Rohani Dunyia

Rohani Dunyia We hope that this information may help u in obtaining the purity of soul & help improve ur spiritual health
Istikhara,Monthly Amliyaat,Tavezat,Fate & Luck.

17/08/2025

❤ اللَّـﮬـُمَّ صـَلِِّ وَسَلِّـمْ وَبَارِكْ ؏َـلَى❤ سَيِّدِنَا مُحَمَّد
وَعَلَى آلِهِ وَصَحْبِهِ❤ وَسَلِّمْ تَسْلِيمَاً كَثِيرَاً ﷺ

12/08/2025

اللہ اللہ اللہ

11/08/2025

💕 "لا حول ولا قوة إلا بالله" 💕
کا کثرت سے ورد کرنا بہت عظیم عبادت ہے۔ جب تم اسے لازم پکڑو گے، تو:

▫️اللہ تمہاری بصیرت روشن کر دے گا،
▫️تمہیں درست سوچ کی توفیق دے گا،
▫️تمہارے دل کو ثابت قدم رکھے گا،
▫️تمہاری رائے کو درست کرے گا،
▫️تمہارے حوصلے کو مضبوط کرے گا،
▫️تمہیں عزت عطا کرے گا،
▫️تمہارے معاملات کو سنوار دے گا،
▫️تمہارے غم دور کرے گا،
▫️تمہاری حاجتیں پوری کرے گا،
▫️تمہارا سینہ کشادہ کرے گا،
▫️تمہارے لیے راہیں کھولے گا،
▫️اور تمہاری مدد فرمائے گا۔

🌻 ہم اللہ کے ساتھ ہی طاقتور ہوتے ہیں،
اللہ ہی سے شفا پاتے ہیں،
اللہ ہی سے دلوں کو سکون ملتا ہے۔
~♥️✨♥️

11/08/2025

لوگ چلتے چلتے اچانک کیوں گر جاتے ہیں؟ آخر توازن کھو بیٹھنے کی وجہ کیا؟طبی ماہرین نے حیرت انگیز فارمولا بتا دیا
Why Do People Suddenly Fall While Walking? | Facts & Medical Solution Watch in Video

11/08/2025

🍂🎋🍁🌾💐🍃💫
📢 *عدل اور انصاف میں کیا فرق ھے؟
ہمیں یہ بھی غلط پڑھایا گیا کہ "انصاف ہونا چاہیے"۔
حالانکہ قرآن میں انصاف کا کوئی تصور نہیں ہے۔
*یہ ایک غیر قرآنی اور غیر اسلامی اصطلاح ہے۔
اسلام ہمیں انصاف کا نہیں، عدل کا حکم دیتا ہے۔
انصاف دراصل ایک مہذب شکل میں ظلم ہے
یا یوں کہیے کہ یہ ظلم کی مہذب شکل ہے
جو صدیوں سے ہمیں نظامِ عدل کے نام پر پڑھائی، سکھائی اور نافذ کی 1️⃣ تین لوگ ہیں: ایک طاقتور، ایک درمیانہ، اور ایک کمزور۔آپ تینوں کو 10، 10 اینٹیں اٹھانے کو کہیں — یہ "انصاف" ہوگاکیونکہ برابر دیا گیالیکن طاقتور کو 15، درمیانےکو کو10 اور کمزور کو 5 اینٹیں دی جائیں
تو یہ عدل ہے۔ ہر ایک کو اس کی طاقت کے مطابق ذمہ داری ملی
2️⃣ تین طلبہ ہیں: ایک اندھا، ایک ذہین، اور ایک جسمانی معذور
اگر آپ تینوں کو ایک جیسے سوالات والا پرچہ دیں تو یہ "انصاف" ہے
لیکن دراصل یہ ظلم ہے، کیونکہ سب کی صلاحیتیں برابر نہیں
عدل یہ ہے کہ ہر طالب علم کا پرچہ اس کی استعداد کے مطابق ہو
3️⃣ تین افراد آپ کے پاس آتے ہیں: ایک بچہ، ایک بیمار، اور ایک صحت مند بالغ
آپ کے پاس تین روٹیاں، تین دودھ کے پیک، اور تین جوس ہیں
اگر آپ تینوں کو ایک ایک چیز دیں تو "انصاف" تو ہو جائے گا
مگر نتیجہ ظلم ہوگا
عدل یہ ہے کہ بچہ دودھ لے، مریض جوس لے، اور صحت مند روٹی لے
جسے جو ضرورت ہو، وہی دیا جائے
4️⃣ پاکستان میں ایک رکشے والے کو 2000روپے کا جرمانہ کیا جائے*
اور مرسیڈیز والے کو بھی اتنا ہی
تو یہ "انصاف" تو ہے،لیکن درحقیقت یہ بھی ظلم ہے
رکشے والا راشن کاٹ کر جرمانہ بھرے گا
اور مرسیڈیز والا جیب سے نوٹ نکال کر
یہ کہاں کا انصاف ہے؟
یہاں عدل ہوتا تو جرمانہ آمدنی کے مطابق ہوتا
5️⃣ فن لینڈ میں واقعی ایسا ہوتا ہے
جرمانے آمدنی کے حساب سے دیے جاتے ہیں
ایک امیر آدمی اگر تیز رفتاری کرے، تو لاکھوں روپے جرمانہ ہوتا ہے
اور ایک مزدور وہی قانون توڑے تو چند یورو کا چالان
یہی عدل ہے سب پر قانون ایک ہو، مگر جزا و سزا ان کی حیثیت کے مطابق ہو*
ہم سب کو ایک جیسا پرچہ دیتے ہیں، ایک جیسا قانون، ایک جیسا جرمانہ
اور پھر حیران ہوتے ہیں کہ یہ معاشرہ ظالم کیوں بن گیا
یاد رکھیے: برابری ضروری نہیں، ضرورت کے مطابق دینا ضروری ہے
اور یہی عدل ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
> "إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ"

"بے شک اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔"
(سورہ النحل، آیت 90)
🇵🇰الحاچ پیر ظفرزوادی چشتی نظامی

11/08/2025

بھادوں کی حیرت انگیز معلومات
16 اگست سے شروع ہونے والا پنجابی مہینہ بھادوں اور اُسکی دلچسپ روایات
بھادوں پنجابی اور نانک شاہی کیلنڈر کا چھٹا مہینا ہے جو ساؤن کے بعد آتا ہے اور آٹھویں انگریزی مہینے اگست کی 16 تاریخ سے ستمبر کی 15 تاریخ تک رہتا ہے اور اس مہینے کے 31 دن شمار کیے جاتے ہیں۔

بھارتی اور پاکستانی پنجاب میں ساؤن اور بھادوں بارشوں کے مہینے ہیں جس میں مُون سُون کی بارشیں ہاڑ یعنی جون اور جولائی کی شدید گرمی کے بعد گرمی کا زور توڑ دیتی ہیں اسی لیے بھادوں کو پنجاب میں اچھے موسم والا مہینہ جسکی گرمی برداشت کے قابل ہوتی ہے تصور کیا جاتا ہے۔
بابا گُرو نانک جو سکھوں کے سب سے بڑے گُرو ہیں اپنی کتاب گُرو گرنتھ صاحب میں لکھتے ہیں کہ "بھادوں بارش کا مہینہ انتہائی خوبصورت مہینہ ہے اور ساؤن اور بھادوں رحمت والے مہینے ہیں جس میں بادل نیچے اُترتا ہے اور تیز بارش برساتا ہے جس سے پانی اور زمین شہد سے بھر جاتے ہیں اورخالق زمین پر گھومتا ہے”۔
روایات میں ہے کہ پنجابی کے 12 مہینوں کے نام گیاراں بھائیوں (ویساکھ، جیٹھ، ہاڑ، ساون، اسو، کتک، مگھر، پوہ، ماگھ، پھگن، جیت اور 1 بہن (بھادوں) کے نام پر رکھے گئے یعنی سال کے سارے مہینوں میں بھادوں گیاراں بھائیوں کی اکلوتی اور انتہائی لاڈلی بہن ہے۔

مزید روایات میں ہے کہ بھادوں جہاں انتہائی لاڈی اور میٹھی ہے وہاں منہ زور، نکی چڑی، تیکھی اور چُبھنے والی بھی ہے اسی لیے اس مہینے کی گرمی اگر تیز ہوجائے تو انسان پسینے سے شرابور ہوجاتا ہے، اس مہینے میں ہوا اگر چلتی ہو تو انتہائی سہانہ موسم ہوتا ہے اور ہوا اگر بند ہو جائے تو سانس بھی بند ہو جاتی ہے۔
کہتے ہیں بھادوں اگر برسے تو زمین پر رہنے والی مخلوق چرند، برند، حشرات سبھی اپنے گھروں سے باہر نکلتے ہیں اور اس دلفریب موسم کے مزے لُوٹتے ہیں اور بھادوں اگر خُشک ہو جائے تو یہ ہر چیز کو خشک کرکے رکھ دیتی ہے اس لیے اس موسم میں رب کائنات سے رحمت کی دُعائیں مانگنی چاہیے تاکہ اس موسم کی سختی سے بچا جا سکے۔
بھادوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ جیٹھ اور ہاڑ کی شدید گرمی کو ختم کرنے کے بعد جب خُود ختم ہوتی ہے تو اپنے وجود کو کھونے کے ساتھ یہ زمین پر بہار کو جنم دیتی ہے اور موسم کو زمین والوں کے لیے انتہائی خوشگوار بنا دیتی ہے۔

