Auréla Mart

Auréla Mart Daily News update you latest news and stories

جدوں رکھے سائیاں مار سکے نہ کوئی ! یہ تصویر بارڑر پر موجود جوان جسے گولی چہرےکی جلد  سے چیرتی ہوئی گردن سے نکل گئی لیکن ...
27/08/2024

جدوں رکھے سائیاں مار سکے نہ کوئی !
یہ تصویر بارڑر پر موجود جوان جسے گولی چہرےکی جلد سے چیرتی ہوئی گردن سے نکل گئی لیکن اللہ کا لاکھ شکر ہے خطرہ سے باہر ہے

بتاؤ بتاؤ
27/08/2024

بتاؤ بتاؤ

25/08/2024
کہا جاتا ہے کہ ایک عورت نے اپنے شوہر کی وفات کے بعد دوسری شادی کی۔ اس کا پہلے شوہر سے ایک تین سالہ بیٹا تھا۔ جب اس عورت ...
24/08/2024

کہا جاتا ہے کہ ایک عورت نے اپنے شوہر کی وفات کے بعد دوسری شادی کی۔ اس کا پہلے شوہر سے ایک تین سالہ بیٹا تھا۔ جب اس عورت نے دوسری شادی کی تو وہ اپنے بیٹے کے ساتھ اپنے نئے شوہر کے گھر منتقل ہو گئی۔ نیا شوہر بہت امیر تھا، اس لیے اس نے اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کیا کہ اس کا بیٹا بھی ان کے ساتھ رہے۔ شروع میں وہ اس بچے کے ساتھ کھیلتا بھی تھا اور اسے اپنا ہی سمجھتا تھا۔

لیکن ایک سال بعد، جب ان کا اپنا بیٹا پیدا ہوا، تو شوہر کی محبت اور توجہ بدلنے لگی۔ اب وہ اپنے سوتیلے بیٹے سے کترانے لگا اور اس کے ساتھ پہلے جیسا سلوک نہیں کرتا تھا۔ اس کا سارا دھیان اب اپنے حقیقی بیٹے پر تھا۔ ایک دن جب وہ کام سے واپس آیا، تو اپنے بیٹے کے لیے ایک نئی سائیکل لے کر آیا۔ ماں کا دل کٹ گیا جب اس نے اپنے یتیم بیٹے کو اپنے چھوٹے بھائی کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے پایا۔

ماں نے شوہر سے درخواست کی کہ وہ اپنے سوتیلے بیٹے کے لیے بھی ایک سائیکل خرید دے، لیکن شوہر نے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ اس بچے کا ذمہ دار نہیں ہے۔ اگر ماں نے دوبارہ اس بارے میں بات کی، تو وہ بچے کو گھر سے نکال دے گا۔ ماں نے اپنے بیٹے کے تحفظ کے لیے یہ بات مان لی۔

وقت گزرتا گیا اور دونوں بچے بڑے ہوگئے۔ شوہر نے اپنے حقیقی بیٹے کو ایک بہترین پرائیویٹ اسکول میں داخل کروا دیا، لیکن سوتیلے بیٹے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ اس نے کہا کہ وہ اس کا والد نہیں ہے، اس لیے اس پر اپنا پیسہ کیوں خرچ کرے؟ اس نے کہا کہ یہ لڑکا نہ تو اس کا نام لے گا اور نہ ہی اسے کوئی فائدہ پہنچائے گا۔

ماں نے غصے سے جواب دیا: "ہاں، وہ شاید تمہارا خون اور گوشت نہیں ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم اسے تعلیم سے محروم رکھو اور اسے جہالت کے اندھیرے میں چھوڑ دو۔ کیا تمہارے دل میں ذرا سی بھی رحمت اور شفقت نہیں؟" شوہر نے کہا: "بس بہت ہو چکا، میں اب اس کی موجودگی برداشت نہیں کر سکتا۔ میں اسے اپنے گھر میں نہیں دیکھنا چاہتا۔"

لڑکا اپنی ماں کے پاس آیا اور اس کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا: "ماں، پریشان نہ ہو، کچھ بھی ایسا نہیں ہے جس کے لیے آپ کو رونا پڑے۔ میں تھک چکا ہوں آپ کو روزانہ میری خاطر اس شخص کی توہین برداشت کرتے دیکھ کر۔ آپ کی خوشی کے لیے میں یہ گھر چھوڑ دوں گا۔" وہ لڑکا اپنی ماں کو چھوڑ کر چلا گیا، اپنے کپڑے اٹھائے اور گھر سے نکل گیا۔ ماں کا دل جیسے آگ میں جلنے لگا۔ اس کے دماغ میں سوالات اٹھنے لگے کہ اس کا بیٹا کہاں جائے گا؟ کہاں رہے گا؟ کہاں کھائے گا؟ اور اگر وہ بیمار پڑ گیا تو کون اس کی دیکھ بھال کرے گا؟

ماں نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور دعا کی: "اے اللہ! میں اپنے یتیم بیٹے کو تیرے سپرد کرتی ہوں، اس کی حفاظت فرما اور اسے محفوظ و سلامت واپس لے آ۔"

جب شوہر واپس آیا، تو اس نے دیکھا کہ بیوی خوش اور مطمئن نظر آ رہی ہے۔ اسے حیرت ہوئی کہ بیٹا گھر سے چلا گیا ہے اور پھر بھی بیوی خوش کیوں ہے؟ اس نے پوچھا: "تم خوش کیوں ہو اور اپنے بیٹے کے جانے پر اداس کیوں نہیں ہو؟" بیوی نے مسکرا کر کہا: "میں نے اپنے بیٹے کی حفاظت اس کے سپرد کر دی ہے جو اسے دیکھ بھال اور حفاظت کے قابل ہے، وہ جو کبھی تھکتا نہیں اور کبھی نا امید نہیں ہوتا، اور وہ بغیر کسی اجر کے سب کچھ کر سکتا ہے۔" شوہر نے حیرت سے پوچھا: "وہ کون ہے؟" بیوی نے کہا: "اللہ عز و جل۔"

شوہر نے طنزیہ ہنسی کے ساتھ کہا: "دنیا باہر رحم نہیں کرتی، اور کوئی بھی بھوکے پر ترس نہیں کھاتا، لگتا ہے تم نے اپنا دماغ کھو دیا ہے۔" وقت گزرتا گیا اور سالوں بعد، ماں کا بیٹا ایک دن واپس آیا، اپنے ہاتھ میں ایک بچہ اور ساتھ ایک عورت کے ساتھ۔

اس نے اپنی ماں کو سلام کیا۔ ماں حیرت اور خوشی سے پوچھتی ہے: "یہ عورت کون ہے اور یہ بچہ کس کا ہے؟" بیٹے نے جواب دیا: "یہ میری بیوی ہے اور یہ میرا بیٹا ہے، اے ماں!" ماں نے پوچھا: "تم نے یہ سب کچھ کیسے حاصل کیا، جب تمہارے پاس نہ پیسے تھے اور نہ ہی کوئی پناہ؟"

بیٹے نے کہا: "سچ بتاؤں تو میں خود نہیں جانتا کہ زندگی نے مجھے کہاں پہنچا دیا۔ میں بے یار و مددگار تھا اور نہیں جانتا تھا کہ کہاں جاؤں۔ پھر میں ایک چھوٹے سے گاؤں کی مسجد میں پہنچا اور وہاں رات گزاری۔ دن میں کام کی تلاش کرتا اور رات کو مسجد میں سوتا تھا۔ امام مسجد کو اپنی کہانی سنائی اور ان سے مسجد میں سونے کی اجازت مانگی، انہوں نے اجازت دے دی اور ہر روز مجھے کھانا دیتے تھے۔ میں شام کو مسجد صاف کرتا تھا اور امام نے مجھے قرآن حفظ کروایا اور دین کی تعلیم دی۔ میں روزانہ مسجد کی لائبریری میں پڑھتا رہتا تھا۔ ایک دن امام بیمار پڑ گئے، تو میں نے لوگوں کو نماز پڑھائی، اور اسی دن سے میں لوگوں کا امام بن گیا۔ لوگ مجھے پسند کرنے لگے اور مجھ سے محبت کرنے لگے۔ انہوں نے میرے لیے ایک یتیم لڑکی سے شادی کا انتظام کیا، جس کے پاس صرف اس کی دادی تھی۔ میں نے شادی کی اور کچھ ہی عرصے بعد اس کی دادی کا انتقال ہو گیا۔ بیوی کو اس کی دادی کی وراثت سے زمین کا ایک ٹکڑا ملا، جسے میں نے کاشت کیا اور حالات بہتر ہو گئے، الحمدللہ۔ اب اللہ کے فضل سے میرے پاس بہت سی زرعی زمینیں ہیں، اور اللہ نے مجھے اپنے فضل سے نوازا ہے۔ مجھے ہمیشہ لگتا تھا کہ آپ کی دعائیں میرے ساتھ ہیں، اور اللہ نے آپ کی وجہ سے میری مدد کی۔"

ماں خوشی سے رو پڑی اور جان گئی کہ اللہ نے اس کی دعائیں قبول کیں۔ اس نے اپنے پوتے کو گلے لگایا اور بیٹے نے ماں کے ہاتھ چومے۔ لیکن شوہر کو یقین نہیں ہو رہا تھا کہ ایک دن وہ لڑکا ایک کامیاب اور امیر شخص بن کر واپس آئے گا۔ سبحان اللہ، اللہ ہی رازق ہے اور جسے چاہے بے حساب نوازتا ہے۔ اس یتیم بچے کو اس کی ماں کی دعاؤں اور رضامندی کی بدولت نوازا گیا۔

*اور آخر میں، حضرت نبی کریم ﷺ پر اور ان کی آل و اصحاب اور تابعین پر قیامت تک کے لیے درود و سلام بھیجنا نہ بھولیں۔❤️

اگر آپ 5 سال سے ایک ہی فون نمبر استمعال کر رہے  تو  آپ  میں یہ 6 خوبیاں ہیں۔ (1)۔  آپ کے خلاف کوئی Police  کیس نہیں ہے. ...
20/08/2024

اگر آپ 5 سال سے ایک ہی فون نمبر استمعال کر رہے تو آپ میں یہ 6 خوبیاں ہیں۔
(1)۔ آپ کے خلاف کوئی Police کیس نہیں ہے. (2)۔ آپ پر کوئی قرض نہیں ہے.!
(3)۔ آپ اپنے ساتھی کے ساتھ بہت ایماندار ہیں۔ (4)۔ آپ ایک ذمہ دار انسان ہیں !
(5)۔ آپ کا لین دین درست ہے! (6)۔ آپ شیخی باز نہیں ہیں! ویسے آپ کا فون نمبر کتنا پرانا ہے اور کتنے سالوں سے استعمال کر رہے ہیں

حضرات، دماغ کی کھڑکیوں کو کھول کر پڑھیے......کبھی اپنی بیوی کو تنہا چھوڑ کر باہر کام کرنے نہ جاؤ، اور یہ نہ کہو کہ میں ا...
20/08/2024

حضرات، دماغ کی کھڑکیوں کو کھول کر پڑھیے......

کبھی اپنی بیوی کو تنہا چھوڑ کر باہر کام کرنے نہ جاؤ، اور یہ نہ کہو کہ میں اسے کافی پیسے بھیج رہا ہوں جس سے وہ اچھی زندگی گزار لے گی۔ عورت پیسوں اور خرچوں کے لیے شادی نہیں کرتی۔ عورت کو تمہاری ضرورت ہوتی ہے۔

عورت چاہتی ہے کہ تم اس کے ساتھ ہو، جب کوئی مسئلہ ہو تو اسے تمہاری حمایت ملے۔ اسے کسی کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کا سہارا بنے، مشکل وقت میں اس کے ساتھ کھڑا ہو۔ اسے کسی کی ضرورت ہوتی ہے جس سے وہ بات کر سکے، ہنس سکے اور جس کے ساتھ وہ محفوظ محسوس کرے۔

اگر تم اسے سالوں تک اکیلا چھوڑ دو گے، تو مسائل پیدا ہوں گے۔

بہت سے نوجوان جب سفر پر جاتے ہیں اور اپنی بیوی کو لمبے عرصے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں، تو جب واپس آتے ہیں تو کچھ عجیب محسوس کرتے ہیں۔ انہیں ایسا لگتا ہے کہ ان کی بیوی انہیں ایک بوجھ سمجھ رہی ہے اور ان کے جانے کا انتظار کر رہی ہے۔ حالانکہ اس کا ذمہ دار وہ خود ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ جب عورت کو اکیلا چھوڑ دیا جاتا ہے تو وہ گھر کے مرد کی طرح کام کرنا شروع کر دیتی ہے۔ وہ سب کچھ خود کرتی ہے، سوچتی ہے، منصوبہ بندی کرتی ہے۔ تو جب شوہر سالوں بعد واپس آتا ہے اور اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو وہ اسے قبول نہیں کرتی۔ شوہر غصہ کرتا ہے اور دبانے کی کوشش کرتا ہے، تو بیوی اس سے دور ہو جاتی ہے۔

تمہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ تم صرف پیسے بھیجنے والے ایک مہمان بن گئے ہو۔ تم نے اسے اکیلا چھوڑ دیا ہے، اس لیے یہ مشکل ہے کہ وہ وہی نازک لڑکی بنے جو تم نے شادی کی تھی۔ اور اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے۔

دوسرا مسئلہ تمہارے بچوں کا ہے، جو جب تم سفر سے واپس آتے ہو تو تم سے زیادہ محبت اور شوق نہیں دکھاتے۔ کیونکہ تم ان کے لیے "بابا" سے "عارضی مہمان" بن گئے ہو، جو صرف تحفے اور پیسے لاتا ہے۔

اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ رہو، اور اگر سفر کرنا ضروری ہو، تو انہیں اپنے ساتھ لے جاؤ اور ہمیشہ اپنے قریب رکھو۔

جانوروں کی دنیا کا سب سے مضبوط پھیپھڑا اللہ تعالیٰ نے دشمن کی طرف اس کے راستے میں دوڑتے ہوئے گھوڑوں کی قسم کھائی ہے جہاں...
19/08/2024

جانوروں کی دنیا کا سب سے مضبوط پھیپھڑا

اللہ تعالیٰ نے دشمن کی طرف اس کے راستے میں دوڑتے ہوئے گھوڑوں کی قسم کھائی ہے جہاں ان کے ہمسائے کی آواز ان کے سرپٹ دوڑتے گھوڑے کی رفتار سے ظاہر ہوتی ہے۔
وہ کیا راز ہے جو ہمیں گھوڑوں کو لمبا فاصلہ طے کرنے اور میراتھن ریس میں بغیر تھکے یا تھکے ہوئے دوڑتے ہوئے دیکھنے پر مجبور کرتا ہے؟ اگر آپ تصویر کو دیکھیں تو آپ کو بغیر تلاش کیے پاس ورڈ مل جائے گا جو کہ پھیپھڑا ہے۔ ایک گھوڑے کا پھیپھڑا انسانی پھیپھڑوں کے مقابلے میں غیر معمولی طور پر بڑا ہوتا ہے۔ ایک گھوڑے کا پھیپھڑا ایک سانس میں 5 لیٹر ہوا کھینچتا ہے اور ایک گھوڑا فی منٹ 12 سانسیں لیتا ہے یعنی گھوڑے کا پھیپھڑا ایک منٹ میں 60 لیٹر ہوا کھینچتا ہے۔

Respect your parents and give them your time!!!! No one knows how many days they have 💔
16/08/2024

Respect your parents and give them your time!!!! No one knows how many days they have 💔

اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ:-ایک دن بے بے نے بیسن کی روٹی پکا کے دی۔ میں نے دو روٹیاں کھائیں اور ساتھ لسّی پی۔ پھر بے بے کو ...
14/08/2024

اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ:-
ایک دن بے بے نے بیسن کی روٹی پکا کے دی۔ میں نے دو روٹیاں کھائیں اور ساتھ لسّی پی۔ پھر بے بے کو خوش کرنے کیلئے زوردار آواز میں اللّٰہ کا شُکر ادا کیا۔
بے بے نے میری طرف دیکھا
اور پُوچھا: اے کی کیتا ای؟
میں نے کہا:-
بے بے! شُکر ادا کیتا اے اللّٰہ دا۔
کہنے لگی:-
اے کیسا شُکر اے؟
دو روٹیاں تُجھے دیں... تُو کھا گیا...نہ تُو باہر جھانکا، نہ ہی پاس پڑوس کی خبر لی کہ کہیں کوئی بُھوکا تو نہیں... ایسے کیسا شُکر؟
پُترا! روٹی کھا کے لفظوں والا شُکر تو سب کرتے ہیں... اپنی روٹی کسی کے ساتھ بانٹ کر شُکر نصیب والے کرتے ہیں۔
اللّٰہ کو لفظوں سے خوش کرنا چھوڑ دے۔
پُتر! عمل پکڑ عمل! اللّٰہ جس چیز سے نواز دے.... اُس کو خوشی سے استعمال کر اور کسی کے ساتھ بانٹ لیا کر کہ یہ عملی شُکر ہے
نعمتِ خداوندی کا عملی شُکر تو اُس نعمت کو بانٹ کے کھانے میں ہی ہے اور وہ بھی عزیز رشتہ داروں اور اڑوس پڑوس کے لوگوں کے ساتھ۔
اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے آمین.

ایک عورت سڑک پر ایک آدمی کے پاس آتی ہے اور کہتی ہے؛ "معاف کیجئے جناب، میں ایک چھوٹا سا سروے کر رہی ہوں، کیا میں آپ سے کچ...
13/08/2024

ایک عورت سڑک پر ایک آدمی کے پاس آتی ہے اور کہتی ہے؛
"معاف کیجئے جناب، میں ایک چھوٹا سا سروے کر رہی ہوں، کیا میں آپ سے کچھ سوالات کر سکتی ہوں؟"

آدمی: "جی جی ضرور ."

عورت: "فرض کریں کہ آپ بس میں بیٹھے ہیں اور ایک خاتون بس میں سوار ہوئی اور اس کے پاس سیٹ دستیاب نہیں ہے،
کیا آپ اس کے لیے اپنی سیٹ چھوڑ دیں گے؟"

آدمی - "نہیں۔"

اس عورت نے اپنے پاس موجود پیپر پر نظر دوڑاتے ہوئے "بےادب" کے خانہ پر ٹک کرتے ہوئے
دوسرا سوال کیا: "اگر بس میں سوار خاتون حاملہ ہو تو کیا آپ اپنی سیٹ چھوڑ دیتے؟"

آدمی: "نہیں۔"

اب کی بار "خود غرض" پر ٹک کرتے ہوئے اگلا سوال کیا:
"اور اگر وہ خاتون جو بس میں سوار ہوئی وہ ایک بزرگ خاتون ہوں تو کیا آپ انہیں اپنی سیٹ دیں گے؟"

آدمی: "نہیں۔"

عورت: ( غصے کے ساتھ لال پیلی ہوتی ہوئی ) "تم ایک نہایت خود غرض اور بے حس آدمی ہو جس کو خواتین اور بوڑھے لوگوں کے آداب نہیں سکھائے گئے"

یہ کہتے ہوئے عورت آگے چلی گئی۔

پاس کھڑا دوسرا آدمی جو یہ بات چیت سن رہا تھا،
اس بندے سے پوچھتا ہے کہ اس عورت نے تمہیں اتنی باتیں سنائیں تم نے کوئی جواب کیوں نہیں دیا ؟

تو اس آدمی نے کہا :
"یہ عورت اپنی منفی سوچ اور آدھی معلومات کی بنا پر سروے کر کے لوگوں کے کردار طے کر رہی ہے

اگر یہ مجھ سے سیٹ نا چھوڑنے کی وجہ پوچھتی تو میں اسے بتاتا کہ

میں ہی اس بس کا ڈرائیور ہوں

میں جب اپنے گھر سے دفتر کے لیے نکلتا ہوں تو مین روڈ پر آنے کے لیے مجھے دو سڑکیں کراس کرنا پڑتی ہیں۔ یہ اصل میں دو گلیاں ...
12/08/2024

میں جب اپنے گھر سے دفتر کے لیے نکلتا ہوں تو مین روڈ پر آنے کے لیے مجھے دو سڑکیں کراس کرنا پڑتی ہیں۔ یہ اصل میں دو گلیاں ہیں لیکن بہت کشادہ ہیں۔آخری والی گلی کے بائیں جانب ایک بڑا خوبصورت سا گھر ہے جس کے باہر ایک قریب المرگ شخص چارپائی پر پڑا ہوتاہے۔ یہ نہ کسی سے بات کرتا ہے نہ چلتا پھرتاہے۔۔۔بس چارپائی پر بیٹھا کھانستا رہتا ہے اور جب کھانس کھانس کر تھک جاتا ہے تو پھر کھانسنے لگتاہے۔یہ اس گھر کا چوکیدار ہے‘ لیکن میں جب بھی اسے دیکھتاہوں مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اگر اِس گھر میں کوئی چور ڈاکو آگئے تو کیا یہ چوکیدار اُنہیں روک پائے گا؟ اُس روز بھی میں نے گاڑی آخری گلی میں موڑی تو وہی چوکیدار کھانستا ہوا نظر آیا۔ یہ میری روز کی روٹین ہے‘ چوکیدار کی چارپائی کے بعد مین روڈ شروع ہوجاتی ہے لہذا میں نے مین روڈ پر گاڑی چڑھائی اور آئینے میں اپنا جائزہ لیا۔پندرہ بیس منٹ کی ڈرائیور کے بعد میری منزل آگئی۔۔۔!!!

میں شہر کے ایک بڑے اور متوسط علاقے میں معروف موٹیویشنل سپیکر کا خطاب سننے آیا تھا۔ احباب زور دے کر مجھے یہاں لائے تھے۔ سچی بات ہے کہ خود میری بھی خواہش تھی کہ میں بھی یہ لیکچر سنوں۔ تھوڑی ہی دیر میں موٹیویشنل سپیکرصاحب بلیک کلر کی ایک چمکتی ہوئی گاڑی میں تشریف لائے۔ اس گاڑی کے پچھلے بمپر پر الگ سے ایک تختی لگی ہوئی تھی جس پر ’’MS ‘‘ لکھا ہوا تھا۔۔۔شائد یہ موٹیویشنل سپیکرکا مخفف تھا۔ اور اپنی گفتگو سے حاضرین پر ایک سحر طاری کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ’’ہم لوگ اپنی اپنی زندگیوں میں اس قدر مگن ہوگئے ہیں کہ ہمیں پتا ہی نہیں چلتا کہ ہم اپنے سامنے چلتے پھرتے لوگوں کو کس قدر اگنور کر رہے ہیں۔

اگرسکون اور خوشی چاہیے تو ہمیں چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو بھلانا ہوگا‘ سب کو معاف کرنا ہوگا۔۔۔موٹیویشنل سپیکر کی بات سن کر پورے ہال میں خاموشی چھا گئی۔ انہوں نے پوچھا’’کیا آپ لوگوں میں سے کوئی ایسا ہے جس نے کبھی اپنے باپ کو جپھی ڈالی ہو؟‘‘۔ کچھ دیر سکوت رہا۔ پھر موٹیویشنل سپیکر نے آہستہ سے کہا’’آج گھر جائیں اور جن کے باپ زندہ ہیں انہیں گلے سے لگائیں‘ پیار کریں اوراگر کوئی شکوہ ٰ بھی ہے تو اسے بھلا دیں‘‘۔

پروگرام کے اختتام سے پہلے ہی مجھے ایک ضروری میٹنگ کی کال آگئی اور اٹھنا پڑ گیا۔ میٹنگ دو گھنٹے جاری رہی اور اس دوران کھانا بھی نہیں کھایا جاسکا۔ واپسی پر شدید بھوک لگی تھی لہذا ایک جگہ رک کر کھانا کھایا۔ بھوک کی وجہ سے کافی زیادہ آرڈر دے دیا تھا لیکن اب کافی سارا کھانا بچ گیا تھا۔ میں نے وہ سارا پیک کروایا اور واپس گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ آخری گلی میں مڑتے ہی چوکیدار پھر میری نظروں کے سامنے تھا۔ میرے ذہن میں اچانک موٹیویشنل سپیکر کے الفاظ گونجنے لگے’’کیا کوئی ایسا ہے جس نے کبھی اپنے باپ کو جپھی ڈالی ہو؟‘‘۔خیال آیا کہ یہ چوکیدار بھی تو کسی کا باپ ہوگا‘ پتا نہیں اس کو کبھی اپنے بیٹے کی جپھی نصیب ہوئی یا نہیں؟ میں نے کسی خیال کے تحت گاڑی چوکیدار کے پاس روکی اور پیک کروائے گئے کھانے کا شاپر اٹھا کر اس کے پاس آگیا۔ سلام دعا کے بعد میں نے شاپر اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے نہایت احترام سے کہا کہ یہ بالکل تازہ کھانا ہے‘ آپ کھا لیجئے۔‘‘ اُس کی آنکھوں میں ایک چمک سی ابھری اور پھر اُس نے انتہائی تیزی سے شاپر جھپٹ لیا۔ اس کا انداز بتا رہا تھا کہ شدید بھوک لگی ہے۔

پھر اس کے بعد میرا معمول بن گیا۔۔۔میں کبھی کبھارکوئی نہ کوئی بچا کھچا برگریا شوارما وغیرہ چوکیدار کے لیے لے جاتا۔ چونکہ اسے بولنے میں دقت ہوتی تھی لہذا ہماری اکثر دعا سلام اشاروں کنایوں میں ہی ہوجاتی۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ اس کے سرہانے کوئی کتاب پڑی ہوئی ہے اور وہ ایک ایک لفظ غور سے پڑھ رہا ہے۔مجھے بہت اچھا لگا کہ ان پڑھ ہوتے ہوئے بھی اسے کتاب پڑھنے کا شوق ہے۔ میں نے گاڑی روکی ‘ سلام لیا اور قریب جاکردیکھا تو ہوش اڑ گئے۔۔۔وہ دیوانِ غالب پڑھ رہا تھا۔یہ میرے لیے شدید حیرت کی بات تھی ۔البتہ یہ نہیں پتا تھا کہ کیا وہ واقعی کتا ب پڑھ رہا تھا یا کسی اور کی کتاب اس کے سرہانے رکھی تھی۔ میں نے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر اشاروں سے پوچھ ہی لیا کہ یہ کتاب یہاں کیسے آئی؟۔ اُس نے مریل سی آواز میں ٹوٹے پھوٹے جملوں میں بتایا کہ یہ کتاب اُسے بہت پسند ہے اور وہ جتنی بار پڑھتاہے اُتنی بار نیا لطف ملتا ہے۔ میرے ہاتھ پاؤ ں پھول گئے۔ غالب کو پڑھنے اور سمجھنے والا یہ چوکیدار میری نظروں میں مزید معتبر ہوگیا۔ میں نے پوچھا کہ کیاآپ تعلیم یافتہ ہیں؟ جواب اثبات میں آیا اور میری حیرت دوچند ہوگئی۔ اُس نے بتایا کہ وہ ایم اے پاس ہے اور ریٹائرڈ پروفیسر ہے۔

یہ بات بہت الجھا دینے والی تھی کہ آخر ایک پروفیسر کے ساتھ ایسا کیا ہوا کہ اسے اس عمر میں چوکیدار ی کرنا پڑرہی ہے۔ اس راز سے بھی اُس نے خود ہی پردہ اٹھا دیا اور ایسی حقیقت بیان کی کہ کچھ دیر کے لیے مجھے اپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ یہ بزرگ جسے میں چوکیدار سمجھتا رہا وہ اس گھر کا مالک تھا۔ تین بیٹے تھے۔ تینوں کی شادیاں کر دیں۔ بیوی فوت ہوگئی تو یہ دیکھتے ہی دیکھتے بوڑھا ہوگیا۔ کھانسی اور بیماری کی وجہ سے بچوں کو تشویش ہوئی کہ کہیں باپ کی بیماری اُن کے بچوں کو نہ لگ جائے لہذا سب گھر والوں کے باہم مشورے سے طے پایا کہ ’ابا جی‘ کی چارپائی گھر سے باہر لگوا دی جائے تاکہ وہ آرام سکون سے جی بھر کے کھانس سکیں۔ یوں اب گھر والے بھی چین کی نیند سوتے تھے اور ابا جی کو بھی اپنے بیٹوں اور اولاد کی جلی کٹی باتیں نہیں سننا پڑتی تھیں۔انہوں نے بتایا کہ وہ اپنی اولاد سے بالکل بھی ناراض نہیں کیونکہ انہوں نے کہیں سنا تھا کہ’اگر سکون اور خوشی چاہیے تو ہمیں چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھلانا ہوگا‘سب کو معاف کرنا ہوگا‘‘۔ یہ جملہ سن کر میں چونک اٹھا۔ یقیناًانہوں نے بھی موٹیویشنل سپیکر کا کوئی لیکچر پڑھا یا سنا تھا کیونکہ یہ بات میں نے بھی وہیں سنی تھی۔انہوں نے بتایا کہ ماشاء اللہ ان کے تینوں بیٹے بزنس مین ہیں اور بہت اچھا کماتے ہیں‘ تینوں کے پاس اچھی گاڑیاں ہیں۔

میں نے اُس رو ز بہانے بہانے سے اُنہیں بہت کریدا کہ شائد اُن کے دل میں اپنے بیٹوں کے لیے کوئی تھوڑی سی بھی نفرت ہو لیکن وہ ہر حال میں اولاد سے راضی نظر آئے۔ پچھلے دنوں میں اُن کے گھر کے قریب سے گذرا تو ٹھٹھک کر رک گیا۔ ان کی چارپائی کے پاس ایک گاڑی کھڑی تھی۔ میں نے تھوڑا آگے جاکر اپنی گاڑی روکی اور پروفیسر صاحب کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ وہ فخر سے مجھے بتانے لگے کہ یہ گاڑی ان کے بیٹے کی ہے ۔ اسی دوران گاڑی سٹارٹ ہونے کی آواز آئی ۔ غالباًہم دونوں کی گفتگو کے دوران ہی ان کا بیٹا گیٹ سے باہر نکلا اور گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگیا۔پروفیسر صاحب نے بیٹے کی جاتی ہوئی گاڑی کی طرف دیکھا اور بے اختیار ہاتھ اٹھا کر بولے’’خیرنال جا تے خیر نال آ‘۔ میں نے چونک کر گردن موڑی۔۔۔گاڑی کافی آگے جاچکی تھی لیکن اس کے پچھلے بمپر پر ’MS‘ کے الفاظ صاف نظر آرہے تھے۔۔۔!!

منقول

چلو اب ہی خیال کر لیا گورنمنٹ نے
11/08/2024

چلو اب ہی خیال کر لیا گورنمنٹ نے

Address

Lahore

Telephone

+923208440682

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Auréla Mart posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Auréla Mart:

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram

Category