی سے ہونے والی کل اموات سے زیادہ ہے۔

لیکن کیا اس سب کے لیے جیمز بکانن ڈیوک کو ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے؟
شائد یہ بات کم لوگوں کو معلوما ہو کہ 1930 تک سگریٹ بطور دوا استعمال ہوتا تھا۔پھیپھڑے کے کینسر اور سگریٹ پینے کے درمیان تعلق کا پتہ 1930 کی دہائی تک نہیں چلا تھا جبکہ جیمز ڈیوک کی موت 1925 میں ہوئی۔ یہاں تک کہ اس وقت سگریٹ کو صحت کے لیے فائدہ مند بتا کر تشہیر کی گئی۔ سنہ 1906 تک سگریٹ، ادویات کے انسائیكلوپيڈيا میں شامل تھی۔

’ٹوبیكو کنٹرول‘ میگزین کے ایک حالیہ مضمون میں رابرٹ پروكٹر لکھتے ہیں کہ تمباکو کی صنعت کے کئی لوگ اس کے ذمہ دار ہیں جن میں انہیں فروخت کرنے والی دکانیں، اشتہاری کمپنیاں، سگریٹ پیکٹ ڈیزائن کرنے والے، اداکار اور سگریٹ کمپنیوں میں کام کرنے والے لوگ سب شامل ہیں۔اردن گڈمین مانتے ہیں کہ جیمز ڈیوک ہیرو بھی ہیں اور ولن بھی۔ وہ کہتے ہیں،’بازار، انسانی نفسیات اور اشتہارات کی دنیا کی سمجھ کے لحاظ سے وہ ہیرو ہیں لیکن سگریٹ اور تمباکو نوشی سے متعلق تنازعات سے یہ سب چھپ جاتا ہے‘۔گڈمین کہتے ہیں، ’جیمز ڈیوک نے دنیا کو سگریٹ دی اور یہی سگریٹ بیسویں صدی کا مسئلہ ہے‘۔

سگریٹ اس وقت دنیا بھر میں شاید سب سے زیادہ بدنام مصنوعات میں سے ایک ہے۔سنہ 2000 تک کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا میں پھیپھڑوں کے کینسر سے ہر سال تقریباً دس لاکھ افراد ہلاک ہو رہے تھے اور ان میں سے تقریباً پچاسی فیصد لوگوں میں اس کینسر کی وجہ صرف تمباکونوشی تھی۔

امریکہ کی سٹینفورڈ یونیورسٹی سے وابستہ" رابرٹ پركٹر "کہتے ہیں،’انسانی تہذیب کی تاریخ میں سگریٹ سب سے خطرناک مصنوعات ہے۔ بیسویں صدی میں تمباکو نوشی کی وجہ سے تقریباً دس کروڑ لوگ مر چکے ہیں‘۔
’ٹوبیكو ان ہسٹری‘ نامی کتاب کے مصنف اردن گڈمین کے خیال میں اگرچہ وہ ایسے کسی شخص خاص کا نام لینے سے اجتناب کریں گی لیکن ’امریکہ کے جیمز بکانن ڈیوک سگریٹ کے ایجاد کے ذمہ دار تھے‘۔
(بشکریہ بی بی سی)

Beautiful Like Beirut. Sad like Iraq.Exhausted like Syria.Destroyed like Yemen.Wounded like Libya.Forgotten Like Palesti...
14/02/2019

Beautiful Like Beirut.
Sad like Iraq.
Exhausted like Syria.
Destroyed like Yemen.
Wounded like Libya.
Forgotten Like Palestine.

It is humanity slaughtered by the sharp knife of politics

خیبر پختونخواہ کے کُل 35 اضلاع کی تفصیل ۔۔۔
07/02/2019

خیبر پختونخواہ کے کُل 35 اضلاع کی تفصیل ۔۔۔

Technical nd Medical Usage of a Mask.
30/01/2019

Technical nd Medical Usage of a Mask.

29/01/2019

. ╭┄┅═══❁═══┅┄╮
*پاکستان کے بڑے شہروں کے نام کیسے پڑے، دلچسپ اور حیران کن معلومات*
╰┄┅═══❁═══┅┄╯

ُ╔═════════════╗

*اســـلام آبــاد:-*
1959ءمیں مرکزی دارالحکومت کا علاقہ قرار پایا۔ اس کا نام مذہب اسلام کے نام پر اسلام آباد رکھا گیا۔

ُ╚═════════════╝
ُ╔═════════════╗

*راولـپـنـــڈی:-*
یہ شہر راول قوم کا گھر تھا۔ چودھری جھنڈے خان راول نے پندرہویں صدی میں باقاعدہ اس کی بنیاد رکھی۔

ُ╚═════════════╝
ُ╔═════════════╗

*کــــراچــــی:-*
تقریباً 220 سال پہلے یہ ماہی گیروں کی بستی تھی۔ کلاچو نامی بلوچ کے نام پر اس کا نام کلاچی پڑگیا۔ پھر آہستہ آہستہ کراچی بن گیا۔ 1925ءمیں اسے شہر کی حیثیت دی گئی۔1947ءسے 1959ءتک یہ پاکستان کا دارالحکومت رہا۔

