Healing Souls

Healing Souls Registered Behavior Therapist
Best Psychologist in Multan
Top Rated psychologist on oladoc
Internee's Trainer

19/09/2025

شوہر کی تعریف بیوی کے لیے آکسیجن جیسی کیوں ہے؟
بیوی کی نفسیات کو سمجھنا ضروری ہے۔ عورت صرف کھانے، کپڑے یا زیورات سے خوش نہیں ہوتی بلکہ اس کے دل کو سب سے زیادہ سکون اس بات سے ملتا ہے کہ اس کا شوہر اسے اہمیت دیتا ہے اور اس کی خوبیوں کو سراہتا ہے۔ آئیے مزید تفصیل سے دیکھتے ہیں:

# # # 1. عزت کا احساس

بیوی کے لیے سب سے بڑا سرمایہ عزت ہے۔ جب شوہر بیوی کے کام، انداز یا شخصیت کی تعریف کرتا ہے تو بیوی کو لگتا ہے کہ اس کی قربانیوں اور محنت کو پہچانا جا رہا ہے۔ یہ احساس اس کے دل میں سکون اور خوشی پیدا کرتا ہے۔

# # # 2. محبت کا تسلسل

محبت صرف الفاظ یا جسمانی تعلق کا نام نہیں، بلکہ جذباتی تسلسل کا نام ہے۔ تعریف کے الفاظ عورت کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ اس کا شوہر آج بھی اسے اتنا ہی چاہتا ہے جتنا شادی کے دن چاہتا تھا۔

# # # 3. ذہنی سکون اور خوشی

ایک عورت جب دن بھر گھر اور بچوں کی خدمت کرتی ہے اور اس کی محنت پر شوہر خوش ہو کر "تم نے بہت اچھا کیا" یا "تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو" کہہ دیتا ہے، تو یہ الفاظ اس کی تھکن کو ختم کر دیتے ہیں۔

# # # 4. خود اعتمادی کی بحالی

عمر کے ساتھ یا روزمرہ کی مصروفیات میں عورت اکثر اپنی خوبصورتی یا اہمیت کو کم سمجھنے لگتی ہے۔ لیکن شوہر کی تعریف اسے یہ یقین دلاتی ہے کہ وہ اب بھی پرکشش، خاص اور اہم ہے۔

# # # 5. تعلق میں مضبوطی

شوہر کی تعریف بیوی کو مزید قریب لاتی ہے۔ عورت دل سے مطمئن ہو جاتی ہے اور شوہر کے ساتھ زیادہ کھل کر محبت کا اظہار کرتی ہے۔ یوں تعلق مضبوط اور خوشگوار بنتا ہے۔

# # # 6. جنسی زندگی میں بہتری

جب بیوی کو یہ احساس ہو کہ شوہر اسے پسند کرتا ہے اور سراہتا ہے تو وہ خود کو زیادہ پرکشش اور مطمئن سمجھتی ہے۔ یہ اطمینان ان کی جنسی زندگی کو بھی مزید خوشگوار بنا دیتا ہے۔

# # # 7. نفسیاتی سکون

عورت کا دل تعریف سے بھر جائے تو وہ اپنے شوہر کو کسی اور سے موازنہ نہیں کرتی بلکہ ہمیشہ شکر گزار رہتی ہے۔ اس طرح شک، لڑائی جھگڑا اور بے اعتمادی بھی کم ہو جاتی ہے۔

---

🔑 حقیقت یہ ہے کہ شوہر کے چند محبت بھرے جملے بیوی کے لیے لاکھوں روپے کے تحفے سے زیادہ قیمتی ہوتے ہیں۔ عورت تعریف پر جیتی ہے، اور یہ تعریف ہی اسے وہ آکسیجن دیتی ہے جس کے بغیر اس کا دل گھٹنے لگتا ہے۔

18/09/2025

ماہرینِ نفسیات کے مطابق ذہانت کی چار اقسام ہیں۔

1) انٹیلیجینس کوشینٹ (IQ)
2) ایموشنل کوشینٹ (EQ)
3) سوشل کوشینٹ (SQ)
4) ایڈورسٹی کوشینٹ (AQ)

1. ذہانت کا حصہ (IQ)
یہ عقل و فہم کی سطح کا پیمانہ ہے۔ آپ کو ریاضی کو حل کرنے، چیزیں یاد کرنے اور سبق یاد کرنے کے لیے IQ کی ضرورت ہے۔

2. جذباتی اقتباس (EQ)
یہ دوسروں کے ساتھ امن برقرار رکھنے، وقت کی پابندی، ذمہ دار، ایماندار، حدود کا احترام، عاجز، حقیقی اور خیال رکھنے کی آپ کی صلاحیت کا پیمانہ ہے۔

3. سماجی اقتباس (SQ)
یہ دوستوں کا نیٹ ورک بنانے اور اسے طویل عرصے تک برقرار رکھنے کی آپ کی صلاحیت کا پیمانہ ہے۔

جن لوگوں کا EQ اور SQ زیادہ ہوتا ہے، وہ زندگی میں ان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ آگے بڑھتے ہیں جن کا IQ زیادہ ہوتا ہے لیکن عموماً EQ اور SQ کم ہوتا ہے، کیونکہ ہمارے معاشرے میں اس کا کوئی خاص شعور نہیں۔ زیادہ تر اسکول IQ کی سطح کو بہتر بناکر فائدہ اٹھاتے ہیں جبکہ EQ اور SQ پر کم توجہ دی جاتی ہے۔

