Personality Assessment

Personality Assessment You can easily know about your self..... its not about Your Future or Past related ... its about your Present Nature

14/04/2025

کسی گھنے جنگل میں ایک بکری بے فکری سے اِدھر اُدھر گھوم رہی تھی، جیسے اُسے کسی خطرے کا کوئی ڈر نہ ہو۔ ایک درخت پر بیٹھا کوا یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ نیچے اُترا اور بکری سے پوچھنے لگا:

"بہن! تمہیں جنگل کے خونخوار جانوروں سے کوئی خوف نہیں؟ اتنی نڈر اور بے فکر کیسے ہو؟"

بکری نے مسکرا کر کہا:
"کچھ عرصہ پہلے ایک شیرنی مر گئی تھی، اپنے دو چھوٹے بچوں کو جنگل میں تنہا چھوڑ کر۔ میں نے اُن پر ترس کھایا اور اُنہیں اپنے دودھ سے پالا۔ آج وہ دونوں شیر جوان ہو چکے ہیں اور پورے جنگل میں اعلان کر رکھا ہے کہ ’ہماری بکری ماں کو کوئی میلی آنکھ سے نہ دیکھے‘۔ اب جنگل کا کوئی درندہ، خواہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، میری طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔"

کوا بہت متاثر ہوا اور دل میں سوچنے لگا:
"کاش مجھے بھی کبھی ایسا نیکی کا موقع ملے کہ پرندوں کی دنیا میں میرا بھی کوئی مقام بن جائے۔"

یہ سوچتے ہوئے وہ اُڑتا جا رہا تھا کہ اچانک اُس کی نظر دریا میں ڈبکیاں کھاتے ایک چوہے پر پڑی۔ فوراً نیچے اُترا، چوہے کو پانی سے نکالا اور ایک پتھر پر لٹا کر اپنے پروں سے ہوا دینے لگا تاکہ وہ خشک ہو جائے۔

جیسے ہی چوہے کے حواس بحال ہوئے، اُس نے بنا سوچے سمجھے کوے کے پر کترنے شروع کر دیے۔ کوا نیکی کی دھن میں مست، اور چوہا اپنے فطری مزاج میں مصروف۔ تھوڑی ہی دیر میں چوہا بالکل خشک ہو گیا اور بھاگتا ہوا اپنے بل میں جا گھسا۔

کوا اپنی نیکی پر خوش ہو کر آسمان کی طرف پرواز کرنے لگا، لیکن چند ہی لمحوں میں زمین پر منہ کے بل آ گرا۔ اُس کے پر کٹے ہوئے تھے اور اب وہ اُڑنے کے قابل نہ رہا۔ بس زمین پر کبھی اُچھلتا، کبھی گھسٹتا۔

اتفاق سے بکری ادھر سے گزری تو کوے کو اُس حال میں دیکھ کر پوچھا:

"ارے بھائی کوے! یہ کیا حال بنا رکھا ہے؟"

کوا غصے سے بولا:
"یہ سب تمہاری باتوں کا نتیجہ ہے! تم سے متاثر ہو کر میں نے نیکی کے جذبے میں چوہے کی جان بچائی، مگر اُس نے میرے پر ہی کتر ڈالے!"

بکری ہنس پڑی اور کہنے لگی:
"ارے نادان! اگر نیکی ہی کرنی تھی تو کسی شیر کے بچے کے ساتھ کرتا۔ چوہا تو آخر چوہا ہی رہے گا۔ بدذات اور بداصل کو نیکی راس نہیں آتی۔ ایسے کے ساتھ بھلائی کا یہی انجام ہوتا ہے جو تمہارے ساتھ ہوا۔"

اسی پر میاں محمد بخش رحمۃ اللہ علیہ کا ایک شہرہ آفاق شعر یاد آ گیا:

"اصلاں نال جے نیکی کرئیے، نسلاں تائیں نئیں بھُلدے
بدنسلاں نال نیکی کرئیے، پُٹھیاں چالاں چلدے"

کوے کے بچے موتی چگنے سے ہنس نہیں بن جاتے،
اور کھارے پانی کے کنویں میں چاہے کتنا ہی میٹھا ڈال دو، وہ کھارا ہی رہتا ہے۔

18/03/2025

ایک رات نپولین اپنی ملکہ کے کمرے میں داخل ہوا تو ملکہ بیٹھی خط پڑھ رہی تھی۔

'کس کا خط ہے؟....... نپولین نے پوچھا.
ملکہ نے خط اس کی جانب بڑھا کر کہا،
'ڈاکٹر ایڈورڈ کا....... اس نے آپ سے درخواست کی ہے. کہ انگریز قیدیوں کو آزاد کر دیا جائے "

نپولین نے ہنکارا بھرا اور کچھ دیر سوچ کر کہا.
'ڈاکٹر ایڈورڈ نے دنیا پر بڑا احسان کیا ہے۔ اس کی بات ٹالی نہیں جا سکتی."
اور........ دوسرے دن انگریز قیدی رہا کر دیے گئے۔

واقعی ڈاکٹر جینر نے دنیا پر بڑا احسان کیا تھا. اس نے چیچک کا ٹیکہ ایجاد کیا تھا. اور لاکھوں آدمیوں کو ایک بھیانک اور موذی مرض سے بچا لیا.

