Chheena Traders Bhagal

  • Home
  • Chheena Traders Bhagal

Chheena Traders Bhagal Chheena Traders

19/02/2025

کاپر سلفیٹ یا نیلا تھوتھا کی زراعت میں اہمیت

مارکیٹ میں موجود اقسام اور اصلی نقلی کی پہچانجب .
کاپر سلفیٹ یا نیلا تھوتھا کو کسان کا امرت دھارا کہا جاتا ہے کیونکہ یہ پودوں کا خوراکی جز بھی ہے بہترین فنجیسائڈ بھی ہے اور بیکٹیریا سے فصلوں میں پیدا ہونے والے مسائل کے کنٹرول میں بھی اپنی مثال آپ ہے ان مسائل کے خلاف یہ ایک اچھا اور سستا ٹانک ہے, استعمال میں مقدار اور طریقہ کار مختلف وجوہات و حالات میں محتلف ہے لہذا استعمال ماہرین کی سفارشات کے مطابق کیا جائے.

نیلا تھوتھا چار کوالٹیوں میں مارکیٹ میں موجود ہوتا ہے۔۔, تیسری قسم وہ کچرا نما نیلا تھوتھا ہے جو جب کاپر کو سلفیورک ایسڈ سے ری ایکٹ کرایا جاتا ہے تو دوسرے نمبر پر بنتا ہے اس میں سلفیورک ایسڈ زیادہ ہوتا ہے اور اسی وجہ سے وزن بھی کچھ زیادہ بنتا ہے, , جہاں کاپر کی تاریں بنتی ہیں وہاں سے یہ اس سے بھی کچھ سستا مل سکتا ہے, چوتھی قسم ایسی ہے کہ جس میں پھٹکڑی اور نیلا رنگ ملایا جاتا ہے یہ دو نمبر نیلا تھوتھا ہوتا ہے, اگر ملاوٹ شدہ نہ ہو تو لوکل اور امپورٹڈ کے کام میں کوئی خاص فرق نہیں, دونوں پانی میں حل پزیر ہیں, ایک نمبر نیلے کی پہچان کے لئے سب سے بہتر عمل تو یہ ہے کہ پنجاب کے اکثر اضلاع میں گورنمنٹ لیبارٹریز موجود ہیں جہاں تقریبا ایک سو روپے فیس دے کر آپ پرسنٹیج معلوم کر سکتے ہیں, یہ سب سے بہتر آپشن ہے اپنے ڈیلرز سے تمام کھادیں خریدتے وقت کبھی لیب سے انکی چیکنگ کرا لیا کریں, کبھی ایسا ممکن نہ ہو تو کاپر سلفیٹ کی اصلیت کی نشانی یہ ہے کہ اس کو پانی میں حل کر کے اس میں لوہے کا راڈ رکھا جائے تو وہ چند منٹوں میں زنگ آلود ہو جاتا ہے, لیکن چونکہ ملاوٹ شدہ نیلا تھوتھا بھی مکمل پھٹکڑی کا نہیں ہوتا بلکہ اصلی میں پھٹکڑی ملائی جاتی ہے اس وجہ سے ملاوٹ شدہ سے بھی لوھے کو زنگ لگتا ہے لیکن اصلی سے کم, دو چار قابل اعتماد جگہوں سے لیا جائے اور برابر مقدار میں پانی میں گھول کر برابر ٹائم کے لیے اس میں لوھا رکھا جائے ایک منٹ کے بعد لوہے کو نکال کر دیکھا جائے جس پر زنگ زیادہ ہے وہ اصلی, اسکا سیمپل محفوظ رکھا جائے اور خریدتے وقت اسکا موازنہ کیا جائےاور چیکنگ پر اگر مسئلہ محسوس ہو تو دوکاندار کو شکایت لگا کر مزید بہتر کی تلاش کی جائے

نیلا تھوتھا(کاپر سلفیٹ) فصلوں کی خوراک بھی ہے اور فنجی سائیڈ بھی۔۔۔۔اور زہر بھی
چھینہ ٹریڈرز بھاگل پر خالص نیلا تھوتھا دستیاب ہے

