Dr Muhammad Aamir Ramay-Child specialist چائلڈ سپیشلسٹ ڈاکٹر محمد عامر رامے

  • Home
  • Pakistan
  • Jahania
  • Dr Muhammad Aamir Ramay-Child specialist چائلڈ سپیشلسٹ ڈاکٹر محمد عامر رامے

Dr Muhammad Aamir Ramay-Child specialist چائلڈ سپیشلسٹ ڈاکٹر محمد عامر رامے Amna Children clinic near Gate No.2 THQ hospital Jahanian

Dr Amir Ramay MBBS,RMP,
MCPS Pediatrics,
Child specialist

11/08/2025

دست یا اسہال پاخانے کا پتلا اور باربار آنے کی کیفیت کا نام ہے- مائع/پانی کا آنت میں کم جذب ہونا اور زیادہ خارج ہونا پاخانے کے پتلے اوربار بار آنے کا سبب بنتا ہے- کئی صورتوں میں جراثیم جیسے بیکٹیریا یا وائرس اسکی وجہ ہوسکتے ہیں- یوں تو بچے کا پاخانہ بڑوں سے نرم اور پتلا ہوتا ہے اور بچے کے پاخانہ کرنے کا دورانیہ بھی کم ہوتا ہے مگر بچوں کے پاخانے کا اچانک پانی جیسا پتلا ہونا، معمول سے زیادہ دفعہ ہونا اور زیادہ مقدار میں ہونا اور ان علامات کے ساتھ بخار اور قے کا ہونا دست کے خطرے کی گھنٹی ہوسکتا ہے.
دست کی شکایت بہت سی وجوہات کی بنا پر ہو سکتی ہے ۔ سب سے زیادہ یہ ایک وائرس جس کا نام روٹا وائرس ہے اس کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ بیکٹیریا بھی اکثر پیٹ میں انفیکشن کا باعث بنتے ہیں جس کی وجہ سے دست کی تکلیف ہو سکتی ہے۔ کچھ حالات میں پیراسائٹس بھی دست کی وجہ بن سکتے ہیں۔ کچھ ادویات مثلاً اینٹی بائیوٹکس کے استعمال سے بھی دست کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ کوئی خاص خوراک الرجی کی وجہ بن کر دست کا باعث بن سکتی ہے۔
عام طور پر دست کی شکایت تین سے چار دن تک خود بخود رفع ہو جاتی ہے-ایک سال سے کم عمر بچوں (ٹوڈلرز) میں دست کی شکایت عام طور پر تین یا چار سال کے ہونےاور ٹوائلٹ ٹریننگ ہونے پر ختم ہوجاتی ہے- اگرچھوٹے بچوں میں شکایت زیادہ عرصے (تین سے چار دن سے زیادہ) تک رہے یا بچہ ایک دن میں دس یا اس سے زیادو دفعہ پتلے پاخانے کررہا ہو تو فوراَ معالج سے رجوع کریں-

11/08/2025
10/08/2025

ہر بچے کا جذباتی انداز بالکل ویسا ہی منفرد ہوتا ہے جیسے اس کی شناخت، مزاج، یا پسند ناپسند۔ بعض بچے بہت حساس ہوتے ہیں، چھوٹی بات بھی ان کے دل کو چھو لیتی ہے، جبکہ کچھ بچے نسبتاً مضبوط اعصاب کے مالک ہوتے ہیں جن پر وہی بات کوئی اثر نہیں ڈالتی۔ والدین اور اساتذہ جب تمام بچوں کے ساتھ ایک جیسا رویہ اختیار کرتے ہیں، تو بعض اوقات ناانصافی اور بےتوجہی کا احساس بچوں کے دل میں بیٹھ جاتا ہے۔ ایک بچے کے لئے جو بات اصلاح کا ذریعہ بن سکتی ہے، وہ دوسرے کے لئے شرمندگی یا نفرت کا باعث بن سکتی ہے۔

بچوں کی جذباتی ساخت کو سمجھنا تربیت کا ایک اہم قدم ہے۔ کچھ بچے نرمی سے سمجھنے پر بہتر ردعمل دیتے ہیں، کچھ کو مکمل خاموشی میں وقت دینا زیادہ سودمند ہوتا ہے۔ بعض بچوں کو تعریف کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ان کا اعتماد بحال رہے، جبکہ کچھ بچوں کو صرف سن لیا جائے تو ان کے دل ہلکے ہو جاتے ہیں۔

اگر والدین یہ جاننے کی کوشش کریں کہ ان کے بچے کی اندرونی دنیا کیسی ہے، وہ کس بات پر فوراً ردعمل دیتا ہے اور کن باتوں سے خاموشی اختیار کرتا ہے، تو ان کی تربیت زیادہ مؤثر اور دیرپا ہو سکتی ہے۔ بچوں کی تربیت صرف اصولوں سے نہیں، ان کے دلوں تک رسائی سے مکمل ہوتی ہے۔ اور یہ رسائی تب ہی ممکن ہے جب ہم یہ مان لیں کہ ہر بچہ ایک الگ کتاب ہے، جسے پڑھنے کے لئے الگ طریقہ درکار ہوتا ہے۔

09/08/2025

جب بچہ پہلی بار چلنا سیکھتا ہے، تو وہ الفاظ نہیں، عمل سے سیکھتا ہے۔ وہ گرتا ہے، سنبھلتا ہے، پھر کوشش کرتا ہے، اور یوں چلنا سیکھ لیتا ہے۔ بس یہی اصول پوری زندگی پر لاگو ہوتا ہے ۔ زندگی میں کامیابی صرف باتوں سے نہیں، عمل سے حاصل ہوتی ہے۔ بچوں کو جب یہ بات دل سے سمجھا دی جائے کہ "عمل سے زندگی بنتی ہے"، تو ان کی سوچ، ان کا لہجہ، اور ان کا رویہ خود بخود نکھرنے لگتا ہے۔

بچوں کو اگر سچائی، دیانتداری اور اخلاق سکھانا ہے تو سب سے پہلے ہمیں یہ سبق دینا ہوگا کہ "عمل" ہی اصل بنیاد ہے۔ خالی باتوں، زبانی دعووں یا نصیحتوں سے زندگی میں وہ اثر پیدا نہیں ہوتا جو ایک سادہ اور خلوص سے بھرپور عمل سے ہوتا ہے۔ بچے ہماری باتوں سے کم، اور ہمارے رویئے سے زیادہ سیکھتے ہیں۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ ماں باپ خود جھوٹ سے بچتے ہیں، نماز قائم رکھتے ہیں، معافی مانگنے میں پہل کرتے ہیں، تو وہ بھی غیر محسوس انداز میں ان صفات کو اپنانا شروع کر دیتے ہیں۔

عمل کا حسن یہ ہے کہ وہ الفاظ کے بغیر بھی دلوں کو چھو لیتا ہے۔ ایک بچہ جب اپنے والد کو کسی غریب کی مدد کرتے دیکھتا ہے، تو اس کے اندر رحم، سخاوت اور احساس خود بخود پروان چڑھتا ہے۔ اسی طرح جب وہ والدہ کو وقت پر گھر کے کاموں میں منظم دیکھتا ہے، تو نظم و ضبط اس کی فطرت کا حصہ بن جاتا ہے۔ یہ تاثیر صرف اس وقت پیدا ہوتی ہے جب عمل کی زبان بولی جائے، جب تربیت صرف زبان سے نہیں، بلکہ طرزِ زندگی سے دی جائے۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ بچوں کے لہجے میں سچائی ہو، ان کے الفاظ میں وقار ہو، اور ان کی شخصیت میں نرمی ہو، تو ہمیں انہیں یہ سمجھانا ہوگا کہ اچھے عمل کے بغیر بات بے وزن ہو جاتی ہے۔ اور یہ سمجھانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ہم خود وہ بن جائیں جو ہم اپنے بچوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔

زندگی صرف سبق پڑھنے سے نہیں بنتی، عمل کرنے سے بنتی ہے۔ جو بچے عمل کا مفہوم بچپن میں سیکھ لیتے ہیں، وہ بڑے ہو کر دنیا کے شور میں بھی سکون سے جیتے ہیں۔ ان کے لہجے میں وہ تاثیر ہوتی ہے جو کتابوں سے نہیں، زندگی کے سچے رویوں سے آتی ہے۔

08/08/2025

بچوں کے بولنے سے متعلق مسائل-
آج کل اکثروالدین شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کا بچہ بول نہیں رہا، اپنی درست عمر کے مطابق الفاظ ادا نہیں کررہا یا اشاروں سے چیزیں مانگتا ہے وغیرہ وغیرہ لیکن دوسری جانب کچھ والدین لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں اورکہتے ہیں کہ ”کوئی بات نہیں، اس کے بابا نے بھی دیر سے بولنا شروع کیا تھا تو یہ بھی دیر سے ہی بولے گا۔” یہ ایک عام فہم نظریہ ہے جو ہمارے معاشرے میں پروان چڑھ چکا ہے۔

اسی لاپرواہی کے باعث بچوں کے بولنے کی عمر کے مرحلے ضائع ہوجاتے ہیں اور وہ درست وقت پر بول نہیں پاتے لیکن توجہ طلب بات یہ ہے کہ بچوں کے نہ بولنے یا دیر سے بولنے کی بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں جو والدین کو پتہ ہونی چاہیئں، اس لیے اس بارے میں انہیں بہت دھیان دینے کی ضرورت ہے۔

یہ بات درست ہے کہ بہت سے بچے کچھ ذہنی امراض یا معذوری کے باعث بولنے کے عمل سے محروم رہ جاتے ہیں یا درست بول نہیں پاتے البتہ لوگ اس بات سے ناواقف ہیں کہ ایسے بچوں کی تربیت کے لیے بھی تھراپسٹ اور ادارے موجود ہیں جو ان کی معذوری کے حساب سے ان کی ” تربیت گفتار” کرتے ہیں جس سے ان میں بہتری لائی جا سکتی ہے لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب والدین بچوں کی عمر کے مطابق بولنے کے سنگ میل سے واقف ہوں اور اپنے بچے کے ہرعمل کی نگرانی کریں۔

البتہ ان میں سے ہر بچہ ایسا نہیں ہوتا جو مکمل ٹھیک نہ ہوسکے کیونکہ آج کل ایسے بچے بھی بولنے کے عمل میں پیچھے رہ جاتے ہیں جو کسی ذہنی معذوری کا شکار نہ ہوں اس لیے والدین کو یہ بات پتا ہونی چاہیے کہ ہمارا بچہ کب اور کس عمر میں کونسی آواز نکالے گا یا لفظ بولے گا۔

آج ہم آپ کو بچوں کی عمر کے مطابق ان کی مرحلہ وار بولنے کی صلاحیت کے سنگ میل کی فہرست بتاتے ہیں جس میں واضح کیا گیا ہے کہ بچہ کس عمرمیں کونسا لفظ سمجھ سکتا اور بول سکتاہے لیکن اس کے ساتھ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ وہ کونسی وجوہ ہوسکتی ہیں جن کے باعث بچہ بولنے میں دیر کررہا ہے۔

:



⬅️پیدائش کے فورا بعد بچے کا رونا

⬅️دو سے تین ماہ میں مختلف انداز میں رونا اور ہلکی آوازیں نکالنا

⬅️تین سے چار ماہ میں بچہ بے ترتیب انداز میں”غوں غوں” کی مختلف آوازیں نکالتا ہے۔

⬅️پانچ سے چھ ماہ کے دوران آپ کا بچہ متوازن انداز میں” غوں غوں” کی آوازیں نکالتا ہے۔

⬅️چھ سےگیارہ ماہ میں بچہ غوں غوں سمیت مختلف آوازوں کی نقل کرتا ہے اور ان پر اپنے تاثرات بھی دیتا ہے، ناراضی،غصے یا خوشی کے۔

⬅️بچہ 12 ماہ یعنی ایک برس کی عمر میں ایک سے دو لفظ بولنے، بنیادی ہدایات کو سجھنے کے قابل ہو جاتا ہے جب کہ وہ اپنے نام سمیت واقف ناموں کو پہچان لیتا ہے اور واقف آوازوں کی نقل بھی کرتا ہے۔

⬅️اٹھارہ ماہ میں بچے کے پاس پانچ سے 20 لفظوں کا ذخیرہ ہونا چاہیے جن میں مختلف چیزوں اور لوگوں کے نام شامل ہیں۔

⬅️ایک سے دو سال میں آپ کا بچہ 50 سے 100 الفاظ کا ذخیرہ جمع کرچکا ہوتا ہے۔ اس عمر میں بچہ ہاتھ کے اشارے سے ” گڈ بائے” کہنے اور ” نہیں” کو سمجھنے کے قابل ہوجاتا ہے جب کہ دو الفاظ پرمشتمل جملے بولنا بھی سیکھ جاتا ہے۔ اپنی ضروریات کے حصول کے لیے ” دو” جیسے لفظوں کا استعمال، اس کے علاوہ واقف جانور کی آوازوں کی نقل بھی کرتا ہے۔
اس عرصے کےدوران بچہ اپنے کے بجائے لفظ ” میں ” کہنے کو ترجیح دیتا ہے جب کہ گرامر میں ”اسم اور فعل” کو ملانا بھی شروع کردیتا ہے۔

⬅️دو سے تین سال میں الفاظ کا ذخیرہ 450 تک پہنچ جاتا ہے جب کہ بچہ چھوٹے چھوٹے جملوں کا استعمال بھی شروع کردیتا ہے۔ ” بڑے اور چھوٹے” میں فرق کرنے لگتا ہے جب کہ تین سے چار رنگوں کو آپس میں ملانا شروع کردیتا ہے، کہانیاں پسند کرتا ہے۔

⬅️تین سے چار سال میں بچے میں بولنے کی صلاحیت اتنی مضبوط ہوچکی ہوتی ہے کہ وہ خود سے کہانی سنا سکتا ہے جب کہ جملوں کی ساخت چار سے پانچ لفظوں پرمشتمل ہوجاتی ہے اور الفاظ کا ذخیرہ ایک ہزار تک پہنچ جاتا ہے، گلیوں کے نام اور نظمیں بھی یاد کر لیتا ہے۔

⬅️چار سے پانچ سال میں لفظوں کا ذخیرہ 1500 تک پہنچ جاتا ہے جب کہ بچہ سوالیہ جملے اور ماضی کے جملے استعمال کرنے لگتا ہے اور اسے رنگوں اور ساخت کی پہچان ہوجاتی ہے۔

⬅️پانچ سے چھ سال میں لفظوں کا ذخیرہ دو ہزارتک پہنچ جاتا ہے جب کہ بچےخیالی دنیا کی باتیں بھی سمجھنے لگتا ہے۔

اگر آپ کے بچے کی ”قوت گویائی” ان تمام سنگ میل کے مطابق پرورش نہیں پا رہی تو یہ تشویشناک بات ہے، اس کی کئی ”وجوہات ” ہوسکتی ہیں جو درجہ ذیل ہیں۔

⬅️آپ کا بچہ سماعت سے محروم ہوسکتا ہے یا اس کی قوت سماعت کم ہوسکتی ہے۔

⬅️آپ کا بچہ کسی ” لرننگ ڈس ابیلیٹی” یعنی ”سیکھنے کی معذوری” کا شکار ہوسکتا ہے۔

⬅️آپ کے بچے کو کسی قسم کی ذہنی یا جسمانی معذوری بھی ہوسکتی ہے۔

اس لیے اگر آپ کا بچہ قوت گویائی کے سنگ میل میں اپنی عمر سے پیچھے ہے تو فوری طور پر بچوں کے ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔

یاد رہے کہ قوت گویائی کے نقائص صرف ذہنی معذور بچوں میں ہی نہیں ہوتے بلکہ کسی بھی بچے میں ہوسکتے ہیں جس میں ہکلاہٹ، تلفظ کی غلط ادائیگی اور ذہن کا لفظوں کو درست نہ پڑھنا وغیرہ عام ہیں۔

بچوں کے معاملے میں انسان کو بہت حساس ہونا چاہیے، ان کی ”قوت گویائی” کی ایک مخصوص عمر ہوتی ہے جو پیدائش سے 12 برس تک رہتی ہے اس دوران اگر کوئی نقص پیدا ہوجائے اور درست وقت پر اس کی نشان دہی بھی نہ ہو تو نتائج تشویشناک ہوسکتے ہیں اس لیے اپنے بچوں کے ہر عمل کا بہ غور جائزہ لیں اوران پر پوری توجہ دیں کیونکہ یہی آپ کا آنے والا کل ہیں۔

07/08/2025

بچوں کی نگاہوں اور سوچ میں دنیا کا ایک نیا رنگ ہوتا ہے، ایک ایسا زاویہ جو سادگی، سچائی اور حیرت سے بھرپور ہوتا ہے۔ وہ بغیر کسی دکھاوے، بغیر کسی مقصد کے بات کرتے ہیں، اور ان کی باتوں میں ایک عجیب سا خلوص ہوتا ہے جو دل کو چھو جاتا ہے۔

جب ہم بچوں کی معصوم باتوں کو سنتے ہیں تو گویا ہم ایک ایسی دنیا میں قدم رکھتے ہیں جہاں ہر چیز ممکن ہے۔ وہ تتلی کے پیچھے بھاگتے ہوئے خواب بُن لیتے ہیں، اور بارش کی بوندوں میں خوشی تلاش کر لیتے ہیں۔ وہ سوال کرتے ہیں جو شاید ہم نے کبھی سوچے بھی نہیں، اور ان کے انداز ہمیں دعوت دیتے ہیں کہ ہم اپنے سوچنے کے انداز کو پھر سے تازہ کریں۔

اکثر ہم بچوں کی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے، یہ سوچ کر کہ وہ نادان ہیں۔ مگر ان کی نادانی میں وہ دانائی چھپی ہوتی ہے جو ہمیں دنیا کو آسان، سادہ اور خوبصورت طریقے سے دیکھنے کا موقع دیتی ہے۔ جب ہم انہیں غور سے سنتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ وہ صرف بات نہیں کر رہے، ہمیں جینا سکھا رہے ہیں لمحوں کو محسوس کرنا، سچ بولنا، خوشی کو ڈھونڈ لینا۔

بچوں کی باتیں ہوا کے جھونکے کی طرح ہوتی ہیں، ہلکی مگر زندگی سے بھرپور ۔ وہ ہمیں سکھاتے ہیں کہ رونا غلط نہیں، ہنسنا ضروری ہے، اور ہر دن ایک نیا موقع ہے۔ ان کی دنیا میں وقت کی قید نہیں، صرف جذبے کی روانی ہے۔ اگر ہم صرف چند لمحے ان کی باتوں کو سنجیدگی سے سن لیں، تو شاید ہم خود کو بہتر سمجھ سکیں، اور دنیا کو نئے رنگوں میں دیکھ سکیں۔

ان کے لفظوں میں ایک جادو ہوتا ہے۔ ایسا جادو جو دل کو نرم کرتا ہے اور روح کو سکون دیتا ہے۔ اس لئے جب کوئی بچہ بات کرے، صرف سنیں نہیں… سمجھنے کی کوشش کریں، کیونکہ وہ ہمیں کچھ ایسا سکھا سکتا ہے جو ہم بھول چکے ہیں۔ یعنی جینا، بےفکری سے، محبت سے، اور سچائی سے۔

06/08/2025

اکثر والدین انجانے میں ایک بچے کی کسی خوبی یا کامیابی کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں اور دوسرے کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ وہ پیچھے ہے۔ یہی رویہ بچوں کے اندر احساسِ کمتری، غصہ یا حسد پیدا کرتا ہے۔ ایسے جذبات وقت کے ساتھ پختہ ہو کر شخصیت کا حصہ بن سکتے ہیں، اگر ان کا بروقت تدارک نہ کیا جائے۔

سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہر بچے کے ساتھ اس کی شخصیت اور صلاحیت کے مطابق سلوک کیا جائے۔ بچوں کو یہ محسوس ہونا چاہیئے کہ وہ جیسے بھی ہیں، ویسے ہی قابلِ قبول اور اہم ہیں۔ جب بچے یہ جانتے ہیں کہ ان کی پہچان صرف نمبروں، کامیابیوں یا مقابلے سے نہیں، بلکہ ان کی کوشش اور کردار سے ہے، تو وہ ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے کی بجائے سیکھنے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔

اگر کوئی بچہ کسی دوسرے کی کامیابی سے پریشان ہوتا ہے، تو اس کے جذبات کو دبانے کی بجائے اس سے بات کی جائے، اسے سنا جائے اور سمجھایا جائے کہ ہر انسان کی ترقی کا راستہ الگ ہوتا ہے۔ والدین کو چاہیئے کہ ہر بچے کی چھوٹی بڑی محنت کو سراہیں، چاہے وہ نتیجہ خیز ہو یا نہ ہو۔

گھریلو ماحول میں شفافیت اور انصاف بہت اہم ہے۔ اگر کوئی بچہ محسوس کرے کہ اس کے ساتھ جان بوجھ کر کم توجہ دی جا رہی ہے، یا صرف ایک بچے کو اہمیت دی جا رہی ہے، تو وہ فاصلہ اختیار کرے گا یا ضد میں آ جائے گا۔ اس لئے بچوں کے درمیان فیصلہ کرتے وقت والدین کو انتہائی غیر جانبدار اور متوازن ہونا چاہیئے ۔

حسد اور مقابلہ صرف ان گھروں میں شدت اختیار کرتا ہے جہاں بچوں کو سنا نہیں جاتا، سمجھا نہیں جاتا، اور ان کی انفرادیت کی قدر نہیں کی جاتی۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور محبت سے رہیں، تو سب سے پہلے ہمیں ان کے دلوں سے یہ خوف نکالنا ہوگا کہ انہیں اپنی جگہ بچانے کے لئے کسی دوسرے کو ہرانا ضروری ہے۔

جب بچوں کو اعتماد ملتا ہے کہ وہ اپنی جگہ محفوظ ہیں، تو وہ دوسروں کی جگہ چھیننے کی کوشش نہیں کرتے۔ اور یہی سوچ ایک مثبت، پُرسکون اور مضبوط شخصیت کی بنیاد بنتی ہے۔

Address

Jahania

Telephone

+923004065259

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dr Muhammad Aamir Ramay-Child specialist چائلڈ سپیشلسٹ ڈاکٹر محمد عامر رامے posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share