ُ╚═════════════╝
ُ╔═════════════╗

*لاھــــــــور:-*
ایک نظریےکے مطابق ہندﺅں کے دیوتا راما کے بیٹے لاوا کے بعد لاہور نام پڑا، لاوا کو لوہ سے پکارا جاتا تھا اور لوہ (لاوا) کیلئے تعمیر کیا جانیوالا قلعہ ’لوہ، آور‘ سے مشہور ہوا
جس کا واضح معنی ’لوہ کا قلعہ ‘ تھا۔ اسی طرح صدیاں گزرتی گئیں اور پھر ’لوہ آور‘ لفظ بالکل اسی طرح لاہور میں بدل گیا جس طرح سیوستان سبی اور شالکوٹ، کوٹیا اور پھر کوئٹہ میں بدل گیا۔
اسی طرح ایک اور نظریئے کے مطابق دو بھائی لاہور
ایک اور نظریئے کے مطابق دو بھائی لاہور اور قاصو دو مہاجر بھائی تھے جو اس سرزمین پرآئے جسے لوگ آج لاہور کے نام سے جانتے ہیں، ایک بھائی قاصو نے پھر قصور آباد کیا جس کی وجہ سے اس کا نام بھی قصور پڑا جبکہ دوسرے بھائی نے اندرون شہر سے تین میل دور اچھرہ لااور کو اپنا مسکن بنایا اور بعد میں اسی لاہو کی وجہ سے اس شہر کا نام لاہور پڑ گیا اور شاید یہی وجہ ہے کہ اچھرہ کی حدود میں کئی ہندﺅوں کی قبریں بھی ملیں۔

ُ╚═════════════╝
ُ╔═════════════╗

*حــــــیدر آبــاد:-*
اس کا پرانا نام نیرون کوٹ تھا۔ کلہوڑوں نے اسے حضرت علیؓ کے نام سے منسوب کرکے اس کا نام حیدر آباد رکھ دیا۔ اس کی بنیاد غلام کلہوڑا نے 1768ءمیں رکھی۔

ُ╚═════════════╝
ُ╔═════════════╗

*پـشــــاور:-*
پیشہ ور لوگوں کی نسبت سے اس کا نام پشاور پڑگیا۔ ایک اور روایت کے مطابق محمود غزنوی نے اسے یہ نام دیا۔

ُ╚═════════════╝
ُ╔═════════════╗

*کــــوئٹــــہ:-*
لفظ کوئٹہ، کواٹا سے بنا ہے۔ جس کے معنی قلعے کے ہیں۔ بگڑتے بگڑتے یہ کواٹا سے کوئٹہ بن گیا۔

ُ╚═════════════╝
ُ╔═════════════╗

*ٹــــوبہ ٹیک سنــــگھ:-*
اس شہر کا نام ایک سکھ "ٹیکو سنگھ" کے نام پہ ہے "ٹوبہ" تالاب کو کہتے ہیں یہ درویش صفت سکھ ٹیکو سنگھ شہر کے ریلوے اسٹیشن کے پاس ایک درخت کے نیچے بیٹھا رہتا تھا اور ٹوبہ یعنی تالاب سے پانی بھر کر اپنے پاس رکھتا تھا اور اسٹیشن آنے والے مسافروں کو پانی پلایا کرتا تھا سعادت حسن منٹو کا شہرہ آفاق افسانہ "ٹوبہ ٹیک سنگھ" بھی اسی شہر سے منسوب ہے.

ُ╚═════════════╝
ُ╔═════════════╗

*ســــرگــــودھـا:-*
یہ سر اور گودھا سے مل کر بنا ہے۔ ہندی میں سر، تالاب کو کہتے ہیں، گودھا ایک فقیر کا نام تھا جو تالاب کے کنارے رہتا تھا۔ اسی لیے اس کا نام گودھے والا سر بن گیا۔ بعد میں سرگودھا کہلایا۔ 1930ءمیں باقاعدہ آباد ہوا۔

ُ╚═════════════╝
ُ╔═════════════╗

*بہــــاولپــــور:-*
نواب بہاول خان کا آباد کردہ شہر جو انہی کے نام پر بہاولپور کہلایا۔ مدت تک یہ ریاست بہاولپور کا صدر مقام رہا۔ پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے والی یہ پہلی رہاست تھی۔ ون یونٹ کے قیام تک یہاں عباسی خاندان کی حکومت تھی۔

ُ╚═════════════╝
ُ╔═════════════╗

*ملــــتان:-*
کہا جاتا ہے کہ اس شہر کی تاریخ 4 ہزار سال قدیم ہے۔ البیرونی کے مطابق اسے ہزاروں سال پہلے آخری کرت سگیا کے زمانے میں آباد کیا گیا۔ اس کا ابتدائی نام ”کیساپور“ بتایا جاتا ہے۔

ُ╚═════════════╝
ُ╔═════════════╗

*فیصــــل آبــاد:-*
اسے ایک انگریز سر جیمزلائل (گورنرپنجاب) نے آباد کیا۔ اس کے نام پر اس شہر کا نام لائل پور تھا۔ بعدازاں عظیم سعودی فرماں روا شاہ فیصل شہید کے نام سے موسوم کر دیا گیا۔

ُ╚═════════════╝
ُ╔═════════════╗

*رحیــــم یار خــــاں:-*
بہاولپور کے عباسیہ خاندان کے ایک فرد نواب رحیم یار خاں عباسی کے نام پر یہ شہر آباد کیا گیا۔

ُ╚═════════════╝
ُ╔═════════════╗

*عبدالحــــکیم:-*
جنوبی پنجاب کی ایک روحانی بزرگ ہستی کے نام پر یہ قصبہ آباد ہوا۔ جن کا مزار اسی قصبے میں ہے۔ یہ قصبہ دریائے راوی کے کنارے آباد ہے.