ایڈورڈ جینر انگلستان میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ پادری تھا۔ ایڈورڈ بڑا ہوا تو شاعری کرنے لگا۔ مگر اس کا باپ چاہتا تھا کہ ہونہار ایڈورڈ ڈاکٹر بنے. چنانچہ اس نے اسے تعلیم کیلیے برسٹل شہر کے ایک ڈاکٹر کے پاس بھیج دیا.

ایک دن ایڈورڈ چیچک کی بیماری کا حال پڑھ رہا تھا. کہ اسے اپنے گاؤں کے بڑے بوڑھوں کی بات یاد آ گئی. اس نے بچپن میں بڑے بوڑھوں سے سنا تھا. کہ اگر کسی آدمی کو گائے کے تھن میں ہونے والی (گئوتھن سیتلا) چیچک لگ جائے .تو پھر اسے چیچک کبھی نہیں ہو سکتی.

اس نے سوچا بزرگوں کی اس بات میں تھوڑی بہت سچائی تو ضرور ہوگی. لہذا اس کی کھوج لگانی چاہئیے. اس نے اپنے جاننے والے ڈاکٹروں سے اس پر بات چیت کی مگر ہر شخص نے اس کی بات کا خوب مذاق بنایا. کہ دیہات کے جاہل گنواروں کی باتوں کو سائنس سے کیا واسطہ؟ مگر جینر کو تسلی نہ ہوئی.

برسٹل سے فارغ ہو کر وہ لندن چلا گیا۔ اور جان ہنٹر جیسے نامی گرامی ڈاکٹر کی نگرانی میں اپنی تعلیم مکمل کرنے لگا. وہیں ایڈورڈ کو معلوم ہوا. کہ ایشیا کہ بعض ملکوں میں لوگ چیچک سے بچنے کے لئے چیچک کا تھوڑا سا مواد اپنے خون میں داخل کر لیتےہیں. اس طرح انہیں چیچک تو نکلتی... مگر ہلکی سی. یوں اسے یقین ہو گیا کہ چیچک کا مواد ہی انسان کو چیچک سے بچا سکتا ہے.

ایڈورڈ نے ڈاکٹری کا امتحان پاس کر لیا. تو جان ہنٹر نے اسے مشورہ دیا. کہ گاؤں واپس جا کر لوگوں کی خدمت کرے.وہیں مطب کھولے اور فرصت کے اوقات میں چیچک پر تجربات بھی کرے. لندن میں تو گائے دیکھنے کو بھی نہ ملے گی. پھر تم اس کے تھن پر سیتلا کے جو دانے نکل آتے ہیں ان کی جانچ کیسے کر سکو گے؟
جینر ہنٹر کی بات سے قائل ہو کر گاؤں آ گیا.

وقت گزرتا رہا. دھن کا پکا ایڈورڈ برابر تجربات کرتا رہا. بالآخر بیس سال کی لگاتار محنت کے بعد اس نے چیچک کا ٹیکا تیار کر کے دم لیا. پہلے پہل اس نے یہ ٹیکہ آٹھ سال کے ایک بچے پر آزمایا. جس کا بام جیمز فلپس تھا. ایڈورڈ نے لڑکے کو گئوتھن سیتلا کے مواد کا ٹیکہ دیا. پھر ڈیڑھ ماہ بعد چیچک کے مواد کا ٹیکہ دیا.

ایڈورڈ کے ان تجربات پر بڑا شور مچا. کہ 'ڈاکٹر جینر ایک معصوم بچے کی زندگی سے کھیل رہا ہے' .
'ڈاکٹر جینر گنواروں کی باتوں میں آ کر سائنس کی توہین کر رہا ہے'.
'ڈاکٹر جینر قدرت کے معاملات میں دخل دے رہا ہے۔' وغیرہ وغیرہ."
غرض چاروں جانب سے اعتراضات کی بوچھاڑ تھی. مگر ڈاکٹر کو اپنے تجربے پر پورا بھروسہ تھا. وہ جانتا تھا کہ لڑکے کو چیچک ہر گز نہیں نکل سکتی. اور اس کی پیش گوئی سچ نکلی..... لڑکے کو چیچک نہیں نکلی.

ڈاکٹر جینر نے اب ایک ایسے آدمی کو چیچک کے مواد کا ٹیکہ دیا .جس کو اس سے پہلے گئوتھن سیتلا کے مواد کا ٹیکہ نہیں دیا گیا تھا. اس آدمی کو چیچک نکل آئی. ڈاکٹر جینر کا تجربہ کامیاب رہا.

اب سارے ملک میں ایڈورڈ کے ٹیکے کی دھوم مچ گئی تھی.

