Personality Assessment

Personality Assessment You can easily know about your self..... its not about Your Future or Past related ... its about your Present Nature

23/11/2025

03/11/2025
14/04/2025

کسی گھنے جنگل میں ایک بکری بے فکری سے اِدھر اُدھر گھوم رہی تھی، جیسے اُسے کسی خطرے کا کوئی ڈر نہ ہو۔ ایک درخت پر بیٹھا کوا یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ نیچے اُترا اور بکری سے پوچھنے لگا:

"بہن! تمہیں جنگل کے خونخوار جانوروں سے کوئی خوف نہیں؟ اتنی نڈر اور بے فکر کیسے ہو؟"

بکری نے مسکرا کر کہا:
"کچھ عرصہ پہلے ایک شیرنی مر گئی تھی، اپنے دو چھوٹے بچوں کو جنگل میں تنہا چھوڑ کر۔ میں نے اُن پر ترس کھایا اور اُنہیں اپنے دودھ سے پالا۔ آج وہ دونوں شیر جوان ہو چکے ہیں اور پورے جنگل میں اعلان کر رکھا ہے کہ ’ہماری بکری ماں کو کوئی میلی آنکھ سے نہ دیکھے‘۔ اب جنگل کا کوئی درندہ، خواہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، میری طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔"

کوا بہت متاثر ہوا اور دل میں سوچنے لگا:
"کاش مجھے بھی کبھی ایسا نیکی کا موقع ملے کہ پرندوں کی دنیا میں میرا بھی کوئی مقام بن جائے۔"

یہ سوچتے ہوئے وہ اُڑتا جا رہا تھا کہ اچانک اُس کی نظر دریا میں ڈبکیاں کھاتے ایک چوہے پر پڑی۔ فوراً نیچے اُترا، چوہے کو پانی سے نکالا اور ایک پتھر پر لٹا کر اپنے پروں سے ہوا دینے لگا تاکہ وہ خشک ہو جائے۔

جیسے ہی چوہے کے حواس بحال ہوئے، اُس نے بنا سوچے سمجھے کوے کے پر کترنے شروع کر دیے۔ کوا نیکی کی دھن میں مست، اور چوہا اپنے فطری مزاج میں مصروف۔ تھوڑی ہی دیر میں چوہا بالکل خشک ہو گیا اور بھاگتا ہوا اپنے بل میں جا گھسا۔

کوا اپنی نیکی پر خوش ہو کر آسمان کی طرف پرواز کرنے لگا، لیکن چند ہی لمحوں میں زمین پر منہ کے بل آ گرا۔ اُس کے پر کٹے ہوئے تھے اور اب وہ اُڑنے کے قابل نہ رہا۔ بس زمین پر کبھی اُچھلتا، کبھی گھسٹتا۔

اتفاق سے بکری ادھر سے گزری تو کوے کو اُس حال میں دیکھ کر پوچھا:

"ارے بھائی کوے! یہ کیا حال بنا رکھا ہے؟"

کوا غصے سے بولا:
"یہ سب تمہاری باتوں کا نتیجہ ہے! تم سے متاثر ہو کر میں نے نیکی کے جذبے میں چوہے کی جان بچائی، مگر اُس نے میرے پر ہی کتر ڈالے!"

بکری ہنس پڑی اور کہنے لگی:
"ارے نادان! اگر نیکی ہی کرنی تھی تو کسی شیر کے بچے کے ساتھ کرتا۔ چوہا تو آخر چوہا ہی رہے گا۔ بدذات اور بداصل کو نیکی راس نہیں آتی۔ ایسے کے ساتھ بھلائی کا یہی انجام ہوتا ہے جو تمہارے ساتھ ہوا۔"

اسی پر میاں محمد بخش رحمۃ اللہ علیہ کا ایک شہرہ آفاق شعر یاد آ گیا:

"اصلاں نال جے نیکی کرئیے، نسلاں تائیں نئیں بھُلدے
بدنسلاں نال نیکی کرئیے، پُٹھیاں چالاں چلدے"

کوے کے بچے موتی چگنے سے ہنس نہیں بن جاتے،
اور کھارے پانی کے کنویں میں چاہے کتنا ہی میٹھا ڈال دو، وہ کھارا ہی رہتا ہے۔

18/03/2025

ایک رات نپولین اپنی ملکہ کے کمرے میں داخل ہوا تو ملکہ بیٹھی خط پڑھ رہی تھی۔

'کس کا خط ہے؟....... نپولین نے پوچھا.
ملکہ نے خط اس کی جانب بڑھا کر کہا،
'ڈاکٹر ایڈورڈ کا....... اس نے آپ سے درخواست کی ہے. کہ انگریز قیدیوں کو آزاد کر دیا جائے "