ایک اعلیٰ IQ والا آدمی اعلیٰ EQ اور SQ والے آدمی کے ذریعہ ملازمت حاصل کر سکتا ہے حالانکہ اس کا IQ اوسط ہو۔
آپ کا EQ آپ کے کردار کی نمائندگی کرتا ہے، جبکہ آپ کا SQ آپ کی کرشماتی شخصیت کی نمائندگی کرتا ہے۔
ایسی عادات کو اپنائیں جو ان تینوں Qs کو بہتر بنائے گی، خاص طور پر آپ کے EQ اور SQ۔

4. مشکلات (مصیبت) (adversity) کا حصّہ (AQ)
زندگی میں کسی نہ کسی مشکل سے گزرنے، اور اپنا کنٹرول کھوئے بغیر اس سے باہر آنے کی آپ کی صلاحیت کا پیمانہ۔
مشکلات کا سامنا کرنے پر، AQ طے کرتا ہے کہ کون ہار مانے گا، کون اپنے خاندان کو چھوڑ دے گا، اور کون خودکشی پر غور کرے گا؟

والدین براہِ کرم اپنے بچوں کو صرف اکیڈمک ریکارڈ بنانے کے علاوہ زندگی کے دیگر شعبوں سے بھی روشناس کرائیں۔ انہیں تنگ دستی میں گزارہ کرنے اور مشقت کو پسند کرنے اور اس سے تحمل کے ساتھ نکلنے کے لیے بھی تیار کریں۔
ان کا آئی کیو، نیز ان کا EQ ، SQ اور AQ تیار کریں۔ انہیں کثیر جہتی انسان بننا چاہیے تاکہ وہ آزادانہ طور پر کام کرسکیں۔
اپنے بچوں کے لیے سڑک تیار نہ کریں بلکہ اپنے بچوں کو سڑک کے لیے تیار کریں.

