
27/09/2025
18 سال کا بچہ، منہ ایسے جیسے تندور میں کلچا لٹکا ہوا ہو۔
ماں پریشان تھی، بچے کی حالت دیکھ کر۔
جب میں نے پوچھا:
"یہ کالج میں پڑھتا ہے؟"
تو ماں کے سارے دکھ چھڑ گئے۔ کہنے لگی:
"بس کیا بتاؤں ڈاکٹر صاحب! موبائل کی جان ہی نہیں چھوڑ رہا۔ بس موبائل پہ لگا رہتا ہے۔ پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے۔ اگر کمپیوٹر پہ بیٹھتا ہے تو وہاں بھی رات کے 11، 12 بلکہ ایک بج جاتے ہیں۔ میری سمجھ سے بالکل باہر ہے۔ میں بہت پریشان ہوں۔ اس بچے نے مجھے بہت تنگ کر دیا ہے۔ کچھ ان لائن بتاتا رہتا ہے کہ میں آن لائن کام کرتا ہوں، لیکن میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔ اس کی کمر بھی گول ہو گئی ہے۔"
خیر، میں نے بچے سے بات کی۔ اس کی ساری بات سنی، بہترین طریقے سے دلاسہ دیا اور اچھے انداز میں سمجھایا۔
اس کی دوائی جو بنتی تھی وہ شروع کی۔
بیٹھنے کا انداز درست کروایا۔
خوراک بہتر کی۔
اور والدہ کو سمجھایا:
"آپ اس کو اس طریقے سے کام کرنے دیں۔ ان شاءاللہ یہ بچہ درست راستے پر جا رہا ہے اور بہترین رزلٹ ملے گا۔"
لیکن ماں تھی، اتنی جلدی تسلی کہاں ہونے والی تھی۔
اس کا ایک ہی مسئلہ تھا:
"بچہ موبائل دیکھ دیکھ کر کمزور ہوتا جا رہا ہے، کوئی ایسی دوا دیں کہ یہ موبائل چھوڑ دے۔"
بہرحال ہم نے اس کا ماحول (انوائرمنٹ) بدلا۔
جہاں دوا کی ضرورت تھی، دوا دی۔
جہاں خوراک بہتر کرنا تھی، وہاں خوراک بدلی۔
جہاں ماحول کی تبدیلی ضروری تھی، وہ کی۔
الحمدللہ کچھ عرصے کے بعد وہ بچہ ٹھیک ہو گیا۔
خیر پڑھنے والوں کے لئے پیغام یہ ہے کہ
جدید دور میں جدید تقاضے ہیں۔ ان تقاضوں سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ:
جہاں خوراک کی ضرورت ہے وہاں خوراک دیں۔
جہاں ماحول کی تبدیلی چاہیے وہاں تبدیلی کریں۔
جہاں دوا کی ضرورت ہے وہاں دوا ضرور دیں۔
ہومیوپیتھک دوا فطرت کے عین مطابق ہے۔
اگر اس ضمن میں ہمارے مشورے کی ضرورت ہو تو بلا جھجک رابطہ کریں۔
03007613097