07/01/2024
جذبات کی بیماریاں (Affective disorders):
یہ بیماریاں لوگوں کے مزاج پر اثر انداز ہوتی ہیں۔اس گروپ میں تین بیماریاں شامل کی جاتی ہیں
1۔ مایوسی میں مبتلا ہونا (Depression)۔
2. جنونی بشاشت (Mania) ۔
3. جب مریض پر ان دونوں کیفیات میں باری باری مبتلا ہو نے کے دورے پڑیں (Bipolar disorders)، یعنی مریض کچھ عرصے کیلئے بلاوجہ بہت خوشی محسوس کرتے ہوئے اپنے اندر بھر پور طاقت محسوس کرتے ہیں اور پھر کچھ ہی دیر میں شدید مایوسی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
مایوسی (Depression):
اس بیماری میں مریض بلاوجہ (Primary) یا کسی خاص وجہ (Secondary) سے شدید مایوسی (Sadness)میں مبتلا رہتے ہیں، طبیعت میں اضطراب رہتا ہے، زندگی بے وقعت محسوس ہوتی ہے اور بلا وجہ اپنے آپ کو زندگی کے مختلف منفی واقعات کا قصور وار سمجھتے ہیں۔ اپنے دفتری یا کاروباری کام کاج اور زندگی کے دیگر سماجی تعلقات سے دل اچاٹ ہوجاتا ہے جسکی وجہ سے وہ اپنے دنیاوی اور دینی فرائض پر توجہ مرکوز نہیں کرپاتے۔ نتیجتاً ان میں صحیح اور بروقت فیصلہ کرنے کی صلاحیت مفقود ہوجاتی ہے جسکے اثرات انکے کاروبار اور دفتری استعداد پر بُری طرح پڑتے ہیں اور یا تو انکا کاروبار دن بدن تنزل کا شکار ہوکر تباہ ہوجاتا ہے اور یا وہ اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ان نفسیاتی علامات کے علاوہ ایسے مریضوں کی بھوک، نیند اور نفسانی خواہشات (Biological activities) پربھی بڑا گہرا اور اکثر منفی اثر پڑتا ہے، جسکی وجہ سے ایسے مریضوں میں بھوک یا تو مکمل اڑ جاتی ہے اور وہ دن بدن کمزور ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور یا اسکے برعکس بعض مریضوں میں (خاص طور پر خواتین میں) کھانے کا رجحان بڑھ جاتا ہے اور وہ دن بدن فربہی مائل ہوتے جاتے ہیں۔ نیند اکثر اڑ جاتی ہے یا کبھی کبھی زیادہ بھی ہوجاتی ہے۔نفسانی خواہشات (sex-drive یا Libido) بالکل معدوم ہو کرمزید مایوسی کا باعث بن جاتی ہیں۔(بد قسمتی سے نیند اور بھوک کے برعکس نفسانی خواہش پر ہمیشہ منفی اثر ہی پڑتا ہے)۔
جب یہ دورے بلا وجہ یا بغیر کسی حادثے، کاروباری نقصان یا قریبی رشتہ دار کی موت کے آئیں تو یہ ایک اہم نفسیاتی بیماری ہوتی ہے جسے ہم ابتدائی مایوسی یا Primary depression کہتے ہیں۔ دوسری طرف اگر یہ زندگی کے کسی شدید حادثے یا نقصان یا کسی دائمی لاعلاج بیماری کی وجہ سے ہوں تو اسے ہم ثانوی مایوسی یا Secondary depression کہتے ہیں۔ان واقعات میں مندرجہ بالا وجوہات کے علاوہ، کاروباری نقصان، ازدواجی علیحدگی، بےروزگاری، سماجی اور معاشی الجھنیں وغیرہ شامل ہیں۔ اس قسم کے تمام واقعات مثلاً کسی بھی قریبی عزیز کی موت کسی بھی شخص میں شدید وقتی صدمہ کا باعث بن سکتی ہے جسے ہم Acute bereavement reaction کہتے ہیں جو ایک فطری رد عمل ہے، تاہم اگر یہ صدمہ شدید نوعیت کا ہو اور زیادہ مدت تک برقرار رہ کر شدید مایوسی کا باعث بنے تو یہ ایک مرض بن جاتا ہے جسے ہم موضیاتی صدمہ یا Pathological bereavement reaction کہتے ہیں جو کبھی کبھی شدید اُداسی کو جنم دے کر مریض کی زندگی کو تباہ کردیتا ہے۔اسی طرح بعض دائمی اور لا علاج طبی بیماریوں کی تشخیص بھی ایسے مریضوں میں شدید مایوسی کا سبب بن سکتی ہے۔ مثلاً کینسر، ذیابیطس، فالج کا ہوجانا، دائمی ہیپاٹائٹس بی یا سی، دائمی جوڑوں کا مرض مثلاً (Rheumatoid arthritis)، دمہ کا مرض اور ایڈز وغیرہ۔ یہ تمام امراض مریض کے طرزِ زندگی، خاندانی کفالت اور زندگی کی دوسری سرگرمیوں پر شدید اثر انداز ہوتے ہیںجسکی وجہ سے اکثر مریضوں کی آزادی اور خود مختاری پر شدید ضرب پڑتی ہے اور جلد یا بدیر ایسے مریض دوسروں کے محتاج ہوجاتے ہیں۔ان تمام وجوہات کی بنا پر یہ مریض اکثر شدید مایوسی کا شکار ہوکر کبھی کبھی اپنے علاج سے بھی متنفر ہوجاتے ہیں۔ بحیثیت مسلمان، ہم سب یہ جانتے ہیں کہ ”ناامیدی کفر ہے“ اسلئے ایسے مریضوں کے معالجین پر یہ لازم ہے کہ وہ نفسیاتی طور پر اپنے مریضوں کی حوصلہ افزائی(Psychological support) کرتے رہیں اور انہیں نا امیدی سے بچا کر رکھیں۔ بحیثیت ایک طبیب یہ ڈاکٹر کا فرض ہے کہ وہ جس حد تک ممکن ہو مریض کے جسمانی اور ذہنی آرام کا خیال رکھے، خوش اخلاقی سے پیش آئے اور شفا کے بارے میں مریض کی آس نہ توڑے۔ یہاں میں ایک حدیث بیان کرتا چلوں کہ جب ایک دفعہ حضور ﷺ ایک طبیب سے ملے تو آپ ﷺ نے طبیب سے فرمایا کہ ” اَنتَ رَفیقٌ وَاللہُ طَبِیبٌ“ یعنی ”تم مریض کے خیر خواہ ہواور بے شک طبیب توصرف اللہ ہی ہے“۔ اس حدیث کی رو سے یہ ڈاکٹر اور دواؤں کے بس کی بات نہیں کہ وہ مریض کے شافی بنیں بلکہ یہ صرف اللہ کے اختیا ر میں ہے کہ وہ کسی کو کسی بھی وقت کسی بھی بیماری سے شفا دیدے۔اس حدیث کی روشنی میں کسی بھی طبیب کا اپنے مریض کو یہ کہنا کہ تمہارا مرض لا علاج ہے یا یہ کہ تم اس دنیا میں چند مہینوں کے مہمان ہو، سخت غیر اخلاقی اور غیر پیشہ ورانہ فعل ہے۔
مایوسی کا علاج
جہاں تک مایوسی میں مبتلا مریض کے علاج کا تعلق ہے تو سب سے پہلے ڈاکٹر کا یہ فرض ہے کہ وہ اس بات کا تعین کرے کہ مریض میں موجود یہ مایوسی ابتدائی ہے یا ثانوی؟۔ اس مقصد کے حل کیلئے مریض کی زندگی کے حالات، کاروبار اور نوکری کی نوعیت اور انکے بارے میں حالیہ نقصانات، ماضی قریب میں کسی عزیز کی موت، محبت میں ناکامی یا طلاق وغیرہ کے بارے میں مکمل تفصیلات حاصل کرنی چاہیئں۔ یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ روزمرہ زندگی کے یہ تمام واقعات ابتدائی نفسیاتی مایوسی (Primary psychiatric depression) میں مبتلا مریضوں میں بھی انکی بیماری کے بگڑنے کا باعث بن سکتے ہیں۔لہذا ان واقعات کے پیش آنے سے قبل مریض کی ذہنی کیفیات اور مایوسی کی شدت کے بارے میں مکمل تفصیل اور ماضی میں تجویز شدہ علاج کے متعلق مکمل آگاہی اس سلسلے میں کافی مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ اگر مریض ابتدائی نفسیاتی مایوسی کا شکار ہے تو معا لج کا یہ فرض ہے کہ اس مایوسی کی شدت کا تعین کرے کہ آیا یہ معمولی، درمیانی یا شدید نوعیت کی مایوسی کا دورہ ہے اور اسی کے مطابق اسکے علاج کا تعین کرے۔ اگر مایوسی کا یہ دورہ معمولی نوعیت کا، خاص طور پر اگرزندگی کے کسی ناموافق واقعہ کی پیداوار ہے تو مریض کو دواؤںکی بجائے نفسیاتی تسلّی (Psychotherapy) دینی چاہئے اور اس غم کو اللہ کی رضا کی خاطر برداشت کرنے کا مشورہ دینا چاہیے۔ چونکہ اکثر اوقات ایسے مریضوں کا اپنے ڈاکٹر سے مشورے کا مقصد مایوسی کا علاج نہیں بلکہ مایوسی کی پیدا کردہ دیگر جسمانی علامات کا علاج ہوتا ہے، اسلئے ڈاکٹر کو چاہیے کہ وہ ان مریضوں میں نیند، بھوک اور نفسانی خواہشات میں گڑ بڑ کی نوعیت کی تشخیص کرکے انکا علاج بھی تجویز کرے۔درمیانی نوعیت کی مایوسی میں مبتلا مریضوں کےعلاج میں علاوہ پیشہ ورانہ مشاورت برائے نفسیاتی اصلاح (Psychotherapy) کے علاوہ ردِ مایوسی دواؤں (Anti-depressant drugs) کی بھی اہمیت ہے۔تاہم دوائیں ایسی تجویز کرنی چاہیئں جو زیادہ تیز نہ ہوں اور ان دواؤں کی مقدار (Dose) بھی کم سے کم رکھنی چاہیے۔ شروع شروع میں یہ دوائیں زیادہ سے زیادہ تین چار مہینوں کیلئے دی جاتی ہیں، جسکے بعد انکو آہستہ آہستہ بند کردیا جاتا ہے۔
شدید قسم کی مایوسی کے دوروں میں اکثر مریضوں کی زندگی بالکل تباہ ہوکر رہ جاتی ہے، خاندان اجڑ جاتا ہے، کاروبار تباہ ہوجاتا ہے اور انہی وجوہات کی بنا پر اکثر مریض خود کشی جیسا انتہائی قدم اٹھانے پرمائل ہوجاتے ہیں، یا کم از کم اسکے بارے میں سوچنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی خطرناک صورتِ حال ہوتی ہے، جسکی اگر بروقت تشخیص اور علاج نہ کیا جائے تو مریض خود کشی کے ارادے سے یا تو کوئی زہر کھا لیتا ہے، دواؤں کی بہت زیادہ مقدار لے لیتا ہے یا پھر اپنے آپ کو گولی مار لینے جیسا قدم اٹھا لیتا ہے۔ یہ تمام اقدامات یا تو مریض کی زندگی کا خاتمہ کردیتے ہیں یا بعض دفعہ مستقل جسمانی اور دماغی نقص کا باعث بن جاتے ہیں۔اس قسم کی مایوسی کو ہم Major depressive illness یا Psychotic depression کہتے ہیں جسکا بروقت اور مناسب علاج انتہائی ضروری ہے، ورنہ مریض اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ بعض اوقات ایسے مریض شدید چڑچڑاہٹ اور تلخ مزاجی (Aggressiveness) کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسروں کو بھی نقصان پہنچادیتے ہیں۔ یعنی ایسے مریض نہ صرف اپنے لئے، بلکہ اپنے ارد گرد افراد کیلئے بھی خطرہ ہوتے ہیں۔
ایسے اکثر مریضوں کو فوراً ہسپتال میں داخل کر کے نہ صرف مقوی ردِ مایوسی (Potent anti-depressants) کی دواؤں کا استعمال شروع کرادینا چاہیے، بلکہ ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ مشاورت برائے نفسیاتی اصلاح (Psychotherapy) کی نشستیں بھی منعقد کرنی چاہیئں۔ بعض ایسے مریضوں میں جنکی طبیعت مناسب مقدار میں دواؤں اور Psychotherapy سے بہتر نہیں ہوپارہی یا وہ خود کشی کرنے پر شدت سے مصر ہیں تو ایسے مریضوں کی جان بچانے کیلئے ایک اور طریقہ علاج پر عمل کیا جاتا ہے، جس میں مریض کو بے ہوش کرکے انکے دماغ کو ایک خاص مشین کے ذریعے بجلی کے ہلکے جھٹکے دیے جاتے ہیں، جسے ہم Electro-convulsive therapy یا ECT کہتے ہیں۔ اس طریقہ علاج سے 50% مریض مستفید ہوتے ہیں اورا سکے مفید اثرات ایک سال تک قائم رہ سکتے ہیں۔ اسکے علاوہ شدید مایوسی کے ادراکی کردار سازی(CBT) یا تنویمی علاج بھی اہمیت کے حامل ہیں۔انہیں ہم علی الترتیب Cognitive Behavioral Therapy اور Hypnotherapy کہتے ہیں۔
ردِ مایوسی دواؤں (Anti-depressant drugs,ADD) کا تعارف
جودوائیں ڈپریشن میں استعمال کی جاتی ہیں، ان میں SSRI، TCA،SNRI، اور MAOIگروپ کی دوائیںشامل ہیں۔ان میںسے ہرگروپ کی دواؤں کی اپنی خصوصیات (Characteristics)، منفی اثرات(Side effects) اوردوسری دواؤں کے ساتھ ان کا باہمی عمل (Interaction) ہوتا ہے۔ اور یہ ڈاکٹرحضرات کا فرض ہے کہ وہ نہ صرف ان دواؤں، بلکہ کسی بھی دوا کو اپنے مریضوں میں تجویز کرنے سے پہلے انکے بارے میں مکمل معلومات رکھیں۔ جس طرح ہر انسان کی شکل اور مزاج ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے ویسے ہی ہر انسان میں دواؤں کا عمل اور ردِعمل بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ ہر دوائی ایک خاص مرض میں ہر مریض میں مؤثر ثابت ہو۔ اسلئے یہ معالجین کا فرض ہے کہ وہ مندرجہ بالا تمام عوامل پر نظر رکھ کر اپنے مریض کیلئے بہترین دوائی کا انتخاب کریں۔اس مد میں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ردِ مایوسی دواؤں کا اثر شروع ہونے اور پورے طریقے سے کارگر ہونے میں دو سے تین ہفتے لگ سکتے ہیں جسکے بعد ہی کسی مریض میں کسی ردِّ مایوسی دواؤں کے مؤثر یا غیر مؤثر ہونے کے بارے میں کوئی رائے قائم کی جاسکتی ہے۔ اور کس مریض میں کون سے گروپ کی دوائی کار گر ہوگی؟ یہ معالج کی معلومات اور انکی صوابدید پر ہے۔ یہاں ڈاکٹر حضرات کی خدمت میں، یہ عرض کرتا چلوں کہ اپنے مریضوں میں دوائیں تجویز کرتے وقت انکی کارکردگی یا تا ثیر کے ساتھ ساتھ انکی قیمتوں کو بھی مدِ نظر رکھیں۔ دواسازی کی صنعتوں اور مختلف الانواع دواؤں کی بھر مار نے دواؤں کا انتخاب ڈاکٹروں اور مریضوں دونوں کیلئے مشکل کردیا ہے۔ہر کوئی ملٹی نیشنل یا لوکل دواؤں کے چکر میں پڑا ہوا ہے، کہ کونسی دوا صحیح ہے اور کونسی غلط۔۔۔؟ اس تذبذب کو ختم کرنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ ان دواؤں کے معیار اور انکے درمیان فرق کے بارے میں عوام الناس کو آگاہ کیا جائے۔میرے خیال سے پاکستان میں بنی ہوئی دوائیں بھی اتنی ہی کارگر ثابت ہوتی ہیں جتنی کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی بنائی ہوئی دوائیں، اور میں پاکستان میں بنی دواؤں پر بھی اتنا ہی یقین رکھتے ہوئے اپنے مریضوں کو لوکل دوائیں تجویز کرتا ہوں اور جو اللہ کے فضل و کرم سے شفاء کا باعث بھی بن رہی ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر انتخاب عالم (جاری ہے)