Peer Hakim Javed Awan

Peer Hakim Javed Awan Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Peer Hakim Javed Awan, Doctor, 19b1jhortownlahore, Lahore.

✍✍ہاتھ پاؤں کی جلن دور کرنے کا علاج ✍✍   ہاتھ اور پاؤں کی جلن کی شکایات عام ہوتی ہیں۔ بعض اوقات یہ مسئلہ سردیوں میں بھی ...
18/07/2025

✍✍ہاتھ پاؤں کی جلن دور کرنے کا علاج ✍✍

ہاتھ اور پاؤں کی جلن کی شکایات عام ہوتی ہیں۔ بعض اوقات یہ مسئلہ سردیوں میں بھی جاری رہتا ہے ہیں جسکی وجہ سے لوگ ٹھنڈی غذائیں استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں جس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

دراصل یہ مسئلہ جگر کی کمزوری کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ۔جگر کی کمزوری کی وجہ سے صاف خون نہیں بنتا ۔چڑچڑاپن زیادہ رہتا ہے اور دن کے اوقات میں بھی نیند کا بہت غلبہ رہتا ہے۔ ہاتھوں اور پاؤں کی جلن سے بچنے کے لیے 125گرام خشک آملہ ، 50 گرام دیسی اجواین، 50 گرام نوشادر ، 50 گرام کلونجی ، 50کرام تخم کاسنی اور 50 گرام خشک ادرک کو اچھی طرح صاف کرکے نہایت باریک پیس لیں اور باہم ملا کر کسی بوتل میں محفوظ کرلیں۔ بوتل کا ڈھکن سختی سے بند ہو تاکہ دوا نمی سے محفوظ رہے۔ کھانے کے بعد آدھا چائے کا چمچ دوا تھوڑے سے پانی کے ساتھ استعمال کریں ۔خون کی کمی اور ہاتھ پاؤں کی جلن دور کرنے میں یہ نسخہ مفید ثابت ہوگا ان شاء اللہ تعالٰی۔۔۔

گیس ، ٹانگوں کا کھچاؤ ، درد سستی اور بیچینی وغیرہ کے لئے ھوالشافی۔،سنامکی صاف کی ہوئی 100 گرامسونٹھ 50 گرام،اجوائن دیسی ...
17/07/2025

گیس ، ٹانگوں کا کھچاؤ ، درد سستی اور بیچینی وغیرہ کے لئے
ھوالشافی۔،
سنامکی صاف کی ہوئی 100 گرام
سونٹھ 50 گرام،
اجوائن دیسی 50 گرام
سرخ پھول 50 گرام
فلفل سیاہ 20 گرام،
دانہ الائچی خورد 20 گرام
مصری 100 گرام ،
کالانمک 10 گرام
سب کا باریک سفوف بناکر رکھیں۔
استعمال نصف سے ایک چمچ چاۓ والا رات کو کھانا کھانے کے ایک گھنٹہ بعد پانی سے
فوائد !!!
قبض گیس اپھارہ معدہ کی گرانی،تیزابیت سانس کی گھٹن
خشکی سردی کی وجہ سے پیدا ہونے والی کمزوری، پٹھوں کا کھچاؤ
ٹانگوں میں کھچاؤ درد سستی بیچینی کام میں دل نہ لگنا
کھانا کھانے کے بعد مقام معدہ پر بوجھ دل گھبرانا،
متلی سی کیفیت ہونا معدہ سے بخارات دماغ کی طرف منتقل ہونا، جس کی وجہ سے آدھے سر میں شدید درد ہونا،قبض کی وجہ سے گیس بننا ٹانگوں میں درد ہونا وغیرہ
ان تمام تر امراض میں مفید ہے۔
بفضل خدا
فائدہ ہوگا
ان شاءاللہ

قہوہ شوگر جسم میں بلڈ شوگر لیول بڑھ جاتا ہے۔ پرانی سے پرانی شوگر آیورویدک نسخہ۔ پرانے حکیموں ویدوں کا نسخہ ہے۔ شوگر لیول...
17/07/2025

قہوہ شوگر
جسم میں بلڈ شوگر لیول بڑھ جاتا ہے۔
پرانی سے پرانی شوگر آیورویدک نسخہ۔ پرانے حکیموں ویدوں کا نسخہ ہے۔ شوگر لیول خواہ 350-400 ہو۔
صرف 10 دنوں میں ہی جسم سے شوگر ختم کر دے گا۔
کیسٹرول کو دور کرے اور بہت سے فوائد بلاکیج دور، امیونیٹی کو بڑھاتی ہے انفکشن دور
شوگر کنٹرول، انسولین بنائے گا۔
قبض دور کرے گا۔ جسم میں انرجی بنائے سستی کو بھگائے گا۔ ہڈیوں کو مضبوط بنائے، ہڈیوں کو مضبوطی دے ہڈیوں گھٹنوں اور کمر کے درد کو ختم کرے گا۔
اجزاء نسخہ اور ترکیب تیاری
پانی خالص دو گلاس
میتھی دانہ ایک بڑا چمچ
ہلدی پاؤڈر ایک چمچ
دارچینی دو چٹکی
تلسی کے پتے 4-5 پتے
الائچی خورد 2 عدد
لونگ دو عدد

سرعتِ انزال (جلد انزال) مردانہ کمزوری کی عام شکایت ہے، جو جسمانی، نفسیاتی یا مزاجی وجوہات کی بنا پر ہوتی ہے۔ اس کا مستقل...
23/05/2025

سرعتِ انزال (جلد انزال) مردانہ کمزوری کی عام شکایت ہے، جو جسمانی، نفسیاتی یا مزاجی وجوہات کی بنا پر ہوتی ہے۔ اس کا مستقل علاج ممکن ہے، مگر اس کے لیے مکمل حکمتِ عملی، پرہیز، نسخہ اور ذہنی سکون ضروری ہوتا ہے۔
---
وجوہات:
1. دماغی کمزوری، ٹینشن، ڈپریشن
2. اح**ام کی کثرت، مشت زنی کی عادت
3. قبض، معدہ کی خرابی
4. جریان، منی کی پتلاہٹ
5. شہوت کا حد سے زیادہ بڑھ جانا
---
علاج کے لیے مکمل حکمتِ عملی:
1. خوراک اور پرہیز:
تلی ہوئی، فاسٹ فوڈ، کولڈ ڈرنکس سے پرہیز
گرم مزاج اشیاء جیسے انڈہ، کلیجی، گاجر، دودھ، شہد، کھجور معتدل مقدار میں
قبض کا علاج کریں، سادہ غذا استعمال کریں
---
2. آزمودہ یونانی و ہربل نسخہ برائے سرعتِ انزال:
ھوالشافی
تخم کونچ (صاف شدہ): 50 گرام
تخم پیاز: 50 گرام
بہمن سفید و سرخ: 25-25 گرام
تخم تمر ہندی: 25 گرام
ثعلب مصری: 20 گرام
مصری یا شہد خالص: 250 گرام (معجون کے لیے)
طریقہ تیاری:
تمام اجزاء کو باریک پیس لیں، شہد میں مکس کر کے معجون بنا لیں۔
طریقہ استعمال:
روزانہ نہار منہ ایک چمچ تازہ دودھ کے ساتھ – کم از کم 40 دن استعمال کریں۔
---
3. بیرونی مالش (اگر عضو کمزور ہو):
روغن برائے قوتِ عضو:
اجزاء:
روغن تل: 50 ملی لیٹر
روغن لونگ: 5 ملی لیٹر
دارچینی کا تیل: 5 قطرے
طریقہ استعمال:
روزانہ سونے سے پہلے عضو خاص پر (مگر حشفہ یعنی ٹوپی پر نہیں) ہلکے ہاتھ سے 5 منٹ مالش کریں۔ گرم کپڑے سے ڈھانپ کر سو جائیں۔

