Dr Hikmat ullah

Dr Hikmat ullah Harnai

بہترین انسان وه ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے ۔ پاوں ہاتھوں اور جسم کے دوسرے حصوں پر جو کیل نکل اتے ہیں جسکی ایک قسم کو ...
05/09/2023

بہترین انسان وه ہے جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے ۔
پاوں ہاتھوں اور جسم کے دوسرے حصوں پر جو کیل نکل اتے ہیں جسکی ایک قسم کو پشتو میں (زخہ) کہتے ہیں
انکو ختم کرنے کے لیے کچا انجیر کا پانی لگانے سے بلکل ختم ہوجاتے ہیں جس نے بھی یہ فارمولا آزمایا ہے اس کو کچے انجیر سے آفاقہ ہوا ہے ۔
لہذا ثواب کی نیت سے اگے شئیر کرے
شاید آپکے شئیر سے کسی بھائی کو آفاقہ ھو جائے ۔

Dr Hikmat ullah

ایچ پائلوری ، معدے کے مسائل اور علاج            اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو اس قدر خوبصورتی سے تخلیق کیا ہے کہ جس کی ...
11/08/2023

ایچ پائلوری ، معدے کے مسائل اور علاج

اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو اس قدر خوبصورتی سے تخلیق کیا ہے کہ جس کی کوئی مثال موجود نہیں اور جب تک قدرت کے بنائے ہوئے طریقوں پر انسانی جسم چلتا رہتا ہے تب تک یہ بالکل صحت مند رہتا ہے لیکن جیسے ہی قدرت سے بغاوت کرنے کا سوچتا ہے تو اس خوبصورت شاہکار میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے ۔ معدے کا کام خوراک کو ہضم کرکے بدن کا حصہ بنانا ہے جب تک معدہ ٹھیک طرح سے کام کرتا ہے تو پورا جسم حتٰی کہ دماغ بھی بہترین کام کررہا ہوتا ہے لیکن جیسے ہی معدے کے مسائل پیدا ہوتے ہیں پورا جسم متاثر ہوجاتا ہے اسی لیے معدے کو اُم الامراض بھی کہا جاتا ہے ۔ ان سب عوامل کے پیچھے بہت ساری وجوہات کارفرما ہوتی ہیں جیسے کہ ناقص خوراک کے ساتھ مختلف انرجی ڈرنکس وغیرہ لیکن آج ہم ایک خاص جراثیم جس کا نام ہیلی کوبیکٹر پائلوری (Helicobacter pylori) ہے سے پیدا شدہ مسائل پر بات کریں گے ۔

ایچ پائلوری انفیکشن کیا ہے ؟

ایچ پائلوری دیگر جراثیم کی طرح ایک عام جراثیم (Bacteria) ہے جو کہ معدہ میں پایا جاتا ہے اور وقتا فوقتاً معدے کی اندرونی تہہ (Stomach linning) پر حملہ آور ہوتا ہے جس کی وجہ سے معدہ اور چھوٹی آنت میں السر یعنی کہ زخم پیدا ہوسکتا ہے بعض اوقات بغیر کسی نقصان کے بھی پایا جاسکتا ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں چوالیس فی صد یا پچاس فی صد لوگوں کو ایچ پائلوری انفیکشن ہے ۔ اپنے آپ کو برقرار رکھنے کے لیے معدے کی تیزابیت کو کم کرنے کے ساتھ معدے کے ماحول کو تبدل کر دیتا ہے جس سے معدے کے مختلف مسائل جنم لیتے ہیں مثلا ً پیپٹک السر (peptic ulcer)، گیسٹراءٹس (Gastritis) وغیرہ ۔

علامات کیا ہیں ؟

اگر دیکھا جائے تو بعض لوگوں میں ایچ پائلوری جراثیم کی کوئی علامات موجود نہیں ہوتیں، لیکن ان میں جراثیم پائے جاتےہیں ۔ لیکن جب معدے کی تہہ میں السر یعنی کہ زخم پیدا ہوتا ہے تو پھر کچھ علامات سامنے آتی ہیں جیسے کہ خاص طور پر خالی پیٹ یا کھانے کے کچھ دیر بعد معدے میں درد، سوزش، تیزابیت ، پاخانے کا بےقاعدہ نہ ہونا ۔ اس کے علاوہ پیٹ میں اپھارہ ، بلند ڈکاریں ، بھوک کی کمی ،متلی، اور جسم میں کمزوری یا لاغری پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ سر میں بوجھ کے احساس کا پیدا ہونا یا ذہنی تناؤ جیسی علامات سامنے آتی ہیں ۔

وجوہات کیا ہیں ؟

ایچ پائلوری پھیلنے کی خاص وجہ تو ابھی تک دریافت نہ ہوسکی البتہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایچ پائلوری جراثیم ناقص ، آلودہ پانی یا خوراک کے ذریعے ایک انسان سے دوسرے میں منتقل ہوتے ہیں ۔ یا منہ یعنی بوسہ لینایا پاخانے کے ذریعے ایک شخص سے دوسرے شخص کو متاثر کرتے ہیں یعنی کہ متاثرہ شخص کے پاخانے کے ذریعے دوسروں تک ایچ پائلوری جرثومہ پہنچتا ہے ۔ لہٰذا پاخانے کے بعد ہاتھوں کو اچھی طرح دھونا چاہیے ۔

پیچیدگیاں کیا ہوسکتی ہیں؟

معدے اور چھوٹی آنت میں حفاظتی تہہ کو خراب کر کے السر یا زخم کا پیدا ہوجانا ۔ اس کے علاوہ معدے کے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ معدے کے مختلف کینسر کا سبب بھی یہ جرثومہ بن سکتا ہے ۔

تشخیص کیسے کی جائے؟

عام طور پر خون میں انٹی باڈیز کی مدد سے پتا لگایا جاتا ہے کہ آیا ایچ پائلوری کے خلاف انٹی باڈیز جسم میں موجود ہیں کہ نہیں ، پاخانے کا تجزیہ کرکے بھی جراثیم کو دیکھا جاتا ہے اور اس مقصد کے لیے خون یا پاخانے کا کلچر ٹیسٹ بھی کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ سانس کے معائنے جس میں انزائم یوریس اور EGD کا پتہ لگایا جاتا ہے اور جس میں معدہ اور آنت کو بھی دیکھا جاتا ہے ۔

علاج کیا ہے؟

عام طور پر اگر دیکھا جائے تو ایچ پائلوری انفیکشن میں یہ دونوں انٹی بائیوٹیکس جیسا کہ ) (amoxicillin, clarithryomycin کا استعمال عام کیا جاتا ہے ۔ (metranidazole) اور (azithromycin, tetracycline) کے ساتھ ساتھ (proton pump inhibitor) گروپ کی ادویات کا استعمال بھی کیا جاتا ہے مثلاً (lansoprazole, omeprazole, pantoprazole, rabeprazole or esomeprazole)

بعض اوقات دیگر ادویات کے ساتھ (Bismuth subsalicylate) کا استعمال بھی کروایا جاتا ہے تاکہ معدے کی تہہ کی حفاظت ہوسکے ۔

آج کل تو دو انٹی بائیوٹیکس کمبینیشن (rifabutin and amoxicillin) کا استعمال (proton pump inhibitor) کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ جو کہ چودہ دن کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ (Azithromycin) نامی انٹی بائیوٹیک کا استعمال بھی بڑھ گیا ہے لیکن ان سب کے باوجود مریضوں میں معدے کے مسائل بڑھتے رہتے ہیں ۔

ہومیو پیتھک علاج کیا ہے؟

ایچ پائلوری انفیکشن کو اگر دیکھا جائے تو شروع میں کوئی خاص مسائل پیدا نہیں کرتا ، لیکن اگر یہ جراثیم ایک عرصے تک معدے کو خراب کرتے رہیں اور اس کے بعد طرح طرح کے انٹی بائیوٹیکس اور معدے کی دیگر ادویات کا بے دھڑک استعمال کیا جاتا رہے تو یہ جراثیم پیچیدہ مسائل پیدا کردیتے ہیں اور مریض میں پیچیدہ قسم کے مسائل جنم لے لیتے ہیں حتٰی کہ معدے کے مختلف کینسر اسی وجہ سے پیدا ہوجاتے ہیں اگر ہم ہومیوپیتھک ادویات کی بات کریں جو کہ نہایت محفوظ طریقہ علاج ہے تو اس میں ایچ پائلوری کا علاج بہت ہی آسانی سے کیا جاتا ہے بلکہ نہ صرف ایچ پائلوری انفیکشن کا بلکہ اس سے پیدا شدہ پیچیدگیوں کو بھی بہترین طریقے سے نمٹا جاسکتا ہے عام طور پر جن ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے ان میں (h-pylori nosode, nux vomica, arsenic alb, phosphorus, carbo veg, natrum phos, lyco, iris vers) اور اس کے علاوہ بھی کوالیفائیڈ ہومیو فزیشن علامات کے مطابق دیگر ادویات کا استعمال کروا سکتا ہے جس سے نہ صرف ایچ پائلوری انفیکشن کا مکمل خاتمہ ممکن ہوسکتا ہے بلکہ دیگر پیچیدگیوں سے بھی بچا جاسکتا ہے ۔

https://www.facebook.com/profile.php?id=100084261360661&mibextid=ZbWKwL   ایک انسان کے اندر کھربوں خلیے ہیں اور ہر خلیہ ...
03/08/2023

https://www.facebook.com/profile.php?id=100084261360661&mibextid=ZbWKwL

ایک انسان کے اندر کھربوں خلیے ہیں اور ہر خلیہ میں 46 کروموسومز ہیں ۔ اسی کروموسوم میں انسان کا سب سے قیمتی خزانہ (Data) ڈی این اے کی شکل میں پایا جاتا ہے ۔ اگر ایک ڈی این اے کو دیکھا جائے تو یہ بہت ہی پیچیدہ ساخت رکھتا ہے ، یہ کل چار بیسز A, G, T, C
سے مل کر بنا ہوتا ہے۔ یہی بیسز آگے پیچھے مل ایک دھاگہ نما ساخت بناتے ہیں ۔

اگر ہم ڈی این اے کی ساخت دیکھے تو یہ سیڑھیاں نما سی ہوتی ہے، یعنی ہمارا پورا ڈی این اے دو دھاگہ نما بیسز سے بنا ہوتا ہے ۔اگر ایک دھاگہ کا کوڈ ACTG ہے تو دوسرا اس کے بلکل برعکس TGAC ہوگا ۔

میڈیکل سائنس میں اسی کو ڈی این اے کوڈنگ کہتے ہیں اور اسی سے ہمیں ایک انسان کی خصوصیات معلوم ہوتی ہے ۔ اگر ایک انسان کی رنگت سفید ہے تو اس کا الگ کوڈ اور کالے رنگ والے کا الگ کوڈ ہوگا ۔

ڈی این اے کو انسان کی لائبریری بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں انسان کی تمام معلومات اِن کوڈز کی شکل میں محفوظ رہتی ہے ۔ اسی کو استعمال کرتے ہوئے سائنسدان کئی صدیوں پرانے ڈھانچے سے ڈی این اے نکال کر اس کا سارا قصہ کھول دیتے ہیں ۔

ڈی این اے مالیکیول جتنا اہم ہے اتنا ہی مستحکم یہ بنا ہوا ہے ۔
کیسے صدیوں پرانے ڈھانچے میں سب کچھ ختم ہو جاتا ہے لیکن ڈی این اے محفوظ رہتا ہے؟ تو اس کا جواب ہے کہ ڈی این اے پر منفی چارج ہوتا ہے اسی وجہ کوئی بھی دوسرا منفی چارج اس پر حملہ آور نہیں ہوسکتا، اس لیے یہ ایک لمبے عرصے تک محفوظ رہتا ہے ۔



Dr Hikmat ullah

https://www.facebook.com/profile.php?id=100084261360661&mibextid=ZbWKwLسرخ گوشتتحریر: ڈاکٹر یونس خان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔...
30/07/2023

https://www.facebook.com/profile.php?id=100084261360661&mibextid=ZbWKwL
سرخ گوشت

تحریر: ڈاکٹر یونس خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عنوان دیکھ کر اگر آپ کو سعادت حسن منٹو کی یاد آجائے تو یہ مت سمجھئے گا کہ یہ بھی منٹو صاحب کا کوئی ناقابلِ اشاعت قسم کا افسانہ ہے۔ وہ گوشت کوئی اور تھا جس کا افسانہ نگاروں میں چرچا رہا۔ یہ تو معصوم سا، ہلکا پھلکا بس ایک سائنسی نوعیت کا مضمون ہے، وہ بھی سرخ گوشت کے بارے میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب چاہے وہ "ٹھنڈا" ہو یا گرم۔

حکیموں اور ویدوں نے تو چھوٹے اور بڑے گوشت کی اقسام کی بنیاد ڈالی مگر یہ اپنی سائنس گوشت کو دو منفرد اقسام میں تقسیم کرتی ہے؛

1۔ سرخ گوشت
2۔ سفید گوشت

سرخ گوشت میں ممالیہ مثلاً گائے، بھینس، دنبہ، بکرے وغیرہ کا گوشت شامل ہے (نوٹ: یہ "وغیرہ" سے مراد گدھا مت سمجھ لیجئے گا)۔ ویسے عوام تو گائے بھینس کے گوشت کو بڑا گوشت اور بکرے یا دنبے کو چھوٹا گوشت سمجھتے ہیں۔ اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے قصائی بھائی کٹے (بھینس کے بچے) کے گوشت کو چھوٹا گوشت کہہ کر بڑی کامیابی سے بیوقوف بنا ڈالتے ہیں۔

سفید گوشت مچھلی، مرغی اور دیگر پرندوں میں ہوتا ہے۔ گوجرانوالا کے دوستوں کے لئے معصوم سے چڑے کا گوشت بھی۔

گوشت کا سرخ رنگ شرم و حیا کی زیادتی کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک خاص قسم کی پروٹین، مائیوگلوبین (Myoglobin)، کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ خون کی ہیموگلوبین کی مانند ہے اور اسی کی طرح آکسیجن اور آئرن کو اپنے ساتھ باندھے رکھتی ہے۔

مچھلی اور پرندے کے گوشت میں اس کی مقدار کم ہونے کی وجہ سے اس کی رنگت سفیدی مائل ہوتی ہے جبکہ گائے یا بکرے وغیرہ میں اس کی مقدار خاصی زیادہ ہوتی ہے، جس کی بنا پر ان جانوروں کا گوشت سرخی مائل ہوتا ہے۔

اگر فائدے اور نقصانات کے ترازو سے سرخ و سفید گوشت کا موازنہ کیا جائے تو عوام یہ سمجھتے ہیں کہ سرخ گوشت بہت نقصان دہ اور سفید گوشت بہت فائدہ مند ہے۔ یہ بات کافی حد تک درست ہے، لیکن اگر سرخ گوشت کا بھی استعمال ٹھیک طریقے سے کیا جائے تو اس کے خاصے فوائد ہیں تاہم اس کے نقصانات سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔

ویسے بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیز جو گوشت کی تجارت سے وابستہ ہیں، پروسیسڈ میٹ کے حق میں زمین آسمان کے قلابے ملاتی نظر آتی ہیں، مگر ہم پوری ذمہ داری سے آپ کو بتا رہے ہیں کہ پروسیسڈ میٹ کی بجائے تازہ گوشت بہت بہتر ہوتا ہے۔

ایک صحتمند انسان دن بھر میں زیادہ سے زیادہ 90 گرام تک سرخ گوشت استعمال کر سکتا ہے۔ اس مقدار سے زیادہ کبھی بھی استعمال نہ کیا جائے، ورنہ آپ ہاسپٹل والوں کی معقول آمدنی کا باعث بن جائیں گے اور صحت بیچاری الگ خراب رہے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرخ گوشت کے فوائد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

⁦▪️⁩سرخ گوشت پروٹین سے بھر پور ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں فیٹ fat ، وٹامن بی، آئرن، سیلینئیم اور زنک پایا جاتا ہے۔ شاید یہی فوائد ہیں جن کی بنا پر مہاتما گاندھی اپنے لڑکپن میں چھپ چھپ کر گوشت کھایا کرتے تھے۔ (یہ بات انہوں نے خود اپنی کتاب میں لکھی ہے)

⁦▪️⁩آئرن خون کے سرخ خلیوں میں موجود ہیموگلوبین کا لازمی جزو ہے، جس کا کام آکسیجن کی ترسیل ہے۔ اگر اس کی کمی ہو جائے تو انسان اینیمیا کا شکار ہو جاتا ہے۔ آئرن کی کمی عموماً بچوں، بوڑھوں اور حاملہ خواتین میں ہوتی ہے۔

⁦▪️⁩زنک جسم کے مدافعتی ںظام کی صحت کے لئے بہت اہم ہے۔ یہ بھی سرخ گوشت سے حاصل ہوتا ہے۔

⁦▪️⁩جو لوگ مہنگے مہنگے فوڈ سپلیمینٹس لیتے ہیں، وہ جان لیں کہ وٹامن بی 3، B6 اور B12 سرخ گوشت میں بہترین مقدار میں پایا جاتا ہے۔ بی 6 مدافعتی نظام کیلئے اور بی 12 اعصابی نظام کے لئے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔

⁦▪️⁩سرخ گوشت میں بہت بڑی مقدار میں ایل کارنیٹین (L-Carnitine) پایا جاتا ہے۔ اس کا کردار فیٹ میٹابولزم میں بہت کلیدی ہے۔ کئی کمپنیاں اپنے فوڈ سپلیمینٹس میں ایل کارنیٹین کی موجودگی کی تشہیر یوں کرتی ہیں جیسے یہ کوئی نادر و نایاب شے ہو۔

⁦▪️⁩اگر آپ بڑھاپے کو خود سے دور رکھنا چاہتے ہیں تو آپ کے لئے خوشخبری ہے۔ سرخ گوشت میں ایک اہم ترین اینٹی آکسیڈنٹ پایا جاتا ہے جس کا نام گلوٹاتھائیون Glutathione ہے۔ یہ بڑھاپے اور بیماریوں کو روکتا ہے۔ جسم کو چست اور توانا رکھتا ہے۔ جلد، بال اور ناخن صحتمند اور لچکدار رہتے ہیں۔

⁦▪️⁩سدا جوان رہنے کے خواہشمند قارئین کے لئے ایک اور اچھی خبر۔ سرخ گوشت میں کارنوسین carnosine پایا جاتا ⁦ہے، جو مدافعتی نظام کو مضبوط بناتا ہے اور جسم میں سوزش کو کم کرتا اور اس طرح بڑھاپے کو دور بھگاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرخ گوشت کے نقصانات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سرخ گوشت کے تمام نقصانات اعتدال سے تجاوز کرنے کا نتیجہ ہیں۔ اگر اس کی متوازن مقدار لی جائے تو صحتمند انسان کو کوئی نقصان نہیں۔

⁦▪️⁩سرخ گوشت کا سب سے بڑا نقصان دل اور شریانوں ⁦کی بیماریاں ہیں جن میں اس کا کردار بہت اہم ہے۔ چونکہ یہ کولیسٹرول اور saturated fat سے بھرا ہوتا ہے، اس لئے اس کی "ضرورت سے زائد" مقدار شریانوں اور دل کی صحت کے لئے بہت مضر ہے۔ مگر گھبرائیے نہیں، آپ ورزش کر کے اس نقصان سے صاف بچ سکتے ہیں۔

⁦▪️⁩ہاورڈ یونیورسٹی کی سنہ 2011 میں کی گئی ایک تحقیق سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ جو لوگ روزانہ 110 گرام یا زائد سرخ گوشت استعمال کرتے ہیں، ان میں ٹائپ 2 ذیابیطس کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ کیا یہ بری خبر ہے؟ نہیں جناب، اس خبر کے اندر ایک اچھی خبر یہ ہے کہ کم گوشت کھانے سے ذیابیطس ٹائپ 2 کا خطرہ باقی نہیں رہتا۔

⁦▪️⁩سرخ گوشت کا اہم تعلق بڑی آنت کے کینسر سے بھی سامنے آیا ہے۔ زیادہ سرخ گوشت کھانے والے اس مہلک بیماری میں زیادہ مبتلا ہوتے ہیں۔ جی ہاں، صرف وہی جو زیادہ گوشت کھاتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حرفِ آخر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ثابت ہوا کہ سرخ گوشت برا ہے، مگر اتنا بھی برا نہیں جتنا اس بیچارے کو بدنام کر دیا گیا ہے۔

اگر اس کی مقدار 120 گرام روزانہ لی جائے تو اس کے نقصانات یقینی ہیں۔

90 گرام روزانہ لینے والے نقصان سے فاصلے پر رہتے ہیں مگر 70 گرام روزانہ لینے والے اس کے فوائد سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ روزانہ لینا ممکن نہ ہو تو ہفتے میں دو یا تین مرتبہ ضرور استعمال کریں۔

دل یا گردے کے مریض اور بلڈ پریشر یا ذیابیطس میں مبتلا افراد اپنے ڈاکٹر کے مشورے سے استعمال کریں۔ (اور دواؤں کو بڑوں کی پہنچ سے دور رکھیں)

(یہ آرٹیکل معروف سائنسی جریدے "گلوبل سائنس" کے نومبر 2019 کے شمارے میں شائع ہوا)

اہم__معلومات۔۔۔!!"ہماری کھوپڑی میں موجود دماغ کا وزن 3.1 پاؤنڈز یا ڈیڑھ کلو ہوتا ہے"کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ اتنا وزن ہمیں...
07/05/2023

اہم__معلومات۔۔۔!!
"ہماری کھوپڑی میں موجود دماغ کا وزن 3.1 پاؤنڈز یا ڈیڑھ کلو ہوتا ہے"
کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ اتنا وزن ہمیں سر میں محسوس کیوں نہیں ہوتا؟
کیونکہ ہمارا دماغ سپائنل فلوڈ میں تیرتا رہتا ہے اور فزکس کا اصول ہے کہ "تیرنے والی شئے کا وزن، اس مادے کے برابر ہوجاتا ہے کہ جس میں وہ تیرتا ہے"
اسی وجہ سے دماغ کا وزن صرف 50 گرام رہ جاتا ہے۔

"یہ تصویر ہبل ٹیلی سکوپ سے لی گئ ہے اور یہ کوٸی ریت کی تصویر نہیں ہے بلکہ یہ کہکشاں "اینڈرومیڈا" کی تصویر ہے۔ اس میں ہر ...
07/05/2023

"یہ تصویر ہبل ٹیلی سکوپ سے لی گئ ہے اور یہ کوٸی ریت کی تصویر نہیں ہے بلکہ یہ کہکشاں "اینڈرومیڈا" کی تصویر ہے۔ اس میں ہر ڈاٹ ایک مکمل ستارہ ہے اور ہر ایک "ستارہ" دوسرے قریبی ستارے سے کافی فاصلے پر واقع ہے۔۔ دیکھنے میں یہ نقطے یعنی ستارے اگر چہ بہت قریب قریب نظر آتے ہیں۔لیکن ان میں ہر ڈاٹ دوسرے سے اتنا دور ہے کہ ناسا کی جدید ترین ٹیکنالوجی ہر دو dots کے درمیان پایا جانے والا فاصلہ 200 سالوں میں بھی طے نہیں کرسکتی کیونکہ انکے درمیان کم سے کم "فاصلہ" چار 4 نوری سال ہے۔ اینڈرومیڈا کہکشاں ہماری "زمین" سے 2.5 ملین نوری سال کی دوری پر واقع ہے۔اس میں 400 بلین ستارے موجود ہیں جبکہ اسکی لمباٸی 260000 نوری سال ہے۔

اگر آپ لوگ سوچ رہے ہیں، کہ یہ یونیورس کی سب سے بڑی کہکشاں ہوگی، تو آپ کی یہ سوچ یقینا درست نہیں، کیونکہ یہ سب سے بڑی کہکشاں نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ یہ Alcyneus کہکشاں کے سامنے ایک ریت کی مانند ہےکیونکہ alcyneus کہکشاں اس کے مقابلے میں بہت بڑی ہے۔یقینا یہ جان کر آپ حیران ہوجاٸیں گے کہ alcyneus کہکشاں کی لمباٸی 16.3 ملین نوری سال ہے۔ اگر ہم ایک ایسے خلاٸی جہاز میں بیٹھ جاٸیں،، جو روشنی کی رفتار سے چلے یعنی ایک سیکنڈ میں زمین کے گرد سات چکر کے برابر سفر،تو alcyneus کہکشاں کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک جانے کے لٸے سولہ 16 ملین سال سے زیادہ کا وقت لگے گا۔

گو کہ اس "رفتار" کا حصول بھی "ناممکنات" میں سے ہے۔ کیونکہ ان کے لیے "mass" زیرو کرنا پڑے گا۔۔ فلکیات دانوں کا کہنا ہے کہ پوری کاٸنات Universe میں تقریبا 200 بلین سے زیادہ اس طرح کے کہکشاں موجود ہیں۔۔ چونکہ یہ تمام کے تمام ستارے ہی ہے۔۔۔۔۔۔۔ ان میں ایک بھی سیارہ نہیں ہے۔ کیونکہ سیارے ڈھونڈنا کافی مشکل ہے اس کا مطلب یہ ہے، کہ اس پوری تصویر میں ایک بھی ایسا "ڈاٹ" نہیں ہے، جو زمین سے "size" میں چھوٹا یا اسکے برابر ہو، بلکہ اس میں ہر ایک "ڈاٹ" زمین سے بہت ہی بڑا ہے۔۔۔۔۔۔کیونکہ یہ ستارے ہیں۔فلکیات سے محبت کرنے والے ایڈ کرے۔👇👇۔۔۔۔!!!!

07/05/2023


"اینٹی بائیوٹک ادویات "، غیری ضروری استعمال اور مسائل
--+++---+++---+++---+++--
دنیا کے تقریباً ہر ملک میں بڑے پیمانے پر ادویات کو ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر استعمال کرنے کا رواج ھے۔ مثال کے طور پر لوگوں کو کوئی طبی علامت لاحق ہوتی ہے تو وہ اپنی سمجھ بوجھ یا پچھلے تجربے کے مطابق فارمیسی سے جا کر ادویات خرید لیتے ہیں۔

اگر کوئی دوا خاص طور پر ان کو لاحق مرض کی ہو تو علامات میں افاقہ ہوتا ہے ورنہ ان ادویات کے استعمال سے نہ صرف پہلے سے موجود طبی علامات میں بگاڑ آتا ہے بلکہ کئی دوسری علامات بھی لاحق ہو جاتی ہیں۔ ان علامات میں سب سے عام علامت ڈائریا ہوتی ہے۔

مختلف امراض کے لیے جو ادویات سب سے زیادہ استعمال کی جاتی ہیں وہ اینٹی بائیوٹک ہیں۔ یہ ادویات بخار سے لے کر گردوں کی سوزش اور انفیکشن تک مختلف امراض کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ یہاں پر ایک سوال یہ ابھرتا ہے کہ اینٹی بائیوٹک کن ادویات کو کہا جاتا ھے ۔؟

* اینٹی بائیوٹک کیا ہے؟
اینٹی بائیوٹک ایسی ادویات (ٹیبلیٹس، کیپسولز، سیرپ، انجیکشنز) کو کہا جاتا ہے جو بیکٹیریا کی وجہ سے لاحق ہونے والے امراض کے علاج کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ اینٹی بائیوٹک ادویات کی کئی اقسام ہوتی ہیں۔ ان میں سے ہر قسم بیکٹیریا کی وجہ سے لاحق ہونے والی مخصوص انفیکشن کے علاج کے لیے استعمال کی جاتی ھے۔

اگر اینٹی بائیوٹک کی ایک قسم ایسے مرض کے لیے استعمال کی جائے جس کے لیے وہ مؤثر نہیں ہے تو مرض میں کمی آنے کے بجائے شدت آئے گی۔ اس کے علاوہ غیر ضروری اینٹی بائیوٹک ادویات استعمال کرنے کی وجہ سے معدہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں اینٹی بائیوٹک ادویات کو سب سے زیادہ غیر ضروری طور پر استعمال کیا جاتا ھے۔

* اینٹی بائیوٹک کا غیر ضروری استعمال:
اینٹی بائیوٹک کے غیر ضروری استعمال سے متعلق پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد میں ایک طبی تحقیق کی گئی۔ اس تحقیق کے مطابق زیادہ تر لوگ مرض کی تشخیص کے بغیر اینٹی بائیوٹک استعمال کر رہے تھے۔ تحقیق میں سامنے آنے والے نتائج کے مطابق مریض سپروفلاکسسن نامی اینٹی بائیوٹک دوا استعمال کر تے تھے۔

مریض یہ دوا کھانسی، ناک بہنے، زکام، اسہال، گلے کی خراش، اور بخار کے علاج کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ لیکن حیران کن طور یہ دوا یعنی سپروفلاکساسن ان میں سے کسی بھی مرض کے علاج کے لیے استعمال نہیں کی جاتی ھے۔
اس نتیجے کو مدنظر رکھتے ہوئے محققین نے یہ تجویز دی تھی کہ حکومت پاکستان کو اینٹی بائیوٹک ادویات کی غیر ضروری فروخت پر پابندی لگانی چاہیئے۔ اس ضمن میں فارمیسیز اور میڈیکل اسٹورز کو یہ ہدایات جاری کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر کسی بھی قسم کی اینٹی بائیوٹک فروخت کرنے سے گریز کریں۔

اس کے علاوہ پاکستان جیسے ممالک میں گلے کی خراش یا سوزش کے لیے لیووفلاکساسین نامی اینٹی بائیوٹک استعمال کی جاتی ہے۔ تقریباً ہر فرد یہ دوا ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر استعمال کرتا ہے۔ ڈاکٹرز کے مطابق سپروفلاکسسن کی طرح یہ دوا بھی گلے کی خراش کے لیے علاج کے لیے مؤثر نہیں ہے اور اس کا استعمال نہایت غیر ضروری ہوتا ھے۔

* اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال سے اموات:
ان ادویات کے بےجا استعمال سے نہ صرف معمولی طبی علامات ظاہر ہوتی ہیں بلکہ کئی لوگوں کی موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے مطابق پاکستان میں ہر چار میں ایک شخص اینٹی بائیوٹک کو غلط طریقے سے استعمال کرنے کی وجہ سے موت کا شکار ہو جاتا ہے۔

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ سے جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق ستر فیصد پاکستانی اینٹی بائیوٹک ادویات کو غیر ضروری طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ اینٹی بائیوٹک کے غیر ضروری استعمال کی وجہ سے جسم میں اینٹی بائیوٹک مزاحمت پیدا ہو جاتی ھے۔

* اینٹی بائیوٹک مزاحمت کیا ھے ؟
عام طور پر اینٹی بائیوٹک کے استعمال سے جسم میں انفیکشنز کی وجہ بننے والے بیکٹیریا ختم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ جب ان ادویات کے استعمال سے بیکٹیریا ختم نہیں اور نہ ہی یہ ادویات بیکٹیریا پر اثر انداز ہوتی ہیں تو اسے اینٹی بائیوٹک مزاحمت کہا جاتا ھے۔

اینٹی بائیوٹک مزاحمت کی وجہ سے جسم میں بیکٹیریا کی مزاحمت جاری رہتی ہے جس سے انفیکشنز میں شدت آتی ہے۔ اگر انفیکشنز میں شدت آ جائے تو انہیں کنٹرول کرنا کافی مشکل ثابت ہو سکتا ھے۔
ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ جب کوئی شخص غیر ضروری طور اینٹی بائیوٹک ادویات کو استعمال کرتا ہے تو بیکٹیریا پر اینٹی بائیوٹک ادویات کا اثر کم ہونا شروع جاتا ہے۔ اس کے علاوہ غلط اینٹی بائیوٹک استعمال کرنے سے بیکٹیریا طاقتور ہوتے ہیں جو شدید طبی مسائل کا باعث بن سکتے ہیں۔

* اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال کے مضر صحت اثرات:
اینٹی بائیوٹک کو ڈاکٹر کے نسخے یا مشورے کے مطابق استعمال کرنے سے بھی مضرِ صحت خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، تاہم خود ساختہ طور یہ ادویات استعمال سے اثرات شدید ہو سکتے ہیں۔ عام طور اینٹی بائیوٹک کے استعمال سے اسہال، متلی، اور قے وغیرہ کا سامنا کرنا پڑتا ھے۔

یہ مضرِ صحت اثرات تھوڑے وقت کے لیے نمودار ہوتے ہیں اور خود بخود ختم ہو جاتے ہیں، لیکن کبھی کبھار ان اثرات کو ختم کرنے کے لیے مزید ادویات کے استعمال کی ضرورت ہوتی ھے۔
اس کے علاوہ اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال سے کچھ الرجک ری ایکشنز بھی ظاہر ہو سکتے ہیں۔ ان ری ایکشنز میں جِلد کی خارش، کھانسی، سانس لینے میں مشکلات، اور گلے کی خراش شامل ہے۔ اینٹی ہسٹامائن ادویات کے استعمال سے یہ ری ایکشنز آسانی کے ساتھ ختم ہو جاتے ہیں۔

بشکریہ: ہیلتھ وائر آن لائن بلاگ

19/08/2022
13/08/2022
13/08/2022

Address

Killi Sarkan Street 2
Harnai
HARNAI

Telephone

+923333749381

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dr Hikmat ullah posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Dr Hikmat ullah:

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram

Category