14/10/2022
نشتر ہسپتال میں لاشوں کا معاملہ!!
سب سے پہلے Basic باتیں کر لیتے ہیں ، پیچیدہ باتیں آخر میں ۔ ہم جب میڈیکل کالج میں تھے تو کئی لوگ ہم سے پوچھتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب " اور کتنا کورس رہ گیا ہے آپکا " یا یہ سوال بہت سننے کو ملتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب
" ٹیکا لگا لیتے ہو ؟ " اور ہم ایسے سوال سن کر ہنستے تھے کہ یار یہ کیسے لوگ ہیں انکو اتنا نہیں پتا کہ یہ کوئی سال چھ مہینے کا " کورس " نہیں ہے یہ ایک 5 سال کی مکمل ڈگری ہے جو پاکستان کی واحد ایسی ڈگری ہے جو انٹرنیشنل معیار کے مطابق کی جاتی ہے ، اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں غیر امریکی ڈاکٹر سب سے زیادہ یا تو انڈیا کے ہیں یا پاکستان کے ۔ وہ اسی لئے کہ ہمارے سرکاری میڈیکل کالج انٹرنیشنل کتابیں ہی Recommend کرتے ہیں اور تقریباً اُسی معیار کی تعلیم دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ پھر ہم اس بات پر ہنستے تھے کہ ان لوگوں کو یہ تک نہیں پتا کہ ٹیکا یا ڈرپ لگانا ڈاکٹر کا کام نہیں ہے نا ہی یہ سکھایا جاتا ہے ، یہ کام ڈسپنسر یا نرس کا ہے ، ڈاکٹر کا کام اپنے علم کو بروئے کار لاتے ہوئے مرض کی تشخیص کرنا ہے اور علاج بتانا ہے ۔ اس سے زیادہ ڈاکٹر کا کام نہیں ہوتا ۔ اگر وہی سب کرنا ہو کوئی ڈاکٹر بنے ہی کیوں نرس کیوں نہ بن جائے ۔
یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو ایک چیز کے بارے میں پوری جانکاری نہیں ہوتی ، اور پھر بھی اُسکے بارے میں رائے دے رہے ہوتے ہیں ۔
اب آتے ہیں لاشوں کی طرف ، ایم بی بی ایس کے پہلے دو سال میں باقی مضامین کے ساتھ ایک مضمون پڑھایا جاتا ہے جسکا نام " Anatomy " ہے ۔ یہ مضمون انسانی جسم کی اندرونی اور بیرونی دونوں ساخت کے متعلق ہے ۔ اس مضمون کو پڑھنے کے لئے انسانی جسم کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جسے کاٹ کر جسے انگریزی زبان میں Dissection کہتے ہیں ، پڑھا جاتا ہے ۔ ہڈیوں کو الگ پڑھا جاتا ہے ، Muscles کو الگ پڑھا جاتا ہے ۔ دل ، گردے ، جگر ، دماغ سب اپنے ہاتھ سے Scalpel کے زریعے کھول کھول کر غرض ہر چیز کو الگ سے نا صرف پڑھا جاتا ہے بلکہ اُسکا امتحان بھی ہوتا ہے ۔ ہر پڑھنے والے بچے کے پاس اُسکی زاتی ہڈیاں ہوتی ہیں پڑھنے کے لئے ۔
مجھے یاد ہے ایک بار میرے ماموں کے کچھ دوست اُنکے ساتھ مجھے ملنے آئے تو میرے کمرے میں ہڈیاں پڑی تھی ۔ بازوؤں اور ٹانگوں کی ہڈیاں ۔ وہ دیکھ کر حیران ہوگئے ۔ ظاہر ہے جس نے زندگی میں پہلی بار انسانی ہڈی ہاتھ میں لے کر دیکھی ہو وہ حیران و پریشان ہی ہوگا ۔ یہ ہڈیاں انسانی جسم سے الگ کر کے ایک خاص Procedure کے زریعے اس قابل بنائی جاتی ہیں کہ اُن پہ پڑھا جائے ۔ اور یہ زمہ داری سرکار کی ہوتی ہے کہ وہ سرکاری میڈیکل کالج میں یہ تمام سہولیات مہیہا کرے ، یہ معیار آپکو پاکستان کے پرائویٹ میڈیکل کالج میں نہیں ملتا ۔ وہاں انسانی لاش کی جگہ پلاسٹک کی لاش استعمال ہوتی ہے ۔
اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے وہ ایک الگ بحث ہے فل حال ہم اُسے ڈسکس نہیں کر رہے ۔
