
16/08/2025
پنجاب کا رستا لہو۔
میں 47 کے اٹھارہ انیس سال بعد پیدا ہوا۔مگر میں لڑکپن میں بھی بزرگوں کی زبانی اکثر سنتالی کی ونڈ کی کئی داستانیں سنتا کہ ان کو سناتے ہوئے بزرگوں کی آنکھیں نم آلود ہو جاتیں۔ہمارے گاؤں میں تو ہندو اور سکھ چند گھر تھے مگر ہمسائے گاؤں 54 55 59 میں ہندو اور سکھ کافی تھے قریبی ضلع جھنگ کے دیہاتوں میں بھی کافی تھے۔بتایا جاتا ہے جب ایک رات کافی تعداد میں سکھ اور ہندو نکل مکانی کررہے تھے شاہ جیونا کے ریلوے سٹیشن پہ جانا مقصود تھا ۔تاکہ اگلی منزل جاسکیں کہ جھامرہ کے مشرق میں قدرے جنگل میں بلوائیوں نے حملہ کردیا۔اور سینکڑوں کی تعداد میں لوگ قتل کردئیے گئے مال متاع لوٹ لیا گیا اتنی غارت گری ہوئی بزرگ بتاتے ہیں کہ کئی ماہ تک اس علاقہ سے لاشوں کا تعفن اٹھتا رہا۔
پوچھنا تو یہ تھا قریب دس لاکھ لوگ اس دوران قتل ہوئے ہندو مسلم اور سکھ۔صدیوں سے اکٹھے رہنے والے ایک دوسرے کا گلہ کاٹ رہے تھے۔ایک ہی مٹی کے بیٹے دست و گریبان ہوگئے۔ایک ہی رنگ کا خون دھرتی پہ بکھر گیا۔آسمان تک چیخیں بلند ہوئیں۔ہزاروں عفیفاوں کی عزتیں تار تار ہوئیں۔کئ گھر اجڑ گئے کروڑوں لوگوں کو نکل مکانی کرنا پڑی صرف مذہب کے نام پہ یہ بھانبھڑ جلائے گئے۔تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی۔پنجاب کی ہک پہ پاؤں رکھ کے چیر دیا گیا پھر ایسی خون میں گوندھی ہوئی المناک داستانیں مشرقی پنجاب سے آنے والے لوگ بھی بتاتے۔اج بھی مشرقی یا مغربی پنجاب کے لوگ آپس میں ملتے ہیں تو گھنٹوں گلے ملتے ہیں جیسے صدیوں کی پیاس اور تڑپ ہو۔۔مگر یہ لکیریں اب حائل ہیں اور تھوڑا لہو رسنے کی بو ابھی آتی ہے۔( تحریر۔مبشر جوئیہ)