22/06/2024

باغبان آرٹیکل

نائیٹروجن کا پودوں میں کردار اور ذرائع

تحریر
ایگریکلچر فارم کنسلٹنٹ محمد اسلم میکن

پودوں کی بڑھوتری سے لیکر پودوں کے اندر ہونے والے اکثریت عوامل جن میں خصوصا کلوروفل کی تیاری اینزائمز کی تشکیل و دیگر خوراکی اجزا کا پودے میں پہنچ کر کام کرنے میں نائیٹروجن کا کردار بنیادی ہے جس پر پھر کسی وقت تفصیل سے بات ہو گی

فی الوقت ہم۔مختصر انداز میں چند پوائنٹس سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ پودا بڑھنے پیداوار دینے اور صحتمند رہنے کے لیے نائیٹروجن کئی طریقوں سے حاصل کرتا ہے اور پروڈکشن بڑھانے کے لیے ہم اضافی نائیٹروجن بھی پودوں کو مختلف طریقوں سے دے سکتے ہیں جس میں ایک طریقہ مصنوعی کھادیں ہے جس میں یوریا پاکستان میں نائیٹروجن کا نیچرل اور سستا ذریعہ سمجھا جاتا ہے جس میں تقریبا 46 فیصد نائیٹروجن ہوتی ہے اس کے علاؤہ نائیٹروجن ہمیں دیگر کھادوں سے بھی مل سکتی جیسے کیلشیم امونیم نائیٹریٹ جسے کین گوارہ بھی کہتے ہیں اس میں نائیٹروجن امونیم اور نائیٹریٹ شکل میں موجود ہوتی ہےجسکی کل۔مقدار تقریبا 26 فیصد ہوتی ہے علاؤہ ازیں اس میں کیلشیم اور میگنیشیم بھی موجود ہوتی ہے

اسکے علاؤہ این پی یعنی نائیٹرو فاس میں بھی 20 فیصد فاسفورس کے ساتھ 22 فیصد نائیٹروجن ہوتی ہے۔

امونیم سلفیٹ بھی نائیٹروجن کا ایک ذریعہ ہے جس میں 21 فیصد نائیٹروجن اور 24 فیصد سلفر موجود ہوتا ہے۔

ان کھادوں کے علاؤہ زمین میں نائیٹروجن بڑھانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ زمین میں نامیاتی مادہ بڑھایا جاےجس میں میٹریل کی کوالٹی اور ڈیکمپوزیشن کے حساب سے ایوریج نائیٹروجن تقریبا ایک سے پانچ فیصد تک ہو سکتی ہے،

زندہ اجسام کی باقیات زمین میں ڈالی جائیں جن میں پتے لکڑی فصلات گوبر و دیگر جاندار چیزوں کی باقیات بھی نائیٹروجن سمیت تمام خوراکی اجزا رکھتی ہیں، اسکے علاؤہ ہماری ہوا میں تقریبا 78٪ نائیٹروجن ہے لیکن پودے اسے ڈائریکٹ استعمال نہیں کر سکتے اسکے لیے اگر ہم زمین میں پھلی دار فصلیں کاشت کریں جیسے جنتر گوارہ مونگی وغیرہ یا سردیوں میں برسیم شفتل وغیرہ تو انکی جڑوں میں ایسے بیکٹیریا تیزی سے بڑھتے ہیں جو ہوا سے نائیٹروجن لیکر اسے نائیٹریٹ میں تبدیل کرتے رہتے ہیں جسے پودے بعد میں آسانی سے استعمال کر سکتے ہیں اور اسی فصل کو اگر جب پھول آنا شروع ہوں تو زمین میں مکس کر دیا جاے تو بہترین نامیاتی مادہ نائیٹروجن حاصل ہوتی ہے،