ہڈیوں پر عملیات اور جادویی اعمال کا تقابلی جائزہتعارفہڈیاں (چاہے جانوروں کی ہوں یا انسانی) کئی تہذیبوں کی روحانی اور اوک...
27/04/2025

ہڈیوں پر عملیات اور جادویی اعمال کا تقابلی جائزہ

تعارف

ہڈیاں (چاہے جانوروں کی ہوں یا انسانی) کئی تہذیبوں کی روحانی اور اوکلٹ روایتوں میں ایک خاص مقام رکھتی ہیں۔ مرنے والے جاندار کی باقیات ہونے کی وجہ سے ہڈیاں زندگی اور موت کے درمیان ایک علامتی پل سمجھی جاتی ہیں۔ بہت سی ثقافتوں میں مانا جاتا ہے کہ ہڈی کے ذریعے زمینی اور روحانی جہانوں کے درمیان رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے اور اس سے اس جانور یا انسان کی پوشیدہ طاقت اخذ کی جا سکتی ہے جس کی وہ ہڈی ہے۔ تاریخی طور پر بھی کاغذ یا چمڑے کی عدم دستیابی کے سبب ہڈیوں پر تحریر کا رواج رہا (مثلاً ابتدائی اسلامی دور میں اونٹ یا دیگر جانوروں کی کتف کی ہڈیوں پر نوشتہ جات تحریر کیے جاتے تھے)۔ ہڈیوں کا بے جان مگر دیرپا ہونا، ان کا موت سے جڑا ہوا تصور اور ان سے وابستہ خوف و پراسراریت وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر عاملین اور جادوگر ان کو تعویذ، تحفظ، تسخیر یا نقصان دہ جادوئی اعمال کے واسطے استعمال کرتے آئے ہیں۔ ذیل میں اسلامی، ہندو، افریقی اور مغربی روایتوں میں ہڈیوں کے ذریعے عملیات کا تفصیلی جائزہ پیش ہے، جس میں تاریخی پس منظر، روحانی عقائد، مختلف ہڈیوں کی نسبت سے منسوب تاثیرات، مخصوص رسوم و طریقے، اور ان کے نفسیاتی و روحانی اثرات پر گفتگو کی گئی ہے۔

اسلامی روایت میں ہڈیوں کا استعمال

اسلامی تعلیمات میں جادو (سحر) کی ممانعت ہے، تاہم تاریخی اور عوامی سطح پر کچھ لوگوں نے ممنوع طریقوں سے ہڈیوں کو بھی عملیات میں استعمال کیا ہے۔ خود عہدِ نبویؐ میں قرآن کے بعض اجزاء جانوروں کی ہڈیوں (مثلاً اونٹ کی کتف) پر لکھے گئے، جو بعد میں قرآن کی جمع و تدوین کا حصہ بنے۔ چنانچہ ہڈی پر لکھائی کا تصور قدیم عرب میں موجود تھا۔ روحانی اعتبار سے اسلامی روایت میں ہڈیوں کا ایک تعلق جنات سے بھی بیان ہوا ہے: حدیث میں آتا ہے کہ ہڈیاں اور گوبر جنات کی خوراک ہیں۔ اس روایت سے عوام الناس میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ ہڈیوں پر کچھ پڑھ کر رکھ دینے یا انہیں جادو کے لیے برتنے سے جنات یا ماورائی مخلوقات متأثر ہو سکتی ہیں۔ چنانچہ بعض عامل ہڈیوں کو بطور وسیلہ استعمال کر کے جنوں کو حاضر کرنے یا ان کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خاص طور پر حرام اور ناپاک سمجھی جانے والی اشیاء استعمال کرکے شیطانی قوتوں کو خوش کرنا ایک حربہ ہے؛ جیسے کچھ لوگ خنزیر کی ہڈی کو بطور تعویذ گلے میں ڈال کر یا پاس رکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے کالے جادو سے حفاظت ہوگی، لیکن اسلامی علماء کے نزدیک یہ ناجائز اور الٹا شیطانی اثرات کو دعوت دینے والا کام ہے (کیونکہ خنزیر کی ہڈی ناپاک ہونے کے سبب شیاطین کو متوجہ کرتی ہے)۔

اسلامی دنیا میں ہڈیوں پر تعویذ یا طلسم تحریر کرنے کے شواہد بھی موجود ہیں۔ شمالی افریقہ کی دیہی روایت میں شولڈر بلیڈ (کتف کی ہڈی) پر قرآنی آیات یا اسماء لکھ کر گھر کی کھڑکیوں اور دروازوں پر لٹکایا جاتا تھا یا پاس رکھا جاتا تھا تاکہ زہریلے جانور سے حفاظت ہو۔ 1920ء میں الجزائر کے علاقے الاوراس (Aurès) میں ایک عامل نے بھیڑ کی دائیں کتف کی ہڈی پر عربی میں عبارت کندہ کر کے تعویذ بنایا تھا تاکہ بچھو کے ڈنک سے گھر والے محفوظ رہیں۔ روایت تھی کہ بعض کاتب مخصوص ہڈی پر ایسے الفاظ و نشانات لکھ سکتے ہیں جن کی برکت سے آدمی زہریلے بچھو تک کو ہاتھ سے پکڑ سکتا ہے اور وہ نقصان نہیں پہنچاتا۔ گویا ہڈی یہاں محافظ تعویذ کا کام کرتی تھی۔ دوسری جانب، اسی خطے کی کالی علمی روایت میں مخالف مقصد کے لیے بھی کتف کی ہڈی کا استعمال ملتا ہے۔ جدید تحقیقات کے مطابق عرب و مسلمان ساحروں کے ہاں میمنے یا بکرے کی کتف پر مخصوص نفرت انگیز عبارات کھود کر اور ان پر نحوست بھرے مادے (گندھک وغیرہ) کی دھونی دے کر ایک بندش کا عمل کیا جاتا ہے جس کا ہدف کسی دو انسانوں کے درمیان دائمی جدائی ڈالنا ہوتا ہے۔ اس عمل میں ہڈی کو سیاہ کپڑے میں لپیٹ کر ویران جگہ دفن کر دیا جاتا ہے تاکہ نفرت اور جدائی کا اثر زمین پکڑ لے اور ٹوٹ نہ سکے۔ بعض اوقات اس مقصد کے لیے ہڈی پر سورہ الانشقاق کی آیات بھی پڑھ کر دم کی جاتی ہیں (تعویذ کو اسلامی رنگ دینے کی کوشش)، حالانکہ یہ صریحاً حرام استعمال ہے۔ محبت کے کالے جادو میں بھی ہڈی کا استعمال ملتا ہے: مثلاً ایک عمل میں سیاہ مرغی کی ہڈی لی جاتی ہے اور اس پر مخصوص اسماء نقش کرکے جنات کو مسخر کیا جاتا ہے تاکہ مطلوبہ فرد پر عشق کا ایسا اثر ہو جائے جو مرتے دم تک نہ ٹوٹے۔ اس ہڈی کو پھر ایک تعویذی لبادے میں لپیٹ کر قبرستان میں دفن کیا جاتا ہے تاکہ “قبر کی پراسرار مستقل توانائی” اس بندھن کو ہمیشہ کے لیے قائم رکھے۔ ان مثالوں سے واضح ہے کہ اسلامی تہذیب میں ہڈیوں کا استعمال دو انتہاؤں پر ہے: حفاظتی اور رحمانی تعویذات (جیسے قرآنی آیات کتبوں پر) اور سفلی یا شیطانی عملیات (جیسے حرام یا مردار ہڈیوں پر منحوس طلسمات)۔

نفسیاتی طور پر مسلمان معاشروں میں ہڈیوں سے مربوط عملیات کا خوف یا اثر دوہرا ہے۔ ایک طرف جو لوگ تعویذ پر یقین رکھتے ہیں، وہ جب ہڈی پر آیات یا نقش کندہ دیکھتے ہیں تو ان کے دل میں ایک غیبی تحفظ کا احساس جنم لیتا ہے، اور یہ یقین ان کے حوصلے کو تقویت دیتا ہے۔ دوسری طرف، سفلی ہڈی کے جادو کا شکار افراد (یا ان کے گھر والے) جب گھر کے آس پاس زمین میں دبی کوئی مشکوک ہڈی یا ہڈی سے بنا تعویذ برآمد کر لیں تو شدید خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ایسے واقعات عام ہیں کہ دشمنی کی بنیاد پر کسی کے گھر کے صحن یا دروازے کے قریب ہڈیوں پر بندش کر کے دفن کر دی گئی اور اہل خانہ کو بیماری، لڑائی جھگڑے یا بے سکونی کی شکایت رہنے لگی۔ چونکہ اسلامی عقیدے میں بھی جادو کے حقیقی اثرات کا ذکر موجود ہے (مثلاً قرآن میں سورۃ البقرہ آیت 102 کے مطابق بعض لوگ میاں بیوی میں جدائی ڈالنے کا جادو کیا کرتے تھے)، اس لیے لوگ ان سفلی ہڈیوں کے ملنے کو بہت نحوست کی علامت سمجھتے ہیں۔ البتہ اسلامی تعلیمات ایسے اثرات سے حفاظت کے لیے رقیہ (قرآنی دم)، ذکرِ الٰہی اور توکل علی اللہ پر زور دیتی ہیں نہ کہ کسی ہڈی یا تعویذ کے توڑ پر۔

اسلامی علمی روایت میں ہڈیوں سے متعلق چند حوالہ جاتی کتب و حکایات بھی ملتی ہیں۔ مثال کے طور پر احمد البونی کی کتاب شمس المعارف اور دیگر قرونِ وسطیٰ کی عربی کتبِ سحر میں ہڈی، خون، گوشت جیسی چیزوں سے موکلین کو قابو کرنے کے طریقے بیان کیے جاتے ہیں۔ عوامی سطح پر “جنات کو ہڈیاں ڈالنا” ایک محاورہ بھی رہا ہے، جو اسی تصور سے نکلا کہ ہڈیاں جنات کو مرغوب ہیں۔ الغرض، اسلامی پس منظر میں ہڈیوں کا جادوئی استعمال ایک متوازی اعتقادی نظام کا حصہ ہے جو اصل مذہبی تعلیمات سے متصادم مگر تاریخی و سماجی طور پر موجود رہا ہے۔

ہندو روحانی و طلسماتی روایات میں ہڈیوں کا کردار

ہندو دھرم اور اس سے وابستہ متعدد تصوفی و تانترک روایات میں بھی ہڈیوں کو نہایت مقدس اور طاقتور مانا گیا ہے، خصوصاً انسانی ہڈیاں جو شمشان (جائے ستی) سے حاصل ہوتی ہیں۔ برِصغیر میں ہڈیوں کے استعمال کا تصور زیادہ تر تانتریک روایت اور آghori فرقے سے جڑا ہے۔ آغوری سادھو شیوا کے پجاری ہیں جنہوں نے روایتی سماجی بندھن اور پاکیزگی کے تصورات کو ترک کر کے شمشان گھاٹوں میں بسیرا کیا ہوتا ہے۔ ان کا فلسفہ الغرضی (Advaita) ہے یعنی ہر چیز کو ایک ہی حقیقت کا حصہ سمجھنا، اس لیے پاک و ناپاک، اچھا و برا جیسی تمیز کو یہ وہم قرار دیتے ہیں۔ آغوریوں کی تاریخ کم از کم پندرھویں صدی عیسوی تک پیچھے جاتی ہے، اور بعض روایات انہیں قدیم کapalika (کپالک، یعنی کھوپڑی بردار) سادھوؤں کا روحانی جانشین قرار دیتی ہیں۔ آغوری سادھو شعوری طور پر مردہ جسموں، ہڈیوں اور راکھ کے درمیان رہ کر ریاضت کرتے ہیں تاکہ عام انسانوں میں پائی جانے والی موت اور گندگی کی خوف کو شکست دے سکیں۔ شمشان میں لاشوں کے درمیان دھیان لگانا اور انسانی کھوپڑیوں سے بنے برتن (کپال) میں شراب یا پانی پینا ان کے معمولات میں شامل ہے۔ کئی آغوری اپنے جسم پر مردوں کی راکھ ملتے ہیں اور انسانی کھوپڑیوں کی مالا گلے میں ڈالتے ہیں، جسے وہ تزئین نہیں بلکہ یاددہانی کا ذریعہ سمجھتے ہیں کہ زندگی عارضی ہے اور موت ہر چیز کا انجام ہے۔ ہڈیوں سے یوں گھِرے رہنے کو آغوری “بھےرَو” (بھیرؤ) یعنی خوف پر قابو پانے کا ذریعہ مانتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ جب آدمی شمشان کی ہولناکیوں سے نہیں ڈرتا تو دنیا کی کسی شے کا خوف بھی اس کے دل سے نکل جاتا ہے۔ اس نفسیاتی مواجهے کو وہ روحانی بالیدگی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔

روحانی نقطۂ نظر سے ہندو دھرم میں ہڈیوں کو بھگوان شیو اور دیوی کالی جیسی طاقتور الوہی ہستیوں سے بھی منسوب کیا گیا ہے۔ دیوی کالی کو اکثر انسانی کھوپڑیوں کی مالا پہنے دکھایا جاتا ہے – اس کا علامتی مطلب یہ ہے کہ وہ کائنات کے تباہ کُن پہلو اور انسانی انا کے خاتمے کی طاقت کی نمائندہ ہیں۔ ہندو عقیدے کے مطابق کالی کا یہ بھی روپ ہے کہ وہ دنیاوی غفلت اور منفی سوچ کا خاتمہ کرتی ہیں اور اپنے گلے میں لٹکی کھوپڑیوں کے ذریعے یاد دلاتی ہیں کہ آخرکار موت ہی ہر جھوٹے فخر کا انجام ہے۔ چنانچہ کھوپڑی یا ہڈی یہاں خوفناک ضرور ہے لیکن اس کا مقصد روحانی بیداری (موکش/نروان) ہے۔ آغوری بھی کالی اور شیو کے اسی فلسفے پر عمل کرتے ہوئے شمشان میں ریاضت کرکے مہامکتی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

عملی اعتبار سے دیکھا جائے تو تنتر منتر کی کئی رسوم میں مخصوص ہڈیوں کا استعمال ملتا ہے۔ آغوری انسانی جسم کے مختلف حصوں کو روحانی تجربات کے لیے استعمال کرتے ہیں: انسانی کھوپڑی کو یہ لوگ کشکول یا پیالے کے طور پر کام میں لاتے ہیں، جسے کپالا کہتے ہیں۔ ہڈیوں (خصوصاً کھوپڑی یا لمبی ہڈیوں) کو بجا طور پر آغوری اپنے ساتھ رکھتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک ان میں ماورائی طاقت جذب کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ مشہور ہے کہ آغوری کبھی شمشان سے تازہ لاش کی ایک دو ہڈیاں اٹھا کر رکھتے ہیں اور ان پر منتر جپتے ہیں تاکہ اس مرنے والے کی آتما یا کوئی بھوت ان کے قابو میں آجائے۔ ایسے بھوت پریت کو یہ اپنے “خدمت گار” کے طور پر بدنظری اتارنے یا بیماری ٹھیک کرنے میں استعمال کرتے ہیں – کم از کم ان کا یہ دعویٰ ہے کہ انہوں نے شمشان کی ریاضت سے روحانی قوتیں حاصل کی ہیں جن سے وہ لوگوں کے ذہنی و جسمانی امراض ٹھیک کر سکتے ہیں۔ انسانی ہڈیوں کے علاوہ بعض ہندوستانی جادو ٹونے میں مخصوص جانوروں کی ہڈیوں کی تاثیر کا ذکر بھی ملتا ہے۔ مثلاً دیہی توہمات میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ اگر کسی کالا بکرا یا بلا (بلی) مر جائے تو اس کی ایک ہڈی ایسے عمل میں کام آ سکتی ہے جو حاملِ طِلسم ہو – عوام میں مشہور ہے کہ جو شخص ایک خاص بلی کی ہڈی حاصل کر لے (عمومًا “بِلّی کی ہڈی” محاورہ بنا دیا گیا ہے)، وہ غائب بھی ہو سکتا ہے یا اُس پر عام جادو ٹونے اثر نہیں کرتے۔ اگرچہ یہ بات زیادہ تر قصّوں اور کہانیوں میں ہے، لیکن کچھ ٹونے باز آج بھی بلی یا کتے جیسے جانوروں کی ہڈی کو قبرستان کی مٹی کے ساتھ باندھ کر مخالفین پر آسیب بھیجنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ہندو تنتر میں الو (الو کی چونچ یا ہڈیاں) اور اُلو جیسی اشیاء کو دیوی کالی اور بھگوان شیو کے “بھوت پریت” دربار کے لیے نذرانہ مانا جاتا ہے، تاکہ کالے عمل کی طاقت بڑھے۔ بعض کالی ماتا کے مندر کے پجاریوں پر انسانی کھوپڑی سے شراب پینے اور گوشت کھانے کا بھی الزام رہا ہے، جس کا مقصد اندرونی خوف کو مارنا اور دیوی کی انتہا پسندانہ رضا حاصل کرنا بتایا جاتا ہے۔

ہڈیوں کے ان استعمالات کا فرد اور معاشرے پر نفسیاتی اثر بھی گہرا ہے۔ جو آغوری یا تانترک اس راہ پر چلتے ہیں، ان کے لیے شمشان میں ہڈیوں کے ساتھ وقت گزارنا ایک سخت تزکیہ نفس کا عمل ہے – وہ اپنی ذات سے کمزوریوں اور موت کے ڈر کو نکال پھینکتے ہیں۔ یہ ایک طرح کی “نفسیاتی شرطی تربیت” ہے جہاں خوف کو خوفناک ماحول کا حصہ بنا کر نارملائز کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف عام ہندو سماج آغوریوں کو خوف اور عقیدت کے ملے جلے جذبات سے دیکھتا ہے۔ بہت سے لوگوں کو ان کا کھوپڑیوں کے ساتھ بیٹھنا یا مردار کھانا انتہائی دہشت ناک لگتا ہے، لیکن کچھ عقیدت مند سمجھتے ہیں کہ ان سادھوؤں نے روحانیت کی خاطر یہ شدید راستہ اختیار کیا ہے اس لیے ان سے فیض مل سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ آغوری سادھو کے پاس جا کر اپنی بیماری یا پریشانی کا حل پوچھتے ہیں – سادھو شمشان کی ہڈیاں “پھینک کر” یا آگ میں جھونک کر بتاتا ہے کہ آسیب ہے یا دوا کی ضرورت۔ اس طرح آغوری یا تانترک ہڈیوں کے سہارے ایک طرف اپنے اندر کی اصلاح کرتے ہیں تو دوسری طرف عوام میں اپنی پراسرار شناخت کی بدولت اثر قائم کر لیتے ہیں۔

افریقی روایتوں میں ہڈیوں کی جادوئی اہمیت

افریقی روایات میں ہڈیوں کا استعمال زیادہ تر دو بڑے مقاصد کے گرد گھومتا ہے: ایک عطائی علمِ نجوم/غیب (Divination) یعنی قسمت یا مستقبل کا حال جاننا، اور دوسرا دوا ٹونے یا جادو (جادو ٹوٹکا) کے ذریعے کسی مقصد کا حصول۔ افریقی قبائل کے روایتی حکیم اور عامل، جنہیں جنوبی افریقہ میں سنگوما (Sangoma) کہا جاتا ہے، ہڈیوں اور دیگر اشیا کو پھینک کر فال نکالتے ہیں۔ اسے عام زبان میں "بون تھروئنگ" (ہڈی پھینکنا) کہا جاتا ہے۔ جنوبی، مشرقی اور مغربی افریقہ کے بہت سے معاشروں میں یہ صدیوں پرانا طریقہ ہے۔ ایک سنگوما مختلف جانوروں کی چھوٹی ہڈیوں کا مجموعہ اپنے پاس رکھتا ہے جن کے ساتھ بعض اوقات خ*ل (سیپی)، بیج، لکڑی کے ٹکڑے اور دیگر چھوٹے اشیا بھی شامل ہوتی ہیں۔ یہ ہڈیاں عام طور پر شیر، بابون (بندر کی ایک قسم)، لکڑبگّھے، جنگلی سور، سانپ وغیرہ جیسے جانوروں کی ہوتی ہیں۔ ہر جانور کی ہڈی ایک مخصوص علامتی معنی رکھتی ہے – جیسے لکڑبگھے کی ہڈی چور یا رات کے دھوکے کی علامت ہے، شیر کی ہڈی طاقت یا قیادت کی، بابون کی ہڈی خانگی معاملات یا آباء کی، وغیرہ۔ فال نکالتے وقت سنگوما ان تمام اشیا کو اپنے ماتھے یا سانس سے چھو کر زمین پر بچھے ایک دائرے میں پھینک دیتا ہے۔ پھر جس انداز سے ہڈیاں اور دیگر چیزیں گری ہوتی ہیں، ان کے باہمی محلِ وقوع اور سیدھ کو مدِنظر رکھ کر پیشن گوئی یا تشخیص کی جاتی ہے۔ افریقی عقیدے کے مطابق اس عمل میں دراصل ان کے آباء و اجداد کی روحیں رہنمائی کرتی ہیں – یہ ہڈیاں محض ذریعہ ہیں جن کے ذریعے نیا پیغام یا اشارہ سامنے آتا ہے۔ سنگوما عام طور پر یہ عمل کسی مریض یا حاجت مند کے سوال کے جواب میں انجام دیتے ہیں تاکہ اس کے مسئلے کی جڑ اور حل معلوم کیا جا سکے۔ اس دوران وہ آبائی ارواح سے مدد کے لیے دعا بھی کرتے ہیں اور بعض روایتی منتر پڑھتے ہیں۔ اس طرح ہڈیوں کے اسOracle (فال گیری) نظام کو افریقی معاشروں میں وہی درجہ حاصل ہے جو کسی جگہ تاروت کارڈز یا نجومیوں کا ہے۔ آج بھی جنوبی افریقہ کی آبادی کا بڑا حصہ پہلے ڈاکٹر کے بجائے ایسے روایتی حکیموں سے رجوع کرتا ہے – اندازاً 60 فیصد لوگ ان سے مشورہ لیتے ہیں اور ملک میں دو لاکھ کے لگ بھگ پریکٹیشنرز ہیں۔

اجداد پرستی (Ancestor Worship) افریقہ میں روحانیت کا مرکز ہے، اور ہڈیاں اس میں اہم وسیلہ مانی جاتی ہیں۔ بہت سی برّاعظمی افریقی ثقافتوں میں یہ رواج تھا کہ اپنے معزز بزرگوں کی کھوپڑی یا ہڈیاں سنبھال کر رکھی جائیں اور وقتاً فوقتاً ان سے رہنمائی مانگی جائے۔ مغربی افریقہ کے کچھ قبائل میں مخصوص زیورات اور تعویذ انسانی ہڈیوں سے بنتے تھے تاکہ مرحوم رشتہ دار کی برکت خاندان کی حفاظت کرتی رہے۔ مثلاً نائجیریا اور بینن کے قبائل فون اور فا (Fon, Fa) میں شاہی آباء کی کھوپڑیوں کو خصوصی لکڑی کے ڈبوں میں محفوظ کر کے ان کی پوجا کی جاتی تھی تاکہ سلطنت پر ان کی نظرِ کرم رہے۔ اسی طرح کانگو کے علاقے میں نکیسی نامی تعویذ یا مجسموں میں انسانی ہڈیاں یا کھوپڑیاں نصب کی جاتی تھیں جنہیں جادوگر روحوں کو بند کرنے یا ان کی طاقت استعمال کرنے کے لیے کام میں لاتے تھے۔ یہ تمام روایات اس بنیادی یقین سے جنم لیتی ہیں کہ ہڈی اپنے اصل مالک (جانور یا انسان) کی ’’روحانی چھاپ‘‘ کو برقرار رکھتی ہے اور یوں ایک ذریعہ کے طور پر استعمال ہو سکتی ہے۔ جدید سنگوما بھی کہتے ہیں کہ ہڈیاں زمینی دنیا اور فطری جڑوں سے قریب ترین چیزیں ہیں اور ان کے ذریعے اجداد آسانی سے اپنی بات سمجھا سکتے ہیں۔

افریقہ میں ہڈیوں کا استعمال صرف پیشین گوئی یا حفاظت تک محدود نہیں بلکہ تخریبی اور ہولناک مقاصد کے لیے بھی ہوتا آیا ہے۔ بعض مقامی جادوگر (جنہیں استعمار کے دور میں Witch-Doctors کہا گیا) مانتے ہیں کہ انسانی جسم کے اعضا، خصوصاً ہڈیاں، زبردست سفلی طاقت رکھتے ہیں۔ اس عقیدے نے کئی المیوں کو جنم دیا ہے۔ مشرقی اور جنوبی افریقہ میں آج بھی کچھ علاقوں میں البینوز (ناسور/رنگت سے محروم افراد) کو اغوا یا قتل کر کے ان کی ہڈیاں اور دیگر اعضا کالے جادو میں بیچے جاتے ہیں۔ مفسر توہم یہ ہے کہ ان ہڈیوں کو پیس کر یا مخصوص جگہوں پر دفن کر دینے سے دولت، فصل یا معدنیات کی تلاش میں کامیابی ملتی ہے۔ مثال کے طور پر تنزانیہ اور ملاوی وغیرہ میں سونے کے کان کن بعض اوقات کسی البینو انسان کی ہڈی کو اپنی کان میں دفن کر دیتے ہیں تاکہ “زمین کی روح” خوش ہو کر انہیں قیمتی پتھر عطا کرے۔ ایسے ہی مچھیرے سمجھتے ہیں کہ کسی البینو کی ہڈی یا بال کو جال میں بُننے سے مچھلیاں جال کی طرف کھنچی چلی آئیں گی۔ یہ مکروہ کاروبار اتنا بڑھا کہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو مداخلت کرنی پڑی ہے۔ علاوہ ازیں، افریقی ٹوٹکوں میں جانوروں کی ہڈیوں سے مختلف اثرات منسوب ہیں: شیر یا تیندुए کی ہڈیاں طاقت، بہادری اور شان بڑھانے کے تعویذات میں لگائی جاتی ہیں، لگڑ بگڑ کی ہڈی چوری یا پوشیدہ کارروائیوں کے لیے (کیونکہ وہ رات کا شکاری ہے)، سانپ کی ہڈیاں دشمن کو زیر کرنے یا بیماری منتقل کرنے کے لیے (سانپ کے زہر کی مناسبت سے)، وغیرہ۔ بعض افریقی پادری یا سردار اپنے تخت یا عصا کو مقدس بنانے کے لیے اس میں کسی شیر یا ہاتھی کی ہڈی کا حصہ جوڑ لیتے تھے تاکہ جانور کی روح ان کی حفاظت کرے۔ افریقی ووڈو (Voodoo) اور ہوڈو (Hoodoo) روایت – جو دراصل افریقی اور عیسائی عقائد کا امتزاج ہے – میں بھی جانوروں کی ہڈیاں (مثلاً مرغی کے پنجوں کی ہڈیاں) آسیب پہنچانے یا دفاعی جادوئی تھیلے (Gris-gris) میں رکھی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر مرغی کا پنجہ (chicken foot) بعض مقامات پر منحوس جادو میں استعمال ہوتا ہے تاکہ مخالف کو آسیب پہنچے، یا اسے گھر کے دروازے پر لٹکا دینے سے دشمن کی بدروحیں اندر داخل نہیں ہوتیں (یہ ایک عوامی عقیدہ ہے)۔

افریقی معاشرے میں ان ہڈیوں کے عملیات کے نفسیاتی اور سماجی اثرات نمایاں ہیں۔ ایک طرف، روایتی ہڈی پھینکنے والے سنگوما دیہی آبادی کے لیے حکیم، مشیر اور کاہن کا درجہ رکھتے ہیں۔ جب کوئی شخص اپنی تکلیف لے کر سنگوما کے پاس جاتا ہے اور وہ ہڈیوں کی بنیاد پر اسے بتاتا ہے کہ مثلاً اس کے کسی رشتہ دار کی روح ناراض ہے یا کسی نے اس پر جادو کیا ہے، تو کلائنٹ کو اپنی الجھن کا ایک ٹھوس سبب مل جاتا ہے۔ یوں اسے ذہنی سکون بھی ملتا ہے اور ایک لائحہ عمل (جو عموماً کسی رسم یا جڑی بوٹیوں کے علاج کی صورت میں ہوتا ہے) بھی۔ یہ یقین کہ بزرگوں کی روحیں رہنمائی کر رہی ہیں، مریض کے اعتماد کو بحال کرتا ہے۔ دوسری طرف، جہاں تخریبی مقاصد کے لیے ہڈیوں کا سفلی استعمال ہوتا ہے، وہاں خوف اور دہشت پھیل جاتی ہے۔ تنزانیہ کے البینو افراد ہر وقت دھڑکے میں رہتے ہیں کہ کہیں انہیں شکار کر کے ان کی ہڈیاں نہ بیچ دی جائیں۔ بہت سے افریقی معاشروں میں اگر کسی کو گھر کے صحن میں جانور کی ہڈیوں یا خون کے چھڑکاؤ سے بنی کوئی “وٹ́کرا” ملے تو وہ سمجھ جاتے ہیں کہ ان پر جادو ٹونا کیا گیا ہے، اور پھر پورا خاندان خوفزدہ رہتا ہے جب تک کسی عامل سے اس کا توڑ نہ کرا لیں۔ اس طرح ہڈی، جو کبھی نیوگ (totem) کے طور پر تحفظ کا احساس دیتی تھی، وہی ہڈی ایک اور سیاق میں دہشت کی علامت بن جاتی ہے۔ مجموعی طور پر، افریقی ثقافت میں ہڈیوں پر مبنی جادو ایک دو دھاری تلوار ہے: ایک طرف یہ روایت و شناخت کا حصہ ہے اور روحانی شفا و مشورے کا ذریعہ، اور دوسری طرف بعض جگہوں پر یہ معاشرتی برائیوں اور جرائم سے جڑا ہوا بھی ہے۔

مغربی (یورپی و امریکی) اوکلٹ روایات میں ہڈیوں کے عملیات

یورپ اور بعد ازاں امریکہ کی جادوگری اور اوکلٹ روایتوں میں ہڈیوں کا استعمال بڑے پیمانے پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ قرونِ وسطیٰ سے لے کر جدید لوک کہانیوں تک، انسانی اور حیوانی ہڈیاں جادو ٹونے، سفلی عمل اور حتیٰ کہ مقبول توہمات کا حصہ رہی ہیں۔ مغربی جادوئی روایت میں ہڈیوں کا استعمال چند اہم پہلو رکھتا ہے: necromancy (مردوں کی روح سے رابطہ)، شگون یا فالگیری، تعویذ اور نحوست پھیلانے والے منتر، وغیرہ۔

یورپی لوک روایت اور چڑیل کہانیاں: یورپ کے کئی خطّوں میں یہ عقیدہ تھا کہ چڑیلیں (Witches) اور جادوگر مخصوص جانوروں کی ہڈیوں سے غیر مرئی ہونے، پرواز کرنے یا دوسروں کو قابو کرنے کی طاقت حاصل کرتی ہیں۔ ایک مشہور عوامی حکایت "کالی بلی کی ہڈی" کی ہے۔ کہا جاتا تھا کہ اگر کوئی شخص ایک کالی بلی کو مخصوص طریقے سے مار کر اس کا ڈھانچہ حاصل کرے اور پھر اس کی ایک خاص ہڈی چن لے، تو اس ہڈی کو ساتھ رکھنے سے اسے جادوئی طاقتیں مل جائیں گی۔ امریکی لوک قصوں کے مطابق ایسی “چڑیل کی ہڈی” (Witch’s bone) سے انسان من چاہے لوگوں (خصوصاً مویشیوں یا عورتوں) کو اپنے قابو میں کر سکتا ہے، دروازے خودبخود کھول سکتا ہے، دشمن کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور یہاں تک کہ رات کے وقت پوشیدہ ہو کر پرواز بھی کر سکتا ہے۔ یہ یقین صرف امریکہ (جنوبی ریاستوں) تک محدود نہیں تھا؛ فوک لور کے ماہرین نے ایسے ٹوٹکوں کے نشانات آئرلینڈ، فن لینڈ، ہنگری اور کیپ وردے (افریقی جزائر) تک میں پائے ہیں۔ دراصل یہ خیال اتنا عام تھا کہ 19ویں صدی کے اوائل میں امریکی لوک گیتوں اور حکایتوں میں “بلیک کیٹ بون” (black cat bone) کا ذکر بار بار آتا ہے – یہاں تک کہ مشہور بلوز موسیقی (Blues) کے گیتوں میں بھی گلوکار کے پاس “بلیک کیٹ بون” ہونا اس کے جوہرِ خاص ہونے کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ ایک معروف کہاوت تھی: “اگر تم کالی بلی کی ہڈی پاس رکھو گے تو تمہیں جادوگر کی ساری طاقتیں مل جائیں گی”۔ ایسے ٹونے اکثر انتہائی ظالمانہ ہوتے تھے، مثلاً انگریزوں کے یہاں مینڈک کی ہڈی کا عمل مشہور تھا جس میں مینڈک کو مار کر اس کا ڈھانچہ چیونٹیوں سے صاف کروایا جاتا، پھر اس کی ایک ہڈی کو لے کر منتر پڑھے جاتے جس سے باور تھا کہ گھوڑے قابو میں آ جاتے ہیں یا حاملِ ہڈی کو کوئی پکڑ نہیں سکتا۔ ان لوک ٹوٹکوں میں ہڈی کو اس جانور کی “روحانی قوت” کا مظہر مانا جاتا تھا – بلی کی چالاکی و پوشیدگی، مینڈک کی پھرتی یا الوہی قوت، خرگوش کی تیزی (جس کی علامت rabbit’s foot آج بھی خوش قسمتی کے طلسم کے طور پر مشہور ہے) وغیرہ۔

قرونِ وسطیٰ کے سحر و شگون: یورپ کے قرونِ وسطیٰ کے طلسماتی متن (grimoires) اور جادو ٹونے کی کتابوں میں بھی ہڈیوں کا ذکر ملتا ہے۔ مثال کے طور پر “ہاتھِ شان” (Hand of Glory) ایک بدنام زمانہ سحر کی شے تھی جو دراصل ایک مقتول (عام طور پر سزائے موت پانے والے ڈاکو) کے کاٹے گئے ہاتھ کو مخصوص محلول میں بھگو کر اور پھر خشک کر کے بنائی جاتی تھی۔ اس مومیائی شدہ ہاتھ کی انگلیوں کے درمیان بتی لگا کر جلایا جاتا اور یقین تھا کہ اس کی روشنی سے جس گھر میں یہ رکھا جائے، وہاں موجود سب لوگ بے ہوش یا سحر زدہ ہو کر سو جائیں گے۔ اس کا استعمال چور ڈاکو اپنی واردات کے وقت کرتے تھے تاکہ گھر والے نہ جاگیں اور وہ آرام سے مال لوٹ سکیں۔ اگرچہ یہ زیادہ تر کہانیوں اور الزام تک ہی محدود رہا، لیکن 17ویں صدی میں انگلستان میں واقعی کچھ چڑیل مقدمات میں “ہینڈ آف گلوری” برآمد ہونے کا ذکر ہے۔ ایسے ہی بعض اور سفلی نسخوں میں قبرستان سے ہڈیاں چرا کر لانے، مردے کی پسلی کو تعویذ میں رکھنے یا کھوپڑی کا برتن بنا کر اس میں روغن جلانے کی ترکیبیں ملتی ہیں – جن کا مقصد یا تو کسی بری روح کو بلانا (necromancy) ہوتا تھا یا دشمن کو نقصان دینے کے لیے شیطانی طاقت حاصل کرنا۔ ان رسوم کے پیچھے یہ سوچ تھی کہ جس انسان کی ہڈی ہے، اس کی آتما یا بھوت کو اس ہڈی کے ذریعے قابو کیا جا سکتا ہے؛ یوں ہڈی ایک vessel یا ظرف کا کام کرتی تھی جس میں اس شخص یا حیوان کی روحانی قوت بند ہے۔ قرونِ وسطیٰ کے یورپ میں بہت سے عامل قبرستانوں سے مردوں کی ہڈیاں چراتے یا اکھاڑتے تھے تاکہ اپنے عملیات میں استعمال کر سکیں۔ ان کے خلاف عوام میں شدید نفرت پائی جاتی تھی اور اسی کو بنیاد بنا کر عیسائی پادریوں نے چڑیلوں کے خلاف مہم چلائی۔ مشہور زمانہ کتاب “Maleus Maleficarum” (چڑیلوں کا ہتھوڑا) میں بھی ذکر ہے کہ چڑیلیں نو زائیدہ بچوں کی چربی اور ہڈیاں اپنے پتنگوں (flying ointments) میں ملاتی ہیں، اگرچہ یہ اعتراف آج مانا جاتا ہے کہ بہت سے اعترافی بیانات تشدد کے ذریعے لیے گئے تھے۔

عیسائی روحانی تناظر: مغربی دنیا میں ہڈیوں کا روحانی استعمال صرف جادوگروں تک محدود نہیں تھا بلکہ مسیحی مذہب کی مرکزی روایت کا بھی حصہ تھا۔ ابتدائی عیسائی دور سے مقدس آثار (Relics) کا تصور موجود ہے – یعنی کسی بزرگ یا ولی (سینٹ) کے جسمانی اعضا یا اشیاء کو برکت اور معجزے کا ذریعہ ماننا۔ قرونِ وسطیٰ میں تقریباً ہر گرجے میں کسی نہ کسی مقدس ہستی کی ہڈی، دانت یا کھوپڑی بطور تبرک محفوظ تھی۔ عقیدہ تھا کہ جس مقدس انسان نے اپنی زندگی خدا کی راہ میں گزاری، اس کے جسم (ہڈیوں) میں مرنے کے بعد بھی ایک روحانی تاثیر باقی رہتی ہے۔ اس تاثیر کے طفیل خدا بیماروں کو شفا بخشتا ہے اور مصیبتیں ٹلتی ہیں۔ ہزاروں افراد ان ہڈیوں کی زیارت کو جاتے، ان کو چومتے یا چھوتے اور منتیں مانگتے تھے۔ سینٹ پیٹر، سینٹ جان، سینٹ تھریسا جیسے حواریوں اور اولیاء کے بارے میں لاتعداد روایات مشہور ہیں کہ ان کی ہڈیوں سے معجزانہ شفائیں ہوئیں۔ ان relics کو شاہی سرپرستی بھی ملی اور ان کی چوری و تجارت تک ہوتی تھی (مثلاً کسی گرجے کے پاس اگر کسی بڑے سینٹ کی ہڈی آ جاتی تو اس کی عزت اور آمدنی بڑھ جاتی، یوں بعض لوگ دور دراز سے چرا کر لاتے)۔ یوں مغربی دنیا میں ایک ہی ہڈی (مثلاً انسانی انگلی) کو روم میں کوئی عامل سحر کے لیے استعمال کر رہا تھا تو بارسلونا میں کسی چرچ میں وہی انگلی مقدس سمجھ کر عوام کو دکھائی جا رہی تھی۔ دونوں صورتوں میں ہڈی کے ساتھ ایک پراسرار یا فوق الفطرت امید جڑی تھی۔ فرق یہ تھا کہ چرچ اس امید کو مذہبی رنگ دیتا اور اسے جائز کر دکھاتا، جب کہ عامل اپنا کام چھپ کر کرتے اور کلیسا کی نظر میں مرتد و مرتکبِ جرم ٹھہرتے۔

نفسیاتی اور سماجی اثر: مغربی معاشرے میں ہڈیوں سے منسوب جادو کا خوف و اثر صدیوں تک رہا ہے۔ قرونِ وسطیٰ کے یورپ میں عام لوگ انتہائی توہم پرست تھے؛ اگر کسی گھر کے پاس بلی یا الو کی ہڈیاں ملتیں تو سمجھا جاتا تھا کہ وہاں چڑیلوں کا بسیرا ہے، اور پورا گاؤں انہیں نکالنے میں لگ جاتا تھا۔ ایک جانب ایسے خوف نے ہزاروں بے قصور عورتوں کو چڑیل ہونے کے الزام میں موت کے گھاٹ اتارا، تو دوسری طرف اس نے جادو ٹونے کو مزید زیرِ زمین اور پراسرار بنا دیا۔ پھر بھی، مغربی عوامی تہذیب میں کچھ ہڈیوں کے تصورات نرم انداز میں باقی رہ گئے ہیں۔ آج بھی ہالووین پر کھوپڑی اور ہڈیوں کی علامتیں عام ہیں جو اسی تاریخی ذہنیت کی عکاس ہیں۔ خرگوش کا پنجہ (Rabbit’s foot) اب بھی بطور Lucky Charm بہت سے لوگ رکھتے ہیں – یہ دراصل خرگوش کی ٹانگ کی ہڈی ہی ہوتی ہے جسے خشک کر کے تعویذ بنا لیا جاتا ہے، اور اس کی جڑیں افریقی امریکن Hoodoo جادو میں ہیں جہاں اسے قسمت چمکانے کے لیے رکھا جاتا تھا۔ اس طرح کی بے ضرر توہمات اب تفریح کا حصہ ہیں، مگر کبھی ان کو سنجیدہ مانا جاتا تھا۔ دوسری طرف، کلیسائی relics کا اثر آج بھی کیتھولک عیسائیوں میں موجود ہے اور وہ کسی سینٹ کی ہڈی کو دیکھ کر روحانی سکون اور شفا کی امید رکھتے ہیں – اسے عقیدے کی قوت کہیں یا نفسیاتی تسلی، لیکن لوگوں کو فائدہ ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ مجموعی طور پر، مغربی دنیا میں ہڈیاں ایک Dual Symbol بن چکی ہیں: ایک طرف موت اور شیطانی طاقت کی علامت (جادو، ہارر فلموں، Gothic ادب میں) اور دوسری طرف روحانی برکت اور لافانیت کی علامت (مقدس آثار، یادگاریں)۔

نتیجہ

مندرجہ بالا جائزے سے واضح ہوتا ہے کہ ہڈیاں بطور ایک مادی شے تقریباً ہر ثقافت میں فوق الفطرت خیالات سے جڑی رہی ہیں۔ تاریخی پس منظر سب کا اپنا الگ ہے مگر قدرِ مشترک یہ ہے کہ انسان نے ہڈی کو محض ایک بےجان چیز نہیں سمجھا بلکہ اسے زندگی کی کسی پوشیدہ قوت کا امین جانا۔ روحانی وجہ یہ تھی کہ ہڈی مرتے ہوئے جاندار کا آخری حصہ ہوتی ہے، اس لیے اسے اس کی روح یا طاقت سے نسبت ہوتی ہے – مثلاً اسلامی روایت میں جنات کی خوراک، ہندو روایت میں شیوا کا زیور، افریقی روایت میں آباء کی نشانی، اور مغربی روایت میں چڑیل کی طاقت۔ نفسیاتی طور پر ہڈیوں کا استعمال خواہ مثبت ہو یا منفی، انسان کے خوف اور امید دونوں پہ اثرانداز ہوتا رہا: آغوری اپنے خوف پر قابو پاتے ہیں تو کسی دشمن پر ہڈی کے ذریعے جادو کر کے خوف طاری کیا جاتا ہے؛ کہیں ہڈی دیکھ کر تحفظ کا احساس ہوتا ہے تو کہیں دہشت کا۔ مختلف جانوروں اور انسانی ہڈیوں کی تخصیص بھی ہر کلچر میں دکھائی دی: اسلام و یہود میں خنزیر کی ہڈی نحوست کی علامت ہے، ہندو تانترک انسانی کھوپڑی کو سب سے زیادہ قوت والی مانتے ہیں، افریقی سنگوما شیر، بندر، سانپ ہر ایک کی ہڈی الگ معنی میں استعمال کرتا ہے، اور مغرب میں کالی بلی یا مینڈک کی ہڈیوں کو چڑیلیں خاص مانتی تھیں۔ عملیات اور رسومات میں ہڈی کہیں لکھنے کا تختہ بنی (جیسے قرآنی آیات یا طلسمات کندہ کرنا)، کہیں رابطے کا آلہ (فال نکالنا یا روح بلانا)، کہیں قربانی کا تحفہ (شیطانی یا دیوتاؤں کو نذر)، اور کہیں براہ راست ہتھیار (ہڈی دبا کر نقصان دینا) کے طور پر کام آئی۔ ان اعمال کے اثرات پر یقین نے بعض اوقات حقیقی تبدیلیاں بھی لائیں: نفسیاتی طور پر مریض کو شفا کا یقین آ گیا یا دشمن خوف کے مارے خود ہی کمزور پڑ گیا؛ سماجی طور پر ان رسموں نے ایک روایتی معالج، تانترک یا عامل کا کردار مضبوط کیا جو لوگوں کی مشکلات کا حل بتاتا تھا؛ لیکن منفی استعمال نے جرائم، قتل اور دہشت کو بھی جنم دیا جیسا کہ افریقہ کے کیسز یا یورپ کی چڑیل کشی کی مثالوں سے واضح ہے۔ آخری طور پر، ماخذ اور حوالہ جاتی کتب کی بات کریں تو ہر ثقافت نے اپنی زبانی یا تحریری روایت میں ان عملیات کو محفوظ رکھا: اسلامی دنیا میں شمس المعارف جیسی کتابیں اور لوک حکایات، ہندو دھرم میں ویدوں کے ضمنی حصوں اور تنتر گرنتھوں میں شمشان ساحری کا ذکر، افریقہ میں نسل در نسل استاد سے شاگرد تک “ہڈی پھینک” علم کی منتقلی، اور مغرب میں فوک لور سوسائٹیوں کی مدون کردہ کہانیاں اور چرچ کی دستاویزات اس موضوع پر روشنی ڈالتی ہیں۔ یہ تمام حوالہ جات اس امر کے شاہد ہیں کہ انسانی تخیل اور عقیدہ کس طرح ایک ساده ہڈی میں بھی سحر و اسرار کا جہان آباد کر دیتا ہے۔

تقریبا 90 فیصد نوجوانوں کو اس کی ضرورت هے اس نسخہ سے آپ کی زندگی بن جاے گی کیونکہ جو مسائل هیں وه صرف نوجوانوں تک محدود ...
23/04/2025

تقریبا 90 فیصد نوجوانوں کو اس کی ضرورت هے اس نسخہ سے آپ کی زندگی بن جاے گی کیونکہ جو مسائل هیں وه صرف نوجوانوں تک محدود نہیں آگے جا کر خاندانی جهگڑوں کی بهی ابتداء ہوتی ہے
ھوالشافی۱
ثعلب مصری 10 گرام مغز پنبہ دانہ 10 گرام
موصلی سفید 10 گرام ثعلب پنج 10 گرام
ستاور 10 گرام بیج بند 10 گرام
بہمن سفید 10 گرام اسگند ناگوری 10 گرام
کونچ کے بیج 10 گرام مغز پستہ 20 گرام
مغز بادام 20 گرام برہمی بوٹی 30 گرام
تالمکھانہ 10 گرام اسبغول کا چھلکا 10 گرام
مغز جیا بوتہ 10 گرام کوزہ مصری 150 گرام
سونٹھ 30گرام شہد 350 گرام
کونچ کے بیج کا چھلکا اتار کے سب کا سفوف بنا لے.
تمام جڑی بوٹیوں کا پائوڈر تیار کریں

وزن خوراک
صبحِ و شام بعد از طعام
ایک چائے کا چمچ ایک گلاس نیم گرم دودھ سے دودھ میسر نا ہونے کی صورت میں پانی سے استعمال کریں
پرھیز چاول تلی ہوئ اشیاء کولڈرنک پراٹھا وغیرہ سے

فوائد:-.
اح**ام جریان زکاوت حس مقوی باہ مادہ منویہ پیدا کرے گا جراثیم پیدا کرے گا ... کم جرا ثیم والے اس کو ضرور بنا کے استعمال کرے...... وزن بڑھا دے گا سوکھے سرے لوگوں کا..امساک پیدا کرے گا انزال کا خاتمہ کرے گا پٹھوں کو طاقت دے گا...
مقوی باہ ہے جسم کو فربہ کرے گا مرد کو مکمل مرد بنا دے گا.
عورتوں کو اس سے دودھ میں آضافہ کرے گا خشکی گرمی کی وجہ سے ہونے والی رحم کی سوزش کو ختم کرے گا...
انڈے پیدا کرے گا کمزوری کو ختم کرے گا.
ماہواری کو اعتدال پر لائے گا چھاتی بڑھا دے گا دبلی پتلی عورتیں اس کے استعمال سے موٹی ہو جائے گی.
بچہ پیدا کرنے والی صلاحیت پیدا کرے گا عورتوں اور مردوں کے

Address

19b1jhortownlahore
Lahore
54000

Telephone

+92 324 4009027

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Peer Hakim Javed Awan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Peer Hakim Javed Awan:

Share

Category