ُ╚═════════════╝
ُ╔═════════════╗

*ســــاہیوال:-*
یہ شہر ساہی قوم کا مسکن تھا۔ اسی لیے ساہی وال کہلایا۔ انگریز دور میں پنجاب کے انگریز گورنر منٹگمری کے نام پر ”منٹگمری“ کہلایا۔ نومبر 1966ءصدر ایوب خاں نے عوام کے مطالبے پر اس شہر کا پرانا نام یعنی ساہیوال بحال کردیا۔

ُ╚═════════════╝
ُ╔═════════════╗

*ســــیالکوٹ:-*
2 ہزار قبل مسیح میں راجہ سلکوٹ نے اس شہر کی بنیاد رکھی۔ برطانوی عہد میں اس کا نام سیالکوٹ رکھا گیا۔

ُ╚═════════════╝
ُ╔═════════════╗

*گوجــــرانوالہ:-*
ایک جاٹ سانہی خاں نے اسے 1365ءمیں آباد کیا اور اس کا نام ”خان پور“ رکھا۔ بعدازاں امرتسر سے آ کر یہاں آباد ہونے والے گوجروں نے اس کا نام بدل کر گوجرانوالہ رکھ دیا۔

ُ╚═════════════╝
ُ╔═════════════╗

*شیــــخوپـورہ:-*
مغل حکمران نورالدین سلیم جہانگیر کے حوالے سے آباد کیا جانے والا شہر۔ اکبر اپنے چہیتے بیٹے کو پیار سے ”شیخو“ کہہ کر پکارتا تھا اور اسی کے نام سے شیخوپورہ کہلایا۔

ُ╚═════════════╝
ُ╔═════════════╗

*ھــــــــڑپہ:-*
یہ دنیا کے قدیم ترین شہر کا اعزاز رکھنے والا شہر ہے۔ ہڑپہ، ساہیوال سے 12 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ موہنجوداڑو کا ہم عصر شہر ہے۔ جو 5 ہزار سال قبل اچانک ختم ہوگیا۔رگِ وید کے قدیم منتروں میں اس کا نام ”ہری روپا“ لکھا گیا ہے۔ زمانے کے چال نے ”ہری روپا“ کو ہڑپہ بنا دیا۔

ُ╚═════════════╝
ُ╔═════════════╗

*ٹیکســــلا:-*
گندھارا تہذیب کا مرکز۔ اس کا شمار بھی دنیا کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ یہ راولپنڈی سے 22 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ 326 قبل مسیح میں یہاں سکندرِاعظم کا قبضہ ہوا.

ُ╚═════════════╝
ُ╔═════════════╗

*بہاولــــنگـر:-*
ماضی میں ریاست بہاولپور کا ایک ضلع تھا۔ نواب سر صادق محمد خاں عباسی خامس پنجم کے مورثِ اعلیٰ کے نام پر بہاول نگر نام رکھا گیا۔

ُ╚═════════════╝
ُ╔═════════════╗

*مظـفــر گــــڑھ:-*
والئی ملتان نواب مظفرخاں کا آباد کردہ شہر۔ 1880ءتک اس کا نام ”خان گڑھ“ رہا۔ انگریز حکومت نے اسے مظفرگڑھ کا نام دیا۔

ُ╚═════════════╝ ُ╔═════════════╗

*مــــیانـوالـی:-*
ایک صوفی بزرگ میاں علی کے نام سے موسوم شہر ”میانوالی“ سولہویں صدی میں آباد کیا گیا تھا۔

ُ╚═════════════╝ ُ╔═════════════╗

*ڈیرہ غــازی خــان:-*
پاکستان کا یہ شہر اس حوالے سے خصوصیت کا حامل ہے کہ اس کی سرحدیں چاروں صوبوں سے ملتی ہیں۔

ُ╚═════════════╝
ُ╔═════════════╗

*جھــــنگ:-*
یہ شہر کبھی چند جھونپڑیوں پر مشتمل تھا۔ اس شہر کی ابتدا صدیوں پہلے راجا سرجا سیال نے رکھی تھی اور یوں یہ علاقہ ”جھگی سیالu“ کہلایا۔ جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جھنگ سیال بن گیا اور پھر صرف جھنگ رہ گیا۔

ُ╚═════════════╝
*پاکپتن شریف*
اس شہر کا پرانا نام اجودھن تھا یہ دریائے ستلج کے کنارے واقع یہاں ایک پتن(جہاں سے لوگ دریا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے ناو کے ذریعے دریا پار کرتے ہیں) تھا جب بابا فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ یہاں قیام پزیر ہوئے تو اس کا نام پتن سے پاک پتن شریف مشہور ہو گیا.

La Peshawar! 😘💕💋 💫 نوے پیخور
25/01/2019

La Peshawar! 😘💕💋 💫 نوے پیخور

‏پھٹے ہوئے بوری میں کتنا “ خوبصورت سیب “ ہے، ایسے ہی بعض اشخاص کے پھٹے پُرانے کپڑوں میں “ خوبصورت دل “ ہوتے ہیں۔لوگوں کا...
25/01/2019

‏پھٹے ہوئے بوری میں کتنا “ خوبصورت سیب “ ہے، ایسے ہی بعض اشخاص کے پھٹے پُرانے کپڑوں میں “ خوبصورت دل “ ہوتے ہیں۔
لوگوں کا انتخاب کرتے وقت کسی کے کپڑے اور جوتے نہ دیکھئیے۔

نظام عدل ہی اچھی حکمرانی کی بنیاد ہے۔   *دو منٹ کی عدالت* عرب سالار قتیبہ بن مسلم نے اسلامی لشکر کشی کے اصولوں سے انحراف...
23/01/2019

نظام عدل ہی اچھی حکمرانی کی بنیاد ہے

۔ *دو منٹ کی عدالت*
عرب سالار قتیبہ بن مسلم نے اسلامی لشکر کشی کے اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے سمرقند کو فتح کر لیا تھا،