12/09/2025

ہماری اپنی سوچ کے 'ایکو چیمبر' آج کی دنیا کا سب سے خطرناک مگر سب سے نظر انداز ہونے والا مسئلہ ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم آزاد خیال ہیں، ہم خود سوچتے ہیں، ہم اپنی رائے رکھتے ہیں اور ہمیں کوئی کنٹرول نہیں کر سکتا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارا ذہن ایک ایسے کمرے میں قید ہو چکا ہے جہاں صرف وہی آوازیں گونجتی ہیں جو ہم پہلے سے سننا چاہتے ہیں۔ اور یہی "ایکو چیمبر" ہمیں دھیرے دھیرے احمق، محدود اور اندھا بنا رہا ہے۔ انسان کی فطرت میں یہ کمزوری موجود ہے کہ وہ اپنی سوچ کی تائید چاہتا ہے۔ نفسیات اسے "کنفرمیشن بائس" کہتی ہے۔ یعنی ہم وہی چیز تلاش کرتے ہیں جو ہماری پہلے سے بنائی ہوئی رائے کو مضبوط کرے۔ اگر ہمیں کوئی نئی دلیل یا کوئی مخالف نقطہ نظر ملے تو ہمارا دماغ اسے فوراً رد کر دیتا ہے یا اس پر تنقید ڈھونڈ لیتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص مذہبی طور پر سخت رجحان رکھتا ہے تو وہ صرف وہی کتابیں، لیکچر یا ویڈیوز دیکھے گا جو اس کے عقیدے کی تصدیق کریں۔ اگر کوئی لبرل ذہن رکھتا ہے تو وہ انہی ماہرین کی بات مانے گا جو اس کے خیالات کو مزید تقویت دیں۔ اس کے برعکس جو بات اس کے خلاف ہو، چاہے وہ کتنا ہی وزنی دلیل کے ساتھ ہو، اس پر غور کرنے کی طاقت کم ہی رہ جاتی ہے۔ یہی وہ نفسیاتی قید ہے جو انسان کو سچائی تک پہنچنے سے روکتی ہے۔
معاشرتی طور پر اس ایکو چیمبر کی جڑیں اور بھی گہری ہیں۔ ہمارا سماج ہمیں اختلاف رائے برداشت کرنا نہیں سکھاتا۔ ہم بچپن سے سنتے ہیں کہ بڑوں کے آگے بولنا بدتمیزی ہے، استاد پر سوال اٹھانا گستاخی ہے، اور اپنے خاندان یا قبیلے کی بات کے خلاف سوچنا غداری ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم اختلاف کو دشمنی سمجھنے لگتے ہیں۔ جب ہم بڑے ہو کر اپنی سوچ بناتے ہیں تو ہم صرف انہی لوگوں کے ساتھ رہتے ہیں جو ہماری ہی طرح سوچتے ہیں۔ اگر کسی دوست کی رائے ذرا سی مختلف نکلے تو ہم اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے تو اس بیماری کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ الگورتھمز ہمیں وہی دکھاتے ہیں جو ہم پہلے سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ کسی خاص سیاسی جماعت کے چند ویڈیوز دیکھ لیں تو پورا فیڈ انہی ویڈیوز سے بھر جائے گا۔ یوں لگے گا جیسے پوری دنیا آپ کے ساتھ متفق ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ ایک مصنوعی "ایکو چیمبر" میں قید ہیں۔ یہ وہ جادو ہے جو ہمیں اندھا کر دیتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سب لوگ ہمارے ساتھ ہیں، مگر اصل دنیا کہیں اور چل رہی ہوتی ہے۔
ذہنی طور پر اس کیفیت کے نقصانات ناقابل تلافی ہیں۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ دماغ اپنی لچک کھو دیتا ہے۔ نفسیات بتاتی ہے کہ انسانی دماغ "نیورو پلاسٹیسٹی" رکھتا ہے، یعنی نئے خیالات اور تجربات کو قبول کر کے اپنی ساخت بدل سکتا ہے۔ لیکن اگر ہم صرف ایک ہی طرح کے خیالات سنیں، ایک ہی نظریہ پڑھیں اور ایک ہی رائے کو دہراتے رہیں تو دماغ کے اندر وہی نیورون مضبوط ہوتے ہیں اور باقی کمزور ہو جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نئی دلیل ہمارے لئے اجنبی اور ناقابلِ برداشت بن جاتی ہے۔ ہم خود کو حق پر سمجھ کر باقی سب کو جاہل یا دشمن قرار دے دیتے ہیں۔ یہی وہ ذہنی تنگی ہے جو مذہبی شدت پسندی، سیاسی انتہا پسندی اور معاشرتی تقسیم کو جنم دیتی ہے۔
یہ ایکو چیمبر صرف ذہنی نقصان نہیں دیتا بلکہ ہماری زندگی کے عملی فیصلوں کو بھی برباد کرتا ہے۔ جب ہم صرف اپنے جیسی آوازیں سنتے ہیں تو ہم حقیقت سے کٹ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک نوجوان اگر صرف سوشل میڈیا پر یہ سنتا رہے کہ "کاروبار ہی اصل کامیابی ہے" تو وہ نوکری کو حقیر سمجھے گا۔ دوسرا نوجوان اگر صرف یہ سن رہا ہے کہ "ڈگری سب کچھ ہے" تو وہ عملی زندگی کی مہارتیں سیکھنے کو وقت کا ضیاع سمجھے گا۔ دونوں اپنی اپنی محدود دنیا میں خوش ہیں، لیکن جب حقیقت کا سامنا کرتے ہیں تو وہ ٹوٹ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہماری نوجوان نسل ڈپریشن، مایوسی اور بے یقینی کا شکار ہے۔ وہ اپنی چھوٹی سی ایکو چیمبر سے نکلنے کو تیار ہی نہیں، اور دنیا ان کے لئے ایک اجنبی جنگل بن جاتی ہے۔
ایکو چیمبر ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ ہر وہ شخص جو ہم سے مختلف سوچتا ہے، وہ برا ہے۔ ہم انسان کو انسان کی حیثیت سے دیکھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم اس کی بات کو اس کے نظریے کے ساتھ تولتے ہیں۔ اگر وہ ہمارا ہم خیال ہے تو اس کی غلطی بھی نظر انداز ہو جاتی ہے۔ اگر وہ مخالف ہے تو اس کی درست بات بھی قابلِ نفرت بن جاتی ہے۔ یہ نفسیاتی بیماری ہمیں برداشت، صبر اور انصاف سے دور کر دیتی ہے۔ معاشرے میں پھر وہی ہوتا ہے جو آج ہم دیکھ رہے ہیں: سیاسی تقسیم، فرقہ واریت، خاندانوں میں لڑائیاں اور دوستیاں صرف نظریے کی بنیاد پر۔ ہم اپنی عقل کو آزاد کرنے کے بجائے غلام بنا لیتے ہیں اور پھر دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم سب سے زیادہ آزاد ہیں۔
اس سارے منظرنامے میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ہم اس ایکو چیمبر سے نکلیں کیسے؟ سب سے پہلے تو یہ ماننا ہوگا کہ ہم سب کسی نہ کسی حد تک اس میں پھنسے ہوئے ہیں۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ "میری رائے سو فیصد درست ہے اور باقی سب غلط ہیں"، دراصل وہ اپنی ذہنی قید کا اعلان کر رہا ہے۔ ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ اختلاف کو برداشت کریں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنی سوچ چھوڑ دیں بلکہ یہ ہے کہ ہم مخالف دلیل کو سننے اور سمجھنے کی ہمت پیدا کریں۔ دوسرا قدم یہ ہے کہ ہم اپنے معلوماتی ذرائع کو وسیع کریں۔ صرف ایک چینل، ایک اخبار یا ایک گروپ پر انحصار نہ کریں۔ مختلف نظریات پڑھیں، چاہے وہ ہمیں کتنے ہی سخت کیوں نہ لگیں۔ تیسرا قدم یہ ہے کہ ہم اپنے تعلقات میں تنوع پیدا کریں۔ دوست صرف وہ نہ ہوں جو ہمارے جیسے سوچتے ہیں بلکہ وہ بھی ہوں جو ہم سے مختلف زاویے رکھتے ہیں۔ یہ ہمیں اپنی سوچ کی تنگ گلی سے نکال کر ایک کھلے میدان میں لے آئے گا۔
ذہنی آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ ہم سب کچھ چھوڑ دیں بلکہ یہ ہے کہ ہم اپنے اندر سوال کرنے کی طاقت پیدا کریں۔ جب ہم اپنے ہی خیالات کو چیلنج کرتے ہیں تو ہم اصل معنوں میں بڑے بنتے ہیں۔ ورنہ ہم صرف ایک "ایکو چیمبر" کے قیدی رہ جاتے ہیں، جو اپنی آواز کو سن کر خوش ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں دنیا کی سچائیوں سے دور بھاگ رہے ہوتے ہیں۔
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہماری اپنی سوچ کے یہ "ایکو چیمبر" ہماری سب سے بڑی کمزوری ہیں۔ یہ ہمیں خوش فہمی میں جینے پر مجبور کرتے ہیں، یہ ہمیں اندھا کرتے ہیں اور یہ ہمیں وہی شخص بنا دیتے ہیں جسے ہم سب سے زیادہ ناپسند کرتے ہیں: ایک تنگ نظر اور ضدی انسان۔ اگر ہم نے اس دیوار کو نہ توڑا تو ہماری نسلیں بھی انہی دیواروں میں قید رہیں گی۔ لیکن اگر ہم نے جرات کی کہ اپنی سوچ پر سوال کریں، اختلاف کو برداشت کریں اور نئی دلیل کو سننے کا حوصلہ رکھیں تو ہم واقعی آزاد ذہن بن سکتے ہیں۔ آزادی باہر کی دنیا میں نہیں، یہ ہمارے اپنے دماغ کے دروازے کھولنے میں ہے۔