اسی طرح دیگر اجزا کے لیے بھی ہم گلی سڑی گوبر وغیرہ استعمال کر سکتے ہیں کیونکہ چارہ جس زمین میں اگتا ہے وہاں سے سارے خوراکی اجزا اپنے اندر اکٹھے کر لیتا ہے پھر جانوروں کے اندر ہضم ہونے کی صورت میں کچھ اجزا جانور کے جسم میں منتقل ہو جاتے ہیں باقی اجزا چارے فصل کی باقیات یعنی گوبر میں موجود ہوتے ہیں جو فصلوں کے لیے بہترین اور متوازن غذا ہوتی ہے لیکن ہم ساری زرعی زمینوں میں یہ کھاد پوری نہیں کر سکتے جس وجہ سے ہمیں ساتھ مصنوعی کھادوں کا سہارا لینا پڑتا ہے البتہ یہاں یہ بتانا ضروری سمجھوں گا کہ یوریا کھاد بنانے کے پلانٹس پاکستان میں موجود ہیں اور یوریا ایک آرگینک کھاد سمجھی جاتی ہے اسے بناتے وقت ہوا سے نائیٹروجن لیکر امونیا کی شکل میں یوریا کے دانوں میں قید کی جاتی ہے جو زمین میں پہنچتی ہے تو بیکٹیریا اسے امونیم اور نائیٹریٹ شکل میں تبدیل کر دیتے ہیں جسکے بعد پودا اسے استعمال کر سکتا ہے اضافی یہ بھی بتانا ضروری سمجھوں گا کہ یوریا اگر تیس ڈگری یا اس سے زیادہ درجہ حرارت میں ایکڑ یا چار کنال میں چھٹا کر کے ایک طرف سے پانی لگانا شروع کر دیا جاے تو اگلے ایک دو گھنٹوں میں اس کھاد میں سے نائیٹروجن کی بڑی مقدار دوبارہ ہوا میں چلی جاتی ہے جو کسان کے شدید معاشی نقصان کا باعث بنتا ہے اس لیے خصوصا دن میں جب درجہ حرارت تیس سے زیادہ ہو تو یوریا کھاد پانی کے ساتھ فلڈ کی جاے یا پانی لگانے کے فوری بعد چھٹا کی جاے تا کہ اسکی زیادہ سے زیادہ مقدار پودے استعمال کر سکیں،

یوریا کھاد ڈالنے کے فوری بعد اسے امونیا سے امونیم اور نائیٹریٹ میں تبدیل کرنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے جو تقریبا ایک ہفتے میں مکمل ہو جاتا ہے البتہ اس کا انحصار زمین کی صحت اور زمین میں موجود اسے امونیا سے امونیم اور نائیٹریٹ میں تبدیل کرنے والے بیکٹیریا کی تعداد پر بھی منحصر ہے جتنا زمین میں نامیاتی مادہ بہتر ہو گا اتنا ہی پودوں کے لیے کام کرنے والی زمینی قدرتی مخلوق زمین میں زیادہ ہو گی اور رزلٹس بہتر آئیں گے۔
مزید معلومات اور اپنے فارم کو پروفیشنل انداز میں چلانے کے لیے آپ مجھے اپنے فارم کی ٹیم کا حصہ بنا سکتے ہیں جس میں ماہانہ فارم وزٹس مینجرز و لیبر کی ٹریننگ اور بجٹ کے حساب سے بر وقت و بہترین فیصلوں میں میں فارم کے ساتھ منسلک رہ کر فارم کی بہتری میں اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کر سکتا ہوں۔
وٹس اپ و فیس بک پر باغبان گروپ میں باغات کے فارمرز کے لیے میری جنرل کنسلٹینسی مفت دستیاب ہے دیگر فصلوں کے کاشتکار میری آئی ڈی فالو کر سکتے ہیں۔
صرف وٹس اپ 03003918229

ایگریکلچر فارم کنسلٹنٹ محمد اسلم میکن

17/05/2024
27/01/2024

ہیروشیما کا قاتل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لٹل بوائے

جاپان پر گرائے جانے والے پہلے جوہری بم کو یہ نام اس کے ڈیزائنر رابرٹ سربر نے دیا تھا۔یہ نام اسے اسکی شکل و صورت کے مطابق دیا تھا۔اس کا وزن 4400 کلوگرام،لمبائی 3 میٹر اور چوڑائی 28 انچ تھی۔اس میں 64 کلوگرام یورینئم 235 بھری گئی تھی۔بم کے پھٹتے ہی اس یورینئم میں انشقاق کا عمل شروع ہوگیا جس سے 16 کلوٹن ٹی این ٹی توانائی کا اخراج ہوا۔