اصول یہ تھا کہ حملہ کرنے سے پہلے تین دن کی مہلت دی جائے۔

اور یہ بے اصولی ہوئی بھی تو ایسے دور میں جب زمانہ بھی عمر بن عبدالعزیز کا چل رہا تھا۔

🍀 سمرقند کے پادری نے مسلمانوں کی اس غاصبانہ فتح پر قتیبۃ کے خلاف شکایت دمشق میں بیٹھے مسلمانوں کے حاکم کو ایک پیغامبر کے ذریعہ خط لکھ کر بھجوائی۔

پیغامبر نے دمشق پہنچ کر ایک عالیشان عمارت دیکھی جس میں لوگ رکوع و سجود کر رہے تھے۔

اُس نے لوگوں سے پوچھا :
کیا یہ حاکمِ شہر کی رہائش ہے ؟ لوگوں نے کہا یہ تو مسجد ہے،
تو نماز نہیں پڑھتا کیا ؟
پیغامبر نے کہا نہیں، میں اھلِ سمرقند کے دین کا پیروکارہوں۔ لوگوں نے اُسے حاکم کے گھر کا راستہ دکھا دیا۔

🍀 پیغامبر لوگوں کے بتائے ہوئے راستہ پر چلتے حاکم کے گھر جا پہنچا، کیا دیکھتا ہے کہ ایک شخص دیوار سے لگی سیڑھی پر چڑھ کر چھت کی لپائی کر رہا ہے اور نیچے کھڑی ایک عورت گارا اُٹھا کر اُسے دے رہی ہے۔

پیغامبر جس راستے سے آیا تھا واپس اُسی راستے سے اُن لوگوں کے پاس جا پہنچا جنہوں نے اُسے راستہ بتایا تھا۔

اُس نے لوگوں سے کہا میں نے تم سے حاکم کے گھر کا پتہ پوچھا تھا نہ کہ اِس مفلوک الحال شخص کا جس کے گھر کی چھت بھی ٹوٹی ہوئی ہے۔

لوگوں نے کہا،
ہم نے تجھے پتہ ٹھیک ہی بتایا تھا، وہی حاکم کا گھر ہے۔
پیغامبر نے بے دلی سے دوبارہ اُسی گھرپر جا کر دستک دی،

جو شخص کچھ دیر پہلے تک لپائی کر رہا تھا وہی اند ر سے نمودار ہوا۔

🍀 میں سمرقند کے پادری کی طرف سے بھیجا گیا پیغامبر ہوں کہہ کر اُس نے اپنا تعارف کرایا اور خط حاکم کو دیدیا۔

اُس شخص نے خط پڑھ کر اُسی خط کی پشت پر ہی لکھا :
عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے سمرقند میں تعینات اپنے عامل کے نام؛ ایک قاضی کا تقرر کرو جو پادری کی شکایت سنے۔
مہر لگا کر خط واپس پیغامبر کو دیدیا۔

پیغامبر وہاں سے چل تو دیا مگر اپنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے،
کیا یہ وہ خط ہے جو مسلمانوں کے اُس عظیم لشکر کو ہمارے شہر سے نکالے گا ؟

سمرقند لوٹ کر پیغامبر نے خط پادری کو تھمایا، جسے پڑھ کر پادری کو بھی اپنی دنیا اندھیر ہوتی دکھائی دی،
خط تو اُسی کے نام لکھا ہوا تھا جس سے اُنہیں شکایت تھی،
اُنہیں یقین تھا کاغذ کا یہ ٹکڑا اُنہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا۔

🍀 مگر پھر بھی خط لیکر مجبورا اُس حاکمِ سمرقند کے پاس پہنچے جس کے فریب کا وہ پہلے ہی شکار ہو چکے تھے۔

حاکم نے خط پڑھتے ہی فورا ایک قاضی (جمیع نام کا ایک شخص) کا تعین کردیا جو سمرقندیوں کی شکایت سن سکے۔

موقع پر ہی عدالت لگ گئی،
ایک چوبدار نے قتیبہ کا نام بغیر کسی لقب و منصب کے پکارا، قتیبہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر قاضی کے رو برو اور پادری کے ساتھ ہو کر بیٹھ گیا۔

قاضی نے سمرقندی سے پوچھا، کیا دعویٰ ہے تمہارا ؟
پادری نے کہا : قتیبہ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ہم پر حملہ کیا، نہ تو اِس نے ہمیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی اور نہ ہی ہمیں کسی سوچ و بچار کا موقع دیا تھا۔

🍀 قاضی نے قتیبہ کو دیکھ کر پوچھا، کیا کہتے ہو تم اس دعویٰ کے جواب میں ؟
قتیبہ نے کہا : قاضی صاحب، جنگ تو ہوتی ہی فریب اور دھوکہ ہے،

سمرقند ایک عظیم ملک تھا،
اس کے قرب و جوار کے کمتر ملکوں نے نہ تو ہماری کسی دعوت کو مان کر اسلام قبول کیا تھا اور نہ ہی جزیہ دینے پر تیار ہوئے تھے،
بلکہ ہمارے مقابلے میں جنگ کو ترجیح دی تھی۔

سمرقند کی زمینیں تو اور بھی سر سبز و شاداب اور زور آور تھیں، ہمیں پورا یقین تھا کہ یہ لوگ بھی لڑنے کو ہی ترجیح دیں گے، ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا اور سمرقند پر قبضہ کر لیا۔

🍀 قاضی نے قتیبہ کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے دوبارہ پوچھا :
قتیبہ میری بات کا جواب دو،
تم نے ان لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت، جزیہ یا پھر جنگ کی خبر دی تھی ؟

قتیبہ نے کہا : نہیں قاضی صاحب، میں نے جس طرح پہلے ہی عرض کر دیا ہے کہ ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا تھا۔