10/09/2025
03/09/2025

رشتے داروں کو بدمعاشی کا موقع نہ دیں۔

یہ جملہ آپ کو شائد عجیب سا لگ سکتا ہے، ہاں اگر آپ اپنی اولاد کو ایک نفسیاتی و ذہنی دباؤ سے بچانا چاہتے ہیں، تو اپنے رشتے داروں کو اپنے بچوں کو کسی بھی طرح سے تنگ کرنے کی اجازت نہ دیں۔ میں نے خاص طور پر رشتے دار کیوں لکھا ہے؟ کیونکہ اکثر رشتے دار ہی آپ کے بچوں کے ساتھ آپ کے سامنے ایسے جملے بول سکتے ہیں، آپ کے بچوں کے حلیے پر، ان کی عادات پر، ان کے معاملات پر، غیر مناسب تنقید یا واقعتا سنجیدہ موڈ میں یا ہنسی مذاق میں ایسے بے ہودہ قسم کے سوالات کر سکتے ہیں، جنہیں سن کر ممکن ہے کہ آپ کو بھی اچھا نہیں لگے گا، مگر آپ خاموش رہتے ہیں کیونکہ اگر آپ انہیں ایسے جملے بولنے سے روکیں گے، تو آپ کی رشتہ داری خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ آپ کا بچہ ایسی کسی کیفیت کا جواب نہیں دے سکتا، مگر آپ ہوشمندی کا مظاہرہ کریں اور انہیں اس تکلیف سے بچائیں۔

بچوں کی شکل کے حوالے سے، ان کے بالوں کے حوالے سے، ان کی رنگت، ان کے جسمانی اعضاء پر، یا کسی بھی نوعیت کے اعتبار سے ان کی عادات کے اعتبار سے ان کے لباس پر اگر آپ کے بچے پر کوئی تنقید کرتا ہے، یا بچے کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے، ہوسکتا ہے کہ اپنے تئیں وہ سمجھا رہا ہوتا ہے لیکن اس کا انداز طنزیہ ہو سکتا ہے، یا اس میں حقارت یا ڈانٹ کی کیفیت موجود ہوسکتی ہے، تب آپ کو لگتا ہے کہ وہ ایک خاندان کا ایک بڑا فرد بطور ایک well wisher کے آپ کے بچے کے ساتھ یہ سب کر رہا ہے۔ اور چلیں مان لیں کہ آپ کو بھی لگ رہا ہو کہ یہ طریقہ درست نہیں ہے۔ لیکن آپ اپنی رشتہ داری کو قائم رکھنے کے لیے، بزرگ یا کسی بھی رشتہ دار خاتون کی وہ بات برداشت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا بچہ تو "ایک چھوٹا بچہ جو کل اس بات کو یا اس ڈانٹ کو بھول جائے گا" ۔ تو ایسا ہر گز نہیں ہے۔بچے ایسی باتیں کبھی نہیں بھولتے، اس کا اظہار نہیں کر سکتے وہ ایک "بند بوتل کی طرح ہوتے ہیں اور بوتل بند احساسات کبھی نہیں مرتے، وہ زندہ رہتے ہوئے دفن ہوجاتے ہیں، اور ساری زندگی بعد میں ان بچوں میں احساس کمتری اور بدصورت رویے مختلف صورتوں میں ابھرتے ہیں۔

اس لیے رشتے داروں کو کبھی بھی اپنے بچوں کے بچپن، معصومیت اور خوشی کو مسخ کرنے کی اجازت نہ دیں اور جب بھی آپ کے بچے اپنا بچپن یاد کریں تو وہ اسے خوبصورت احساسات اور رویوں کے ساتھ یاد رکھیں، یہ چیز آپ کے بچوں کی خود اعتمادی کو مجروح کرتی ہے اور ان کے لیے نفسیاتی مسائل پیدا کرتی ہے۔ جو مستقبل میں انہیں نقصان پہنچائی گی، اگر ایسے کسی لمحے میں آپ اپنے کسی رشتہ دار کو موقع پر ہی ٹوک دیں گے ممکن ہے وہ رشتے دار چند روز، ہفتے، مہینے یا سال بھر آپ سے ناراض ہوسکتا ہے، لیکن یہ آپ کے بچے کی نفسیاتی حفاظت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے جو اس کا بنیادی حق ہے، کہ وہ اپنے آپ کو کم تر محسوس کریں یا اپنے جسم یا شخصیت کے کسی حصے سے نفرت کریں۔ اس لئے ایسے کسی بھی موقع پر رشتہ داروں کو سختی سے منع کریں، اپنے بچوں کے ساتھ کسی کو بھی حدود سے تجاوز نہ کرنے دیں، چاہے وہ مذاق میں ہو یا سنجیدگی میں بات میں ہو یا عمل میں ہر صورت یہ رویہ ناقابل قبول رکھیں۔

اکثر قریبی عزیز ہی یہ ہمت کرتے ہیں، کہ آپ کے بچوں کو ان کی ہئیت و رنگ کی وجہ سے کسی نامناسب نام سے پکار لیتے ہیں، جیسے موٹو، پتلو، بچوں کو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ بہت گھنا ہے، یہ کتنا غیر مناسب لفظ ہے، بچوں کے لئے اس کا اندازہ لگانا ہی مشکل ہے کہ آپ کسی بچے کو ایک طرح سے دھوکے باز کہہ رہے ہیں، بچوں کے بارے میں ایسے الفاظ یا مذاق کرنا سختی سے روکنا چاہئے، جو بچے کے لیے ناپسندیدہ یا تکلیف دہ ہو، یہ سب کرنے والے والے چاہے آپ کی بہن، یا آپ کے بھائی، آپ کی پھوپھی، آپ کی خالہ یا چچا ماموں وغیرہ کوئی بھی کتنا ہی عزیز کیوں نہ ہوں، انہیں بچوں کی جسمانی ساخت پر تبصرہ یا تضحیک کرنے سے سختی سے روکنا چاہئے کہ جیسے آپ کا بچہ اس طرح کیوں نہیں بھاگ سکتا؟ اس کا رنگ ایسا کیوں ہے، اس کا قد عمر کے حساب سے کم ہے، وہ ایسے کیوں پڑھتا ہے، ایسے کیوں کھاتا ہے، وہ ٹھیک سے بول نہیں سکتا۔ وغیرہ وغیرہ، اصل میں یہ تمام منفی باتیں بچوں پر اثر انداز ہوتی ہیں اور ان کے دماغ میں رہتی ہیں اور اس عمر میں ان کا دماغ اس پر یقین کر لیتا ہے۔

ایسے تمام برے لفظ یا جملے بچوں کے ذہن پر چھا جاتے ہیں، اور وہ مختلف مسائل کی صورت سامنے آتے ہیں، بچوں کی خود اعتمادی متاثر ہوتی ہے، اور ان مسائل سے نکلنے میں انہیں وقت لگتا ہے، ایسے ہر برے لفظ یا تنقیدی و تضحیکی جملوں کے اثر کو دور کرنے کے لیے ایک تکیلف دہ مرحلے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، ایسے ایک جملے سے انہیں ذہنی طور پر چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے 100 اچھے جملوں کی ضرورت پڑے گی۔ اپنے بچوں کا دوسرے بچوں کے ساتھ نہ ہی خود موازنہ کرنا چاہیے نہ ہی کسی اور کا موازنہ کرنے دینا چاہیے، چاہے وہ آپ کے کتنے ہی بہترین رشتہ دار کیوں نہ ہو، کیونکہ ہر بچے کی اپنی شخصیت کی خصوصیات ہوتی ہیں، جو ایک بچے سے دوسرے بچے میں مختلف ہوتی ہیں، اور یہی موازنہ پہلی چیز ہے جو بچے کی شخصیت کو تباہ کرتی ہے اور خود اعتمادی کو کمزور کرتی ہے۔ آخری بات یہی ہے کہ افعال رویوں اور جملوں سے اپنے بچوں کے ساتھ ہونے والی ایسی بدمعاشی کو روکیں۔ کیونکہ یہ آپ کی ذمہ داری ہے، اور خود بھی بحیثیت رشتہ دار آپ دوسروں کے بچوں کے بارے میں جملہ بولتے وقت سو بار سوچیں کہ آپ کے جملے کا اس بچے پر کیا اثر ہوگا۔

30/08/2025

زندگی میں سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ انسان اکیلا مکمل نہیں۔ ہم سب کو ایک دوسرے کی ضرورت رہتی ہے۔ کوئی دوست ہو، کوئی بھائی بہن ہو، یا میاں بیوی کا رشتہ ہو، سب رشتے ایک دوسرے کی تکمیل کا ذریعہ ہیں۔ مگر ان رشتوں کو زندہ رکھنے کے لیے ایک ایسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے جس کا نام ہے "برداشت"۔ جب برداشت ختم ہو جائے تو محبت بھی دم توڑ دیتی ہے، عزت بھی ختم ہو جاتی ہے اور وقت کے ساتھ رشتہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ آج کے دور میں یہ چیز سب سے زیادہ نظر آتی ہے کہ لوگ ذرا ذرا سی بات پر رشتے ختم کر دیتے ہیں، اور اس کے بعد جو خلا پیدا ہوتا ہے وہ زندگی بھر پُر نہیں ہوتا۔
برداشت کا مطلب یہ نہیں کہ انسان اپنی عزتِ نفس قربان کر دے، بلکہ برداشت کا اصل مطلب یہ ہے کہ دوسرے کی خامیوں کو دیکھ کر بھی ساتھ نبھانے کا حوصلہ رکھنا۔ یہ رویہ صرف اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان اپنی انا سے اوپر اٹھ کر دوسروں کو اہمیت دیتا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی انا کے اتنے غلام بن چکے ہیں کہ ہمیں دوسرے کی بات برداشت کرنا گوارا ہی نہیں۔ ایک معمولی سا اختلاف ہو تو فوری جواب دینا لازمی سمجھتے ہیں، حالانکہ کبھی کبھی خاموش رہ جانا ہی بڑے نقصان سے بچا لیتا ہے۔
اگر ہم غور کریں تو ہر بڑے جھگڑے کی جڑ ایک چھوٹی سی بات ہوتی ہے۔ ایک جملہ، ایک رویہ یا ایک لمحے کی تلخی پوری زندگی کے تعلق کو ختم کر دیتی ہے۔ اگر اس وقت تھوڑا سا صبر کر لیا جائے، دل بڑا کر لیا جائے، اور بات کو ٹال دیا جائے تو نہ صرف رشتہ بچ سکتا ہے بلکہ محبت اور عزت بھی بڑھ سکتی ہے۔ مگر آج کے انسان نے صبر کو کمزوری سمجھ لیا ہے۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ صبر دراصل طاقت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا: "بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔" (البقرہ: 153)۔ یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ صبر اختیار کرنا کمزوری نہیں بلکہ اللہ کی مدد حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ رشتے اسی وقت مضبوط رہتے ہیں جب ان میں صبر اور برداشت شامل ہو۔ اگر ہر بات کا بدلہ بدلہ دینے پر لگ جائیں گے تو پھر محبت کہاں سے آئے گی؟
مشاہدہ یہ ہے کہ جن گھروں میں برداشت کم ہو جاتی ہے، وہاں برکت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ بیوی شوہر کی بات برداشت نہیں کرتی، شوہر بیوی کو برداشت نہیں کرتا، بہن بھائی چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑتے رہتے ہیں، نتیجہ یہ کہ دلوں میں دوریاں بڑھتی جاتی ہیں۔ ایسے گھروں میں نہ سکون رہتا ہے، نہ خوشی۔ انسان لاکھ دولت کما لے مگر رشتوں میں سکون نہ ہو تو وہ زندگی جہنم سے کم نہیں ہوتی۔
برداشت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ رشتے کو وقت کے ساتھ مضبوط کر دیتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر میاں بیوی میں کوئی اختلاف ہو اور ایک شخص غصے میں ہے، دوسرا خاموش رہ جائے تو وقت کے ساتھ وہ غصہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر دونوں ہی غصے میں جواب دیں تو نتیجہ ہمیشہ نقصان کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بزرگ کہا کرتے تھے کہ "دو بندوں کا ایک وقت میں غصہ ہونا سب سے بڑا نقصان ہے۔
آج ضرورت ہے کہ ہم اپنے اندر برداشت کو دوبارہ زندہ کریں۔ اپنے رویوں میں نرمی لائیں۔ دوسروں کی غلطیوں کو نظرانداز کرنا سیکھیں۔ کیونکہ کوئی بھی انسان کامل نہیں۔ ہم سب سے غلطیاں ہوتی ہیں۔ اگر ہم دوسروں کی غلطیوں کو برداشت کریں گے تو کل کو ہماری غلطیوں کو بھی برداشت کیا جائے گا۔ یاد رکھیے! رشتے وقت اور قربانی مانگتے ہیں۔ اگر ہم تھوڑا سا ضبط اور برداشت اپنے اندر پیدا کر لیں تو زندگی آسان اور خوشگوار ہو سکتی ہے۔
آخر میں یہ سوچنا ضروری ہے کہ جب برداشت ختم ہو جاتی ہے تو رشتے بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ اور جب رشتے ختم ہو جائیں تو انسان ٹوٹ جاتا ہے۔ اس لیے اصل کامیابی یہ ہے کہ ہم اپنی انا کو پیچھے رکھ کر دوسروں کے ساتھ جینے کا ہنر سیکھیں۔ یہی ہنر زندگی کو خوبصورت بناتا ہے۔

23/08/2025

ایک خاموش قاتل
تصور کریں، آپ ایک ایسی مخلوق کے بارے میں سوچ رہے ہیں جو خاموشی سے آپ کی قیمتی اشیاء کو تباہ کر رہی ہے، اور جب آپ کو اس کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے تو سب کچھ برباد ہو چکا ہوتا ہے۔ آپ کے ذہن میں کیا آئے گا؟ یقیناً، دیمک۔

یہ چھوٹے مگر خطرناک حشرات کبھی سوتے نہیں۔ ان کی کالونیاں لاکھوں پر مشتمل ہوتی ہیں، جہاں ہر دیمک کو کام تفویض کیا جاتا ہے۔ ان کے درمیان ایک ملکہ ہوتی ہے، جس کے حکم پر سب بے چون و چرا عمل کرتے ہیں۔ دیمک کی یہ سلطنت بظاہر نظر نہیں آتی، لیکن جب نقصان کا احساس ہوتا ہے، تب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔

لیکن اگر میں کہوں کہ انسانوں کی زندگی میں بھی ایک ایسی ہی "دیمک" موجود ہے، تو کیا آپ یقین کریں گے؟ جی ہاں، وہ ہے مفروضے۔

مفروضوں کا خوفناک کھیل
ہمیں ہمارے ہی مفروضے ڈراتے ہیں۔ سوچیں، اگر آپ کسی گھنے جنگل میں تنہا سفر کر رہے ہوں اور ہر جھاڑی کے پیچھے کسی بلا کے چھپے ہونے کا خدشہ ہو۔ وہاں شاید کچھ بھی نہ ہو، لیکن آپ کا دماغ کہانیاں بناتا رہے گا۔ ہر سایہ، ہر ہلتی ہوئی جھاڑی، ہر سرسراہٹ آپ کے دل کی دھڑکن تیز کر دے گی، حالانکہ حقیقت میں وہاں کچھ بھی نہیں ہوگا۔

یہی مفروضے ہمیں یا تو احساسِ برتری دے کر مغرور کر دیتے ہیں یا احساسِ کمتری میں مبتلا کر کے ہماری خودی کو کچل دیتے ہیں۔

مفروضے اور حقیقت کا فرق
انسان نے صدیوں میں بے شمار علوم حاصل کیے، لیکن ریاضی (Maths) واحد علم ہے جو انہی مفروضوں کو قابو میں لا کر حقائق تک پہنچنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ الجبرا میں بھی تو یہی ہوتا ہے، ہم فرض کرتے ہیں کہ 'الف' یہ ہوگا اور 'ب' وہ، اور پھر انہی مفروضات کے سہارے پیچیدہ مسائل کا حل نکال لیتے ہیں۔