نشتر میں اناٹمی ڈیپارٹمنت کا Dissection حال ہے جہاں لاشوں کو ہر Btach کے 300 طلباء کے لئے ایک خاص Procedure سے گزارنے اور تیار کرنے کے بعد رکھا جاتا ہے اور بہت سلیقے سے اُسکی Dissection سٹوڈنٹ کرتے ہیں ۔ انسانی جسم کی حرمت کا پہلے بتایا جاتا ہے بعد Dissection کرنے کا بتایا جاتا ہے ۔ پروفیسر منصور علی خان کا قول مجھے آج بھی یاد ہے جو ہمارے Dissection Hall میں بڑا بڑا کر کے لکھا ہوا تھا کہ انسانی جسم کی عزت کرو چاہے زندہ ہو یا مردہ ۔ اور یہ عمل ساری دنیا کے میڈیکل کالجز میں ہوتا ہے ۔ اُس سے پہلے ان لاشوں کو یخ بستہ مارچری میں رکھا جاتا ہے جو وہیں اناٹمی ڈیپارٹمنٹ میں ہوتی ہے ۔ اُس مارچری میں ان لاشوں کو ہنود کیا جاتا ہے ۔ مائنس ڈگری ٹمپریچز میں رکھا جاتا ہے جو کہ ایک خاص طریقہ کار ہے ۔
اب سوال آتا ہے کہ یہ لاشیں جو طلباء استعمال کرتے ہیں وہ کہاں سے آتی ہیں ۔ ظاہر ہے وہ لوگ جنکے والی وارث ہوتے ہیں وہ اپنے پیاروں کی لاشیں واپس لے جاتے ہیں نشتر سے ۔ لیکن نشتر ایک دہائی پہلے تک جنوبی ایشیاء کا سب سے بڑا ہسپتال تھا اور ابھی بھی پاکستان کا شاید دوسرا بڑا ہسپتال ہے ۔ روزانہ کی بنیاد پر ایسے دسیوں لوگ نشتر پہنچتے ہیں جنکا کوئی والی وارث نہیں ہوتا کوئی ایکسیڈنٹ میں آیا ہوتا کوئی ریسکیو کے زریعے کوئی نشے کا عادی تو کوئی کچھ اور ۔ وہ لاوراث لوگ جب مر جاتے ہیں تو اُنکی لاشیں لینے والا کوئی نہیں ہوتا ۔ تو ایسے میں ہسپتال والے اُنہیں اُس اناٹمی ڈیپارٹمنٹ کی مارچری میں رکھ دیتے ہیں ۔ لیکن مارچری کی بھی ایک گنجائش ہے، آخر کتنی لاشیں وہاں سما سکتی ہیں پھر اُنکی Maintanance کا خرچہ ہوتا ہے ۔
ایسے میں جو لاشیں بچ جاتی ہیں اُنہیں مستقبل میں استعمال کرنے کی نیت سے کہیں تو رکھنا ہے ، کہیں تو سٹور کرنا ہے ۔ یہ وہی لاشیں ہیں جو کسی ناواقف بندے نے نشتر کی چھت پہ پڑی دیکھ کر شور مچا دیا ہے ۔ اور چونکہ عوام کو خبر چاہیے وہ بھی سنسنی خیر خبر تو عوام حیران و پریشان ہیں ۔
جہاں تک انسانی لاشوں کی بے حرمتی کی بات ہے تو اس میں کسی ہسپتال کی انتظامیہ سے زیادہ سرکار کا قصور ہے جس نے ایک 2 ہزار بیڈ کے ہسپتال کو کوئی ایسا قبرستان مہیا نہیں کیا جہاں وہ یہ لاشیں دفا سکیں اور نہ کوئی ایسی ٹیم ہوتی دی جو یہ کام کرے ۔ ڈاکٹر یا نرسیں خود جا کر تو کفن دفن کرنے سے رہے ۔
اب آتے ہیں زرا پیچیدہ بات کی طرف ، اور وہ یہ کہ چونکہ ہم پاکستان میں رہ رہے ہیں اور یہاں کچھ بھی ممکن ہے تو ایسے میں اگر بالفرض ان لاشوں کی کوئی غیر قانون خرید و فروخت یا اسمگلنگ کا اندیشہ ہے بھی تو ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ سرکار کے علم میں نہ ہو ۔ MS کی اتنی جرات نہیں ہوتی کہ ایسا غیر قانونی کام کرے اور سرکار کو اُسکا حصہ نہ پہنچتا ہو ۔
اگر کسی End پر غلطی نکلی بھی تو وہ ہسپتال کی یا کسی غیر انسانی سلوک کی نہیں بلکہ غلطی سرکار کی نکلے گی کیونکہ ملوث ہوئے تو اوپر تک سب ملوث ہونگے ۔ وگرنہ یہ سیدھا سیدھا وہی معاملہ ہے جو میں نے اُوپر عرض کیا ہے ۔ عوام کو چونکہ ایک چیز کا علم ہی نہیں ، تو اُنہیں یہ بات اچھنبے کی طرح حیران کر رہی ہوگی ۔
کاپیڈ