Dr. Seema Saeed

Dr. Seema Saeed Homeopath. Hijama Master. Acupuncturist. Al-Karim Health Care wishes to provide a healthy future by correct classical homeopathic treatment.

Al-Karim Health Care - Physician Online

Our team comprises of Doctors who are keen to help the sick, and their only mission is to bring about permanent relief and restore the sick to health without further complicating the case.We assure to alleviate your sufferings in the best possible manner provided your given correct and honest history. As the Technology and Life Style has changed today, Quality Care can be offered in the comfort of your Home. Clinic Overview
Site Provides, Herbal & Homoepathic Treatment | Hair Care | Skin Care | Body Care | Men and Women About Health | Homoeopathic Philosophy|and Herbs
Psychological or mental disorder Depression,Epilepsy Hydrophobia, Hysteria ,Self-Abuse,
Headache, migraine Meningitis,

Influenza, nasal polyps nose block
Lungs disorders ..Asthma, Bronchitis, Whooping Cough, , , , Cough,

stomach disorder.. mouth ulcers .Acidity , Colic, Constipation, Dyspepsia, , Fever, Gastric Ulcer, Diarrhea, Dysentery
Joints pain Gout, Arthritis sciatica cramps
Anemia, Angina
Lever disorders .. Jaundice Diabetes
Female problems Leucorrhea, menstrual cycle disorder, sterility Impotence,
UTI and kidneys stone .
,
Sleep disorder & Dream, Nightmare insomnia
Skin problems : Ulseration, ,Irritation, Itching Wounds, ,carbuncle, Chicken Pox ,burns Eczema , heel Cracks,Dandruff, Nettle-Rash, Haemorrhoids, hernia,,Mumps
Warts, Worms ... specialy Homoepathic Treatment for Hair fall balness, hair growth

کدو کے بیج کے کچھ فوائد: یہ ایک ایسا خزانہ جنہیں اکثر لوگ بے کار سمجھ کر پھینک دیتے ہیں، حالانکہ یہی بیج صحت کے کئی حیرت...
03/09/2025

کدو کے بیج کے کچھ فوائد:

یہ ایک ایسا خزانہ جنہیں اکثر لوگ بے کار سمجھ کر
پھینک دیتے ہیں، حالانکہ یہی بیج صحت کے کئی حیرت انگیز راز چھپائے ہوئے ہیں۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ ان چھوٹے سے بیجوں میں قدرت نے اومیگا 3 اور 6 فیٹی ایسڈز، زنک، میگنیشیم، پروٹین، آئرن، فائبر اور اینٹی آکسیڈنٹس جیسے بیش قیمت اجزاء بھر دیے ہیں؟
آئیے جانتے ہیں کہ یہ کیسے آپ کی زندگی بدل سکتے ہیں:

---

🔸 ہارمونل توازن کی بحالی
خواتین کو اکثر ہارمونز کی گڑبڑ کا سامنا ہوتا ہے، چاہے وہ حیض کی بے ترتیبی ہو یا مينوپاز کے مسائل۔ کدو کے بیج میں موجود فائٹوایسٹروجنز ہارمونز کو قدرتی طور پر بیلنس کرنے میں مدد دیتے ہیں۔

🔸 شوگر لیول کو کنٹرول کریں
کدو کے بیج میں موجود فائبر اور پروٹین بلڈ شوگر کو تیزی سے بڑھنے سے روکتے ہیں۔ جو لوگ ذیابیطس یا پری-ڈایابیٹیز سے دوچار ہیں، ان کے لیے یہ بیج نعمت سے کم نہیں۔

🔸 دل کے لیے تحفظ
ان میں پائے جانے والے اومیگا 3 اور 6 فیٹی ایسڈز، خون کی روانی کو بہتر کرتے ہیں، شریانوں کو نرم رکھتے ہیں اور دل کے دورے کے خطرات کو کم کرتے ہیں۔

🔸 قوت مدافعت میں اضافہ
کدو کے بیج زنک سے بھرپور ہوتے ہیں، جو جسم کو انفیکشن، نزلہ زکام اور موسمی بیماریوں سے لڑنے کی طاقت دیتے ہیں۔

🔸 طاقت اور توانائی کا خزانہ
صرف ایک مٹھی بیج روزانہ... اور آپ کو ملے گا قدرتی پروٹین، جو جسم کو توانائی دیتا ہے، پٹھوں کی مرمت کرتا ہے اور تھکاوٹ سے بچاتا ہے۔

🔸 ہڈیوں کی مضبوطی
ان میں موجود میگنیشیم اور زنک ہڈیوں کو مضبوط بنانے میں مدد دیتے ہیں، خاص طور پر خواتین میں بڑھتی عمر کے ساتھ ہڈیوں کی کمزوری کو روکنے میں معاون ہیں۔

🔸 دماغی سکون اور بہتر نیند
کدو کے بیجوں میں موجود ٹرپٹوفین دماغ کو سکون دیتا ہے، تناؤ کم کرتا ہے اور پرسکون نیند میں مدد دیتا ہے۔

🔸 خوبصورت اور چمکدار جلد
اینٹی آکسیڈنٹس جیسے وٹامن ای اور کیروٹین جلد سے جھریاں، دھبے اور خشکی دور کر کے نکھار پیدا کرتے ہیں۔

🔸 وزن کم کرنے میں مددگار
ان بیجوں میں فائبر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، جو دیر تک بھوک نہیں لگنے دیتا۔ نتیجہ؟ وزن میں قدرتی کمی۔

🔸 کولیسٹرول کو کم کریں
کدو کے بیجوں میں موجود فائیٹوسٹیرولز خون میں برے کولیسٹرول کو کم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔

🔸 بالوں کی جڑوں تک طاقت
زنک، آئرن اور اینٹی آکسیڈنٹس بالوں کی جڑوں کو مضبوط کرتے ہیں، خشکی کم کرتے ہیں اور بال گرنے سے روکتے ہیں۔

🔸 خون کی کمی کا علاج
آئرن سے بھرپور کدو کے بیج خون کے سرخ خلیات بڑھاتے ہیں، جس سے تھکن، چکر آنا اور کمزوری میں بہتری آتی ہے۔

🔸 زخم جلدی بھرنا
زنک اور وٹامن ای زخموں کے جلد بھرنے میں مدد دیتے ہیں، خاص طور پر جلدی انفیکشن یا چوٹ کے بعد۔

---

💡 استعمال کا صحیح طریقہ:
کدو کے بیجوں کو پیسنے کے بجائے ثابت کھائیں تاکہ ان کا فائبر اور اصل غذائیت محفوظ رہے۔
انہیں ناشتہ میں شامل کریں، دہی پر چھڑکیں، یا شام کے اسنیک کے طور پر مٹھی بھر لے لیں۔

---

قدرت کا دیا ہوا یہ خزانہ نہ صرف آپ کی صحت کو بہتر بناتا ہے، بلکہ آپ کی روزمرہ توانائی، ذہنی سکون اور ظاہری خوبصورتی میں بھی اضافہ کرتا ہے۔
#کاپیڈ

01/09/2025

🌟 Oedema (سوجن و درد) – جانیں مکمل حقیقت 🌟

🔹 Oedema کیا ہے؟
اڈیما جسم میں غیر ضروری پانی جمع ہونے کی وجہ سے ہونے والی سوجن کو کہا جاتا ہے۔ یہ سوجن زیادہ تر پاؤں، ٹخنوں، ہاتھوں اور کبھی چہرے پر بھی ظاہر ہو سکتی ہے۔

🔹 درد کی کیفیت
جب پانی یا فلوئڈ ٹشوز میں جمع ہو جاتا ہے تو دباؤ بڑھنے لگتا ہے جس سے متاثرہ جگہ بھاری، سخت، کھنچاؤ اور کبھی کبھی جلن یا درد جیسی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔

---

⚠️ وجوہات

گردوں کی کمزوری

دل کی بیماریاں (دل کی کمزوری یا ہارٹ فیلیر)

جگر کی بیماری (Liver Cirrhosis)

ہائی بلڈ پریشر / ذیابیطس

دورانِ خون میں رکاوٹ

طویل وقت تک کھڑے رہنا یا زیادہ نمک کا استعمال

---

🩺 اہم علامات

پاؤں یا ہاتھوں میں سوجن

دبانے سے گڑھا پڑ جانا (pitting oedema)

بھاری پن یا چلنے میں مشکل

سانس پھولنا (اگر دل یا پھیپھڑوں کا مسئلہ ہو)

رات کو پیشاب زیادہ آنا

---

🥗 احتیاط و غذا
✅ نمک اور زیادہ پانی کا استعمال محدود کریں
✅ تلی ہوئی اور چکنائی والی اشیاء سے پرہیز کریں
✅ سبز پتوں والی سبزیاں، پھل، دلیہ اور ہلکی غذا استعمال کریں
✅ ٹانگوں کو اونچا رکھ کر آرام کریں
✅ وزن کنٹرول میں رکھیں
✅ ڈاکٹر کی ہدایت کے بغیر دوائیں بند نہ کریں

---

🌿 ہومیوپیتھک علاجدوائیں ڈاکٹر کے
ہومیوپیتھی میں Oedema کے مریض کی مکمل علامات کے مطابق علاج کیا جاتا ہے۔ عام طور پر درج ذیل دوائیں مفید ثابت ہوتی ہیں:

Apis Mellifica → اچانک سوجن، جلن اور چبھن والے درد میں

Arsenicum Album → کمزوری، بے چینی اور رات کو زیادہ تکلیف میں

Digitalis → دل کی کمزوری سے ہونے والی سوجن میں

Helleborus → دماغی یا گردے کی بیماری سے پیدا سوجن میں

---
تمام دعائیں ڈاکٹر کے مشورہ سے استعمال کیجئے ۔

Homeopathic Treatment
Dr Sajid Mehmood
Homeopathic Doctor | Emergency Medical Technician @ Rescue 1122

♦️"لوگ کیا کہیں گے"♦️ایک رات مولانا جلال الدین رومیؒ نے اپنے استاد حضرت شمس الدین تبریزیؒ کو اپنے گھر دعوت دی۔مرشد شمسؒ ...
30/08/2025

♦️"لوگ کیا کہیں گے"♦️
ایک رات مولانا جلال الدین رومیؒ نے اپنے استاد حضرت شمس الدین تبریزیؒ کو اپنے گھر دعوت دی۔

مرشد شمسؒ تشریف لے آئے۔ کھانے کے سب برتن تیار ہو گئے تو شمسؒ نے رومیؒ سے فرمایا: “کیا تم مجھے پینے کے لیے شراب لا سکتے ہو؟”

رومیؒ یہ سن کر حیران رہ گئے: “کیا استاد بھی شراب پیتے ہیں؟”

شمسؒ نے کہا: “ہاں، بالکل۔” رومیؒ نے عرض کیا: “مجھے معاف کیجیے، مجھے اس کا علم نہیں تھا۔”

شمسؒ نے فرمایا: “اب جان گئے ہو، لہٰذا شراب لا دو۔”

رومیؒ بولے: “اس وقت رات گئے کہاں سے لاؤں؟”

شمسؒ نے کہا: “اپنے کسی خادم کو بھیج دو۔”

رومیؒ نے کہا: “میرے نوکروں کے سامنے میری عزت ختم ہو جائے گی۔”

شمسؒ نے کہا: “پھر خود ہی جا کر لے آؤ۔”

رومیؒ پریشان ہوئے: “پورا شہر مجھے جانتا ہے، میں کیسے جا کر شراب خریدوں؟”

شمسؒ نے فرمایا:
“اگر تم واقعی میرے شاگرد ہو تو وہی کرو جو میں کہتا ہوں۔ ورنہ آج نہ میں کھاؤں گا، نہ بات کروں گا، نہ سو سکوں گا۔”

استاد کی محبت اور اطاعت میں رومیؒ نے چادر اوڑھی، بوتل چھپائی اور عیسائیوں کے محلے کی طرف چل دیے۔ جب تک وہ راستے میں تھے، کسی کو شک نہ ہوا۔ لیکن جیسے ہی وہ عیسائی محلے میں داخل ہوئے، لوگ حیران ہوئے اور ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔

سب نے دیکھا کہ رومیؒ شراب خانے میں گئے اور بوتل خرید کر چادر کے نیچے چھپا لی۔ پھر وہ نکلے تو لوگ اور بھی زیادہ ہو گئے اور ان کے پیچھے پیچھے مسجد تک پہنچ گئے۔

مسجد کے دروازے پر ایک شخص نے شور مچا دیا: “اے لوگو! تمہارا امام، شیخ جلال الدین رومیؒ، ابھی عیسائی محلے سے شراب خرید کر آ رہا ہے!” یہ کہہ کر اس نے رومیؒ کی چادر ہٹا دی اور بوتل سب کے سامنے آ گئی۔

ہجوم نے غصے میں آکر رومیؒ کے منہ پر تھوکا، انہیں مارا، یہاں تک کہ ان کی پگڑی بھی گر گئی۔

رومیؒ خاموش رہے، انہوں نے اپنی صفائی پیش نہیں کی۔

لوگ اور بھی یقین کر بیٹھے کہ وہ دھوکہ کھا گئے ہیں۔ انہوں نے رومیؒ کو بری طرح مارا اور کچھ نے تو قتل کرنے کا بھی ارادہ کیا۔

اسی وقت شمس تبریزیؒ کی آواز بلند ہوئی:
“اے بے شرم لوگو! تم نے ایک عالم اور فقیہ پر شراب نوشی کا الزام لگا دیا۔ جان لو کہ اس بوتل میں شراب نہیں بلکہ سرکہ ہے!”

ایک شخص بولا: “میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وہ شراب خانے سے بوتل لائے ہیں۔”

شمسؒ نے بوتل کھولی اور کچھ قطرے لوگوں کے ہاتھ پر ڈالے تاکہ وہ سونگھ سکیں۔ سب حیران رہ گئے کہ واقعی یہ تو سرکہ ہے!

اصل بات یہ تھی کہ شمسؒ پہلے ہی شراب خانے گئے تھے اور دکاندار کو کہہ دیا تھا کہ اگر رومیؒ بوتل لینے آئیں تو انہیں شراب کے بجائے سرکہ دیا جائے۔

اب لوگ اپنے سر پیٹنے لگے اور شرمندگی کے مارے رومیؒ کے قدموں میں گر گئے۔ سب نے معافی مانگی اور ان کے ہاتھ چومے، پھر آہستہ آہستہ منتشر ہو گئے۔

رومیؒ نے شمسؒ سے عرض کیا:
“آج آپ نے مجھے کتنی بڑی آزمائش میں ڈال دیا، یہاں تک کہ میری عزت اور وقار میرے مریدوں کے سامنے خاک میں مل گئی۔ اس سب کا کیا مطلب تھا؟”

شمسؒ نے فرمایا:

“تاکہ تم سمجھ لو کہ لوگوں کی عزت اور شہرت محض ایک فریب ہے۔ کیا تمہیں لگتا ہے کہ ان لوگوں کا احترام ہمیشہ قائم رہتا ہے؟ تم نے خود دیکھا، محض ایک بوتل کے شک پر وہ تمہارے دشمن بن گئے، تم پر تھوکا، مارا، اور قریب تھا کہ جان لے لیتے۔ یہی وہ عزت ہے جس پر تم نازاں تھے، جو ایک پل میں ختم ہو گئی.

آج کے بعد لوگوں کی عزت پر نہ بھروسہ کرنا۔ اصل عزت صرف اللہ کے پاس ہے جو وقت کے ساتھ نہ بدلتی اور نہ مٹتی ہے۔
وہی بہتر جانتا ہے کہ کون واقعی باعزت ہے اور کون جھوٹی عزت کا طلبگار۔ لہٰذا آئندہ اپنی نظر صرف اللہ پر رکھو۔”

سبق:

دنیا کی عزت اور لوگوں کی رائے لمحوں میں" بدل جاتی ہے۔ اصل عزت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہو...!

پبلک سروس میسج ...*انسانی جسم سے خارج ہونے والی بدبو کا علاج*مسلمان کی یہ شان ہی نہیں کہ اُس کے جسم سے کسی بھی طرح کی ای...
29/08/2025

پبلک سروس میسج ...

*انسانی جسم سے خارج ہونے والی بدبو کا علاج*

مسلمان کی یہ شان ہی نہیں کہ اُس کے جسم سے کسی بھی طرح کی ایسی بدبو ہو جو اُسے لوگوں سے دور کرے اور معاشرے میں قابلِ نفرت بنائے.

*منہ کی بدبو کا علاج*
منہ کی مکمل صفائی نہ ہونے کی وجہ سے یہ بدبو پیدا ہوتی ہے، روزانہ ہر نماز کے ساتھ اچھی طرح مسواک کریں.
یا دن میں دو بار صبح اور سوتے وقت برش کریں، اور ہر کھانے کے بعد بُرش کرنا عادت بنا لیں، زبان پر بھی برش کریں یا مسواک سے زبان کے مسام روزانہ کی بنیاد پر صاف کریں، ورنہ بیماریوں کا گھر بن جائیں گے ..
نوٹ:- مصنوعی میٹھا مکمل طور پر ترک کر دیں.

*سانس کی بدبو کا علاج*
یہ بدبو معدے کی خرابی کے باعث پیدا ہوتی ہے، جو بولنے سے دور تک محسوس کی جا سکتی ہے.
اس کے لیے *دار چینی اور پودینے کا قہوہ* استعمال کریں، اس میں میٹھے کی بجائے صرف ایک چمچ لیموں کا خوش زائقہ رس شامل کر لیں. صبح و شام یہ قہوہ استعمال کریں.
معدے کا ایک ٹیسٹ ضرور کرا لیں،
*H pylori*
اور پھر اس کے بعد معالج سے اپنا باقاعدہ علاج کرا لیں...

*جسم سے زہریلی بدبو دار گیس کا اخراج*

کچھ لوگوں میں یہ بیماری سوتے میں ہوتی ہے اور کچھ میں جیتے جاگتے ہوئے بھی. یہ ناصرف شرمندگی اور نفرت کا باعث ہے، بلکہ مسلسل بدبو کا اخراج اس قدر خطرناک ہے کہ دوسرے افراد کے لیے جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے، جیسے بند اے سی روم میں ایسے شخص کے ساتھ سونا انتہائی خطرناک بیماریوں کو دعوت دیتا ہے، اس کے لیے کچھ کھانے پینے کی احتیاطیں ہیں، جیسے *دودھ اور آٹے کی روٹی کا استعمال بہت کم* کر دیں، جلد ہضم ہونے والیے ہلکی اور کم مصالحے والی غذائیں لیں، *گوبھی، آلو، چاول اور بڑا گوشت چھوڑ دیں، بسیار خوری سے پرہیز کریں* رات کا کھانا مغرب تک کھا لیں، توانائی برقرار رکھنے کے لیے فریش جوسز اور فروٹس کا زیادہ استعمال کریں، واک، ورزش اور جسمانی مشقت کے کام اپنے روزمرہ زندگی میں شامل کریں.

*پسینے کی بدبو کا علاج*
پسینے کی بدبو کا علاج نہ کیا جائے، تو بدبو آہستہ آہستہ وجود کا حصہ اور باقاعدہ پہچان و ناگوار شناخت بن جاتی ہے، بَر وقت علاج نہ کرانے کی غفلت سے یہ بدبو وجود کا حصہ بن جاتی ہے اور پھر نہانے سے بدبو بلکہ زیادہ ناگوار حد تک نمایاں ہو جاتی ہے، دُھلے کپڑوں سے بھی بدبو با آسانی نہیں جاتی، ایسی صورت میں انسان اردگرد موجود افراد کے لیے مستقل زہنی ازیت اور ناگواری کا سامان ہو جاتے ہیں.

1- اس کے لیے روزانہ *دو بار صاف ستھرا نہانا* معمول بنائیں.

2- ہر بار نہانے سے پہلے صبح کے وقت میں *پھٹکڑی* لگائیں اور پندرہ سے بیس منٹ بعد نہا لیں اور شام میں بدبو کے مقامات پر *بیکنگ پاؤڈر(سوڈا)* لگا کر پندرہ سے بیس منٹ بعد نہا لیں.

3- نہانے کے بعد کوئی سا بھی اچھا *anti perspirant. سپرے* استعمال کریں.

4- پسینے کی بدبو ہو تو احتیاط کے طور پر لباس بار بار بدلیں، پیسنہ آنے کے بعد گھر کے افراد کے پاس کپڑے بدلے بغیر ہرگز نہ بیٹھیں. نہانے کے بعد اچھے پرفیومز بھی استعمال میں رکھیں.

جسم کے غیر ضروری بالوں کو بالکل بھی نہ بڑھنے دیں.
(نئے جوان ہوتے بچوں کی صفائی کا والدین خاص خیال رکھیں)

5- اگر یہ سب کرنے کے بعد بدبو نہ جائے اپنے معالج سے رابطہ کریں، *botox injections* بھی لگوائے جا سکتے ہیں.

6- تلی ہوئی اشیاء، مصنوعی میٹھا اور فاسٹ فوڈ سے مکمل طور پر ترک کریں.

یہ پوسٹ سب کو سینڈ کریں، تاکہ بہت سارے لوگوں کو شرمندگی اور نفرت کی وجہ سے پیدا ہونے والی دوری سے بچایا جا سکے .

*نوٹ :- مسلسل بدبو کے ساتھ جینے کا عمل انتہائی مہلک بھی ہے اور خوشبو سے الرجی کا باعث بھی. مسلمان کی پہچان صفائی اور خوشبو ہے، مزید یہ کہ اگر غلاظت، بدبو اور گندگی جب جسم و روح میں رچ بس جائے تو ایسے افراد خوشبو سے نفرت یا الرجک ہونے لگتے ہیں، جیسے خوشبو سے چھینکوں کا آنا اور طبیعت میں ناگواری اور چڑچڑاہٹ کا احساس پیدا ہونا.*

اس میسج کو بطور صدقۂ جاریہ سب تک عام کریں.
شکریہ.

نارمل ڈلیوری یا سیزیرین ؟ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی ——- ————نصف شب کا عالم، گہری نیند اور ہم چونک کے اٹھ بیٹھے۔ کیا کہیں گجر بجا...
28/08/2025

نارمل ڈلیوری یا سیزیرین ؟
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
——- ————

نصف شب کا عالم، گہری نیند اور ہم چونک کے اٹھ بیٹھے۔ کیا کہیں گجر بجا تھا یا دور کسی قافلے کے اونٹوں کے گلے میں بندھی گھنٹیوں نے سر جگایا تھا!

افوہ، ہمارے فون کی گھنٹی بج رہی تھی اور ہمیں ہسپتال بلایا گیا تھا۔ لیبر روم میں ایمرجنسی تھی کہ درد ذہ میں مبتلا خاتون کی زچگی کے آخری مرحلے پہ بچے کو اوزار کی مدد سے پیدا کروانے کی کوشش کی گئی تھی اور بوجہ ناکامی ہوئی تھی۔ اب بچے کے دل کی دھڑکن کچھ بے ترتیب تھی سو ہمیں زحمت دی گئی تھی۔

ہم ایسے موقعوں پہ ایسے فوجی کا روپ دھار لیتے ہیں جو محاذ جنگ پہ کھڑا ہو اور کسی بھی کمک کی امید نہ ہو اور موت چند قدم ہی دور کھڑی ہو۔

فون پہ ہی ہدایت کی کہ خاتون کو آپریشن تھیٹر پہنچا دیا جائے، اور خود آندھی و طوفان کی رفتار سے دوڑے۔ معائنہ کر کے دیکھا تو بچے کا سر دو دفعہ اوزار لگنے سے سوج چکا تھا سو فیصلہ کیا کہ سیزیرین کر کے بچہ نکالیں گے۔ گو کہ سیزیرین بھی ایسے مواقع پہ زچہ کے لئے کافی مشکلات کا سبب بنتا ہے لیکن بچے کی جان بچانے کے لئے ضروری ہوا کرتا ہے۔

سیزرین ہوا، نوزائیدہ بچوں کے ڈاکٹر نے بچہ ہمارے ہاتھ سے لیا، آکسیجن دی اور پھر زندگی بخش دینے والی چیخ سنائی دی۔ سب کے تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے اور آپریشن تھیٹر کی فضا میں خوف، پریشانی، سنجیدگی اور ہراس کی لہروں کی جگہ طمانیت نے لے لی۔ زندگی نے موت کو شکست دے دی تھی۔

آپریشن سے فارغ ہو کر باہر آئے تو شوہر پریشانی اور غصے کے جذبات سے بھرا بیٹھا تھا۔ ہم نے سہج سے زچگی کے پورے عمل پہ روشنی ڈالی۔ سو نتیجہ یہ نکلا کہ جب ہم رخصت ہوئے، اس کے لبوں پہ مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔

گھر کو لوٹتے ہوئے یونہی خیال آیا کہ یہ سب سوال جو اس شوہر نے پوچھے، یہ تو ہم سے اکثر پوچھے جاتے ہیں۔ چاہے ہم محفل میں ہوں یا کلینک میں، شادی کی تقریب میں کھلکھلا رہے ہوں یا مرگ میں پرسہ دینے پہنچے ہوں، سفر میں اونگھ رہے ہوں یا دوستوں سے گپ چل رہی ہو، کوئی نہ کوئی سوالیہ نشان بن کے آن کھڑا ہوتا ہے۔

سنو، یہ کیا بات ہوئی کہ زچگی کا درد بھی برداشت کرو اور آخر میں سیزیرین ہو جائے ؟

آخر آج کل اتنے سیزیرین کیوں ہوتے ہیں ، پچھلے زمانوں میں تو ایسا نہیں تھا؟

کتنے سیزیرین صحیح وجہ سے کیے جاتے ہیں اور کتنوں میں ڈنڈی ماری جاتی ہے ؟

ڈاکٹر کے مالی فائدے کا کتنا حصہ ہے ان سیزیرین زچگی میں ؟

زچگی کے درد سے پہلے ہی سیزیرین کیوں ہوتا ہے ؟

ہمیں گائناکالوجسٹ نو ماہ بتاتی رہیں کہ سب ٹھیک ہے، عین وقت پہ سیزرین کا کہہ دیا ؟

کتنے سیزیرین ہونا ممکن ہیں ؟

ہم ان تمام سوالات کے جواب دینے سے پہلے کچھ بنیادی باتیں حمل اور زچگی کے بارے میں بتانا چاہیں گے کہ یہ ہر کسی کی زندگی کا اہم ترین حصہ ہے۔

زچگی ایک پل صراط!
جب عورت موت کی سر حد پہ جا کے کھڑی ہو جاتی ہے اور قدم قدم پہ زندگی کا اپنے ہاتھ سے پھسلتا ہوا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کرتی ہے !

انسانی حمل کی مدت دو سو اسی دن، یا چالیس ہفتے، یا نو ماہ اور سات دن گنی جاتی ہے۔ حمل جب سینتیس ہفتوں کو پہنچ جائے تو بچہ چھوٹا نہیں سمجھا جاتا اسی طرح حمل کی مدت بیالیس ہفتوں سے اوپر نہیں جانی چاہئے۔ اس کا مطلب یہ کہ بچہ لازماً سینتیس سے بیالیس ہفتوں کے درمیان پیدا ہونا چاہئے۔

زچگی شروع ہونے کی علامات میں بچے کی پانی کی تھیلی پھٹنا، ہلکی دردیں شروع ہونا اور خون کے داغ لگنا ہیں۔پہلے بچے کی دفعہ درد زہ کی مدت بارہ گھنٹوں سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے اور دوسرے تیسرے چوتھے بچوں میں یہ مدت کم ہوتی چلی جاتی ہے۔

آپ نے اکثر ڈاکٹروں کے منہ سے سنا ہو گا، ابھی درد اچھے نہیں ہیں۔ اچھی دردوں سے مراد طاقتور درد جن کی مدت پینتالیس سیکنڈ سے ایک منٹ تک ہو، پھر کچھ وقفہ آئے اور پھر اگلی درد شروع ہو۔ دس منٹ میں کل تین سے چار طاقتور درد ہونے چاہیں۔ اگر اس سے زیادہ ہوں تو بچے کے دماغ اور دل کو آکسیجن کی فراہمی متاثر ہوتی ہے۔

ہر درد کے دوران رحم سکڑتا اور بچے کو نیچے کی طرف دھکیلتا ہے تاکہ وہ دنیا میں تشریف لا سکے۔ اس سکڑنے اور دھکیلنے کے عمل میں بچے کو آنول کے ذریعے ماں سے پہنچنے والی آکسیجن کی فراہمی منقطع ہو جاتی ہے۔ لیکن چونکہ یہ وقفہ صرف ایک منٹ تک ہوتا ہے اس لئے جب درد ختم ہوتا ہے تب بچے کو دوبارہ آکسیجن پہنچنا شروع ہو جاتی ہے جب تک اگلی درد نہ آ جائے۔

بچے کو آکسیجن پہنچنے کے مراحل کا حساب بچے کے دل کی دھڑکن کے ریکارڈ سے رکھا جاتا ہے۔یہ عمل کارڈیو ٹوکوگرافی ( Cardiotocography) یا CTG کہلاتا ہے۔ یہ مشین 1969 میں مارکیٹ میں آئی اور اس نے زچگی کی سائنس میں انقلاب برپا کر دیا۔

‏CTG بچے کے دل کی دھڑکن ایک الیکٹروڈ کے ذریعے ریکارڈ کر کے ایک گراف بناتی ہے۔ الیکٹروڈ بیلٹ کے ذریعے زچہ کے پیٹ پہ باندھا جاتا ہے۔گراف کو دیکھ کے نتیجہ اخذ کرنے کی مہارت ہر سپیشلائزیشن کے امتحان کا لازمی جزو ہے۔ زچگی کے عمل کے دوران کبھی بھی اگر CTG کا گراف نارمل حد سے نکل کے بگڑ جائے تو لا محالہ آدھ گھنٹے کی مدت تک بچہ پیدا کروانا لازمی ہے۔ ورنہ بچے کو آکسیجن کی فراہمی منقطع ہونے کی صورت میں دماغی طور پہ ابنارمل بچہ پیدا ہونے کا احتمال ہے۔

رحم سے بچہ اس وقت تک باہر نکل نہیں سکتا جب تک رحم کا منہ دس سینٹی میٹر یعنی چار انچ تک نہ کھل جائے۔ درمیانے سائز کے بچے کے سر کا ایک کنپٹی سے دوسری کنپٹی تک کا سائز ساڑھے نو سینٹی میٹر ہوتا ہے۔ اگر CTG بگڑ چکی ہے اور رحم کا منہ ابھی دس سینٹی میٹر سے کم کھلا ہے تو اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ سیزیرین کر کے بچے کو باہر نکالا جائے۔

نگلینڈ کی شہزادی شارلٹ (1817-1796)، بادشاہ جارج چہارم کی اکلوتی لاڈلی بیٹی، بیلجئم کے ہونے والے بادشاہ کی بیوی، جس نے اکیس سال کی عمر میں بچہ جنم دیتے ہوئے زندگی کی بازی ہار دی۔
شہزادی شارلٹ نے پچاس گھنٹے درد زہ میں گزارے مردہ بچے کو جنم دینے کے بعد رحم سے اس قدر خون کا اخراج (post partum haemorrhage ) ہوا کہ بادشاہت اور دولت کے تمام وسائل موت کا رستہ نہ روک سکے۔

دوسری کہانی کا تعلق برصغیر پاک و ہند سے ہے !
اس میں بھی ایک بادشاہ ہے لیکن ساتھ میں شہزادی کی بجائے ملکہ ہے،محبوب بیوی ! بادشاہ کے چودہ بچوں کی ماں اور ازدواجی زندگی محض انیس برس!

ممتاز محل (1631-1593) چودھویں بچے کی پیدائش میں تیس گھنٹے کی درد زہ برداشت کرنے کے بعد زندگی کی بازی ہار گئی۔ متاز محل کی موت کا سبب بھی زچگی کے بعد خون کا بہنا ( post-partum hemorrhage ) تھا جو قابو میں نہ آسکا۔

شاہ جہاں نے جوگ لے لیا ایک سال بعد جب وہ سامنے آیا تو کمر خمیدہ تھی اور بال سفید! اپنی محبت امر کرنے کا خیال آیا اور تاج محل مجسم ہوا اور وہ خوبصورت عمارت آج بھی اس دیوانگی پہ مسکراتی ہے۔

بادشاہ کو ملکہ سے محبت تو یقیناً تھی لیکن کیا کیجیے کہ مانع حمل ادویات وجود میں نہیں آئیں تھیں۔ ویسے آج جب بے شمار مانع حمل طریقے موجود ہیں، تب بھی بے شمار عورتیں زچگی میں موت کو گلے لگا لیتی ہیں۔ ملائیت کبھی اس بارے میں سوچنے ہی نہیں دیتی، سو ہر موت اللہ کی رضا کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہے۔

ارے، ہم بھی بس یونہی ہیں، موضوع سے فوراً ہی بھٹک جاتے ہیں، برا ہو ہمارے نسائی درد دل کا!

اب آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ زچگی ایک پیچیدہ مرحلہ ہے اور اس میں کہیں بھی کوئی رخنہ آ جائے تو ماں اور بچے کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔کسی بھی اچھے گائناکالوجسٹ کو اس سب سائنس کا علم حاصل کرنا لازم ہے جو obstetrics کہلاتی ہے۔

زمانہ قدیم میں آبسٹیٹرکس دو نظریات پہ مبنی تھی، intervention اور non- intervention۔
زیادہ تر ڈاکٹر دوسرے نظریے پہ یقین رکھتے ہوئے زچگی کے عمل میں اوزار لگانا پسند نہیں کرتے تھے۔ لیکن کچھ ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ سب خواتین میں زچگی آسان نہیں ہوا کرتی سو اوزاروں کا استعمال لازمی ہے۔ شہزادی شارلٹ کی المناک موت کے بعد زچگی میں فورسیپس (Forceps) کا استعمال شروع ہوا۔ فورسیپس چمچ کی طرح کے اوزار ہوتے ہیں جو بچے کے سر کے گرد لگا کر اسے کھینچا جاتا ہے۔

سیزیرین کا آغاز بھی مغربی دنیا میں انیسویں صدی میں ہوا اگر چہ تاریخی طور پہ دعویٰ یہ ہے کہ جولیس سیزر کی ولادت اس طریقے سے ہوئی تھی اسی لئے یہ سیزیرین کہلایا۔ نہیں معلوم سیزر کی والدہ ان کی پیدائش کے بعد بچ گئیں کہ چل بسیں کہ اس زمانے کے جراحوں کے بارے میں ہمارا علم محدود ہے۔

اگر CTG ٹھیک رہے تب رحم کا منہ دس سینٹی میٹر تک کھل جانے کا انتظار کیا جاتا ہے اور یہ انتظار بھی معین مدت سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے۔ رحم بھی کھل جاۓ، بچے کا سر بھی نیچے آ جائے ، دو سے تین گھنٹے گزر جائیں اور تب بھی زچگی نہ ہو تو پھر فیصلہ سیزیرین یا اوزار کا کیا جاتا ہے۔ تین گھنٹے سے زیادہ انتظار ماں اور بچے دونوں کی زندگی خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ اوزار لگانے ہیں یا سیزیرین کرنا ہے اس کا فیصلہ گائنالوجسٹ کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور وہ مختلف پوائنٹس پہ فیصلہ کرتی ہیں کہ کس عمل میں خطرہ کم سے کم ہو گا۔

یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی ڈرائیور سامنے سے آنے والی گاڑی کو دیکھ کے فیصلہ کرے کہ اوورٹیک کرنا محفوظ ہے یا نہیں۔ لینڈنگ کرتے ہوئے جہاز کے پائلٹ کی مثال بھی منطبق ہوتی ہے۔ ناتجربہ کاری سے جس طرح ڈرائیور اپنی گاڑی کے اور پائلٹ اپنے جہاز کے مسافروں کی جان خطرے میں ڈالتا ہے ویسے ہی زچہ و بچہ بھی متعلقہ عملے کی وجہ سے زندگی اور موت کی سرحد پہ جا کھڑے ہوتے ہیں۔

کسی بھی ملک میں زچگی کے معیارات کو زچہ اور بچہ کی موت کی شرح سے جانچا جاتا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی تعریف کے مطابق میٹرنل مورٹیلیٹی ریٹ ( maternal mortality rate)کل ایک لاکھ زچہ خواتین میں ملک عدم سدھار جانے والی خواتین کا اعداد وشمار ہے۔

بہترین ممالک جن میں زچہ کی موت کم سے کم کی صف میں اٹلی پولینڈ اور ناروے سر فہرست ہیں جہاں ایک لاکھ زچہ میں سے صرف دو موت کو گلے لگاتی ہیں۔ یونائیٹڈ عرب امارات، فن لینڈ، اسرائیل میں تین، جاپان، ہالینڈ آسٹریا میں پانچ، انگلینڈ، جرمنی میں سات، فرانس، سنگاپور میں آٹھ، قطر اور نیوزی لینڈ میں نو، کینیڈا میں دس، سعودی عرب میں سترہ، عمان اور امریکہ میں انیس خواتین بد قسمت ٹھہرتی ہیں۔

پاکستان کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق یہ شرح ایک سو چالیس جبکہ غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق تین سو پچاس ہے جو کہ دیہی علاقوں میں زچگی کی سہولیات عنقا ہونے اور ڈیٹا اکھٹا کرنے میں بے شمار مشکلات کی وجہ سے حقیقت کے قریب نظر آتی ہے۔

ذرا دل پہ ہاتھ رکھ کے سوچیے، ہر لاکھ زچہ میں سے ساڑھے تین سو اکیسویں صدی کے ایٹمی اثاثوں کے مالک وطن میں زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔ وجوہات میں دور دراز علاقوں میں سرکاری ہسپتالوں کی غیر موجودگی، بے تحاشا بڑھتی ہوئی آبادی، تعلیم کا فقدان اور آگہی کی کمی ہیں۔

ایک بڑی شکایت یہ ہے کہ ڈاکٹر ان علاقوں میں نہیں جاتے! ڈاکٹر بےچارے بھی کیا کریں، جن علاقوں میں زندگی کی بنیادی سہولیات ڈاکٹر کو فراہم کرنے میں محکمہ صحت نابینا بن جاتا ہو، وہاں ڈاکٹر سے یہ توقع رکھنا کہ زندگی تیاگ کے جوگی بن جائے دیوانے کی بڑ ہی تو ہے۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ ان علاقوں میں صرف اسسٹنٹ کمشنر اور فوجی کپتان میجر کی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے۔

دیکھیے ہم پھر بھٹک گئے، اصل میں کہنے کو ہی اتنا کچھ ہے کہ بات ادھر سے ادھر نکل جاتی ہے۔ سمیٹنے سے پہلے اس بات کا جواب ضرور لکھنا چاہیں گے کہ لیڈی ڈاکٹر کا مالی مفاد کس حد تک سیزیرین کے فیصلے پہ اثر انداز ہوتا ہے۔

دیکھیے، ایک بات سمجھ لیجیے کہ جب کسی معاشرے میں کوئی ناسور پکتا ہے وہ کسی ایک طبقے تک محدود نہیں رہتا۔ راتوں رات امیر بننے کی دوڑ اور اخلاقی قدروں کے زوال نے اس شعبے میں بھی کالی بھیڑیں پیدا کی ہیں جن کا ماوا و ملجا دولت ہے۔ ویسے حیرت کاہے کی؟ کون ہے جو اس حمام میں ننگا نہیں؟

سرکاری ہسپتالوں میں اژدہام، سہولیات کی کمی، کھمبیوں کی طرح اگے پرائیویٹ میڈیکل سینٹرز اور ان میں بیٹھا اناڑی عملہ ایک اور بڑی وجہ ہے۔ سوچیئے ذرا کونسی تجربہ کار اور سینیئر گائناکالوجسٹ ہوں گی جو دس سے بارہ گھنٹوں کے لئے زچہ کے سرہانے بیٹھ سکیں؟

زچہ کو ایک ایسی نرس یا جونئیر لیڈی ڈاکٹر کے حوالے کرنا جو وقت پہ CTG ہی نہ پڑھ سکے، اس مشکل وقت کو بھانپ نہ سکے جب موت دبے پاؤں قریب آ رہی ہو، ایک ایسا فعل ہے جس کے لئے ہمارا ضمیر کبھی راضی نہیں ہوا۔

اسی لئے ہم اپنی پرائیویٹ پریکٹس میں پہلی ملاقات میں ہی خاتون کو بتا دیتے ہیں کہ اگر وہ طبعی زچگی چاہتی ہیں تو کسی اور گائناکالوجسٹ سے رجوع کریں۔ ہم ایک نرس یا جونئیر لیڈی ڈاکٹر کے بل بوتے پہ یہ بھاری پتھر نہیں اٹھا سکتے۔

پاکستان میں سینیئر گائنالوجسٹس نے شاید اس کا حل درد زہ سے پہلے ہی سیزیرین کرنے کی صورت میں نکالا ہے۔ لیکن اس کا فائدہ گلی گلی کھلے میڈیکل سینٹرز نے بھی اٹھایا ہے کہ سیزیرین میں مالی منافع کافی زیادہ ہے۔

لیجیے آدھی رات کا گجر یا پھر اونٹوں کے گلے میں لٹکی گھنٹیوں کے سر یا ہمارے فون کی آواز ہمیں کیا کیا نہ سجھا گئی۔

**e

کھلے مسام بند، چہرہ چمکدار : بہترین قدرتی ٹوٹکے آپ کے کچن میں موجود ہیں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔. .  سعدیہ مسعود کھلے مسام ایس...
16/08/2025

کھلے مسام بند، چہرہ چمکدار :
بہترین قدرتی ٹوٹکے آپ کے کچن میں موجود ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔. .
سعدیہ مسعود

کھلے مسام ایسے ہی ہیں جیسے گھر کی کھڑکیاں، کھلی رہیں تو ہر قسم کی گرد و غبار دھواں اور مكهی مچھر جیسے ناپسندیدہ مہمان اندر آ جاتے ہیں۔ فرق بس یہ ہے کہ کھڑکیاں بند کرنا آسان ہے، مگر مسام بند کرنے کے لیے آپ کو تھوڑی محنت کرنی پڑتی ہے۔

آج کے دور میں خوبصورت اور صحت مند جلد کی خواہش صرف خواتین تک محدود نہیں رہی۔ مرد بھی اب اتنے ہی اسکن کانشس ہو گئے ہیں جتنی خواتین، بلکہ بعض تو چہرے کے معاملے میں گھر کی خواتین کو بھی ٹف ٹائم دیتے ہیں۔ آخرکار، صاف اور تروتازہ جلد سب کو اعتماد دیتی ہے، چاہے آپ آفس کی میں ہوں یا شادی میں۔

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ مسام بند کرنے کا حل مہنگی کریمیں یا پارلر کے لمبے بل ہیں، تو ذرا رُکیے… ہم آپ کو بتانے والے ہیں 100% قدرتی، تازہ اور گھر میں بنائے گئے وہ ٹوٹکے جو نہ صرف آپ کے مسام چھوٹے کریں گے بلکہ آپ کی جلد کو ٹائٹ، تروتازہ اور خوش رنگ بنا دیں گے۔

یہ نسخے اتنے آسان ہیں کہ آپ انہیں اپنی کچن میں ہی تیار کر سکتے ہیں — اور ہاں ان کے کوئی سائیڈ ایفیکٹس نہیں، سوائے اس کے کہ لوگ آپ كو روک روک کر پوچھیں گے، "یہ گلو کیسے آیا؟"

کھلے مسام کیا ہیں؟

کھلے مسام دراصل جلد میں موجود گڑھے یا چھوٹے سوراخ ہیں۔ یہ اگر زیادہ بڑے ہو جائیں تو دیکھنے میں بھی برے لگتے ہیں اور جلد کے کئی مسائل کا بھی سبب بنتے ہیں ۔ کھلے مسام چہرے کو بے رونق اور کھردرا بنا دیتے ہیں۔ ان میں میل، گرد اور تیل بھر جاتا ہے جو بعد میں بلیک ہیڈز، وائٹ ہیڈز، کیل اور مہاسوں میں بدل جاتا ہے۔

زیادہ تر یہ مسئلہ چکنی اور کمبی نیشن جلد میں ہوتا ہے کیونکہ اس میں قدرتی تیل زیادہ پیدا ہوتا ہے۔

کھلے مسام کی وجوہات

وراثت: سب سے بڑی وجہ جینیاتی ہوتی ہے۔

سورج کی روشنی: یووی شعاعیں جلد کے کولیجن کو نقصان پہنچا کر لچک کم کر دیتی ہیں۔

عمر: عمر بڑھنے کے ساتھ ہارمونز میں تبدیلی آتی ہے، کولیجن کم ہوتا ہے اور جلد کھنچ کر مسام کھل جاتے ہیں۔

زیادہ تیل پیدا ہونا: چکنی جلد میں تیل زیادہ بننے سے مسام کھل جاتے ہیں۔

صفائی کی کمی: چہرہ باقاعدگی سے نہ دھونا۔

ہارمون کی تبدیلیاں: ہارمونی بگاڑ سے تیل کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔

تمباکو نوشی: سگریٹ کے کیمیکل جلد پر مضر اثرات چھوڑتے ہیں۔

غیر متوازن خوراک: زیادہ تلی اور چکنی چیزیں کھانے سے سیبم پیدا ہوتا ہے جو مسام کھول دیتا ہے۔

قبض : جن لوگوں كو قبض کی شکایت رہتی ہے ان کی جلد پر دیگر مسائل کے ساتھ مسام كهل جانے کا مسلہ لازما ہوتا ہے ۔

چلیں پھر تیار ہو جائیں ان كو مساموں كو چھوٹا کر کے بہترین جلد پانے کی کوشش کریں ۔ طریقہ ہم بتاتے ہیں ۔

کھلے مسام بند کرنے کے گھریلو آرگینک ٹوٹکے

1. ایلوویرا

ایلوویرا جلد کو ٹائٹ کرنے، نمی فراہم کرنے اور مسام چھوٹے کرنے کے لیے بہترین ہے۔
طریقہ:
ایلوویرا کا پتہ کاٹ کر اس کا جیل نکالیں۔
چہرے پر ایک منٹ ہلکے ہاتھ سے رگڑیں۔
10-15 منٹ بعد نیم گرم پانی سے دھو لیں۔

2. انڈے کی سفیدی

جلد کو ٹائٹ اور ون ٹون کرنے کے لیے زبردست نسخہ۔
طریقہ:
ایک انڈے کی سفیدی میں ایک چمچ شہد ایک چمچ لیموں کا رس ڈال کر پیسٹ بنائیں۔
چہرے پر لگائیں، 30 منٹ بعد ٹھنڈے پانی سے دھو لیں۔

3. ایپل سائیڈر ونیگر
یہ قدرتی ٹونر ہے، مسام سکڑتا ہے اور جلد کا پی ایچ بیلنس درست رکھتا ہے۔
طریقہ:
ایک چمچ ونیگر اور ایک چمچ پانی مکس کریں۔
روئی کی مدد سے چہرے پر لگائیں۔
خشک ہونے پر نیم گرم پانی سے دھو لیں۔

4. زیتون کا تیل
اینٹی آکسیڈنٹ اور اینٹی انفلامیٹری خصوصیات رکھتا ہے، جلد کو نرم اور صحت مند رکھتا ہے۔
طریقہ:
چند قطرے زیتون کا تیل چہرے پر مساج کریں۔
چند منٹ بعد نیم گرم پانی سے دھو لیں۔

5. دہی
جلد کو صاف ، نرم کرتا ہے اور مسام بند کرتا ہے۔
طریقہ:
دو چمچ سادہ دہی اچھی طرح پھینٹ کر چہرے پر لگائیں۔
20 منٹ بعد تازہ پانی سے دھو لیں۔

6. ٹماٹر
چکنی جلد کے لیے بہترین، تیل بیلنس کرتا ہے اور مسام بند کرتا ہے۔
طریقہ:
ٹماٹر کا گودا اور ایک چمچ شہد مکس کریں۔
چہرے اور گردن پر 10 منٹ لگائیں پھر دھو لیں۔

7. ٹی ٹری آئل
مسام سکڑتا ہے اور کیل مہاسے کم کرتا ہے۔
طریقہ:
3-4 قطرے ٹی ٹری آئل ایک کپ پانی میں مکس کر کے اسپرے بوتل میں رکھ لیں۔
چہرے پر اسپرے کریں، قدرتی طور پر خشک ہونے دیں۔

8. کیلا
کیلے کے چھلکے میں موجود پوٹاشیم اور اینٹی آکسیڈنٹ جلد کو ٹائٹ کرتے ہیں۔
طریقہ:
کیلے کا چھلکا چہرے پر ہلکے سے رگڑیں۔
10 منٹ بعد ٹھنڈے پانی سے دھو لیں۔

9. کھیرا
جلد کو ٹھنڈک پہنچاتا ہے، جھریاں کم کرتا ہے اور رنگت نکھارتا ہے۔
طریقہ:
4-5 کھیروں کے ٹکڑے اور 2 چمچ لیموں کا رس پیس لیں۔
15 منٹ چہرے پر لگائیں پھر دھو لیں۔

10. بیسن
جلد کی صفائی اور مسام سکڑنے کے لیے لاجواب ہے ۔
طریقہ:
ایک چمچ بیسن، ایک چائے کا چمچ ہلدی، ایک چمچ دہی اور چند قطرے زیتون کا تیل مکس کریں۔
20 منٹ لگانے کے بعد ٹھنڈے پانی سے دھو لیں۔

11. بیکنگ سوڈا
جلد سے میل کچیل دور کرتا ہے ۔ مہاسے اور مردہ خلیے دور کرنے میں مددگار ہے۔
طریقہ:
دو چمچ بیکنگ سوڈا اور دو چمچ پانی ملا کر پیسٹ بنائیں۔
30 سیکنڈ ہلکے ہاتھ سے مساج کریں، پھر دھو لیں۔

12. ملتانی مٹی
زیادہ تیل ختم کرتی ہے، رنگت نکھارتی ہے اور مسام بند کرتی ہے۔
طریقہ:
دو چمچ ملتانی مٹی اور گلاب کا عرق یا دودھ مکس کریں۔
چہرے پر ہلکی تہہ لگا کر خشک ہونے دیں پھر دھو لیں۔

13. پپیتا
جلد کو نرم، روشن اور مسام سے میل نکالنے کے لیے مفید ہے ۔
طریقہ:
پپیتے کے چند ٹکڑے میش کر کے چہرے پر 20 منٹ لگائیں، پھر پانی سے دھو لیں۔

کسی بھی نسخے کو کم از کم 15 دن باقاعدگی سے استعمال کریں تاکہ بہترین نتائج حاصل ہوں۔

سائنسں دانوں کہنا ھے کہ لوہا اس زمین اور نظام شمسی کا حصہ نہیں ھے۔ کیونکہ لوھے کے پیدا ہونے کے لئے ایک خاص درجہ حرارت کی...
25/07/2025

سائنسں دانوں کہنا ھے کہ لوہا
اس زمین اور نظام شمسی کا حصہ نہیں ھے۔
کیونکہ لوھے کے پیدا ہونے کے لئے ایک خاص درجہ حرارت کی ضرورت ھوتی ھے جو ہمارے نظام شمسی کے اندر بھی موجود نہیں۔ لوہا صرف سوپر نووا supernova کی صورت میں ھی بن سکتا ھے۔ یعنی جب کوئی سورج سے کئی گنا بڑا ستارہ پھٹ جائے اور اس کے اندر سے پھیلنے والا مادہ جب شہاب ثاقب meteorite کی شکل اختیار کرکے کسی سیارے پر گر جائے جیسا کے ھماری زمین کے ساتھ ھوا۔
سائنسدان کہتے ہیں کہ ھماری زمین پر بھی لوھا اسی طرح آیا۔ اربوں سالوں پہلے اسی طرح شہاب ثاقب meteorites اس دھرتی پر گرے تھے جن کے اندر لوھا موجود تھا۔

اللہ سبحان وتعالی نے یہی بات قرآن میں بیان فرمائی ہے، 1400 سال پہلے اس بات کا وجود تک بھی نہیں تھا کہ لوھا کیسے اور کہاں سے آیا؟
قرآن کی 57 ویں سورة کا نام الحدید ھے جس کا مطلب لوھا ھے۔ لوھے کے نام پر پوری صورت موجود ھے اور اسی سورة کی آیت میں اللہ فرماتا ھے کہ:

"اور ہم نے لوھے کو اتارا، اس میں سخت قوت اور لوگوں کے لئے فائدے ہیں۔”
(سورة الحدید، آیت نمبر 25)
قرآن میں موجود یہ سائنسی حقائق اس بات کی دلیل ھے کہ یہ رب کا سچا کلام ھے۔ جو اس آخری پیغمبر حضور ﷺ پر نازل ھوا جو اُمی کہلاتے ہیں ۔

سورہ حدید آیت 4

﴿۴﴾ وھی ھے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا۔ جو چیز زمین میں داخل ھوتی اور جو اس سے نکلتی ھے اور جو آسمان سے اُترتی اور جو اس کی طرف چڑھتی ھے سب اس کو معلوم ھے۔ اور تم جہاں کہیں ھو وہ تمہارے ساتھ ھے۔ اور جو کچھ تم کرتے ھو خدا اس کو دیکھ رھا ھے۔
اس سے بھی زیادہ حیران کر دینے والی بات یہ ھے کہ لوہا زمین کے بالکل درمیان میں ھے۔ اور لوھے کی بدولت مقناطیسی لہریں زمین کے گرد پیدا ہوتی ہیں جس سے زمین پر سورج کی الٹرا ریز اثر انداز نہیں ہو سکتی اور یہ وائرلیس کمیونیکیشن میں بھی مدد فراہم کرتی ھے۔

اب حیران کرنے والی بات یہ ھے کہ قرآن میں 114 سورتیں ہیں اور سورہ الحدید کا نمبر 57 ھے یعنی سورت حدید عین قرآن کے بیچ میں ھے۔ اور لوہا اسی طرح زمین کے درمیان ھے۔ یعنی اللہ نے اس سورہ کی ترتیب بھی اسی حساب سے رکھی جو کہ ایک معجزے سے کم نہیں۔

یہ بات حقیقت ھے کہ لوھے کہ بنا زمین پر زندگی تقریبا نا ممکن تھی۔ لوھا ہیموگلبن کی صورت میں ھمارے خون میں موجود ھے۔ جو کہ خون میں آکسیجن کو پورے جسم پہنچانے کام کرتا ھے۔

عربی زبان کے ٢٨ حروف ہیں اور ھر حرف سے کوئی عدد منسوب ھے.حروف کو مختلف ترتیب سے لکھا جاتا ھے.
سب سے زیادہ عام طریقہ درج ذیل ھے۔

ا ب ج د ہ و ز ح ط
1 2 3 4 5 6 7 8 9
ی ک ل م ن س ع ف ص
10 20 30 40 50 60 70 80 90
ق ر ش ت ث خ ذ ض ظ
100 200 300 400 500 600 700 800 900
غ
1000

ا کے لئے 1 ب کے لئے 2 کا عدد ھے ج کے لئے 3 اور د کے لئے 4

اسی طرح الحدید میں ا ل ح د ی د الفاظ ہیں۔

اسکے ابجد الفاظ درج زیل ہیں۔
1 + 30 + 8 + 4 + 10 + 4 = 57

الحدید سورت کا نمبر بھی 57 ھے۔

اب آتے ہیں لفظ حدید کی طرف۔ حرف حدید میں چار الفاظ ہیں ح د ی د۔ اسکا ابجد نمبر ھے۔
8+ 4 + 10 + 4 = 26

اب آپ سوچیں گے کہ اب 26 کیا چیز ھے؟؟؟

جی جناب یہ لوھے کا ایٹومک نمبر ھے۔
Atomic number of iron is 26

سورہ حدید میں رکوع کی تعداد 4 ھے جبکہ آئرن کے آئسوٹوپس کی تعداد بھی 4 ھے۔

ھماری زمین میں سب سے زیادہ لوھا زمین کی سب سے اندرونی تہہ (inner core) میں پایا جاتا ہے. Inner core 80% لوہے اور 20% نکِل پر مشتمل ھے. زمین کی اس تہہ یعنی inner core کی پیمائش(موٹائی) 2475 کلومیٹر ھے۔ جبکہ سورہ حدید میں حروف کی تعداد بھی 2475 بنتی ھے.

سورہ حدید قران مجید کی 57 ویں سورت ھے جبکہ سائنسدانوں کے مطابق inner core کا درجہ حرارت بھی 5700 کیلون یعنی5427 ڈگری سنٹی گریڈ ھے. جبکہ آئرن کے ایک آئسوٹوپ کا ماس نمبر بھی 57 ھے.

ایک ستارا کا ایندھن ہائیڈروجن گیس ہوتی ھے اور گریوٹی کی وجہ سے ستارا کے رکز میں فیوزن ری ایکشن شروع ھوتا ھے اور ہائیڈروجن ایٹم دوسرے ایٹم سے ملکر ہیلیئم بناتی ھے جب کسی ستارا کہ تمام ہائیڈروجن ختم ھو جاتی ھے تو اس کا ایندھن ہیلیئم ھوتا ھے اور ہیلیئم کے آئیٹم فیوزن ری ایکشن سے نائیٹروجن اور پھر آکسیجن بناتے پھر اور آخر میں لوھا بنتا ھے جب کسی ستارا میں لوھا پیدا ھونا شروع ھو جائے تو وہ ستارا مر جاتا ھے اور بلاسٹ کر کے لوھا کائنات میں چھوڑ دیتا ھے۔
زمین پر موجود لوھا کس مرے ہوئے ستارے سے آیا۔ جس کو قرآن نے 1400 سال سے بھی پہلے بیان کر دیا۔

اسلام اور قرآن کی حقانیت جدید سائنس دن بدن عیاں کر رھی ھے مگر پھر بھی ھم اللہ کو راضی کرنے کے بجائے دنیا کے پیچھے پڑے ہیں۔
بیشک قرآن حکیم ایک زندہ و جاوید معجزہ ھے

Address

Karachi
75850

Opening Hours

Monday 20:00 - 22:00
Tuesday 20:00 - 22:00
Wednesday 20:00 - 22:00
Thursday 20:00 - 22:00
Friday 20:00 - 17:00

Telephone

+923310242426

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dr. Seema Saeed posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Dr. Seema Saeed:

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram

Category