
04/08/2025
بچے دانی فورا نکلوا دیں !
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
کچھ دن پہلے فون پہ میسج کی گھنٹی بجی ۔ اٹھا کر دیکھا تو ایک الٹرا ساؤنڈ رپورٹ تھی اور ایک میسج ۔
“ میں فلاں کی بہن ہوں ، آپ کو فالو کرتی ہوں ۔ میں نے الٹرا ساؤنڈ کروایا تھا، رپورٹ آپ کو بھیج رہی ہوں ۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیے “
یوں تو رہنمائی فرمانے کے لیے ہمہ وقت ہم تیار رہتے ہیں مگر اس کے لیے بیک گراؤنڈ جاننا ازحد ضروری ہوتا ہے ۔حکیم صاحب تو ہم ہیں نہیں کہ پردے کے پیچھے بیٹھی خاتون کی کلائی پہ بندھا دھاگہ پکڑ کر تشخیص کر ڈالیں ۔
ساتھ میں کچھ نازک مزاج بھی ہیں سو عام حالات میں ادھورے پیغام پہ طبعیت برہم ہو جاتی ہے مگر یہاں معاملہ شناسا کی بہن کا تھا سو مزاج پہ قابو پاتے ہوئے پانچ چھ سوال لکھے ۔ الٹرا ساؤنڈ رپورٹ دیکھنے کی زحمت ہم نے نہیں کی ۔ وہ بعد کی بات ہے ، دیکھ لیں گے ۔
عمر ؟
ازدواجی حثیت ؟
بچے ؟
تکلیف ؟
جواب ملا ؛ عمر بیالس برس ہے ۔ شادی شدہ اور تین بچوں کی ماں ہوں ۔ تین چار ماہ پہلے ماہواری کا انداز کچھ بدل گیا ۔ ایک مہینے کی بجائے ڈیڑھ مہینے بعد آنے لگی ۔ میں نے ڈاکٹر کو چیک کروایا ۔ انہوں نے دوا کھانے کو دی ۔ ماہواری پھر سے نارمل ہو گئی ۔ ڈاکٹر صاحبہ نے ہی مجھے الٹرا ساؤنڈ کروانے کا کہا تھا۔ الٹرا ساؤنڈ دیکھ کر ڈاکٹر نے کہا بچے دانی فورا نکلوا دیں ۔
اب رپورٹ دیکھنے کی باری تھی ۔
بچے دانی کی دیواروں میں تین رسولیاں نظر آئی ہیں ۔ ایک کا حجم 4*3.1 سینٹی میٹر ہے ، دوسری 3.5*2.5 سینٹی میٹر اور تیسری 1.7*1.6 سینٹی میٹر ہے ۔
بچے دانی کی اندرونی جھلی نارمل ہے ، دونوں بیضہ دانیاں نارمل ہیں ۔
رپورٹ پڑھ کر ہم کچھ چکرائے ۔ اس رپورٹ کو دیکھ کر ہم نے پھر سے پوچھا ، آپ کو تکلیف کیا ہے ؟
جواب ملا ؛ کچھ نہیں ۔
کیا ماہواری زیادہ آتی ہے ؟
نہیں ۔
کیا بار بار آتی ہے ؟
نہیں ۔
کیا پیٹ کے نچلے حصے میں مثانے پر بوجھ پڑتا ہے ؟
نہیں ۔
جی چاہا قہقہہ لگا کر ہنسیں اور پھرجا کر ڈاکٹر صاحبہ سے دست بستہ ملاقات کی جائے اور ان سے ڈاکٹری کی تعلیم ہی لے لی جائے ۔
ہمارا جواب تھا؛ بچے دانی نکلوانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔
پھر کیا کروں ؟ حیرت بھرا سوال ۔
کچھ نہیں … ہمارا جواب ۔
کیا کسی دوا کا استعمال کرنا ہو گا ؟ ان کا اگلا سوال ۔
آپ کو کیا تکلیف ہے ؟ ہمارا سوال ۔
کچھ نہیں … ان کا جواب ۔
پھر کس بات کی دوا دوں آپ کو ؟ ہمارا سوال۔
پھر یہ .. یہ الٹراساؤنڈ رپورٹ .. وہ ہکلاتے ہوئے بولیں ۔
بھول جائیں اسے .. ہم نے کہا ۔
وہ .. وہ رسولیاں …
جی ہیں .. دیکھ لی ہم نے رپورٹ .. ہمارا جواب ۔
ان کا کیا کرنا ہے ؟ انہوں نے پوچھا ۔
کچھ نہیں .. بس سال چھ مہینے بعد ایک الٹرا ساؤنڈ دوبارہ کروا لیجیے گا ..حجم اور ماہیت دیکھنے کے لیے … ہم نے سمجھایا ۔
پھر .. پھر .. ڈاکٹروں نے کیوں کہا کہ بچے دانی نکلوا دو ؟ انہوں نے بے چینی سے پوچھا ۔
کیونکہ آپ مریض نہیں ، کلائنٹ ہیں .. تو کچھ تو بیچا جائے گا نا آپ کو .. ہم نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
صاحب اگر آپ پڑھتے پڑھتے یہاں تک آ ہی گئے ہیں تو آپ کو ان رسولیوں کے بارے میں بتاتے چلیں ۔
بچے دانی خاص قسم کے مسلز سے بنی ہوتی ہے۔ بعض دفعہ نامعلوم وجوہات کی بنا پر یہ مسلز آپ ہی آپ ضرورت سے زیادہ پھلنا پھولنا اور بڑھنا شروع کرتے ہیں اور پتھر جیسی سخت رسولیاں بنا دیتے ہیں ۔ بچے دانی میں بننے والی ان رسولیوں کو فائبرائڈ کہتے ہیں ۔
فائبرائڈ ز کا حجم ایک بیر سے لے کر تربوز کے سائز تک کا ہو سکتا ہے۔ جیسے ان صاحبہ کی پہلی رسولی ڈیڑھ انچ کی ، دوسری ایک انچ کی اور تیسری آدھے انچ کی تھی ۔ ماپنے والی ٹیپ پہ دیکھ لیں کہ ایک انچ کتنا بڑا ہوتا ہے اور پھر خود فاصلہ کریں کہ کھجور ، جامن اور بیر کے سائز کی رسولیوں والی بچہ دانی کو فورا نکلوانے کا مشورہ کیوں ؟ جب کہ خاتون کو کوئی تکلیف ہی نہیں ۔
رسولی نامی لفظ کا فوبیا ہمارے معاشرے میں اس قدر ہے کہ ہر رسولی کینسر سمجھی جاتی ہے جبکہ پچانوے فیصد رسولیاں عام سی ہوتی ہیں جیسے کسی عضو میں کوئی گٹھلی بن جائے ۔
اب آپ بتائیں کہ جب کوئی تکلیف نہیں ، درد نہیں ، ماہواری میں زیادہ خون نہیں پھر آپریشن کس چیز کا کیا جائے — چھوٹی یا درمیانے سائز کے لیموں جیسی رسولیوں کا جو رگ پٹھے سے بنی گھٹلیاں ہیں ۔
آپریشن تب کیا جاتا ہے جب یہ رسولی خربوزے جتنی بڑی ہو جائے، درد ہونے لگے یا ماہواری کا خون کوئی ندی نالہ بن جائے۔
لیکن جناب ہمارے ہاں پرائیویٹ ہسپتالوں کی روزی روٹی چونکہ انہی آپریشنز پر ہوتی ہے سو وہاں بیر جتنے فائبراؤڈ کے لیے مشورہ یہی دیا جاتا ہے کہ آپریشن کروائیں اور نکلوا دیں ۔
لوگ رسولی کا نام سنتے ہی اتنے خوفزدہ ہو جاتے ہیں کہ کچھ سوال جواب کیے بنا آپریشن پر رضا مند ہو جاتے ہیں ۔ جان لیجیے ، چھوٹے چھوٹے فائبراؤڈ اور جن کے ساتھ ماہواری نارمل ہو ، نکلوا نا دانش مندی نہیں ۔ ہاں ہر چھ مہینے بعد الٹرا ساؤنڈ کروا لینا چاہئے وہ بھی اس لیے کہ اگر فابراؤڈ نامی رسولی میں کوئی تبدیلی آنے لگے تو اسے حل کیا جائے ۔
یہ بھی یاد رکھیے کہ ایسی بہت سی پیچیدگیاں بھی موجود ہیں جن میں بچے دانی نکلوانا ہی آخری حل ہوتا ہے ۔ پھر کیسے جانا جائے کہ بچے دانی کب نکلوانی ہے اور کب نہیں ؟
صاحب ، ڈاکٹری ایک آرٹ ہے اور اس آرٹ میں ہر مریض دوسرے سے مختلف ہے اور ہر کسی کا علاج بھی اس کے جسم کے مطابق کیا جانا چاہئے ( مالی فائدے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ، مگر پھر پرائیویٹ ہسپتال کیسے چلیں گے ؟ ) ۔
کب ؟ کیسے ؟ کیوں ؟ کا آرٹ خواتین کو سیکھنا چاہیے، جیسے ایک لباس ہر کسی کو پورا نہیں آ سکتا بالکل ویسے ہی ایک طریقہ علاج سب کے لیے نہیں ہوتا ۔
پڑھیے ، جانیے ، سمجھیے اور حفاظت کیجیے اپنے جسم کی …
یہی ہے گائنی فیمنزم !