نپولین نے ہنکارا بھرا اور کچھ دیر سوچ کر کہا.
'ڈاکٹر ایڈورڈ نے دنیا پر بڑا احسان کیا ہے۔ اس کی بات ٹالی نہیں جا سکتی."
اور........ دوسرے دن انگریز قیدی رہا کر دیے گئے۔

واقعی ڈاکٹر جینر نے دنیا پر بڑا احسان کیا تھا. اس نے چیچک کا ٹیکہ ایجاد کیا تھا. اور لاکھوں آدمیوں کو ایک بھیانک اور موذی مرض سے بچا لیا.

ایڈورڈ جینر انگلستان میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ پادری تھا۔ ایڈورڈ بڑا ہوا تو شاعری کرنے لگا۔ مگر اس کا باپ چاہتا تھا کہ ہونہار ایڈورڈ ڈاکٹر بنے. چنانچہ اس نے اسے تعلیم کیلیے برسٹل شہر کے ایک ڈاکٹر کے پاس بھیج دیا.

ایک دن ایڈورڈ چیچک کی بیماری کا حال پڑھ رہا تھا. کہ اسے اپنے گاؤں کے بڑے بوڑھوں کی بات یاد آ گئی. اس نے بچپن میں بڑے بوڑھوں سے سنا تھا. کہ اگر کسی آدمی کو گائے کے تھن میں ہونے والی (گئوتھن سیتلا) چیچک لگ جائے .تو پھر اسے چیچک کبھی نہیں ہو سکتی.

اس نے سوچا بزرگوں کی اس بات میں تھوڑی بہت سچائی تو ضرور ہوگی. لہذا اس کی کھوج لگانی چاہئیے. اس نے اپنے جاننے والے ڈاکٹروں سے اس پر بات چیت کی مگر ہر شخص نے اس کی بات کا خوب مذاق بنایا. کہ دیہات کے جاہل گنواروں کی باتوں کو سائنس سے کیا واسطہ؟ مگر جینر کو تسلی نہ ہوئی.

برسٹل سے فارغ ہو کر وہ لندن چلا گیا۔ اور جان ہنٹر جیسے نامی گرامی ڈاکٹر کی نگرانی میں اپنی تعلیم مکمل کرنے لگا. وہیں ایڈورڈ کو معلوم ہوا. کہ ایشیا کہ بعض ملکوں میں لوگ چیچک سے بچنے کے لئے چیچک کا تھوڑا سا مواد اپنے خون میں داخل کر لیتےہیں. اس طرح انہیں چیچک تو نکلتی... مگر ہلکی سی. یوں اسے یقین ہو گیا کہ چیچک کا مواد ہی انسان کو چیچک سے بچا سکتا ہے.

ایڈورڈ نے ڈاکٹری کا امتحان پاس کر لیا. تو جان ہنٹر نے اسے مشورہ دیا. کہ گاؤں واپس جا کر لوگوں کی خدمت کرے.وہیں مطب کھولے اور فرصت کے اوقات میں چیچک پر تجربات بھی کرے. لندن میں تو گائے دیکھنے کو بھی نہ ملے گی. پھر تم اس کے تھن پر سیتلا کے جو دانے نکل آتے ہیں ان کی جانچ کیسے کر سکو گے؟
جینر ہنٹر کی بات سے قائل ہو کر گاؤں آ گیا.

وقت گزرتا رہا. دھن کا پکا ایڈورڈ برابر تجربات کرتا رہا. بالآخر بیس سال کی لگاتار محنت کے بعد اس نے چیچک کا ٹیکا تیار کر کے دم لیا. پہلے پہل اس نے یہ ٹیکہ آٹھ سال کے ایک بچے پر آزمایا. جس کا بام جیمز فلپس تھا. ایڈورڈ نے لڑکے کو گئوتھن سیتلا کے مواد کا ٹیکہ دیا. پھر ڈیڑھ ماہ بعد چیچک کے مواد کا ٹیکہ دیا.

ایڈورڈ کے ان تجربات پر بڑا شور مچا. کہ 'ڈاکٹر جینر ایک معصوم بچے کی زندگی سے کھیل رہا ہے' .
'ڈاکٹر جینر گنواروں کی باتوں میں آ کر سائنس کی توہین کر رہا ہے'.
'ڈاکٹر جینر قدرت کے معاملات میں دخل دے رہا ہے۔' وغیرہ وغیرہ."
غرض چاروں جانب سے اعتراضات کی بوچھاڑ تھی. مگر ڈاکٹر کو اپنے تجربے پر پورا بھروسہ تھا. وہ جانتا تھا کہ لڑکے کو چیچک ہر گز نہیں نکل سکتی. اور اس کی پیش گوئی سچ نکلی..... لڑکے کو چیچک نہیں نکلی.

ڈاکٹر جینر نے اب ایک ایسے آدمی کو چیچک کے مواد کا ٹیکہ دیا .جس کو اس سے پہلے گئوتھن سیتلا کے مواد کا ٹیکہ نہیں دیا گیا تھا. اس آدمی کو چیچک نکل آئی. ڈاکٹر جینر کا تجربہ کامیاب رہا.

اب سارے ملک میں ایڈورڈ کے ٹیکے کی دھوم مچ گئی تھی.

برطانیہ کی پارلیمنٹ نے ایڈورڈ کو بیس ہزار پونڈ کا انعام دیا۔ آکسفورڈ نے اسے ڈاکٹری کی اعزازی ڈگری عطا کی. اس کی شہرت ملک سے باہر پہنچی. تو روس کے بادشاہ نے اسے سونے کی انگوٹھی بھیجی. نپولین نے اسے تعریف کا خط لکھا. اور امریکہ سے لوگ ایڈورڈ سے ملاقات کو آئے.

اس میں حیرانگی کی کوئی بات نہیں کیونکہ ایڈورڈ نے اپنی ایجاد سے لاکھوں کروڑوں انسانوں کی جان بچا لی تھی. اس ایجاد سے پہلے ایک سو سال میں یورپ میں چھ کروڑ آدمی چیچک سے مرے تھے. اب یورپ میں ایک آدمی بھی چیچک سے نہیں مرتا.

ایڈورڈ سے لوگوں نے کہا اپنا نسخہ کسی کو نہ بتائے. بلکہ اسے خفیہ رکھے. تو گھر بیٹھے سالانہ لاکھوں کماسکتا ہے. مگر ایڈورڈ نے جو جواب دیا.اس نے اسے ہر لحاظ سے ایک عظیم انسان ثابت کر دیا.

اس نے کہا
" میں ڈاکٹر ہوں .میرا کام لوگوں کی جان بچانا ہے. میں سوداگر نہیں ہوں."

چنانچہ اس نے اپنے ٹیکے کا نسخہ اخباروں میں چھاپ دیا. تا کہ دنیا میں ہر جگہ لوگ اس دوا سے فائدہ اٹھا سکیں. اس کے پاس دولت بھی تھی. اور شہرت بھی. مگر اس نے اپنا دیہات میں مطب نہیں چھوڑا. ہر کسی نے کہا لندن چلے جائیں .اب تو آپ مشہور ہو گئے ہیں. وہاں آپ کا مطب خوب چلے گا. مگر ایڈورڈ اس کیلئے بھی نہ مانا اور کہا.

'مجھے جو کچھ ملا اسی دیہاتی زندگی کی بدولت ملا. پھر اسے کیوں چھوڑوں۔ یوں بھی لندن میں سینکڑوں ڈاکٹر موجود ہیں. لیکن میرے قصبے میں تو کوئی دوسرا ڈاکٹر بھی نہیں, جو میرے بعد غریبوں کا علاج کر سکے".

چیچک کا ٹیکہ اب تو بہت سستا ہو گیا ہے. آسانی سے ہر جگہ مل جاتا ہے. مگر ڈیڑھ سو سال پہلے چیچک کا ٹیکہ بہت مہنگا تھا. ایڈورڈ نے روپوں پیسوں کا لالچ کیے بغیر غریبوں کو مفت ٹیکے لگائے. ان کے مطب ہر صبح شام تک بھیڑ لگی رہتی.

آج ایڈورڈ جینر کو دنیا سے رخصت ہوئے قریب پونے دو سو برس ہو چکے ہیں. لیکن ان کا نام رہتی دنیا تک روشن رہے گا. کیونکہ انہوں نے لاکھوں کروڑوں انسانوں کو چیچک کے مہلک مرض سے نجات دلائی.

Address

Faisalabad
38000

Opening Hours

Monday 21:00 - 23:00
Tuesday 21:00 - 23:00
Wednesday 21:00 - 23:00
Thursday 21:00 - 23:00
Friday 21:00 - 23:00
Saturday 21:00 - 23:00
Sunday 21:00 - 23:00

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Personality Assessment posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram

Category