ماہر نفسیات

ماہر نفسیات Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from ماہر نفسیات, Psychologist, Karachi.

🧠 ماہر نفسیات سے رجوع کریں
🌿 ذہنی سکون اب ممکن

✅ ڈپریشن (افسردگی)
✅ اینگزائٹی (بے چینی، گھبراہٹ)
✅ غصہ اور نیند کے مسائل
✅ منفی خیالات
✅ خوف، وہم، OCD
✅ بچوں میں ADHD، آٹزم یا سلو سیکھنا
✅ پینک اٹیک اور جذباتی مسائل

آج ہی رابطہ کریں

24/09/2025

🧠 ماہر نفسیات سے رجوع کریں
🌿 ذہنی سکون اب ممکن

✅ ڈپریشن (افسردگی)
✅ اینگزائٹی (بے چینی، گھبراہٹ)
✅ غصہ اور نیند کے مسائل
✅ منفی خیالات
✅ خوف، وہم، OCD
✅ بچوں میں ADHD، آٹزم یا سلو سیکھنا
✅ پینک اٹیک اور جذباتی مسائل

آج ہی رابطہ کریں اور ہمارے چینل کو ضرور سبسکریپشن کریں

🧠 ماہر نفسیات سے رجوع کریں🌿 ذہنی سکون اب ممکن✅ ڈپریشن (افسردگی)✅ اینگزائٹی (بے چینی، گھبراہٹ)✅ غصہ اور نیند کے مسائل✅ من...
24/09/2025

🧠 ماہر نفسیات سے رجوع کریں
🌿 ذہنی سکون اب ممکن

✅ ڈپریشن (افسردگی)
✅ اینگزائٹی (بے چینی، گھبراہٹ)
✅ غصہ اور نیند کے مسائل
✅ منفی خیالات
✅ خوف، وہم، OCD
✅ بچوں میں ADHD، آٹزم یا سلو سیکھنا
✅ پینک اٹیک اور جذباتی مسائل

آج ہی رابطہ کریں اور ہمارے چینل کو ضرور سبسکریپشن کریں

ADCP/MSC Psychology

23/09/2025

آج Wife Appreciation Day ہے اور میں کھل کے ماننا چاہتا ہوں کہ اگر میری زندگی میں کہیں بھی استقامت، حوصلہ یا کامیابی دکھائی دیتی ہے تو اُس کا کریڈٹ میری بیوی کو جاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ میں نے زندگی میں کئی بڑے جھٹکے دیکھے۔ ایک وقت آیا جب میرے اپنے بزنس پارٹنر نے میرے ساتھ دھوکہ کیا اور سب کچھ ہاتھ سے نکل گیا۔ اُس وقت انسان کے پاس بس دو ہی راستے بچتے ہیں، یا تو وہ ہمت ہار دے یا پھر کوئی ایسا سہارا مل جائے جو ٹوٹنے نہ دے۔ اُس وقت میرا وہ سہارا میری بیوی تھی۔

پارٹنر کے فراڈ کے بعد جب حالات اس قدر خراب ہوئے کہ گاڑی تک بیچنی پڑی اور میں بائیک پر آگیا، تب بھی اُس نے میرے ساتھ چلنا قبول کیا، شکایت نہیں کی، حوصلہ دیا۔ عام طور پر ایسی آزمائش میں رشتے بکھر جاتے ہیں لیکن اُس نے میرا ساتھ نہیں چھوڑا۔ اُس نے میرا حوصلہ بڑھایا اور مجھے بار بار یہی کہا کہ اصل عزت اللہ کے ساتھ تعلق قائم رکھنے میں ہے، دنیاوی نقصان اور فائدہ آتے جاتے رہتے ہیں۔

ہمیشہ مجھے اسلام کی باتیں یاد دلاتی ہے۔ جب بھی میں کوئی غلطی کرتا ہوں یا کسی غلط راستے پر جاتا ہوں تو وہ مجھے سمجھاتی ہے۔ اُس کی یہ عادت میرے لیے سب سے قیمتی ہے۔ وہ صرف بیوی نہیں بلکہ ایک اچھی دوست اور ایک بہترین مشیر بھی ہے۔

میری سب سے بڑی خوش قسمتی یہ ہے کہ وہ میرے بچوں کی تربیت بہت خوبصورتی سے کر رہی ہے۔ بچوں کو دین اور دنیا دونوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاق اور اقدار بھی سکھا رہی ہے۔ میں سچ کہتا ہوں، شاید میں اُن کی تربیت اتنی ذمہ داری سے نہ کر پاتا جتنی وہ کر رہی ہے۔

میں یہ بھی مانتا ہوں کہ میں ایک اچھا باپ ہوں، لیکن اچھا شوہر نہیں۔ ہاں، اس میں کوئی شک نہیں کہ میرے بچوں کے ساتھ میرا رشتہ مضبوط ہے، لیکن بیوی کے ساتھ اُس طرح کا خیال اور وقت نہیں دے پاتا جس کی وہ حقدار ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ میں یہ مانتا ہوں کہ ہمارے رشتے میں جتنا بھی پیار، سکون اور عزت ہے اُس کا سارا کریڈٹ اُسی کو جاتا ہے۔

بیوی کا حق ہے کہ اُس کی قدردانی کی جائے، اُس کی قربانیوں کو مانا جائے۔ اور آج کے دن میں یہ کھلے دل سے کہتا ہوں کہ میری کامیابی، میرا سکون، میرا خاندان — سب کچھ میری بیوی کی وجہ سے ہے۔ اللہ میری بیوی کو سلامت رکھے اور ہمیشہ خوش رکھے۔ ❤️

ایک اور بات جو بہت اہم ہے، وہ یہ ہے کہ میری بیوی کے اپنے سسرالی رشتہ داروں کے ساتھ بھی بہت اچھے تعلقات ہیں۔ وہ میرے خاندان کا خیال مجھ سے زیادہ رکھتی ہے۔ ہر گھر میں کچھ نہ کچھ مسائل ضرور ہوتے ہیں، ہمارے بھی رہے ہیں، لیکن اس نے کبھی رشتے توڑنے یا دوری پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ جب بھی گھر میں کوئی معاملہ آیا، اُس نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا اور تعلقات کو جوڑنے کی کوشش کی۔ یہ اُس کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ وہ رشتوں کو نبھانا جانتی ہے اور کبھی اپنی انا کو بیچ میں نہیں لاتی۔

اور ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارا رشتہ کوئی آئیڈیل یا فلمی کہانی نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر جو جوڑے پرفیکٹ دکھتے ہیں ویسا کچھ نہیں۔ اور نہ ہی میری بیوی نے کبھی کسی انفلوئنسر یا آئیڈیل رشتے کو اپنا معیار بنایا ہے۔ ہم بھی عام میاں بیوی کی طرح روز لڑتے جھگڑتے ہیں، بحث کرتے ہیں، چھوٹی بڑی باتوں پر مسئلے آتے ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود وہ ہمیشہ رشتے کو بچانے اور بات کو سنبھالنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو اسے میرے لیے سب سے خاص بناتی ہے۔
Copy