برطانیہ کی پارلیمنٹ نے ایڈورڈ کو بیس ہزار پونڈ کا انعام دیا۔ آکسفورڈ نے اسے ڈاکٹری کی اعزازی ڈگری عطا کی. اس کی شہرت ملک سے باہر پہنچی. تو روس کے بادشاہ نے اسے سونے کی انگوٹھی بھیجی. نپولین نے اسے تعریف کا خط لکھا. اور امریکہ سے لوگ ایڈورڈ سے ملاقات کو آئے.

اس میں حیرانگی کی کوئی بات نہیں کیونکہ ایڈورڈ نے اپنی ایجاد سے لاکھوں کروڑوں انسانوں کی جان بچا لی تھی. اس ایجاد سے پہلے ایک سو سال میں یورپ میں چھ کروڑ آدمی چیچک سے مرے تھے. اب یورپ میں ایک آدمی بھی چیچک سے نہیں مرتا.

ایڈورڈ سے لوگوں نے کہا اپنا نسخہ کسی کو نہ بتائے. بلکہ اسے خفیہ رکھے. تو گھر بیٹھے سالانہ لاکھوں کماسکتا ہے. مگر ایڈورڈ نے جو جواب دیا.اس نے اسے ہر لحاظ سے ایک عظیم انسان ثابت کر دیا.

اس نے کہا
" میں ڈاکٹر ہوں .میرا کام لوگوں کی جان بچانا ہے. میں سوداگر نہیں ہوں."

چنانچہ اس نے اپنے ٹیکے کا نسخہ اخباروں میں چھاپ دیا. تا کہ دنیا میں ہر جگہ لوگ اس دوا سے فائدہ اٹھا سکیں. اس کے پاس دولت بھی تھی. اور شہرت بھی. مگر اس نے اپنا دیہات میں مطب نہیں چھوڑا. ہر کسی نے کہا لندن چلے جائیں .اب تو آپ مشہور ہو گئے ہیں. وہاں آپ کا مطب خوب چلے گا. مگر ایڈورڈ اس کیلئے بھی نہ مانا اور کہا.

'مجھے جو کچھ ملا اسی دیہاتی زندگی کی بدولت ملا. پھر اسے کیوں چھوڑوں۔ یوں بھی لندن میں سینکڑوں ڈاکٹر موجود ہیں. لیکن میرے قصبے میں تو کوئی دوسرا ڈاکٹر بھی نہیں, جو میرے بعد غریبوں کا علاج کر سکے".

چیچک کا ٹیکہ اب تو بہت سستا ہو گیا ہے. آسانی سے ہر جگہ مل جاتا ہے. مگر ڈیڑھ سو سال پہلے چیچک کا ٹیکہ بہت مہنگا تھا. ایڈورڈ نے روپوں پیسوں کا لالچ کیے بغیر غریبوں کو مفت ٹیکے لگائے. ان کے مطب ہر صبح شام تک بھیڑ لگی رہتی.

آج ایڈورڈ جینر کو دنیا سے رخصت ہوئے قریب پونے دو سو برس ہو چکے ہیں. لیکن ان کا نام رہتی دنیا تک روشن رہے گا. کیونکہ انہوں نے لاکھوں کروڑوں انسانوں کو چیچک کے مہلک مرض سے نجات دلائی.

26/09/2024

ایک بار ہم میاں بیوی ساتھ بیٹھے زندگی اور موت کی بابت باتیں کر رہے تھے۔
میں نے کہا:
"بیگم ! میں ایک زندہ لاش کی حالت میں کبھی نہیں رہنا چاہوں گا۔"
گفتگو جاری رکھتے ہوئے میں نے مزید کہا کہ اگر کبھی ایسا بیمار پڑوں کہ بےہوش و حواس ہو جاؤں اور محض آکسیجن ماسک اور ٹیوبوں پر میری زندگی منحصر ہو کر رہ جائےتو براہِ کرم ان ٹیوبوں، ٹونٹنیوں اور تاروں کو ہٹا کر مجھے فطری حالت میں چھوڑ دیا جائے تا کہ ان کی اذیت سےآزاد ہوکر طبعی موت مر جاؤں۔
میری بیوی تھوڑی دیر تک مجھے چُپ چاپ دیکھتی رہی۔ پھر بڑےاطمینان سے أٹھی اور
ٹی وی کیبل کا تار ہٹا دیا،
کمپیوٹر ڈسکنیکٹ کر دیا،
موبائل سوئچ آف کر دیا
اور
انٹرنیٹ کا وائی فائی بھی بند کردیا
یوں اس نے مجھے تو گویا جیتے جی مار ڈالا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اخلاقی سبق:
بولنے سے پہلے سوچ لیا کیجیے
خاتونِ خانہ کی سوچ کا رُخ کسی طرف بھی ہو سکتا ہے
اس کی ذہانت کو کم نہ سمجھیے ۔😄😄

09/09/2024

ایک دن ایک کتا جنگل میں بھٹک گیا،😲
تبھی اس نے دیکھا کہ ایک شیر اس کی طرف آ رہا ہے😨
کتے کی سانس رک گئی،😱
آج_تو_کام_تمام_میرا...😮
پھر اس نے اپنے سامنے کچھ ہڈیاں پڑی دیکھیں،
وہ آتے ہوئے شیر کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھ گیا اور ایک سوکھی ہڈی کو چوسنے لگا،
اور زور زور سے بولنے لگا،😎
واہ_شیر_کو_کھانے_کا_مزہ_ہی_کچھ_اور_ہے....
ایک اور مل جائے تو پوری دعوت ہو جائے، اور اس نے زور سے ڈکار ماری، اس بار شیر سوچ میں پڑ گیا،
اس نے سوچا...
،، یہ کتا تو شیر کا شکار کرتا ہے جان بچا کر بھاگنے میں ہی بھلائی ہے، اور شیر وہاں سے جان بچا کر بھاگ گیا، درخت پر بیٹھا ایک بندر یہ سب تماشہ دیکھ رہا تھا، اس نے سوچا یہ اچھا موقع ہے، شیر کو پوری کہانی بتا دیتا ہوں، شیر سے دوستی بھی ہو جائے گی اور اس سے زندگی بھر کے لیے جان کا خطرہ بھی دور ہو جائے گا، وہ فٹا فٹ شیر کے پیچھے بھاگا.😁
کتے نے بندر کو جاتے ہوئے دیکھ لیا اور سمجھ گیا کہ کوئی گڑبڑ ہے...😬!
ادھر بندر نے شیر کو پوری کہانی بتا دیا کہ کس طرح کتے نے اسے بیوقوف بنایا ہے، شیر زور سے دہاڑا، چل میرے ساتھ ابھی اس کا قلعہ قمع کرتا ہوں، اور بندر کو اپنی پیٹھ پر بیٹھا کر شیر کتے کی طرف چل پڑا...😑
کتے نے شیر کو آتے دیکھا تو پھر ایک بار کتے کو جان کی بن آئی، مگر پھر ہمت کر کے کتا اس کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھ گیا،اور زور زور سے بولنے لگا، بندر کو بھیجے ہوئے ایک گھنٹہ ہو گیا....
سالا_ایک_شیر_پھنسا_کر_نہیں_لا_سکتا۔۔۔۔۔۔😂
یہ سنتے ہی شیر نے بندر کو پٹک کر زمین پر مارا اور ایک رکھ کہ چپیڑ ماری باندر دے مُنہ تے اور واپس دوڑ لگا تِی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔😂😂😂

۔
۔
یہ تو تھا مذاق اب اصل بات کی طرف آتے ہیں۔۔۔۔۔😊
مشکل وقت میں اپنے اعتماد پر قابو رکھیں گھبرائیں نہیں......!!😇
یاد_رکھیں۔۔۔۔۔۔۔۔ 😮
ہمارے ارد گرد بہت سے بندر ہیں، ان کی شناخت کرنے کی کوشش کریں
اور ان بندروں سے بچ کے رہے شکریہ
مزید اچھی پوسٹ
کیلئے ہم کو فالو کریں شکریہ

02/09/2024

ایک ارب پتی سے کسی نے پوچھا کہ کوٸی ایسا لمحہ جس نے آپکی زندگی بدل دی ہو جس سے آپکو سب سے زیادہ خوشی محسوس ہو ؟
اس نے جواب دیا میں نے دولت بھی بناٸی ، وسیلے ، بھی بناۓ دنیا کے مہنگے ترین گھروں میں رہا اپنی زندگی میں مہنگی مہنگی چیزیں بھی خریدیں
پھر وہ وقت بھی آیا جب میں
اسٹیل مل کا مالک بھی بنا بہت کچھ حاصل کرنے کے باوجود بھی مجھے اتنی خوشی نہیں ملی جسکا میں تصور کر سکوں ،
مگر ایک دن میرے دوست نے بولا چلو چلیں معذور بچوں کو ویل چٸیر دینے چلیں ،
تو میں نے 200 ویل چٸیر خریدی پھر ہم نے بچوں میں وہ ویل چٸیر بانٹ دی اس ٹاٸم بچوں کے چہرے پہ عجیب خوشی دیکھی ہنستے مسکراتے ادھر اودھر کھیل رہے تھے بچوں میں یہ خوشی کی لہر دیکھ کر مجھے لگا میں کسی پارک میں آگیا ہوں جہاں بچے پکنک منا رہے ہیں ،
جب میں نے جانے کا فیصلہ کیا تو ایک بچہ آکر میرے ٹانگ سے لپٹ گیا میں نے اسکو ایک دو بار دور کیا مگر وہ چپکا رہا غور غور سے دیکھنے لگا میں نے پوچھا بچے اور کچھ چاہیے کیا ،؟
پھر جو اس بچے نے جواب دیا
"'میں آپکے چہرے کو یاد رکھنا چاہتا ہوں.
جب میں آپ سے جنت میں ملوں تو ایک بار
پھر سے آپکا شکریہ ادا کر سکوں ،،،

زندگی کے اس لمہے نے میرا نظریہ بدل دیا .👍👍👍👍

19/08/2024

ایک خاتون کہتی ہے جب میری شادی کا جہیز آرہا تھا تو پھپھو رشیدہ نے کہا کہ پاندان تو میں لا کر دوں گی ثریا کو ۔ ۔۔لو بھیا ، پھوپھا عنایت نکل پڑے بہتیری دکانیں چھان ماریں ۔تب کہیں جا کر ملا یہ پورے پانچ سیری کا پاندان ۔ خدا جھوٹ نہ بلائے پھپھو نے سارے پیسے نکال لیے ۔ ہمارے باوا بھی حساب کے کھرے تھے ۔ امّاں سے بولے : تجھے قسم ہے رضیہ جو تو نے ایک پیسہ بھی رکھا ۔

شادی کے دوسرے دن جب میں چوتھی کر کے سسرال آئی تو ساس بولیں : اے بہو ! جہیز میں سب سے بھاری تم ہو اور اس کے بعد تمھارا یہ پاندان ۔ ایک دن کی بیاہی تھی ۔ خون کے گھونٹ پی کر رہ گئی ۔ وہ تو جب دوسرے روز ساس کا دو سیری کا گندا بسندا پاندان دیکھا تو ساس کی ساری قلعی اتر گئی ۔ پھر خود ہی پاندان کی قلعی پر آجائیں:

پہلے کم بخت مارا گلی میں آجایا کرتا تھا قلعی والا ۔ ارے کیا نام تھا اس کا بھلا سا ۔۔۔ ہاں مشتاق قلعی گر ۔ سالوں سے شکل نہیں دیکھی اس کی ۔ مَرکھپ گیا ہوگا ۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے تھا بہت کالا ( کہتے کہتے خود ہی مسکراتیں) ایک دن تو میں نے کہہ بھی دیا :

ارے اتنی چیزوں پر قلعی کرے ہے ۔ خود پہ کیوں نہیں کر لیتا ۔ تھا بڑا شریف آدمی ۔ کہنے لگا ۔ امّاں وقت ہی نہیں ملتا ۔

پان دان اپنے اندر ایک تاریخ رکھتا ۔ کبھی شہر سے باہر شادی ہوتی تو ساتھ بھی چلا جاتا جس کو موقع لگتا پورا پان یا پھر تھوڑی چھالیہ لے نکلتا ۔ ویسے شادیوں میں شوخ و چنچل مزاج لڑکیاں پان چھالیہ تنگ کرنے کے لیے زیادہ کھایا کرتی تھیں اور پھر خود ہی آکر شکایت لگاتیں کہ خالہ ۔۔۔ سلمی نے ہمارے سامنے پان کا بڑا پتہ اور ڈھیر ساری چھالیہ کھائیں اور باہر جاکر فورا تھوک دیں ۔ جس پر تُنک کر پاندان والی کہتیں :

اچھا وہ چھبّن کی بیچ والی ! لگے تو بڑی باؤلی سی ہے ۔ یہ ہے کہاں کو ؟ لڑکیاں اشارے سے بتاتیں کہ وہ تو نظر نہیں آرہی پھر چھبّن چچا ادھر بیٹھے ہیں ۔ اب چھبّن کی کلاس ہوجاتی :

اے بھیا ، اگر بٹیا کو پان چھالیہ کا اتنا ہی شوق ہے تو پاندان کاہے نہیں دلا دیتے ۔ شادی ہوئی اور دوسروں کا پان دان جھانکا تو سب تمھیں ہی نام رکھیں گے ۔ بتائے دے رہی ہوں ۔ چھبّن میاں سر جھکائے ہلکی سی مسکراہٹ اور تعظیم کے ساتھ ڈانٹ سنتے رہتے انہیں پتہ تھا کہ ماجرا کیا ہے ۔

گھر میں چھوٹے پوتا پوتی اگر اکیلے میں پاندان کی طرف چلے جاتے تو شور مچ جاتا ۔ ارے پکڑو ، سنبھالو ، کہیں تمباکو نہ کھا لے ۔ ساس سے تو کچھ نہ کہتیں مگر بچے منہ یا کولھے پر ایسا جاتیں کہ بچے کی سانس رکی کی رہ جاتی ۔ ایسے موقع پر بہوؤں کو ساس کا پاندان زہر لگتا ۔ کہتیں ایک تو ان کے پاندان نے زندگی عذاب کر رکھی ہے۔ ضرورت کیا ہے پان کھانے کی ۔ پیٹ میں آنت نہیں ، منہ میں دانت نہیں ۔ چلی ہیں پان کھانے ۔ ساس کا بیانیہ مختلف ہوتا ۔ اپنے کمرے میں جا کر اونچی آواز میں کہتیں :

پتہ نہیں کیا بچوں کی تربیت کر رہی ہیں ۔ ہمارے بھی بچے تھے ایک بار منع کردیا ۔ بس پھر کسی کی مجال نہیں جو پاندان کی طرف بھٹک جائے ۔خود کو بنے سنورنے سے فرصت ملے تو بچوں ہر دھیان دیں ۔ میرا پہلوٹی کا اسلم ہوا اور آخر کی مُنّی ۔۔۔ حرام ہے جو صابن کے علاوہ منہ کو کچھ لگایا ہو ۔

اگر گھر میں پاندان والی کی کوئی ہم عمر رشتے دار یا محلے والی آجاتی توسمجھیں کہ کوئی نہ کوئی اپنی یا محلے کی بہو زیرِ عتاب آئی ہی آئی ۔ وہ وہ پینڈورا بکس کھلتے کہ بس اللہ ہی جانے ۔ منہ میں پان اور اس پر چھالیہ کی کتر کتر الگ مزہ دیتی ۔ گھنٹوں گزر جاتے ۔ دوپہر کے کھانے کا وقت آجاتا ۔ جہاں مہمان نے جانے کا کہا۔ فورا جواب آتا : ارے ابھی تو آئئ ہو ، بیٹھو۔ کھانا کھا کر جانا ۔ ادھر بہووں کے سینوں پر سانپ لوٹ رہے ہوتے کہ اتنا بار۔بی کیو ( غیبت کا سیشن) ختم ہو ۔

مگر یہ سب زمانے لَد گئے ہیں ۔ بس رہ گئئ ہیں تو باتیں اور یادیں ۔ دنیا کو گلوبل ولیج بنایا جارہا ہے ۔ پرائیویٹ لائف ، گھریلو سکون اور بچوں کی تعلیم کے لیے اب خاندان چھوٹے چھوٹے یونٹس میں بٹ رہے ہیں جہاں پاندان تو دور کی بات والدین کے رہنے کی جگہ نہیں بن رہی ہے ۔ واقعی خاندان تھے تو پاندان تھے ۔

مجید لاہوری مرحوم نے کہا تھا :

جان ہے تو جہان ہے پیارے
زندگی پاندان ہے پیارے

اب مجید لاہوری کو کون بتائے یہ پاندان زندگی سے بہت دور چلے گئے ہیں ۔
(اظہر عزمی)

17/08/2024

لڑکیوں کے بھی عجیب مسائل ہوتے ہیں 😢😥

جیسے ہی سنِ شباب کو پہنچتی ہیں کسی نہ کسی کو ان سے محبت ہو جاتی ہے

مارکیٹ چلے جائیں تو سیلز مین کو دل کش اور سریلی لگتی ہیں۔

سکول چلے جائیں تو راستے میں ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو ان سے محبت ہو جاتی ہے ۔

کالج جانے لگیں تو اپنے ہی کزن کو مادھوری ڈکشت لگنے لگتی ہیں۔

یونیورسٹی میں قدم رکھیں تو کسی پروفیسر کو پریاں لگنے لگتی ہیں

کسی ادارے میں جاب کے سلسلے میں جائیں تو وہاں کے کسی سٹاف میمبر کو الفت ہو جاتی ہے

آفس سنبھالیں تو مینیجر کو اپسرا لگنے لگتی ہیں۔

سسرال میں جائیں تو کسی سسرالی رشتہ دار کو کسی ماہ رخ کا عکس نظر آنے لگتا ہے۔

الگ گھر لے لیں تو پڑوسی کو کسی حور سے کم نظر نہیں آتیں۔

بازار میں نکلیں تو لونڈے لفنگے اپنی بے سری تال میں ایسے خراجِ تحسین پیش کرنے لگتے ہیں جیسے دھرتی پر لڑکیوں نے پہلی بار قدم رکھا ہو ۔

کہیں گھومنے پھرنے چلے جائیں تو ماشاءاللہ ۔۔۔سبحان اللہ جیسی تسبیحات با آوازِ بلند ہونے لگتی ہیں۔

غرض یہ کہ لڑکی کو کہیں بھی ہوں ہر سو محبت ہول سیل اور کبھی کبھی تو درباری لنگر کے حساب سے مل رہی ہوتی ہے۔

لیکن بدقسمتی سے ایک وہ شخص جس کو ان تمام مراحل سے بچ بچا کر لڑکی نکاح کے عوض پہنچ جاتی ہے اور اس سے پاکیزہ محبت کا رشتہ قائم کر لیتی ہے اس شخص کو لڑکی میں کوئی خوبی نظر ہی نہیں آتی اور لڑکی ساری زندگی خود کو مٹانے کوسنے اور تبدیل کرنے میں گزار دیتی ہے

11/04/2024

ایک دن پڑوسیوں کی مرغی شیخ صاحب کے گھر سے گندم کھا گئی تو انہوں نے مرغی کو پکڑا اور ذبح کرکے کھاگئے
اگلے دن پڑوسیوں کو مرغی نا ملی تو انہوں نے شیخ صاحب سے پوچھا
کہ آپ نے ہماری مرغی کہیں دیکھی تھی؟
شیخ نے غصے سے کہا کہ وہ ہمارے گھر کے دانے کھا گئی اس لئے میں اسے ذبح کرکے کھا گیا
پڑوسی بھی غصے سے گویا ہوئے کہ
شیخ صاحب آپ تو انتہائی نامعقول انسان ہیں کہ چند دانے کیا مرغی نے کھا لئے آپ پوری مرغی ہی کھا گئے. حالانکہ چند دن قبل آپکی بلی ہمارا تین کلو دودھ پی گئی تھی تو ہم نے کچھ کہا آپکو
شیخ صاحب جھٹ سے بولے کہ
اگر میری بلی آپ کا دودھ پی گئی تھی تو آپ بھی میری بلی کھا جاتے... میں نے کونسا منع کیا آپکو.
پڑوسی تلملا کر بولے..
شیخ صاحب بلی تو حرام ہوتی ہے..
شیخ صاحب گویا ہوئے.
تو دوسروں کے دانوں پر پلنے والی آپکی مرغی کونسی حلال تھی. لیکن میں حوصلہ کرکے کھا ہی گیا نا.. جنہوں نے کھانا ہوتا ہے وہ حرام حلال نہیں دیکھتے.....

11/04/2024

وہ تعلیم کے شعبہ سے منسلک تھی آج اپنے طلبہ کو کچھ نیا بتانے کے عزم سے وہ کلاس میں پہنچی۔ ڈائس پر آئی اور بولنا شروع ہوئی۔۔
" ایک تفریحی بحری جہاز سمندر میں حادثے کا شکار ہو گیا، جہاز پر ایک میاں بیوی کا جوڑا بھی سوار تھا، لائف بوٹ کی طرف جانے کے بعد انہیں احساس ہوا کہ اس میں صرف ایک شخص کی گنجائش باقی ہے۔
اس وقت اس شخص نے عورت کو اپنے پیچھے دھکیل دیا اور خود لائف بوٹ پر چھلانگ لگا دی۔
خاتون نے ڈوبتے ہوئے جہاز پر کھڑے ہو کر اپنے شوہر سے ایک جملہ کہا۔
یہاں استانی نے توقف کیا اور پوچھا، "آپ لوگوں کا کیا خیال ہے کہ وہ کیا بات چلائی تھی؟"
زیادہ تر طلباء نے پرجوش ہو کر جواب دیا، "میں تم سے نفرت کرتی ہوں! میں اب تک اندھی تھی!"
اب استانی نے ایک لڑکے کو دیکھا جو اس تمام تر قصے کے دوران خاموش رہا تھا، استانی نے اسے جواب دینے کے لیے کہا اور اس نے جواب دیا، "استانی صاحبہ، مجھے یقین ہے کہ وہ چیخی ہوگی - "ہمارے بچے کا خیال رکھنا!"
استانی نے حیرانی سے پوچھا کیا تم نے یہ کہانی پہلے سنی ہوئی ہے؟
لڑکے نے سر ہلایا، "نہیں، لیکن یہ بات میری ماں نے میرے والد کو بیماری سے مرنے سے پہلے کہی تھی"۔
استانی نے افسوس کرتے ہوئے کہا، "جواب صحیح ہے"۔
تفریحی بحری جہاز ڈوب گیا، وہ شخص بخیریت گھر پہنچ گیا اور اپنی بیٹی کو تن تنہا ہی پالا۔
اس شخص کی موت کے کئی سال بعد، ان کی بیٹی کو اپنا سامان صاف کرتے ہوئے والد کی ایک ڈائری ملی۔
اس ڈائری سے یہ راز آشکار ہوا کہ " جب اس کے والدین تفریحی جہاز پر گئے تھے، تو ماں کو پہلے سے ہی ایک لاعلاج بیماری کی تشخیص ہو چکی تھی.
اس نازک لمحے میں، باپ زندہ بچ جانے کے واحد موقع سے فائدہ اٹھا کر بھاگ نکلا۔
اس نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا، "میری کس قدر تمنا تھی کہ تمہارے ساتھ سمندر کی تہہ میں ڈوب مروں، لیکن اپنی بیٹی کی خاطر میں تمہیں ہمیشہ کے لیے سمندر کی گہرائیوں میں اکیلا رہنے کے لیے چھوڑ آیا ہوں"۔
کہانی ختم ہوئی، کلاس میں خاموشی چھا گئی۔ -----------
دنیا میں اچھائی اور برائی کا وجود ہے، لیکن ان کے پیچھے بہت سی پچیدگیاں ہیں جن کو سمجھنا مشکل ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمیں کبھی بھی صرف سطحی حالات کو دیکھ کر اور دوسروں کو پہلے سمجھے بغیر فیصلہ صادر نہیں کرنا چاہئے۔
جو لوگ کھانے کا بل ادا کرنا پسند کرتے ہیں، وہ اس لیے نہیں کرتے کہ وہ دولت مند ہیں بلکہ اس لیے کہ وہ دوستی کو پیسے پر ترجیح دیتے ہیں۔
جو لوگ کام میں پہل کرتے ہیں وہ اس لیے نہیں کرتے کہ وہ بیوقوف ہیں بلکہ اس لیے کہ وہ ذمہ داری کے تصور کو سمجھتے ہیں۔
جو لوگ جھگڑے کے بعد پہلے معافی مانگتے ہیں وہ اس لیے نہیں کرتے کہ وہ غلط ہیں بلکہ اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اپنے اردگرد کے لوگوں کی قدر کرتے ہیں۔
جو لوگ اکثر آپ کو میسج کرتے ہیں، ایسا اس لیے نہیں کرتے کہ ان کے پاس کرنے کے لیے کچھ بہتر کام نہیں ہے بلکہ اس لیے کہ آپ ان کے دل میں بستے ہیں۔
ایک دن ہم سب ایک دوسرے سے بچھڑ جائیں گے۔ ہم ہر موضوع اور موقع کے بارے میں گفتگو کو یاد کریں گے۔اور ان خوابوں کو جو ہم نے مل کر دیکھے تھے۔ دن، مہینے، سال گزرتے جائیں گے، یہاں تک کہ یہ رابطے نایاب ہو جائیں گے۔
ایک دن ہمارے بچے ہماری تصویریں دیکھیں گے اور پوچھیں گے کہ یہ کون لوگ ہیں؟
اور ہم پوشیدہ آنسوؤں کے ساتھ مسکرائیں گے کیونکہ ایک مضبوط لفظ دل کو چھو لیتا ہے اور ہم کہیں گے: " یہ وہی تھے جن کے ساتھ ہم نے اپنی زندگی کے بہترین دن گزارے تھے "۔

خوش رہیں آباد رہیں اور ایک دوسرے کو میسیج کرتے رہی

02/04/2024

ہانگ کانگ میں ڈکیتی کے دوران، ڈاکو نے بینک میں موجود سب کو پکار کر کہا:
"ہلنا مت۔ یہ پیسہ حکومت کا ہے۔ تمہاری زندگی تمہاری ہے۔"

بینک میں سب خاموشی سے لیٹ گئے۔

اسے کہتے ہیں "ذہنوں کو تبدیل کرنے والا تصور دینا" سوچنے کے روایتی انداز کو تبدیل کردینا۔

جب ایک خاتون جذباتی انداز کے ساتھ میز پر لیٹی تو ڈاکو اس پر چلایا:
"مہذب بنیں! یہ ڈکیتی ہے ریپ نہیں!"

اسے کہتے ہیں "پیشہ ورانہ ماہر" ہونا ۔ صرف اس بات پر توجہ مرکوز کریں کہ آپ کو کیا کرنے کی تربیت دی گئی ہے-

جب ڈاکو بینک سے واپس گھر آئے تو چھوٹے ڈاکو (جس کی تعلیم MBA تھی) نے بڑے ڈاکو (جس کی تعلیم پرائمری تھی) سے کہا:
"بڑے بھائی، آئیے گنتے ہیں کہ ہمیں نے کتنا پیسہ اٹھایا ہے۔"

بڑے ڈاکو نے ڈانٹتے ہوئے کہا:
"تم بہت بیوقوف ہو، اتنا پیسہ ہے اسے گننے میں بہت وقت لگے گا۔ آج رات ٹی وی نیوز ہمیں بتائے گا کہ ہم نے بینک سے کتنا پیسہ لوٹا ہے !"

اسے کہتے ہیں "تجربہ"
آج کل، تجربہ کاغذی ڈگری سے زیادہ اہم ہے!

ڈاکوؤں کے جانے کے بعد، بینک منیجر نے بینک سپروائزر سے کہا کہ پولیس کو جلدی سے بلائیں۔ لیکن نگران نے اس سے کہا:
"رکو! آئیے اپنے لیے بینک سے 10 ملین ڈالر نکالیں اور اسے 70 ملین ڈالر میں شامل کردیں جو ہم نے کچھ عرصہ پہلے بینک سے غبن کیا تھا"۔

اسے کہتے ہیں "بہتی موج کے ساتھ تیرنا"
ایک ناموافق صورتحال کو اپنے فائدے میں تبدیل کرنا!

سپروائزر کہتا ہے: "یہ اچھا ہو گا اگر ہر مہینے چوریاں ہوتی رہیں - "

اسے کہتے ہیں "ذاتی خوشی کی اہمیت"
ذاتی خوشی آپ کی نوکری سے زیادہ اہم ہے! ۔"

اگلے دن، ٹی وی نیوز نے اطلاع دی کہ بینک سے 100 ملین ڈالر چرا لیے گئے ہیں۔ ڈاکوؤں نے یہ سن کر پیسہ گننا شروع کیا اور بار بار گنتی کی اور کئی بار کی ، لیکن ان کے پاس صرف 20 ملین ڈالر ہی تھے۔

ڈاکو بہت غصے میں تھے اور انہوں نے شکایت کی:
"ہم نے اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر صرف 20 ملین ڈالر لیے۔ بینک مینیجر نے اپنی انگلیوں کی چٹکی سے $80 ملین لے لیے۔ ایسا لگتا ہے کہ چور بننے سے بہتر تعلیم یافتہ ہونا ہے۔"
اسے کہتے ہیں "علم کی قیمت سونے کے برابر ہے!"

Address

Faisalabad

Opening Hours

Monday 21:00 - 23:00
Tuesday 21:00 - 23:00
Wednesday 21:00 - 23:00
Thursday 21:00 - 23:00
Friday 21:00 - 23:00
Saturday 21:00 - 23:00
Sunday 21:00 - 23:00

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Personality Assessment posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Category