07/10/2025
چمکتے چہروں کے پیچھے خالی کوکھ!!
خوبصورتی کا مفہوم کب بگڑا، یہ کسی کو خبر نہیں۔ شاید جب آئینہ دکھانے لگا کہ چہرہ ٹھیک نہیں یا شاید جب سوشل میڈیا نے ہمیں سکھا دیا کہ جھریاں بدنما ہیں، دھبے ناقابلِ برداشت ، سادگی ایک کمی اور عمر داغ ہے۔ اب حسن ایک احساس نہیں رہا، بلکہ ایک مقابلہ بن چکا ہے۔ ہم ہر روز اپنے عکس کو پرکھتے ہیں، اس پر انگلی اٹھاتے ہیں، اور پھر کسی نئی تکنیک ، نئی مشین کسی نئی بوتل، کسی نئی سرجری اور کسی نئی چیز کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔
سرجری اب علاج نہیں، فیشن ہے۔ ہر چوتھی عورت اب کسی نہ کسی کلینک سے ہو کر آتی ہے — ہونٹوں میں فلرز، آنکھوں میں لِفٹ، ناک میں تراش خراش اور چہرے پر مختلف سیرم کے انجکشنز ، لیکن سب کچھ بدلنے کے بعد بھی جو چیز نہیں بدلتی، وہ اندر کا خلا ہے۔ اور شاید اسی خلا کو بھرنے کے لیے ایک ایسی نئی شے مارکیٹ میں لائی گئی جو پچھلی تمام چیزوں پر بازی لے گئی—
پلاسینٹا اور امیونک فلوئڈ کا استعمال۔
جی ہاں پلاسینٹا یعنی وہ عارضی عضو جو ماں کے پیٹ میں بچے کو غذا ، آکسیجن اور فضلے کی ترسیل دیتا ہے یعنی ایک بچے کو زندگی بخشنے میں سب سے بڑا کردار ادا کرتا ہے اور امیونک فلوڈ (ماں کے رحم میں بچے کے گرد ایک تھیلی میں موجود مائع ، جو بچے کی نشوونما میں مدد کرتا ہے) اسی کو خوبصورتی کے لیے چہرے پہ مل لیا جاتا ہے۔ نہیں سمجھ آیا نا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟
آگے پڑھیے آخر تک پہنچ کر آپ سمجھ جائیں گے۔
اس دَور کی بدنصیبی یہ ہے کہ خوبصورتی کے حصول میں صرف چہرے نہیں بگڑ رہے، جانیں بھی جا رہی ہیں۔ ایک اور المیہ یہ ہے کہ اب کئی چہرے ایک جیسے دکھنے لگے ہیں — ایک جیسی ناک، ایک جیسے ہونٹ، گالوں کی ایک سی ساخت جیسے سب ایک ہی سانچے میں ڈھل گئے ہوں۔ یہ مصنوعی مشابہت خوبصورتی کو انفرادیت سے محروم کر رہی ہے، اور سب چہرے ایک ہی ڈرائنگ کی کاپی لگنے لگے ہیں۔۔
2023 میں جنوبی کوریا میں دو مشہور اداکاراؤں کی ہلاکت کی خبر سامنے آئی، جنہوں نے کاسمیٹک سرجری کے بعد پیچیدگیوں کا سامنا کیا اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ ترکی، ایران اور امریکا میں متعدد کلینکس بند کیے گئے جہاں غیر معیاری فلرز اور ناکام سرجریز سے چہرے ناقابلِ شناخت ہو گئے۔ کئی خواتین نے اپنی آنکھوں کی روشنی کھو دی، کچھ کو منہ کا مستقل ٹیڑھا پن لاحق ہوا، اور کچھ اپنی جان سے گئیں۔
کئی نامور چہروں کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ مشہور امریکی اداکارہ جون رورک (Joan Rivers) جو بار بار کاسمیٹک سرجریز کے باعث بالآخر ایک آپریشن ٹیبل پر دم توڑ گئیں۔ مائیکل جیکسن، جن کا چہرہ سرجری کی زیادتی سے بالکل غیر فطری نظر آنے لگا۔ انجلینا جولی، جنہوں نے لپ فلرز کے بعد اپنی نارمل مسکراہٹ کھو دی۔ اور جنوبی کوریا کی یوٹیوبر یونا (Yunà)، جن کی سرجری کے بعد موت کی خبر نے کئی سوالات کو جنم دیا۔ انڈیا میں راکھی ساونت ، سشمیتا سین ، ایشوریا اور کئی اور چہرے ایک جیسے پھولے گالوں والے نظر آنے لگے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی ان گنت نام ہیں جو اس دوڑ میں شامل ہو کر یا تو جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں یا چہرے خراب کر لیے ہیں۔
پہلے پہل صرف جانوروں سے اور حلال جانوروں میں بھیڑ بکری سے پلاسینٹا حاصل کر کے ان کے سیرم اور پاؤڈر کو انہیں بیوٹی پروڈکٹس میں استعمال کیا جاتا تھا۔ لیکن خوبصورتی کے حصول کے لیے ہر حد پار کردینے والوں نے کچھ عرصے سے مارکیٹ میں انسانی پلاسینٹا کا استعمال بھی عام کردیا ہے۔ میڈیکل میں ویسٹ سمجھے جانا والا عضو اب کاسمیٹک مارکیٹ کا مہنگا ترین پروڈکٹ ہے۔ اس سے بننے والے فیس ماسک ، شیمپو ، کریمز اور سیرم عام کریموں سے کئی گنا مہنگے فروخت ہوتے ہیں۔ اور پلاسینٹا ایکسٹریکٹ کے انجکشنز کی قیمت لاکھوں میں ہے۔
کچھ عرصہ قبل یشودھا نام سے ایک مووی آئی تھی جس میں ایک عورت خوبصورتی کے حصول کے لیے خواتین کو لالچ دے کر سروگیسی کے ذریعے حاملہ کرواتی ہے اور پھر ان کے بچوں کے پلاسینٹا اور امیونک فلوڈ کو اپنے چہرے کی خوبصورتی کے لیے استعمال کرتی ہے۔ جب یہ مووی دیکھی تو لگا تھا شاید یہ بس مووی ہے ایسا سچ نہیں ہوسکتا لیکن کچھ عرصے سے اس بارے میں تحقیق کررہی ہوں تو جب اور جتنا پڑھا یہ سچ سامنے آیا کہ حقیقت اس سے بھی کہیں زیادہ تلخ ہے۔
امیونک فلوئڈ میں اسٹیم سیلز ، گروتھ فیکٹر اور قدرتی پروٹین پائے جاتے ہیں جو چہرے سے عمر کے اثرات ختم کرنے ،(anti aging) ، جلد کو ہائیڈریٹ کرنے ، کولیجن بڑھانے اور جلد کو بچوں جیسا نرم و نازک کرنے میں بہت موثر سمجھے جاتے ہیں۔ کاسمیٹک انڈسٹری میں پریمیم فیشلز ، سیرم اور کلینک ٹریٹمنٹس میں امیونک فلوئڈ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن ایک سوال جو ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ آخر یہ امیونک فلوئڈ حاصل کیسے کیا جاتا ہے؟
کیونکہ امیونک فلوئڈ کوئی کیمیکل یا دوا نہیں بلکہ انسانی مادہ ہے جو رحم مادر میں بنتا ہے۔ بچے کی پیدائش کے وقت اکثر یہ فلوئڈ بہہ جاتا ہے پھر کاسمیٹک انڈسٹری کے پاس یہ کیسے پہنچتا ہے؟
سوال کا جواب ڈھونڈنے جائیں تو بہت تلخ حقائق سامنے آتے ہیں جو روح کو لرزا دیتے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں خواتین کی اجازت کے بغیر پلاسینٹا اسپتال میں نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ کچھ ممالک میں خواتین خود پلاسینٹا اور امیونک فلوڈ ڈونیٹ کرتی ہیں لیکن یہ ڈونیشن میڈیکل اسٹڈیز کے لیے ہوتا ہے کاسمیٹکس میں استعمال کے لیے نہیں۔
کچھ ممالک میں خاتون کے دستخط کروا کر کے پلاسینٹا لیا جاتا ہے لیکن پھر بھی کہیں بھی یہ واضح نہیں کیا جاتا کہ اس کا استعمال کہاں ہونے والا ہے۔
عالمی تحقیقاتی اداروں کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں پلاسینٹا ماں کی اجازت کے بغیر ہی رکھا جاتا ہے اور تلف کرنے کے بجائے آگے فروخت کردیا جاتا ہے۔
(پاکستان میں بھی ہم نے کبھی نہیں سنا کہ پلاسینٹا رکھنے کے لیے کسی اسپتال نے اجازت لی ہو۔ )
سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ سروگیسی کیسز کے بعد سب سے زیادہ امیونک فلوڈ aborted fetus یا مس کیریج سے حاصل ہوتا ہے یعنی وہ زندگی جو زندگی کی حرارت بھی نہ پاسکی اسے بھی نہ بخشا گیا۔
ظاہری خوبصورتی کی خواہش میں انسان خود سے، ضمیر سے، اور سچائی سے بہت دور نکل آیا ہے۔ آئینے میں نظر آنے والا چمکتے ، حسین ، اور بنا جھریوں کے سپاٹ چہرے اب صرف حسن کی علامت نہیں بلکہ کئی ان کہی، تلخ، اور کربناک کہانیوں کے بوجھ اٹھائے ہوتے ہے۔
جب میں نے پہلی بار "پلاسینٹا سیرم" کا لفظ سنا تو یہی خیال آیا کہ شاید یہ کسی جانور یا غیر معمولی تجرباتی مواد پر مبنی کوئی کاسمیٹک پروڈکٹ ہوگا۔ مگر جیسے جیسے حقیقت کے پردے اٹھتے گئے، میری روح لرزتی گئی۔ کبھی یہ وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ سیرم انسانی پلاسینٹا سے بھی حاصل کیا جاتا ہے — وہی پلاسینٹا جو کسی معصوم جان کی زندگی کا پہلا محافظ تھا۔
مارکیٹ میں خوبصورت پیکنگ، پرکشش دعووں اور "اینٹی ایجنگ" جیسے الفاظ میں لپٹے یہ سیرم، انجکشن اور فیشل پاؤڈر درحقیقت ان بچوں کے اجزاء پر مشتمل ہیں جو یا تو ماں کے پیٹ میں ہی دم توڑ گئے یا جن کی کوکھ سے بغیر اجازت یا فریب سے یہ عضو حاصل کیا گیا۔ وہ عضو جو ایک بچے کو زندگی، سانس، آکسیجن اور غذا دیتا ہے، اب کسی کے چہرے کی چمک اور جوانی کی ہوس کی تسکین کا ذریعہ بن چکا ہے۔
کیا یہ زندگی کی بے حرمتی نہیں؟ کیا یہ ماں کی ممتا کی توہین نہیں؟ کیا یہ اس معصوم کی بے عزتی نہیں جو کبھی دنیا میں سانس لینے سے بھی محروم رہا؟
ہسپتالوں میں پلاسینٹا کو "میڈیکل ویسٹ" کہہ کر اٹھا لیا جاتا ہے، لیکن اس ویسٹ کی قیمت لاکھوں میں ہوتی ہے۔ کہیں بغیر اجازت یہ رکھ لیا جاتا ہے، اور کہیں عملہ اور دوا ساز کمپنیاں غیر قانونی طور پر اس کی خرید و فروخت میں ملوث ہوتی ہیں۔ اگر کبھی خواتین سے فارم سائن بھی کروائے جاتے ہیں تو وہ اس قدر مبہم ہوتے ہیں کہ ایک ماں سمجھ ہی نہیں پاتی کہ وہ کن الفاظ پر دستخط کر رہی ہے۔
دنیا بھر میں انسانی پلاسینٹا ایکسٹریکٹ سے بنے انجکشنز کی قیمت دو ہزار سے پانچ ہزار امریکی ڈالر (تقریباً چھ سے چودہ لاکھ پاکستانی روپے) تک جا پہنچتی ہے۔ پاکستان میں ان کی ایک ڈوز کی قیمت بھی ایک لاکھ سے شروع ہوتی ہے، اور اسے مستقل بنیادوں پر لگوانا پڑتا ہے۔ ان انجکشنز کو "یوتھ فل گلو"، "کولیجن بوسٹ" اور "ری جنریشن تھراپی" جیسے دل لبھانے والے نام دیے جاتے ہیں۔
امیونک فلوئڈ — وہ مائع جو بچے کو تحفظ دیتا ہے — بھی اب Bio Regenerative Therapy، "Stem Cell Facials"، "Amniotic Hydration Masks" اور "Rejuvenation Therapy" جیسے جدید ناموں سے چہروں پر لگایا جا رہا ہے۔
اخلاقیات کے لحاظ سے تو پلاسینٹا کا استعمال قبیح ہے ہی ساتھ ہی مذہبی لحاظ سے بھی اس کی اجازت نہیں ہے لیکن بہت سی دیگر خرافات کے ساتھ ساتھ پاکستان میں اس کا استعمال عام ہوتا جارہا ہے۔
بدترین حقیقت یہ ہے کہ ان پروڈکٹس پر کبھی واضح نہیں لکھا جاتا کہ یہ انسانی پلاسینٹا یا امیونک فلوئڈ پر مشتمل ہیں۔ لیبل پر ایسے الفاظ کا استعمال ہوتا ہے جو عام صارف کے لیے مبہم ہوں، تاکہ وہ یہ نہ جان سکے کہ وہ کسی کی زندگی، کسی کی کوکھ، کسی معصوم کی قربانی کو اپنے چہرے پر سجا رہا ہے۔
زیادہ تر پلاسینٹا سیرمز aborted fetuses یا مس کیریج کیسز سے حاصل کیے جاتے ہیں۔
تو ایک لمحے کو ذرا رک کر سوچیے۔
کیا کوئی بھی حساس انسان یہ برداشت کر سکتا ہے کہ وہ کسی ایسی چیز کو چہرے پر لگائے جو شاید ایک ایسی روح کی باقیات ہو جو کبھی دنیا میں آنکھ بھی نہ کھول پائی ہو۔
کیا ہمیں واقعی چہرے پر ایسی چمک، ایسی نرمی، ایسی جوانی چاہیے جو کسی اور کے درد سے حاصل ہو؟
چہرے پر جھلملاتی روشنی کے پیچھے اگر ایک ماں کی سسکی ہو، ایک معصوم کی ادھوری سانس ہو، یا ایک کوکھ کی خاموش چیخ — تو وہ روشنی نہیں، وہ ایک عذاب ہے۔ خوبصورتی اگر کسی اور کے وجود کے ملبے پر تعمیر کی جائے تو وہ حسن نہیں، بےحسی ہے۔
ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم صرف خوبصورت نظر آنے کے لیے کتنا کچھ روندتے جا رہے ہیں۔ شاید وقت آ گیا ہے کہ آئینے میں جھانکنے سے پہلے اپنی روح میں جھانکیں۔ کیونکہ چمکتے چہرے، خالی کوکھوں کا نعم البدل نہیں۔