22/09/2025

ایک شخص ایک دن جب اپنے گھر گیا تو اس نے دیکھا کہ اس کی بیوی اس کے چھوٹے سے بچے کے چھوٹے سے بستر پر اس کے ساتھ ہی لیٹی تھی۔ وہ شخص حیران ہوا اور بولا کہ اگر آرام کرنا ہے تو اپنے بستر پر لیٹ جاتیں۔ یہاں تو اور ہی تھک گئی ہوگی۔ اس کی بیوی اٹھ بیٹھی اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔
شوہر پریشان ہوگیا۔ بیوی نے پوچھنے پر بتایا کہ صبح وہ کچھ امداد دینے کسی یتیم خانے گئی تھی۔ وہاں اس نے دیکھا کہ چھوٹے چھوٹے سے بچے جو ابھی کچھ مہینوں کہ ہی تھے، اپنے پنگھوڑوں میں چپ چاپ تمیز سے لیٹے ہوئے تھے۔ وہ بہت خوش ہوئی اور وہاں موجود نگران خاتون سے پوچھا کہ آپ نے ان چھوٹے چھوٹے سے بچوں کی اتنی شاندار تربیت کیسے کی؟ آپ مجھے بھی مشورہ دیں۔ میرا بھی ایک چھوٹا بچہ ہے۔ اس نگران خاتون نے جواب دیا کہ ہم دعا کریں گے کہ آپ کا بچہ کبھی اتنا تمیزدار نہ ہو اور خدا اس کے لئے آپ لوگوں کو زندہ رکھے۔ یہ بچے جب یہاں آتے ہیں تو شروع کے دنوں میں بھوک لگنے پر اور ڈائپر خراب ہونے پر روتے ہیں۔ مگر ہمارا عملہ اتنا نہیں کہ بچوں کو انفرادی توجہ دے سکیں تو ہم انہیں رونے دیتے ہیں۔ کچھ ہی دنوں میں انہیں عادت ہوجاتی ہے کہ یہاں ان کے رونے سے ان کی حاجت روائی نہیں ہوگی۔ کھانا ہو یا ڈائپر تبدیل کرنا۔ ہنگامی صورتحال کے علاوہ ہر چیز مقررہ وقت پر ہی انجام پاتی ہے۔ جب وہ یہ بات سمجھ لیتے ہیں تو ان کا رونا کبھی کم اور عموما بلکل ختم ہوجاتا ہے۔ یہ بچے بھی اگر اپنے والدین کے ساتھ ہوتے تو بھوک لگنے پر، ڈائپر گندا ہونے پر، جذباتی قربت کے لئے یا کسی ایسے مسئلے کے حل کے لئے جسے ان کے ننھے ذہن سمجھنے سے قاصر ہیں، رو رو کر اپنے والدین کی توجہ خود پر مبذول کراتے۔ ان کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔ ان کے محبت کی نرمی اور گود کی گرمی کو محسوس کرتے۔ مگر کیونکہ ایسا نہیں ہے اور ہم خود بہت مجبور ہیں۔ تو ہم انہیں رونے دیتے ہیں۔ کچھ دن بعد یہ خود ہی تھک کر چپ ہوجاتے ہیں۔
اور اسی لیے جب سے وہ عورت وہاں سے آئی تھی اپنے بچے کے ساتھ لگی بیٹھی تھی۔
اللہ ہر کسی کی اولاد کے اوپر اپنے والدین کا سایا سلامت رکھے اور اولاد کو بھی لمبی صحت والی زندگی دے آ مین۔

22/09/2025

علی پور میں سیلاب کی تباہکاریوں کے بعد ریلیف کا پہلا فیز اختتام کو پہنچا، اس فیز میں سب سے بڑا چیلنج متاثرین کو پکا پکایا کھانا، پناہ دینا اور اس سے بھی پہلے ریسکیو کرنا تھا، اب پانی کئی جگہ کم ہے تو کہیں مکمل راستے بحال ہیں۔
اب لوگ گھروں کو لوٹ رہے ہیں، پکا پکایا کھانا، رہائش وغیرہ تو ہر بندے نے اپنی استطاعت کے مطابق کیا اور جیسے کیسے یہ فیز گزر گیا۔

اب اگلا مرحلہ بہت اہم ہے، اس فیز میں بڑے انویسٹرز، این جی اوز اور ریاست کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا، لوگوں کے گھر گر چکے، فصلیں تباہ ہیں، مویشی مر چکے، روزگار ختم ہے۔
یہ سب سے اہم اور بڑے چیلجنز ہیں جن سے نمٹنے کے لیے خطیر رقم اور وقت درکار ہوگا۔
حکومت کو چاہئے کہ تمام ملکی و غیر ملکی این جی اوز کو لیٹر لکھے اور ایمرجنسی نافذ کرے، اس سے حکومت کا بوجھ کم ہوگا اور مختلف ادارے آ کے لوگوں کی مشکلات کم کر سکتے ہیں، مگر ابھی تک انتظامیہ نے کسی بڑے ادارے کو خود نہیں بلایا جس سے بحالی کا کام تباہی پھیرے گا۔
زرعی قرضے معاف ہونے چاہئے، کھاد سپرے بغیر سود کے قرض کی صورت میں دینی چاہئیے، کاروبار کے لیے بھی بغیر سود کے قرضے دینے چاہئیں، گھر بھی بنانا لازم ہے۔

22/09/2025

زندگی اتنی قیمتی ہے کہ اسے رنجشوں اور غصے کی آگ میں جلایا نہیں جا سکتا۔ معاف کرنا اس لئے ضروری نہیں کہ دوسرا شخص معافی کے لائق ہے، بلکہ اس لئے ضروری ہے کہ آپکا سکون اور خوشی سب سے زیادہ قیمتی ہے۔

جب ہم دل میں غم و غصہ، نفرت یا شکوہ سنبھال کر رکھتے ہیں تو دوسرا شخص ہماری سوچوں پر پہلے سے زیادہ چھا جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ہم ہر وقت اس کے کئے کی سزا خود کو دے رہے ہیں، ایک نادیدہ بوجھ اٹھائے پھرتے جو دل کو بوجھل اور روح کو تھکا دیتا ہے۔
مگر جیسے ہی ہم معاف کرتے ہیں دل کا بوجھ اتر جاتا ہے۔ روح آزاد ہو جاتی اور دل و دماغ پہ سکون اتر آتا ہے۔ معافی حقیقت میں دوسروں کے لئے نہیں، بلکہ اپنی ذات پہ بہت بڑا رحم ہے۔

یاد رکھیں معاف کر دیں ان کو جنہیں آپ بھول نہیں سکتے اور بھول جائیں ان کو جنہیں آپ معاف نہیں کر سکتے۔ کیونکہ اصل سکون معاف کر دینے میں ہے رنجش کے بوجھ میں نہیں۔

21/09/2025

میں دو بیٹیوں کا والد ہوں۔ جن کے نام عنایہ بنت خطیب اور نبیہا بنت خطیب ہیں۔ بڑی بیٹی دس سال کی ہے اور چھوٹی والی ایک سال کی۔ بیٹیاں پرانا دھن ہوتی ہیں۔ یہ بات ہم اپنے بزرگوں سے سنتے رہے ہیں۔ ان کا اصل گھر سسرال ہوتا ہے۔ دیہاتوں میں بیٹیوں کو جدید فیشن اپنانے سے یہ کہہ کر منع کیا جاتا تھا کہ سسرال جا کر یہ سب کرنا۔ کوئی دوشیزہ شوخ رنگ کی سرخی لگاتی تو اسے یہ کہہ کر چھیڑا جاتا کہ توں ویاہ منگنی ایں۔ تم شادی کی ڈیمانڈ کر رہی ہو۔ حالیہ فیشن والے کپڑے انکے مائیں اور دادیاں پہننے سے منع کرتیں کہ یہ سب اپنے یا اگلے گھر جا کر کرنا۔ اور اپنے خاوند کو دکھانا۔ دیہاتوں کا یہ کلچر تھا آج بھی کافی حد تک موجود ہے۔ کیا امیر کیا غریب لگ بھگ اسی سوچ کے ساتھ بیٹیوں کی پرورش کرتے ہیں۔

عمر کی چار دہائیاں گزارنے کے قریب ہوں۔ میری دادی مجھے آج بھی بچہ کہتی اور ویسا ہی برتاؤ کرتی ہے۔ اگر وہ زندہ رہی تو میں اسی سال کا بھی ہوکر اپنی ماں کے لیے کاکا منھا ہی رہوں گا۔ بہرحال میں نے یہ بات اپنی دادی سے ڈسکس کی جو اپنی عمر کی دوسری صدی جی رہی ہیں۔ کہ لڑکی کا پہلا گھر اپنا ہوتا ہے یا دوسرا؟ انہوں نے کہا بیٹا عورت کا کوئی بھی گھر اپنا نہیں ہوتا۔ بیاہے جانے تک اسے یہ کہا جاتا ہے اگلا گھر تمہارا اپنا ہے۔ اور جب وہ وہاں پہنچتی ہے تو اسے بہت جلد احساس دلا دیا جاتا ہے۔ یہ تمہارا گھر نہیں ہے۔ یہ گھر ہم نے یعنی اسکی ساس سسر نے بڑی محنت سے بنایا تھا۔ اسی نوے فیصد بہو اپنے ساس سسر کے بنے گھر میں جاتی ہے۔ تو جب بھی کوئی گرمی سردی ہوئی یہ طعنہ مارنا ساس یا نندوں پر واجب ہو جاتا ہے۔ سپیشلی اس نند پر جو بھائی سے بڑی ہو ابھی اسکی شادی نہ ہوئی ہو یا وہ طلاق شدہ ہو۔ اور وہیں رہ رہی ہو۔

جب وہ پیچھے اپنی بھابھیوں کو دیکھتی ہے۔ بھائیوں کی شادی کے چند سال بعد تو دس دنداں دی پریت قائم رہتی ہے۔ بعد میں جب وہ پھپھو بن جاتی تو وہ اس گھر میں ہونے والے تمام فسادات کی وجہ بتائی جاتی ہے۔ کہ یہ آئی تھی ماں باپ اور بھائیوں کو پٹیاں پڑھا کر لڑائی کروا گئی۔ وہاں حالات بہت خراب ہو جاتے ہیں جہاں بھائی کی شادی کو دس پندرہ سال ہوگئے اور اولاد نہیں ہوئی۔ تو بہن بڑی ہے یا چھوٹی وہ اپنے بھائی سے فطری جذبے کے تحت اس موضوع پر بات کرتی ہے۔ اور بھابھی کے دل پر جو بلڈوزر چلتے ہیں وہ شاید بہن کو معلوم نہیں ہوتے۔ اور بھابھی اس بہن کے بھائی کو اپنی بہن سے دور کرنا شروع کرتی ہے۔ کہ کہیں بہن اس کا رشتہ نہ کروا دے۔ یہ ایک مثال ہے۔ جائیداد میں حصہ نہ دینے کی غرض سے دور کرنا، بھائی بہن کے ساتھ مالی تعاون کرتا ہے تو کیوں کرتا ہے؟ ہاں جب بھائی کی مالی حالت کمزور ہو اور باجی مدد کرتی رہے تو بھابھی بہت خوش اور جی صدقے واری جاتی ہے اپنی نند کے۔

بوڑھے والدین ہمیشہ اپنی بیٹیوں کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔ بلکل ویسے ہی جیسے میں اور آپ آج اپنی بیٹیوں کو ہمیشہ خوش دیکھنا چاہتا ہیں۔

ہم سب جو باپ ہیں۔ آخر ایسا کر سکنے میں بے بس کیوں اور کہاں ہو تے ہیں؟

یہ جو, کوئی بھی اپنا گھر نہ ہونے کی صدیوں سے چلتی آرہی اِن سکیورٹی ہے۔ اس کا حل آخر کیا ہے؟ کیا خاوند کے پیسوں سے بنا گھر بیاہ کر جانے والی دلہن کا اپنا گھر کہلا سکتا ہے؟ یا وہ خود کمانے والی ہے ماں باپ امیر ہیں۔ دلہن اپنا گھر خود خرید لیتی ہے۔ یا اسکے ماں باپ اسے گھر تحفہ کر دیتے ہیں۔ تو وہ گھر اس کا اپنا ہوگا؟ ایسے کیسز بھی دیکھے ہیں۔ وہاں اسکے ساتھ رہنے والے سسرالیوں کو جلد یہ بدیر یہ طعنہ وہ خود مار دیتی ہے کہ یہ میرا گھر ہے۔ آپ کون ہوتے ہیں ہر بات میں ٹانگ اڑانے والے۔ اپنے کام سے کام رکھیں۔ اس سنیریو میں اپنا گھر فیملی سسٹم اور خاوند کا تعلق اسکے خاندان سے کمزور کرنے کا بھرپور موقع بیوی کے پاس ہوتا ہے۔ وہ خود بھی احسان تلے دبا ہوتا ہے۔ کڑوی کسیلی سہہ جاتا ہے۔ ساتھ رہنے والے اپنے گھر والوں کی بے عزتی بھی برداشت کر جاتا ہے۔

ایک لڑکی یا عورت کے اپنے گھر والی فیلنگ کو آخر کیسے اسے دیا جائے؟ جہاں نہ تو ساس سسر یہ طعنہ مار سکیں کہ وہ ان کا گھر ہے۔ اور نہ وہ جتا سکے کہ یہ میرا گھر ہے۔ خاوند کی کمائی سے بنا گھر ہی سمجھ آتا ہے کہ توازن قائم کر سکتا ہے۔ مگر شادی سے پہلے اپنا ذاتی الگ گھر بنانا شاید ہمارے معاشرے میں پانچ سے دس فیصد لڑکوں کے بس کی بات ہے۔

کرایہ دار ایک بہت بڑا طبقہ ہے۔ انکو تو ابھی اس ڈسکشن کا حصہ نہیں بنایا۔ خود ایک پنجابی دیہاتی ہوں۔ تو ہم لوگ اپنے آباؤ اجداد کی معلوم تاریخ کے پچھلے بھی ادوار میں ہمیشہ اپنی ملکیت کے گھروں میں رہتے رہے ہیں۔ تو اسی نظام رہن سہن کو قریب سے دیکھا ہے۔ اور اپنے مشاہدات کو قلم بند کیا ہے۔

میں چاہتا ہوں۔ کہ ایک لڑکی کو واقعی یہ محسوس ہو کہ یہ میرا گھر ہے۔ وہ گھر کونسا ہو؟ والدین کا ، سسرال کا ، خاوند کا بنایا ہوا، یا کرایے کا۔ جہاں وہ اپنی من چاہی ساری تو نہیں، کچھ نہ کچھ دل میں ، خیالوں میں آنے والی جائز خواہشات تو پوری کر سکے۔ اپنی مرضی کا لباس پہن سکے، جیسا چاہے بناو سنگھار کر سکے، کھیل سکے، گنگنا سکے، جھوم سے اور وہ ایسا کرنے میں ، اپنے گھر میں آزاد ہو ۔

Copy

19/09/2025

ٹوٹنے کے بعد جو تم میں ہمت آتی ہے نا دراصل تمہیں اللہ تھام چکا ہوتا ہے🍁💗🍒

18/09/2025

کر بھلا ہو بھلا انت بھلے کا بھلا ظفر بھائی آپ کو جے ڈی سی فاؤنڈیشن کے تمام ٹیم کوعلی شیخیانی صاحب کو اللہ کریم اجر عظیم عطا فرمائے سرائیکی وسیب کے شہروں میں رہنے والے تمام امیر ترین خانوادوں مخدوم و گیلانیوں اور جتنی بھی کاروباری امیر ترین شخصیات ہیں ان کو چاہیے کہ وہ جے ڈی سی کی بازو بنے ان کے باں بیلی بنے اور ان کے ساتھ کھڑے ہو جائیں دکھی انسانیت کی خدمت کر کے اپنی دنیا و اخرت کو بہتر کر لیں اور حکومت وقت کو بھی چاہیے کہ مشکل کی اس گھڑی میں وہ جی ڈی سی کا ساتھ دیں جو بھی ان کی مشکلات ہیں ان میں ان کی رہنمائی فرمائیں اور اخر میں دعا گو ہوں کہ جی ڈی سی کے تمام ٹیم کو اللہ کریم ہمیشہ اپنی رحمتوں کے سائے میں قائم و دائم رکھے امین

17/09/2025

مذہبی و لسانی تعصب سے بالاتر ہوکر سیلاب زدگان کی مدد کریں۔
ہم وہ امت ہیں جنہیں جسدِ واحد کہا گیا، تو پھر یہ تعصب کیسا؟
دکھ، تکلیف، بھوک، بےگھری یہ کسی زبان، علاقے یا فرقے کی پہچان نہیں دیکھتے
تو ہماری مدد اور ہمدردی بھی بغیر تفریق ہونی چاہیے۔
جہاں بھی کوئی مجبور ہے، ہمارا دل اس کے لیے برابر دکھی ہوتا ہے
چاہے وہ ملک کے کسی کونے میں ہو ہم سب ایک ہیں، ایک قوم، ایک انسانیت۔
یاد رکھیں
یہی وہ ملک ہے جو ذات پات، فرقہ واریت اور اونچ نیچ سے نکلنے کے لیے حاصل کیا گیا تھا۔
تو آئیے، اپنے عمل سے ثابت کریں کہ ہم واقعی ایک قوم ہیں۔
تعصب سے نہیں، انسانیت سے مدد کریں

Address

Karachi

Opening Hours

Monday 14:00 - 18:00
Tuesday 14:00 - 18:00
Wednesday 14:00 - 18:00
Thursday 14:00 - 18:00
Friday 09:00 - 17:00

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when ماہر نفسیات posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram

Category