Dr. Seema Saeed

  • Home
  • Dr. Seema Saeed

Dr. Seema Saeed Homeopath. Hijama Master. Acupuncturist. Al-Karim Health Care wishes to provide a healthy future by correct classical homeopathic treatment.

Al-Karim Health Care - Physician Online

Our team comprises of Doctors who are keen to help the sick, and their only mission is to bring about permanent relief and restore the sick to health without further complicating the case.We assure to alleviate your sufferings in the best possible manner provided your given correct and honest history. As the Technology and Life Style has changed today, Qual

ity Care can be offered in the comfort of your Home. Clinic Overview
Site Provides, Herbal & Homoepathic Treatment | Hair Care | Skin Care | Body Care | Men and Women About Health | Homoeopathic Philosophy|and Herbs
Psychological or mental disorder Depression,Epilepsy Hydrophobia, Hysteria ,Self-Abuse,
Headache, migraine Meningitis,

Influenza, nasal polyps nose block
Lungs disorders ..Asthma, Bronchitis, Whooping Cough, , , , Cough,

stomach disorder.. mouth ulcers .Acidity , Colic, Constipation, Dyspepsia, , Fever, Gastric Ulcer, Diarrhea, Dysentery
Joints pain Gout, Arthritis sciatica cramps
Anemia, Angina
Lever disorders .. Jaundice Diabetes
Female problems Leucorrhea, menstrual cycle disorder, sterility Impotence,
UTI and kidneys stone .
,
Sleep disorder & Dream, Nightmare insomnia
Skin problems : Ulseration, ,Irritation, Itching Wounds, ,carbuncle, Chicken Pox ,burns Eczema , heel Cracks,Dandruff, Nettle-Rash, Haemorrhoids, hernia,,Mumps
Warts, Worms ... specialy Homoepathic Treatment for Hair fall balness, hair growth

سائنسں دانوں کہنا ھے کہ لوہا اس زمین اور نظام شمسی کا حصہ نہیں ھے۔ کیونکہ لوھے کے پیدا ہونے کے لئے ایک خاص درجہ حرارت کی...
25/07/2025

سائنسں دانوں کہنا ھے کہ لوہا
اس زمین اور نظام شمسی کا حصہ نہیں ھے۔
کیونکہ لوھے کے پیدا ہونے کے لئے ایک خاص درجہ حرارت کی ضرورت ھوتی ھے جو ہمارے نظام شمسی کے اندر بھی موجود نہیں۔ لوہا صرف سوپر نووا supernova کی صورت میں ھی بن سکتا ھے۔ یعنی جب کوئی سورج سے کئی گنا بڑا ستارہ پھٹ جائے اور اس کے اندر سے پھیلنے والا مادہ جب شہاب ثاقب meteorite کی شکل اختیار کرکے کسی سیارے پر گر جائے جیسا کے ھماری زمین کے ساتھ ھوا۔
سائنسدان کہتے ہیں کہ ھماری زمین پر بھی لوھا اسی طرح آیا۔ اربوں سالوں پہلے اسی طرح شہاب ثاقب meteorites اس دھرتی پر گرے تھے جن کے اندر لوھا موجود تھا۔

اللہ سبحان وتعالی نے یہی بات قرآن میں بیان فرمائی ہے، 1400 سال پہلے اس بات کا وجود تک بھی نہیں تھا کہ لوھا کیسے اور کہاں سے آیا؟
قرآن کی 57 ویں سورة کا نام الحدید ھے جس کا مطلب لوھا ھے۔ لوھے کے نام پر پوری صورت موجود ھے اور اسی سورة کی آیت میں اللہ فرماتا ھے کہ:

"اور ہم نے لوھے کو اتارا، اس میں سخت قوت اور لوگوں کے لئے فائدے ہیں۔”
(سورة الحدید، آیت نمبر 25)
قرآن میں موجود یہ سائنسی حقائق اس بات کی دلیل ھے کہ یہ رب کا سچا کلام ھے۔ جو اس آخری پیغمبر حضور ﷺ پر نازل ھوا جو اُمی کہلاتے ہیں ۔

سورہ حدید آیت 4

﴿۴﴾ وھی ھے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا۔ جو چیز زمین میں داخل ھوتی اور جو اس سے نکلتی ھے اور جو آسمان سے اُترتی اور جو اس کی طرف چڑھتی ھے سب اس کو معلوم ھے۔ اور تم جہاں کہیں ھو وہ تمہارے ساتھ ھے۔ اور جو کچھ تم کرتے ھو خدا اس کو دیکھ رھا ھے۔
اس سے بھی زیادہ حیران کر دینے والی بات یہ ھے کہ لوہا زمین کے بالکل درمیان میں ھے۔ اور لوھے کی بدولت مقناطیسی لہریں زمین کے گرد پیدا ہوتی ہیں جس سے زمین پر سورج کی الٹرا ریز اثر انداز نہیں ہو سکتی اور یہ وائرلیس کمیونیکیشن میں بھی مدد فراہم کرتی ھے۔

اب حیران کرنے والی بات یہ ھے کہ قرآن میں 114 سورتیں ہیں اور سورہ الحدید کا نمبر 57 ھے یعنی سورت حدید عین قرآن کے بیچ میں ھے۔ اور لوہا اسی طرح زمین کے درمیان ھے۔ یعنی اللہ نے اس سورہ کی ترتیب بھی اسی حساب سے رکھی جو کہ ایک معجزے سے کم نہیں۔

یہ بات حقیقت ھے کہ لوھے کہ بنا زمین پر زندگی تقریبا نا ممکن تھی۔ لوھا ہیموگلبن کی صورت میں ھمارے خون میں موجود ھے۔ جو کہ خون میں آکسیجن کو پورے جسم پہنچانے کام کرتا ھے۔

عربی زبان کے ٢٨ حروف ہیں اور ھر حرف سے کوئی عدد منسوب ھے.حروف کو مختلف ترتیب سے لکھا جاتا ھے.
سب سے زیادہ عام طریقہ درج ذیل ھے۔

ا ب ج د ہ و ز ح ط
1 2 3 4 5 6 7 8 9
ی ک ل م ن س ع ف ص
10 20 30 40 50 60 70 80 90
ق ر ش ت ث خ ذ ض ظ
100 200 300 400 500 600 700 800 900
غ
1000

ا کے لئے 1 ب کے لئے 2 کا عدد ھے ج کے لئے 3 اور د کے لئے 4

اسی طرح الحدید میں ا ل ح د ی د الفاظ ہیں۔

اسکے ابجد الفاظ درج زیل ہیں۔
1 + 30 + 8 + 4 + 10 + 4 = 57

الحدید سورت کا نمبر بھی 57 ھے۔

اب آتے ہیں لفظ حدید کی طرف۔ حرف حدید میں چار الفاظ ہیں ح د ی د۔ اسکا ابجد نمبر ھے۔
8+ 4 + 10 + 4 = 26

اب آپ سوچیں گے کہ اب 26 کیا چیز ھے؟؟؟

جی جناب یہ لوھے کا ایٹومک نمبر ھے۔
Atomic number of iron is 26

سورہ حدید میں رکوع کی تعداد 4 ھے جبکہ آئرن کے آئسوٹوپس کی تعداد بھی 4 ھے۔

ھماری زمین میں سب سے زیادہ لوھا زمین کی سب سے اندرونی تہہ (inner core) میں پایا جاتا ہے. Inner core 80% لوہے اور 20% نکِل پر مشتمل ھے. زمین کی اس تہہ یعنی inner core کی پیمائش(موٹائی) 2475 کلومیٹر ھے۔ جبکہ سورہ حدید میں حروف کی تعداد بھی 2475 بنتی ھے.

سورہ حدید قران مجید کی 57 ویں سورت ھے جبکہ سائنسدانوں کے مطابق inner core کا درجہ حرارت بھی 5700 کیلون یعنی5427 ڈگری سنٹی گریڈ ھے. جبکہ آئرن کے ایک آئسوٹوپ کا ماس نمبر بھی 57 ھے.

ایک ستارا کا ایندھن ہائیڈروجن گیس ہوتی ھے اور گریوٹی کی وجہ سے ستارا کے رکز میں فیوزن ری ایکشن شروع ھوتا ھے اور ہائیڈروجن ایٹم دوسرے ایٹم سے ملکر ہیلیئم بناتی ھے جب کسی ستارا کہ تمام ہائیڈروجن ختم ھو جاتی ھے تو اس کا ایندھن ہیلیئم ھوتا ھے اور ہیلیئم کے آئیٹم فیوزن ری ایکشن سے نائیٹروجن اور پھر آکسیجن بناتے پھر اور آخر میں لوھا بنتا ھے جب کسی ستارا میں لوھا پیدا ھونا شروع ھو جائے تو وہ ستارا مر جاتا ھے اور بلاسٹ کر کے لوھا کائنات میں چھوڑ دیتا ھے۔
زمین پر موجود لوھا کس مرے ہوئے ستارے سے آیا۔ جس کو قرآن نے 1400 سال سے بھی پہلے بیان کر دیا۔

اسلام اور قرآن کی حقانیت جدید سائنس دن بدن عیاں کر رھی ھے مگر پھر بھی ھم اللہ کو راضی کرنے کے بجائے دنیا کے پیچھے پڑے ہیں۔
بیشک قرآن حکیم ایک زندہ و جاوید معجزہ ھے

"  پنیر سازوں کے ایک خاندان پر چوہوں نے یلغار کر دی، خاندان نے پنیر کو چوہوں سے بچانے کے ہزاروں جتن کیے، یہ رات بھر جاگت...
20/07/2025

" پنیر سازوں کے ایک خاندان پر چوہوں نے یلغار کر دی، خاندان نے پنیر کو چوہوں سے بچانے کے ہزاروں جتن کیے، یہ رات بھر جاگتے رہتے، چوہے پکڑنے کی ٹکٹکیاں بھی لگائیں، گودام میں جگہ جگہ چوہے مار گولیاں بھی بکھیر دیں، یہ غلیلوں سے بھی چوہے مارتے رہے، پنیر کے مرتبانوں کے ڈھکن بھی ٹائیٹ کر دیئے اور انھوں نے مرتبان بھی بدل دیئے لیکن چوہوں کا مسئلہ حل نہ ہوا چنانچہ انھوں نے گائوں کے سیانے سے رابطہ کیا، اس نے قہقہہ لگایا اور بولا " تم لوگ مرتبان بدلتے رہے، غلیلیں چلاتے رہے، گولیاں بکھیرتے رہے اور ٹکٹکیاں لگاتے رہے لیکن تم نے چوہوں کی آمدورفت کا راستہ بند نہیں کیا" گھر کے لوگوں نے حیرانی سے پوچھا " کیا مطلب" سیانا بولا " چوہوں نے گودام کے فرش میں درجنوں سرنگیں بنا رکھی ہیں، یہ ان سرنگوں سے گودام پر حملہ آور ہوتے ہیں، تم یہ سرنگیں جب تک بند نہیں کرو گے تمہاری پنیر محفوظ نہیں ہو گی" گھر والوں نے پوچھا " ہم کیا کریں " سیانے نے جواب دیا " تم فرش میں پتھر لگا دو، چوہوں کی سرنگیں بند ہو جائیں گی اور یوں تمہاری پنیر محفوظ ہو جائے گی" اس کہانی کے آخر میں محاورہ لکھا تھا "جب تک فرش پکے نہیں ہوتے پنیر محفوظ نہیں ہوتی"۔

یہ کہانی دانش تھی اور دانش ہوا اور سورج کی طرح ہوتی ہے، یہ کسی ایک شخص، قبیلے یا خاندان کی ملکیت نہیں ہوتی یہ پوری دنیا کی امانت ہوتی ہے، یہ پولش دانش بھی دنیا کے ہر اس انسان کا ورثہ ہے جس کی پنیر چوہے کھا جاتے ہیں اور وہ صرف فرش پکا کر کے اس نقصان سے بچ سکتا ہے، ہم اس کہانی یا دانش کا کینوس اب ذرا سا بڑا کرتے ہیں"
یہ کہانی صرف پنیر کی نہیں، ہماری زندگی کے ٹیلنٹ کی بھی ہے۔
ہم سب اپنی صلاحیتوں کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم موٹیویشنل ویڈیوز دیکھتے ہیں، نئی کتابیں خریدتے ہیں، کورسز میں داخلہ لیتے ہیں، اور کامیاب لوگوں کی نقل کرتے ہیں۔ یہ سب "نئے مرتبان" ہیں۔ ہم وقتی جوش میں "غلیلیں" بھی چلاتے ہیں — ایک دن کی محنت، دو دن کی لگن۔ لیکن اصل مسئلہ وہ "سرنگیں" ہیں جن سے چوہے — یعنی منفی عادات، غیر واضح مقصد، سستی، اور خود شک — روز ہماری صلاحیتوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔

جب تک ہم ان سرنگوں کو بند نہیں کرتے، ہمارا ٹیلنٹ محفوظ نہیں ہو سکتا۔

سرنگیں بند کرنے کا مطلب ہے: روزمرہ کی مثبت عادات اپنانا، مطالعہ کو معمول بنانا، سوالات کرنا، خود احتسابی کرنا، اور اپنے ماحول کو بہتر بنانا۔ یہ وہ "پتھر" ہیں جو فرش میں لگتے ہیں۔ یہ وہ بنیاد ہے جس پر ٹیلنٹ پروان چڑھتا ہے۔

تو اگلی بار جب آپ اپنی صلاحیتوں کو بچانے کی کوشش کریں، یاد رکھیں: صرف مرتبان بدلنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ جب تک فرش پکے نہیں ہوتے، پنیر محفوظ نہیں ہوتی۔

(کیرئیر کاؤنسلر: ایچ۔ایم۔زکریا)

مجھے یہ تو یاد نہیں کہ کتنی چینی فی بندہ کے حساب سے ملتی تھی مگر یہ یاد ہے کہ راشن سے چینی لایا کرتے تھے ہم پھر چینی کے ...
19/07/2025

مجھے یہ تو یاد نہیں کہ کتنی چینی فی بندہ کے حساب سے ملتی تھی مگر یہ یاد ہے کہ راشن سے چینی لایا کرتے تھے ہم
پھر چینی کے کارخانے پہ کارخانے لگے اور ملک میں چینی وافر مقدار میں ملنے لگی
چینی زیادہ ملنے لگی اور ملک میں ڈائبیٹیس کے مریضوں کی تعداد بھی بڑھنے لگی ، جب مریض زیادہ ہونے لگے تو ان کی دواؤں کی طلب بھی بڑھ گئی ،
جب دوائیں زیادہ تو فارماسیوٹیکل کا دھندہ بھی زیادہ لوگوں کے اندر اسٹیٹس کا جنون بھی بڑھا اور چینی کا استعمال بھی ،وہ غذائیں زیادہ استعمال ہونے لگی جو شکر میں فوری تبدیل ہو جاتی ہیں اور اس طرح شوگر کی بیماری بڑھتی گئی بڑے ہی نہیں بچے بھی اس کا شکار ،موٹاپا بڑھتا جارہا ہے جو کہ ڈائبیٹیس کے ساتھ ساتھ دل کی بیماروں کو بھی بڑھا رہا ہے ،
زیادہ شکر کا استعمال زیادہ انسولین کی آمد زیادہ انسولین کا مطلب زیادہ مسائل اور مختلف بیماریاں ،
چینی موجودہ حکومت نے ایکسپورٹ کردی پھر کمی دکھا کر امپورٹ کی بات ، قیمت کہیں زیادہ بڑھ گئی ،
ہم اگر چینی کا استعمال ہی کم کردیں تو بیمار بھی نہیں ہوں گے اور ان چینی کے بدمعاشوں کے چنگل سے بھی باہر نکل جائیں گے ، جب ہم چینی خریدیں ہی نہیں تو یہ کس کو بیچیں گے ، عوام کو بہت بہترین موقع ملا ہے بیماریوں سے بچتے ہوئے بدمعاشوں کو منہ توڑ جواب دیا جائے
ڈاکٹر اظہر چغتائی

ہماری شادی کو دو ماہ ہونے والے تھے۔میں آیا ہی شادی کیلئے تھا اسلئے اتنی لمبی چھٹی مل گئی۔ورنہ عموماً غیر ممالک سے آنے وا...
18/07/2025

ہماری شادی کو دو ماہ ہونے والے تھے۔
میں آیا ہی شادی کیلئے تھا اسلئے اتنی لمبی چھٹی مل گئی۔
ورنہ عموماً غیر ممالک سے آنے والوں کو بس ایک ماہ کی چھٹی ملتی ہے۔
جانے کے دن اب قریب ہی تھے۔
اسکی شکل سے ہی لگ رہا تھا کہ وہ اداس ہورہی ہے۔
ہم نے شادی کے بعد کے دن خوب اچھے سے گزارے۔
شادی کے بعد گھومنا پھرنا، دعوتیں۔
ایسے مصروف رہے کہ اب بچھڑتے ہوئے عجیب سا دل ہورہا۔
یہ تصویر کا دوسرا رخ تھا، خالی۔
میں تو واپس جاکر کام میں مصروف ہوجاؤنگاں مگر مجھے پتا اسکے لئے وقت گزارنا عذاب ہوگا۔
روز مجھ سے پوچھے گی کہ کب آرہے ؟
جلدی آجاؤ۔
لڑکی بیاہ کر صرف اپنے شوہر کیلئے آتی ہے۔
اور فوراً ہی شادی کے بعد اگر لمبی جدائی پڑ جائے تو؟
یہ وقت سزا ہوجاتا۔
سسرال کی باتیں اور میکے میں لمبا رکنا بھی ممکن نہی رہتا۔
میں جانتا تھا۔
میرے اردگرد بہت مثالیں تھیں۔
ابھی بھی بیٹھا میں اپنا پاسپورٹ ٹکٹ اور ضروری چیزیں ہینڈ بیگ میں رکھ رہا تھا کہ وہ میرے پاس آکر کھڑی ہوگئی۔
میں نے سر اٹھا کر اسکو دیکھا۔
مجھے لگا ابھی رو دیگی۔
میں نے اسکا مہندی اور چوڑیوں سے بھرا ہاتھ پکڑ کر چوما اور اسکو پاس بٹھا لیا۔
جاؤنگاں تو تمکو وہاں بلانے کا انتظام کرونگاں ناں؟
یہ سارے کاغذات نکاح نامہ اسلئے ایکطرف کر رہا ہوں ۔
اگر ایسی شکلیں بناکر میرے سامنے رہوگی تو میں کمزور پڑ جاؤنگاں۔
میرے ساتھ کھڑی ہونا ہے تمکو۔
نہ کہ سامنے۔
اس کے ضبط کا پیمانہ ٹوٹ گیا اور رونے لگ گئی۔
میں نے اسکو ساتھ لگایا۔
اسکا ماتھا چوما اور اسکو رونے دیا۔
کافی دیر بعد خود ہی وہ چپ ہوگئی اسکو صبر آگیا تو میرے ساتھ زور سے چپک گئی۔
اچھا چلو باہر چلتے ہیں بارش ہورہی۔
آئسکریم کھاتے ہیں۔
وہ فورا تیار ہوگئی۔
یہ رشتہ بھی عجیب ہے۔
اچانک دو اجنبی اتنے قریب آجاتے کہ ایکدوسرے سے دور جانا مشکل ہوجاتا۔
کہاں کچھ ماہ پہلے؟ ہم ایکدوسرے کو جانتے تک نہ تھے۔
اور اب؟
مگر وہ قصہ بہت اچھے سے یاد ہے
جب میں نہاکر فریش ہوکر کمرے میں آیا تو وہ میری ٹی شرٹ کو سونگھ رہی تھی۔
میں نے کوئی خاص نوٹس نہ لیا۔
سوچا کہ گندے صاف کپڑے الگ کر رہی ہوگی؟
پھر کچھ دن بعد وہی شرت مجھے اسکے تکئے کے نیچے
پڑی ملی۔
اب جانے کے دن قریب ہوئے تو میری استعمال شدہ شرٹ نکال کر اُس نے علیحدہ کرلی۔
کہنے لگی یہ میں نے رکھنی ہے۔
تم کیا کروگی؟ پہنو گی؟ تمکو آئیگی؟
بہت بڑی ہے تم سے۔
آپ کی خوشبو آتی ہے۔
مجھے آپ کی خوشبو چاہئے۔
جتنے دن ساتھ رہے وہ مجھے عطر پرفیوم کچھ بھی لگانے نہ دیتی۔
کہتی کہ مجھے آپ کی خوشبو پسند ہے۔
مجھے دیوانہ بناتی۔
اور میں نے پرفیوم لگانا ترک کردیا۔
جانے والا دن بھی آگیا۔
ائیر پورٹ پر دیر تک میں اسکو ساتھ لگائے کھڑا رہا۔
پھر باقیوں سے ملکر آخری بار اسکو رخسار پر بوسہ دیا اور
International Departure
کی طرف چل دیا۔
بورڈنگ پاسپورٹ سب کروانے کے بعد میں ویٹنگ ایریا میں بیٹھا سوچ رہا تھا۔
کہ اوورسیز بننے کے کتنے نقصانات ہیں۔
ہمیشہ انسان مہمان بن کر اپنے ملک میں آتا۔
مہمان بن کر رہتا اور واپس چلا جاتا۔
بچوں کی توجہ بچوں کا پیار بٹ جاتا۔
میرا بھتیجا تھا۔
میرے سے خوب دوستی تھی۔
جب ملک سے باہر گیا کچھ دن تک یاد کرتا رہا واپس آیا تو پہچانے نہ۔
اب یہ حال ہے کہ دلچسپی ہی نہی رہی۔
اور اب میری بیگم۔
اچھا جلد آنے کی کوشش کرونگاں۔
ورنہ اسکو بھی وہاں بلا لونگاں۔
مگر باہر لیکر جانا آسان تھوڑا؟
اگلی چھٹی جلد آنا پڑا۔
بیٹی ہوئی تھی۔
ہم نے سوچ رکھا تھا کہ بیٹی ہوئی تو اسکا نام ماہتاب رکھینگیں۔
اور اگر بیٹا ہوا تو تم خود ہی رکھ لینا۔
پہلے بیوی کی اداسی تھی، اب چھٹی سے واپسی پر بیٹی کی بھی رہی۔
اگلی بار دوسال بعد واپسی ہوئی۔
ابھی تک انکو اپنے پاس بلانے کی ترتیب نہی بن رہی تھی۔
کنبہ بھی بڑھ رہا تھا۔
اور زمہ داریاں بھی۔
آہستہ آہستہ بچے بڑے ہوتے گئے۔
میری بیگم کی توجہ اور محبت بٹ گئی۔
بلکہ اسکا جھکاؤ بچوں کیطرف زیادہ تھا۔
میں بس شناحتی کارڈ کی حد تک ضروری رہ گیا۔
اور جب پیسے بھیجتا تب تک ہی۔
مجھے اپنی بیگم کی محبت فقط پہلے دو ماہ ہی ملی۔
جو آہستہ آہستہ بٹ کر بچوں میں تقسیم ہوگئی۔
میں اپنے بچوں کو وہاں نہ بلا سکا۔
مشکل ہوگیا تھا۔
ہر چیز مہنگی بھی ہوگئی تھی۔
بیس سال کے بعد ماہتاب کی شادی ہوگئی۔
پھر بیٹا پڑھائی کیلئے باہر چلا گیا۔
ایک بیٹا اور سب سے چھوٹی بیٹی پاکستان میں ہی پڑھ رہے تھے۔
تیس سال بعد جب میری مستقل واپسی ہوئی تو سب لچھ بدلا ہوا تھا۔
میری بیگم صاحبہ اب پوتوں اور نواسوں کیطرف دھیان دیتی تھیں۔
اور میں کمرے میں صوفے پر بیٹھا اسکو دیکھتا رہتا کہ کب یہ فارغ ہو ؟
اور
مجھ سے کچھ پوچھے اور میں اسکو سب باتیں بتاؤں جو لبھی نہی کہہ سکا۔
جو اتنی سال سنبھال کر رکھیں تھیں کہ وقت ہی نہ ملا۔
اوورسیز کی زندگی بھی عجیب ہوتی ہے۔
ہمیشہ پردیسی بن کر رہے۔
اپنا سنہرا دور تو یہ اکیلے اور سفر میں گزار دیتے۔
نہ بڑوں کی خدمت کر پاتے اس وقت جب انکو زیادہ ضرورت ہوتی اور نہ بچوں کا پیار ملتا۔
نہ خوشی اور نہ کسی کے غم میں شرکت۔
نہ کوئی سوشل نیٹورک۔
بس کام اور پیسہ ملک بھیجنا۔
یہ بھی عجیب سزا ہوتی۔
اور اب سب بدل گیا۔
لگتا محبتوں کیلئے دوبارہ جنم لینا ہوگا۔
Copied

کچھ دن پہلے دانتوں کے ڈاکٹر کے پاس جانا پڑ گیا یا یوں سمجھ لیں کہ اس کی دعائیں مجھے اس کے پاس کھینچ کر لے گئیں۔ لوگ دانت...
12/07/2025

کچھ دن پہلے دانتوں کے ڈاکٹر کے پاس جانا پڑ گیا یا یوں سمجھ لیں کہ اس کی دعائیں مجھے اس کے پاس کھینچ کر لے گئیں۔ لوگ دانتوں کے ڈاکٹر کے پاس کم کم ہی جاتے ہیں اور جو جاتے ہیں وہ دوبارہ نہ جانے کا پکا ارادہ کر کے واپس آتے ہیں۔
خیر ڈاکٹر صاحب کے روبرو حاضر ہوئے تو ڈاکٹر صاحب نے پوچھا۔۔ "جی بتائیے"...
میں نے کہا۔۔"اللہ کا شکر ہے جی، آپ بتائیے"...
ڈاکٹر صاحب تھوڑا سخت لہجے میں بولے "کیسے آئے ہیں"...
میں نے جواب دیا۔۔ "جی موٹرسائیکل پر آیا ہوں"....
ڈاکٹر صاحب نے میرے چہرے کو غور سے دیکھا، شاید حماقت تلاش کر رہے تھے، جو فوراً ہی انکو مل گئی... کہنے لگے۔۔ "داڑھ کا کوئی مسئلہ ہے"؟
مجھے اچانک ہی ان کے پاس جانے کی وجہ یاد آ گئی تو میں نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔۔ "جی جی ڈاکٹر صاحب، بالکل داڑھ کا ہی مسئلہ ہے، لیکن آپ کو کیسے معلوم ہوا"؟...
ڈاکٹر صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا۔۔ "جناب، عقل داڑھ نکلنے کے باوجود بھی اگر بندے کو عقل نہ آئے تو داڑھ یا تو ہلنے لگتی ہے یا پھر درد کرنے لگتی ہے"....
میں نے ڈاکٹر صاحب کی فراست پر دل سے قائل ہوتے ہوئے کہا۔۔ "ڈاکٹر صاحب، کافی زیادہ ہل رہی ہے، اور مسوڑھوں سے خون بھی نکلتا ہے"...
ڈاکٹر صاحب نے مجھے مشینی قسم کی چیئر پر بٹھا کر مشین کے بٹن دبائے اور مجھے لیٹنے والی پوزیشن میں کر دیا اور بولے "ذرا منہ کھولئے"...
میں نے تھوڑا سا منہ کھولا تو کہنے لگے۔۔ "زیادہ منہ کھولئے"..
میں نے فوراً حکم کی تعمیل کی۔۔۔ عجیب شخص تھا جو منہ کھولنے پر مصر تھا... ورنہ تو ہر کوئی "منہ بند کرو" کے احکامات ہی دیتا رہتا ہے...
ڈاکٹر صاحب کافی دیر میرے منہ کے اندر جھانکتے رہے... مجھے خدشہ ہونے لگا کہ کہیں میرے منہ کی بات ہی نہ چھین لیں، یا آج تک میں نے جتنے جھوٹ بولے تھے یا لوگوں کو لارے لپے لگائے تھے، کہیں میری زبان ڈر کے مارے ان کو سب کچھ بتا نہ دے...
لیکن میرے خدشات غلط ثابت ہوئے، ڈاکٹر صاحب نے فرمایا "ایک بار دانت ہل جائیں تو وہ ہلتے ہی رہتے ہیں.. ہاں، ہم اس کی بنیادی وجوہات کو کم کر سکتے ہیں"..
میں نے کہا "جناب بسمہ اللہ کریں، ویسے کیا کریں گے"؟.. کہنے لگے "آپ کے دانتوں کو سکیلنگ کی اشد ضرورت ہے"...
اشد ضرورت کے لفظ پر میری جیب میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی... میں نے پوچھا "ڈاکٹر صاحب، کتنا خرچہ اُٹھ جائے گا"....
فرمانے لگے "لوگوں سے تو ہم چار ہزار لیتے ہیں، آپ سے چھ ہزار لیں گے"...
میں نے اس محبت اور بھائی چارے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے "آپ کے دانتوں پر بہت کام ہونے والا ہے، تین سیشن لگانے پڑیں گے"...
میں نے پوچھا "ڈاکٹر صاحب، میں بچ تو جاوں گا نا"...
شفقت سے مجھے تھپکی دیتے ہوئے بولے۔۔ "اللہ مالک ہے، بس آپ ہاں کرو اور پہلا سیشن ابھی کئے دیتے ہیں"...
میں نے تشویش زدہ لہجے میں کہا "ڈاکٹر صاحب، میں اپنے وارثوں کو تو بلا لوں"....
ڈاکٹر صاحب نے مجھے گھورتے ہوئے کہا "اللہ سب کا وارث ہے، چلو منہ کھولو، بڑے والا"..
تھوڑی دیر میں ہی میرے دانتوں کی رگڑائی شروع ہو گئی..
پہلا سیشن 20 منٹ کا تھا.. ڈاکٹر صاحب نے دوسرے دن آنے کا بول کر رخصت کر دیا...
اگلا دن اتوار کا تھا، جو زیادہ ہنگامہ خیز ثابت ہوا... اتوار کو دو سیشن لگے۔ آخری سیشن ایک خاتون ڈاکٹر کے دست مبارک سے شروع ہوا۔
ڈاکٹرنی صاحبہ نے فرمایا کہ آپ کے مسوڑھوں کو سُن کرنے کیلئے انجیکشن لگانے ہوں گے تاکہ ڈیپ سکیلنگ ہو سکے..
میں سمجھ گیا کہ ڈاکٹرنی صاحبہ میرے دانتوں کے ساتھ کھل کھیلنا چاہ رہی ہیں..
نا چاہتے ہوئے بھی میں نے انہیں اجازت دے دی...
ڈاکٹرنی صاحبہ نے جتنی محبت کے ساتھ دانتوں کو رگڑا تھا، مجھے چھ ہزار کی رقم ڈاکٹرنی صاحبہ کے گلوز کی میل سے بھی زیادہ معمولی لگنے لگی...
میں نے ہنسی خوشی پیسے دیئے اور پوچھا "کوئی دوائی بھی استعمال کرنی ہے، تو بتا دیں"... کہنے لگیں۔۔"کوئی دوائی نہیں، بس صبح شام پیسٹ کرو اور ماوتھ واش کا استعمال کرو، پھر پندرہ دن بعد چیک کروانا"..
پندرہویں دن پھر ڈاکٹر صاحب کے پاس جا پہنچا اور بتایا کہ داڑھ ویسے ہی ہل رہی ہے اور ٹھنڈا گرم بھی ویسے لگتا ہے، ہاں مسوڑھوں سے خون آنا کافی کم ہو گیا ہے..
کہنے لگے "میری مانو تو داڑھ نکلوا ہی دو، عقل تو تم میں پہلے ہی نہیں ہے، خالی داڑھ کا کیا کرو گے"..
میں نے عرض کی "ڈاکٹر صاحب، کم سے کم بندہ اس سائیڈ سے کھانا تو چبا سکتا ہے"..
کہنے لگے "میاں، یہ بات مستند ہے کہ عقل داڑھ کھانا چبانے کا کام نہیں کرتی، یہ بہت دور ہوتی ہے"...
دور سے مجھے "نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر" والا شعر یاد آ گیا اور ساتھ یہ بھی کہ اس داڑھ میں تیلیاں مارتے مارتے میری آتما رل جاتی ہے اور ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ اس کا کھانے میں کوئی کردار ہی نہیں ہے...
میں نے نپے تلے انداز میں ڈاکٹر صاحب کو دیکھا تو وہ بھی اسی انداز میں مجھے دیکھ رہے تھے... پوچھنے لگے "پھر کیا ارادہ ہے، نکال نہ دیں عقل داڑھ"....
میں نے کہا "ڈاکٹر صاحب، عقل نہ سہی، عقل داڑھ تو کم سے کم رہنے دیں.. آپ کی مہربانی، بس اب مجھے جانے دیں"...
ڈاکٹر صاحب نے اگلا مشورہ دیا "چلیں ایک ہفتہ مذید وہی ٹوتھ پیسٹ استعمال کر کے دیکھ لیں، فرق نہ پڑا تو آ جائیے گا، میں داڑھ نکال دوں گا"...
میں نے "جی جی، بالکل ڈاکٹر صاحب، ضرور ضرور" کہتے ہوے کلینک سے باہر دوڑ لگا دی..
قسمت کا چکر دیکھئے کہ اگلے ہفتے میں پھر اسی مشینی کرسی نما بیڈ پر منہ کھولے لیٹا ہوا تھا اور ڈاکٹر صاحب زنبور کی شکل کے اوزار سے میری عقل داڑھ نکال رہے تھے..
داڑھ نکلوا کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ عقل داڑھ کا عقل سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ بس ڈینٹسٹ کی روزی روٹی کیلئے نکلتی یے۔۔😉

(عین حیدر)

عزیزدوستو!گھر کے تمام افراد کی ضروریات مختلف ھوتی ہیں لیکن بزرگوں اور بچوں کا خیال ،سہارا ، حفاظت اور سہولت سب سے اہم او...
29/06/2025

عزیزدوستو!
گھر کے تمام افراد کی ضروریات مختلف ھوتی ہیں لیکن بزرگوں اور بچوں کا خیال ،سہارا ، حفاظت اور سہولت سب سے اہم اور ضروری ھوتی ھے۔خاص طور پر واش روم جیسی جگہ ،جہاں پر ذرا سی بے احتیاطی بڑی مشکل کا باعث بن سکتی ھےاس لئے نہانے کے دوران ان کی آسانی اور سلامتی کو یقینی بنانا ہماری ذمہ داری ھوتی ھے اس لئے بڑی آسانی کے لئے چھوٹا قدم اٹھا لینا چاہیئے۔
اکثر سننے میں آتا ھے کہ نہاتے ھوئے کسی بزرگ کا پاوں پھسلا اور گر کر ہڈی ٹوٹ گئی۔ یا کرسی ہی سلپ ھو گئ۔اس لئے بہتر ھے کہ پلاسٹک کی کرسی کے بجائے واش روم میں ماربل یا سیمنٹ کا ایک سٹول بنوا لیا جائے جو مضبوطی سے زمین کے ساتھ جڑا رہے اور ہلے بھی نہ۔
نہ بہت اونچا ھو اور نہ بہت نیچا اور اس کے کنارے بھی سخت اور کھردرے نہ ھوں بلکہ گول اور ہموار ھوں۔ایسا پکا بنا ہوا سٹول بزرگوں اور بچوں دونوں کے لئے ہی محفوظ اور مددگار ھوگا۔۔شاور کے نیچے بنایا جائے تاکہ بزرگ آسانی سے بیٹھ کر نہا سکیں۔واش روم میں اینٹی سلپ میٹس بھی بچھائے جائیں تاکہ گرنے کے امکانات کم ھو جائیں۔شاور ایریا اور کموڈ کے پاس اسٹیل کے راڈز/ہینڈل لگوانے سے انہیں اٹھنے بیٹھنے اور توازن قائم رکھنے میں آسانی ھو گی۔ ۔

*بزرگوں اور بچوں کو تاکید کی جائے کہ واش روم کا دروازہ مکمل بند یا لاک نہ کریں۔
*انہیں آرام سے نہانے دیا جائے اور جلدی نہ کی جائے ورنہ جلد بازی میں چوٹ لگنے کا خطرہ ھوتا ھے۔
*ان کے واش روم کا خیال رکھنا چاہیئے کہ وہ گیلا نہ ھو اگر گیلا ھو تو وائپر سے خشک کر دیا جائے تاکہ کوئی اور فرد نہ پھسل جائے۔
نہانا روزمرہ کی ضرورت ھے بس تھوڑی سی سمجھداری ہمدردی اور پلاننگ سے آپ اسے بزرگوں بچوں اور اپنے لئے بھی محفوظ عمل بنا سکتے ہیں ۔۔۔۔اپنے لئے۔۔۔اس لئے کہ آپ نے بھی تو بوڑھا ھونا ھے۔🙂
*مکہ کے ایک ہوٹل کے واش روم میں ماربل کا سٹول دیکھا تو دل کو بھا گیاتھا کہ بزرگوں کے لئے بہترین چیز ھے۔
جو لوگ نیا گھر بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں یا بنا رہے ہیں وہ ہر واش روم میں ماربل کا سٹول بنوا لیں اور پلاسٹک کی کرسیوں اور سٹولز سے جان چھڑا لیں۔
خجستہ ظفر

چاول کی پلیٹ یا چینی کا مرتبان .؟  ایک میٹھی غلط فہمی ..!  ہمارے ہاں چاول کی پلیٹ کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ شادی ...
18/06/2025

چاول کی پلیٹ یا چینی کا مرتبان .؟
ایک میٹھی غلط فہمی ..!

ہمارے ہاں چاول کی پلیٹ کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ شادی ہو، قل خوانی ہو، یا سادہ سی دعوت، چاول نہ ہوں تو دل اداس رہتا ہے۔

سفید، چمکتے دمکتے چاول دیکھ کر ہر پاکستانی کہتا ہے: "یار، ڈبل پلیٹ لگاؤ، بہت بھوک لگی ہے!" مگر ذرا اسی پلیٹ کو ماہر غذائیات کی نظر سے دیکھیں۔ وہ نہ چاول دیکھتا ہے، نہ پلیٹ — اس کے لیے تو یہ چینی کا مرتبان ہے، جو جسم میں جا کر گلوکوز یعنی شوگر کا دھماکا کرتی ہے۔

جب سادہ دل پاکستانی چاول کھاتا ہے،
تو کہتا ہے: "واہ، کیا بریانی ہے، ذرا رائتہ لاؤ!" لیکن ماہر غذائیات کا دماغ اس وقت کیلکولیٹر بن جاتا ہے۔ وہ سوچتا ہے: "ایک پلیٹ چاول؟ یعنی 45-50 گرام نشاستہ، جو تقریباً 10-12 چمچ چینی کے برابر ہے!" اب سوچیں، اگر کوئی کہے کہ یہ پلیٹ چاول نہیں، چینی کو مرتبان ہے، تو آپ کیا کہیں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ چاول جسم میں جا کر آہستہ آہستہ گلوکوز بنتا ہیں، بالکل چینی کی طرح۔

عام آدمی کہتا ہے: "ارے، چینی تو چینی ہے،
چاول تو نعمت ہے! اس میں چکن، آلو، مصالحہ،
سب کچھ ہوتا ہے!" یہ بات بھی سچ ہے، مگر یہاں معاملہ زبان اور مفہوم کا ہے۔ سائنسدان جب کہتا ہے کہ "کاربوہائیڈریٹ = شکر"، تو وہ مالیکیول کی بات کرتا ہے۔ عام آدمی پلیٹ دیکھتا ہے، سائنسدان مائیکروسکوپ۔ دونوں اپنی جگہ درست ہیں، بس زاویہ مختلف ہے۔

چاول، آلو، روٹی، پاستہ —
یہ سب کاربوہائیڈریٹس سے بھرپور ہیں اور
جسم میں جا کر شکر بنتے ہیں۔ فرق بس اتنا ہے کہ چینی راکٹ کی طرح شوگر لیول بڑھاتی ہے، جبکہ چاول صبر سے کام لیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ چاول دشمن ہے، لیکن اگر ہر روز عبداللہ کی طرح ڈبل پلیٹ بریانی، پیسی، اور میٹھا کھائیں تو جسم کہتا ہے: "بھائی، ذرا رحم کر!" کیونکہ یہ توانائی چربی بن کر پیٹ پر جمع ہوتی ہے۔

اللہ ، آپ کو آسانیاں عطا فرمائے
چاول کھائیں، ضرور کھائیں، مگر یہ سمجھ کر
کہ یہ "ذائقے میں چھپی شکر" ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ایک پلیٹ پکے چاول میں 45 گرام نشاستہ ہوتا ہے، جو 10-12 چمچ چینی جتنا اثر دیتا ہے۔

اب فیصلہ آپ کا ہے بارہ چمچ چینی
یا چاول کی ایک پلیٹ؟ دل اور دماغ دونوں کا خیال رکھیں تاکہ دل بھی خوش رہے، شوگر بھی نہ بڑھے، اور نہ جسم میں شوگر اور انسولین کا جھگڑا ہو.
Copied

پیشے خدمت ہے پینسل تھیراپیاداس ہیں…؟دل بوجھل سا لگ رہا ہے…؟"پینسل تھیراپی" –ایک سادہ، مزے دار اور مؤثر طریقہ آزمائیں .!آ...
18/06/2025

پیشے خدمت ہے پینسل تھیراپی

اداس ہیں…؟

دل بوجھل سا لگ رہا ہے…؟

"پینسل تھیراپی" –
ایک سادہ، مزے دار اور مؤثر طریقہ آزمائیں .!
آئیے ایک چھوٹا سا دلچسپ تجربہ کرتے ہیں، جسے ماہرینِ نے کئی بار آزمایا اور فائدہ مند قرار دیا ہے:

جی ہاں، جب ہم غم، اداسی، ذہنی دباؤ،
اسٹریس ، ڈپریشن یا بے چینی محسوس کرتے ہیں
تو ہمارے چہرے کے مخصوص عضلات، جنہیں "زائگومیٹکس میجر" کہا جاتا ہے، سست پڑ جاتے ہیں۔ یہ وہی پٹھے ہیں جو مسکراہٹ کے وقت
حرکت کرتے ہیں۔

تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اگر ہم ان عضلات کو "مصنوعی طور پر" حرکت دیں — یعنی چہرے پر مسکراہٹ پیدا کریں — تو دماغ دھوکہ کھا کر سمجھتا ہے کہ ہم خوش ہیں، اور نتیجے میں وہ خوشی والے ہارمون خارج کرتا ہے جیسے:

• اینڈورفنز – جو قدرتی درد کم کرنے والے ہیں
• ڈوپامین – جو موڈ خوشگوار بناتا ہے
• سیروٹونن – جو سکون اور ذہنی توازن لاتا ہے

اس کا آسان ترین طریقہ ہے: "پینسل تھیراپی"

بس ایک کچی پینسل یا قلم یا مسواک دانتوں کے درمیان رکھیں، یوں کہ جیسے آپ مصنوعی مسکراہٹ دے رہے ہوں۔

نہ اسے چبائیں، نہ دباؤ ڈالیں، بس آگے والے دانتوں میں آہستہ سے دبا کر رکھیں ۔ صرف ایک منٹ میں دماغ خوشی کے اشارے بھیجنا شروع کر دیتا ہے، اور آپ حیران رہ جائیں گے کہ کیسا مثبت اثر ہوتا ہے۔

یہ تھیراپی کن کے لیے مفید ہے؟

• وہ بچے جو ضدی، چپ یا غمگین رہتے ہیں
• وہ نوجوان جو پڑھائی، امتحانات یا ناکامیوں
سے ذہنی دباؤ میں رہتے ہیں

• وہ بزرگ جو ہر وقت سوچوں میں گم رہتے ہیں

• وہ دوست، ساتھی یا عزیز جو
کسی صدمے یا ذہنی تھکن میں مبتلا ہوں
اسے آزمائیں، ضرور آزمائیں۔ نہ کوئی دوا ، نہ خرچ ، صرف ایک پینسل یا مسواک جیسی لکڑی کی اسٹک اور ایک منٹ چاہیے۔

اللہ ، آپ کو آسانیاں عطا فرمائے
اس پیغام کو کسی اداس دل .تک پہنچائیں
Copied

سات سال پہلے ڈاکٹروں نے گائے ٹینیبام کو بتایا کہ وہ اسٹیج 4 کینسر کا مریض ہے اور اس کے پاس جینے کے لیے صرف چند ہفتے باقی...
30/05/2025

سات سال پہلے ڈاکٹروں نے گائے ٹینیبام کو بتایا کہ وہ اسٹیج 4 کینسر کا مریض ہے اور اس کے پاس جینے کے لیے صرف چند ہفتے باقی ہیں۔ لیکن آج وہ زندہ ہے اور پہلے سے کہیں زیادہ صحت مند ہے، بغیر کیموتھراپی، ریڈی ایشن یا لاکھوں ڈالر کے مہنگے علاج کے۔ گائے نے روایتی علاج کے بجائے قدرتی طریقوں کو اپنایا، اپنی خوراک، طرزِ زندگی اور ذہنی حالت کو بہتر بنایا۔ اس نے دکھایا کہ مضبوط ارادہ، مثبت سوچ اور صحت مند عادات کیسے معجزہ کر سکتی ہیں۔ اس کی کہانی جدید میڈیکل سائنس کے لیے ایک حیرت انگیز مثال بن چکی ہے۔
گائے ٹینیبام کی زندگی معمول کے مطابق گزر رہی تھی جب اچانک صحت میں بگاڑ آنا شروع ہوا۔ وہ مسلسل تھکن، وزن میں کمی اور دیگر علامات محسوس کر رہا تھا، لیکن ابتدائی طور پر ان کی اہمیت نہ دی گئی۔ آخرکار، اس نے ڈاکٹر سے رجوع کیا اور کئی ٹیسٹوں کے بعد اسے بتایا گیا کہ وہ اسٹیج 4 کینسر میں مبتلا ہے۔ یہ خبر کسی بھی شخص کے لیے دل دہلا دینے والی ہو سکتی ہے، لیکن گائے کے لیے یہ ایک زندگی کو بدل دینے والا لمحہ تھا۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ اس کے پاس صرف چند ہفتے باقی ہیں، اور وہ زیادہ سے زیادہ اپنی زندگی کے آخری دن سکون سے گزارنے کی تیاری کرے۔
‏جب گائے کو بتایا گیا کہ کیموتھراپی اور ریڈی ایشن ہی واحد راستہ ہے، تو وہ الجھن میں پڑ گیا۔ ان علاجوں کے مضر اثرات، مہنگائی اور کم کامیابی کی شرح نے اسے متبادل راستوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا۔ اس نے ڈاکٹروں کا تجویز کردہ علاج لینے سے انکار کر دیا، جو ایک غیر معمولی اور خطرناک فیصلہ سمجھا جا رہا تھا۔ لیکن گائے نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی زندگی کے باقی دن خود کے مطابق گزارے گا، چاہے وہ کم ہوں یا زیادہ۔ اس کا ماننا تھا کہ اگر جسم کو قدرتی طریقے سے مضبوط بنایا جائے، تو شفا ممکن ہے۔
گائے نے اپنے مرض کو سمجھنے کے لیے گہرائی سے تحقیق شروع کی۔ اس نے مختلف متبادل طریقوں، جیسے غذائی علاج، ہربل میڈیسن، اور روحانی سکون پر مبنی نظاموں کا مطالعہ کیا۔ وہ مختلف ماہرین سے ملا، کتابیں پڑھیں، اور انٹرنیٹ پر کامیاب کہانیاں تلاش کیں جن میں لوگ بغیر کیموتھراپی صحتیاب ہوئے تھے۔ اس نے محسوس کیا کہ جسمانی بیماری کا تعلق ذہنی، جذباتی اور روحانی پہلوؤں سے بھی ہوتا ہے۔ گائے نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے جسم کو خود شفا دینے کا موقع دے گا، اور اس کے لیے وہ قدرتی اصولوں کو اپنائے گا۔
گائے نے اپنی خوراک کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا۔ اس نے پروسیسڈ فوڈ، چینی، گوشت اور دودھ سے پرہیز کیا۔ اس کی جگہ اس نے سبز پتوں والی سبزیاں، پھل، گری دار میوے، بیج اور جڑی بوٹیاں استعمال کرنا شروع کیں۔ وہ روزانہ تازہ جوس پیتا، خاص طور پر گاجر اور چقندر کا، جو کہ کینسر مخالف سمجھا جاتا ہے۔ اس نے اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور غذاؤں کو ترجیح دی اور پانی کی مقدار میں اضافہ کیا۔ گائے کا ماننا تھا کہ اگر جسم کو خالص ایندھن دیا جائے تو وہ خود کو ٹھیک کر سکتا ہے۔
‏خوراک کے ساتھ ساتھ گائے نے اپنی طرزِ زندگی میں بھی بنیادی تبدیلیاں کیں۔ وہ روزانہ ورزش کرتا، تازہ ہوا میں وقت گزارتا، اور نیند کا خاص خیال رکھتا۔ اس نے یوگا، سانس کی مشقوں اور مراقبہ کو اپنی روزمرہ کی زندگی کا حصہ بنا لیا، تاکہ ذہنی دباؤ سے نجات حاصل ہو۔ اس نے سکرین ٹائم کم کیا اور فطرت کے قریب وقت گزارنا شروع کیا۔ اس طرزِ زندگی نے نہ صرف اس کے جسم کو بہتر کیا بلکہ اس کے دماغ کو بھی سکون دیا۔ گائے کا ماننا تھا کہ پرسکون ذہن شفا کی بنیاد ہے۔
‏گائے نے جانا کہ کینسر سے لڑائی صرف جسمانی نہیں بلکہ ذہنی بھی ہے۔ اس نے اپنی سوچ کو مثبت رکھا اور موت کے خوف سے نکل آیا۔ وہ ہر دن کو ایک نعمت سمجھ کر جیتا، اور ہر لمحے کا شکر ادا کرتا۔ اس نے اپنے اردگرد منفی لوگوں سے فاصلہ اختیار کیا اور صرف ایسے لوگوں سے رابطہ رکھا جو اسے حوصلہ دیتے تھے۔ گائے نے اپنی زندگی کو ایک نئی سمت دی، جہاں خوف نہیں بلکہ امید نے راج کیا۔ اس کی یہ ذہنی طاقت اس کی بحالی میں ایک بہت بڑا کردار ادا کر رہی تھی۔
‏گائے نے سادہ زندگی کو اپنایا، جو آج کی مصروف دنیا میں ایک نایاب چیز ہے۔ اس نے غیر ضروری خواہشات، سامان اور مصروفیات سے نجات حاصل کی۔ سادگی نے اس کے جسم اور دماغ دونوں پر مثبت اثر ڈالا۔ وہ خود کھانا تیار کرتا، باغبانی کرتا اور روزمرہ کاموں میں خوشی تلاش کرتا۔ گائے کا کہنا تھا کہ جب انسان سادگی اختیار کرتا ہے تو وہ اپنے اصل نفس سے جڑتا ہے، جو شفا کا اہم ذریعہ ہے۔ یہ سادہ زندگی اس کے لیے ایک ذہنی اور روحانی سکون کا ذریعہ بن گئی۔
گائے کی صحت میں بہتری نے ڈاکٹروں اور سائنسی دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔ وہ مریض جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ چند ہفتوں میں مر جائے گا، وہ سات سال بعد نہ صرف زندہ بلکہ صحت مند تھا۔ جب اس کی رپورٹس دوبارہ دیکھی گئیں تو حیرت انگیز بہتری نظر آئی۔ کئی ماہرین نے اسے معجزہ قرار دیا، لیکن گائے نے اسے فطرت کی طاقت کہا۔ اگرچہ سائنسی دنیا مکمل طور پر اس کے طریقوں کو تسلیم نہیں کرتی، مگر اس کی مثال کو نظرانداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔
گائے کی کہانی اب دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کے لیے امید کا ذریعہ بن چکی ہے۔ وہ اپنی داستان مختلف پلیٹ فارمز پر شیئر کرتا ہے تاکہ دوسرے بھی ہمت نہ ہاریں۔ اس نے اپنے تجربات کو کتابوں اور لیکچرز کے ذریعے عام کیا۔ وہ کہتا ہے کہ ہر انسان کے اندر شفا کی طاقت موجود ہے، بس اسے جگانے کی ضرورت ہے۔ گائے لوگوں کو سکھاتا ہے کہ وہ اپنی صحت کے مالک خود بنیں، اور صرف ڈاکٹرز پر انحصار نہ کریں۔ اس کا مشن ہے کہ وہ لوگوں کو خود اختیار بننے میں مدد دے۔
‏گائے ٹینیبام کی زندگی ایک ثبوت ہے کہ امید، علم، ارادہ اور قدرتی طریقے مل کر معجزے کر سکتے ہیں۔ اس نے دکھایا کہ بیماری کتنی بھی سنگین کیوں نہ ہو، اگر انسان ہار نہ مانے تو کچھ بھی ممکن ہے۔ اس کی کہانی صرف کینسر سے بچاؤ کی نہیں، بلکہ ایک زندگی کے فلسفے کی بھی ہے۔ گائے ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ صحت کا اصل راز سادہ زندگی، خالص خوراک، مثبت سوچ اور فطرت کے قریب رہنے میں ہے۔ اس کا پیغام ہے: "اپنے جسم پر بھروسا کریں، کیونکہ اس میں شفا کی طاقت ہے۔"
Copied

لہسن کے حیرت انگیز طبی فوائد  سائنسی تحقیق کی روشنی میںتحقیقات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ لہسن انسان کی صحت کے لیے بے حد فائدہ...
13/05/2025

لہسن کے حیرت انگیز طبی فوائد سائنسی تحقیق کی روشنی میں

تحقیقات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ لہسن انسان کی صحت کے لیے بے حد فائدہ مند ہے، اور یہ کئی خطرناک بیماریوں سے بچاؤ میں اہم کردار ادا کرتا ہے

1. کینسر سے تحفظ
لہسن معدے اور آنتوں کے کینسر سے خاص طور پر تحفظ دیتا ہے۔ اس میں 30 سے زائد ایسی قدرتی مرکبات پائے جاتے ہیں جو کینسر پیدا کرنے والی خلیات کو غیر فعال کرنے اور مہلک رسولیوں کی رفتار کو کم کرنے میں مددگار ہوتے ہیں

2. بڑھاپے کی علامات کم کرتا ہے
ماہرین کے مطابق لہسن جسم میں موجود نقصان دہ مادوں کو ختم کرتا ہے اور خلیات کے آکسیڈیشن کو روکتا ہے، جس سے انسان کی مجموعی صحت بہتر ہوتی ہے اور بڑھاپا دیر سے آتا ہے

3. کولیسٹرول کم کرتا ہے
لہسن جگر میں کولیسٹرول کی مقدار کو کم کرتا ہے اور اسے جسم سے خارج کرنے میں مدد دیتا ہے۔ سائنسی تجربات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ روزانہ صرف 50 گرام لہسن کا رس خوراک میں شامل کرنے سے کولیسٹرول کی سطح 7 فیصد تک کم ہو سکتی ہے، چاہے غذا میں چکنائی زیادہ ہی کیوں نہ ہو

4. دل کی صحت کے لیے مفید
لہسن دل کی دھڑکن کو منظم کرتا ہے، جو دل کی بے ترتیبی کو روکنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے خاص طور پر فائدہ مند ہے جو دل کی دھڑکن میں بےقاعدگی کا شکار ہوتے ہیں۔

5. خون پتلا کرتا ہے
لہسن میں "ایجوئین" نامی ایک خاص مادہ پایا جاتا ہے جو خون کو پتلا کرنے میں اسپرین کے برابر مؤثر ہے۔ یہ خون کے جمنے کو روکتا ہے، فشارِ خون (بلڈ پریشر) کو کم کرتا ہے، اور دل یا دماغ کی رگوں میں رکاوٹ بننے سے بچاتا ہے

6. جوڑوں کے درد اور سوزش میں مفید:
لہسن میں سلفر کے مرکبات موجود ہوتے ہیں جو جوڑوں کے درد اور سوجن میں آرام دیتے ہیں

7. قدرتی اینٹی بایوٹک
لہسن وائرس، بیکٹیریا اور فنگس کے خلاف قدرتی طور پر مؤثر ہے۔ یہ تقریباً 70 اقسام کے جراثیم کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

8. نزلہ زکام اور فلو سے بچاؤ
تحقیقات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ لہسن نزلہ زکام اور فلو جیسے وائرس سے حفاظت فراہم کرتا ہے۔ یہ خواتین میں ہونے والی جراثیمی یا فنگل انفیکشن میں بھی مؤثر ہے، اور نکوٹین سے ہونے والی زہریلے اثرات کو کم کرتا ہے

9. دمہ اور سانس کی بیماریوں میں ارام
لہسن سینے کی جکڑن اور سانس کی بندش کو کم کرتا ہے، خاص طور پر دمہ کے مریضوں کے لیے مفید ہے

10. ہاضمے میں مددگار:
یہ بدہضمی، پیٹ میں کیڑے اور گیس جیسے مسائل میں فائدہ پہنچاتا ہے، اسہال کو کم کرتا ہے، اور آنتوں کی صفائی میں معاون ہے۔

11. پیشاب آور:
لہسن جسم سے فاسد مادوں اور فالتو پانی کے اخراج میں مدد دیتا ہے۔

استعمالات اور موجودہ تحقیق

آج کل میڈیکل انڈسٹری لہسن سے کئی قسم کی دوائیں بناتی ہے، جو جراثیم کش ہوتی ہیں، سوجن کو کم کرتی ہیں، اور فنگل انفیکشن سے بچاتی ہیں۔

06/05/2025

مٹی، چاک، کوئلہ، سیمنٹ، کچہ، یا چاول جیسے غیر خوراکی اشیاء کھانے کی خواہش کو ہومیوپیتھک میڈیکل اصطلاح میں "Pica" کہا جاتا ہے۔ یہ علامت اکثر بچوں یا حاملہ خواتین میں دیکھی جاتی ہے اور اس کی بنیادی وجہ غذائی کمی (جیسے آئرن یا کیلشیم کی کمی) یا نفسیاتی/جذباتی عوامل ہو سکتے ہیں۔ ذیل میں الگ الگ چیزوں کے لیے موزوں ہومیوپیتھک دوائیں بتائی جا رہی ہیں، جو علامات اور مریض کی عمومی حالت کے مطابق استعمال کی جانی چاہئیں۔ تاہم، ہر دوا کی مقدار اور استعمال سے پہلے ماہر ہومیوپیتھ سے مشورہ لازمی ہے۔

1. مٹی کھانے کی خواہش
دوائیں:
Calcarea Carbonica: اگر بچہ کمزور، پسینہ بہانے والا، اور سردی سے جلد متاثر ہونے والا ہو، اور مٹی کھانے کی خواہش ہو۔
Silicea: اگر مٹی کھانے کی خواہش کے ساتھ ہاتھوں یا پاؤں میں کمزوری، یا نازک ناخن/بال ہوں۔
Alumina: اگر مٹی کھانے کی خواہش شدید ہو، خشک جلد، قبض، یا ذہنی سست روی ہو۔
2. چاک کھانے کی خواہش
دوائیں:
Calcarea Phosphorica: اگر چاک کھانے کی خواہش ہڈیوں کی کمزوری، بڑھوتری کے مسائل، یا دانتوں کی تکلیف کے ساتھ ہو۔
Natrum Muriaticum: اگر چاک کھانے کی خواہش کے ساتھ اداسی، سر درد، یا نمک کی زیادہ خواہش ہو۔
Magnesia Carbonica: اگر چاک کھانے کی خواہش کے ساتھ پیٹ میں درد یا بدہضمی ہو۔
3. کوئلہ کھانے کی خواہش
دوائیں:
Carbo Vegetabilis: اگر کوئلہ کھانے کی خواہش کے ساتھ ہاضمے کی کمزوری، گیس، یا کمزوری کا احساس ہو۔
Graphites: اگر کوئلہ کھانے کی خواہش جلد کے مسائل (جیسے خارش یا چکنائی) کے ساتھ ہو۔
Nux Vomica: اگر کوئلہ کھانے کی خواہش کے ساتھ غصہ، چڑچڑاپن، یا پیٹ کے مسائل ہوں۔
4. سیمنٹ کھانے کی خواہش
دوائیں:
Calcarea Carbonica: اگر سیمنٹ کھانے کی خواہش کے ساتھ موٹاپا، پسینہ، یا سردی کا احساس ہو۔
Silicea: اگر سیمنٹ کھانے کی خواہش کے ساتھ کمزوری، پسینہ، یا انفیکشن کی تاریخ ہو۔
Phosphorus: اگر سیمنٹ کھانے کی خواہش کے ساتھ پیاس زیادہ ہو، یا بچہ حساس اور کمزور ہو۔
5. کچہ (خون یا غیر فطری چیزیں) کھانے کی خواہش
دوائیں:
Crocus Sativus: اگر کچہ یا خون کھانے کی خواہش کے ساتھ موڈ میں اتار چڑھاؤ یا عجیب رویے ہوں۔
Ferrum Metallicum: اگر کچہ کھانے کی خواہش کے ساتھ خون کی کمی، کمزوری، یا چہرے کا پیلا پن ہو۔
Nitric Acid: اگر کچہ کھانے کی خواہش کے ساتھ زخم، جلن، یا بدبو دار قبض ہو۔
6. کچے چاول کھانے کی خواہش
دوائیں:
Ipecacuanha: اگر کچے چاول کھانے کی خواہش کے ساتھ متلی، قے، یا زبان پر سفید پوشیدگی ہو۔
Nux Vomica: اگر کچے چاول کھانے کی خواہش کے ساتھ پیٹ میں درد، قبض، یا چڑچڑاپن ہو۔
China Officinalis: اگر کچے چاول کھانے کی خواہش کے ساتھ کمزوری، پسینہ، یا ہاضمے کی کمزوری ہو۔
عام ہدایات
خوراک: عام طور پر 30C یا 200C پوٹینسی میں 4-5 گولیاں دن میں 2-3 بار دی جا سکتی ہیں، لیکن شدت کے مطابق ڈاکٹر کی ہدایت پر عمل کریں۔
احتیاط:
دوا کھانے سے 30 منٹ پہلے/بعد کھانا، کافی، یا تیز بو والی چیزیں نہ استعمال کریں۔
اگر علامات 3-4 دن میں بہتر نہ ہوں، یا بچے کی حالت خراب ہو، فوراً ماہر سے رجوع کریں۔
بچوں کے لیے مقدار عمر اور وزن کے مطابق ہونی چاہئے، لہٰذا خود سے نہ دیں۔
اسباب کی جانچ: Pica کے پیچھے غذائی کمی (جیسے آئرن، کیلشیم) یا ذہنی/جذباتی مسائل ہو سکتے ہیں۔ خون کی جانچ اور ماہر سے مشورہ لازمی ہے۔۔
دوائیں کسی ماہر ہومیوپیتھک کی نگرانی میں استعمال کیجیے

Address


Opening Hours

Monday 20:00 - 22:00
Tuesday 20:00 - 22:00
Wednesday 20:00 - 22:00
Thursday 20:00 - 22:00
Friday 20:00 - 17:00

Telephone

+923310242426

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dr. Seema Saeed posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Dr. Seema Saeed:

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Opening Hours
  • Alerts
  • Contact The Practice
  • Claim ownership or report listing
  • Want your practice to be the top-listed Clinic?

Share