پنجابی اور نانک شاہی کلینڈر کا آغاز 1469 میں بابا گُرو نانک کی پیدائش کے دن سے کیا جاتا ہے اور اس آرٹیکل میں اس مہینے اور کیلینڈر کا ذکر آپ کی معلومات میں اضافے کے لیے کیا جارہا ہے۔

11/08/2025

💜 ناقابل یقین انفارمیشن 📖

قرآن حکیم کا دعویٰ ہے کہ اس میں کوئی باطل بات داخل نہیں ہو سکتی اس لئے کہ قرآن حکیم کا ایک ایک حرف اتنی زبردست کیلکولیشن (calculation) اور اتنے حساب و کتاب کے ساتھ اپنی جگہ پر فِٹ ہے کہ اسے تھوڑا سا اِدھر اُدھر کرنے سے وہ ساری کیلکولیشن درھم برھم ہوجاتی ہے جِس کے ساتھ قرآنِ پاک کی اعجازی شان نمایاں ہے ۔

اتنی بڑی کتاب میں اتنی باریک کیلکولیشن کا کوئی رائٹر تصوّر بھی نہیں کرسکتا۔

بریکٹس میں دیے گئے یہ الفاظ بطور نمونہ ہیں ورنہ قرآن کا ہر لفظ جتنی مرتبہ استعمال ہوا ہے وہ تعداد اور اس کا پورا بیک گراؤنڈ اپنی جگہ خود عِلم و عِرفان کا ایک وسیع جہان ہے۔
دُنیا کا لفظ اگر 115 مرتبہ استعمال ہوا ہے تو اس کے مقابل آخرت کا لفظ بھی 115 مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ وعلیٰ ھٰذِہِ القِیاس۔

(دُنیا وآخرت:115) (شیاطین وملائکہ:88) ( موت وحیات:145) (نفع وفساد:50) (اجر و فصل108) (کفروایمان :25) (شہر:12) کیونکہ شہر کا مطلب مہینہ اور سال میں 12 مہینے ہی ہوتے ہیں اور یوم کا لفظ 360 مرتبہ استعمال ہوا ہے ۔

اتنی بڑی کتاب میں اس عددی مناسبت کا خیال رکھنا کسی بھی انسانی مصنّف کے بس کی بات نہیں، مگر بات یہیں ختم نہیں ہوتی ۔۔۔

جدید ترین ریسرچ کے مطابق قرآن حکیم کے حفاظتی نظام میں 19 کے عددکا بڑا عمل دخل ہے ،

اس حیران کن دریافت کا سہرا ایک مصری ڈاکٹر راشد خلیفہ کے سر ہے جو امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں کیمسٹری کے پروفیسر تھے۔

1968ء میں انہوں نے مکمل قرآنِ پاک کمپیوٹر پر چڑھانے کے بعد قرآنِ پاک کی آیات ان کے الفاظ و حروف میں کوئی تعلق تلاش کرنا شروع کردیا رفتہ رفتہ اور لوگ بھی اس ریسرچ میں شامل ہوتے گئے حتیٰ کہ 1972ء میں یہ ایک باقاعدہ اسکول بن گیا۔

ریسرچ کا کام جونہی آگے بڑھا اُن لوگوں پر قدم قدم پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ،
قرآنِ حکیم کے الفاظ و حروف میں انہیں ایک ایسی حسابی ترتیب نظر آئی جس کے مکمل اِدراک کیلئے اُس وقت تک کے بنے ہوئے کمپیوٹر ناکافی تھے۔

کلام اللہ میں 19 کا ہندسہ صرف سورہ مدثر میں آیا ہے جہاں اللہ نے فرمایا:

دوزخ پر ہم نے اُنیس محافظ فرشتوں کو مقرر کر رکھا ہے اس میں کیا حکمت ہے یہ تو رب ہی جانے لیکن اتنا اندازہ ضرور ہوجاتا ہے کہ 19 کے عدد کا تعلق اللہ کے کسی حفاطتی انتظام سے ہے

پھر ہر سورة کے آغاز میں قرآنِ مجید کی پہلی آیت *بِسم اللہ* کو رکھا گیا ہے گویا کہ اس کا تعلق بھی قرآن کی حفاظت سے ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں بِسم اللہ کے کُل حروف بھی 19 ہی ہیں ،

پھر یہ دیکھ کر مزید حیرت میں اِضافہ ہوتا ہے کہ بسم اللہ میں ترتیب کے ساتھ چار الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور ان کے بارے میں ریسرچ کی تو ثابت ہوا کہ اِسم پورے قرآن میں 19 مرتبہ استعمال ہوا ہے ۔

لفظ الرَّحمٰن 57 مرتبہ استعمال ہوا ہے جو 3×19 کا حاصل ہے اور لفظ الرَّحِیم 114 مرتبہ استعمال ہوا ہے جو 6×19 کا حاصل ہے اور لفظ اللہ پورے قرآن میں 2699 مرتبہ استعمال ہوا ہے 142×19 کا حاصل ہے ، لیکن یہاں بقیہ ایک رہتا ہے جس کا صاف مطلب ہے کہ اللہ کی ذات پاک کسی حِساب کے تابع نہیں ہے وہ یکتا ہے۔

قرآن مجید کی سورتوں کی تعداد بھی 114 ہے جو 6×19 کا حاصل ہے ۔

سورہ توبہ کےآغاز میں بِسم اللہ نازل نہیں ہوئی لیکن سورہ نمل آیت نمبر 30 میں مکمل بِسم اللہ نازل کرکے 19 کے فارمولا کی تصدیق کردی اگر ایسا نہ ہوتا تو حسابی قاعدہ فیل ہوجاتا۔

اب آئیے حضور علیہ السَّلام پر اُترنے والی پہلی وحی کی طرف : یہ سورہ علق کی پہلی 5 آیات ہیں :اور یہیں سے 19 کے اِس حسابی فارمولے کا آغاز ہوتا ہے!

ان 5 آیات کے کل الفاظ 19 ہیں اور ان 19 الفاظ کے کل حروف 76 ہیں جو ٹھیک 4×19 کا حاصل ہیں لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی جب سورہ علق کے کل حروف کی گنتی کی گئ تو عقل تو ورطہ حیرت میں ڈوب گئی کہ اسکے کُل حروف 304 ہیں جو 4×4×19 کا حاصل ہیں۔

اور سامعین کرام !
عقل یہ دیکھ کر حیرت کی اتھاہ گہرائیوں میں مزید ڈوب جاتی ہے کہ قرآنِ پاک کی موجودہ ترتیب کے مُطابق سورہ علق قرآن پاک کی 96 نمبر سورة ہے اب اگر قرآن کی آخری سورة اَلنَّاس کی طرف سے گِنتی کریں تو اخیر کی طرف سے سورہ علق کا نمبر 19 بنتا ہے اور اگر قرآن کی اِبتدأ سے دیکھیں تو اس 96 نمبر سورة سے پہلے 95 سورتیں ہیں جو ٹھیک 5×19 کا حاصلِ ضرب ہیں جس سے یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ سورتوں کے آگے پیچھے کی ترتیب بھی انسانی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حِسابی نظام کا ہی ایک حِصّہ ہے۔

قرآنِ پاک کی سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورة سورۂ نصر ہے

یہ سن کر آپ پر پھرایک مرتبہ خوشگوار حیرت طاری ہوگی کہ اللہ پاک نے یہاں بھی 19 کا نِظام برقرار رکھا ہے ، پہلی وحی کی طرح آخری وحی سورہ نصر ٹھیک 19 الفاظ پر مشتمل ہے یوں کلام اللہ کی پہلی اور آخری سورت ایک ہی حِسابی قاعدہ سے نازل ہوئیں۔

سورۂ فاتحہ کے بعد قرآن حکیم کی پہلی سورة سورۂ بقرہ کی کُل آیات 286 ہیں اور 2 ہٹادیں تو مکّی سُورتوں کی تعداد سامنے آتی ہے 6 ہٹا دیں تو مدنی سورتوں کی تعداد سامنے آتی ہے۔ 86 کو 28 کے ساتھ جمع کریں تو کُل سورتوں کی تعداد 114 سامنے آتی ہے۔

آج جب کہ عقل وخرد کو سائنسی ترقی پر بڑا ناز ہے یہی قرآن پھر اپنا چیلنج دہراتا ہے ۔۔۔۔۔

حسابدان، سائنسدان، ہر خاص وعام مومن کافر سبھی سوچنے پر مجبور ہیں کہ آج بھی کِسی کِتاب میں ایسا حِسابی نظام ڈالنا انسانی بساط سے باہر ہے طاقتور کمپوٹرز کی مدد سے بھی اس جیسے حسابی نظام کے مطابق ہر طرح کی غلطیوں سے پاک کسی کتاب کی تشکیل ناممکن ہوگی ۔

لیکن چودہ سو سال پہلے تو اس کا تصوّر ہی محال ہے لہذا کوئی بھی صحیح العقل آدمی اس بات کا انکار نہیں کر سکتا کہ قرآنِ کریم کا حِسابی نظام اللہ کا ایسا شاہکار معجزہ ہے جس کا جواب قیامت تک کبھی بھی نہیں ہوسکتا۔

اور قرآن میں اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ "پوچھ لو گِنتی کرنے والوں سے" ۔۔۔۔۔

القرآن کی روز تِلاوت کیا کرین اللہ ہم سب کو قران پاک پڑھنے سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ اور ہمارے دِلوں میں ایمان کو سلامت رکھے اور اللہ کے احکام پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ۔ آمین ۔

اِتنی قیمتی انفارمیشن صدقۂ جاریہ سمجھ کے سب تک پہنچائیں ۔

17/08/2024

” پیدا ہوئے تو #نابینا تھے"
میں چونکی اورسیدھی ہو کر بیٹھ گئی،کیوں کہ میرے ایک بیٹے کی آنکھوں میں بھی ایک بڑا مسئلہ تھا جو کسی ڈاکٹر سے حل نہیں ہو رہا تھا ۔
”آپ جانتے ہیں کہ امام بخاری کون تھے؟“
”ہونہہ،ہو گئیں مولویانہ باتیں شروع ،انہی گھسی پٹی باتوں کو سنانے کے لیے یہ زینت مجھے یہاں گھسیٹ لائی ہے، پتا بھی ہے کہ میں ان مولویوں کی باتوں پر یقین نہیں کرتی مگر خود بھی ملانی بن رہی ہے اور میرا بھی ٹائم خراب کررہی ہے۔ “
میں نے قریب بیٹھی زینت کوغصے سے گھورتے ہوئے زیر لب کہا، جو گردو پیش سے بے نیاز بیان میں منہمک تھی ۔
مولاناکا لہجہ نہایت نپا تلا تھا ، لیکن میرے ذہن میں مولویوں کی ایک مخصوص متعصبانہ تصویر بنی ہوئی تھی جس کی وجہ سے میں ان کی کسی بات سے متاثر نہیں ہو سکتی تھی۔
”امام بخاری حدیث کے وہ استاد ہیں کہ جن کی کتاب ”بخاری شریف “ پڑھے اور سیکھے بغیر کوئی عالم نہیں بن سکتا.... “
”اچھا اتنی بڑی کتاب ہے بخاری شریف ! ہمیں توالہدیٰ کے کورس میں اس کتاب کا تھوڑا سا تعارف کروایا گیا تھا کہ اچھی کتاب ہے، اس کامطالعہ کرتے رہنا چاہیے....اچھا اس کا مطلب ہے کہ یہ مولانا بھی بخاری شریف پڑھے ہوئے ہیں۔“میں نے خود کلامی چھوڑی اور بیان سننے میں مگن ہو گئی۔
”امام بخاری پیدائشی نابینا تھے، یعنی انہیں آنکھوں سے نظر نہیں آتا تھا۔ ان کی ماں کو اس کا بے حد غم تھا، وہ بہت روتی تھیں، لیکن ہماری طرح عاملوں کے پاس نہیں بھاگی پھرتی تھیں، بلکہ سبب کے درجے میں انہوں نے اس وقت کے سارے رائج علاج بھی کروائے جو ناکام ہو گئے اوراس فاعل حقیقی اور مسبب الاسباب کے سامنے روتی بھی رہیں، گڑگڑاتی رہیں.... “
”ان مولویوں کو دیکھو ،جس کو چاہیں رلا دیں.... “ میں نے سر ہلایا۔
”دو برس کے بعد ان کی والدہ کو خواب آیا....“
”خواب گھڑنا تو کوئی ان سے سیکھے !“ سوال جواب ختم ہی نہیں ہو رہے تھے۔ میں نے سر جھٹکا اور تعو ذ پڑھنے کی کوشش کی۔
”خواب میں انہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زیار ت ہوئی، ان کی ماں کو مخاطب کر کے خلیل اللہ نے فرمایا :
”قد رد اللہ بصر ولد ک....“
”اللہ نے تیرے بیٹے کی بصارت واپس لوٹا دی۔“
مولانا کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگئے۔ چاروں طرف سے سبحان اللہ سبحان اللہ کی صدائیں آنے لگیں۔ میرے دل پر ایک چوٹ سی لگی۔ گود میں سوئے ہوئے چار سالہ احمد کے معصوم چہرے پر نظر پڑی اور اسی لمحے میرے منطقی دل کی ساری منطق گویا بھاپ بن کر اڑ گئی۔ میرا ممتا بھرا دل بے اختیار بھر آیا اور پھر دل سے آواز ابھری۔
”تم اس کی آنکھیں اپنے اللہ سے واپس لے سکتی ہو ؟“
اس جملے کی گونج اتنی تھی کہ میں بیان سننا بھول گئی۔ پتا نہیں مولانا نے اور کیا کچھ کہا ، مگر میری نظریں اپنے احمد کے معصوم سے چہرے پر جم کر رہ گئی تھیں۔
20مئی 2007ء کو احمد پیدا ہوا تھا۔ سارے خاندان میں خوشیاں منائی گئیں تھیں۔ ڈھول دھمکے نے پورے علاقے کو سر پر اٹھا لیا تھا۔ پورے علاقے میں ہم نے مٹھائیاں تقسیم کی تھیں، لیکن جب احمد تھوڑاسا بڑا ہوا تو انکشاف ہوا کہ احمدکی خوبصورت آنکھیں بینائی سے محروم ہیں ۔ ہم نے آغا خان میں پاکستان کے سب کے بڑے آئی اسپیشلسٹ ڈاکٹر اعظم علی کو دکھایا ۔
”ڈاکٹر اعظم علی کا رزلٹ سو فیصد ہے ....ان کے علاج سے ضرورآرام آجائے گا ۔ “میرے ساتھ ویٹنگ روم میں بیٹھی ایک عورت نے بتایا ۔
”اچھا....!! “میں صرف اتنا ہی کہہ سکی، کیوں کہ میرے ضبط کے بندھن ٹوٹنے لگے تھے۔
”باجی! رو مت ، اللہ خیر کرے گا۔“
”اللہ تو خیر ہی کرتا ہے ،لیکن میرے بیٹے کی بینائی معلوم نہیں کون سی خیر میں چلی گئی!“میں نے شکوہ کیا۔
”باجی! اللہ سے شکوہ نہیں کرتے ہوتے۔ “
”احمد علی.... “ نرس نے چیکنگ کے لیے پکارا تومیں احمد کو لے کر اندر چلی گئی۔اسے دوا پلا کر بے ہوش کیاگیا اور تقریبا ً دو گھنٹے چیک اپ ہوتارہا۔ دو گھنٹہ بعد ڈاکٹراعظم ہماری طرف آئے۔
” مجھے شدید افسوس ہے ،آپ کے بچے کی آنکھ کاپردہ پیدائشی طور پر بے جان ہے۔ “
یہ الفاظ تھے یا ایٹم بم تھا ۔میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور میں گر کر بے ہوش ہوگئی۔ مجھے نرسوں نے سنبھال کر بیڈ پر لٹا دیا۔
”سر !ہو سکتا ہے کہ....کہ آپ سے چیک اپ میں کوئی مسئلہ ہو گیا ہو!“یہ میرے شوہر کی آواز تھی۔
” بھائی! میں نے پندرہ برس آنکھ کے پردے پر کام کیا ہے، مجھے اتنا بھی نہیں معلوم ہو گا کہ پردہ زندہ ہے یا مردہ!؟ “ ڈاکٹر صاحب نے مشفقانہ لہجے میں کہا۔
”یعنی ....یعنی اب کچھ نہیں ہو سکتا؟“میرے شوہر نے کہا۔ان کی آواز بھی آنسوو ں سے بوجھل تھی۔
”آپ ایک سال بعد دکھائیں،یہ تھوڑا بڑا ہو گا تو پھر مزید دیکھیں گے ،مجھ سے جو ہو سکے گا ضرو ر کروں گا۔“ ڈاکٹراعظم یہ کہہ کر چلے گئے۔صاف لگ رہا تھا کہ انہوں نے طفل تسلی دی ہے۔ مجھے میرے شوہر وہیل چیئر پر ڈال کر گاڑی تک لائے۔ اس کے بعدبھی ہم نے بہت سے چھوٹے بڑے ڈاکٹروں کو دکھایا۔ ڈاکٹر ام محمد صاحبہ کو بھی دکھایا ۔ انہوں نے آبِ زمزم ڈالنے کا کہا ، مگر ایک برس ہو گیا، کچھ نہیں ہوا ۔
٭
” ہاں ....ہاں میں اس کی آنکھیں اپنے اللہ سے مانگوں گی....“
”کیا ہو گیا کومل ؟ کس سے باتیں کر رہی ہو؟ “
شوہر کی آواز سے میں چونکی۔مجھے پتہ ہی نہ چلا تھا کہ میں گاڑی میں خود سے باتیں کرنے لگی تھی۔
”کک ....کچھ نہیں۔“
”نہیں بھئی کچھ تو ہے! “شوہر نے اصرار کیا
”وہ دراصل زینت مجھے اپنے ساتھ ایک بیان میں لے گئی تھی۔“میں نے شوہر کو اصل بات بتانا شروع کر دیا۔
”تم اور بیان ....کس ملا کے بیان میں چلی گئی تھیں؟“انہوں نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
”پتا نہیں کون تھے؟“
”یہ ملاوں کے چکر میں مت پڑ و....“ میرے شوہر نے گاڑی کی رفتار بڑھاتے ہوئے کہا۔
”کوئی پاگل ہی اُن کے چکروں میں آئے گا....لیکن ایک کام کی بات انہوں نے بتائی ہے ....میرا اس پر عمل کا ارادہ ہے۔“ میں نے پرعزم لہجے میں کہا۔
”کیا بات کہہ دی ،جوتم جیسی ڈھیٹ کے دل میں اتر گئی۔“
”کوئی خاص نہیں بس ایک واقعہ سنایا تھا....“پھر میں نے امام بخاری والا واقعہ انہیں سنا دیا۔
وہ بھی باپ تھے۔ جب احمد کے حوالے سے انہوں نے یہ واقعہ سنا تو کچھ دیر خاموش رہے مگر اپنی عادت کے مطابق بولے:
”اپنا منہ دھو کے دعا مانگنا،وہ کوئی اور لوگ تھے جن کی اللہ سنتا تھا۔“
٭
اس کے بعد میری زندگی بالکل بدل گئی ۔ اپنے بچے کے لیے ، اس کی بینائی کی خیرات مانگنے کے لیے میں کس کس طرح نہ اپنے ربّ کے سامنے گڑ گڑائی۔ رات رات بھر تڑپی۔
میں جو اپنی مخصوص تربیت و ماحول کی وجہ سے علماءکرام کا مذاق اڑایا کرتی تھی، ان کی کسی بات پر یقین کرنا تو دور کی بات تھی، مگر اس کے باوجود امام بخاری کا یہ واقعہ اس دن گویا میرے دل کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر گیا تھا۔ مجھے کامل یقین ہو گیا تھا کہ میں بھی امام بخاری کی والدہ کی طرح رو رو کر اللہ سے مانگوں گی تو ضرور میرے بچے کو روشنی ملے گی۔ میں روتی رہی، گڑگڑاتی رہی، یوں چھ ماہ گزر گئے ۔
اور.... پھر ایک دن بیٹھے بیٹھے اچانک میرے اندر ایک ابال سا اٹھااور پھر مجھ سے بیٹھا نہیں گیا۔ میں نے ہسپتال فون کر کے ایمرجنسی میں اپائنٹمنٹ لیا اور پھر شوہر کو فون کیا۔
”سنیں جلدی سے گھر آ جائیں، ڈاکٹر کے پاس چلنا ہے.... “
”کس ڈاکٹر کے پاس؟“انہوںنے حیرت سے کہا۔
” ڈاکٹراعظم علی کے پاس اور کس کے پاس!“
”یہ اچانک کیا ہو گیا بیٹھے بٹھائے تمہیں؟ “
”چھوڑیں سب باتیں،بس ابھی گھر پہنچیں .... جلدی کریں ناں.... “شدت جذبات سے میری آواز بلند ہو گئی تھی۔ میرے اندر کی ممتا نے ایک جنون کی شکل اختیار کر لی تھی اور مجھے اپنے آپ پر کنٹرول نہیں رہا تھا۔
”ارے پاگل ہو گئی ہو کیا ،کوئی اپائنٹمنٹ تو لیا نہیں، ایسے کیسے چلے جائیں؟“
اس بار انہوں نے نہایت نرمی سے مجھے سمجھانا چاہا۔ شاید وہ میری کیفیت بھانپ گئے تھے۔
”میں نے فون پر بات کر لی ہے کہ ہم آ رہے ہیں۔ ایمرجنسی میں دکھانا ہے ۔ آپ آجائیں بس....“
یہ کہہ کر میں نے فون کاٹ دیا۔ میں نے جلدی سے احمد کو تیار کیا، عبایا اوڑھا اور زندگی میں پہلی مرتبہ نقاب لگایا۔ٹھیک بیس منٹ بعد گاڑی کے ہارن کی آواز سنائی دی۔میں نے احمد کوبے بی کاٹ میں لٹایا اور گیٹ سے باہر نکل گئی۔ مجھے دیکھ کر میرے شوہر حیرت سے گنگ ہو گئے۔تھوڑی دیر کے بعد بولے:
”تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے کیا؟ “
”ہاں.... “میں نے قدرے نارمل انداز میں مختصر جواب دیا۔ اب اندرونی ابال قدرے دب گیا تھا۔
”او حجن صا حبہ! یہ آج سورج کہاں سے نکلا ہے؟ “
میں چپ رہی۔ سارے راستے شوہر پوچھتے رہے کہ یہ بیٹھے بٹھائے تمہیں ہسپتال جانے کی کیا سوجھی مگر میں نے کچھ نہ بتایا اور بتاتی بھی کیا،بتانے کے لیے کچھ تھا ہی نہیں ۔میں خود اپنی کیفیت پر حیران تھی ۔ بس ایک انجانی سی قوت تھی جو مجھ سے یہ سب کام کروا رہی تھی۔
جیسے جیسے ہسپتال قریب آ رہا تھا، میری بے چینی پھر سے بڑھ رہی تھی۔
٭
”حیرت انگیز ،ناممکن ....امپاسیبل....“ ڈاکٹر صاحب کے لہجے میں حیرت گویا کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
”کک....کیاہوگیاڈاکٹرصاحب؟ “میرے شوہر گڑبڑا گئے۔
”آپ کے بیٹے کی آنکھ کا پردہ سو فیصد زندہ ہو گیا ہے ،میری پوری زندگی کا یہ پہلا کیس ہے ....ایسا کبھی نہیں ہوا....آپ کو بہت بہت مبارک ہو، اللہ کا شکر ادا کریں، اللہ تعالیٰ نے آپ کے بیٹے کی آنکھوں کو روشنی دے دی ہے۔“
ڈاکٹر اعظم خوشی سے چہک رہے تھے۔ شاید اپنے نزدیک ایک ناممکن کو ممکن ہوتے دیکھ کر وہ بھی جذباتی ہو گئے تھے.... اور .... اور قاریات! ایک ماں کی ایسے وقت میں خوشی کی انتہاکو کون سمجھ سکتا ہے؟ شاید وہ ماں ہی سمجھ سکے، جس کا بچہ چارسال تک معذوری کی زندگی گزار کر اچانک صحت مند ہو جائے ۔میرے شوہرخوشی سے بے اختیار رونے لگے اور میرے تو خوشی سے حواس ہی مختل ہونے لگے۔ میری ہچکیاں بندھ گئیں۔ دنیا کا کوئی پیمانہ ایسا نہیں تھا، جو اس وقت میری خوشی کو ناپ سکتا۔ میرے اللہ نے اپنی ایک نہایت گناہ گار بندی کی لاج رکھ لی تھی۔ میرا تھوڑا سا رونا اس نے قبول کر لیا تھا اور میرے احمد کو اندھیروں کی جگہ جگمگاتی روشنیاں عطا کر دی تھیں۔
مجھے اپنی ٹوٹی پھوٹی دعاوں کا صلہ 6 جون2012ء کوہی مل گیا تھا۔ ہماری ساری امیدوں کا محور و مرکز ایک اللہ تعالیٰ کی ہی ذات ہے، وہ جو اپنے بندوں پر بے انتہا مہربان ہے، ستر ماوں سے بھی زیادہ! بس اس سے پورے یقین کے ساتھ مانگنے کی ضرورت ہے۔
تحریر ۔۔۔ اہلیہ مولانا فیصل حیات ۔
#نوٹ: ( یہ بالکل سچا واقعہ ہے جو
ہفت روزہ خواتین کا اسلام سے لیا گیا ہے)

05/12/2023

کہتے ہیں پرانے زمانے میں ایک قبیلہ سمندر سے بہت فاصلے پر آباد تھا۔ انہوں نے کبھی سمندر نہیں دیکھا تھا۔ یہ لوگ پانی کو "آنٹاؤ" کہتے تھے۔ اس قبیلے کا ایک شخص سفر پر گیا اور اتفاقا" سمندر دیکھ لیا۔ واپس آ کر اس نے اپنے قبیلے والوں کو سمندر سمجھانے کی کوشش کی۔ بولا، آنٹاؤ۔ آؤ آؤ آؤ آؤ آؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی پانی ہی پانی، پانی ہی پانی، پانی ہی پانی۔
ایسے ہی قرآنِ پاک علم و دانش کا ایک سمندر ہے۔ قرآن حکیم منفی اصولوں کا پرچار نہیں کرتا۔ یہ نہیں کہتا کہ شک کرو بلکہ کہتا ہے کہ دیکھو، غور سے دیکھو، سمجھنے کی کوشش کرو، پھر کوشش کرو، پھر کوشش کرو، پھر کوشش کرو۔ بات سمجھ نہ آۓ تو ان سے پوچھو جو جانتے ہیں۔ پھر بھی سمجھ نہ آۓ تو کوئی راۓ قائم نہ کرو، نہ مانو، نہ رد کرو۔
آج سے چودہ سو سال پہلے قرآن نے کہہ دیا تھا کہ " زندگی" کی ابتداء پانی سے ہوئی۔ اس پر دانشوروں نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ زندگی پانی سے بنی؟ اور اس بات کو مذاق میں اڑا دیا۔

پھر بارہ سو سال بعد کسی محقق نے خوردبین ایجاد کر دی جس سے پانی میں جھانکنا ممکن ہو گیا۔ پھر جو پانی میں جھانکا تو سائنسدان یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ پانی جرثوموں سے بھرا پڑا ہے جن میں زندگی کا وجود ہے۔

Address

Multan

Telephone

+923077473977

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Rohani Dunyia posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Rohani Dunyia:

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram