Dr Tawakal Virk

Dr Tawakal Virk Dr Tawakal Virk

19/09/2025

‏"کبھی بھی کسی ایسے شخص سے دوبارہ دوستی مت کریں جس نے آپ کی زندگی، آپ کا امیج ،آپ کی دولت ، آپ کے ساتھ وابستہ تعلق کو تباہ کرنے کی کوشش کی ہو، سانپ اپنی پرانی کھال اتار کر نئی کھال صرف اس لیے تبدیل کرتا ہے تاکہ وہ پہلے سے بھی بڑا سانپ بن سکے۔"

08/09/2025

اپنی ذات کی جڑیں بنجر زمین میں مت لگائیں لہسن کو زعفران کا پانی دینے سے بھی خوشبو نہیں آئے گی۔

26/08/2025

نارمل ڈلیوری یا سیزیرین ؟

——- ————

نصف شب کا عالم، گہری نیند اور ہم چونک کے اٹھ بیٹھے۔ کیا کہیں گجر بجا تھا یا دور کسی قافلے کے اونٹوں کے گلے میں بندھی گھنٹیوں نے سر جگایا تھا!

افوہ، ہمارے فون کی گھنٹی بج رہی تھی اور ہمیں ہسپتال بلایا گیا تھا۔ لیبر روم میں ایمرجنسی تھی کہ درد ذہ میں مبتلا خاتون کی زچگی کے آخری مرحلے پہ بچے کو اوزار کی مدد سے پیدا کروانے کی کوشش کی گئی تھی اور بوجہ ناکامی ہوئی تھی۔ اب بچے کے دل کی دھڑکن کچھ بے ترتیب تھی سو ہمیں زحمت دی گئی تھی۔

ہم ایسے موقعوں پہ ایسے فوجی کا روپ دھار لیتے ہیں جو محاذ جنگ پہ کھڑا ہو اور کسی بھی کمک کی امید نہ ہو اور موت چند قدم ہی دور کھڑی ہو۔

فون پہ ہی ہدایت کی کہ خاتون کو آپریشن تھیٹر پہنچا دیا جائے، اور خود آندھی و طوفان کی رفتار سے دوڑے۔ معائنہ کر کے دیکھا تو بچے کا سر دو دفعہ اوزار لگنے سے سوج چکا تھا سو فیصلہ کیا کہ سیزیرین کر کے بچہ نکالیں گے۔ گو کہ سیزیرین بھی ایسے مواقع پہ زچہ کے لئے کافی مشکلات کا سبب بنتا ہے لیکن بچے کی جان بچانے کے لئے ضروری ہوا کرتا ہے۔

سیزرین ہوا، نوزائیدہ بچوں کے ڈاکٹر نے بچہ ہمارے ہاتھ سے لیا، آکسیجن دی اور پھر زندگی بخش دینے والی چیخ سنائی دی۔ سب کے تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے اور آپریشن تھیٹر کی فضا میں خوف، پریشانی، سنجیدگی اور ہراس کی لہروں کی جگہ طمانیت نے لے لی۔ زندگی نے موت کو شکست دے دی تھی۔

آپریشن سے فارغ ہو کر باہر آئے تو شوہر پریشانی اور غصے کے جذبات سے بھرا بیٹھا تھا۔ ہم نے سہج سے زچگی کے پورے عمل پہ روشنی ڈالی۔ سو نتیجہ یہ نکلا کہ جب ہم رخصت ہوئے، اس کے لبوں پہ مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔

گھر کو لوٹتے ہوئے یونہی خیال آیا کہ یہ سب سوال جو اس شوہر نے پوچھے، یہ تو ہم سے اکثر پوچھے جاتے ہیں۔ چاہے ہم محفل میں ہوں یا کلینک میں، شادی کی تقریب میں کھلکھلا رہے ہوں یا مرگ میں پرسہ دینے پہنچے ہوں، سفر میں اونگھ رہے ہوں یا دوستوں سے گپ چل رہی ہو، کوئی نہ کوئی سوالیہ نشان بن کے آن کھڑا ہوتا ہے۔

سنو، یہ کیا بات ہوئی کہ زچگی کا درد بھی برداشت کرو اور آخر میں سیزیرین ہو جائے ؟

آخر آج کل اتنے سیزیرین کیوں ہوتے ہیں ، پچھلے زمانوں میں تو ایسا نہیں تھا؟

کتنے سیزیرین صحیح وجہ سے کیے جاتے ہیں اور کتنوں میں ڈنڈی ماری جاتی ہے ؟

ڈاکٹر کے مالی فائدے کا کتنا حصہ ہے ان سیزیرین زچگی میں ؟

زچگی کے درد سے پہلے ہی سیزیرین کیوں ہوتا ہے ؟

ہمیں گائناکالوجسٹ نو ماہ بتاتی رہیں کہ سب ٹھیک ہے، عین وقت پہ سیزرین کا کہہ دیا ؟

کتنے سیزیرین ہونا ممکن ہیں ؟

ہم ان تمام سوالات کے جواب دینے سے پہلے کچھ بنیادی باتیں حمل اور زچگی کے بارے میں بتانا چاہیں گے کہ یہ ہر کسی کی زندگی کا اہم ترین حصہ ہے۔

زچگی ایک پل صراط!
جب عورت موت کی سر حد پہ جا کے کھڑی ہو جاتی ہے اور قدم قدم پہ زندگی کا اپنے ہاتھ سے پھسلتا ہوا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کرتی ہے !

انسانی حمل کی مدت دو سو اسی دن، یا چالیس ہفتے، یا نو ماہ اور سات دن گنی جاتی ہے۔ حمل جب سینتیس ہفتوں کو پہنچ جائے تو بچہ چھوٹا نہیں سمجھا جاتا اسی طرح حمل کی مدت بیالیس ہفتوں سے اوپر نہیں جانی چاہئے۔ اس کا مطلب یہ کہ بچہ لازماً سینتیس سے بیالیس ہفتوں کے درمیان پیدا ہونا چاہئے۔

زچگی شروع ہونے کی علامات میں بچے کی پانی کی تھیلی پھٹنا، ہلکی دردیں شروع ہونا اور خون کے داغ لگنا ہیں۔پہلے بچے کی دفعہ درد زہ کی مدت بارہ گھنٹوں سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے اور دوسرے تیسرے چوتھے بچوں میں یہ مدت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔

آپ نے اکثر ڈاکٹروں کے منہ سے سنا ہو گا، ابھی درد اچھے نہیں ہیں۔ اچھی دردوں سے مراد طاقتور درد جن کی مدت پینتالیس سیکنڈ سے ایک منٹ تک ہو، پھر کچھ وقفہ آئے اور پھر اگلی درد شروع ہو۔ دس منٹ میں کل تین سے چار طاقتور درد ہونے چاہیں۔ اگر اس سے زیادہ ہوں تو بچے کے دماغ اور دل کو آکسیجن کی فراہمی متاثر ہوتی ہے۔

ہر درد کے دوران رحم سکڑتا اور بچے کو نیچے کی طرف دھکیلتا ہے تاکہ وہ دنیا میں تشریف لا سکے۔ اس سکڑنے اور دھکیلنے کے عمل میں بچے کو آنول کے ذریعے ماں سے پہنچنے والی آکسیجن کی فراہمی منقطع ہو جاتی ہے۔ لیکن چونکہ یہ وقفہ صرف ایک منٹ تک ہوتا ہے اس لئے جب درد ختم ہوتا ہے تب بچے کو دوبارہ آکسیجن پہنچنا شروع ہو جاتی ہے جب تک اگلی درد نہ آ جائے۔

بچے کو آکسیجن پہنچنے کے مراحل کا حساب بچے کے دل کی دھڑکن کے ریکارڈ سے رکھا جاتا ہے۔یہ عمل کارڈیو ٹوکوگرافی ( Cardiotocography) یا CTG کہلاتا ہے۔ یہ مشین 1969 میں مارکیٹ میں آئی اور اس نے زچگی کی سائنس میں انقلاب برپا کر دیا۔

‏CTG بچے کے دل کی دھڑکن ایک الیکٹروڈ کے ذریعے ریکارڈ کر کے ایک گراف بناتی ہے۔ الیکٹروڈ بیلٹ کے ذریعے زچہ کے پیٹ پہ باندھا جاتا ہے۔گراف کو دیکھ کے نتیجہ اخذ کرنے کی مہارت ہر سپیشلائزیشن کے امتحان کا لازمی جزو ہے۔ زچگی کے عمل کے دوران کبھی بھی اگر CTG کا گراف نارمل حد سے نکل کے بگڑ جائے تو لا محالہ آدھ گھنٹے کی مدت تک بچہ پیدا کروانا لازمی ہے۔ ورنہ بچے کو آکسیجن کی فراہمی منقطع ہونے کی صورت میں دماغی طور پہ ابنارمل بچہ پیدا ہونے کا احتمال ہے۔

رحم سے بچہ اس وقت تک باہر نکل نہیں سکتا جب تک رحم کا منہ دس سینٹی میٹر یعنی چار انچ تک نہ کھل جائے۔ درمیانے سائز کے بچے کے سر کا ایک کنپٹی سے دوسری کنپٹی تک کا سائز ساڑھے نو سینٹی میٹر ہوتا ہے۔ اگر CTG بگڑ چکی ہے اور رحم کا منہ ابھی دس سینٹی میٹر سے کم کھلا ہے تو اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ سیزیرین کر کے بچے کو باہر نکالا جائے۔

نگلینڈ کی شہزادی شارلٹ (1817-1796)، بادشاہ جارج چہارم کی اکلوتی لاڈلی بیٹی، بیلجئم کے ہونے والے بادشاہ کی بیوی، جس نے اکیس سال کی عمر میں بچہ جنم دیتے ہوئے زندگی کی بازی ہار دی۔
شہزادی شارلٹ نے پچاس گھنٹے درد زہ میں گزارے مردہ بچے کو جنم دینے کے بعد رحم سے اس قدر خون کا اخراج (post partum haemorrhage ) ہوا کہ بادشاہت اور دولت کے تمام وسائل موت کا رستہ نہ روک سکے۔

دوسری کہانی کا تعلق برصغیر پاک و ہند سے ہے !
اس میں بھی ایک بادشاہ ہے لیکن ساتھ میں شہزادی کی بجائے ملکہ ہے،محبوب بیوی ! بادشاہ کے چودہ بچوں کی ماں اور ازدواجی زندگی محض انیس برس!

ممتاز محل (1631-1593) چودھویں بچے کی پیدائش میں تیس گھنٹے کی درد زہ برداشت کرنے کے بعد زندگی کی بازی ہار گئی۔ متاز محل کی موت کا سبب بھی زچگی کے بعد خون کا بہنا ( post-partum hemorrhage ) تھا جو قابو میں نہ آسکا۔

شاہ جہاں نے جوگ لے لیا ایک سال بعد جب وہ سامنے آیا تو کمر خمیدہ تھی اور بال سفید! اپنی محبت امر کرنے کا خیال آیا اور تاج محل مجسم ہوا اور وہ خوبصورت عمارت آج بھی اس دیوانگی پہ مسکراتی ہے۔

بادشاہ کو ملکہ سے محبت تو یقیناً تھی لیکن کیا کیجیے کہ مانع حمل ادویات وجود میں نہیں آئیں تھیں۔ ویسے آج جب بے شمار مانع حمل طریقے موجود ہیں، تب بھی بے شمار عورتیں زچگی میں موت کو گلے لگا لیتی ہیں۔ ملائیت کبھی اس بارے میں سوچنے ہی نہیں دیتی، سو ہر موت اللہ کی رضا کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہے۔

ارے، ہم بھی بس یونہی ہیں، موضوع سے فوراً ہی بھٹک جاتے ہیں، برا ہو ہمارے نسائی درد دل کا!

اب آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ زچگی ایک پیچیدہ مرحلہ ہے اور اس میں کہیں بھی کوئی رخنہ آ جائے تو ماں اور بچے کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔کسی بھی اچھے گائناکالوجسٹ کو اس سب سائنس کا علم حاصل کرنا لازم ہے جو obstetrics کہلاتی ہے۔

زمانہ قدیم میں آبسٹیٹرکس دو نظریات پہ مبنی تھی، intervention اور non- intervention۔
زیادہ تر ڈاکٹر دوسرے نظریے پہ یقین رکھتے ہوئے زچگی کے عمل میں اوزار لگانا پسند نہیں کرتے تھے۔ لیکن کچھ ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ سب خواتین میں زچگی آسان نہیں ہوا کرتی سو اوزاروں کا استعمال لازمی ہے۔ شہزادی شارلٹ کی المناک موت کے بعد زچگی میں فورسیپس (Forceps) کا استعمال شروع ہوا۔ فورسیپس چمچ کی طرح کے اوزار ہوتے ہیں جو بچے کے سر کے گرد لگا کر اسے کھینچا جاتا ہے۔

سیزیرین کا آغاز بھی مغربی دنیا میں انیسویں صدی میں ہوا اگر چہ تاریخی طور پہ دعویٰ یہ ہے کہ جولیس سیزر کی ولادت اس طریقے سے ہوئی تھی اسی لئے یہ سیزیرین کہلایا۔ نہیں معلوم سیزر کی والدہ ان کی پیدائش کے بعد بچ گئیں کہ چل بسیں کہ اس زمانے کے جراحوں کے بارے میں ہمارا علم محدود ہے۔

اگر CTG ٹھیک رہے تب رحم کا منہ دس سینٹی میٹر تک کھل جانے کا انتظار کیا جاتا ہے اور یہ انتظار بھی معین مدت سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے۔ رحم بھی کھل جاۓ، بچے کا سر بھی نیچے آ جائے ، دو سے تین گھنٹے گزر جائیں اور تب بھی زچگی نہ ہو تو پھر فیصلہ سیزیرین یا اوزار کا کیا جاتا ہے۔ تین گھنٹے سے زیادہ انتظار ماں اور بچے دونوں کی زندگی خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ اوزار لگانے ہیں یا سیزیرین کرنا ہے اس کا فیصلہ گائنالوجسٹ کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور وہ مختلف پوائنٹس پہ فیصلہ کرتی ہیں کہ کس عمل میں خطرہ کم سے کم ہو گا۔

یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی ڈرائیور سامنے سے آنے والی گاڑی کو دیکھ کے فیصلہ کرے کہ اوورٹیک کرنا محفوظ ہے یا نہیں۔ لینڈنگ کرتے ہوئے جہاز کے پائلٹ کی مثال بھی منطبق ہوتی ہے۔ ناتجربہ کاری سے جس طرح ڈرائیور اپنی گاڑی کے اور پائلٹ اپنے جہاز کے مسافروں کی جان خطرے میں ڈالتا ہے ویسے ہی زچہ و بچہ بھی متعلقہ عملے کی وجہ سے زندگی اور موت کی سرحد پہ جا کھڑے ہوتے ہیں۔

کسی بھی ملک میں زچگی کے معیارات کو زچہ اور بچہ کی موت کی شرح سے جانچا جاتا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی تعریف کے مطابق میٹرنل مورٹیلیٹی ریٹ ( maternal mortality rate)کل ایک لاکھ زچہ خواتین میں ملک عدم سدھار جانے والی خواتین کا اعداد وشمار ہے۔

بہترین ممالک جن میں زچہ کی موت کم سے کم کی صف میں اٹلی پولینڈ اور ناروے سر فہرست ہیں جہاں ایک لاکھ زچہ میں سے صرف دو موت کو گلے لگاتی ہیں۔ یونائیٹڈ عرب امارات، فن لینڈ، اسرائیل میں تین، جاپان، ہالینڈ آسٹریا میں پانچ، انگلینڈ، جرمنی میں سات، فرانس، سنگاپور میں آٹھ، قطر اور نیوزی لینڈ میں نو، کینیڈا میں دس، سعودی عرب میں سترہ، عمان اور امریکہ میں انیس خواتین بد قسمت ٹھہرتی ہیں۔

پاکستان کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق یہ شرح ایک سو چالیس جبکہ غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق تین سو پچاس ہے جو کہ دیہی علاقوں میں زچگی کی سہولیات عنقا ہونے اور ڈیٹا اکھٹا کرنے میں بے شمار مشکلات کی وجہ سے حقیقت کے قریب نظر آتی ہے۔

ذرا دل پہ ہاتھ رکھ کے سوچیے، ہر لاکھ زچہ میں سے ساڑھے تین سو اکیسویں صدی کے ایٹمی اثاثوں کے مالک وطن میں زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔ وجوہات میں دور دراز علاقوں میں سرکاری ہسپتالوں کی غیر موجودگی، بے تحاشا بڑھتی ہوئی آبادی، تعلیم کا فقدان اور آگہی کی کمی ہیں۔

ایک بڑی شکایت یہ ہے کہ ڈاکٹر ان علاقوں میں نہیں جاتے! ڈاکٹر بےچارے بھی کیا کریں، جن علاقوں میں زندگی کی بنیادی سہولیات ڈاکٹر کو فراہم کرنے میں محکمہ صحت نابینا بن جاتا ہو، وہاں ڈاکٹر سے یہ توقع رکھنا کہ زندگی تیاگ کے جوگی بن جائے دیوانے کی بڑ ہی تو ہے۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ ان علاقوں میں صرف اسسٹنٹ کمشنر اور فوجی کپتان میجر کی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے۔

دیکھیے ہم پھر بھٹک گئے، اصل میں کہنے کو ہی اتنا کچھ ہے کہ بات ادھر سے ادھر نکل جاتی ہے۔ سمیٹنے سے پہلے اس بات کا جواب ضرور لکھنا چاہیں گے کہ لیڈی ڈاکٹر کا مالی مفاد کس حد تک سیزیرین کے فیصلے پہ اثر انداز ہوتا ہے۔

دیکھیے، ایک بات سمجھ لیجیے کہ جب کسی معاشرے میں کوئی ناسور پکتا ہے وہ کسی ایک طبقے تک محدود نہیں رہتا۔ راتوں رات امیر بننے کی دوڑ اور اخلاقی قدروں کے زوال نے اس شعبے میں بھی کالی بھیڑیں پیدا کی ہیں جن کا ماوا و ملجا دولت ہے۔ ویسے حیرت کاہے کی؟ کون ہے جو اس حمام میں ننگا نہیں؟

سرکاری ہسپتالوں میں اژدہام، سہولیات کی کمی، کھمبیوں کی طرح اگے پرائیویٹ میڈیکل سینٹرز اور ان میں بیٹھا اناڑی عملہ ایک اور بڑی وجہ ہے۔ سوچیئے ذرا کونسی تجربہ کار اور سینیئر گائناکالوجسٹ ہوں گی جو دس سے بارہ گھنٹوں کے لئے زچہ کے سرہانے بیٹھ سکیں؟

زچہ کو ایک ایسی نرس یا جونئیر لیڈی ڈاکٹر کے حوالے کرنا جو وقت پہ CTG ہی نہ پڑھ سکے، اس مشکل وقت کو بھانپ نہ سکے جب موت دبے پاؤں قریب آ رہی ہو، ایک ایسا فعل ہے جس کے لئے ہمارا ضمیر کبھی راضی نہیں ہوا۔

اسی لئے ہم اپنی پرائیویٹ پریکٹس میں پہلی ملاقات میں ہی خاتون کو بتا دیتے ہیں کہ اگر وہ طبعی زچگی چاہتی ہیں تو کسی اور گائناکالوجسٹ سے رجوع کریں۔ ہم ایک نرس یا جونئیر لیڈی ڈاکٹر کے بل بوتے پہ یہ بھاری پتھر نہیں اٹھا سکتے۔

پاکستان میں سینیئر گائنالوجسٹس نے شاید اس کا حل درد زہ سے پہلے ہی سیزیرین کرنے کی صورت میں نکالا ہے۔ لیکن اس کا فائدہ گلی گلی کھلے میڈیکل سینٹرز نے بھی اٹھایا ہے کہ سیزیرین میں مالی منافع کافی زیادہ ہے۔

لیجیے آدھی رات کا گجر یا پھر اونٹوں کے گلے میں لٹکی گھنٹیوں کے سر یا ہمارے فون کی آواز ہمیں کیا کیا نہ سجھا گئی۔

**e

24/08/2025

جہاں خاموشی سکون دے وہاں خاموش رہو،لیکن جہاں خاموشی ظلم کو طاقت دے وہاں بولنا فرض ہے۔

10/07/2025

تمام شادی شدہ جوڑوں کے لیے بہت ضروری معلومات !!!
اپنے بچوں کو پیداٸشی معزوری سے بچاٸیں۔

حاملہ خواتین کو حمل کے دوران فولک ایسڈ کی گولیاں لینے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ یہ بہت اہم ہے کیونکہ یہ آپ کے بچے کو بہت سنگین پیدائشی نقٸص ہونے سےبچا سکتی ہے جسے نیورل ٹیوب ڈیفیکٹ (NTDs)کہا جاتا ہے۔
فولک ایسڈ ماں کے پیٹ میں بچے کی نیورل ٹیوب کی مناسب تشکیل کے لیے ضروری ہے اور یہ نیورل ٹیوب ہی جس سے بعد میں دماغ، ریڑھ کی ہڈی اور حرام مغز بنتا ہے۔
اگر ماں کے جسم میں فولک ایسڈ کی مقدار کم ہو تو یہ عمل متاثر ہو گا اور بچے میں پیداٸیشی نقاٸص ہو سکتے ہیں جیسے کمر پر پھوڑ، دماغ میں پانی کا پڑ جانا اور سر کے سائز میں اضافہ، بچے میں پیشاب اور پاخانے کا کنٹرول نہ ہونا، اور نچلے دھڑ کی معذوری بھی شامل ہے۔
لہذا تمام حاملہ خواتین میں حمل کے پہلے تین مہینوں کے دوران روزانہ 400 مائیکروگرام(0.4mg) فولک ایسڈ استعمال کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔
اگر خدانخواستہ کسی ماں کے ہاں اس طرح کے مساٸل کے ساتھ کوٸ پہلے بچہ پیدا ہوا ہے تو یہ خوراک خوراک چار ملی گرام (4mg)ہے اور اسے اس وقت شروع کرنا چاہئے جب حمل کے لیے کوشش کر ہے ہوں ۔ اس گولی کو شروع کرنے کے لیے مثبت حمل ٹیسٹ کا انتظار نہ کریں کیونکہ جب حمل ٹیسٹ مثبت آتا ہے تو بچہ پہلے ہی ایک ماہ کا ہو چکا ہوتا اور اہم وقت ضائع ہو جانے سے فاٸدہ کم ہوتا .ان معلومات کو تمام شادی شدہ جوڑوں کے ساتھ شیئر کریں۔
اللہ ھم سب کوٸ ایسی آزماٸش اور
مصیبتوں سے بچاۓ۔آمین

04/07/2025

ہمیں سی پی آر آنا چاہیے!
کل سے اسکول ٹیچر کی اچانک موت کی ویڈیو تقریباً 50 بار دیکھ چکا ہوں۔ ہر بار دل یہ سوچ آتی کہ اگر آس پاس موجود لوگوں میں سے کسی نے بھی بروقت CPR (سی پی آر) کی کوشش کی ہوتی تو شاید وہ ٹیچر بچ جاتے۔ وہ صرف بیٹھے، دیکھتے رہے
اور دل بند ہو گیا۔....
۔۔Cardiac Arrest۔ کیا ہوتا ہے؟
یہ دل کی وہ حالت ہوتی ہے جب دل اچانک دھڑکنا بند کر دیتا ہے۔ انسان بظاہر مردہ لگتا ہے لیکن اگر فوری CPR شروع کر دی جائے تو وہ واپس آ سکتا ہے !---
۔CPR (Cardiopulmonary Resuscitation)۔ کیا ہے؟
یہ ایک ہنگامی طبی عمل ہے جو ایسے شخص پر کیا جاتا ہے:
* جس کا دل دھڑکنا بند ہو جائے
* جو بے ہوش ہو
* جس کی سانسیں رک چکی ہوں

کیسے کیا جاتا ہے؟
1. شخص کو لٹائیں
2. پہلے 30 بار سینے پر زور سے دباتے جائیں۔۔۔۔(Chest Compressions)
3. پھر 2 بار منہ سے سانس دیں (Rescue Breaths)
یہ عمل بار بار دہراتے رہیں جب تک طبی مدد نہ پہنچے۔
یاد رکھیں
سی پی آر کرنے والا شخص ڈاکٹر نہیں ہوتا، لیکن فوری ردعمل ایک عام انسان کو بھی ہیرو بنا دیتا ہے۔
سی پی آر کسی کی آخری سانس کو نئی زندگی میں بدل سکتا ہے
اپیل۔۔۔
خدا را ! CPR سیکھیں–خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی سکھائیں۔
یہ صرف 5 منٹ کا علم ہے، لیکن کسی کا پورا جہاں بچا سکتا ہے✌️

06/05/2025

‏آج کے دور میں چار رشتےدار ایک ساتھ تبھی چلتے ہیں جب پانچواں کندھے پر ہوتا ہے

22/02/2025

(اشفاق احمد مرحوم کی ایک یادگار تحریر )
ایک دوسرے کے گھروں میں آتے جاتے رہیں۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کے یا ان کے جانے کا وقت آجائے.
"اشفاق احمد" کہتے ہیں:
ایک فوتگی کے موقع پر میں نیم غنودگی میں کچھ سویا ہوا تھا اور کچھ جاگا ہوا نیم دراز سا پڑا تھا۔
وہاں بچے بھی تھے جو آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک بچے کی بات نے مجھے چونکا دیا وہ کہہ رہا تھا،
کہ"کوئی فوت ہوجائے تو بڑا مزہ آتا ہے۔ ہم سب اکٹھے ہوجاتے ہیں اور سارے رشتہ دار ملتے ہیں."
پھر ایک بچے نے کہا ، کہ
"اب پتا نہیں کون فوت ہوگا،
نانا ناصر کافی بوڑھے ہوچکے ہیں، ان کی سفید داڑھی ہے شاید اب وہ فوت ہوں گے۔
اس پر جھگڑا کھڑا ہوگیا اور وہ آپس میں بحث کرنے لگے۔ کچھ بچوں کا موقف تھا کہ پھوپھی زہرا کافی بوڑھی ہوگئی ہیں وہ جب فوت ہوں گی تو ہم ان شاءاللہ فیصل آباد جائیں گے اور وہاں ملیں گے اور خوب کھیلیں گے. "
خواتین و حضرات!
مَیں آپ کو ایک خوشخبری دوں کہ اس بحث میں میرا نام بھی آیا۔
میری بھانجی کی چھوٹی بیٹی جو بہت چھوٹی ہے اس نے کہا کہ"نانا اشفاق بھی بہت بوڑھے ہوچکے ہیں."
خواتین و حضرات! شاید مَیں چونکا بھی اس کی بات سن کر ہی تھا. جو میرے حمایتی بچے تھے وہ کہہ رہے تھے کہ جب نانا اشفاق فوت ہوں گے تو بہت رونق لگے گی کیونکہ یہ بڑے مشہور ہیں۔
جب بچوں کا جھگڑا کچھ بڑھ گیا اور ان میں تلخی بڑھنے لگی تو ایک بچے نے کہا کہ"جب نانا اشفاق فوت ہوں گے تو گورنر آئیں گے۔
اس پر ایک بچے نے کہا کہ نہیں گورنر نہیں آئیں گے بلکہ وہ پھولوں کی ایک چادر بھیج دیں گے کیونکہ گورنر بہت مصروف ہوتا ہے۔ تمھارے دادا یا نانا ابو اتنے بھی بڑے آدمی نہیں کہ ان کے فوت ہوجانے پر گورنر آئیں گے."
وہ بچے بڑے تلخ، سنجیدہ اور گہری سوج بچار کے ساتھ آئندہ ملنے کا پروگرام بنارہے تھے۔ ظاہر ہے بچوں کو تو اپنے دوستوں سے ملنے کی بڑی آرزو ہوتی ہے نا!
ہم بڑوں نے ایسا ماحول بنادیا ہے کہ ہم رشتے بھول کر کچھ زیادہ ہی کاروباری ہوگئے ہیں۔
چیزوں کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں حالانکہ چیزیں ساتھ نہیں دیتیں۔ ہم جانتے ہیں کہ رشتے طاقتور ہوتے ہیں اور ہم رشتوں کے حوالے سے ہی پہچانے جاتے ہیں۔
خدا کے لیے کوشش کریں کہ ہم اپنے رشتوں کو جوڑسکیں ایسی خلیج حائل نہ ہونے دیں کہ ملاقاتیں صرف کسی کے فوت ہوجانے کی مرہون منت ہی رہ جائیں.
کیا ہم ان بچوں کی طرح اس بات کا انتظار کریں گے کہ کوئی مرے پھر ہم مجبوری کے ساتھ لاٹھی ٹیکتے ہوئے یا چھڑی پکڑے وہاں جائیں۔
جب ہم کہیں جائیں تو یہ فخر دل میں ہونا چاہیے کہ مَیں ایک شخص سے ملنے جارہا ہوں. مجھے اس سے کوئی دنیاوی غرض نہیں ہے۔ اس کے پاس اس لیے جارہا ہوں کہ وہ مجھے بہت پیارا ہے۔ چاہے ہم اس کام کے لیے کم وقت دیں لیکن دیں ضرور۔

05/02/2025

مشہور بات ہے کہ ایران میں جاڑے کے موسم میں جب بھیڑیوں کو شکار نہیں ملتا اور برف کی وجہ سے خوراک کی قِلّت پیدا ہو جاتی ہے تو بھیڑیے ایک دائرے میں بیٹھ کر ایک دوسرے کو گُھورنا شروع کردیتے ہیں۔۔

جیسے ہی کوئی بھیڑیا بُھوک سے نِڈھال ہو کر گِرتا ہے تو باقی سب مِل کر اُس پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور اُس کو کھا جاتے ہیں، اِس عمل کو فارسی میں ’’گُرگِ آشتی‘‘ کہتے ہیں۔۔۔۔
اِس عمل کا گہرائی سے تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ رُجحان بھیڑیوں کے ساتھ ساتھ کافی حد تک ہو بہو انسانوں میں بھی پایا جاتا ہے۔۔۔۔

ہم انسان بھی ان بھیڑیوں کی طرح ہیں، جو کمزور نظر آۓ اسی پر اپنی دھاگ بٹھاتے ہیں۔۔۔ جو جتنا حالات کا ستایا ہوتا ہے اتنا ہی مزید اس کے ساتھ شدت پسندانہ رویہ اپناتے ہیں۔۔۔
جو مالی طور پر کمزور ہوتا ہے اسی کے ساتھ فراڈ اور دھوکہ دہی کرکے اس کی رہی سہی زندگی کو بھی جہنم بنا دیتے ہیں۔۔۔

ہم کمزور کا سہارا بننے کے بجاۓ، الٹا مزید اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔۔۔ جو جتنا کمزور ہوتا ہے اتنا ہی اس کے لئے زندگی دشوار بنا دیتے ہیں۔۔۔۔

28/01/2025

As Salaam o alaikum
Today We will talk on #
Aj Facebook pay 1 Random post daikhi jis ma Noshehra Virkan Kay 1 larkay nay Apni gun say Suside(Khud Kushi) kar li Buhat dukh huwa.3 saal pehlay Kamoki say 1 Buhat he Welll settle khatay peetay crore pati ghranay k Aklootay Baitay nay apni Gun say Suside ke. is tarha ke Buhat se example ha Jis tarha MOLANA Tariq Jameel Sahib Ka Sahibzada(Commited Suside By Gun).Bad Qismati Say Pakistan Ma Corrupt or jahal Log Hukmarani Kartay hay Jo Corrupt or Jahlana Policies bnatay hay.Medical ho ya koi be field Zeero Progress hay.Gujranwala Pori Division ma Health K Related Zero progress hay .In Short Government Ko Chahiey K Rural (Dehati Area) Tehsil level,DHQ,RHC,BHC level par Psychiaric (Nafsiati )Clinics ho ta k Depression wagaira k patients ko early stage par Diagnose kar k treat kia ja sakay or Qeemati Jano ko zayia honay say bachayia ja sakay.Welfare organisations NGO wagaira is zamar ma Privately apna Kirdaar ada karay.
Depression ki Sign and Symptoms
, Patient Mayoosi ke batay karta hay
behaviour,Patient ko gussa buhat ziada atta hay
Chirchara ho jata hay
Disturbance,Patient ko Neend na Ana
ke kaifiat taari ho jati hay
of appetite(Bhook na lagna) Or irregular over eating etc
Chemical imbalance ho jata hay.Brain soochnay samajnay or right decision lainey ke position ma nahi hota.
Parents ko chahiey k is tarha k behaviour ko Agar bacho ma observe karay to on the spot nearby Psychiatrist ya psychologist ko approach karay.Medical treatment and regular sessions say Patient easily recover ho jata hay
the spot aisey patients say guns wagaira door rakhay
patients k social media or dosray kamo ko strictly observe karay ta k kisi Buri Sorraat say bacha ja sakaay
healthy diet
polite and friendly with your child's
safe and Healthy

Dr.Tawakal_Virk(MBBS_MD)
Ex_House officer DHQ teaching Hospital Gujranwala

06/02/2024

Address

Kamoki

Telephone

+923095525211

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dr Tawakal Virk posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram

Category