Dynamis Centre for Natural Sciences,Nowshera

Dynamis Centre for Natural Sciences,Nowshera Centre For Chronic Disorders Through Update Homeopathy

چمکتے چہروں کے پیچھے خالی کوکھ!!خوبصورتی کا مفہوم کب بگڑا، یہ کسی کو خبر نہیں۔ شاید جب آئینہ دکھانے لگا کہ چہرہ ٹھیک نہی...
07/10/2025

چمکتے چہروں کے پیچھے خالی کوکھ!!

خوبصورتی کا مفہوم کب بگڑا، یہ کسی کو خبر نہیں۔ شاید جب آئینہ دکھانے لگا کہ چہرہ ٹھیک نہیں یا شاید جب سوشل میڈیا نے ہمیں سکھا دیا کہ جھریاں بدنما ہیں، دھبے ناقابلِ برداشت ، سادگی ایک کمی اور عمر داغ ہے۔ اب حسن ایک احساس نہیں رہا، بلکہ ایک مقابلہ بن چکا ہے۔ ہم ہر روز اپنے عکس کو پرکھتے ہیں، اس پر انگلی اٹھاتے ہیں، اور پھر کسی نئی تکنیک ، نئی مشین کسی نئی بوتل، کسی نئی سرجری اور کسی نئی چیز کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔

سرجری اب علاج نہیں، فیشن ہے۔ ہر چوتھی عورت اب کسی نہ کسی کلینک سے ہو کر آتی ہے — ہونٹوں میں فلرز، آنکھوں میں لِفٹ، ناک میں تراش خراش اور چہرے پر مختلف سیرم کے انجکشنز ، لیکن سب کچھ بدلنے کے بعد بھی جو چیز نہیں بدلتی، وہ اندر کا خلا ہے۔ اور شاید اسی خلا کو بھرنے کے لیے ایک ایسی نئی شے مارکیٹ میں لائی گئی جو پچھلی تمام چیزوں پر بازی لے گئی—

پلاسینٹا اور امیونک فلوئڈ کا استعمال۔

جی ہاں پلاسینٹا یعنی وہ عارضی عضو جو ماں کے پیٹ میں بچے کو غذا ، آکسیجن اور فضلے کی ترسیل دیتا ہے یعنی ایک بچے کو زندگی بخشنے میں سب سے بڑا کردار ادا کرتا ہے اور امیونک فلوڈ (ماں کے رحم میں بچے کے گرد ایک تھیلی میں موجود مائع ، جو بچے کی نشوونما میں مدد کرتا ہے) اسی کو خوبصورتی کے لیے چہرے پہ مل لیا جاتا ہے۔ نہیں سمجھ آیا نا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟

آگے پڑھیے آخر تک پہنچ کر آپ سمجھ جائیں گے۔

اس دَور کی بدنصیبی یہ ہے کہ خوبصورتی کے حصول میں صرف چہرے نہیں بگڑ رہے، جانیں بھی جا رہی ہیں۔ ایک اور المیہ یہ ہے کہ اب کئی چہرے ایک جیسے دکھنے لگے ہیں — ایک جیسی ناک، ایک جیسے ہونٹ، گالوں کی ایک سی ساخت جیسے سب ایک ہی سانچے میں ڈھل گئے ہوں۔ یہ مصنوعی مشابہت خوبصورتی کو انفرادیت سے محروم کر رہی ہے، اور سب چہرے ایک ہی ڈرائنگ کی کاپی لگنے لگے ہیں۔۔

2023 میں جنوبی کوریا میں دو مشہور اداکاراؤں کی ہلاکت کی خبر سامنے آئی، جنہوں نے کاسمیٹک سرجری کے بعد پیچیدگیوں کا سامنا کیا اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ ترکی، ایران اور امریکا میں متعدد کلینکس بند کیے گئے جہاں غیر معیاری فلرز اور ناکام سرجریز سے چہرے ناقابلِ شناخت ہو گئے۔ کئی خواتین نے اپنی آنکھوں کی روشنی کھو دی، کچھ کو منہ کا مستقل ٹیڑھا پن لاحق ہوا، اور کچھ اپنی جان سے گئیں۔

کئی نامور چہروں کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ مشہور امریکی اداکارہ جون رورک (Joan Rivers) جو بار بار کاسمیٹک سرجریز کے باعث بالآخر ایک آپریشن ٹیبل پر دم توڑ گئیں۔ مائیکل جیکسن، جن کا چہرہ سرجری کی زیادتی سے بالکل غیر فطری نظر آنے لگا۔ انجلینا جولی، جنہوں نے لپ فلرز کے بعد اپنی نارمل مسکراہٹ کھو دی۔ اور جنوبی کوریا کی یوٹیوبر یونا (Yunà)، جن کی سرجری کے بعد موت کی خبر نے کئی سوالات کو جنم دیا۔ انڈیا میں راکھی ساونت ، سشمیتا سین ، ایشوریا اور کئی اور چہرے ایک جیسے پھولے گالوں والے نظر آنے لگے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی ان گنت نام ہیں جو اس دوڑ میں شامل ہو کر یا تو جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں یا چہرے خراب کر لیے ہیں۔

پہلے پہل صرف جانوروں سے اور حلال جانوروں میں بھیڑ بکری سے پلاسینٹا حاصل کر کے ان کے سیرم اور پاؤڈر کو انہیں بیوٹی پروڈکٹس میں استعمال کیا جاتا تھا۔ لیکن خوبصورتی کے حصول کے لیے ہر حد پار کردینے والوں نے کچھ عرصے سے مارکیٹ میں انسانی پلاسینٹا کا استعمال بھی عام کردیا ہے۔ میڈیکل میں ویسٹ سمجھے جانا والا عضو اب کاسمیٹک مارکیٹ کا مہنگا ترین پروڈکٹ ہے۔ اس سے بننے والے فیس ماسک ، شیمپو ، کریمز اور سیرم عام کریموں سے کئی گنا مہنگے فروخت ہوتے ہیں۔ اور پلاسینٹا ایکسٹریکٹ کے انجکشنز کی قیمت لاکھوں میں ہے۔

کچھ عرصہ قبل یشودھا نام سے ایک مووی آئی تھی جس میں ایک عورت خوبصورتی کے حصول کے لیے خواتین کو لالچ دے کر سروگیسی کے ذریعے حاملہ کرواتی ہے اور پھر ان کے بچوں کے پلاسینٹا اور امیونک فلوڈ کو اپنے چہرے کی خوبصورتی کے لیے استعمال کرتی ہے۔ جب یہ مووی دیکھی تو لگا تھا شاید یہ بس مووی ہے ایسا سچ نہیں ہوسکتا لیکن کچھ عرصے سے اس بارے میں تحقیق کررہی ہوں تو جب اور جتنا پڑھا یہ سچ سامنے آیا کہ حقیقت اس سے بھی کہیں زیادہ تلخ ہے۔

امیونک فلوئڈ میں اسٹیم سیلز ، گروتھ فیکٹر اور قدرتی پروٹین پائے جاتے ہیں جو چہرے سے عمر کے اثرات ختم کرنے ،(anti aging) ، جلد کو ہائیڈریٹ کرنے ، کولیجن بڑھانے اور جلد کو بچوں جیسا نرم و نازک کرنے میں بہت موثر سمجھے جاتے ہیں۔ کاسمیٹک انڈسٹری میں پریمیم فیشلز ، سیرم اور کلینک ٹریٹمنٹس میں امیونک فلوئڈ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن ایک سوال جو ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ آخر یہ امیونک فلوئڈ حاصل کیسے کیا جاتا ہے؟
کیونکہ امیونک فلوئڈ کوئی کیمیکل یا دوا نہیں بلکہ انسانی مادہ ہے جو رحم مادر میں بنتا ہے۔ بچے کی پیدائش کے وقت اکثر یہ فلوئڈ بہہ جاتا ہے پھر کاسمیٹک انڈسٹری کے پاس یہ کیسے پہنچتا ہے؟

سوال کا جواب ڈھونڈنے جائیں تو بہت تلخ حقائق سامنے آتے ہیں جو روح کو لرزا دیتے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں خواتین کی اجازت کے بغیر پلاسینٹا اسپتال میں نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ کچھ ممالک میں خواتین خود پلاسینٹا اور امیونک فلوڈ ڈونیٹ کرتی ہیں لیکن یہ ڈونیشن میڈیکل اسٹڈیز کے لیے ہوتا ہے کاسمیٹکس میں استعمال کے لیے نہیں۔

کچھ ممالک میں خاتون کے دستخط کروا کر کے پلاسینٹا لیا جاتا ہے لیکن پھر بھی کہیں بھی یہ واضح نہیں کیا جاتا کہ اس کا استعمال کہاں ہونے والا ہے۔

عالمی تحقیقاتی اداروں کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں پلاسینٹا ماں کی اجازت کے بغیر ہی رکھا جاتا ہے اور تلف کرنے کے بجائے آگے فروخت کردیا جاتا ہے۔

(پاکستان میں بھی ہم نے کبھی نہیں سنا کہ پلاسینٹا رکھنے کے لیے کسی اسپتال نے اجازت لی ہو۔ )

سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ سروگیسی کیسز کے بعد سب سے زیادہ امیونک فلوڈ aborted fetus یا مس کیریج سے حاصل ہوتا ہے یعنی وہ زندگی جو زندگی کی حرارت بھی نہ پاسکی اسے بھی نہ بخشا گیا۔

ظاہری خوبصورتی کی خواہش میں انسان خود سے، ضمیر سے، اور سچائی سے بہت دور نکل آیا ہے۔ آئینے میں نظر آنے والا چمکتے ، حسین ، اور بنا جھریوں کے سپاٹ چہرے اب صرف حسن کی علامت نہیں بلکہ کئی ان کہی، تلخ، اور کربناک کہانیوں کے بوجھ اٹھائے ہوتے ہے۔

جب میں نے پہلی بار "پلاسینٹا سیرم" کا لفظ سنا تو یہی خیال آیا کہ شاید یہ کسی جانور یا غیر معمولی تجرباتی مواد پر مبنی کوئی کاسمیٹک پروڈکٹ ہوگا۔ مگر جیسے جیسے حقیقت کے پردے اٹھتے گئے، میری روح لرزتی گئی۔ کبھی یہ وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ سیرم انسانی پلاسینٹا سے بھی حاصل کیا جاتا ہے — وہی پلاسینٹا جو کسی معصوم جان کی زندگی کا پہلا محافظ تھا۔

مارکیٹ میں خوبصورت پیکنگ، پرکشش دعووں اور "اینٹی ایجنگ" جیسے الفاظ میں لپٹے یہ سیرم، انجکشن اور فیشل پاؤڈر درحقیقت ان بچوں کے اجزاء پر مشتمل ہیں جو یا تو ماں کے پیٹ میں ہی دم توڑ گئے یا جن کی کوکھ سے بغیر اجازت یا فریب سے یہ عضو حاصل کیا گیا۔ وہ عضو جو ایک بچے کو زندگی، سانس، آکسیجن اور غذا دیتا ہے، اب کسی کے چہرے کی چمک اور جوانی کی ہوس کی تسکین کا ذریعہ بن چکا ہے۔

کیا یہ زندگی کی بے حرمتی نہیں؟ کیا یہ ماں کی ممتا کی توہین نہیں؟ کیا یہ اس معصوم کی بے عزتی نہیں جو کبھی دنیا میں سانس لینے سے بھی محروم رہا؟

ہسپتالوں میں پلاسینٹا کو "میڈیکل ویسٹ" کہہ کر اٹھا لیا جاتا ہے، لیکن اس ویسٹ کی قیمت لاکھوں میں ہوتی ہے۔ کہیں بغیر اجازت یہ رکھ لیا جاتا ہے، اور کہیں عملہ اور دوا ساز کمپنیاں غیر قانونی طور پر اس کی خرید و فروخت میں ملوث ہوتی ہیں۔ اگر کبھی خواتین سے فارم سائن بھی کروائے جاتے ہیں تو وہ اس قدر مبہم ہوتے ہیں کہ ایک ماں سمجھ ہی نہیں پاتی کہ وہ کن الفاظ پر دستخط کر رہی ہے۔

دنیا بھر میں انسانی پلاسینٹا ایکسٹریکٹ سے بنے انجکشنز کی قیمت دو ہزار سے پانچ ہزار امریکی ڈالر (تقریباً چھ سے چودہ لاکھ پاکستانی روپے) تک جا پہنچتی ہے۔ پاکستان میں ان کی ایک ڈوز کی قیمت بھی ایک لاکھ سے شروع ہوتی ہے، اور اسے مستقل بنیادوں پر لگوانا پڑتا ہے۔ ان انجکشنز کو "یوتھ فل گلو"، "کولیجن بوسٹ" اور "ری جنریشن تھراپی" جیسے دل لبھانے والے نام دیے جاتے ہیں۔

امیونک فلوئڈ — وہ مائع جو بچے کو تحفظ دیتا ہے — بھی اب Bio Regenerative Therapy، "Stem Cell Facials"، "Amniotic Hydration Masks" اور "Rejuvenation Therapy" جیسے جدید ناموں سے چہروں پر لگایا جا رہا ہے۔

اخلاقیات کے لحاظ سے تو پلاسینٹا کا استعمال قبیح ہے ہی ساتھ ہی مذہبی لحاظ سے بھی اس کی اجازت نہیں ہے لیکن بہت سی دیگر خرافات کے ساتھ ساتھ پاکستان میں اس کا استعمال عام ہوتا جارہا ہے۔
بدترین حقیقت یہ ہے کہ ان پروڈکٹس پر کبھی واضح نہیں لکھا جاتا کہ یہ انسانی پلاسینٹا یا امیونک فلوئڈ پر مشتمل ہیں۔ لیبل پر ایسے الفاظ کا استعمال ہوتا ہے جو عام صارف کے لیے مبہم ہوں، تاکہ وہ یہ نہ جان سکے کہ وہ کسی کی زندگی، کسی کی کوکھ، کسی معصوم کی قربانی کو اپنے چہرے پر سجا رہا ہے۔

زیادہ تر پلاسینٹا سیرمز aborted fetuses یا مس کیریج کیسز سے حاصل کیے جاتے ہیں۔
تو ایک لمحے کو ذرا رک کر سوچیے۔
کیا کوئی بھی حساس انسان یہ برداشت کر سکتا ہے کہ وہ کسی ایسی چیز کو چہرے پر لگائے جو شاید ایک ایسی روح کی باقیات ہو جو کبھی دنیا میں آنکھ بھی نہ کھول پائی ہو۔
کیا ہمیں واقعی چہرے پر ایسی چمک، ایسی نرمی، ایسی جوانی چاہیے جو کسی اور کے درد سے حاصل ہو؟

چہرے پر جھلملاتی روشنی کے پیچھے اگر ایک ماں کی سسکی ہو، ایک معصوم کی ادھوری سانس ہو، یا ایک کوکھ کی خاموش چیخ — تو وہ روشنی نہیں، وہ ایک عذاب ہے۔ خوبصورتی اگر کسی اور کے وجود کے ملبے پر تعمیر کی جائے تو وہ حسن نہیں، بےحسی ہے۔

ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم صرف خوبصورت نظر آنے کے لیے کتنا کچھ روندتے جا رہے ہیں۔ شاید وقت آ گیا ہے کہ آئینے میں جھانکنے سے پہلے اپنی روح میں جھانکیں۔ کیونکہ چمکتے چہرے، خالی کوکھوں کا نعم البدل نہیں۔

ڈاؤن سنڈروم ہے کیا؟                                                          اگر آپ لڑکی ہیں۔ آپ کی عمر 35 سال ہو چکی ہے...
02/10/2025

ڈاؤن سنڈروم ہے کیا؟

اگر آپ لڑکی ہیں۔ آپ کی عمر 35 سال ہو چکی ہے۔ آپ کی ابھی شادی نہیں ہو سکی۔ یا ابھی آپ کسی وجہ سے ماں نہیں بن سکیں۔ تو یہ تحریر آپ کے لیے بڑی کارآمد ہے۔

کیا آپ جانتی ہیں؟ کہ 35 سال کی عمر اور جدید ریسرچز میں 33 سال کی عمر میں اگر کوئی لڑکی ماں بنتی ہے۔ تو بہت زیادہ چانسز ہیں کہ اسکا بچہ ڈاؤن سنڈروم پیدا ہوگا۔ کتنے چانسز ہیں آئیے دیکھتے ہیں۔

ماں کی عمر 20-24 سال 1/5000
ماں کی عمر 25-32 سال 1/1200
ماں کی عمر 33-35 سال 1/350
ماں کی عمر 40-36 سال 1/100
ماں کی عمر 45-41 سال 1/30

اسکے ساتھ ہی ماں کی کوئی بھی عمر ہونے پر اگر باپ کی عمر 40 سے زیادہ ہو تو اس کے ساتھ بھی ڈاؤن سنڈروم ہونے کا خدشہ ڈبل ہو جاتا ہے۔ اگر دونوں میاں بیوی 40 سال کی عمر کے آس پاس ہیں تو بھی خدشہ ہے۔
اس کے علاوہ خاندان میں اس کی کوئی گزشتہ ہسٹری ہونا بھی ایک وجہ بن سکتی ہے۔
ایسا کچھ بھی نہ ماں باپ کی عمریں بھی 30 سے کم ہوں کوئی ہسٹری نہ بھی ہو تو بھی کروموسومل ابنارملیٹی سے ایسا ہو سکتا ہے۔
کوئی ایک وجہ ہم ساری پاپولیشن پر لاگو نہیں کر سکتے۔

جیسے ہی انسانی ماں کے رحم میں یا IVF کے ذریعے نطفے اور بیضے کا ملاپ ہوتا ہے۔
تو یک خلوی جاندار وجود میں آتا ہے۔ والد کی طرف سے ایک سپرم جو بیضے سے ملاپ کرتا ہے میں ننھی منھی سی 23 چیزیں یا معلومات کے کوڈ ہوتے ہیں۔ یہی 23 معلومات کے کوڈ ماں کی اووری سے نکلے بیضے میں بھی ہوتی ہیں۔ ان 23 ننھی منھی چیزوں کو کروموسوم کہتے ہیں۔ نطفے و بیضے کے ملاپ سے دونوں طرف سے آنے والے کروموسوم ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر 23 جوڑے بناتے ہیں۔ زائیگوٹ میں 46 کروموسوم ہونا نارمل ہے۔ مگر ڈاؤن سنڈروم میں کروموسوم نمبر 21 جب اپنے مخالف سمت سے آنے والے دوست نمبر 21 سے ملتا ہے۔ تو جنیٹک میوٹیشن (تنوع) کی وجہ سے یہ دو کی بجائے 3 کروموسوم بن جاتے ہیں۔ اسے ٹرائی سومی یا T21
بھی کہتے ہیں۔

اب زندگی کے ابتدائی واحد سیل یا خلیے میں 46 کی بجائے 47 کروموسوم ہو گئے۔ یہ سیل سٹیم سیل یا بنیادی خلیہ ہوتا ہے۔ جو آگے تقسیم در تقسیم ہو کر دیگر سیل بناتا ہے۔ ہر بننے والے سیل میں یہ کروموسوم 47 ہی بنتے چلے جاتے ہیں۔ اور نتیجتاً پیدا ہونے والا بچہ کچھ مختلف جسمانی شکل و ساخت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ جو آپ پوسٹ کے ساتھ لگی تصویر میں دیکھ سکتے ہیں۔

ان بچوں کی پہچان کیا ہے؟

ناک چپٹی جسے پنجابی میں پھینی ناک کہتے ہیں۔

کان چھوٹے مگر کھڑے ہوئے۔

آنکھیں ابھری ہوئی اور باریک سی مگر بیرونی کناروں سے اوپر کو اٹھتی ہوئیں۔

گردن چھوٹی اور کافی موٹی۔

سر عموماً عام بچوں سے بڑا۔

مسکراتا ہوا چہرہ۔

عموماً یہ بچے نارمل سے قد میں چھوٹے اور موٹے ہوتے ہیں۔

ذہنی صلاحیت کتنی ہوتی ہے؟ دیگر مسائل کیا ہیں؟

دانشورانہ صلاحیت یا پسماندگی کی بات کریں تو انکا آئی کیو اکثریت میں 50-70 اور کچھ بچوں کا 35-50 تک ہو سکتا ہے۔ جو ایورج یعنی کم سے کم 70 اور زیادہ ہو تو عموماً 120 سے کم ہے۔ ان بچوں کو غور و خوض/فکر، منطق، ادراک میں کمی کے مسائل ہوتے ہیں۔
اس کے ساتھ بولنے کے مسائل، دل کی دھڑکن کا تیز یا کم ہونا، دل میں سوراخ ہونا، والوز کا تنگ ہونا وغیرہ ان کے مشترکہ مسائل ہیں۔

یوں سمجھیے کہ ڈاؤن سنڈروم میں سے 50 فیصد کو دل کے مسائل ہوتے ہیں۔ مگر ان میں سے صرف 10 سے 15 فیصد کو کارڈیالوجسٹ یعنی دل کے ڈاکٹر سے علاج کی مد میں مدد درکار ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ ان کو بے خوابی یعنی نیند کا بہت کم ہونا، الزائیمر، ڈیمینشیا، تھائی رائیڈ اور اسکن پر جلدی بڑھاپے کے آثار نمایاں ہونے کے مسائل ہوتے ہیں۔ ان کے دانت بھی بہت چھوٹے سے رہ جاتے ہیں۔ کچھ بچوں کو سخت چیزیں چبانے میں مسئلہ پیش آتا ہے۔

تشخیص کیسے ہوتی ہے؟

حمل کے پندرہویں سے بیسویں ہفتے کے کسی ماہر ریڈیالوجسٹ سے کروائے گئے الٹرا ساؤنڈ سکین میں ڈاؤن سنڈروم کی شناخت ہو جاتی ہے۔
اگر اس سے پہلے شناخت کرنا چاہیں تو حمل کے 11 ہفتے سے 14 ہفتے میں ہی Chorionic villus sampling (CVS) ٹیسٹ سے ڈاؤن سنڈروم کا پتا لگایا جاسکتا ہے۔ اس میں ایک الٹرا سونک سوئی ماں کے پیٹ میں داخل کی جاتی ہے۔ اور خوراک و آکسیجن کی نالی پلاسینٹا سے بلڈ سیلز کا سامپل لیا جاتا ہے۔
اس کا کوئی درد نہیں ہوتا عموماً 20 منٹ کا کام ہے۔ اس سے حمل کو بھی کوئی نقصان نہیں ہوتا۔

اگر وقت زیادہ گزر چکا ہو تو حمل کے 15 سے 18 ہفتے میں ایک اور ٹیسٹ Amniocentesis کیا جاتا ہے۔ اس میں بھی الٹرا ساؤنک سوئی رحم میں جاتی ہے۔
بچے کے گرد جھلی میں موجود پانی جسے لائیکر یا امنیاٹک فلیوڈ کہتے سے پانی کا ایک قطرہ نکالا جاتا ہے۔ اس میں بھی 20 منٹ لگتے کوئی درد نہیں ہوتا۔ حمل کو بھی کچھ نہیں ہوتا۔ بس یہ ٹیسٹ کسی قابل گائناکالوجسٹ سے کروائیں

لاسےگ ٹیسٹ (Lasègue’s Test) کمر درد کی تشخیص میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے، خاص طور پر جب درد ٹانگ میں پھیلتا ہے (sciati...
23/09/2025

لاسےگ ٹیسٹ (Lasègue’s Test) کمر درد کی تشخیص میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے، خاص طور پر جب درد ٹانگ میں پھیلتا ہے (sciatica)۔ آئیے اس کے اہم نکات دیکھتے ہیں:

لاسےگ ٹیسٹ کا مقصد

یہ ٹیسٹ یہ جاننے کے لیے کیا جاتا ہے کہ مریض کا درد ڈسک ہرنی ایشن (herniated disc) یا سائٹک نرو کے دباؤ کی وجہ سے ہے یا نہیں۔

عام طور پر یہ ٹیسٹ اس وقت کیا جاتا ہے جب مریض کمر درد کے ساتھ ٹانگ یا پاؤں میں سنسناہٹ، جلن یا کمزوری محسوس کرے۔

ٹیسٹ کرنے کا طریقہ

1. مریض سیدھا لیٹتا ہے۔

2. معالج (ڈاکٹر) مریض کی ٹانگ کو گھٹنے سیدھے رکھتے ہوئے آہستہ آہستہ اوپر اٹھاتا ہے۔

3. اگر 40–70 ڈگری زاویہ پر اٹھانے سے کمر سے ٹانگ تک درد ہو تو ٹیسٹ مثبت مانا جاتا ہے۔

4. پاؤں کو اوپر موڑنے (Dorsiflexion) سے اگر درد مزید بڑھ جائے تو یہ sciatic nerve irritation کی مزید تصدیق کرتا ہے۔

مثبت ٹیسٹ کے نتائج (Implications)

L4-L5 یا L5-S1 ہرنی ایٹڈ ڈسک میں زیادہ تر یہ ٹیسٹ مثبت ہوتا ہے۔

Sciatica (ٹانگ میں جلن اور کھنچاؤ) کی بڑی نشانی ہے۔

یہ ٹیسٹ بتاتا ہے کہ مسئلہ محض پٹھوں (muscles) کا نہیں بلکہ نرو (nerve root) کے دباؤ کا ہے۔

اضافی معلومات

اگر درد صرف کمر میں ہو اور ٹانگ میں نہ پھیلے تو یہ پٹھوں یا ligaments کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔

اگر ٹانگ میں بجلی کے جھٹکے جیسا درد نیچے پاؤں تک جائے تو یہ sciatic nerve compression کی واضح علامت ہے۔

بخار کیا ہے، What is Fever۔بخار بذات خود کوئی بیماری نہیں، بلکہ ہمارے جسم میں کسی نہ کسی جگہ انفیکشن یا ڈسٹربینس کی وجہ ...
22/09/2025

بخار کیا ہے، What is Fever۔

بخار بذات خود کوئی بیماری نہیں، بلکہ ہمارے جسم میں کسی نہ کسی جگہ انفیکشن یا ڈسٹربینس کی وجہ سے جسم کا ٹمپریچر بڑھ جاتا ہے۔
بخار کی تعریف
جب ایک نارمل جسم کا درجہ حرارت کم یا زیادہ ہونے لگے تو اسے بخار کہتے ہیں۔
بخار دراصل وہ قدرتی ذریعہ ہے جو جسم میں موجود بیکٹیریا اور وائرس کے خلاف لڑنے میں مدد دیتا ہے۔
ایک نارمل بخار میں سوائے کھانسی، گلا خراب جیسی علامات پائی جاتی ہے۔
لیکن اگر بخار کی شدت زیادہ ہو تو یہ صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔
انسانی خون میں موجود سفید جرثومے کسی بھی بیرونی حملہ آور جرثومے کو ختم کرنے کا کام کرتا ہے تا کہ انسانی جسم کی صحت بر قرار رہے۔
بخار انسانی جسم میں زندگی کی حفاظت کا کام سر انجام دیتا ہیں۔

بخار کیسے آتا ہے؟
بخار بدن کا کسی چوٹ یا جراثیم کے خلاف ردعمل ہے ، آپ نے دیکھا ہوگا کہ آپ کو جب ہاتھ پر یا کہیں چوٹ لگتی ہے تو کچھ دیر کے بعد اس جگہ پر درد ، سوجن ، سرخی اور گرمی سی ہوتی ہے ، یہ سب سوزش کی علامات ہیں جو بدن نے خود اس جگہ پر جراثیم یا توڑ پھوڑ کا مقابلہ کرنے کیلیے پیدا کی ہیں ،
بعض چوٹوں یا جراثیم کے مقابلے کیلیے بدن لوکل کی جگہ جنرل سی سوزش بناتا ہے ، بخار اسکی علامت ہے۔
جب جسم میں جب کوئی بھی جراثیم بیکیٹریا وائرس داخل ہوتا ہے تو جسم میں موجود WBC اس سے fight کرنا شروع کر دیتے ہیں اس fight کی وجہ سے توانائی خارج ہوتی ہے جس کی وجہ سے جسم گرم ہو جاتا ہے جسے ہم بخار کہتے ہیں۔
بہرحال اگر بلا وجہ بخار رہے اور کافی دن تک محسوس کریں ،
تو کسی ڈاکٹر سے مل کر علاج کروائیں،
جس میں ڈاکٹر کچھ ٹیسٹ کر سکتا ہے،
کے بخار کس وجہ سے ہے۔

لہسن کے فوائد و خواص اور  استمعال انسان صدیوں سے لہسن کو استعمال کر رہا ہے۔ اس کے بے شمار فوائد ہیں اور یہ مختلف طریقوں ...
18/09/2025

لہسن کے فوائد و خواص اور استمعال

انسان صدیوں سے لہسن کو استعمال کر رہا ہے۔ اس کے بے شمار فوائد ہیں اور یہ مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض لوگ اسے کھانوں کا ذائقہ بڑھانے کے لیے ڈالتے ہیں، جبکہ کچھ نہار منہ کچا لہسن کھاتے ہیں۔
ضروری نہیں کہ ایک ہی طریقہ اختیار کیا جائے، اصل اہمیت اس کے باقاعدہ استعمال کی ہے۔

لہسن میں فائبر، میگنیز، وٹامن B1، B6، وٹامن C، سیلینیم، کیلشیم، آئرن، فاسفورس، پوٹاشیم اور کاپر جیسے اجزاء پائے جاتے ہیں۔

لہسن کے طبی فوائد
بیماریوں سے بچاؤ

مدافعتی نظام کو مضبوط کرتا ہے۔ روزانہ استعمال سے نزلہ، زکام اور بخار کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔

دانتوں کے درد میں کمی

اینٹی بیکٹیریل خصوصیات کے باعث بیکٹیریا کی افزائش روکتا ہے۔ لہسن کو پیس کر متاثرہ دانت یا مسوڑھوں پر لگانے یا اس کے تیل کے استعمال سے درد میں آرام ملتا ہے۔

بلڈ پریشر کنٹرول

لہسن خون کی شریانوں کو سکڑنے سے روکتا ہے اور تناؤ کم کرتا ہے۔ روزانہ 3-4 جوے کھانے سے بلڈ پریشر اور کولیسٹرول دونوں قابو میں رہتے ہیں، جس سے دل کی بیماری اور فالج کے خطرات کم ہوتے ہیں۔

خارش میں افاقہ

لہسن کا تیل جِلد کی خارش پر لگانے سے سوزش اور خارش دور ہو جاتی ہے۔

نزلہ و زکام سے بچاؤ

لہسن اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہے۔ لہسن کی چائے (لہسن، پانی، شہد یا ادرک کے ساتھ) نزلہ اور زکام میں فائدہ دیتی ہے۔

یادداشت میں اضافہ

لہسن دماغ کو بڑھتی عمر کے اثرات سے محفوظ رکھتا ہے، الزائمر کے خطرات کم کرتا ہے اور نوجوانوں کی دماغی کارکردگی بڑھاتا ہے۔

کان کے انفیکشن کا علاج

لہسن کا تیل ہلکا گرم کر کے کان میں ٹپکانے سے انفیکشن میں آرام ملتا ہے، خاص طور پر بچوں کے لیے مفید ہے۔

اسٹیمنا اور توانائی میں اضافہ

لہسن مسلز اور دل کو طاقت دیتا ہے، کھلاڑیوں اور محنت کرنے والوں کی کارکردگی بہتر کرتا ہے اور جسمانی تھکن دور کرتا ہے۔

جِلد کی حفاظت

لہسن کے استعمال سے جسم میں زہریلے مادے کم ہوتے ہیں، جِلد تروتازہ رہتی ہے اور اعصابی کمزوری میں بھی فائدہ دیتا ہے۔

⚖ وزن میں کمی

لہسن میٹابولزم تیز کرتا ہے، چربی گھلاتا ہے اور وزن کم کرنے میں مددگار ہے۔

قبض کا علاج

ہاضمہ بہتر بناتا ہے اور قبض دور کرتا ہے۔

لہسن کی بُو ختم کرنے کے طریقے

لہسن کھانے کے بعد دودھ پینے سے بدبو کم ہو جاتی ہے۔

لیموں بیکٹیریا ختم کر کے سانس تروتازہ کرتا ہے۔

الائچی یا سونف چبانے سے منہ کی خوشبو بحال رہتی ہے۔

سیب کھانے سے لعاب زیادہ بنتا ہے اور بدبو دور ہوتی ہے۔

پارسلے کے پتے چبانے سے بھی لہسن کی بُو ختم ہو جاتی ہے۔

نتیجہ: لہسن قدرتی طاقت کا خزانہ ہے، جو باقاعدگی سے استعمال کرنے پر صحت مند زندگی کا ضامن بن سکتا ہے۔

یہ سن کر حیرت ضرور ہوتی ہے لیکن یہ سچ ہے۔ کچھ جانور جیسے کتے، بلیاں، چوہے، چمگادڑ اور بعض بندر، ان کے عضوِ تناسل میں ایک...
17/09/2025

یہ سن کر حیرت ضرور ہوتی ہے لیکن یہ سچ ہے۔
کچھ جانور جیسے کتے، بلیاں، چوہے، چمگادڑ اور بعض بندر، ان کے عضوِ تناسل میں ایک خاص ہڈی ہوتی ہے جسے "بیکولم" (baculum) کہا جاتا ہے۔
اس ہڈی کا کام عضو کو سختی اور سہارا دینا ہوتا ہے، تاکہ ان جانوروں کو تولیدی عمل کے دوران آسانی ہو۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر جانوروں کو یہ سہولت ملی ہے، تو انسانوں کو کیوں نہیں؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ انسانوں، چمپینزی اور گوریلا میں یہ ہڈی نہیں پائی جاتی۔
انسانوں کے عضو میں جو سختی آتی ہے وہ خون کے بہاؤ کی وجہ سے آتی ہے، یعنی جب خون اس حصے میں زیادہ جمع ہو جاتا ہے تو وہ سخت ہو جاتا ہے۔
ہمیں اس کام کے لیے ہڈی کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔
اب آتے ہیں اصل نکتہ پر سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ فرق ہماری ارتقائی تاریخ کا نتیجہ ہے
۔ جن جانوروں میں ملاپ کا عمل لمبا اور پیچیدہ ہوتا ہے، وہاں بیکولم ضروری سمجھا گیا۔ جبکہ انسانوں میں چونکہ تولیدی عمل نسبتاً مختصر اور مختلف انداز کا ہے، اس لیے قدرت نے ہمیں اس ہڈی سے "مستثنیٰ" کر دیا۔ تو یہ بھی قدرت کی ایک نرالی منطق ہے!
کچھ جانداروں کے لیے ہڈی بنائی، کچھ کے لیے خون کا نظام ہی کافی سمجھا۔ بات صرف یہ ہے کہ ہر مخلوق کا جسم اس کے ماحول، ضروریات اور اندازِ زندگی کے مطابق ڈھلا ہوتا ہے۔
سوچیں، قدرت کس باریکی سے ہر جسم کو "کسٹمائز" کرتی ہے۔

انسانی جسم سے خارج ہونے والی بدبو کا علاجمسلمان کی یہ شان ہی نہیں کہ اُس کے جسم سے کسی بھی طرح کی ایسی بدبو ہو جو اُسے ل...
29/08/2025

انسانی جسم سے خارج ہونے والی بدبو کا علاج

مسلمان کی یہ شان ہی نہیں کہ اُس کے جسم سے کسی بھی طرح کی ایسی بدبو ہو جو اُسے لوگوں سے دور کرے اور معاشرے میں قابلِ نفرت بنائے.

منہ کی بدبو کا علاج
منہ کی مکمل صفائی نہ ہونے کی وجہ سے یہ بدبو پیدا ہوتی ہے،
روزانہ ہر نماز کے ساتھ اچھی طرح مسواک کریں.
یا دن میں دو بار صبح اور سوتے وقت برش کریں، اور ہر کھانے کے بعد بُرش کرنا عادت بنا لیں،
زبان پر بھی برش کریں یا مسواک سے زبان کے مسام روزانہ کی بنیاد پر صاف کریں، ورنہ بیماریوں کا گھر بن جائیں گے ..
نوٹ:- مصنوعی میٹھا مکمل طور پر ترک کر دیں.

سانس کی بدبو کا علاج
یہ بدبو معدے کی خرابی کے باعث پیدا ہوتی ہے، جو بولنے سے دور تک محسوس کی جا سکتی ہے.
اس کے لیے دار چینی اور پودینے کا قہوہ استعمال کریں،
اس میں میٹھے کی بجائے صرف ایک چمچ لیموں کا خوش زائقہ رس شامل کر لیں. صبح و شام یہ قہوہ استعمال کریں.
معدے کا ایک ٹیسٹ ضرور کرا لیں،
H pylori
اور پھر اس کے بعد معالج سے اپنا باقاعدہ علاج کرا لیں...

جسم سے زہریلی بدبو دار گیس کا اخراج

کچھ لوگوں میں یہ بیماری سوتے میں ہوتی ہے اور کچھ میں جیتے جاگتے ہوئے بھی.
یہ ناصرف شرمندگی اور نفرت کا باعث ہے،
بلکہ مسلسل بدبو کا اخراج اس قدر خطرناک ہے کہ دوسرے افراد کے لیے جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے،
جیسے بند اے سی روم میں ایسے شخص کے ساتھ سونا انتہائی خطرناک بیماریوں کو دعوت دیتا ہے، اس کے لیے کچھ کھانے پینے کی احتیاطیں ہیں، جیسے دودھ اور آٹے کی روٹی کا استعمال بہت کم کر دیں،
جلد ہضم ہونے والیے ہلکی اور کم مصالحے والی غذائیں لیں، گوبھی، آلو، چاول اور بڑا گوشت چھوڑ دیں، بسیار خوری سے پرہیز کریں رات کا کھانا مغرب تک کھا لیں، توانائی برقرار رکھنے کے لیے فریش جوسز اور فروٹس کا زیادہ استعمال کریں، واک، ورزش اور جسمانی مشقت کے کام اپنے روزمرہ زندگی میں شامل کریں.

پسینے کی بدبو کا علاج
پسینے کی بدبو کا علاج نہ کیا جائے،
تو بدبو آہستہ آہستہ وجود کا حصہ اور باقاعدہ پہچان و ناگوار شناخت بن جاتی ہے،
بَر وقت علاج نہ کرانے کی غفلت سے یہ بدبو وجود کا حصہ بن جاتی ہے اور پھر نہانے سے بدبو بلکہ زیادہ ناگوار حد تک نمایاں ہو جاتی ہے، دُھلے کپڑوں سے بھی بدبو با آسانی نہیں جاتی،
ایسی صورت میں انسان اردگرد موجود افراد کے لیے مستقل زہنی ازیت اور ناگواری کا سامان ہو جاتے ہیں.

1- اس کے لیے روزانہ دو بار صاف ستھرا نہانا معمول بنائیں.

2- ہر بار نہانے سے پہلے صبح کے وقت میں پھٹکڑی لگائیں اور پندرہ سے بیس منٹ بعد نہا لیں اور شام میں بدبو کے مقامات پر بیکنگ پاؤڈر(سوڈا) لگا کر پندرہ سے بیس منٹ بعد نہا لیں.

3- نہانے کے بعد کوئی سا بھی اچھا anti perspirant. سپرے استعمال کریں.

4- پسینے کی بدبو ہو تو احتیاط کے طور پر لباس بار بار بدلیں، پیسنہ آنے کے بعد گھر کے افراد کے پاس کپڑے بدلے بغیر ہرگز نہ بیٹھیں.
نہانے کے بعد اچھے پرفیومز بھی استعمال میں رکھیں.

جسم کے غیر ضروری بالوں کو بالکل بھی نہ بڑھنے دیں.
(نئے جوان ہوتے بچوں کی صفائی کا والدین خاص خیال رکھیں)

5- اگر یہ سب کرنے کے بعد بدبو نہ جائے اپنے معالج سے رابطہ کریں، botox injections بھی لگوائے جا سکتے ہیں.

6- تلی ہوئی اشیاء، مصنوعی میٹھا اور فاسٹ فوڈ سے مکمل طور پر ترک کریں.

یہ پوسٹ سب کو سینڈ کریں، تاکہ بہت سارے لوگوں کو شرمندگی اور نفرت کی وجہ سے پیدا ہونے والی دوری سے بچایا جا سکے .

نوٹ :- مسلسل بدبو کے ساتھ جینے کا عمل انتہائی مہلک بھی ہے اور خوشبو سے الرجی کا باعث بھی. مسلمان کی پہچان صفائی اور خوشبو ہے، مزید یہ کہ اگر غلاظت، بدبو اور گندگی جب جسم و روح میں رچ بس جائے تو ایسے افراد خوشبو سے نفرت یا الرجک ہونے لگتے ہیں، جیسے خوشبو سے چھینکوں کا آنا اور طبیعت میں ناگواری اور چڑچڑاہٹ کا احساس پیدا ہونا.

لیمن گراس ایک جڑی بوٹی ہے جسے طبی ماہرین کی جانب سے زیادہ تر دوا کے طور پر تجویز کیا جاتا ہے۔ اس جڑی بوٹی میں لیموں کی خ...
21/08/2025

لیمن گراس ایک جڑی بوٹی ہے جسے طبی ماہرین کی جانب سے زیادہ تر دوا کے طور پر تجویز کیا جاتا ہے۔
اس جڑی بوٹی میں لیموں کی خوشبو پائی جاتی ہے۔ لیمن گراس بہت سے موسموں میں اگایا جاتا ہے، جب کہ کچھ علاقوں میں یہ قدرتی طور پر بھی اگتا ہے۔ یہ جڑی بوٹی دنیا کے زیادہ تر ممالک میں پائی جاتی ہے، لیکن اس کو زیادہ تر جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں کاشت کیا جاتا ہے۔

اس کے استعمال سے صحت پر بہت سے مثبت اثرات ظاہر ہوتے ہیں، کیوں کہ لیمن گراس میں بہت سے غذائی اجزاء پائے جاتے ہیں۔
ان غذائی اجزاء میں پروٹین، فیٹ، کاربو ہائڈریٹس، کیلشیم، آئرن، میگنیشیم، فاسفورس، پوٹاشیم، سوڈیم، زنک، کاپر، میگنیز، سیلینیم، اور وٹامن اے پائے جاتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ لیمن گراس میں بیٹا کیروٹین، وٹامن سی، رائبو فلاوین، نیاسین، فولیٹ، اور فیٹی ایسڈز بھی پائے جاتے ہیں۔ لیمن گراس میں پائے جانے والے ان غذائی اجزاء کی وجہ سے اس کو روزرمرہ کی غذا میں شامل کرنا بہت ضروری ہے۔

لیمن گراس کا عمومی طور پر قہوہ بنایا جاتا ہے، لیکن اسے کشمیری چائے، مرغی، مچھلیوں، اور سبزیوں سے بنے ہوئے سوپ میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
لیمن گراس کو اگر باقاعدگی کے ساتھ استعمال کیا جائے تو مندرجہ ذیل فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

موٹاپے سے نجات
لیمن گراس میں دیسی گھی کی طرح وزن کم کرنے کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔
موٹاپے کی وجہ سے کئی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس لیے سے سے چھٹکارا پانا بہت ضروری ہوتا ہے۔ موٹاپے سے چھٹکارا پانے کے لیے آپ لیمن گراس کو اپنی غذا میں شامل کر سکتے ہیں۔

کچھ لوگ وزن میں کمی لانے کے لیے سافٹ ڈرنکس بھی استعمال کرتے ہیں جو کہ مؤثر ثابت نہیں ہوتیں۔ اس کے برعکس اگر وزن میں کمی کے لیے لیمن گراس استعمال کیا جائے تو یہ جسم میں ڈی ٹاکس کا کام کرتا ہے، جب کہ اس کے استعمال سے بے وقت لگنے والی بھوک میں بھی کمی آتی ہے، جس کی وجہ سے آپ دن بھر کم کیلوریز استعمال کرتے ہیں۔

کھانسی اور نزلہ و زکام میں مفید
موسم میں تبدیلی یا ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے سانس لینے میں مشکلات کے ساتھ ساتھ کھانسی اور نزلہ و زکام کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ان تمام مسائل سے چھٹکارا پانے کے لیے لیمن گراس مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

قوتِ مدافعت میں اضافہ
لیمن گراس کا شمار ان جڑی بوٹیوں میں کیا جاتا ہے جو قوتِ مدافعت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
ہماری قوتِ مدافعت کا مضبوط ہونا بہت ضروری ہوتا ہے، کیوں کہ اگر قوتِ مدافعت مضبوط نہ ہو تو بہت سی بیماریوں کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ اس میں ایسے اجزاء پائے جاتے ہیں جو جسمانی تناؤ کو کم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

کینسر کے خطرات میں کمی
کچھ طبی تحقیقات کے مطابق لیمن گراس میں ایسے اجزاء پائے جاتے ہیں جو کینسر کے خلیات کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
لیمن گراس میں پائے جانے والے یہ اجزاء کینسر کے خلیات کی افزائش کو روکتے ہوئے کولن کینسر کے خطرات کو کم کرتے ہیں۔

اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور
اس جڑی بوٹی میں اینٹی آکسیڈنٹس بھی پائے جاتے ہیں جو کہ اچھی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے بہت ضروری ہوتے ہیں۔
اگر جسم کو مطلوبہ مقدار میں اینٹی آکسیڈنٹس حاصل نہ ہوں تو فری ریڈیکلز کی وجہ سے جسم کو پہنچنے والے نقصانات میں اضافہ ہوتا ہے۔ فری ریڈیکلز کی وجہ سے شریانوں کے خلیات کو خرابی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیمن گراس میں پائے جانے والے اینٹی آکسیڈنٹس فری ریڈیکلز سے پہنچنے والے خطرات کو کم کرتے ہیں۔

ذہنی تناؤ میں کمی
لیمن گراس کا قہوہ دماغی صحت کے لیے بھی بے حد مفید ثابت ہوتا ہے۔ اس قہوے کو باقاعدگی کے ساتھ استعمال کرنے سے جسم اور دماغ کو سکون بخش احساس پہنچتا ہے جس کی وجہ سے ذہنی تناؤ میں کمی آتی ہے۔

ہاضمہ کے نظام میں بہتری
پیٹ کے مختلف مسائل سے چھٹکارا پانے کے لیے آپ لیمن گراس کو اپنی غذا میں شامل کر سکتے ہیں۔ لیمن گراس میں بھی ادرک کی طرح گیس سے چھٹکارا حاصل کرنے والی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔
اس جڑی بوٹی کے استعمال سے پیٹ کے درد کی شدت بھی کم ہوتی ہے، جب کہ بد ہضمی کا بھی مزید سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

کولیسٹرول کی متوازن مقدار
یہ جڑی بوٹی جسم میں کولیسٹرول کی مقدار متوازن رکھنے کے لیے بھی مفید سمجھی جاتی ہے۔
اس لیے اگر ہم اس کو باقاعدگی کے ساتھ استعمال کریں تو اس سے ہمارے جسم میں موجود نقصان دہ کولیسٹرول کی سطح میں کمی آنا شروع ہو جائے گی۔

اینٹی مائیکروبیل خصوصیات کا حامل
لیمن گراس میں اینٹی مائیکروبیل خصوصیات پائی جاتی ہیں، جس کا مطلب ہے کہ یہ جراثیموں کے خلاف لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان خصوصیات کی وجہ سے اسے منہ کے انفیکشن کی علامات میں کمی لانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
کچھ طبی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ لیمن گراس میں دانتوں کے بیکٹیریا کو ختم کرنے کی بھی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ یہ جڑی بوٹی ان بیکٹیریا سے لڑ کر دانتوں کو پہنچنے والے نقصان کو کم کرتی ہے۔

ہائی بلڈ پریشر میں کمی
ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے متعدد جان لیوا بیماریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، اس لیے ہمارے لیے یہ بہت ضروری ہوتا ہے کہ جسم میں خون کی روانی معتدل رہے۔
خون کی روانی کو معتدل رکھنے کے لیے لیمن گراس مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لیے آپ کو اسے باقاعدگی کے ساتھ استعمال کرنا چاہیئے۔

بالوں اور جِلد کے لیے مفید
لیمن گراس میں وٹامن اے اور سی بھی کافی مقدار میں پائے جاتے ہیں جو بالوں اور جِلد کی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے مفید سمجھے جاتے ہیں۔
ان وٹامنز کی وجہ سے بالوں اور جِلد کی چمک برقرار رہتی ہے اور چہرے پر چھائیاں نمودار نہیں ہوتیں

ہائی بلڈ پریشر کو معتدل رکھنے کی چار کنجیاں  (۱)…Low sodium diet (کم سوڈیم والی خوراک) (۲)…High potassium diet (زیادہ پو...
21/08/2025

ہائی بلڈ پریشر کو معتدل رکھنے کی چار کنجیاں

(۱)…Low sodium diet (کم سوڈیم والی خوراک)
(۲)…High potassium diet (زیادہ پوٹاشیم والی غذا)
(۳)…Increased physical activity (زیادہ فعال زندگی)
(۴)…Weight reduction (وزن کم رکھنا)

یہ ہیں ہائی بلڈ پریشر کنٹرول کرنے کی کنجیاں!

یہ نہ صرف بلڈ پریشر بلکہ شوگر، کولیسٹرول، جگر کی چربی (fatty liver)، پولی سیسٹک اووری سنڈروم (PCOS) اور ان سب سے مل کر ہونے والے میٹابولک سنڈروم کے لیے بھی پہلا دفاع ہے۔
اس پر عمل کرکے اِن سب سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں جیسے ہارٹ اٹیک، ہارٹ فیلئیر، فالج اور گردوں کے فیل ہونے سے بچا جاسکتا ہے۔

عام سوال
عام طور پر ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ انسان آخر کیا کرے، بے بس ہے۔
مختلف فکروں اور مسائل کے ہوتے ہوئے، مستقبل کے خدشات اور اندیشے، گھریلو جھگڑے، تیز ترین زندگی کا ساتھ دیتے ہوئے آخر بلڈپریشر کیسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے؟

جواب

جو احتیاطی تدابیر بتائی ہیں اُن پر عمل کیجیے۔

روزانہ ورزش اتنی ضرور ہو کہ آپ کا خوب پسینہ بہے۔

منفی سوچوں کو دماغ سے جھٹکنے کی عادت ڈالیں۔

ابتدا میں محنت کرنا پڑے گی لیکن پھر یہ چیزیں آپ کی عادت بن جائیں گی۔

ورزش کے دوران ہیپی ہارمونز (happy hormones) کا اخراج بلڈپریشر اور دل کی دھڑکن کو نارمل کرتا ہے اور آپ کا موڈ خوشگوار ہو جاتا ہے۔
جسمانی طور پر مضبوط اور صحت مند انسان ذہنی دباؤ اور تناؤ سے بہتر طور پر نمٹتا ہے اور یوں اس کی ذہنی صحت بھی قابلِ رشک ہوتی جاتی ہے۔

سب سے پہلی بات
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ خوردنی نمک (سوڈیم کلورائیڈ) آپ کا دشمن ہے۔
مان لیجیے کہ ہائی بلڈ پریشر والوں کے لیے نمک زہر سے کم نہیں۔

اگر آپ ورزش باقاعدگی سے کرتے ہیں اور ’’لو سوڈیم ڈائٹ‘‘ کے لیے کھانے میں نمک بھی کم ڈالتے ہیں مگر آپ کی خوراک ایسی ہے جس میں قدرتی نمک زیادہ ہوتا ہے،
جو شوگر اور ہائی کولیسٹرول یا موٹاپے کے لیے بھی ٹھیک نہیں، جیسے آپ کو چاول بہت پسند ہیں، گوشت بھی اور تلی ہوئی اشیاء بھی تو تب بھی آپ دراصل ضرورت سے زیادہ سوڈیم لے رہے ہوتے ہیں۔

پوٹاشیم والی ڈائٹ
پوٹاشیم زیادہ والی خوراک پر بھی عمل نہیں ہو پاتا، ایسی صورت میں آپ خوراک میں کمی سے وزن کچھ کم کر بھی لیں تب بھی ہائی بلڈ پریشر نارمل نہیں ہوگا۔

مثالیں
(کھانے میں سے نمک نکال دیں تو لو سوڈیم ڈائٹ بن جاتی ہے)

کیلے 🍌، اجناس 🌾، دالیں 🫘، لیموں🍋، پالک 🥬، ڈرائی فروٹس 🥜، خاص طور پر خشک خوبانی اور کشمش۔ یہ سب ہائی پوٹاشیم ڈائٹ ہیں۔

🧂 نمک = زہر
یاد رکھیے کہ سالٹ سینسٹو ہائپرٹینشن (نمک سے بی پی کا بڑھنا) والے کے لیے نمک زہر ہے، بالکل جیسے ذیابیطس والے کے لیے چینی زہر ہے۔
زیرو سالٹ ہی بہترین حکمت عملی ہے۔

بچپن ہی سے ہمیں پھیکا کھانے کی عادت نہیں ہوتی، سو نمک چھوڑنا مشکل لگتا ہے۔
لیکن اگر کھانے کا ذائقہ مرچ مصالحوں سے اچھا بنا لیا جائے،
آئل فری یا صرف آئل برشنگ سے کھانا پکا لیا جائے تو بس پہلا ہفتہ مشکل ہوتا ہے۔ اس کے بعد زبان نئے ذائقے کی عادی ہو جاتی ہے۔

پروسیسڈ فوڈ سے پرہیز
پریزرویٹو والے کھانوں کا استعمال بھی بالکل چھوڑ دیں۔ ان میں سوڈیم بینزوایٹ (Sodium Benzoate) ہوتا ہے۔ یہ بھی سوڈیم کمپاؤنڈ ہے، اور ذائقہ نمکین نہ ہونے کے باوجود بلڈ پریشر بڑھا سکتا ہے۔

دنیا کی مثالیں
ترکش، لیبیا، ایرانی اور کورین کھانوں کو دیکھیں تو اُن میں نمک یا تو بالکل نہیں ہوتا یا بہت معمولی۔
تیل بھی صرف اسپرے یا آئل برش کے ذریعے لگایا جاتا ہے۔ وہ لوگ صحت مند اور خوش و خرم زندگی گزارتے ہیں۔
سو ہمیں بھی اپنی زبان کا ذائقہ بدلنے کی ضرورت ہے۔

ورزش اور عزم
ورزش کرنا اور پرہیز کرنا پختہ عزم کا مرہون منت ہے۔
کچے پکے ارادے اور ڈھیلی ڈھالی طبیعت کا بندہ ایسا نہیں کر پاتا،
تو پھر وہ صرف ادویات پر انحصار کرتا ہے۔

ہماری قوم عادتاً ورزش سے دور بھاگتی ہے لیکن جب آپ ورزش شروع کرتے ہیں تو کچھ دنوں بعد اس میں خوشی ملنے لگتی ہے۔
پھر ورزش دن کا وہ حصہ بن جاتی ہے جس کا آپ انتظار کرتے ہیں۔

ادویات
ادویات پرہیز اور ورزش کے بعد یا ساتھ لی جائیں، لیکن صرف ادویات سے ہائی بی پی کنٹرول کرنے کی خواہش دیوانے کا خواب ہے!

Address

Muhallah Tharkanan, Khat Kali
Nowshera

Telephone

+923134111727

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dynamis Centre for Natural Sciences,Nowshera posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Dynamis Centre for Natural Sciences,Nowshera:

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram