Habib medical center

Habib medical center Day care Health center with OPD on daily basis It is clinic for patient treatment of all age groups
Daycare center for rehydration
Having laboratory facility

https://www.facebook.com/share/p/pWyf7Xf7rnB17sXt/?mibextid=WC7FNe
07/10/2024

https://www.facebook.com/share/p/pWyf7Xf7rnB17sXt/?mibextid=WC7FNe

Flue shot !
Available at
DrUmarPolyClinic Flate No 13,14. Street-1, F-8 Near Khyber Bank. Akhunzada(Zangal )Market Phase 6 Hayatbad Peshawar. Timings Morning 11:30 AM to 2 PM Evening 4 PM to 11:30 PM Appointment 03065862226 0915862226 ( Dr Umar- Sunday not Available... But Dr Kareem available on Sunday Evening)

https://www.facebook.com/share/q2ZqqvG3Ug64tVgC/?mibextid=WC7FNe
22/09/2024

https://www.facebook.com/share/q2ZqqvG3Ug64tVgC/?mibextid=WC7FNe

Sunday Evening clinic
Dr Abdul Karim Afridi

DrUmarPolyClinic Flate No 13,14. Street-1, F-8 Near Khyber Bank. Akhunzada(Zangal )Market Phase 6 Hayatbad Peshawar.
Timings Appointment 03065862226 0915862226
( Dr umar- sunday not Available... But Dr Kareem available on Sunday Evening)

Subscribe our channel and like our YouTube video 👍😊👍
30/12/2023

Subscribe our channel and like our YouTube video 👍😊👍

Dengue! Break bone Disease

21/10/2023

Like our page

DrUmarPolyclinic is place where multi clinics run by different specialist with affordable Fees

02/10/2022

Dengue ڈینگی

ڈینگی کیا ہے؟

ڈینگی دراصل ایک وائرس کا نام ہے جس کا تعلق وائرس کے Flaviviridae خاندان سے ہے. اس وائرس کے 4 اقسام ہیں جن کو DEN-1, DEN-2, DEN-3 اور DEN-4 کہا جاتا ہے.

کیا یہ صرف پاکستان میں موجود ہے؟

نہیں. ڈینگی آدھی سے زیادہ دنیا میں پھیلا ہوا ہے اور تقریباً ہر ملک میں اس کے متاثرہ لوگ موجود ہیں.

یہ کیسے پھیلتا ہے؟

ڈینگی دو انواع کے مادہ مچھروں کے ذریعے پھیلتا ہے جن کے نام Aedes aegypti اور Aedes albopictus ہیں.
ان دو مچھروں میں زیادہ پھیلاؤ Aedes aegypti کے ذریعے ہوتا ہے.
جیسے ہی یہ وائرس مچھر کے جسم میں چلا جاتا ہے تو دس دن بعد وہ مچھر اپنی پوری زندگی وہی وائرس پھیلاتی رہتی ہے.
کاٹے جانے کے بعد جب انسانوں میں علامات ظاہر ہو تو اسی بندے سے تقریباً 12 دن تک Aedes جینس کے مچھروں کے ذریعے وائرس پھیلتا جاتا ہے.

ان مچھروں کی پہچان کیا ہے؟

ان مچھروں کی پہچان بہت آسان ہے. Aedes aegypti کی پہچان یہ ہے کہ اس کے پاؤں پر کالے اور سفید دھاریوں کے ساتھ ساتھ اس کے Thorax یعنی کمر پر بھی ایک سفید لکیر ہوگی. جبکہ Aedes albopictus کی پہچان یہ ہے کہ اس کے جسم پر کالے اور سفید دھاریاں ہوتی ہیں. اس کے thorax پر لکیر ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے آنکھوں کے درمیان سے لے کر اس کے thorax تک ایک اور سفید لکیر ہوتی ہے جو اس نوع کی خاص پہچان ہے.

یاد رکھیں کہ مچھروں کے بہت سے جنگلی انواع کے پاؤں پر بھی اس طرح کے کالے اور سفید دھاریاں ہوتی ہیں اور لوگ ان کو Dengue پھیلانے والا مچھر سمجھ لیتے ہیں جوکہ وہ ہوتے نہیں. آپ نے فوراً ان کے کمر پر لکیر دیکھنا ہے.

کیا یہ مچھر دوسرے وائرس بھی پھیلاتے ہیں؟

جی ہاں. Aedes aegypti ڈینگی وائرس سمیت Zika, chikungunya اور یرقان کے وائرس بھی پھیلاتا ہے.
اگر ایک بندے کو ڈینگی بخار ہو اور اس کو عام مچھر کاٹ لیں تو کیا وہ عام مچھر ڈینگی پھیلا سکتا ہے؟

نہیں، عام مچھر کسی بھی صورت ڈینگی کے وائرس نہیں پھیلا سکتا کیونکہ ان کا اندرونی جسم وائرس کے لئے موزوں نہیں ہے اور وائرس ان کے معدے میں جاتے ہی ہضم ہو جاتا ہے.

یہ مچھر کہاں رہتے ہیں؟

ان مچھروں کی پسندیدہ جگہ صاف پانی ہے. یہ عموماً پنکچر کی دکان والی ٹائروں جن میں پانی بھرا ہوتا ہے، گملوں، سوئمنگ پولز اور وہ پانی کی ٹینکیاں جن پر ڈھکن نہیں ہوتا، اس میں رہتے ہیں.

ڈینگی بحار کے علامات کیا ہیں؟

متاثرہ مچھر کے کاٹنے کے تقریباً 4 سے دو ہفتوں کے بعد علامات شروع ہو جاتے ہیں. ڈینگی بخار کے سب سے بنیادی علامات میں بہت تیز بخار (104 تک)، شدید سر درد، آنکھوں کے پیچھے درد، دل کا خراب ہونا، الٹی کرنا، پٹھوں اور جوڑوں کا درد اور جسم پر خارش جیسے سرخ دانوں کا نمودار ہونا ہے. یہ شروع کے علامات ہیں جو 3 دنوں سے لے کر ایک ہفتہ تک رہتے ہیں.

ڈینگی جب شدت اختیار کر لے تو ابتدائی علامات کے بعد جسم کا درجہ حرارت یعنی بخار کم ہو جاتا ہے اور پھر مسلسل الٹی شروع ہو جاتی ہے اور الٹیوں میں خون آنا شروع ہو جاتا ہے ، پیٹ میں شدید درد، تھکاوٹ، بے سکونی، سانس کا پھولنا، مسوڑوں سے خون آنا شامل ہے. یہ تب ہوتا ہے جب خون میں platelets کی مقدار بہت گر جاتی ہے اور اندرونی اعضاء سے خون جسم کے اندر رسنے لگتا ہے. یہ انتہائی خطر ناک علامات ہیں جو ایک سے دو دن تک رہتے ہیں اور جانلیوا ہیں مگر بر وقت طبی امداد سے بچ جانے کے امکانات ہیں.

اگر کسی بندے کو ایک دفعہ بخار ہو جائے تو کیا اس کو دوبارہ ڈینگی بخار ہو سکتا ہے؟

جیسے اوپر بتایا گیا ہے کہ ڈینگی وائرس کے 4 اقسام ہیں جو بخار کا سبب بنتے ہیں. ایک قسم کا وائرس ایک ہی دفعہ بیماری کا سبب بنتے ہیں. پھر جسم میں ان کے خلاف مدافعت پیدا ہو جاتی ہے اور وہی قسم دوبارہ بیماری یا شدید بیماری کا سبب نہیں بن سکتا.

کیا ڈینگی کا علاج دوائی سے ممکن ہے؟

نہیں، فی الوقت ڈینگی کا کوئی علاج نہیں. ہسپتال میں مریض کا fluid level برقرار رکھا جاتا ہے اور بخار کو کم کرنے کی دوائی دی جاتی ہے. اور ساتھ میں لیموں ملا سیب کا جوس. یاد رکھیں ڈینگی کے سارے اقسام جان لیوا نہیں ہوتے. مریض کے مرنے کے چانسز 20 فیصد ہوتے ہیں اور کسی قسم کا کوئی علاج نہ کیا جائے. بر وقت علاج کی صورت میں مرنے کے چانسز 1 فیصد سے بھی کم ہوتے ہیں.

کیا ڈینگی کے ویکسین موجود ہیں؟

جی ہاں. ڈینگی کے ویکسین موجود ہیں جن کو Dengvaxia کہا جاتا ہے جو 2015 میں بنائے گئے جو 9 سے لے کر 45 سال تک کے عمر کے افراد کے لئے موزوں ہیں جو فی الحال کئی ممالک میں دستیاب ہیں جو بہت زیادہ ڈینگی کی لپیٹ میں ہیں. یہ ویکسین پوری دنیا میں بہت سے وجوہات کی بناء پر دستیاب نہیں اور وہ مسئلے وقت کے ساتھ حل کئے جائیں گے.

کیا ڈینگی سے بچاؤ ممکن ہے؟

ڈینگی سے بچاؤ یا خاتمے کے لئے اس مچھر کو ختم کرنا ہوگا جو یہ وائرس پھیلاتے ہیں. ان کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ:

گھر میں موجود گملوں، سویمنگ پولز، یا کسی بھی برتن میں پانی کھڑا نہ رہنے دیں یا اس کو ڈھانپ کر رکھیں جس میں مچھر داخل نہ ہو سکے.

گلیوں یا گھروں کے آس پاس موجود پانی کے چھوٹے تالابوں کو بند کر دیں اور اس کے آس پاس موجود گھاس میں کیڑے مار دوا سپرے کریں.

رات کو مچھر دانی کا استعمال کریں اور اپنے اور بچوں کے جسم کے کھلے اعضاء پر کوئی بھی مچھر بھگانے والے کیمیکل کا استعمال کریں.

پورے آستینوں اور پائنچوں والا لباس پہن رکھیں.

کیا کوئی ایسی سپرے ہے جس کو گھر میں کرنے سے ان سے محفوظ رہا جا سکتا ہے؟

جی ہاں. پر اگر آپ کے گھر میں بچے ہیں تو سپرے کرنا محفوظ طریقہ نہیں ہے اور سپرے کرتے وقت خود بھی نہایت احتیاط کرنی چاہیے. آپ گھر میں Icon یا Lambda نامی سپرے کر سکتے ہیں پر سپرے کرتے وقت پورے جسم کو ڈھانپ لیں اور ماسک اور عینک کا استعمال لازمی ہے. سپرے کے وقت سب برتن ڈھانپ لیں اور بچوں کو دور رکھیں. سپرے کے بعد نہا لیں.

یہ مچھر کب کاٹتے ہیں ؟

ان مچھروں کو crepuscular کہا جاتا ہے جس کا مطلب یہ سورج طلوع اور غروب ہونے کے وقت ایکٹیو ہوتے ہیں اور کاٹتے ہیں. یہ زیادہ اونچا نہیں اڑ سکتے اس لئے عموماً پاؤں پر کاٹتے ہیں. سورج طلوع ہونے کے 2 گھنٹے بعد یہ کاروائی شروع کرتے ہیں اس لئے اگر آپ متاثرہ علاقوں میں رہتے ہیں تو گھاس پر چلتے وقت یا ان اوقات کے وقت ہاتھ پاؤں پر موسپل وغیرہ لگائے رکھیں.

انکے دئیے گئے انڈے کتنے وقت تک کار آمد ہوتے ہیں؟

اگر یہ کسی جگہ انڈے دیں اور وہاں سے پانی ختم ہو جائے تو ان کے انڈے 1 سال تک کار آمد ہوتے ہیں. جیسے ہی ان کو پانی دستیاب ہوجاتا ہے، ان سے بچے نکل آتے ہیں.

ڈینگی کے مچھروں کو انفرادی طور پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے یا پھر اجتماعی؟

اس کا سب سے مؤثر کنٹرول اجتماعی طور پر ہو سکتا ہے. اگر ایک گاؤں والے اجتماعی طور پر پورے گاؤں میں غیر ضروری تالاب بند کریں اور کمیونٹی بنیاد پر سپرے کریں تو ان کو آسانی سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے. اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ اپنے سکول، کالج، دفاتر، حجرہ یا کسی بھی کام والی جگہ پر ڈینگی کے متعلق آگاہی پھیلائیں..

A Dengue Awareness!صوبہ خیبرپختونخوا میں ایک بار پھر ڈینگی وائرس نے وبائی شکل اختیار کرلی ہے , لیکن علاج سے پہلے بیماری ...
14/09/2022

A Dengue Awareness!
صوبہ خیبرپختونخوا میں ایک بار پھر ڈینگی وائرس نے وبائی شکل اختیار کرلی ہے , لیکن علاج سے پہلے بیماری سے بچنے کیلئے احتیاط ضروری ہے تو آئیے احتیاطی تدابیر اپنا کر اس بیماری کی روک تھام میں کردار اداکریں گے اور خود و اپنے خاندانوں کو اس جان لیوا بیماری سے محفوظ بنائیں

اس تحریر میں ڈینگی بخار سے منسلک علامات، علاج، اور احتیاطی تدابیر کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی ہے جو کہ درج ذیل ہیں
ڈینگی بخار کی علامات
ڈینگی بخار کی علامات اکثر معتدل یعنی ایک جیسے ہوتی ہیں، تاہم شدید بیماری کی صورت میں ڈینگی بخارانتہائی خطرناک اور ممکنہ طور پر جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ ڈینگی فلو جیسی علامات کا سبب بنتا ہے جو اکثر 7-2 دن تک مریض کو متاثر کرتی ہیں۔ مریض کو بخار ڈینگی کے مچھر کے کاٹنے کے 10-4 دن کے درمیان ہوتا ہے۔ ڈینگی بخار کی علامات درج ذیل ہیں:
• تیز بخار
• سر میں شدید درد
• آنکھوں کے پیچھے درد
• پٹھوں، ہڈیوں یا جوڑوں کا درد
• جلد پر خارش
• متلی اور قے
اگر آپ کو انفیکشن کے تین سے سات دنوں کے دوران ڈینگی کی کوئی شدید علامات ظاہر ہوں تو ہسپتال میں داخل ہونا ضروری ہو سکتا ہے۔ ڈینگی کی شدید علامات یہ ہیں:
• پیٹ میں شدید درد
• مسلسل قے آنا
• سانس کے مسائل
• مسوڑھوں یا ناک سے خون بہنا
• قے میں خون کی موجودگی
• بے چینی یا تھکاوٹ
نوٹ: شدید علامات یا ڈینگی سے متعلق پیچیدگیوں کی صورت میں فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
ڈینگی بخار کا علاج
اگر آپ میں ڈینگی کی علامات ظاہر ہوں تو آپ کو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ اگر آپ کو ہلکی علامات ہیں، تو آپ کو گھریلو علاج کا مشورہ دیا جائے گا۔ شدید بیماری کی صورت میں آپ کو ہسپتال میں داخلے کی ضرورت پڑھ سکتی ہے۔ علاج کے دوران زیادہ سے زیادہ آرام کریں
• صحت مند اور غذائیت سے بھرپور کھانا کھائیں۔
• نمکول یا او آر ایس کا استعمال کریں اور پانی زیادہ پئیں۔
نوٹ: ماہرین ڈینگی بخار کے دوران آئبوپروفین اور اسپرین جیسی ادویات لینے سے منع کرتے ہیں۔ تمام ادویات ڈاکٹر کے مشورے کے بعد استعمال کریں۔
ڈینگی سے بچاؤ کے لئے ہدایات
ڈینگی سے بچاؤ کے لئے آپ درج ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کر سکتے ہیں۔
انفرادی طور پر اپنانے والی احتیاطی تدابیر
• طلوع آفتاب کے دو گھنٹے اور غروب آفتاب کے دو گھنٹے بعد باہر نہ نکلیں کیونکہ۔
• اِن اوقات میں ایڈیس مچھر کے کاٹنے کی شدت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔
• ہلکے رنگ اور لمبے بازو والے کپڑے پہنیں۔ گہرے رنگ کے کپڑوں سے پرہیز کریں۔
• کیونکہ وہ مچھروں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔
• جسم پر مچھر بھگاوٴ لوشن لگائیں۔
• دن کے وقت بھی مچھر دانی کے نیچے سوئیں۔
گھریلو سطح پر اپنانے والی احتیاطی تدابیر
• اپنے گھر میں کیڑے مار دوا کا چھڑکاؤ کریں۔ یہ چھڑکاؤ اندھیرے کونوں میں۔
• خاص طور پر کریں، جیسے بستر کے نیچے، الماریوں کے پیچھے، درختوں کے نیچے، وغیرہ۔
• گھر کی کھڑکیوں اور دروازوں کو بند رکھیں۔
• مچھروں کو اندر آنے سے روکنے کے لئے گھر کے اندر مچھر بھگاوٴ کوائلز اور میٹ کا استعمال کریں۔
• اپنے گھر کے اندر یا اس کے اردگرد موجود پانی کو جمع ہونے نہ دیں۔
• مویشیوں کے برتن، فوارے، پودوں، وغیرہ میں باقاعدگی سے پانی نکالیں اور تبدیل کریں۔
• مچھروں کو داخل ہونے سے روکنے کے لئے پانی کے ٹینکوں کو ڈھانپیں۔
• چھت پر یا گھر کے ارد گرد ڈرین پائپوں کو صاف کریں تاکہ پانی کے بہاؤ کو بغیر کسی رکاوٹ کے یقینی بنایا جا سکے۔
محلے کی سطح پر اپنانے والے اقدامات
• اپنی گلیوں کو صاف رکھیں اور اپنے گھر کے باہر ایسی چیز نہ رکھیں جس میں پانی جمع ہو سکے۔
• اپنے کوڑے کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگائیں۔
• اپنے محلے کے پانی کی نالیوں میں کچرا یا فضلہ نہ پھینکیں۔
• اپنے پڑوس کی باقاعدگی سے نگرانی کریں اور کھڑے پانی کو سر

04/04/2022

Ramzan clinic time
3:30pm to 6:15 pm. then 7:45 pm to 12:00Am night.
Same Usual clinic timing except almost 1 and half hour Roza Afthar break time.

Sunday off as usual.

20/11/2021

حالیہ #ویکسینیشن # کیمپین:........

بہت سے لوگ حالیہ سرکاری ویکسینیشن کیمپین کے بارے میں پوچھ رہے ہیں جس میں Measles & Rubella ویکسین لگائی جا رہی ہے. اس سے متعلق مندرجہ ذیل نکات کو ذہن نشین کر لیں:

1. یہ ویکسین ہے کیا؟

یہ ویکسین 2 بیماریوں کے خلاف ہے:. خسرہ (Measles). جرمن میزلز (Rubella)

خسرہ سے تو آپ لوگ واقف ہی ہیں. جرمن میزلز بھی وائرس سے ہونے والی، خسرہ سے ملتی جلتی بیماری ہے. فرق یہ ہے کہ اسکی شدت کم ہوتی ہے اور اس میں جب جلد پر سرخ نشان(rash) ابھرتے ہیں تو بخار ٹوٹ جاتا ہے جبکہ خسرہ میں rash کے ساتھ بخار مزید تیز ہو جاتا ہے.

2. انکے خلاف ویکسین کیوں ضروری ہے؟

یاد رکھیں کہ یہ دونوں بیماریاں خطرناک صورتحال اختیار کر سکتی ہیں. خصوصاً ان بچوں میں جنکی قوت مدافعت کمزور ہو. اور آجکل کے دنوں میں کوئی پتہ نہیں کہ کورونا نے ہماری اور بچوں کی قوت مدافعت پر مجموعی طور پر کیا اثرات مرتب کئیے ہیں. لہٰذا یہ ویکسین ضرور لگوائیں.

انکی ممکنہ پیچیدگیوں کی ہلکی سی جھلک دکھاتا ہوں:
. خسرہ کے وائرس کی وجہ سے شدید اسہال، شدید نمونیا، گردن توڑ بخار، جھٹکے، قوت مدافعت کی کمی کی وجہ سے دیگر خطرناک انفیکشنز اور کچھ بچوں میں کئی سال بعد مستقل اور خطرناک ذہنی معذوری SSPE کے امکانات ہوتے ہیں. اور ہمارے ہاں خوراک کی کمی کا شکار بچوں میں خسرہ کی صورت میں اسہال، نمونیا اور انفیکشنز تو بہت ہی عام ہیں اور جان لیوا بھی ثابت ہو سکتے ہیں.
. روبیلا کا وائرس عموماً مریض کے اپنے لیے تو خطرناک نہیں ہوتا لیکن حاملہ خواتین میں حمل کے شروع میں یہ انفیکشن ہو تو بچے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے اور ایسے بچے کئی پیدائشی معذوریوں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں. لہٰذا بچیوں میں تو اسکی ویکسین انتہائی ضروری ہے.

3. روٹین ویکسینیشن اور حالیہ کیمپین:

پاکستان میں بہت عرصے سے خسرہ کا حفاظتی ٹیکہ روٹین ویکسینیشن پروگرام میں شامل ہے. پہلے اسکی صرف ایک ڈوز لگتی تھی، 9 ماہ پر. پھر چند سال پہلے اسکی تعداد 2 کر دی گئی اور دوسری خوراک 15 ماہ پر دی جاتی ہے. پہلے MMR صرف پرائیویٹ کلینکس اور ہسپتالوں میں لگتا تھا اور اسکی قیمت 2 سے 4 ہزار تک ہے. یہ بھی 9ماہ(کچھ ڈاکٹر پہلی خوراک 12 ماہ پر لگاتے ہیں. وہ بھی ٹھیک ہے) اور 15 ماہ پر لگتا ہے.
یہاں یہ جان لیں کہ MMR ویکسین میں خسرہ اور روبیلا کے علاوہ، کن پیڑے یعنی Mumps کے خلاف ویکسین بھی شامل ہے. کن پیڑے یعنی ممپس کا وائرس عموماً چند دن کے بخار اور کان کے نیچے، لعاب پیدا کرنے والے غدود Parotid Glands کی سوجن کے بعد ٹھیک ہو جاتا ہے. لیکن کچھ بچوں میں گردن توڑ بخار، (لڑکوں میں) خصیوں یا (لڑکیوں میں) بیضہ دانی کی سوزش کر سکتا ہے. اور سب سے خطرناک وہ پیچیدگی ہے جس میں یہ لبلبے یعنی pancreas کی سوزش کرتا ہے اور شدید بیماری کے علاوہ بعد میں شوگر کا باعث بھی بن سکتا ہے.

یہ بہت ہی خوش آئند بات ہے کہ اب سرکاری طور پر Measles اور Rubella کی ویکسین دستیاب ہو گئی ہے اور عوام کو مفت لگائی جا رہی ہے. (ممپس والی فی الحال اس میں شامل نہیں)

اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسکا بوسٹر، یعنی تیسری ڈوز 4 سے 6 سال کی عمر کے دوران لگنا چاہیے جو کہ پہلے سرکاری طور پر تو بالکل نہیں لگتا تھا اور پرائیویٹ طور پر بھی اکثر لوگ بھول جاتے تھے. جن بچوں کو یہ تیسری خوراک نہ لگی ہو وہ 15 سال کی عمر تک بھی یہ لگوا سکتے ہیں. لہٰذا اب سکول جانے والے 15 سال تک کے بچوں کیلئے سنہری موقعہ ہے کہ وہ اس کیمپین سے فائدہ اٹھائیں.
اور یہ حالیہ کیمپین خسرہ سے بچاؤ کیلئے بہت اہم ہے کیونکہ ہر سال موسم سرما میں اسکی وبا پھوٹ پڑتی ہے. اور جیسا کہ پہلے عرض کی اس بار پہلے ہی کورونا کی وجہ سے قوت مدافعت کی صورتحال کا کوئی علم نہیں. لہٰذا اسکی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے. اور اس مقصد کیلئے صرف خسرہ کی ویکسین کی بجائے M&R کا انتخاب تو بہت ہی مستحسن فیصلہ ہے.

4. شیڈول:

سب سے زیادہ سوال یہ کیا جا رہا ہے کہ جن بچوں کو خسرہ کی ویکسین لگ چکی ہے یا لگنے والی ہے، انکا کیا کیا جائے؟ اس بارے میں درج ذیل باتیں سمجھ لیں:
. وبائی صورتحال میں یا وباء سے بچنے کیلئے متعلقہ بیماری کی ویکسین کی اضافی خوراک کو وسیع پیمانے پر لگانا ایک معمول کی بات ہے. خدارا اسے کسی سازشی تھیوری سے نہ جوڑیں.
. تو جن بچوں کو خسرہ کی ابھی 1 ہی ڈوز لگی ہے اور اسے 4 ہفتے سے اوپر ہو چکے ہیں، انہیں اس کیمپین کے تحت دوسری ڈوز لگوا لیں.
جن بچوں کو دونوں خوراکیں پہلے سے لگ چکی ہیں، اور دوسری خوراک کو 4 ہفتے سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، وہ بھی یہ ویکسین لگوا سکتے ہیں اور اضافی خوراک کا کوئی نقصان نہیں. بلکہ فائدہ یہ ہے کہ پہلے صرف خسرہ کے خلاف مدافعت تھی تو اب روبیلا کے خلاف بھی ہو جائے گی.
. جو بچے پہلے ہی پرائیویٹ طور پر MMR لگوا رہے ہیں، انکو اگر پہلے ایک خوراک لگی ہے اور دوسری لگنے والی ہے تو انکی مرضی ہے کہ خواہ وہیں سے لگوا لیں جہاں سے پہلے لگوائی ہے، خواہ سرکاری کیمپین سے لگوا لیں. جن بچوں کو دونوں خوراکیں MMR کی لگ چکی ہیں اور انکی عمر 4 سال سے کم ہے، بہتر ہے کہ وہ ابھی نہ لگوائیں اور 4 سال کی عمر کا انتظار کریں اور پھر تیسری ڈوز لگوائیں. البتہ اگر دوسری ڈوز کو 4 ہفتے سے اوپر کا عرصہ گزر گیا ہو اور آپ نے کیمپین میں اضافی ڈوز لگوا لی ہو تو بھی کوئی مضائقہ نہیں.
. سکول جانے والے، 15 سال سے چھوٹے، وہ تمام بچے جنہیں (صرف) خسرہ یا MMR کی تیسری خوراک نہیں لگی، وہ اس سرکاری کیمپین کے تحت سکول میں ویکسین لگوانے کی اجازت بلا خوف و خطر دے دیں.
البتہ جو معدودے چند لوگ پرائیویٹ طور پر MMR کی تیسری ڈوز لگوا چکے ہیں، وہ یہ اضافی خوراک نہ بھی لگوائیں تو کوئی بات نہیں. البتہ اگر تیسری خوراک کو چند سال گزر چکے ہیں تو لگوا لینا بہتر ہے.

5. سائیڈ افیکٹس:

اسکے سائیڈ افیکٹس عموماً بہت کم اور معمولی سے ہوتے ہیں. زیادہ تر بچوں میں ٹیکے کی جگہ پر (یہ ٹیکہ جلد کے نیچے لگتا ہے) معمولی سوجن اور ہلکا بخار ہو سکتا ہے. اس صورت میں بس پیناڈول کا استعمال کریں. سوجن خود ہی ٹھیک ہو جائے گی. کچھ بچوں میں معمولی سا ریش (جلد پر سرخ نشان) بھی دیکھنے میں آیا ہے. یہ بھی کوئی تشویشناک بات نہیں اور خود ہی ٹھیک ہو جاتا ہے.

صحتمند بچے، روشن مستقبل

11/11/2021

روبیلا یا جرمن خسرہ،
پشتو میں شرےکہتے ہیں ۔
روبیلا، وائرس کی وجہ سے ہونے والا انفیکشن ہے۔ علامات عام طور پر ہلکی ہوتی ہیں، لیکن اگر حمل کے دوران انفیکشن ہوتا ہے تو یہ بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔(ہونے والے بچے ذہنی معذوری، بہرے پن،دل کے امراض،ٹائپ ون ذیابیطس وغیرہ کے شکار ہو جاتے ہیں )
روبیلا کی علامات میں سر درد، بخار، ناک بہنا، جوڑوں میں درد، اور لمف کے بڑھے ہوئے نوڈ شامل ہو سکتے ہیں۔
روبیلا خسرہ سے ملتا جلتا ہے، لیکن علامات زیادہ ہلکی ہیں۔
روبیلا انفیکشن سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ خسرہ، ممپس اور روبیلا ویکسینیشن (MMR) کروا لیں۔
نوٹ #
15 نومبر سے 27 نومبر تک حکومت پاکستان نے 09 ماہ سے 15 سال کے بچوں کے لئے خصوصی مہم میں بھرپور حصہ لینے اور محکمہ صحت کے سٹاف کے ساتھ تعاون کریں ۔۔
شکریہ ۔۔
Free of cost vaccine
No side effects
Measles and Rubella Disease is dangerous than vaccine
Usually it’s given in EPI schedule
But Bcz of CoViD issue many children missed it
Better to vaccinate ur kids

Dr Muhammad Umar Afiridi

26/09/2021

ڈِینگی بخار
وجوہات ، علامات اور احتیاطی تدابیر

ڈِینگی بیماری، دراصل ایک وائرس کے جسم میں داخل ہونے اور اس کے جسم کے خلیوں میں افزائش کرکے انکو تباہ کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس وائرس کو ہم ’’Dengue virus ‘‘ کہتے ہیں۔ اس وائرس کو جسم میں داخل کرنے کاذمہ دار ایک مچھر (Vector)ہے جسے ہم Aedes Aegypti کہتے ہیں۔ دنیا میں ملیریا کے بعد مچھر کے ذریعے پھیلنے والی بیماریوں میں ڈِینگی دوسرے نمبرپر ہے۔
ڈینگی مچھر کا تعارف :- اس خطر ناک مچھر کی افزائش گندے پانی کے جوہڑوں میں نہیں بلکہ جمع شدہ صاف پانی میں ہوتی ہے، مثلاً گھریلو واٹر ٹینک،پانی کے بھرے ہوئے برتنوں اور گلدانوں اور گملوں میں جمع شدہ پانی میں۔ اسکے علاوہ باہر پڑے ہوئے پرانے ٹائروں میں جمع شدہ پانی بھی انکی افزائش کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس مچھر کے افزائش کے روکنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ مندرجہ بالا جگہوں کو، جہاں صاف پانی کے جمع ہونے کا امکان ہوتا ہے ، ڈھانپ کر رکھا جائے یا پانی کھڑا ہی نہ ہونے دیا جائے۔ ان مچھروں کی غذا انسانی خون ہے اور جب یہ مچھر یہی خون چوسنے کیلئے لوگوں کو کاٹتے ہیں تو اسی دوران وہ یہ وائرس لوگوں میں منتقل کر کے ڈینگی بخار کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ یہ مچھر عام طور پرطلوع ِ اور غروبِ آفتاب کے آس پاس اپنی رہائشی جگہ سے نکل کر اپنی غذائی ضروریات پوری کرتے ہیں۔
ڈینگی بخار کی علامات:- عام طور پر اس بیماری کی میعاد، دس سے بارہ دن کی ہوتی ہے ، جن میں پہلے تین دنوں میں مریض کو شدید بخار اور جسم میں درد رہتا ہے، درمیانے تین دنوں میں بخارتو ٹوٹ جاتا ہے لیکن بیماری کے بگڑنے کے امکانات انہی تین دنوں میں زیادہ ہوتا ہے ، جس دوران مریض پر کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ آخری تین دنوں میں مریض دوبارہ بخار میں مبتلا ہوکر بالآخر صحت یاب ہوجاتا ہے۔ اکثر مریضوں میں ڈینگی بخار کی علامات معمولی نوعیت کی ہوتی ہیں ، تاہم بعض مریضوں میں یہ مرض شدید صورت اختیار کرکے جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ علامات اور شدت کی بنیاد پر اس کی درجہ بندی ہلکی ، درمیانی اور شدید نوعیت کے ڈینگی بخارپر کی جاسکتی ہے۔
ہلکی نوعیت کا ڈینگی بخار:- اس قسم کا ڈِینگی بخار پچاسی فیصد (85-90%) مریضوں میں ہوتا ہے جس میں مچھر کے کاٹنے اور اس وائرس کے بدن میں داخل ہونے کے سات سے دس دن بعد مریض کو ہلکے زکام کی سی کیفیت کے ساتھ ہلکا یا تیز بخار چڑھ جاتا ہے جو ہفتہ دس دنوں میں صرف پیراسٹامول کی گولیوں کے لینے پر خود ہی ٹھیک ہوجاتا ہے۔
درمیانے نوعیت کا ڈینگی بخار :- یہ قسم پانچ سے دس فیصد(5-10%) مریضوں میں پائی جاتی ہے، جس میں مریض کو سردی کے ساتھ تیز بخار چڑھ جاتا ہے اور جسم ، کمر اور آنکھوں کے ڈھیلوں میں شدید درد شروع ہوجاتا ہے۔ اسکے علاوہ مریض کو شدید متلی کے ساتھ الٹیاں لگ جاتی ہیں ، بھوک بالکل اڑجاتی ہے، گلے میں درد شروع ہوجاتا ہے اور شدید کمزوری محسوس ہوتی ہے اورکبھی کبھی پیٹ میں درد بھی اٹھ سکتا ہے۔ معائنہ کرنے پر ایسے مریضوں کی آنکھیں ، چہرے اور جسم کے بالائی حصے کی جلد سرخی مائل (Flushed)پائی جاتی ہیں۔ ایسے مریضوں کے علاج میں جسمانی درد رفع کرنے کیلئے پیرا سٹامول جبکہ الٹیوں اور متلی رفع کرنے کیلئے دیگر دوائیں دی جاتی ہیں۔ یہ یاد رکھیں کہ درد کو رفع کرنے کیلئے ڈسپرین اور اس قسم کی دوسری مثلاً Diclofenac ،Ibuprofen اور Naproxen نامی دوائوں (NSAIDs)سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے۔ اگر مریض کو شدید الٹیاں لگی ہوں تو اسے ہسپتال میں داخل کرکے انجکشنز کے ذریعے الٹیوں کو رفع کرنے والی دوائیں اور جسم میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے ڈرپس لگائی جاتی ہیں۔ تاہم ایسے مریضوں کے مرض کے بگڑنے کی علامات پر کڑی نگاہ رکھی جاتی ہے۔ان علامات میں مریض کی ناک یا کسی اور جگہ سے خون آنا ، ٹانگوں اور بازئووں پر نیل نمودار ہونا اور پیٹ کے درد کا شدت اختیار کرلینا شامل ہیں۔ان علامات کے علاوہ بیماری کی شدت کو جانچنے کیلئے جن لیبارٹری معائنات کی روزانہ ضرورت ہوتی ہے ، ان میں خون کا معائنہ ، خا ص طور پر Platelet count ، Hematocrit اور ALT شامل ہیں۔ اگر کسی بھی مریض میں خطرے کی کوئی بھی مندرجہ بالاعلامت ظاہر ہو، تو اسکا مطلب مرض کا شدید نوعیت کے ڈِینگی بخار میں بگڑناہوتا ہے۔اگر درمیانے نوعیت کے ڈینگی کے مریض میں یہ علامات ظاہر نہ ہوں تو ایسے مریض آٹھ سے دس دن کے اندر اندر صحت یابی کی طرف گامزن ہوجاتے ہیں۔ تاہم مرض کے بگڑنے کی صورت میں مندرجہ ذیل علامات ظاہر ہوتی ہیں۔
شدید نوعیت کا ڈینگی بخار:- پانچ فیصد (5%) یا اس سے کم مریضوں میں درمیانے نوعیت کا ڈِینگی بخار شدت اختیار کرلیتا ہے۔ مرض کے بگڑنے کی علامات میں مریضوں میں خونریزی کا شروع ہونا انتہائی خطرناک علامت ہے ، جس میں ٹانگوں اور بازئووں پر تِل جتنے نیلے داغ (Petechial Hemorrhages) بننا ، نیل کے بڑے دھبوں کا (Ecchymoses) از خود نمودار ہونا ، ناک سے خون آنا(Epistaxis) اور کبھی کبھی خون کی الٹیاں کرنا یا دستوں میں خون کا آناشامل ہیں۔ ایسے مریضوں کااکثر Platelet Count دن بدن کم ہوکر خطرناک حد(20 ہزار سے کم) تک گر جاتا ہے۔ڈِینگی بخار کے اس قسم کو خونی ڈِینگی بخار ، ’’Dengue Hemorrhagic Fever‘‘ یا DHF کہتے ہیں۔اس قسم کے ڈِینگی بخار کے مریض کو فوراً ہسپتال میں داخل کرکے خون اور Platelet Concenterate چڑھائے جاتے ہیں اور انکے بلڈ پریشر پر خاص نظر رکھی جاتی ہے کیونکہ یہی خونی ڈِینگی بخار ایک اور خطرناک شکل اختیار کرسکتا ہے، جسے ہم Dengue Shock Syndrome یا DSS کہتے ہیں۔اس پیچیدگی میں مریض کی شعری رگوں (Capillaries) میں موجود چھید یا درز(Fenestrations) کھل جاتے ہیں جن سے خون کا مائع (Plasma) رِس کر پیٹ اور سینے کے اندر اور جلد کے نیچے جمع ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ مائع کے اس طرح رگوں سے باہر نکلنے کی وجہ سے مریض کا بلڈ پریشر خطرناک حد تک گر جاتا ہے ، جسے ہم ’’ Shock‘‘ کہتے ہیں۔ یہ ڈینگی بیماری کی انتہائی خطرناک شکل ہے ، جس میں مبتلا اکثرمریض اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔ ایسے مریضوں کا علاج کسی بڑے ہسپتال کے ICU میں ہونا چاہیے۔
ڈینگی بخار کی تشخیص:- ویسے تو مندرجہ بالا علامات کی موجودگی میں کسی بھی مریض میں ، جسکو اچانک تیز بخار کے ساتھ بدن میں شدید درد شروع ہوجائے، اس مرض کی تشخیص مشکل نہیں تاہم خون کے چند معائنات کی بنا پر اسکی حتمی تشخیص کی جاسکتی ہے۔ خون کے ان معائنات میں بیماری کے دوسرے دن سے NS1 Antigen کا ٹیسٹ مثبت آنا شروع ہوجاتا ہے ، جبکہ چوتھے دن پر IgM اور IgG ڈینگی وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز کا ٹیسٹ بھی مثبت آنے لگتا ہے۔دیگر ٹیسٹوں میں Platelet Count اور ALT قابلِ ذکر ہیں۔
ڈینگی بخار کا علاج:- یہ بیماری ایک وائرل انفیکشن ہے جس کیلئے کوئی خاص اینٹی وائرل دوائی دستیاب نہیں اور عام طور پر مریض کا علاج انکے علامات کو رفع کرنے کیلئے کیاجاتا ہے مثلاً بخار ، درد اور الٹیوں کو رفع کرنے کی دوائیں اور الٹیوں کے لگنے کی صورت میں بدن میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے ڈرپس وغیرہ۔ اسکے علاوہ ان مریضوں کے علاج کے مد میں انکی بیماری کے بگڑنے کی علامات پر کڑی نگاہ رکھنا ڈاکٹر کا فرض ہے جن کے ظاہر ہونے کی صورت میں مریض کو فوراً ہسپتال میں داخل کرکے انکا علاج کرنا چاہیے۔ تاہم یہ بات نوٹ کرلیں کہ ڈینگی کے مریضوںکو مچھروں سے بچا کر رکھا جائے اور اس سلسلے میں مریضوں اور انکے تیمارداروں کو چاہیے کو وہ دافع مچھر لوشن اپنے جسم کے کھلے حصوں پر لگالیں۔ جہاں تک کھانے پینے کا تعلق ہے تو ڈینگی بخار کے مریضوں میں کھانے پینے کا کوئی پرہیز نہیں ہوتا اور وہ گھر میں پکی ہوئی عام روٹی ، ترکاری اور چاول وغیرہ کھاسکتے ہیں۔اسکے علاوہ حسبِ ذائقہ مرچ مصالحہ ، نمک اور گھی کے استعمال پر بھی کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ متلی اور الٹیوں کی صورت میں ، اگر مریض برداشت کرسکے تو ، انہیں پھل کے تازہ جوس میں ORS ملا کر پلانے سے جسم میں پانی کی کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے۔
ڈینگی سے بچائو کی تدابیر:- جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ ڈینگی بخارایک خاص قسم کے مچھر کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔اس ضمن میں ایک اہم بات یہ ہے کہ یہ بیماری ایک مریض سے کسی دوسرے صحت مند شخص کو براہِ راست منتقل نہیں ہوتی باالفاظِ دیگر یہ ایک متعدی (Contagious) مرض نہیںاور اس میں مبتلا مریضوں کو علیحدہ (Isolate) کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔اس قسم کی بیماریوں کو جو کسی مچھر یا کھٹمل وغیرہ کے کاٹنے سے ہوتی ہیں انہیں ہم Vector-Borne Diseases کہتے ہیں اور جو حشرات ان بیماریوں کو پھیلانے کا باعث بنتے ہیں انہیں Vector کہاجاتاہے۔ ان تمام بیماریوں کو جو Vector کے ذریعے پھیلتی ہیں انہیں کنٹرول کرنے کا واحد ذریعہ ان حشرات کا خاتمہ یا کنٹرول ہے۔ یعنی اگر مچھر موجود نہ ہوں یا انکے کاٹنے سے اپنے آپ کو بچایا جائے ، دونوں صورتوں میں ڈینگی وائرس انسان کو منتقل نہیں ہوسکتا۔ لہٰذامچھر کی موجودگی اور اسکا لوگوں کو کاٹنا اس بیماری کے ہونے کیلئے لازم و ملزوم ہیـ یعنی ’’ نہ مچھر ہوگا نہ بیماری ہوگی ‘‘۔ یہی مقولہ ملیریا سے بچائو کیلئے بھی اپنایا جاسکتا ہے۔ اس حقیقت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ڈینگی بیماری سے بچنے کی احتیاطی تدابیر مندرجہ ذیل ہیں:
1 ۔ صاف پانی کے تمام ذخیروں کو ڈھانپ کر رکھا جائے یا کھڑے ہی نہ ہونے دیا جائے ، تاکہ مچھر اس میں افزائش نسل کیلئے انڈے نہ دے سکیں ۔
2۔ ان تمام پانی کے برتنوں اور گھڑوں ، جن میں پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے ، انہیں ہر ہفتہ خالی کرکے اچھی طرح دھویا جائے ، تا کہ اگر ان میں مچھر وں نے انڈے دیے بھی ہوں تو وہ ضائع ہوجائیں۔
3 ۔ طبیعیاتی روک تھام( Physical Control ) :- اگر صحتِ عامہ کی ناقص فراہمی کی وجہ سے مچھروں کی موجودگی ناگزیر ہو تو ایسی احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیے کہ مچھر کے کاٹنے کا احتمال کم سے کم ہو ، جن میں مچھروں کو دور کرنے والے لوشنز (Anti-Mosquito Repellents) کا کھلے ہوئے ہاتھوں ، بازوں ، گردن اور پاوں پر لگانا ، جسم کا کم سے کم حصہ کھلا رکھنا ، گھروں کی کھڑکیوں اور دروازوں پر جالیاں لگانا ، باہر سونے کی صورت میں پلنگ کے ارد گرد جال (Mosquito Net) لگانا وغیرہ شامل ہیں ۔
4۔ کیمیائی روک تھام (Chemical Control):- گھر کے اندر اور ارد گرد محلہ میں مچھر مار سپرے کرنا چاہیے تاکہ مچھر کی افزائش نسل کو روکا جائے ۔
( نوٹ: چونکہ یہ مچھر طلوعِ اور غروبِ آفتاب کے آس پاس لوگوں کو کاٹنے کیلئے نکلتے ہیں ، لہٰذا ان اوقات میں مندرجہ بالا احتیاطی تدابیر کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔)
اختتامی معروضات:- چونکہ اس بیماری کا کوئی مئوثر علاج موجود نہیں ہے لہٰذا ہمیں اپنی تمام توجہ اس بیماری سے بچائو کی طرف مرکوز کرنی چاہیے۔ اس بیماری پر قابو پانا کسی فرد واحد کے بس کی بات نہیں، بلکہ ہم سب کو اپنی اپنی انفرادی اور اجتماعی زمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ان تمام عناصر کے خلاف جہاد کرنا پڑے گا جو اس مچھرکے افزائش اور پھیلنے کے ذرائع ہیں۔ اس سلسلے میں تمام تر انفرادی ، اجتماعی اورحکومتی قوتوںکو یکجا کرکے اس بیماری کی وبا کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے ۔عوام الناس کی آگاہی کیلئے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر مندرجہ بالا عناصر کی تشہیر ہونی چاہیے جو اس بیماری کے پھیلنے کا باعث بنتے ہیں ، تاکہ انفرادی سطح پر لوگوں میں انکی اہمیت اجاگر کی جاسکے ۔copy paste

25/09/2021

ریبیز Rabies یا باولے کتے کا کاٹنا موت ہے!
ریبیز سے ہر سال تقریبا 55 ہزار لوگ مر جاتے ہیں۔
کتا اگر آپ کو کاٹتا ہے تو اس سوچ بچار میں وقت ضائع مت کیجیے کہ وہ پاگل تھا یا گھریلو تھا، پہلی فرصت میں قریبی سرکاری ہسپتال جائیے۔ وہاں ایمرجیسنی والے اس صورت حال کو پرائیویٹ ڈاکٹروں سے سو گنا زیادہ بہتر طریقے سے جانتے ہیں، روزانہ ایسے مریض دیکھتے ہیں۔ مرچیں لگانا، سکہ باندھنا، تعویز بندھوانا، یہ سب تکے لگانے جیسا ہے۔ اگر کتا پاگل نہیں تھا تو یہ سب ٹوٹکے کام کریں گے، اگر پاگل تھا تو موت یقینی ہے!
ہسپتال دور ہے تو صابن اور بہتے پانی سے دس پندرہ منٹ تک اچھی طرح زخم کو دھوئیے اس کے بعد پٹی مت باندھیں۔ اسے کھلا رہنے دیجیے اور ہسپتال چلے جائیے۔ چودہ ٹیکوں کا زمانہ گزر گیا۔ ایک مہینے میں پانچ ٹیکوں (شیڈول: 0-3-7-14-28) کا کورس ہو گا، بہت سی کمپنیوں کی بنائی سیل کلچرڈ ویکسینز مارکیٹ سے مل سکتی ہیں۔ جو چیز یاد رکھنے کی ہے وہ یہ کہ کسی اچھی فارمیسی سے ویکسین خریدی جائے کیوں کہ اس کا اثر تب ہی بہتر ہو گا جب یہ مسلسل کولڈ چین میں رہے گی۔ کوئی بھی ویکسین (سوائے پولیو اورل کے) بننے سے لے کر دوکان پر آنے تک دو سے آٹھ ڈگری کا ٹمپریچر مانگتی ہے، جب بھی یہ سلسلہ ٹوٹے گا، بہرحال اس کا اثر ویکسین کی کوالٹی پر ہو گا۔ ویکسین کے ساتھ ساتھ ریبیز امیونوگلوبیولین RIG لگوانے بھی اکثر ضروری ہوتے ہیں۔
اگر کتا آپ کا اپنا پالتو نہیں ہے تو کوئی رسک لینے سے بہتر ہے کہ ریبیز امیونوگلوبیولین RIG ضرور لگوائیں۔ اسی طرح کتا جتنا سر کے قریب کاٹے گا، وائرس اتنی تیزی سے دماغ تک جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ پاؤں پر یا ٹانگ پر کاٹا ہے تب بھی جلدی ہسپتال جانا ضروری ہے لیکن کندھے یا گردن والے معاملے میں بے احتیاطی ہرگز نہیں ہونی چاہئیے، فوری طور پر ہسپتال کا رخ کرنا اور ویکسین کے ساتھ ساتھ ریبیز امیونوگلوبیولین RIG (یہ بھی کئی کمپنیوں کے موجود ہیں) لگوانا بہتر ہے۔ کتے کا پنجہ لگے، کوئی خراش ہو جائے، یا آپ کے کسی زخمی حصے کو کتا چاٹ جائے، ریبیز کا ٹیکہ لگوا لیجیے، احتیاط لازم ہے۔
اگر کتا آپ کے یہاں پالتو ہے، یا آپ جانوروں کے ڈاکٹر ہیں، یا آپ فوج میں ہیں، یا دیہی علاقے کی پولیس میں ہیں، یا کسی بھی ایسی جگہ ہیں جہاں دوران ملازمت آپ کھلے میدانوں کا رخ کر سکتے ہیں، یا کتوں والے کسی بھی علاقے میں جانا پڑ سکتا ہے تو آپ ریبیز سے بچاؤ کا حفاظتی کورس بھی کر سکتے ہیں۔
ریبیز سامنے آنے کے بعد پوری دنیا میں آج تک پانچ سے زیادہ لوگ بچ نہیں سکے۔ وہ بھی دس بارہ سال پہلے ایک تجربہ شروع کیا گیا تھا جس میں مریضوں کو مصنوعی طریقے سے کئی ماہ تک بے ہوش رکھا گیا، انہیں مختلف دوائیں دی گئیں اور آہستہ آہستہ جب وائرس ختم ہو گیا تب ہوش میں لایا گیا۔ لیکن یہ طریقہ بھی کئی سو میں سے صرف پانچ لوگ بچا سکا۔ ان پانچ کے بارے میں بھی ڈاکٹر یہ خیال کرتے ہیں کہ ان میں والدین سے ریبیز کے خلاف قوت مدافعت آئی ہو گی۔
بلی، گائے، بھینس، گھوڑا، گدھا، چمگادڑ، ہر وہ جانور جو دودھ پلانے والا ہے، وہ ریبیز کا شکار ہو سکتا ہے۔ پاگل کتا جب انہیں کاٹتا ہے تو وہ اپنے جراثیم ان میں منتقل کر دیتا ہے۔ وہی جراثیم انسانوں میں منتقل ہو سکتے ہیں اگر یہ جانور کاٹ لیں۔ یہ وائرس متاثرہ جانور کے لعاب میں بھی پایا جاتا ہے۔

پبلک سروس میسجcopied #

پراونشل ڈاکٹرز اسوسیشن

05/07/2020

1 :- Pulse oximeter (to measure Oxygen level
esp COVID-19 patients)

2:- Infrared non contact thermometer(Temperature measurement)

Available for patients only (not for commercial sale)

Contact :-Muhammad Arshad
03329611491
Or
Abdul Fatah
0315 6012843

Address

Sector F8 Akhunzada (Zangal)Market Near Bank Of Khyber
Hayatabad Peshawar
26100

Opening Hours

Monday 11:30 - 23:00
Tuesday 11:30 - 23:00
Wednesday 11:30 - 23:00
Thursday 11:30 - 23:00
Friday 11:30 - 23:00
Saturday 11:30 - 23:00

Telephone

+923156012843

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Habib medical center posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Habib medical center:

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram

Category