قاضی نے کہا : میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنی غلطی کا اقرار کر رہے ہو، اس کے بعد تو عدالت کا کوئی اور کام رہ ہی نہیں جاتا۔

قتیبہ : اللہ نے اس دین کو فتح اور عظمت تو دی ہی عدل و انصاف کی وجہ سے ہے نہ کہ دھوکہ دہی اور موقع پرستی سے۔

میری عدالت یہ فیصلہ سناتی ہے کہ تمام مسلمان فوجی اور انکے عہدہ داران بمع اپنے بیوی بچوں کے، اپنی ہر قسم کی املاک، گھر اور دکانیں چھوڑ کر سمرقند کی حدوں سے باہر نکل جائیں اور سمر قند میں کوئی مسلمان باقی نہ رہنے پائے۔ اگر ادھر دوبارہ آنا بھی ہو تو بغیر کسی پیشگی اطلاع و دعوت کے اور تین دن کی سوچ و بچار کی مہلت دیئے بغیر نہ آیا جائے۔

پادری جو کچھ دیکھ اور سن رہا تھا وہ ناقابل یقین بلکہ ایک مذاق اور تمثیل نظر آ رہا تھا۔

چند لمحوں کی یہ عدالت، نہ کوئی گواہ اور نہ ہی دلیلوں کی ضرورت۔ اور تو اور قاضی بھی اپنی عدالت کو برخاست کرکے قتیبہ کے ساتھ ہی اُٹھ کر جا رہا تھا۔

اور چند گھنٹوں کے بعد ہی سمرقندیوں نے اپنے پیچھے گرد و غبار کے بادل چھوڑتے لوگوں کے قافلے دیکھے جو شہر کو ویران کر کے جا رہے تھے۔

لوگ حیرت سے ایک دوسرے سے سبب پوچھ رہے تھے اور جاننے والے بتا رہے تھے کہ عدالت کے فیصلے کی تعمیل ہو رہی تھی۔

اور اُس دن جب سورج ڈوبا تو سمرقند کی ویران اور خالی گلیوں میں صرف آوارہ کتے گھوم رہے تھے اور سمرقندیوں کے گھروں سے آہ و پکار اور رونے دھونے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں، اُن کو ایسے لوگ چھوڑ کر جا رہے تھے جن کے اخلاق ، معاشرت، برتاؤ، معاملات اور پیار و محبت نے اُن کو اور اُن کے رہن سہن کو مہذب بنا دیا تھا۔

🍀 تاریخ گواہ ہے کہ سمرقندی یہ فراق چند گھنٹے بھی برداشت نہ کر پائے، اپنے پادری کی قیادت میں لا الٰہ الاّ اللہ محمّد الرّسول اللہ کا اقرار کرتے مسلمانوں کے لشکر کے پیچھے روانہ ہوگئے اور اُن کو واپس لے آئے۔

اور یہ سب کیوں نہ ہوتا، کہیں بھی تو ایسا نہیں ہوا تھا کہ فاتح لشکر اپنے ہی قاضی کی کہی دو باتوں پر عمل کرے اور شہر کو خالی کردے۔

دینِ رحمت نے وہاں ایسے نقوش چھوڑے کہ سمرقند ایک عرصہ تک مسلمانوں کا دارالخلافہ بنا رہا۔

*مندرجہ بالا واقعہ شیخ علی طنطاوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب (قصص من التاریخ) کے صفحہ نمبر 411 (مصر میں 1932 میں چھپی ہوئی) سے لے کر اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔*

فیلڈمارشل "عمر پاشا":عثمانی کمانڈرعمرپاشا خلافت عثمانیہ کے نامور ترین فوجی افسران میں سے ایک تھے انہوں نے روس کو عبرتناک...
23/01/2019

فیلڈمارشل "عمر پاشا":
عثمانی کمانڈرعمرپاشا خلافت عثمانیہ کے نامور ترین فوجی افسران میں سے ایک تھے انہوں نے روس کو عبرتناک شکست دی۔ عمر پاشا پہلے مسلمان نہیں تھے بلکہ آسٹریا کے فوج میں تھے مگر عثمانی فوج سے متاثر تھے اس لیےاسلام قبول کیا اور ہجرت کرکےخلافت میں آکرعثمانی فوج میں شامل ہوگئے، عمر پاشا1806 کو آسٹریا میں پیدا ہوئے 1853 کو ترقی پاکرعثمانی فوج میں میجر جنرل بن گئے اسی سال خلافت اور روس کے درمیان یوکرائن میں جنگ چھڑ گئی جو دو سال جاری رہی جس میں خلافت نےروس کو نہ صرف یوکرائن میں شکست دی بلکہ رومانیا سے بھی نکال باہرکیا جس پر روس کے بادشاہ نے کہا:"میں اپنے چہرے پرعثمانی تھپڑ محسوس کر رہاہوں"، اسی شکست سے دلبرداشتہ ہوکر روس کا بادشاہ ہلاک ہوگیا، اس عظیم فتح کا اہم کردار عمر پاشاتھے جن کو اس کامیابی پرمزید ترقی دے کر فیلڈمارشل بنایا گیا۔ یہ عظیم کمانڈر 1871 کو اپنےخالق حقیقی سے جاملے۔
یہ ان کی بہت ہی نایاب تصویرہے۔

This is Jim Thorpe. Look closely at the photo, you can see that he's wearing different socks and shoes. This wasn't a fa...
23/01/2019

This is Jim Thorpe. Look closely at the photo, you can see that he's wearing different socks and shoes. This wasn't a fashion statement. It was the 1912 Olympics, and Jim, an American Indian from Oklahoma represented the U.S. in track and field. On the morning of his competitions, his shoes were stolen. Luckily, Jim ended up finding two shoes in a garbage can. That's the pair that he's wearing in the photo. But one of the shoes was too big, so he had to wear an extra sock. Wearing these shoes, Jim won two gold medals that day.

This is a perfect reminder that you don't have to resign to the excuses that have held you back. So what if life hasn't been fair? What are you going to do about it today? Whatever you woke up with this morning; stolen shoes, ill health, failed relationships, don't let it stop you from running your race. You can experience more in life if you'll get over the excuses and get on with living. You can have reasons or you can have results and you can't have both.





Ready to Serve you the finest verities of mutton and beef.  +923004559505
17/01/2019

Ready to Serve you the finest verities of mutton and beef.


+923004559505

10/01/2019
10/01/2019



+923004559505

*کمال کر دیا جاوید چوہدری نے* اس کالم میںسب دوست ضرور پڑھیںہر بات *سونے کے پانی* سے لکھنے کے قابل ہے آپ اگر پاکستانی ہیں...
31/12/2018

*کمال کر دیا جاوید چوہدری نے* اس کالم میں
سب دوست ضرور پڑھیں
ہر بات *سونے کے پانی* سے لکھنے کے قابل ہے


آپ اگر پاکستانی ہیں اور آپ اور آپ کا خاندان اگر اس ملک میں رہنا چاہتا ہے تو *آپ کو یہ چند سبق اپنے دماغ کی گرہ سے باندھ لینے چاہئیں۔*

*پہلا سبق*

ہمارے ملک میں کسی بھی وقت کسی کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے‘ آپ کو یقین نہ آئے تو ذوالفقار علی بھٹو‘ جنرل ضیاء الحق‘ غلام اسحاق خان‘ فاروق احمد لغاری‘ بے نظیر بھٹو‘ جنرل پرویز مشرف اور شریف فیملی کا تجزیہ کر لیجئے‘ یہ لوگ ملک کے طاقتور ترین لوگ تھے لیکن
ان کا کیا حشر ہوا‘ ان کا کیا حشر ہو رہا ہے؟ آپ ملک کے پانچ سابق آرمی چیفس کا پروفائل بھی نکال کر دیکھ لیجئے‘ آپ کو ان کی حالت پر بھی ترس آئے گا‘ آپ چیف جسٹس حضرات کے ساتھ ہونے والی ”ان ہونیوں“ کی فہرست بھی بنا لیں‘ آپ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو دیکھ لیجئے‘ ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جس میں چیف جسٹس انصاف کیلئے عوام کا سہارا لینے پر مجبور ہوگیا تھا‘ میں نے اپنی آنکھوں سے پولیس کے طاقتور افسروں کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں دیکھیں‘ ججوں کو اپنی فائلیں اٹھا کر مارے مارے پھرتے دیکھا اور نیب کے افسروں کو تحریری معافی مانگتے دیکھا‘ میں نے ملک کے طاقتور ترین سیاسی خاندان کو پورے خاندان سمیت جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوتے اور عوام کے سامنے دہائیاں دیتے بھی دیکھا‘ میں نے جنرل پرویز مشرف کو ملک سے بھاگتے بھی دیکھا‘ میں نے ملک کے نامور بیورو کریٹس کو جیلوں میں دھکے کھاتے بھی دیکھا اور میں نے مرتضیٰ بھٹو جیسے لوگوں کو بے نظیر بھٹو کی حکومت میں کراچی کی سڑک پر تڑپتے بھی دیکھا‘ صدر ایوب خان کے دور میں ملک میں 22 امیر ترین خاندان تھے‘ وہ تمام خاندان بھٹو کے دور میں ختم ہو گئے‘ بینکوں اور بحری جہازوں کے مالک دس برسوں میں کوڑیوں کے محتاج ہو گئے‘ دنیا کی سب سے بڑی کارگو کمپنی کراچی میں تھی‘ اس کے پاس ساڑھے تین سو بحری جہاز تھے‘ آج
اس کا مالک لاہور میں گم نام زندگی گزار رہا ہے‘ چو این لائی بیکو کمپنی کی فیکٹری دیکھنے لاہور آئے تھے‘ بیکو کے مالک سی ایم لطیف بعد ازاں جرمنی کے ایک گاؤں میں گم نام زندگی گزار کر فوت ہوئے‘ شریف فیملی تین بار زیرو ہوئی‘ ملک ریاض ملک کے امیر اور بااثر ترین شخص ہیں‘ میں انہیں 20 سال سے حکومتوں کےہاتھوں ذلیل ہوتے دیکھ رہا ہوں‘ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت پانچ برسوں میں اپنی لیڈر بے نظیر کو انصاف نہ دے سکی آصف علی زرداری کے خلاف آج بھی کرپشن کے مقدمے چل رہے ہیں‘ میاں نواز شریف اقامے کی بنیاد پر نااہل ہو چکے ہیں‘ شہباز شریف کے خلاف 14 لوگوں کے قتل کی سماعت شروع ہو رہی ہے اور یوسف رضا گیلانی کے بیٹے حج سکینڈل اور ایفی ڈرین کا تاج سر پر سجا کر پھر رہے ہیں جبکہ جنرل پرویز مشرف کے ریڈ وارنٹ جاری ہو رہے ہیں چنانچہ آپ جنرل ہیں‘سیاستدان ہیں‘ جج ہیں‘ بزنس مین ہیں‘ بیورو کریٹ ہیں یا پھر عام انسان ہیں ہمارے ملک میں کسی بھی وقت کسی کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے اور آپ کو اس ملک میں بہرحال اس خوف کے ساتھ زندگی گزارنی ہو گی‘

*دوسرا سبق*

آپ اگر اس ملک میں خوش حال ہیں اور غیر معروف ہیں تو پھر آپ کو کوئی خطرہ نہیں‘ آپ لاکھوں لوگوں سے بہتر زندگی گزار سکتے ہیں‘ آپ پھر تمام محکموں‘ تمام اداروں کو ”مینج“ کر لیں گے‘ آپ صبح اٹھیں‘ ناشتہ کریں‘ دفتر جائیں‘ پیسے کمائیں‘ شام کو واک کریں‘ فیملی کے ساتھ اچھا وقت گزاریں اور نو بجے سو جائیں‘ آپ کو کوئی نہیں پوچھے گا لیکن جس دن آپ کے پاس پیسے کم ہو گئے یا آپ ”لائم لائیٹ“ میں آ گئے یا لوگ آپ کے نام اور شکل سے واقف ہو گئے اس دن آپ کی زندگی عذاب ہو جائے گی اس دن آپ دھوتی سنبھالنے پرمجبور ہو جائیں گے۔

*تیسرا سبق*

ہمارے ملک میں *انسان کے پاس پیسہ ضرور ہونا چاہیے لیکن یہ ضرورت سے بہت زیادہ نہیں ہونا چاہیے‘* آپ کے پاس اگر پیسہ نہیں تو عذاب ہے اور یہ اگر بہت زیادہ ہے تو یہ بہت بڑا عذاب ہے‘ میں نے پوری زندگی کسی شخص کو بھوک سے مرتے نہیں دیکھا لیکن میں لوگوں کو زیادہ کھانے کی وجہ سے روز مرتے دیکھتا ہوں‘ میں لوگوں کو غربت کی وجہ سے پریشان دیکھتا ہوں لیکن میں نے آج تک کسی رئیس شخص کو بھی خوش نہیں دیکھا‘
ہمارے ملک میں لوگوں کو غربت نہیں مارتی ہمیشہ امارت مارتی ہے‘ آپ کے پاس اگر ضرورت سے چار گناہ زیادہ دولت موجود ہے تو پھر آپ کسی دن اپنے سالے‘ بہنوئی‘ بھائی‘ داماد یا پھر نالائق بیٹے کی ہوس کا لقمہ بن جائیں گے‘ میں نے آج تک رئیس لوگوں کو صرف کورٹس‘ کچہریوں‘ ہسپتالوں اور قبرستانوں میں دیکھا ہے‘ میں نے انہیں والد کے جنازے میں بھی لڑتے دیکھا چنانچہ آپ اگر اچھی اور پرسکون زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو *اپنی دولت کو کسی بھی حالت میں خوش حالی سے اوپر نہ جانے دیں‘*
آپ کا بیٹا جس دن کھڑے کھڑے ڈیڑھ دو کروڑ روپے کی گاڑی خرید لے یا پھر اپنی گھڑی‘ اپنی گاڑی اور اپنا گھر جوئے پر لگا دے یا ایک دو کروڑ روپے کی جائیداد ٹیلی فون پر بیچ دے آپ اس دن ڈر جائیں‘ آپ اس دن اپنی آدھی رقم خیرات کر دیں ورنہ دوسری صورت میں آپ کا اختتام ہسپتال یا پھر سڑک پر ہو گا‘ میں ایک صاحب کو جانتا ہوں‘ وہ خوشحال تھے‘ وہ جو کماتے تھے وہ اپنے اوپر‘ اپنے خاندان کے اوپر اور اپنی آل اولاد کی تعلیم پر خرچ کر دیتے تھے اور جو بچ جاتا تھا وہ اسے خیرات کر دیتے تھے‘وہ جب دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کے ترکے میں کچھ نہیں تھا‘ ان کے بچے آج بھی اکٹھے رہ رہے ہیں‘ یہ سب یک جان‘ یک قالب ہیں جبکہ ان کے دوسرے بھائی نے زندگی بھر دولت کمائی‘ وہ اپنے بچوں کیلئے کروڑوں روپے چھوڑ کر گئے‘ بچے والد کے انتقال کے بعد جائیداد کیلئے لڑے اور یہ آج تک لڑ رہے ہیں‘ سگے بھائی بہن ایک دوسرے کے جانی دشمن ہیں چنانچہ آپ کوشش کریں آپ کی دولت خوش حالی سے اوپر نہ جائے‘ یہ اگر چلی جائے تو آپ اسے ویلفیئر میں لگا دیں‘ آپ بھی بچ جائیں گے‘
آپ کا خاندان بھی اور معاشرہ بھی۔

*چوتھا سبق*

آپ جہاں تک ممکن ہو *ڈاکٹر اور ادویات سے پرہیز کریں‘* میں نے پاکستان میں ادویات‘ ڈاکٹروں اور ہسپتالوں پر اعتبار کرنے والے لوگوں کو ہمیشہ روتے دیکھا‘ ملک میں پرائیویٹ میڈیکل کالجز ڈاکٹروں کی بجائے قصائی پیدا کر رہے ہیں‘ یہ ناتجربہ کار بھی ہیں اور اناڑی بھی‘ پرائیویٹ ہسپتال باقاعدہ مذبح خانے ہیں‘ آپ پیٹ درد لے کر جائیں گے اور یہ آپ کا پورا پیٹ کھول کر رکھ دیں گے‘ آپ انجیکشن لگواتے اور آپریشن کرواتے ہوئے دس دس مرتبہ ”کاؤنٹر چیک“ کر لیا کریں‘
میں نے بے شمار مریضوں کو ”اوور ڈوز“ اور غلط انجیکشن کی وجہ سے مرتے دیکھا‘ میرے ایک دوست ایک وقت میں صرف ایک انجیکشن خریدتے ہیں‘ یہ دو دن سے زائد دواء بھی نہیں خریدتے‘ یہ کہتے ہیں میں نے ایک بار دو انجیکشن لے لئے تھے‘ نرس نے مجھے دونوں انجیکشن اکٹھے لگا دیئے تھے اور میں مرتا مرتا بچہ تھا‘ ایف بی آر کے ایک ممبر نے بیٹے کیلئے انجیکشن کی بڑی شیشی خرید لی‘ شیشی میں دس دن کی ڈوز تھی‘ بچے کو روز ایک سی سی انجیکشن لگنا تھا لیکن نرس نے پوری شیشی ڈرپ میں ڈال دی‘
بچہ تڑپ کر مر گیا‘ ہم آئے روز دایاں کی بجائے بایاں گردہ نکلنے اور رائیٹ کی بجائے لیفٹ آنکھ کے آپریشن کی خبریں سنتے رہتے ہیں اور میرے ایک دوست بال لگوانے اور دوسرے پیٹ کی چربی کم کرانے (لائیو سیکشن) کی وجہ سے انتقال کر چکے ہیں چنانچہ آپ کوشش کریں آپ کسی قسم کی کاسمیٹک سرجری نہ کرائیں‘ آپ آپریشن ہمیشہ تجربہ کار اور سمجھ دار سرجن سے کرائیں خواہ آپ کو اس کی کتنی ہی فیس کیوں نہ ادا کرنی پڑ جائے اور آپ کو جب کوئی ڈاکٹر دوائی لکھ کر دے تو آپ اس نسخے کو کسی دوسرے ڈاکٹر کو بھی چیک کرا لیا کریں‘

آپ کوشش کریں آپ کم کھانا کھائیں‘ روزانہ ورزش کریں اور گھی اور چربی استعمال نہ کریں‘ یہ تین عادتیں آپ کو ڈاکٹر‘ ہسپتال اور ادویات سے دور رکھیں گے اور یوں آپ اپنی موت اپنے ہاتھوں سے لکھنے سے بچ جائیں گے۔

*پانچواں سبق*

انسان کیلئے *ایک اللہ‘ ایک بیوی اور ایک موبائل کافی ہوتا ہے‘* میں نے ہمیشہ زیادہ خداؤں‘ زیادہ بیویوں اور زیادہ موبائل والے لوگوں کو پریشان دیکھا‘ یہ اکثر اوقات جلدی فوت ہو جاتے ہیں‘ پاکستان جیسے معاشرے میں ایک کے بعد دوسری شادی حماقت ہے‘
آپ اس حماقت سے جتنا بچ سکتے ہیں آپ بچ جائیں‘ دوسرا موبائل بھی انسان کی ٹینشن میں ہزار گنا اضافہ کر دیتا ہے اور آپ اگر ایک خدا سے مطمئن نہیں ہیں تو پھر آپ نعوذ باللہ ہزاروں خداؤں سے بھی خوش نہیں ہو سکتے چنانچہ ایک اللہ‘ ایک بیوی اور ایک موبائل فون زندگی اچھی گزرے گی ورنہ پوری پوری بربادی ہے۔

*چھٹا سبق*

آپ یہ بات پلے باندھ لیں آپ کو اس معاشرے میں *روزانہ عزت نفس اور انا کی قربانی* دینا پڑے گی‘ آپ جب بھی گھر سے باہر نکلیں گے‘
آپ جس کے ساتھ بھی لین دین کریں گے اور آپ جس سرکاری یا غیرسرکاری دفتر میں جائیں گے آپ کے ساتھ دھوکہ بھی ہو گا‘ آپ کے ساتھ وعدہ خلافی بھی ہو گی اور آپ کی عزت نفس بھی ضرور روندی جائے گی چنانچہ آپ جب بھی کسی سے ملیں اور آپ جب بھی کسی کے ساتھ ڈیل کریں آپ ذہنی طور پر انا کی قربانی کیلئے تیار رہیں آپ کو کم تکلیف ہو گی ورنہ آپ بہت جلد بلڈپریشر کے مریض بن جائیں گے‘ آپ میانی صاحب پہنچ جائیں گے۔

Leader
31/12/2018

Leader

ترجمہ اردو میں؛حقیقت 1؛ پڑھائی تمہیں ایک بہتر متکلّم (گفتگو کرنے والا) بنا سکتی ہے۔حقیقت 2؛ پڑوسی کبھی شکایت نہیں کریں گ...
31/12/2018

ترجمہ اردو میں؛
حقیقت 1؛ پڑھائی تمہیں ایک بہتر متکلّم (گفتگو کرنے والا) بنا سکتی ہے۔
حقیقت 2؛ پڑوسی کبھی شکایت نہیں کریں گے کہ تم بڑے زور سے پڑھتے ہو۔
حقیقت 3؛ علم کا نفوذ و شوق اب تک نہیں تھکا پس بہتر ہے کہ تم پڑھ لو۔
حقیقت 4؛ کتابوں نے گولیاں روک دی ہے۔ پس خود کو بچانے کی خاطر پڑھ لو۔
حقیقت 5؛ ڈاینا سور نہیں پڑھتے۔ دیکھیں ان کا حشر کیا ہوا۔

Address

Pul Chowki
Chakdara Fort
18800

Opening Hours

Monday 07:00 - 22:00
Tuesday 07:00 - 22:00
Wednesday 07:00 - 22:00
Thursday 07:00 - 22:00
Friday 07:00 - 22:00
Saturday 07:00 - 22:00
Sunday 07:00 - 22:00

Telephone

+923004559505

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Meat Stop posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Meat Stop:

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram