Dr Hafiz Usman Asad

Dr Hafiz Usman Asad

Comments

**کینسر (32) ۔ ستاروں پر کمند**

کینسر کے علاج پر تحقیق جاری تھی۔ اور چند کامیابیاں ملی تھیں، جس نے امید بڑھا دی تھی۔

لیکن کئی محققین صبر، باریک بینی اور وقت کا تقاضا کر رہے تھے۔ نیشنل کینسر انسٹیٹوٹ کے ایک ڈائریکٹر نے 1963 میں کہا، “وجہ اور مکینزم کو ٹھیک سے سمجھے بغیر علاج کی تلاش میں تمام توانائی صرف کر دینا درست طریقہ کار نہیں ہے۔ ہمارے پاس یقینی طور پر کینسر کا علاج نہیں۔ ایسا ضرور ہے کہ ہمیں اس پروگرام کی مدد سے درجنوں کیمیکل مل چکے ہیں جو مریض کی زندگی کو کچھ طوالت دے سکتے ہیں یا تکلیف کم کر سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن دوسری طرف کے ایکٹوسٹ اتنی باریکیوں میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ ان کے لئے یہ سیدھا سا مشن تھا۔ فنڈ دئے جائیں، خاص احداف کی خاطر تحقیق کی جائے اور یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔

یہ بحث بالآخر 1969 میں بڑی حد طے ہو گئی۔ اور یہ زمین پر نہیں بلکہ چاند پر ہوئی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیس جولائی 1969 کو پندرہ ٹن وزنی خلائی جہاز چاند کی پتھریلی سطح پر لینڈ کر گیا۔ ایک خلاباز کے الفاظ میں، “ننھا، خوبصورت اور نیلا ۔۔۔ یہ ہمارا سیارہ تھا۔ میں نے ایک انگوٹھا سامنے پھیلایا اور ایک آنکھ بند کر لی۔ میرے انگوٹھے نے اس سیارے کو چھپا لیا”۔

اس نیلے سیارے کے افق پر یہ ایک بہت اہم وقت تھا۔ چاند پر قدم رکھ لینا ایک عظیم الشان سائنسی اور انٹلکچوئل کامیابی تھی۔ یہ نفسیاتی کامیابی بھی تھی۔ اس نیلے سیارے کے جنگلوں اور غاروں سے اٹھنے والی مخلوق اب ستاروں پر کمند ڈالنے کے خوب دیکھ رہی تھی۔

چاند ہزاروں سالوں سے رومانوی کہانیوں کا مرکز رہا تھا۔ ہزاروں سالوں سے اسے آسمان پر ٹنگی ہوئی پرسرار شے سمجھا جاتا تھا۔ صرف چند صدیوں پہلے ہی تو اس سے کچھ واقفیت ہونے لگی تھی۔ اور صرف ساٹھ برس پہلے انسان نے اڑنا سیکھا تھا۔ جہاز کی ایجاد سے چند دہائیوں بعد ہی زمین کی بندش توڑ کر چاند پر چہل قدمی کرنا حیرت انگیز کامیابی تھی۔

سائنس کے حوالے سے بڑی امید اور رجائیت کا وقت تھا۔

“صرف توجہ دینے کی بات ہے۔ کچھ بھی ناممکن نہیں”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپالو پراجیکٹ صاف حدف اور خاص فوکس کے ساتھ کیا گیا تھا۔ اور اس پراجیکٹ کی کامیابی اتنی بڑی تھی کہ اس کے اثرات دور تک گئے۔ کینسر کی تحقیق پر بھی۔ یہ ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا۔

اب یہ خیال عام تھا کہ “جس طرح چاند کو فتح کیا گیا ہے، ویسے کینسر کو بھی کر لیا جائے گا”۔

کینسر ایکٹوسٹ تنظیم نے اس کو کینسر کے لئے “مون شاٹ” کا نام دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نو دسمبر 1969 کو اتوار کے روز واشنگٹن پوسٹ میں پورے صفحے کا اشتہار چھپا۔

“صدر نکسن۔ آپ کینسر کا علاج کر سکتے ہیں۔

اگر آسمان پر دعائیں سنی جاتی ہیں تو یہ دعا سب سے زیادہ ہو گی۔

“یا خدا، مجھے کینسر نہ نکل آئے”۔

لیکن پھر بھی، 318000 امریکی پچھلے برس کینسر کی وجہ سے فوت ہوئے ہیں۔

جناب صدر، اس اذیت کو ختم کرنا آپ کے ہاتھ میں ہے۔

جب آپ بجٹ کی بحث کر رہے ہیں تو ہماری استدعا ہے کہ آپ ان 318000 لوگوں کی اور ان کے خاندانوں کی تکلیف کو یاد رکھیں گے۔

ہمیں اپنے وسائل کا بہتر استعمال کرنا ہے تا کہ لاکھوں جانیں بچائی جا سکیں۔

ڈاکٹر سڈنی فاربر کہتے ہیں، “ہم کینسر کا علاج پا لینے کے دہانے پر ہیں۔ صرف وہ سیاسی ارادہ درکار ہے، ویسا پیسہ اور ویسی تفصیلی منصوبہ بندی چاہیے جس نے انسان کو چاند پر پہنچا دیا"۔

جناب صدر، اگر آپ نے ہم سب کو مایوس کر دیا تو پھر ہر چھ میں سے ایک امریکی کینسر کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ یہ ساڑھے تین کروڑ انسانی جانیں ہیں۔

ہر چار میں سے ایک امریکی کینسر کا شکار ہو گا۔ یہ پانچ کروڑ دس لاکھ لوگ ہیں۔

ہم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے”۔

اس اشتہار کے ساتھ طاقتور تصویر تھی۔ کینسر کے خلیات کا جمگھٹا اکٹھا ہو کر کینسر کے لفظ کے آخری حروف کو ویسے ہی لپیٹ میں لے رہا تھا جیسے کینسر جسم کو لیتا ہے”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میڈیسن کے نیم روشن اندرونی کمروں سے کینسر اب عوامی نگاہوں میں تھا۔

کینسر اخباروں میں تھا اور کتابوں میں۔ فلموں میں اور تھیٹر میں۔ 1971 میں نیویارک ٹائمز میں اس پر 450 مضامین شائع ہوئے۔ کینسر وارڈ، بینگ دی ڈرم سلولی، برائن سونگ جیسی مقبول فلمیں بنیں۔ میگزین اور اخبارات میں یہ نمایاں تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہزاروں سال سے ہمارے ساتھ رہنے والا یہ خاموش موذی اب مرکزِ نگاہ تھا۔

(جاری ہے)

تحریر: وہارا امباکر
کینسر (31) ۔ ایک وجہ

کینسر آخر ہوتا کیوں ہے؟ وجہ کیا ہے؟ اس کی مقبول وضاحت سوماٹیک میوٹیشن تھیوری تھی۔ اس کے مطابق ماحولیاتی کارسنوجن جیسا کہ ریڈیم یا دھویں کی کالک کسی وجہ سے خلیے کے سٹرکچر کو مستقل طور پر ضرر پہنچاتے تھے اور یہ کینسر کا موجب تھا۔ لیکن کیسے؟ مکینزم کیا تھا؟ یہ نامعلوم تھا۔ یہ تو واضح تھا کہ کالک یا ریڈیم یا پیرافن یا رنگسازی کی بائی پراڈکٹس میں ایسا کرنے کی صلاحیت ہے لیکن کوئی سسٹمیٹک وضاحت موجود نہیں تھی۔ کارسینوجینسس (کینسر کی پیدائش) کی گہری اور بنیادی تھیوری نامعلوم تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کینسر کے محقق اس “ایک وجہ” کی تلاش میں تھے اور 1960 کی دہائی کا سب سے مقبول خیال “وائرس” تھا اور اس خیال کی ابتدا اس سے نصف صدی قبل مرغیوں سے ہوئی تھی۔
پیٹن روس مرغیوں میں ہونے والے ایک نایاب ٹیومر پر تحقیق کر رہے تھے۔ اس تحقیق کے لئے انہیں 1909 میں دو سو ڈالر کی گرانٹ ملی تھی۔ انہوں نے اس کو سارکوما کے طور پر شناخت کر لیا جو ٹشو کا کینسر ہے۔
اس کے خلیوں پر تجربہ کرتے ہوئے انہوں نے معلوم کیا کہ اگر ٹیومر کو ایک سے دوسری مرغی میں انجیکٹ کیا جائے تو یہ پھیل جاتا ہے۔ اس کے بعد روس کو ایک عجیب نتیجہ نظر آیا۔ ایک سے دوسری مرغی میں اس ٹیومر کو منتقل کرتے وقت وہ انہیں خلیاتی چھلنیوں سے گزارنے لگی۔ چھلنیوں کو باریک کرنے لگے۔ یہاں تک کہ یہ اتنی باریک ہو گئیں کہ ان میں سے تمام خلیات نکل گئے اور صرف فلٹریٹ باقی رہ گیا۔ روس کا خیال تھا کہ اب کینسر نہیں منتقل ہو گا لیکن ٹیومر پھیلتا رہا۔
روس نے جو نتیجہ اخذ کیا، وہ یہ کہ کارسنوجن خلیہ یا ماحول نہیں بلکہ خلیے کے اندر پایا جانے والا کوئی ننھا سا پارٹیکل ہے۔ یہ اتنا چھوٹا ہے کہ چھلنیوں سے گزر جاتا ہے اور دوسرے پرندے تک پہنچ جاتا ہے۔ ایسا واحد بائیولوجیکل پارٹیکل جو اس طرح کی خاصیت رکھتا ہے، وائرس تھا۔ اس وائرس کو بعد میں روس سارکوما وائرس کہا گیا۔ یا پھر یہ اپنے مخفف آر ایس وی سے مشہور ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آر ایس وی کی دریافت کینسر کا موجب بننے والے پہلے وائرس کی دریافت تھی اور یہ سوماٹک میوٹیشن تھیوری کے لئے دھچکا تھا۔ اس نے کینسر کے نئے وائرس تلاش کرنے کی دوڑ شروع کر دی۔ خیال تھا کہ کیسا کا کازل ایجنٹ مل گیا ہے۔
روس کے ساتھی رچرڈ شوپ کو خرگوشوں میں پاپیلوماوائرس ملا۔ دس سال بعد چوہوں میں لیوکیمیا پیدا کرنے والا اور پھر بلیوں میں پیدا کرنے والا لیکن انسانوں میں کینسر اور وائرس کے تعلق کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔
آخر، تین دہائیوں کی کوشش کے بعد ایسی ایک دریافت ہو گئی۔
برکٹ لمفوما افریقہ کی ملیریا بیلٹ میں بچوں کو ہونے والا کینسر ہے۔ آئرش سرجن ڈین برکٹ کو اس کے پھیلنے کے پیٹرن سے ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کے پیچھے کوئی انفیکشن ہو۔ جب دو برطانوی وائرولوجسٹ نے اس کے خلیات کا تجزیہ کیا تو انہیں ان خلیات میں یہ ایجنٹ مل گیا۔ یہ ملیریا کے نہیں بلکہ انسانی کینسر کے وائرس تھے۔ یہ ایپسٹین بار وائرس تھا اور دریافت ہونے پہلا وائرس تھا جو انسانوں میں کینسر کا سبب بنتا تھا۔
اگرچہ تیس برسوں میں ہونے والی یہ واحد دریافت تھی لیکن اب کینسر وائرس تھیوری مرکزی سٹیج پر تھی۔
وائرل بیماریاں اس وقت میڈیسن کا مرکزِ نگاہ تھیں۔ صدیوں سے ناقابلِ علاج سمجھی جانے والی بیماریوں کے خلاف دفاع مل رہے تھے۔ پولیو کی ویکسین 1952 میں بنی تھی اور شاندار کامیابی تھی۔ اگر کینسر کے پیچھے بھی ایسا وائرس نکل آئے جس سے بچاوٗ ممکن ہو؟ یہ انتہائی پرکشش آئیڈیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس نے ایک ہسٹیریا اور خوف کو چھیڑ دیا۔ اگر کینسر انفیکشن کی طرح ہے تو پھر کینسر کے مریضوں کو الگ تھلگ کر دیا جائے؟ ان سے چیچک اور تپدق والی احتیاط رکھی جائے؟ ایسے بیکٹیریا اور وائرس سے بچا کیسے جا سکتا ہے؟
ایک خاتون نے ڈاکٹر کو لکھا، “میرے گھر میں پھیپھڑے کے کینسر کا ایک مریض کھانسا تھا۔ مجھے کینسر کے جراثیم سے بچنے کے لئے کیا کرنا ہو گا؟ کوئی دوا ہے جو چھڑکی جا سکے؟ کیا مجھے اپنا گھر چھوڑ دینا چاہیے؟”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس جگہ پر “کینسر کے جراثیم” سب سے زیادہ انفیکشن پھیلا رہے تھے، وہ لوگوں کا اور محققین کا تخیل تھا۔ نیشنل کینسر انسٹیٹوٹ نے 1962 میں “سپیشل وائرس کینسر پروگرام” کا افتتاح کر دیا۔ جلد ہی اس پروگرام کو سب سے زیادہ توجہ ملنے لگی۔
سینکڑوں بندر لیبارٹری میں لائے گئے۔ ان کو انسانی ٹیومرز سے انجیکٹ کیا گیا۔ امید یہ تھی کہ اس کی مدد سے ویکسین بنائی جا سکے گی۔ ان میں کوئی ایک وائرس بھی نہیں مل سکا لیکن امید ماند نہیں پڑی۔ اس پروگرام کو اگلے دس سال میں پچاس کروڑ ڈالر کی فنڈنگ ملی (موازنے کے لئے: خوراک اور کینسر کے تعلق کے پروگرام کو اس اثنا میں اڑھائی کروڑ ڈالر کی فنڈنگ ملی)۔
پیٹن روس مین سٹریم میں آ گئے۔ ان کو اپنے کام پر 1966 میں نوبل انعام دے دیا گیا۔ یہ ان کے کام کے 55 سال بعد دیا گیا تھا۔ جب انہوں نے اپنا انعام قبول کیا تو تقریر کرتے ہوئے کہا کہ کینسر کی وائرس تھیوری پر بہت کام کئے جانے کی ضرورت ہے لیکن یہ خیال مضحکہ خیز ہے کہ کینسر کی وجہ خلیے میں ہونے والی کوئی بھی تبدیلی، جیسا کہ جینیاتی میوٹیشن، ہو سکتی ہے۔ “کئی سائنسدان ابھی بھی یقین رکھتے ہیں کہ خلیات میں جینیاتی تبدیلی کینسر کا موجب بن سکتی ہے۔ جب ہم کئی شواہدات کی روشنی میں اس کا جائزہ لیں تو ایسے کسی بھی مفروضے کو فیصلہ کن طور پر رد کر سکتے ہیں”۔
دس دسمبر 1966 کو سٹاک ہوم کے سٹیج سے جب وہ تقریر ختم کر کے اترے تو اس وقت ان کا درجہ کینسر کے مسیحا کا تھا۔
بعد میں انہوں نے کہا، “سوماٹک میوٹیشن تھیوری کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کئی محققین اس پر یقین کرتے ہیں۔ یہ وقت کا ضیاع ہے اور کینسر کی تحقیق میں رکاوٹ ہے”۔
پیچیدگیوں اور باریکیوں سے اکتائے ہوئے سامعین ان کی دوا نگلنے کو تیار تھے، جو “کینسر کے وائرس کی تلاش” تھا۔ سوماٹک میوٹیشن تھیوری وفات پا چکی تھی۔ جو لوگ ماحولیاتی کارسینوجن کی تلاش میں تھے، اب وائرس تھیورسٹ سے انہیں اس چیز کی وضاحت درکار تھی کہ ریڈیم اور کالک آخر کیسے کینسر کا موجب بنتے ہیں۔ (وائرس تھیورسٹ اس کا جواب دیتے تھے کہ ایسی اشیا اینڈوجینس وائرس کو متحرک کر دیتی ہیں)۔
(جاری ہے)
کینسر (30) ۔ ایک علاج

ملٹی ڈرگ تھراپی کی مدد سے ہوجکن بیماری کی ایڈوانسڈ سٹیج کے خلاف حاصل کردہ کامیابی تحقیق کے مورال کے لئے بھی اہم تھی۔ اس سے قبل ہونے والی ویمپ کی ناکامی کی مایوسی چھٹ رہی تھی۔ ویمپ سے لیوکیمیا کے مریض ابتدائی طور پر صحتیاب ہوئے تھے لیکن کینسر نے واپس آن لیا تھا۔ اس وقت چھتیس سالہ اونکولوجسٹ ڈونلڈ پمپل نے سوال کیا کہ کہیں ایسا تو نہیں تھا کہ ویمپ کا حملہ ناکافی تھا؟ کیا مزید ادویات کا کمبی نیشن درکار تھا؟
دوسرا یہ کہ لیوکیمیا اس لئے بچ جاتا تھا کہ یہ اعصابی نظام میں پناہ لیتا تھا اور کیمیکل بلڈ برین بیرئیر پار نہیں کر پاتے تھے۔ کیا کیموتھراپی کو ریڑھ کی ہڈی کے فلوئیڈ میں انجیکٹ کیا جائے تو اس کا تدارک ہو جائے گا؟
تیسرا یہ کہ ایکسرے دماغ میں فائر کی جا سکتی ہیں۔ کیا ان کی ہائی ڈوز کھوپڑی پر پھینک کر کینسر کے خلیوں کو نشانہ بنایا جائے؟
چوتھا یہ کہ کیا کیموتھراپی کے علاج کو ہفتوں یا مہینوں کے بجائے دو یا تین سال تک جاری رکھا جائے؟
یہ اس قدر زہریلا اور کھلا حملہ تھا کہ سینئیر ڈاکٹروں نے اس میں شرکت سے انکار کر دیا۔ پنکل کے پاس جونئیر فزیشن تھے۔
پنکل اس کو total therapy کہتے تھے۔
دوسرے ڈاکٹر اس کو total hell کا نام دیتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پنکل کی ٹیم نے آٹھ ٹرائل چلائے جو 1968 سے 1979 کے درمیان تھے۔ ہر ایک میں کوئی ویری ایشن تھی۔ نتائج زبردست تھے۔ میمفس کی پہلی ٹیم میں 31 مریض تھے، جن کی عمر چار سے چھ سال کے بیچ تھی۔ ان میں سے 27 مکمل صحت یاب ہو گئے۔ کینسر کے واپس آ جانے کا اوسط وقت پانچ سال تھا۔ جبکہ تیرہ مریضوں میں یہ کبھی واپس نہیں آیا۔
کل آٹھ ٹرائلز میں 278 مریض تھے جن میں سے بیس فیصد میں کینسر واپس آیا جبکہ باقی کے اسی فیصد میں کیموتھراپی کے بعد کینسر ختم ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت سے ڈاکٹر علاج کی کوششوں کے بارے میں پرامید نہیں رہے تھے۔ زیادہ تر کا ٹارگٹ علالت کو کم سے کم تکلیف دہ بنانا تھا۔ palliative کئیر واحد طریقہ کار سمجھا جاتا تھا۔
پنکل نے ریویو آرٹیکل میں لکھا۔ “بچوں کا لیوکیمیا اب ناقابلِ علاج مرض نہیں”۔ پنکل کا یہ آرٹیکل مستقبل کے ڈاکٹروں کے لئے بھی تھا اور ایک طرح سے ماضی کے ڈاکٹروں کے لئے بھی۔ ان کے لئے جو فاربر سے جھگڑتے رہے تھے اور ان سے درخواست کرتے رہے تھے کہ “بچوں کو سکون سے مرنے دیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاجکن اور لیوکیمیا کا ہائی ڈوز کیموتھراپی سے مل جانے والا علاج اب بائیولوجیکل تّکا نہیں تھا بلکہ عام اصول بن گیا۔
ڈی ویٹا کا کہنا تھا، “علاج کے لئے معمے کا گمشدہ ٹکڑا مل چکا ہے۔ ہائی ڈوز کیموتھراپی ہر کینسر کا علاج کر دے گی۔ صرف ٹھیک کمبی نیشن ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ جو طاقت سرجن کو اس کا چاقو نے دی تھی، اب اتنی ہی طاقت فزیشن کے کیمیکل اوزار میں ہے”۔
کینسر کا علاج سیاستدانوں کے لئے بھی پرکشش مقصد تھا۔ کینسر کے خلاف “جنگ” کا لفظ استعمال کیا جانے لگا۔ جنگ میں لڑاکا، ہتھیار، فوجی، زخمی، دیکھنے والے، تجزیہ نگار، حکمتِ عملی بنانے والے، فتوحات ہوتی ہیں۔
جنگ کے لئے “دشمن” کی واضح تعریف بھی چاہیے۔ شکلیں بدلتی بیماری کے اس متنوع خاندان کو ایک ہی دشمن قرار دے دیا گیا۔ ایک اونکولوجسٹ کے الفاظ میں کینسر کی “ایک ہی وجہ، ایک ہی مکینزم اور ایک ہی علاج” ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلینیکل اونکولوجسٹ کا حدف ملٹی ڈرگ سائیکوٹوکسک کیموتھراپی کے ذریعے“ایک علاج” تھا جبکہ کینسر کے سائنسدان “ایک وجہ” کی تلاش میں تھے۔
(جاری ہے)

Providing Physical Therapy, Hijama, Acupuncture and Hypnosis services so that Facilitator in Healing Process without Adverse Effects

Operating as usual

23/12/2021

**کینسر (32) ۔ ستاروں پر کمند**

کینسر کے علاج پر تحقیق جاری تھی۔ اور چند کامیابیاں ملی تھیں، جس نے امید بڑھا دی تھی۔

لیکن کئی محققین صبر، باریک بینی اور وقت کا تقاضا کر رہے تھے۔ نیشنل کینسر انسٹیٹوٹ کے ایک ڈائریکٹر نے 1963 میں کہا، “وجہ اور مکینزم کو ٹھیک سے سمجھے بغیر علاج کی تلاش میں تمام توانائی صرف کر دینا درست طریقہ کار نہیں ہے۔ ہمارے پاس یقینی طور پر کینسر کا علاج نہیں۔ ایسا ضرور ہے کہ ہمیں اس پروگرام کی مدد سے درجنوں کیمیکل مل چکے ہیں جو مریض کی زندگی کو کچھ طوالت دے سکتے ہیں یا تکلیف کم کر سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن دوسری طرف کے ایکٹوسٹ اتنی باریکیوں میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ ان کے لئے یہ سیدھا سا مشن تھا۔ فنڈ دئے جائیں، خاص احداف کی خاطر تحقیق کی جائے اور یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔

یہ بحث بالآخر 1969 میں بڑی حد طے ہو گئی۔ اور یہ زمین پر نہیں بلکہ چاند پر ہوئی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیس جولائی 1969 کو پندرہ ٹن وزنی خلائی جہاز چاند کی پتھریلی سطح پر لینڈ کر گیا۔ ایک خلاباز کے الفاظ میں، “ننھا، خوبصورت اور نیلا ۔۔۔ یہ ہمارا سیارہ تھا۔ میں نے ایک انگوٹھا سامنے پھیلایا اور ایک آنکھ بند کر لی۔ میرے انگوٹھے نے اس سیارے کو چھپا لیا”۔

اس نیلے سیارے کے افق پر یہ ایک بہت اہم وقت تھا۔ چاند پر قدم رکھ لینا ایک عظیم الشان سائنسی اور انٹلکچوئل کامیابی تھی۔ یہ نفسیاتی کامیابی بھی تھی۔ اس نیلے سیارے کے جنگلوں اور غاروں سے اٹھنے والی مخلوق اب ستاروں پر کمند ڈالنے کے خوب دیکھ رہی تھی۔

چاند ہزاروں سالوں سے رومانوی کہانیوں کا مرکز رہا تھا۔ ہزاروں سالوں سے اسے آسمان پر ٹنگی ہوئی پرسرار شے سمجھا جاتا تھا۔ صرف چند صدیوں پہلے ہی تو اس سے کچھ واقفیت ہونے لگی تھی۔ اور صرف ساٹھ برس پہلے انسان نے اڑنا سیکھا تھا۔ جہاز کی ایجاد سے چند دہائیوں بعد ہی زمین کی بندش توڑ کر چاند پر چہل قدمی کرنا حیرت انگیز کامیابی تھی۔

سائنس کے حوالے سے بڑی امید اور رجائیت کا وقت تھا۔

“صرف توجہ دینے کی بات ہے۔ کچھ بھی ناممکن نہیں”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپالو پراجیکٹ صاف حدف اور خاص فوکس کے ساتھ کیا گیا تھا۔ اور اس پراجیکٹ کی کامیابی اتنی بڑی تھی کہ اس کے اثرات دور تک گئے۔ کینسر کی تحقیق پر بھی۔ یہ ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا۔

اب یہ خیال عام تھا کہ “جس طرح چاند کو فتح کیا گیا ہے، ویسے کینسر کو بھی کر لیا جائے گا”۔

کینسر ایکٹوسٹ تنظیم نے اس کو کینسر کے لئے “مون شاٹ” کا نام دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نو دسمبر 1969 کو اتوار کے روز واشنگٹن پوسٹ میں پورے صفحے کا اشتہار چھپا۔

“صدر نکسن۔ آپ کینسر کا علاج کر سکتے ہیں۔

اگر آسمان پر دعائیں سنی جاتی ہیں تو یہ دعا سب سے زیادہ ہو گی۔

“یا خدا، مجھے کینسر نہ نکل آئے”۔

لیکن پھر بھی، 318000 امریکی پچھلے برس کینسر کی وجہ سے فوت ہوئے ہیں۔

جناب صدر، اس اذیت کو ختم کرنا آپ کے ہاتھ میں ہے۔

جب آپ بجٹ کی بحث کر رہے ہیں تو ہماری استدعا ہے کہ آپ ان 318000 لوگوں کی اور ان کے خاندانوں کی تکلیف کو یاد رکھیں گے۔

ہمیں اپنے وسائل کا بہتر استعمال کرنا ہے تا کہ لاکھوں جانیں بچائی جا سکیں۔

ڈاکٹر سڈنی فاربر کہتے ہیں، “ہم کینسر کا علاج پا لینے کے دہانے پر ہیں۔ صرف وہ سیاسی ارادہ درکار ہے، ویسا پیسہ اور ویسی تفصیلی منصوبہ بندی چاہیے جس نے انسان کو چاند پر پہنچا دیا"۔

جناب صدر، اگر آپ نے ہم سب کو مایوس کر دیا تو پھر ہر چھ میں سے ایک امریکی کینسر کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ یہ ساڑھے تین کروڑ انسانی جانیں ہیں۔

ہر چار میں سے ایک امریکی کینسر کا شکار ہو گا۔ یہ پانچ کروڑ دس لاکھ لوگ ہیں۔

ہم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے”۔

اس اشتہار کے ساتھ طاقتور تصویر تھی۔ کینسر کے خلیات کا جمگھٹا اکٹھا ہو کر کینسر کے لفظ کے آخری حروف کو ویسے ہی لپیٹ میں لے رہا تھا جیسے کینسر جسم کو لیتا ہے”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میڈیسن کے نیم روشن اندرونی کمروں سے کینسر اب عوامی نگاہوں میں تھا۔

کینسر اخباروں میں تھا اور کتابوں میں۔ فلموں میں اور تھیٹر میں۔ 1971 میں نیویارک ٹائمز میں اس پر 450 مضامین شائع ہوئے۔ کینسر وارڈ، بینگ دی ڈرم سلولی، برائن سونگ جیسی مقبول فلمیں بنیں۔ میگزین اور اخبارات میں یہ نمایاں تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہزاروں سال سے ہمارے ساتھ رہنے والا یہ خاموش موذی اب مرکزِ نگاہ تھا۔

(جاری ہے)

تحریر: وہارا امباکر

09/12/2021

کینسر (31) ۔ ایک وجہ

کینسر آخر ہوتا کیوں ہے؟ وجہ کیا ہے؟ اس کی مقبول وضاحت سوماٹیک میوٹیشن تھیوری تھی۔ اس کے مطابق ماحولیاتی کارسنوجن جیسا کہ ریڈیم یا دھویں کی کالک کسی وجہ سے خلیے کے سٹرکچر کو مستقل طور پر ضرر پہنچاتے تھے اور یہ کینسر کا موجب تھا۔ لیکن کیسے؟ مکینزم کیا تھا؟ یہ نامعلوم تھا۔ یہ تو واضح تھا کہ کالک یا ریڈیم یا پیرافن یا رنگسازی کی بائی پراڈکٹس میں ایسا کرنے کی صلاحیت ہے لیکن کوئی سسٹمیٹک وضاحت موجود نہیں تھی۔ کارسینوجینسس (کینسر کی پیدائش) کی گہری اور بنیادی تھیوری نامعلوم تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کینسر کے محقق اس “ایک وجہ” کی تلاش میں تھے اور 1960 کی دہائی کا سب سے مقبول خیال “وائرس” تھا اور اس خیال کی ابتدا اس سے نصف صدی قبل مرغیوں سے ہوئی تھی۔
پیٹن روس مرغیوں میں ہونے والے ایک نایاب ٹیومر پر تحقیق کر رہے تھے۔ اس تحقیق کے لئے انہیں 1909 میں دو سو ڈالر کی گرانٹ ملی تھی۔ انہوں نے اس کو سارکوما کے طور پر شناخت کر لیا جو ٹشو کا کینسر ہے۔
اس کے خلیوں پر تجربہ کرتے ہوئے انہوں نے معلوم کیا کہ اگر ٹیومر کو ایک سے دوسری مرغی میں انجیکٹ کیا جائے تو یہ پھیل جاتا ہے۔ اس کے بعد روس کو ایک عجیب نتیجہ نظر آیا۔ ایک سے دوسری مرغی میں اس ٹیومر کو منتقل کرتے وقت وہ انہیں خلیاتی چھلنیوں سے گزارنے لگی۔ چھلنیوں کو باریک کرنے لگے۔ یہاں تک کہ یہ اتنی باریک ہو گئیں کہ ان میں سے تمام خلیات نکل گئے اور صرف فلٹریٹ باقی رہ گیا۔ روس کا خیال تھا کہ اب کینسر نہیں منتقل ہو گا لیکن ٹیومر پھیلتا رہا۔
روس نے جو نتیجہ اخذ کیا، وہ یہ کہ کارسنوجن خلیہ یا ماحول نہیں بلکہ خلیے کے اندر پایا جانے والا کوئی ننھا سا پارٹیکل ہے۔ یہ اتنا چھوٹا ہے کہ چھلنیوں سے گزر جاتا ہے اور دوسرے پرندے تک پہنچ جاتا ہے۔ ایسا واحد بائیولوجیکل پارٹیکل جو اس طرح کی خاصیت رکھتا ہے، وائرس تھا۔ اس وائرس کو بعد میں روس سارکوما وائرس کہا گیا۔ یا پھر یہ اپنے مخفف آر ایس وی سے مشہور ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آر ایس وی کی دریافت کینسر کا موجب بننے والے پہلے وائرس کی دریافت تھی اور یہ سوماٹک میوٹیشن تھیوری کے لئے دھچکا تھا۔ اس نے کینسر کے نئے وائرس تلاش کرنے کی دوڑ شروع کر دی۔ خیال تھا کہ کیسا کا کازل ایجنٹ مل گیا ہے۔
روس کے ساتھی رچرڈ شوپ کو خرگوشوں میں پاپیلوماوائرس ملا۔ دس سال بعد چوہوں میں لیوکیمیا پیدا کرنے والا اور پھر بلیوں میں پیدا کرنے والا لیکن انسانوں میں کینسر اور وائرس کے تعلق کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔
آخر، تین دہائیوں کی کوشش کے بعد ایسی ایک دریافت ہو گئی۔
برکٹ لمفوما افریقہ کی ملیریا بیلٹ میں بچوں کو ہونے والا کینسر ہے۔ آئرش سرجن ڈین برکٹ کو اس کے پھیلنے کے پیٹرن سے ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کے پیچھے کوئی انفیکشن ہو۔ جب دو برطانوی وائرولوجسٹ نے اس کے خلیات کا تجزیہ کیا تو انہیں ان خلیات میں یہ ایجنٹ مل گیا۔ یہ ملیریا کے نہیں بلکہ انسانی کینسر کے وائرس تھے۔ یہ ایپسٹین بار وائرس تھا اور دریافت ہونے پہلا وائرس تھا جو انسانوں میں کینسر کا سبب بنتا تھا۔
اگرچہ تیس برسوں میں ہونے والی یہ واحد دریافت تھی لیکن اب کینسر وائرس تھیوری مرکزی سٹیج پر تھی۔
وائرل بیماریاں اس وقت میڈیسن کا مرکزِ نگاہ تھیں۔ صدیوں سے ناقابلِ علاج سمجھی جانے والی بیماریوں کے خلاف دفاع مل رہے تھے۔ پولیو کی ویکسین 1952 میں بنی تھی اور شاندار کامیابی تھی۔ اگر کینسر کے پیچھے بھی ایسا وائرس نکل آئے جس سے بچاوٗ ممکن ہو؟ یہ انتہائی پرکشش آئیڈیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس نے ایک ہسٹیریا اور خوف کو چھیڑ دیا۔ اگر کینسر انفیکشن کی طرح ہے تو پھر کینسر کے مریضوں کو الگ تھلگ کر دیا جائے؟ ان سے چیچک اور تپدق والی احتیاط رکھی جائے؟ ایسے بیکٹیریا اور وائرس سے بچا کیسے جا سکتا ہے؟
ایک خاتون نے ڈاکٹر کو لکھا، “میرے گھر میں پھیپھڑے کے کینسر کا ایک مریض کھانسا تھا۔ مجھے کینسر کے جراثیم سے بچنے کے لئے کیا کرنا ہو گا؟ کوئی دوا ہے جو چھڑکی جا سکے؟ کیا مجھے اپنا گھر چھوڑ دینا چاہیے؟”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس جگہ پر “کینسر کے جراثیم” سب سے زیادہ انفیکشن پھیلا رہے تھے، وہ لوگوں کا اور محققین کا تخیل تھا۔ نیشنل کینسر انسٹیٹوٹ نے 1962 میں “سپیشل وائرس کینسر پروگرام” کا افتتاح کر دیا۔ جلد ہی اس پروگرام کو سب سے زیادہ توجہ ملنے لگی۔
سینکڑوں بندر لیبارٹری میں لائے گئے۔ ان کو انسانی ٹیومرز سے انجیکٹ کیا گیا۔ امید یہ تھی کہ اس کی مدد سے ویکسین بنائی جا سکے گی۔ ان میں کوئی ایک وائرس بھی نہیں مل سکا لیکن امید ماند نہیں پڑی۔ اس پروگرام کو اگلے دس سال میں پچاس کروڑ ڈالر کی فنڈنگ ملی (موازنے کے لئے: خوراک اور کینسر کے تعلق کے پروگرام کو اس اثنا میں اڑھائی کروڑ ڈالر کی فنڈنگ ملی)۔
پیٹن روس مین سٹریم میں آ گئے۔ ان کو اپنے کام پر 1966 میں نوبل انعام دے دیا گیا۔ یہ ان کے کام کے 55 سال بعد دیا گیا تھا۔ جب انہوں نے اپنا انعام قبول کیا تو تقریر کرتے ہوئے کہا کہ کینسر کی وائرس تھیوری پر بہت کام کئے جانے کی ضرورت ہے لیکن یہ خیال مضحکہ خیز ہے کہ کینسر کی وجہ خلیے میں ہونے والی کوئی بھی تبدیلی، جیسا کہ جینیاتی میوٹیشن، ہو سکتی ہے۔ “کئی سائنسدان ابھی بھی یقین رکھتے ہیں کہ خلیات میں جینیاتی تبدیلی کینسر کا موجب بن سکتی ہے۔ جب ہم کئی شواہدات کی روشنی میں اس کا جائزہ لیں تو ایسے کسی بھی مفروضے کو فیصلہ کن طور پر رد کر سکتے ہیں”۔
دس دسمبر 1966 کو سٹاک ہوم کے سٹیج سے جب وہ تقریر ختم کر کے اترے تو اس وقت ان کا درجہ کینسر کے مسیحا کا تھا۔
بعد میں انہوں نے کہا، “سوماٹک میوٹیشن تھیوری کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کئی محققین اس پر یقین کرتے ہیں۔ یہ وقت کا ضیاع ہے اور کینسر کی تحقیق میں رکاوٹ ہے”۔
پیچیدگیوں اور باریکیوں سے اکتائے ہوئے سامعین ان کی دوا نگلنے کو تیار تھے، جو “کینسر کے وائرس کی تلاش” تھا۔ سوماٹک میوٹیشن تھیوری وفات پا چکی تھی۔ جو لوگ ماحولیاتی کارسینوجن کی تلاش میں تھے، اب وائرس تھیورسٹ سے انہیں اس چیز کی وضاحت درکار تھی کہ ریڈیم اور کالک آخر کیسے کینسر کا موجب بنتے ہیں۔ (وائرس تھیورسٹ اس کا جواب دیتے تھے کہ ایسی اشیا اینڈوجینس وائرس کو متحرک کر دیتی ہیں)۔
(جاری ہے)

09/12/2021

کینسر (30) ۔ ایک علاج

ملٹی ڈرگ تھراپی کی مدد سے ہوجکن بیماری کی ایڈوانسڈ سٹیج کے خلاف حاصل کردہ کامیابی تحقیق کے مورال کے لئے بھی اہم تھی۔ اس سے قبل ہونے والی ویمپ کی ناکامی کی مایوسی چھٹ رہی تھی۔ ویمپ سے لیوکیمیا کے مریض ابتدائی طور پر صحتیاب ہوئے تھے لیکن کینسر نے واپس آن لیا تھا۔ اس وقت چھتیس سالہ اونکولوجسٹ ڈونلڈ پمپل نے سوال کیا کہ کہیں ایسا تو نہیں تھا کہ ویمپ کا حملہ ناکافی تھا؟ کیا مزید ادویات کا کمبی نیشن درکار تھا؟
دوسرا یہ کہ لیوکیمیا اس لئے بچ جاتا تھا کہ یہ اعصابی نظام میں پناہ لیتا تھا اور کیمیکل بلڈ برین بیرئیر پار نہیں کر پاتے تھے۔ کیا کیموتھراپی کو ریڑھ کی ہڈی کے فلوئیڈ میں انجیکٹ کیا جائے تو اس کا تدارک ہو جائے گا؟
تیسرا یہ کہ ایکسرے دماغ میں فائر کی جا سکتی ہیں۔ کیا ان کی ہائی ڈوز کھوپڑی پر پھینک کر کینسر کے خلیوں کو نشانہ بنایا جائے؟
چوتھا یہ کہ کیا کیموتھراپی کے علاج کو ہفتوں یا مہینوں کے بجائے دو یا تین سال تک جاری رکھا جائے؟
یہ اس قدر زہریلا اور کھلا حملہ تھا کہ سینئیر ڈاکٹروں نے اس میں شرکت سے انکار کر دیا۔ پنکل کے پاس جونئیر فزیشن تھے۔
پنکل اس کو total therapy کہتے تھے۔
دوسرے ڈاکٹر اس کو total hell کا نام دیتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پنکل کی ٹیم نے آٹھ ٹرائل چلائے جو 1968 سے 1979 کے درمیان تھے۔ ہر ایک میں کوئی ویری ایشن تھی۔ نتائج زبردست تھے۔ میمفس کی پہلی ٹیم میں 31 مریض تھے، جن کی عمر چار سے چھ سال کے بیچ تھی۔ ان میں سے 27 مکمل صحت یاب ہو گئے۔ کینسر کے واپس آ جانے کا اوسط وقت پانچ سال تھا۔ جبکہ تیرہ مریضوں میں یہ کبھی واپس نہیں آیا۔
کل آٹھ ٹرائلز میں 278 مریض تھے جن میں سے بیس فیصد میں کینسر واپس آیا جبکہ باقی کے اسی فیصد میں کیموتھراپی کے بعد کینسر ختم ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت سے ڈاکٹر علاج کی کوششوں کے بارے میں پرامید نہیں رہے تھے۔ زیادہ تر کا ٹارگٹ علالت کو کم سے کم تکلیف دہ بنانا تھا۔ palliative کئیر واحد طریقہ کار سمجھا جاتا تھا۔
پنکل نے ریویو آرٹیکل میں لکھا۔ “بچوں کا لیوکیمیا اب ناقابلِ علاج مرض نہیں”۔ پنکل کا یہ آرٹیکل مستقبل کے ڈاکٹروں کے لئے بھی تھا اور ایک طرح سے ماضی کے ڈاکٹروں کے لئے بھی۔ ان کے لئے جو فاربر سے جھگڑتے رہے تھے اور ان سے درخواست کرتے رہے تھے کہ “بچوں کو سکون سے مرنے دیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاجکن اور لیوکیمیا کا ہائی ڈوز کیموتھراپی سے مل جانے والا علاج اب بائیولوجیکل تّکا نہیں تھا بلکہ عام اصول بن گیا۔
ڈی ویٹا کا کہنا تھا، “علاج کے لئے معمے کا گمشدہ ٹکڑا مل چکا ہے۔ ہائی ڈوز کیموتھراپی ہر کینسر کا علاج کر دے گی۔ صرف ٹھیک کمبی نیشن ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ جو طاقت سرجن کو اس کا چاقو نے دی تھی، اب اتنی ہی طاقت فزیشن کے کیمیکل اوزار میں ہے”۔
کینسر کا علاج سیاستدانوں کے لئے بھی پرکشش مقصد تھا۔ کینسر کے خلاف “جنگ” کا لفظ استعمال کیا جانے لگا۔ جنگ میں لڑاکا، ہتھیار، فوجی، زخمی، دیکھنے والے، تجزیہ نگار، حکمتِ عملی بنانے والے، فتوحات ہوتی ہیں۔
جنگ کے لئے “دشمن” کی واضح تعریف بھی چاہیے۔ شکلیں بدلتی بیماری کے اس متنوع خاندان کو ایک ہی دشمن قرار دے دیا گیا۔ ایک اونکولوجسٹ کے الفاظ میں کینسر کی “ایک ہی وجہ، ایک ہی مکینزم اور ایک ہی علاج” ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلینیکل اونکولوجسٹ کا حدف ملٹی ڈرگ سائیکوٹوکسک کیموتھراپی کے ذریعے“ایک علاج” تھا جبکہ کینسر کے سائنسدان “ایک وجہ” کی تلاش میں تھے۔
(جاری ہے)

09/12/2021

**کینسر (29) ۔ ملٹی ڈرگ تھراپی**

کینسر کی ادویات دریافت کرنے کے تین ذرائع تھے۔ ایک سائنسدانوں کے لگائے گئے اندازے، جیسا کہ فاربر نے اندازہ لگایا تھا کہ اینٹی فولییٹ لیوکیمیا کے خلیوں کے بڑھنے کو بلاک کر سکتا ہے اور اس کیلئے ایمینوپٹرین کو استعمال کیا تھا۔ دوسرا اتفاقی دریافتیں، جیسا کہ مسٹرڈ گیس کا خلیات کو مار دینے کے ایکشن سے ایکٹینومائیسین ڈی کی دریافت یا پھر ہزاروں مالیکیولز کو لے کر ایک ایک کر کے ٹیسٹ کر کے اس کا اثر دیکھ کر اس کو چننا۔ سکس ایم پی کو اس طرح دریافت کیا گیا۔

ان سب میں جو مشترک خاصیت تھی، وہ خلیات کے بڑھنے میں رکاوٹ ڈالنے کی تھی۔ اور یہ خاصیت بلاتحصیص تھی۔ نائیٹروجن مسٹرڈ زیادہ تقسیم ہونے والے ہر خلیے کو مار دیتی تھی جس وجہ سے کینسر اس کی لپیٹ میں آ جاتا تھا۔ کینسر کے خلاف آئیڈیل دوا وہ ہوتی جو کینسر کے خلیے کے کسی خاص مالیکیولر حدف پر حملہ آور ہوتی۔ 1960 کی دہائی میں کینسر کی بائیولوجی کا علم بہت ناقص تھا لیکن ونسنٹ ڈی ویٹا یہی کرنا چاہتے تھے۔ اور ان کا خیال تھا کہ اگر ایسا ہو جائے تو پھر ہی ہر قسم کے کینسر کے علاج تک پہنچا جا سکے گا۔ انہوں نے اس تجربے کے لئے ہوجکن لفموما کے کینسر کا انتخاب کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈی ویٹا 1964 میں چار ادویات کی انتہائی زہریلی کاک ٹیل بنا چکے تھے۔ کینسر انسٹیٹیوٹ میں ان کے تجربے کی مخالفت ہوئی لیکن فرے نے ناقدین کو خاموش کروا لیا۔

ہوجکن کی بیماری ہو جانا مریض کے لئے جلد موت تھی۔ ڈی ویٹا اور کانیلوس نے 43 مریضوں کی رضامندی حاصل کر لی جن پر اس نئی کاک ٹیل کا تجربہ کیا جانا تھا۔ یہ کاک ٹیل موپ (MOPP) تھی۔ مریضوں کی عمر تیرہ سال سے انہتر سال کے درمیان میں تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس سے پہلے استعمال کردہ چار زہروں کا کمبی نیشن ویمپ تھا۔ اور ویمپ کی دہشت انفیکشن سے موت کی تھی۔ خون کے سفید خلیات کے ختم ہو جانے سے بیکٹیریا کو آزاد میدان مل جاتا تھا۔ جبکہ موپ کی دہشت متلی کی تھی۔

اس علاج سے ہونے والی متلی خوفناک تھی۔ اچانک ہوتی تھی اور اس قدر شدت سے کہ ذہن مفلوج کر دیتی تھی۔

پھر نئے سائیڈ ایفیکٹ نظر آنے لگے۔ امیون سسٹم تباہ ہو جانے کی وجہ سے عجیب انفیکشنز بن جاتی تھیں۔ ایک مریض میں نایاب قسم کا نمونیا نمودار ہو گیا۔

موپ کیمیوتھراپی کا ایک اور بڑا سائیڈ ایفیکٹ اگلی دہائی میں معلوم ہوا۔ یہ دوسرے کینسر کے ہو جانے کا تھا، جو زیادہ جارحانہ تھا اور اس کینسر کی وجہ موپ کیموتھراپی تھی۔ موپ دوہری دھار والی تلوار تھی۔ ایک طرف کینسر کاٹ دینے والی اور دوسری طرف کینسر کا موجب بننے والی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن ان اثرات کے علاوہ، علاج سودمند رہے۔ کئی نوجوان مریضوں میں پھولے ہوئے لمف نوڈ ہفتوں میں ٹھیک ہو گئے۔ بیماری سے نڈھال ایک بارہ سالہ لڑکے کا وزن گر کر پچاس پاونڈ رہ چکا تھا۔ علاج کے تین مہینے میں یہ وزن دگنا ہو گیا۔ کئی مریضوں میں ہوجکن لمفوما کی جسم پر گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ مہینے گزرتے گئے اور نظر آنے لگا کہ کمبینیشن کیمو ایک بار پھر کامیابی دکھا رہی تھی۔ چھ ماہ میں 43 میں سے 35 مریض مکمل صحت یاب ہو چکے تھے۔ اس ٹرائل میں کنٹرول گروپ نہیں تھا لیکن موثر ہونے کا طے کرنے کے لئے اس گروپ کی ضرورت نہیں تھی۔ ہوجکن کی ایڈوانسڈ سٹیج پر پہنچ جانے کے بعد واپسی؟ ایسا کبھی پہلے نہیں ہوا تھا۔ کامیابیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ نصف سے زیادہ مریضوں کا علاج طویل مدت میں کامیابی سے ہو رہا تھا۔

ملٹی ڈرگ تھراپی نے سٹیج تھری اور سٹیج فور کے مریضوں کو قابلِ علاج کر دیا تھا۔ کینسر کی تاریخ میں یہ ایک بڑا سنگِ میل اور اہم کامیابی تھی۔

(جاری ہے)

تحریر: وہارا امباکر

01/12/2021

اومی کرون 20سے زائد ممالک میں پھیل گیا
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق کورونا وائرس کی نئی قسم اومی کرون دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہی ہے اور اسے کورونا وائرس کی سب سے زیادہ خطرناک قسم قرار دیا جا رہا ہے جو صرف 15 سیکنڈ میں منتقل ہو جاتی ہے۔

ماہرین کے مطابق اومی کرون سے بار بار انفیکشن ہونے کا خطرہ دیگر تمام اقسام سے زیادہ ہے اور یہ تیزی سے ایک کے بعد دوسرے ملک میں پھیل رہا ہے۔

کورونا کی نئی قسم ” اومی کرون” 20 سے زائد ممالک تک پھیل چکا ہے ، جس میں جنوبی افریقہ، بوٹسوانا، نیدرلینڈ، پرتگال، جرمنی، ہانگ کانگ، آسٹریلیا، ڈنمارک، آسٹریا، بیلجیئم، چیک ری پبلک، اٹلی، سعودی عرب، نائجیریا، جاپان اور اسرائیل سمیت دیگر ممالک شامل ہیں ۔

اومی کرون کی جینیاتی ساخت
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اومی کرون میں 50 سے زیادہ تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں جبکہ سب سے زیادہ خطرناک قرار دی جانے والی قسم ڈیلٹا میں صرف 2 تبدیلیاں پائی گئی تھیں۔

کورونا وائرس کی نئی قسم کا تکنیکی نام بی ڈاٹ ون ڈاٹ ون فائیو ٹو نائن ہے۔ اور اس نئی قسم میں ری انفیکشن کا خطرہ دیگر اقسام سے زیادہ ہے۔جس کے باعث عالمی ادارہ صحت نے او می کرون کو Variant of concern یا باعث تشویش قرار دیا ہے ۔ اس سے قبل کورونا وائرس کی چار اقسام کو تشویش کا باعث قرار دیا گیا تھا ۔

ان اقسام کو دیکھا جائے تو مئی 2020 میں جنوبی افریقا سے کورونا کی نئی قسم Beta کے کیسز رپورٹ ہوئے ۔ یہ ویرینٹ یا قسم دنیا کے146 ممالک تک پھیلی اور اس کی اسپائیک پروٹین میں 10 تبدیلیاں نوٹ کی گئیں ۔

20ستمبر سے 19نومبر 2021تک اس کے پھیلاؤ کی شرح 0.1 فیصدسے کم دیکھی گئی ۔ جس کے بعد ستمبر 2020 میں برطانیہ سے ایک نئی قسم رپورٹ ہوئی جسے ایلفا کا نام دیا گیا ۔

یہ دنیا کے 197 ممالک تک پھیلی ، کورونا وائرس کی اس قسم کے پھیلاؤ کی شرح 20ستمبر سے 19نومبر 2021تک 0.1ایک فیصد سے کم دیکھی گئی ۔ البتہ اس کے اسپائیک پروٹین میں 11 تبدیلیاں نظر آئیں ۔

نومبر 2020 میں برازیل سے کورونا کی نئی قسم Gamma کے کیسز رپورٹ ہوئے ۔ یہ قسم دنیا کے 103 ممالک تک پھیلی اور 20ستمبر سے 19نومبر 2021کے دستیاب نمونوں میں اس وائرس کی موجودگی کی شرح 0.1 فیصد رہی ۔

گاما کے اسپائیک پروٹین میں 12 تبدیلیاں بھی نظر آئیں ۔ اکتوبر 2020میں بھارت سے کورونا کی نئی قسم ڈیلٹا سامنے آئی ۔ جس نے دنیا کے 196 ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ اس کے اسپائیک پروٹین میں دس تبدیلیاں دیکھی گئیں ۔

مگر یہ وائرس بہت تیزی سے پھیلا اور 20ستمبر سے 19نومبر 2021 تک جن سیمپلز کی جانچ کی گئی اس میں وائرس کی موجودگی کی شرح 99.8 فیصد دیکھی گئی ۔

ڈیلٹا کے برعکس نومبر 2021 میں جنوبی افریقا سے سامنے آنے والے اومیکرون کے کیسز اب تک دس سے زائد ممالک سے رپورٹ ہوچکے ہیں اور اب تک تحقیق کے دوران اس کے اسپائیک پروٹین میں 32 تبدیلیاں سامنے آچکی ہیں۔

اومیکرون سے کیسے بچا جائے؟
تحقیق اور معلومات کی کمی کے باعث حتمی طور پر اومیکرون کے اثرات سے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق سائنس دان یہ جاننے کے لیے کوشش کر رہے ہیں ۔ دنیا بھر کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اس بات پر ہی زور دیا جا رہا ہے کہ اومیکرون کے خلاف مزاحمت کے لیے ویکسینیشن کے عمل کو تیز کیا جائے اور جو لوگ اب تک ویکسین سے محروم ہیں ان تک ویکسین پہنچائی جائے۔ ساتھ ہی ساتھ کورونا کے خلاف طے شدہ حفاطتی اقدامات پر عمل درآمد بھی اومیکرون سے بچاؤ میں مدد دے سکتے ہیں، یعنی ماسک پہننا اور سماجی فاصلوں کا خیال رکھنا۔

Facilitator in Healing

Physical Therapist

Cupping Therapist/Hijama Practitioner

Acupuncturist

Certified Hypnotist

Videos (show all)

Location

Products

Physical Therapy
Cupping Therapy/Hijama
Acupuncture
Hypnosis

Telephone

Address


Street Number 2, Salamat Pura, Rahwali
Gujranwala
52280

Opening Hours

Monday 09:00 - 23:00
Tuesday 09:00 - 23:00
Wednesday 09:00 - 23:00
Thursday 09:00 - 23:00
Friday 09:00 - 23:00
Saturday 09:00 - 23:00
Sunday 09:00 - 23:00

Other Acupuncture in Gujranwala (show all)
Dental Care Dental Care
Gujranwala

State of art dental setup.

Doctor Muhammad Asif malik. - urologist Doctor Muhammad Asif malik. - urologist
Muhammad Islam Pura Babar Ghulam Muhammad Take Dar St#8
Gujranwala

Endoscopic and surgery specialist. Male infertility Prostate surgery Urinary tract stone removal Undescended te**is fixation Urological emergencies

Dr Abid Ch Dr Abid Ch
Feroz Wala Road ,Muhamdi Chowk Gujranwala
Gujranwala, 52250

Guaranteed cure for Obesity( which is accumulated fat),Falling hair,short height and Skin problems. ALhamdullilah we are curing since 20 years.

Men's Weakness Men's Weakness
Main City
Gujranwala, 52200

Men's Weakness Its All About Men's Sexual Health Problems and Solutions Discussion

Dr Jawad Yousuf Dr Jawad Yousuf
Gondal Medical Complex
Gujranwala, 52250

Child Specialist (FCPS) MBBS (AMC), Diplomate AFPGMI

PRP Pain Clinic PRP Pain Clinic
Islamabad
Gujranwala

Dr Amir Sohail specialist in pain management with expertise in backache,neuralgias,joint pains, sports injuries and reconstructive therapies like PRP and Stem cell therapy.

Dr. H. Ashraf Dr. H. Ashraf
Hospital Road، Munir Chowk، Civil Lines,
Gujranwala, 52310

This page is meant to spread awareness in Health and Medical issues. If you have any health-related queries, please do not hesitate to contact.

Enamored Dental Studio Enamored Dental Studio
Gujranwala Rawali Cantt
Gujranwala

we are here to improve your smile :)

Herbalist amjad Herbalist amjad
Gujranwala, 52250

Part time Business Part time Business
Gujranwala
Gujranwala, 52250

home business

Musa Physiotherapy, acupuncture Center Musa Physiotherapy, acupuncture Center
Available On Call
Gujranwala, 055

INTRODUCTION TO PHYSIOTHERAPY. HIJAMA Physiotherapy is a dynamic way of treatment, which uses a range of techniques to restore movement and body function. ACUPUNCTURE Acupuncture is treatment that involves electric pulses on different body points for pain

Naveed Lab/MERAJ Medical Complex Naveed Lab/MERAJ Medical Complex
Opposite Civil Hospital, Civil Lines, Gujranwala, Pakistan
Gujranwala, 52250

Meraj Medical Complex Aziz Market opposite main gate Civil Hospital, Gujranwala, Pakistan.