26/04/2025
کسی غریب کا بچہ جب اپنے بل بوتے پر، اپنی محنت سے کوئی بڑا مقام پا لیتا ہے تو وہ صرف اپنے خاندان کا ہی نہیں اپنے علاقے اپنی مٹی کا بھی فخر بن جاتا ہے۔
نوجوان ڈاکٹر الیاس (ایم بی بی ایس) تلہ گنگ کا فخر تھا۔ اللہ نے کمال ذہانت عطاء کر رکھی تھی، تعلیم کے ابتدائی ایام سے گریجویشن تک اس ناقابل یقین کارکردگی نے سب کو حیران کئے رکھا۔
الیاس نے میڈیکل کو اپنا کیریئر بنانے کا فیصلہ کیا تو سب سے بڑی رکاوٹ جو ہم غریب اور متوسط طبقے کے بچوں کے رستے میں حائل ہوتی ہے یعنی وسائل کی کمی سامنے کھڑی تھی، والدین سفید پوش تھے مگر علم دوست تھے، والد مکینک تھے اپنی چھوٹی سے ورکشاپ سے گھر کا نظام چلاتے تھے، والدہ سادہ مزاج گھریلو خاتون دونوں نے اپنے اکلوتے بیٹے کے خواب پورے کرنے کے لئے کمر کس لی، الیاس نے دن رات محنت کی اور کرغزستان کے ایس ٹینٹیشیو میموریل میڈیکل یونیورسٹی میں سکالرشپ حاصل کرلی۔
اپنے سیکنڈ ایئر کے امتحانات کے دوران الیاس کے والد چل بسے، گھر والوں نے الیاس کو تسلی دی کے امتحانات مکمل کرو، والد کا خواب پورا کرو، وہ والد کی وفات پر پاکستان نہ آسکا، اسے نہ تو والد کے جنازے کو کندھا نصیب ہوا نہ چہرے کا آخری دیدار۔ وہ لگا رہا ، دن رات محنت کرتا رہا، والدہ نے خاوند کی وفات کے بعد گھریلو صنعت کے کچھ کام اپنائے کہ اپنے بچوں کی ضروریات پوری کرسکیں، الیاس کے چچا نے بھائی کی وفات کے بعد بھتیجے کی تعلیم مکمل کروانے کا بیڑا اٹھالیا۔ دن مہینے سال گزرتے گئے اور ایم بی بی ایس فائنل ائیر آگیا۔
یہ دسمبر 2024 تھا الیاس کو پیٹ اور انتڑیوں میں درد محسوس ہوتا تھا مگر وہ شاید مہنگے علاج کے ڈر سے یا پھر کسی انجانے خوف کی وجہ سے اسے زیادہ اہمیت نہ دیتا، کہ ابھی تو تعلیم مکمل ہوچکی اب تو واپس پاکستان جانا ہے 6 سال بعد والدہ سے بہنوں سے ملنا ہے، والد کی قبر پر جانا ہے۔ بس چندہ ماہ ہی تو رہ گئے ہیں۔
پھر جنوری 2025 آیا ایم بی بی ایس کا فائنل امتحان، الیاس پیپرز تو دے رہا تھا مگر دن بدن اسکی صحت گرتی جارہی تھی، پیٹ کا درد ناقابل برداشت حد تک بڑھ جاتا اس کے روم میٹز یہ حالت دیکھ پریشان ہوجاتے، مگر وہ اس کرب کو برداشت کرتا رہا اور امتحانات دیتا رہا۔ آخر ایک دوست نے الیاس کے گھر اطلاع کردی کے اسکی طبیعت بگڑتی جارہی ہے آپ اسے پاکستان بلوا لیں۔
گھر والوں کو خاصی تشویش ہوئی الیاس کو قائل کیا اور جیسے تیسےآخری پیپر دیتے ہی وہ پاکستان آگیا۔ ہسپتال لے جایا گیا تو ڈاکٹرز نے سگمائیڈ کولن کینسر کی تشخیص کردی۔ الیاس کا کینسر انتڑیوں میں پھیل چکا تھا علاج کسی صورت ممکن نہیں تھا۔ یہ خبر خاندان پر بم بن کر گری، والدہ جو 6 سال سے انتظار میں تھی اپنے بیٹے کو اس حال میں ملی کہ وہ بستر پر لگ چکا تھا۔
الیاس کے علاج کے لئے پاکستان بھر کے بڑے ہسپتالوں میں رابطے شروع کردیئے گئے، سارا خاندان الیاس کی والدہ کے ساتھ کھڑا ہوگیا، کہ کچھ بن پڑے سب کچھ لٹا کر بھی الیاس کو بچائیں گے۔ گھر پر قرآن خوانی اور ورد اذکار بھی شروع ہوگئے، صدقے بھی دیئے گئے اور علاج کی کوششیں بھی جاری رہیں۔
اہسے میں الیاس کا فائنل رزلٹ آگیا، اس نے ایم بی بی ایس کا امتحان پاس کرلیا تھا، اب وہ الیاس سے ڈاکٹر الیاس بن چکا تھا، اس نے عملی طور پر والدین کا خواب پورا کردیا تھا۔
وہ لمحہ جب الیاس کے ہاتھ میں اسکی مارکس شیٹ آئی وہ بلک بلک کر رویا، یہ صرف ایک مارک شیٹ نہیں تھی، اسکے والدین کی برسوں کی امید تھی، اس کے خاندان کا فخر تھا، اس بہنوں کا مان تھا۔ وہ یہ مارکس شیٹ ایسے تو وصول نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔۔
اللہ قہار ہے وہ اپنے پیارے بندوں کو آزماتا ہے، جو اس کے جتنا قریب ہوتا ہے وہ اس پر اس فانی دنیاء میں آزمائش بھی زیادہ ڈالتا ہے تاکہ اس ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی میں اپنے بندے پر بے پناہ انعام و اکرام کرسکے۔
25 اپریل 2025 ڈاکٹر الیاس کا انتقال ہوگیا۔ ڈگری مکمل کرنے کے محض 2 ماہ بعد ہی وہ اس دار فانی کو چھوڑ کر چلا گیا۔ جنازے کے مناظر انتہائی رقعت انگیز تھے، ہر آنکھ اشکبار تھی، پورا علاقہ سگوار تھا۔ مٹی کی آغوش میں جانے والا ڈاکٹر الیاس اپنے ساتھ سارے خواب بھی لے گیا ساری امیدیں ساری خوشیاں بھی لے گیا۔
اللہ کریم ڈاکٹر الیاس کی والدہ اور تمام سوگواران کو صبر دے اور تلہ گنگ کی سر زمین کو ایسے قابل بچے عطاء کرتا رہے جو ملک و قوم کا فخر بنیں۔ آمین