ہمارا دماغ بھی مفروضے بنانے سے باز نہیں رہ سکتا۔ یہ اس کا بقا کا ایک طریقہ ہے۔ لیکن مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب مفروضے حقیقت پر غالب آ جاتے ہیں اور ہماری زندگی میں دیمک کی طرح سرایت کر جاتے ہیں۔

مفروضے: رشتوں کے دشمن
جب مفروضے ہماری شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں، تب یہ سب سے خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ یہ رشتوں میں دراڑیں ڈال دیتے ہیں، اعتماد کو شک میں بدل دیتے ہیں، اعتبار کو خوف بنا دیتے ہیں۔

ایک لمحے کے لیے سوچیں، کیا آپ کی زندگی میں ایسا نہیں ہوتا؟
کبھی کسی دوست کے دیر سے جواب دینے پر ہم فرض کر لیتے ہیں کہ وہ بدل گئے ہیں۔
کبھی کسی عزیز کے رویے کو غلط سمجھ کر اس سے دوری اختیار کر لیتے ہیں۔
کبھی اپنی صلاحیتوں کو کمتر سمجھ کر آگے بڑھنے کی ہمت نہیں کرتے۔

لیکن اگر ہم حقیقت کی روشنی میں دیکھیں، تو ان میں سے زیادہ تر مفروضے ہوتے ہیں، حقیقت نہیں۔

یاد رکھیں! ہر شخصیت کے اندر ایک کمزوری کا بادشاہ یا ملکہ ہوتی ہے، اور وہ ایک مفروضہ ہی ہوتا ہے۔ اگر ہم ان بے بنیاد خیالات کو قابو نہ کریں، تو یہ ہمیں اندر سے کھوکھلا کر دیں گے، بالکل دیمک کی طرح۔

تو کیوں نہ ہم اپنے دماغ کو تربیت دیں کہ صرف ان ہی مفروضوں کو قبول کرے جو حقیقت سے جُڑے ہوں؟ کیوں نہ شک کو اعتماد میں، اور خوف کو یقین میں بدل دیں؟

کیا آپ اپنے مفروضوں سے آزاد ہونے کے لیے تیار ہیں؟ 😊

10/08/2025

*ہجرت کریں، گھبرائیں نہیں…!*
*ہجرت میں ہی بقا ہے۔*
چاہے کسی انسان سے ہو یا کسی جگہ سے —
جہاں دل نہ لگے، جہاں سکون نہ ہو، وہاں سے خود کو آزاد کیجیے۔
زندگی بہت خوبصورت ہے،
اسے چند تلخ لمحوں کی نظر مت کیجیے۔

08/08/2025

جو مرد شادی کے باوجود غیر عورتوں سے تعلق رکھتے ہیں، یہ عمل صرف جسمانی بے وفائی نہیں ہوتا — یہ ایک نفسیاتی، جذباتی، اور روحانی بیماری کی علامت بھی ہو سکتا ہے۔
ایسے مردوں کے رویے کے پیچھے کئی تہ دار وجوہات ہوتی ہیں، جنہیں سمجھنا ضروری ہے تاکہ ہم الزام تراشی سے نکل کر جذباتی حقیقت کو دیکھ سکیں۔

آئیے اس مسئلے کو گہرائی سے سمجھتے ہیں:



📌 1: جذباتی عدم بلوغت (Emotional Immaturity)

کچھ مرد emotionally mature نہیں ہوتے۔
ان کے لیے شادی صرف ایک “ذمہ داری” ہوتی ہے،
لیکن وفاداری، commitment، اور خود کو روکنا ان کے مزاج کا حصہ نہیں ہوتا۔
ایسے مردوں کو جب کوئی نئی عورت “دلچسپی” دکھاتی ہے تو وہ اس میں validation، ego boost یا excitement ڈھونڈتے ہیں۔



📌 2: خودی کی کمی اور برتری کا نشہ (Ego & Insecurity)

بعض مرد اندر سے بہت insecure ہوتے ہیں،
لیکن باہر سے ایک alpha male کا ماسک پہنے ہوتے ہیں۔
جب وہ غیر عورت کی طرف سے پسندیدگی محسوس کرتے ہیں،
تو وہ اسے اپنی masculinity کا ثبوت سمجھتے ہیں۔

“جتنا زیادہ عورتیں میری طرف مائل ہیں، اتنا زیادہ میں مرد ہوں”
یہ سوچ دراصل ان کی کمزور خودی کا اظہار ہوتی ہے، نہ کہ طاقت کا۔



📌 3: بور ازدواجی زندگی (Monotony in Marriage)

کچھ مرد ازدواجی زندگی میں boredom محسوس کرتے ہیں —
ایک جیسا معمول، ایک جیسی گفتگو، ایک جیسی physical intimacy
اور جب بیوی گھر، بچوں، ذمہ داریوں میں مصروف ہوتی ہے
تو مرد کو لگتا ہے کہ “شادی نے میری زندگی سے رنگ چھین لیے”
اور وہ باہر ان “رنگوں” کو تلاش کرتا ہے…
چاہے وہ وقتی ہوں، مصنوعی ہوں یا جھوٹ پر مبنی ہوں۔



📌 4: جنسی تسکین کی بے صبری (Lust & Lack of Control)

کچھ مرد جنسی طور پر بے صبر ہوتے ہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ مرد کو کوئی روک نہیں سکتا،
اور اگر بیوی کسی وقت دستیاب نہ ہو، یا تھکی ہوئی ہو،
تو وہ خود کو justify کر لیتے ہیں کہ:
“میں مرد ہوں، میری فطرت ہے۔”

یہ سوچ ان کی sexual impulsivity اور lack of self-control کو ظاہر کرتی ہے،
نہ کہ فطرت کو۔



📌 5: بیوی سے جذباتی فاصلہ (Emotional Disconnect)

جب بیوی سے جذباتی قربت ختم ہو جائے،
تو مرد صرف formal تعلق میں رہ جاتا ہے۔
کبھی بیوی شکایت کرتی ہے، کبھی خود خاموش ہو جاتی ہے…
اور مرد کو لگتا ہے کہ:
“یہ رشتہ تو خالی ہے، چلنے کو بس چل رہا ہے”
ایسے میں وہ جذباتی و جسمانی خلاء کو کسی اور کی باتوں، مسکراہٹوں یا قربت میں بھرنے لگتا ہے۔



📌 6: سوشل میڈیا اور easy access کا فتنہ

آج کے دور میں ایک مرد کے لیے کسی عورت سے تعلق بنانا پہلے سے کہیں آسان ہو گیا ہے —
Instagram, WhatsApp, TikTok
جہاں flirting، casual chatting اور emotional affair… صرف چند clicks کی دوری پر ہے۔
مرد کو لگتا ہے کہ:
“یہ تو صرف باتیں ہیں، میں کچھ غلط نہیں کر رہا”
لیکن یہ وہی باتیں ہوتی ہیں جو بعد میں دل، رشتہ اور ایمان کو برباد کر دیتی ہیں۔



📌 7: نفس کا غلبہ اور روحانی کمزوری

اصل بات یہ ہے…
جب مرد کا نفس طاقتور ہو جائے اور روح کمزور،
تو پھر وہ رشتوں کو کھیل سمجھتا ہے۔
وہ عورت کو عزت دینے کے بجائے، اسے “opportunity” سمجھنے لگتا ہے۔
ایسے مرد اللہ سے بھی شرم نہیں کرتے،
اور بیوی کی آنکھوں میں دیکھ کر بھی جھوٹ بول لیتے ہیں۔



📌 8: معاشرتی رویہ اور غلط مردانگی کا تصور

ہماری سوسائٹی میں کچھ لوگوں نے مردانگی = عورتوں کی تعداد بنا دی ہے۔
یہ toxic masculinity مرد کو یہ سکھاتی ہے کہ
“اگر تم ایک عورت پر قناعت کرو گے، تو تم کمزور ہو”
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اصل مرد وہ ہے جو اپنی آنکھ، دل اور عمل کو ایک عورت کے لیے وفادار رکھے۔



🔴 نتیجہ:

ایسا مرد وقتی pleasure تو حاصل کر لیتا ہے،
لیکن آخر میں پچھتاوا، بیوی کا دل، بچوں کی نظروں میں عزت، اور خود کا سکون — سب کھو دیتا ہے۔
کیونکہ دھوکہ صرف بیوی کے ساتھ نہیں ہوتا…
یہ دھوکہ اُس رشتے، اُس وعدے، اُس اعتماد کے ساتھ ہوتا ہے…
جو نکاح کے دن زبان سے ادا کیا گیا تھا۔



🧠 مرد کے لیے پیغام:

اگر آپ بھی اس دلدل میں ہیں،
تو اپنے نفس کو سمجھائیے،
اپنے رب سے شرم کیجئے،
اور اُس عورت کو یاد کیجئے جو آپ کے لیے اپنا سب کچھ چھوڑ کر آئی تھی۔

سچے مرد کا کمال فتح میں نہیں…
وفا میں ہوتا ہے۔

07/07/2025

جب تم مسلسل ان لوگوں کے لیے جگہ بناتے ہو جو تمہارے لیے وہی جگہ نہیں بناتے، تو درحقیقت تم آہستہ آہستہ خود کو زہر دے رہے ہوتے ہو۔ ایک طرفہ تعلق میں کوئی سکون یا تسلی نہیں ہوتی۔ ہاں، ہر چیز کا بدلہ ملنا ضروری نہیں، لیکن تمہیں بھی کبھی کبھی اپنی محبت کی لہروں کا واپس آنا محسوس ہونا چاہیے۔

تم دوسروں کو سیراب نہیں کر سکتے جبکہ تمہاری اپنی جڑیں سوکھ رہی ہوں۔ ایک طرفہ کوششیں تمہاری روح کو آہستہ آہستہ کھوکھلا کر دیتی ہیں۔ محبت، خیال اور موجودگی کبھی بھی ایک مصنوعی اداکاری نہیں ہونی چاہیے۔ اپنے سکون کی حفاظت کرو — ہر شخص تمہاری روشنی کے قریب رہنے کے قابل نہیں ہوتا، اور یہ بالکل ٹھیک ہے۔

16/06/2025

*Your Mental Health Matters — Help is Just a Call Away!*

At HEALING SOULS, we provide *trusted*, *confidential*, and *accessible* mental health support—tailored to your needs and available from the comfort of your home.

*Our Services Include:*
0309-2339006

✅ Consultations*: Psychologists & Psychiatrists
✅ *Comprehensive Assessments*
✅ *Family & Couples Counseling*
✅ *Therapy for Kids & Teens*
✅ *ADHD Evaluations*
✅ *Workplace Wellness & Training*
✅ *Support for Anxiety, Depression & More*

*Your journey to emotional wellness begins with one step. Let’s take it together!*



How can I assist further?

Address

Bajwa House Naka Chowk Gulgushat Colony
Multan
61200

Opening Hours

Monday 14:00 - 17:00
Tuesday 14:00 - 17:00
Wednesday 14:00 - 17:00

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Healing Souls posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram