Zainab Butt Clinical Psychologist

Zainab Butt Clinical Psychologist Discover the path of your healthier mind and happier life.

Seeking help isn’t a sign of weakness, it’s an act of courage and self care Take the first step toward a healthier and h...
06/01/2025

Seeking help isn’t a sign of weakness, it’s an act of courage and self care
Take the first step toward a healthier and happier you
Zainab Butt
M.Sc Psychology, ADCP, MS Clinical Psychology
Consultant Clinical Psychologist
Book your session Today!

The first step to your better mental health is understanding your unique self and personality. Schedule your psychometri...
10/12/2024

The first step to your better mental health is understanding your unique self and personality.
Schedule your psychometric personality assessment session and bring up your self-compassion, emotional growth, confidence, and perfect mental health.

For appointment contact:
0331-4947749
Or Visit
The Genius lifestyle and Psychiatry Clinic
14-CCA, DHA phase V Lahore


Was this helpful

Anxiety can feel like an intense, relentless worry or fear that’s hard to shake, even when there’s no clear reason to fe...
27/10/2024

Anxiety can feel like an intense, relentless worry or fear that’s hard to shake, even when there’s no clear reason to feel that way.
Schedule your consultation session today and break the grip of anxiety that makes your life lifeless.
Zainab Butt

For your and your children’s mental well being feel free to book your online and in-person session. Zainab ButtClinical ...
16/05/2024

For your and your children’s mental well being feel free to book your online and in-person session.
Zainab Butt
Clinical Psychologist

06/05/2024
Feel free to book your online and in person sessions with me.Zainab Butt Clinical psychologist                          ...
23/04/2024

Feel free to book your online and in person sessions with me.
Zainab Butt
Clinical psychologist

Book you online or in-person appointment from the plate form of Marham.PK or by contacting at 0331-4947749Zainab ButtCli...
22/04/2024

Book you online or in-person appointment from the plate form of Marham.PK or by contacting at 0331-4947749
Zainab Butt
Clinical Psychologist

Book your session and get help in understanding your child’s problematic behaviour and their solutions…   💗             ...
25/03/2024

Book your session and get help in understanding your child’s problematic behaviour and their solutions…

💗

Depression is nothing… it is just a wrong impression of your thoughts 🧠Book your session and get cure of Your Depressive...
24/03/2024

Depression is nothing… it is just a wrong impression of your thoughts 🧠
Book your session and get cure of Your Depressive Thoughts.

💗 🦍

Feel Free to book your appointment for better mental health. Zainab Butt Clinical Psychologist                          ...
22/03/2024

Feel Free to book your appointment for better mental health.
Zainab Butt
Clinical Psychologist

08/03/2024

ہم نفسیاتی امراض کو سمجھنے کے لئے مختلف امراض کے مختصر تعارف کے ساتھ ایک کیس اسٹڈی کی مدد سے اس مرض کو مکمل طور پر سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

🚯Case Study🚯
🚯A Husband's Paranoid Schizophrenia🚯

💮سب سے پہلے ہم سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ پیرانوئڈ شیزوفرنیا کیا ہوتا ہے۔؟

💮 شیزوفرنیا کا لفظ سب سے پہلے 1908ء میں ایک سوئس ماہر نفسیات یوگن بلیولر (Eugen Bleuler) نے استعمال کیا۔ شیزوفرنیا دو یونانی الفاظ "شیزو" اور "فرینیا" کا مجموعہ ہے۔ لفظ "شیزو" کا مطلب ہے " ٹوٹنا" (Split) اور "فرینیا" کا مطلب ہے "ذہن" (Mind)۔

"Splitting of mind is called Schizophrenia"

👈 شیزوفرنیا کی تعریف (DSM-5):

شیزوفرنیا ایک خطرناک ذہنی بیماری ہے۔ جس میں مبتلا انسان کے سوچنے کی صلاحیت ، جذباتی ردعمل، اس کی پرسیپشن اور اس کی معاشرے کے ساتھ تعامل کرنے کی صلاحیت مفلوج ہو جاتی ہے۔

اس بیماری کی علامات کا مطالعہ ہم ایک کیس اسٹڈی کی مدد سے کرتے ہیں۔

یہ کیس اسٹڈی دو شادی شدہ لوگوں کیون (Kevin) اور جوئس وارنر (Joyce Warner) کی ہے۔ ان کی شادی کو آٹھ سال کا عرصہ بیت چکا تھا۔ آٹھ سال بعد ان کے درمیان جھگڑے کا سبب کیون کا غیر حقیقی شک و شبہات میں مبتلا ہونا تھا۔ شادی کے آٹھویں سال وہ دونوں میاں بیوی ایک ماہر نفسیات کے پاس اپنی "کپل تھیراپی" کے لئے آۓ تھے۔

جوئس ایک چونتیس سالہ "بچوں کی نرس" اور پریگینیسی کے چھٹے مہینے سے گزرنے والی عورت تھی۔ وہ سارا دن ہسپتال میں کام کرتی تھی اور کیون ایک پینتیس سالہ لوکل یونیورسٹی میں لائبریرین تھا اور اپنی نوکری کا تیسرا سال مکمل کر رہا تھا۔ جوئس کیون کے غیر معمولی رویے کو دیکھتے ہوۓ شدید پریشانی کا شکار تھی، کہ آیا اگر کیون نے اپنی نوکری کھو دی تو وہ اپنے بچے کی پرورش کیسے کرے گی۔ اسی سلسلہ میں وہ دونوں ماہر نفسیات کے پاس آۓ تھے۔ ماہر نفسیات نے جلد ہی محسوس کر لیا کہ کیون کے رویے میں غیر معمولی پن واضح ہے۔ وہ ایسی عجیب وغریب باتیں کر جاتا تھا جس سے اس کی ذہنی حالت میں بگاڑ کا اندیشہ پیدا ہوا۔

یہاں سے ہم سیشن کا سلسلہ شروع کرتے ہیں۔

🧠 First Session 🧠
" پہلا سیشن"

جوئس اور کیون جب ماہر نفسیات کے پاس آۓ تو جوئس نے ایک حالیہ واقعے کو بیان کیا جس نے ایک بڑی پریشانی کو جنم دیا۔ جوئس نے بتایا کہ ایک دن کیون نے آفس میں لنچ کرنے کے بعد سینے میں شدید درد اور سانس لینے میں دشواری کا سامنا کیا۔ خوف کے زیرِ اثر وہ جلدی میں اس ہسپتال پہنچا جہاں جوئس کام کرتی تھی۔ کیون کے ڈاکٹر نے تمام ممکنہ ٹیسٹ کروانے کے بعد جوئس کو بتایا کہ اس کے ساتھ کوئی بھی مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ وہ بلکل ٹھیک ہے۔ ڈاکٹر نے اسے کچھ سکون آور ادویات دی اور اسے گھر جا کر آرام کرنے کا مشورہ دیا۔

جوئس نے کہا کہ جب وہ کام سے واپس آئی تو کیون اس سے کہہ رہا تھا کہ مجھے شک ہے کہ میرے سپر وائزر نے مجھے زہر دیا ہے۔ وہ نہ صرف اس شک کا اظہار کر رہا تھا بلکہ وہ پختہ یقین کر چکا تھا کہ ایسا ہی ہے۔ کیون کے اس مبینہ زہر دینے والے یقین نے ماہر نفسیات کے اندر کیون کی ذہنی صحت کے بارے میں شدید تشویش پیدا کر دی۔ اس واقعے کو جاننے کے بعد ماہر نفسیات نے فیصلہ کیا کہ وہ کیون کا اکیلے میں انٹرویو لے گا۔

🧠2nd Session🧠
🧠دوسرا سیشن🧠

ماہر نفسیات نے کیون کے رویے کو مکمل طور پر جاننے کے لئے ہر طرح کے سوالات کیئے تا کہ وہ اچھے سے اس کے مسئلے کو سمجھ سکے۔ دوسری طرف جوئس کو کیون کا یہ "زہر والا عقیدہ" سواۓ حماقت کے کچھ نہیں لگتا تھا اور نہ ہی وہ اس بات کو ماننے کو تیار تھی کہ اس حماقت کا اس کی ذہنی صحت سے کوئی تعلق ہے۔ جوئس نے بیان کیا کہ وہ کیون کو پندرہ سالوں سے جانتی ہے، اس سے پہلے اس نے کبھی کیون کو اس طرح کی باتیں کرتے نہیں دیکھا۔ جوئس کا کہنا تھا کہ کیون ایک " باشعور اور غیر معمولی طور پر حساس آدمی ہے"۔

کیون کے اس عقیدے کے باوجود جوئس یہ ماننے کو تیار نہیں تھی کہ کیون کو کوئی ذہنی مسئلہ ہے۔ وہ فل وقت صرف اپنے مالی حالات کو لے کر پریشان تھی اور یہی اصرار کرتی تھی کہ کیون کو اب اس حقیقت کا سامنا کر لینا چاہیے اور ان حماقتوں سے نکل کر اپنی جاب اور آنے والے بچے کے متعلق سوچنا چاہیے۔

اگلے کچھ ہفتوں میں کیون کی طبیعت مزید بگڑ گئی۔ وہ ہر چیز سے پیچھے ہوتا گیا اور اکثر وہ رات کے کھانے کے بعد اندھیر کمرے میں تنہا بیٹھا رہتا۔ اس کے علاؤہ جوئس نے بتایا کہ وہ کچھ عجیب وغریب باتیں کہتا ہے۔ جیسے کہ:

1: مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں نے اپنی سوچ کے ٹکڑے کھو دیئے ہیں۔

2: وہ کہتا تھا ایسا نہیں ہے کہ میری یادداشت فیل ہو گئ ہے، بلکہ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میرے دماغ کے کچھ حصے بند ہو گئے ہیں۔

🧠 Third Session 🧠
" تیسرا سیشن "

کیون کی حالت جاب پر مزید بدتر ہوتی گئ۔ کیون کے سپروائز نے اسے اطلاع دی کہ اس کا معاہدہ آگے نہیں بڑھایا جاۓ گا۔کیون نے گھر آ کر جب جوئس کے سامنے بلکل لاتعلقی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ یہ بری خبر دی تو وہ پھٹ پڑی۔ جوئس کے لئے اس کا یہ نارمل رویہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، زیادہ پریشان کن تھا۔ جوئس نے بتایا کہ جب اس نے اس خبر کی تصدیق کے لئے سپروائزر کو کال کی تو سپروائزر نے اس خبر کی تصدیق کرتے ہوۓ بتایا کہ کیون فیزیکلی تو لائبریری میں موجود ہوتا ہے لیکن وہ چند گھنٹے ہی صرف کام کرتا ہے۔ مزید اس نے بتایا کہ کیون کئ گھنٹے صرف ڈیسک پر بیٹھا رہتا ہے اور خلا میں گھورتا رہتا ہے اور اسے اکثر و بیشتر خود سے بڑبڑاتے دیکھا گیا ہے۔

🧠Fourth Session🧠
"فورتھ سیشن"

اگلے سیشن کے دوران کیون کی بات چیت میں بھی واضع تبدیلی محسوس کی گئی۔ پہلے وہ بولنا شروع کرتا اور پھر بولتے بولتے خاموشی میں چلا جاتا، اور پھر وہ ایک وقفے کے بعد دوبارہ کندھوں کو اچکاتے ہوۓ پریشان سی مسکراہٹ کے ساتھ دوبارہ رابطہ بحال کرتا۔بظاہر وہ اپنی سوچ کی پٹری سے اتر چکا تھا۔ اکثر جب اس سے سوال کیا جاتا تو وہ سوال کے جواب میں الٹ جواب دیتا اور جب کبھی وہ مختلف جملوں کو جوڑ کر کوئی بات کرتا تو وہ اتنی بے معنی ہوتی کہ اس کا پوچھے گئے سوال سے کوئی تعلق نہیں بن پاتا تھا۔

مثال کے طور پر سیشن کے دوران جب ماہر نفسیات نے کیون سے پوچھا کہ کیا وہ اپنے سپروائز کے سامنے اس کے فیصلے کے لئے اپیل دائر کرے گا؟

کیون نے جواب دیا!
"میں پریشر محسوس کر رہا ہوں، جیسے میں نے سب کھو دیا ہے اور کچھ کر نہیں سکتا۔مجھے گہرائی میں اترنے کے لئے مزید وقت چاہیے۔ جیسے کے آرٹ میں۔جب آپ قریب سے دیکھتے ہیں تو آپ سطح زیادہ واضح نظر آتی ہے۔ میں بھی اسی طرح کا ہوں۔ایک وجدانی آدمی۔ میں ایک لکیری طریقے سے تعلق نہیں رکھ سکتا اور جب لوگ مجھ سے ایسے تعلق کی امید رکھتے ہیں، تو میں الجھن کا شکار ہو جاتا ہوں۔"

🧠5th Session🧠

کیون کا "زہر دیئے جانے کا یقین" دن بدن بڑھتا ہی گیا۔ جوئس وارنر کو کیون کی ماں کا خط موصول ہوا جو ان سے تقریباً 200 میل کے فاصلے پر رہتی تھی۔ کیون کی ماں نے خط میں بتایا کہ گزشتہ دنوں سے وہ بیمار ہے اور اس کی بیماری کی وجہ باہر سے کھایا جانے والا کھانا تھی، جو اس نے کسی دعوت میں کھایا تھا۔ کیون خط کو پڑھنے کے بعد اس بات پر ایمان لے آیا کہ اس کے سپروائزر نے اس کی ماں کو بھی زہر دینے کی کوشش کی ہے۔

ماہر نفسیات سے جب اس نئے واقعے کے متعلق پوچھا گیا تو اس نے ایک طویل، عجیب و غریب سی کہانی سنائی۔کیون نے بتایا کہ اس کا سپروائزر ویتنام کا ایک رکن ہے لیکن اس نے مجھے اپنی سروس کے ان سالوں کے بارے میں بتانے سے انکار کر دیا تھا۔ کیون کہتا ہے مجھے شک ہے کہ اس نے مجھے اپنے بارے میں اس لئے نہیں بتایا کیونکہ وہ آرمی انٹیلیجنس کا ایک میمبر ہے۔ کیون نے یہ بھی کہا ہے کہ شاید وہ ابھی بھی اس آرگنائزیشن کا حصہ ہے۔ کیون نے یہ بھی تجویز پیش کی کہ اس کے سپروائز نے اس آرگنائزیشن کے کسی ایجینٹ کو بھیجا ہے، تا کہ وہ اس کی ماں کو زہر دے دے۔ کیون کی سوچ میں یہ بھی شامل تھا کہ اس کی اور اس کی بیوی جوئس کی جان کو خطرہ ہے۔ اسی طرح اسے ایشیائی باشندوں کے بارے میں بھی خدشات لاحق تھے لیکن اس نے واضح طور پر اس کا اظہار نہیں کیا۔

🧠6th Session🧠
🧠چھٹا سیشن🧠

کیون کے عجیب و غریب عقیدے اور غیر معمولی رویے کو دیکھتے ہوۓ ماہر نفسیات نے کیون کو ہسپتال میں داخل کروانے کی تجویز پیش کی۔ جوئس نے ناچاہتے ہوۓ بھی اس تجویز کو قبول کیا کیونکہ کیون کی حالت دیکھتے ہوۓ اس کے علاؤہ اور کوئی راستہ نہ تھا۔ انتظامات مکمل کرتے ہوۓ کیون کو ایک سائیکاٹرسٹ کے ہمراہ پرائیویٹ سائیکاٹرک ڈیپارٹمنٹ میں داخل کروا دیا گیا جہاں اسے اینٹی سائیکوٹک میڈیسن تجویز کی گئ۔ کیون ادویات کے زیر اثر مثبت رویہ اپنا رہا تھا اور اس نے زہر کے حوالے سے بھی بات کرنا بند کر دیا تھا لیکن وہ اس تبدیلی کے باوجود وہ بات چیت نہیں کرتا تھا اور نہ ہی وہ اس فیز سے باہر آیا تھا۔ تین ہفتے کے علاج کے بعد کیون کے سائیکاٹرسٹ کو محسوس ہوا کہ کیون میں اب نمایاں بہتری آئی ہے۔ کیون کو اس کی بیٹی کی پیدائش کے موقع پر ڈسچارج کر دیا گیا۔

بدقسمتی سے جب جوئس اور کیون اپنے گزشتہ ماہر نفسیات سے مل کے واپس آۓ۔ کیون کی ایڈجسٹمنٹ ابھی بھی ایک اہم تشویش تھی۔ وہ جوئس کے ساتھ زہر کے بارے میں اگرچہ گفتگو نہیں کرتا تھا لیکن جوئس نے محسوس کیا کہ وہ بچی کے بارے میں بھی چند غیر معمولی جذبات کا مظاہرہ کرتا تھا۔ جب ماہر نفسیات نے سیشن کے دوران کیون سے سوالات کیئے تو کیون نے ہچکچاتے ہوۓ یہ بیان کیا کہ اسے ابھی بھی یقین ہے کہ اسے زہر دیا گیا تھا۔ آہستہ آہستہ اس نے کچھ اور سازشوں کو بھی بیان کیا۔ اس نے بتایا کہ جب اسے ہاسپیٹل بھیجا گیا تھا تو اس کا سائیکاٹرسٹ چونکہ کوریا سے تعلق رکھتا تھا تو اس لئے وہ اس پر یقین نہیں کر سکا تھا۔

کیون نے کہا مجھے یقین تھا کہ یہ ڈاکٹر بھی آرمی انٹیلیجنس کا ہی ایک میمبر ہے اور ان کے کسی اوپریشن کا سرغنہ ہے۔ کیون نے کہا مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ یہ چالاک سائیکاٹرسٹ اس سے پوچھ گچھ کرے گا، اس لئے اس نے "گونگا کھیل" یعنی گونگے ہونے کی اداکاری کی تھی۔ اس لئے اس نے زہر والے واقعے اور مشکوک آرگنائزیشن کے بارے میں اپنے سائیکاٹرسٹ سے کوئی بات چیت نہیں کی تھی۔ اس لئے وہ جب بھی کیون کے پاس آتا تو کیون اس سے بچنے کے لئے دوا لینے کا بہانہ کر دیتا تھا۔ چونکہ کیون کو یہ یقین تھا کہ وہ بھی اس خفیہ آرمی کے ساتھ ملا ہوا ہے تو وہ ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوا بھی نہیں لیتا تھا کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ یہ دوا یاں تو زہر ہے یاں پھر اس سے سچ اگلوانے والا شربت، تا کہ وہ سب سچ بتا دے۔

🧠7th Session 🧠
🧠 ساتواں سیزن🧠

جب کیون کے مشکوک عقائد حد سے بڑھنے لگے تو اسے ایک مختلف ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا۔ اس بار کیون کو اینٹی سائیکوٹک میڈیسن کے انٹراسیلولر انجیکشن دیئے گئے اور یقینی بنایا گیا کہ دوا واقعے دی گئ ہے۔ کچھ ہفتے کے بعد ادویات اور سائیکو تھراپی کی مدد سے ہونے والے علاج سے کیون بہت حد تک صحت یاب ہو گیا۔ اس کامیابی کے ساتھ ساتھ کیون نے یہ بھی تسلیم کیا کہ اسے واقعے پیرانائڈ عقائد کا تجربہ کر چکا تھا۔ اپنے مرض کو پہچاننے اور ماننے کا نتیجہ یہ نکلا کہ کیون نے بیان کیا کہ اسے اب بھی ویسے ہی خیالات اور سوچیں آتی ہیں لیکن اب وہ کوشش کرتا تھا کہ وہ کم سے کم وقت اس بارے میں سوچتا اور نفسیاتی تکنیکس کو استعمال کرتے ہوۓ اپنی سوچوں کو مثبت سمت دے دیتا تھا۔

04/03/2024

غلط کون- شادی یا ہماری اپروچ؟

نیویارک ٹائمز میں سال 2016 کا سب سے زیادہ پڑھا جانے والا آرٹیکل "why you will marry the wrong person" میں فلسفی ایلن-ڈی-بوٹن نے جدید دنیا میں شادی اور اس سے متعلق مسائل پر قابلِ تعریف تبصرہ کیا ہے۔ ایلن شادی کی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے تین ادوار میں تقسیم کرتے ہیں۔ جدیدیت سے قبل عموماً شادیاں مذہبی فرقہ، ذات خاندان، جائیداد وغیرہ کو قابلِ غور رکھ کر کی جاتی تھیں (پاکستان میں آج بھی یہی طریقہ کار ہے)، اسے 'معقول شادی' (reasonable marriages) کا نام دیا گیا ہے جو یقیناً عقل کا ماتم ہے۔ کئی صدیوں تک چلنے والی جبرا اور تکلیف دہ خاندانی شادیوں کا متبادل اٹھارویں صدی کے اواخر میں 'رومانیت' کی شکل میں آیا۔ دو لوگ ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ اچھا محسوس کرتے ہیں، اپنے 'دل' کی سنتے ہیں اور شادی کر نے کا فیصلہ کر لیتے ہیں کیونکہ 'پیار' تو دل سے ہوتا ہے 'دماغ' سے نہیں! تاریخ دان رومانیت کو صدیوں چلنے والی شادیوں سے ملنے والے صدمے (trauma) کا ردعمل بتاتے ہیں۔ ان 'دل' سے کی جانے والی شادیوں کے انجام مغرب میں طلاق کی بڑھتی شرح اور ہمارے ارد گرد محبت کی شادی کے بعد اپنی پسند پر افسوس کرنے والے جوڑوں کو دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اصولاً اپنے من پسند انسان کو ہمسفر بنانے کے بعد مسائل کو حل ہوجانا چاہیے لیکن عموماً نتائج ہماری توجہ کے برعکس ہوتے ہیں۔ لوگ اپنے گرد و نواح میں غیر فعال اور ٹاکسک رشتوں کو دیکھ کر شادی کو کوستے ہیں، ازدواجی زندگی پر طنز و مزاح سے بھرپور چٹکلے بنائے جاتے ہیں اور شادی نہ کرنے کی تلقین بھی کی جاتی ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ مسئلہ کیا واقعی میں ازدواجی رشتے میں ہے یا پھر اس سوشل کانٹریکٹ کو لے کر ہماری سوچ اور اپروچ میں ہے؟

خود-آگاہی( self-awareness):

عموماً روشن خیال حضرات 'جنسی گھٹن' کو اپنی تحاریر میں غیر فعال شادیوں کی وجہ قرار دیتے ہیں، یہ وجہ شاید کسی حد تک درست بھی ہے لیکن محض جنسی گھٹن کو ٹاکسک رشتوں کی وجہ بتانا موزوں نہیں۔ سائیکالوجسٹ کہتے ہیں بچپن میں اپنے ارد گرد کے رشتوں کے باہمی تعامل اور والدین کی ایموشنل اسٹیٹ کو مثال رکھ کر بچے اپنا ایموشنل میپ (نقشہ) تشکیل دیتے ہیں اور بالغ ہوکر اس ایموشنل میپ پر چلتے ہوئے غیر شعوری طور پر ان رویوں اور لوگوں کی جانب مبذول ہوتے ہیں جو بچپن میں اپنے والدین کے رویوں سے میل کھاتے معلوم ہوتے ہیں۔ جسے ہم 'متوجہ' (attract) ہونا کہتے ہیں سائیکالوجسٹ اسے 'واقفیت' (familiarity) کا نام دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ماں/باپ جذباتی طور پر 'غیر دستیاب' یا 'قربت سے اجتناب' برتتے ہیں، بہت ممکن ہے اس طرز کے رویے کے زیر اثر رہنے والا بچہ بالغ ہوکر 'غیر دستیاب' اور 'لاپرواہ' لوگوں کی جانب متوجہ ہوگا کیونکہ اسکا ذہن خوشی، محبت اور رشتوں کو اسی رویے پر پرکھنے کا عادی ہوتا ہے۔ اب چاہے کتنی ہی جنسی آزادی دے دی جائے وہ بچہ بالغ ہوکر ایموشنلی غیر فعال لوگوں کی جانب بھاگتا رہے گا، نارمل اور ایموشنلی فعال لوگوں میں اسے کشش محسوس نہیں ہوگی وہ کبھی خود کو ان سے کنیکٹ نہیں کر پائے گا، وہ فطرتاً خود میں موجود خلا کو پر کرنے کی کوشش کرنا چاہتا ہے لیکن وہ اس 'واقفیت' والے جال سے نکل نہیں پاتا جس سے اسکی ذہنی تکلیف میں مزید اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ایسے کئی ان گنت نفسیاتی رویے ہم روز مرہ کی زندگی اور رشتوں میں فالو کرتے رہتے ہیں جس پر نہ کبھی ہم نے غور کرنے کی زحمت کی ہوتی ہے، نہ ہمارے والدین اور دوست۔

ہمارے ذہن میں موجود اس چکر ویو کو سمجھنے اور توڑنے کے لیے سب سے ضروری جز "خود-آگاہی" ہے۔ خود-آگاہی یعنی اپنے نفسیاتی رویوں کو سمجھنے اور پھر انہیں اپنی بہتری کے لیے بدلنے کا عمل۔ بچپن کے پڑھے ہوئے تکلیف دہ پاٹ ساری زندگی ساتھ لے کر چلنا ضروری نہیں۔ اگر آپ اپنے رویے، گمان، خیال اور احساسات کے پیٹرن سے واقف نہیں ہیں تو دوسروں کو سمجھنے اور ان سے اچھے ریلیشن شپز بنانے کی پوزیشن میں کبھی نہیں آسکتے۔

شادی- ایک انسٹی ٹیوشن:

نفسی معیشت دان (behavioral economist) ڈین ایریلے کی ریسرچ کے مطابق انسانوں کی روز مرہ زندگی کے فیصلے 'غیر معقول' ہوتے ہیں۔ ہمارے بہت اہم فیصلوں کے عقب میں بھی 'احساسات' ہوتے ہیں، منطق نہیں۔ شادی کی مثال ایک انتظامی ادارے کی ہے اور انتظامی ادارہ محض احساس سے نہیں بلکہ پلیننگ سے چلتا ہے، جہاں ملازمین ایماندار ہوں، اپنی ذمہ داریوں سے واقف ہوں۔ اگر افراد کے درمیان حقیقت پسندانہ، معیاری اور اچھی کمیونیکیشن نہ ہو تو ادارہ کمزور پڑنے لگتا ہے۔ بیشک احساس بھی ازدواجی زندگی کا ایک جز ہے، کسی بھی ریلیشن شپ کی شروعات میں ہمیں خوشی کا احساس ہوتا ہے مگر احساسات کی سب سے بڑی پرابلم یہ ہے کہ یہ بدلتے وقت کے ساتھ بدل جاتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں/ہمیں لگتا ہے کہ رشتوں کے اوائلی دنوں کی خوشی ہمیشہ قائم رہے، لیکن یہ ہماری کم علمی ہے۔ ازدواجی یا کوئی بھی رشتہ ہو، کچھ عرصے میں خوشی کی سطح نارملٹی کی طرف آنے لگتی ہے۔ اب آشکار ہوتا ہے رومانچ، جوش وجذبہ سکے کا ایک رخ تھا، دوسرا رخ 'بوریت' اور رشتوں کی ذمہ داریاں ہیں۔ ذمہ داریاں اور یکسانیت 'بوریت' کو جنم دیتے ہیں، اس احساس کو تاریخ دان اور فلسفی یووال نوح ہراری احساسات کی فہرست میں بہت تکلیف دہ اور مشکل احساس بتاتے ہیں۔ جن لوگوں کا تھرل، ایکسائیٹمنٹ اور فوری تسکین (instant gratification) کی طرف رجحان زیادہ ہو انہیں بوریت کو ہینڈل کرنے میں بہت مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، یہ وہ افراد ہوتے ہیں جن کے لیے شادی گلے کا کانٹا ہوتی ہے۔ فطرت کی ستم ظرفی یہ ہے کہ بوریت کا سامنا کیے بغیر کچھ بھی دلچسپ اور فائدہ مند حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ بور ہو کر پڑھنے والا طالب علم فوری تسکین کو رد کرکے مستقبل میں اچھے نتائج پر غور کرتا ہے۔ ریلیشن شپ کو بہتر بنانے کے لیے فوری تسکین (instant gratification) سے کنارہ کشی ضروری ہے۔ تکلیف، بے چینی، ناکامی، انتظار، بوریت جیسے تجربے سے گزرے بغیر اپنی ذہنی نشو نما کرنا ممکن نہیں۔ مشہور زمانہ پریکٹس 'میڈیٹیشن' (meditation) کیا ہے--- خود کو جان بوجھ کر بوریت کے تجربے سے گزارنا تاکہ ذہنی نشو ونما ہوسکے۔

شادی کی تیسری قسم: نفسیات کی شادی:

جدید سائنس، نالج اور انفارمیشن کے اس دور نے انسانی زندگی اور اس کی سوشل لائف کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ نفسیات اور رویوں سے منسوب سائنسی علوم نے انسانوں سے متعلق روایتی اور فرضی خرافات کو بے نقاب کیا ہے۔ محض رسم و رواج، ذات نسل، مالی تفصیلات، پیار محبت، جنسی جنون وغیرہ کی انفارمیشن کی بناء پر ہونے والے رشتوں کا انجام کئی نسلوں نے بھگتا ہے۔ یہ سطحی (لیکن ضروری) ہوم ورک ازدواجیت جیسے چیلنجنگ کانٹریکٹ کو چلانے کے لیے ناکافی ہے۔ وہ رشتہ جس میں اپنے اور دوسروں کے جذبات، احساسات، نفسیات کو پختگی اور خود-آگاہی کے ذریعے سے جانچا اور پرکھا جائے، اسے ایلن-ڈی-بوٹن 'نفسیات کی شادی' کہتے ہیں۔ ہم سب نامکمل اور عیب دار انسان ہیں۔ پرفیکشن فقط ہمارے ذہن کا فطور ہے، اسکا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ازدواجی ہی نہیں بلکہ کسی بھی اچھے رشتے کی بنیاد رکھنے کے لیے عدم تحفظ اور ضرب پذیری (vulnerability) پر بات کرنا بہت ضروری ہے۔ شاید بہتر ہو اگر ہم اپنی خوبیوں اور کامیابیوں کی ڈھارس بٹھانے کے ساتھ اپنی کمزوریوں اور زندگی کی اذیتوں کو بھی زیر بحث لائیں۔ "جنسیات کے ساتھ اگر نفسیات کا مطالعہ بھی کر لیا جائے تو مسائل کسی حد تک کم تکلیف دہ ہوسکتے ہیں۔"

شادی ایک ایجوکیشنل ٹاسک ہے، اس ایجوکیشن کی ذمہ داری ہماری ثقافت، اسٹیٹ اور معاشرے کے ذمے ہے۔ افسوس کہ ہمارے معاشرے میں شادی شدہ اچھے رول ماڈلز کا فقدان ہے۔ ازدواجی کانٹریکٹ پر حامی بھرنے سے پہلے اس کو سمجھنا بہت ضروری ہے کیونکہ ٹاکسک ریلیشن شپز آنے والی نسلوں کے لیے عذاب بن جاتے ہیں۔ ماڈرن انسانوں کے لیے ازدواجی رشتہ فقط جنسی عمل یا نسل بڑھانے کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ یہ رفاقت (companionship) ہے جس میں ہم آہنگی (compatibility) 'اولین شرط' نہیں بلکہ اس رشتے کا 'حاصل' ہے۔ اس میں بوریت، اکتاہٹ اور یکسانیت ہے لیکن اصلاح ذات کے بیش بہا مواقع بھی ہیں۔

Nida Ishaque

Address

293-C OPF Society
Lahore
0000

Opening Hours

Monday 15:00 - 21:00
Tuesday 09:00 - 17:00
Wednesday 09:00 - 17:00
Thursday 09:00 - 17:00
Friday 09:00 - 17:00
Saturday 09:00 - 17:00

Telephone

+33314947749

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Zainab Butt Clinical Psychologist posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Zainab Butt Clinical Psychologist:

Share

Category