ایک کلو ٹن ٹی این ٹی توانائی 4.184 ارب جاؤل کے برابر ہوتی ہے۔یہ توانائی کی اتنی بڑی اکائی ہے کہ عام بارود سے ہونے دھماکے اس کے ذریعے ناپے ہی نہیں جاسکتے۔دھماکے کی جگہ پر درجہ حرارت 7000 ڈگری سنٹی گریڈ تک پہنچا(سورج کی سطح کا اوسط درجہ حرارت 6000 ڈگری سنٹی گریڈ ہوتا ہے)۔ایک چوتھائی میل کے دائرے میں مکمل آگ لگ گئی اور ایک تہائی میل کے دائرے میں عمارتوں کی اینٹیں تک پگھل گئیں۔اتنی زیادہ توانائی کے اخراج کی وجہ سے شدید دباؤ پیدا ہوا جس سے دھماکے کے مقام پر 980 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوا چلی اور 4ٹن فی مربع فیٹ دباؤ بنا۔ایک تہائی میل کے دائرے میں ہوا کی رفتار 620 میل فی گھنٹہ اور دباؤ 2 ٹن فی مربع فیٹ تھا۔

دھماکہ بہت شدید تھا جس سے عمارتیں تباہ اور لوگ ہلاک ہوگئے لیکن سب سے خوفناک چیز تابکاری تھی۔بم کے پھٹتے ہی الفا،بیٹا،گیما اور نیوٹران شعاعیں نکلیں۔الفا اور بیٹا تو ہوا میں جذب ہوگئی لیکن گیما اور نیوٹران نے آنے والی نسلوں میں بھی تباہی مچادی۔یہ شعاعنں زمین میں جذب ہوئی تو زمین بھی بانجھ ہو گئی۔آئندہ آنے والے 50 سال تک کوئی سبزہ نہ اگ سکا اور جو اگا وہ زہر سے بھرا ہوا تھا۔اندازہ ہے کہ 1945 سے لیکر 1952 کے عرصے میں 60 ہزار افراد اس تابکاری سے ہلاک ہو گئے۔تابکاری کا دائرہ 1 میل کے علاقے میں اس قدر شدید تھا کہ دھماکے 100 گھنٹے بعد بھی جو شخص اس میں داخل ہوا مر گیا۔
اس دھماکے میں مرنے والے زخمی ہونے والوں سے زیادہ خوش نصیب ثابت ہوئے کیونکہ لوگ محض اپاہج ہی نہیں ہوئے بلکہ ایسی خوفناک بیماریوں میں بھی مبتلا ہوئے جو آنے والے نسلوں میں بھی منتقل ہوئیں۔
اپنی تمام تر تباہ کاریوں کے باوجود ہیرو شیما کا لٹل بوائے ناگاساکی کے فیٹ مین سے کمزور تھا۔۔۔

27/01/2024

خاکی سونا

انجینیئر ظفر وٹو

پنجاب میں 22,000 کلومیٹر کی لمبائی میں پچھلے ایک ماہ سے وہ خاکی سونا بکھرا ہوا ہے جس میں تبت اورہمالیہ کے گلیشئیرز اورکشمیر اور کے پی کے پہاڑوں کا عرق شامل ہے۔ یہ سونا اگر کسی اور ملک کے پاس ہوتا تو اسے یوں ضائع کرنے کی بجائے سٹاک کیا جاتا۔ اس کی سکریننگ اور صفائی کی جاتی۔ اسے ملک کے بنجر علاقوں اور صحراؤں میں بچھا کر ان کو قابلِ کاشت بنایا جاتا بلکہ اس کی برانڈنگ کرکے خوب صورت پیکنگ میں بیرون ملک کچن گارڈننگ اور فارمنگ کے لئے ایکسپورٹ کیاجاتا۔ حکومتی یا پرائیویٹ سیکٹر میں یہ کاروبار کا ایک بہت بڑا پوٹینشیئل ہے جس کا خام مال ہر سو بکھرا پڑا ہے۔

پنجاب میں ایک دہائی کے بعد نہروں کی بھل صفائی کا کام اتنے بڑی سطح ہورہا ہے۔ پہلے مرحلے میں منگلا ڈیم کے زیرِانتظام نہروں کو 26 دسمبر سے 13 جنوری تک مرمت اور صفائی کے لئے بند کیا گیا جب کہ دوسرے مرحلے میں تربیلا ڈیم کے زیرِانتظام نہروں کو 13-31 جنوری تک بند کرکے مرمت اور بھل صفائی کا کام جاری ہے۔ اس کام کی سٹیلائٹ تصاویر LIMS کے ذریعے روزانہ صبح 10 بجے مانیٹرنگ ایپ میں لوڈ ہوجاتی ہیں۔ یہ توقع کی جارہی ہے کہ نہروں کی صفائی سے تین سے چار لاکھ ایکڑ اضافی رقبے تک پانی پہنچ سکے گا۔

سندھ طاس کے دریاؤں میں چلنے والا پانی گدلا ہوتا ہے ۔ اس کے اندر بہت سے مٹی کے ذرات (نمکیات)شامل ہوتے ہیں۔اس مٹی کاکچھ حصہ تو ڈیموں کی تہہ میں بیٹھ جاتا ہے جب کہ کچھ حصہ پانی کے اندر ہی گُھل کر اس کے ساتھ ساتھ دریاؤں اور بیراجوں سے ہوتا ہوا نہروں اور راجباہوں میں آ جاتا ہے ۔ یہ گدلا نہری پانی پنجاب اور سندھ کے کھیتوں میں پورا سال مٹی کی ایک زرخیز پرت بچھاتا رہتاہے اور یوں کھیتوں کی زرخیزی برقرار رہتی ہے۔

مٹی کی ایک پرت نہروں کے پیندوں اور کناروں پر بھی بیٹھ رہی ہوتی ہے جو اگر ایک خاص مقدار سے بڑھ جائے تو نہروں سے یہ مٹی کھرچ کر انہیں صاف کرنا پڑتا ہے وگرنہ نہر کی کیپیسٹی کم ہوجاتی ہے اور وہ مطلوبہ مقدار میں پانی نہیں لے سکتی۔ محکمہ نہر 200 کیوسک سے زیادہ کیپیسٹی والی نہروں اور راجباہوں کی ایک تہائی لمبائی سے ہرسال چھ انچ سِلٹ ہٹانے کا ذمہ دار ہے۔

محکمہ ان نہروں پر نظر رکھتا ہے اور اگر کسی نہر کے پیندے پر چھ انچ سے زیادہ مٹی (سِلٹ silt ) جم جائے تو اس کی بحالی کا منصوبہ بنا کر روٹین کے تعمیرومرمت (M&R)کے کاموں کے فنڈ سے نہر کو صاف کرلیا جاتا ہے ۔ کسی بھی نہر کے پیندے پر 9 انچ سے زیادہ مٹی جمع ہونا اس کی کیپیسٹی کو متاثر کرتا ہے۔ اگر نہر بہت بڑی ہو اور جمنے والی مٹی کی مقدار بہت زیادہ ہوتو اس کے باقاعدہ سالانہ ترقیاتی کاموں (ADP)سے فنڈ لینا پڑتا ہے ۔

نہروں کی صفائی سالانہ بندش کے دوران کی جاتی ہے جوکہ دسمبر اور جنوری میں تین سے چار ہفتے کے لئے ہوتی ہے۔ صرف پنجاب کے اندر ان نہروں کی لمبائی 23,000 میل سے زیادہ ہے اور ان کی پانی لینے کی کیہیسٹی 150,000 کیوسک ہے۔اتنے طویل و عریض نظام کی صفائی کتنا مشکل کام ہوگا جہاں پر ہم لوگ اپنے گھر اور گلیاں تک صاف نہیں رکھ سکتے۔

بھل صفائی کے دوران ابتدائی طور پر نہروں سے سِلٹ نکال کر نہر کے کناروں پر ہی ڈال دی جاتی ہے تاہم اگر مٹی کی مقدار زیادہ ہوتو لوگوں کو معاوضہ دے کر کچھ سٹوریج ایریا میں مٹی ڈال دیتے ہیں۔نہروں سے نکالے گئے گاد (silt) اور تلچھٹ (Sediment) کو فضلے کے طور پر ٹھکانے لگانے کے بجائے بہت سے فائدہ مند استعمال میں لایا جاتا سکتا ہے جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔

زرعی زمینوں کی زرخیزی:
یہ گاد اور تلچھٹ نامیاتی مادے اور غذائی اجزاء سے بھرپور ہوتی ہیں جو انہیں کمزور مٹی میں ترمیم کرکے زرعی استعمال کے لیے زرخیز بناتے ہیں۔ پاکستان کے رقبے کا پانچواں حصہ صحراؤں پر مشتمل ہے اور اگر یہ کام ایک منظم طریقے سے کیا جائے تو یہ صحرا گلزار بن سکتے ہیں۔ مزید برآں اس مٹی کو سائنسی بنیادوں پر سکریننگ اور صفائی کرکے خوب صورت پیکنگ میں خلیجی ممالک اور مغرب میں ایکسپورٹ کیا جاسکتا ہے۔

زمین کی بحالی :
مٹی اور تلچھٹ کو زمینی کٹاؤ یا زمینی انحطاط سے متاثرہ علاقوں میں زمین کو دوبارہ ٹھیک کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ زمین کی زرخیزی کو بحال کرنے اور مٹی کو بہتر کرنے کے لیے اسے کمزور زمین پر پھیلایا جا سکتا ہے۔

تعمیر:
بعض صورتوں میں، گاد اور تلچھٹ کو تعمیراتی منصوبوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے، جیسے اینٹ، بلاکس، یا کنکریٹ اور سڑک کی تعمیر میں ایک جزو کے طور پر۔

ماحولیاتی بہتری:
گاد اور تلچھٹ ماحولیاتی بہتری کی کوششوں میں مدد کر سکتے ہیں، جیسے نشیبی علاقوں کو بھرنا یا دریا کے کناروں اور ساحلوں کو مستحکم کرنا۔

تحقیق اور تجزیہ:
سائنسدان اور محققین کسی علاقے کی ارضیاتی تاریخ اور ماحولیاتی حالات کے بارے میں جاننے کے لیے تلچھٹ کے نمونوں کا بھی مطالعہ کر سکتے ہیں۔

تاہم نہروں سے نکالے گئے بھل کے استعمال کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کی مٹی کی کیا خصوصیات ہیں یا یہ زہریلے مادوں سے آلودہ تو نہیں ہوگئی۔اس مقصد کے لئے اس مٹی کی لیبارٹری سے مناسب جانچ پڑتال اور ٹیسٹنگ کرانا ضروری ہے کیونکہ ہمارے ہاں آبادی والے علاقوں میں سیوریج اور صنعتوں کا پانی بھی بعض اوقات نہروں میں ہی چھوڑ دیا جاتا ہے۔ لوگ اپنا کچرہ تک نہروں میں پھینک دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس مٹی کے استعمال میں قانونی اور ماحولیاتی ہدایات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔


Zafar Iqbal Wattoo بشکریہ محترم انجینئر

14/01/2024

گھڑی میں تین سوئیاں ہوتی ہیں، جن میں ایک سوئی سیکنڈ کے نام سے مشہور ہے۔
یہ سیکنڈ والی سوئی اپنا وجود تو رکھتی ہے، مگر اس کا ذکر نہیں کیا جاتا۔ سب یہی کہتے ہیں کہ دس بج کر 15 منٹ ہوگئے ہیں کھبی کسی نے یوں نہیں کہا کہ دس بج کر پندرہ منٹ اور چار سیکنڈ ہوئے ہیں۔ جبکہ یہ سیکنڈ والی سوئی دونوں سے زیادہ محنت اور مشقت کرتی ہے اور ان دونوں کو بھی آگے بڑھنے میں مدد کرتی ہے۔
ہمارے زندگی میں بہت سارے لوگ اسی سیکنڈ والی سوئی کی مانند ہوتے ہیں، جیسا کہ ہمارے والدین اور اساتذہ کرام ، جن کا ذکر تو کہیں نہیں ہوتا، لیکن ہمارے آگے بڑھنے میں ان کا کردار ضرور ہوتا ہے۔
اللہ پاک ہمارے والدین اور اساتذہ کرام کو اپنے حفظ و امان میں رکھے جو دنیا فانی سے کوچ کر گئے ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمیـــــــــــــــــن

07/01/2024

Address


Opening Hours

Monday 09:00 - 18:00
Tuesday 09:00 - 18:00
Wednesday 09:00 - 18:00
Thursday 09:00 - 18:00
Friday 09:00 - 17:00
Saturday 09:00 - 18:00
Sunday 09:00 - 18:00

Telephone

+923028768392

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Chheena Traders Bhagal posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Chheena Traders Bhagal:

  • Want your practice to be the top-listed Clinic?

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram