Healing hands Physicaltherapy Clinic

Healing hands Physicaltherapy Clinic This page is created to share health information,tips,guidance,knowledge.

24/07/2025

رات کی نیند اور شوگر کا خطرہ.!

ایک تحقیق نے میری آنکھیں کھول دیں۔
یونیورسٹی آف شکاگو کے سائنسدانوں نے جب کچھ نوجوانوں کو صرف چھ راتیں، روزانہ چار چار گھنٹے سونے دیا، تو حیران کن بات یہ ہوئی کہ ان کے جسم نے انسولین پر وہی ردِعمل دکھایا جو ذیابیطس کے مریضوں میں ہوتا ہے۔ یعنی صرف چھ دن کی نیند کی گڑبڑ نے صحت مند نوجوانوں کو شوگر کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔

میں یہ تحقیق پڑھ رہا تھا اور ساتھ ساتھ
ان نوجوانوں کے چہروں کا تصور بھی کر رہا تھا جو رات کو دو بجے سوتے ہیں، صبح دس گیارہ بجے جاگتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ "نیند تو آٹھ گھنٹے کی پوری ہو گئی نا!" لیکن سچ یہ ہے کہ صرف نیند کی مقدار اہم نہیں ہوتی، اس کا وقت اس سے بھی زیادہ اہم ہوتا ہے۔ ہماری جسمانی گھڑی، جسے حیاتیاتی نظام یا circadian rhythm کہا جاتا ہے، سورج کی روشنی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ جب ہم اس گھڑی کے خلاف چلتے ہیں تو سارا نظام الٹ جاتا ہے۔

رات کو دیر تک جاگنے سے
صرف تھکن یا آنکھوں کے گرد ہلکے نہیں پڑتے، یہ دل، دماغ، میٹابولزم، ہارمونی نظام — سب کو متاثر کرتا ہے۔ دن کی نیند، رات کے سکون کا نعم البدل نہیں بن سکتی۔ صبح کی روشنی، سورج کی پہلی کرن، یہ سب انسانی جسم کے لیے قدرتی الارم ہیں۔ اگر ہم ان سے کٹ جائیں، تو آہستہ آہستہ جسم بگڑنے لگتا ہے اور ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا۔

اکثر نوجوان یہ کہتے ہیں کہ
"رات کو دماغ بہتر چلتا ہے" یا "خاموشی
میں کام کرنے کا مزہ ہے"۔ یہ باتیں جذباتی ہو سکتی ہیں، لیکن سائنسی، طبی لحاظ سے نقصان دہ ہیں۔ رات جاگنے والے نوجوانوں میں تحقیقاً زیادہ موٹاپا، ذیابیطس، اور ذہنی الجھنیں دیکھی گئی ہیں۔ نیند کی تاخیر صرف ایک عادت نہیں، یہ جسم کے پورے نظام کو گڑبڑ کر دینے والا طرزِ زندگی ہے۔

اللہ ، آپ کو آسانیاں عطا فرمائے
اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ موبائل کی روشنی کے ساتھ جاگنا ہے یا صبح کی روشنی کے ساتھ جاگنا ہے؟ ایک وقت آئے گا جب جسم آپ سے حساب لے گا۔ بہتر ہے آج سونا سیکھ لیں، تاکہ کل جگانا نہ پڑے۔ یاد رکھیں، نیند وقت پر ہو تو ہی نیند کہلاتی ہے، ورنہ وہ ایک خالی تھکن ہے۔

جاوید اختر آرائیں
۲۳ جولائی ۲۰۲۵

14/06/2025

جانوروں میں گھرا ہوا انسان.!

کبھی ایک وقت تھا جب بچوں کے خوابوں میں انسان بستے تھے۔ ان کے ہیرو انسان ہوتے تھے۔ وہ انسانوں جیسا بننے کی چاہ رکھتے تھے، ان کی طرح بولنا، سوچنا، چلنا، سیکھنا چاہتے تھے۔ ان کے سامنے جو مثالیں رکھی جاتیں، وہ انسانوں کی ہوتیں۔ کہانیاں بھی انسانوں کی ہوتیں، باتیں بھی انسانوں کے کمالات کی ہوتیں۔ مگر اب ذرا غور کیجیے... آج ہر طرف جانور ہی جانور چھائے ہوئے ہیں۔

بازار جائیں تو بچوں کے کپڑوں پر ہاتھی،
چیتے، بندر، بلی، کتے کی تصویریں۔ بستے، جوتے، ٹوپیاں، کاپیاں، کتابیں — سب جانوروں سے بھرے ہوئے۔ کھلونے دیکھیں تو ہر طرف ڈائناسور، چمگادڑ، مکڑی، بندر۔ ٹی وی کھولیں تو بھی یہی حال۔ کہیں مکڑی کا انسان، کہیں چمگادڑ کا انسان، کہیں چیونٹی کی طاقت والا انسان۔ آخر یہ سب کیا ہے؟

یہ سوال سنجیدگی سے سوچنے والا ہے
کہ آخر کون سی ذہن ساز قوتیں ہیں جو ہر جگہ جانوروں کو انسانوں سے زیادہ قیمتی، زیادہ عقلمند، زیادہ طاقتور بنا کر پیش کر رہی ہیں؟ کون لوگ ہیں جو بچوں کے ذہن میں یہ بات بٹھا رہے ہیں کہ بہادری مکڑی کی ہے، طاقت چیتے کی ہے، ہوشیاری چمگادڑ کی ہے؟ کیا یہ محض اتفاق ہے؟ یا کوئی سوچا سمجھا منصوبہ ہے؟

آج کا بچہ بولنے لگتا ہے تو سب سے پہلے
جانوروں کے نام لیتا ہے۔ پہچانتا ہے تو بندر، بلی، چیتا۔ کہانیاں سنتا ہے تو انہی کی، کارٹون دیکھتا ہے تو انہی کے، کھیلتا ہے تو انہی کے کھلونوں سے۔ حتیٰ کہ کھیلوں کی ٹیموں کے نام بھی جانوروں کے ناموں پر رکھے جا رہے ہیں — شیر، چیتا، بیل، ڈالفن، عقاب جیسے انسان کے کمالات اب پرانی بات بن گئے ہوں۔

یاد رکھیے، پہلے بھی ایک قوم نے بچھڑے کا بت
بنایا تھا۔ اس کے گرد ناچنا شروع کر دیا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ محض ایک نشانی ہے، لیکن درحقیقت ان کے دل اس کے سامنے جھک چکے تھے۔

آج کے دور میں بھی وہی بچھڑا نئے رنگ، نئے کھلونوں، نئی تصویروں کی شکل میں ہمارے گھروں میں موجود ہے۔ اور ہم یہ سمجھ کر خوش ہیں کہ "یہ تو بس کھلونا ہے"، "یہ تو صرف کارٹون ہے"، "بچہ ہے، کھیلنے دو"۔ مگر بھول جاتے ہیں کہ بچہ جسے دیکھتا ہے، جس کے ساتھ کھیلتا ہے، جس کی کہانیاں سنتا ہے، وہی اس کے دل و دماغ میں بیٹھ جاتا ہے، وہی اس کی شخصیت بننے لگتی ہے۔

ہاں اگر آپ واقعی چاہتے ہیں
کہ اپنے بچوں کو جانوروں کے ساتھ ایک فطری،
نرم اور شفیق تعلق سکھائیں تو ضرور انہیں بتائیں کہ حلال جانوروں سے رحم، محبت، شفقت کا سلوک کیسا ہونا چاہیے۔ ان کا خیال رکھنا، ان پر ظلم نہ کرنا، یہ تو دین کی سکھائی ہوئی خوبصورت بات ہے۔ لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ ان جانوروں کے مجسمے، کھلونے، کتابیں، کاپیاں، کپڑے، جوتے سب کچھ انہی کی تصویروں سے بھر دیں۔ یہ بہت اہم معاملہ ہے، بہت زیادہ سوچنے سمجھنے کی بات ہے۔

یہ وہ نکتہ ہے جو ماں باپ کو غور سے سمجھنا چاہیے۔ ورنہ کل کا دن ایسا آ سکتا ہے جب ان کے اپنے بچے انسانوں کی پہچان کھو بیٹھیں گے، اور جانوروں کو اپنا اصل ہیرو سمجھنے لگیں گے۔ تب افسوس کا وقت گزر چکا ہوگا۔

اللہ ، آپ کو آسانیاں عطا فرمائے
اب بھی موقع ہے۔ تدبر کریں، اپنے گھروں
کا جائزہ لیں، اپنے بچوں کی چیزوں کو دیکھیں، سوچیں کہ کہیں انجانے میں ہم ان کے معصوم ذہنوں کو ایسی سمت تو نہیں دے رہے جو ان کے انسان ہونے کی عظمت کو بھلا دے؟

یہ فیصلہ آج کرنا ہے، کل نہیں۔

جاوید اختر آرائیں
13 جون 2025

13/06/2025

وہ پسینے سے شرابور گھر داخل ہوئی..تنگ آگی ہوں میں روز روز پیدل چل کر..ایک تو گرمی برداشت کرو..اوپر سے اتنی گرمی میں پیدل بھی آؤ..کیا تھا ابو جی کوئی رکشہ لگوا دیتے..
کیسے لگواتے ہم گزارہ جو مشکل سے ہوتا ہے..
روز کی طرح چہرے میں ناگواری سموئے..وہ بڑبڑاتی ہوئی گھر میں داخل ہوئی...ارے خوش بخت.. میری دھی آگئی..
چل منہ ہاتھ دھو لے.. میں اپنی دھی کے لیے کھانا لگاتی ہوں..
اُسکی ماں نے روز کی طرح اپنی ..
بیٹی کی بڑبڑاہت پر کان دھرے بغیر..
اُسکو روز کی طرح جواب دیا..
وہ کچھ بھی کہے بغیر..
ناک منہ چڑھا کر اپنے چھوٹے سے کمرے میں چلی گی...
کیا اماں. آج پھر دال..
آج تو جمعرات تھی نہ.. ابا کو ہفتہ ملنا تھا.پھر یہ دال کیوں؟
وہ میری دھی تیرے ابا نے ..
جہاں سے پیسے اُدھار لیے تھے نہ..
وہ تیرے اسکول میں جو وہ تھا فن..
فنش..
فنکش امی..
ہاں وہی اُدھر ہی دیئے ہیں..
کیا امی فنکش کو گزے کتنے ..
مہینے ہو گے ہیں اور ابا سے..
ابھی تک نہیں دیئے گئے پیسے....
مجھ سے نہی کھائی جاتی یہ دال روٹی...
حد ہے.. وہ برتنوں کو پاؤں مار کر..
واپس اپنے کمرے میں چلی گئی..
نہ میری دھی ایسے نہ کر..
شام کو تیرا ابا آئے گا نہ..
تو کچھ اچھا سے لے آئے گا..
.ابھی کھا لے دیکھ رزق کو نہ نہیں کرتے..
وہ وہی بیٹھی اپنی بیٹی کو آوازیں لگا رہی تھی..
جوکہ بے سود تھیں..
میری خوش بخت نہیں تو؟
اماں نام خوش بخت رکھ لینے سے..
بخت اچھے نہیں ہو جاتے..
کم سے کم نام تو اپنی مالی..
حیثیت دیکھ کر رکھنا تھا. .
شکر ہے میرا کوئی بھائی بہن نہیں..
نہی تو وہ بھی ترستے میری طرح..
اپنے کمرے میں ہی بیٹھی وہ اپنی.
ماں کو کھڑی کھڑی سنا رہی تھی..
جو کہ اُس کا روز کا معمول تھا...
جبکہ اُس کی اِس بات پر اُس کی..
اماں بلکل خاموش ہوگی تھی..
تو کیا جانے خوش بخت..
تیرے آنے سے ہمارے بخت کتنے روشن ہو گے ہیں..
Sheesh mehal na mj ko shuaave..
Tj sang sookkhi roti bhaye..
Man mast..
واہ اب وہ بھی ساتھ ہو تو سوکھی روٹی..
اِس سے تو اچھی ابا کے گھر کی دال روٹی ہے..
گانے بھی نہ آج کل کیسے کیسے آ رہے ہیں...
موڈ ہی خراب کر دیا ہے... اونہہ...
ہائے خوش بخت.. کب جائے کی یہ غربت....
گانا سننے کے ساتھ ساتھ وہ خود سے..
بھی باتیں کرنے میں مگن تھی..
کیا ہوا بخت کی اماں...
کیوں ایسے بیٹھی ہے...
اور بخت کہاں ہے ٹھیک تو ہے وہ...
خوش بخت کے ابا سانس ..
تو لے لو آتے ہی اتنے سوال کر رہے ہو..
کیا کرو بخت کی اماں...
آج اُس کی چہکتی آواز نہیں سنی نہ. اور آج دروازہ بھی میری دھی..
نے نہی کھولا نہ تو بس فکر ہو رہی تھی..
تیری دھی دوپہر سے اندر کمرے میں..
منہ بنا کر بیٹھی ہے...
کے آج دال. کیوں بنائی...
او.. .تو یہ گل ہے...
بُلا میری دھی کو ابھی جا کر..
اُسکی پسند سے کچھ لے آتے ہیں..
پر پیسے؟
آج تھوڑا ذیادہ کام کر لیا تھا تو بس..
اچھا اچھا لاتی ہوں بُلا کر..
اسلام علیکم ابا!
و وعلیکم السلام میرے بخت!
میری دھی کا منہ کیوں پھولا ہوا ہے؟
کیا انا جانتے بھی ہو آپ پھر بھی..
وہ ویسے ہی پھولے منہ سے بولی..
آجا میں اپنی دھی کو باہر لے کر چلو..
جو میری دھی بولے گی وہی لے کے دوں گا..
ہائے سچی ابا؟
ہاں میری دھی....
بخت کی ماں اب لگتا ہے کہ میں گھر میں ہوں..
اگلی صبح وہ معمول کے مطابق..
بڑبڑاتے ہوئے کالج گئ..
اف گرمی.. یار
اپنی دوستوں میں آ کر وہ ..
حسبِ معمول وہ گرمی پر..
تبصرہ کرنا نہیں بھولتی تھی..
زرمینہ.. کیا ہوا تمہیں.. رو کیوں رہی ہو؟
باتیں کرتے کرتے اُسکا دھیان اپنی دوست پر گیا..
کیا ہوا زری؟
اُسکے ایک بار پوچھنے پر وہ..
نہ کچھ بولی تو وہ پھر سے..
اُس سے مخاطب ہوئی..
کچھ نہیں.. کل بابا بولتے ہیں کہ کسی..
کی بیٹی نہیں ہونی چاہیے...
وہ تنگ آ گے ہیں ہمیں پال پال کر..
بولتے ہیں تم ایک خرچا ہو...
خوشی ہم نے تو کھبی بھی بابا سے
کوئی بھی فضول فرمائش نہیں کی..
پھر بھی بابا نے ایسا کیوں بولا ؟
آج تک جیسے رکھا. .ہم رہیں ہیں پھر بھی..
جبکہ بخت کےپاس جیسے الفاظ ہی ختم ہو گے تھے..
تم جانتی ہو خوشی..
میں نا بہت امیر ہوں بہت ذیادہ..
اتنی کے کچھ بھی خرید سکتی ہوں...
بس ایک چیز ہے جو میں کبھی نہیں ..
خرید سکتی وہ میرے بابا کا پیار اور گھر کا سکون..
ایسا گھر جہاں پر کھانے کو تو کچھ نہ ہو
پر سکون موجود ہو..
وہ گھر جہاں پر بیٹوں کو زحمت نہیں
رحمت سمجھا جاتا ہو..
ایسا تو کچھ بھی نہیں خرید سکتی میں
بخت پھر ایسے پیسے کا میں
کیا کروں بتاؤ مجھےجس سے میں اپنی
ضرورت کی چیزیں نہیں لے سکتی..
وہ ایک ٹرانس کی کیفیت میں بولی جا رہی تھی..
خوشی تم.. تمہارا گھر بھی تو ایسا ہے نہ؟
جہاں کچھ ہو نہ ہوپیارے کرنے والے بابا ہیں نہ
جن کا دن تم سے شروع اور تم سے ہی ختم ہوتا ہے...
جو تمہاری ہر خواہش پر آمین بولتے ہیں...
جو تمہارے ناراض ہونسے بے چین
اور خوش ہونے سے زندگی جیتے ہیں...
تمہیں تو شکر کرنا چاہیے ایسے پرُسکون گھر پر
خوش نصیبوں کے نصیب میں ہوتا ہے
یہ سب اور تم تو بہت خوش نصیب ہوخوش بخت..
تم بولتی ہو نہ خوش بخت نام رکھ لینے سے کوئی بھی بخت میں اچھا نہیں ہوتا...
نہیں میری جان اصل خوش نصیب تو تم ہو..
دیکھو سب تو ہے تمہارے پاس..
مجھے دیکھو... دیکھو میرے ہاتھ..
خالی ہیں اتنی امیر ہونے کے بعد بھی کچھ نہیں ہے...
تم قدر کرو.. جو تمہارے پاس ہے
اکثر لوگوں کے پاس نہیں ہے...
جبکہ زرمینہ کی باتوں کے دوران بخت خاموش تھی...
چلو کلاس کا ٹائم ہو گیا ہے...
بخت کو یہی راہ فرار کے لیے صحیح لگی..
پورا دن زرمینہ کی باتیں اُس کے
دماغ میں گردش کرتی رہیں...
شکر ہے چھٹی ہوئی اف زری تمہاری باتیں
کیوں تنگ کر رہی ہیں مجھے...
تم کیا جانو کے غربت کتنی برُی شِے ہے..
کتنا کچھ چھوڑنا پڑتا ہے...
کتنی چیزوں کو پسند کرتے ہوئے
بھی ناپسند کرنا پڑتا ہے...
ماں باپ کے پیار کا میں اچار ڈالو...
آج بھی اُسکی بڑبڑاہت جاری تھی...
گلی کے موڑ پر اُسکے قدم ایک دم تھمے تھے....
سامنے کا منظر دیکھ کر اُسکا سانس
جیسے سینے میں اٹکا تھا...
اُسکے سامنے ہی دو بچے جو بہت ہی گندی
حالت میں تھے... کندھوں پر کوڑا اٹھانے
والا گٹو ڈالے ہوئے...
بہت ہی شوق سے زمین پر روٹی
جس پر تھوڑی سے دال تھی
کھانے میں مگن تھے...
کسی کے گھر سے لی گئی روٹی...
جو کے کسی کا جوٹھا تھا..
شکر کر کے کھا رہے تھے..
دنیا کا ہوش بھلائے وہ کھانے میں مگن تھے..
جیسے کھانکے علاوہ دنیا میں کوئی
اور کام ہی نہ ہو..
اچانک ہی وہ اپنا موازنہ اُن بچوں
سے کرنے لگی.. کیا کبھی اُس نے
ایسے کھایا تھا..
کیا کبھی اُس نے کسی چیز پر چکر کیا تھا ؟
کیا کبھی اُسکے ماں باپ نے اُسکو
جوٹھا کھلایا تھا ؟
سوچوں کے بھنور نے ایک ہی اُس کو
گھیر لیا تھا..
اُن بچوں کے منہ پر ابھی بھی..
چہرے پر آسودہ سی مسکراہٹ تھی..
یہ کیسا انکشاف تھا جو اُس پر ہوا تھا...
پہلے زرمینہ اور اب یہ بچے..
جب برداشت نہ ہوا تو وہ وہاں چلی آئی...
گھر آنے تک اُس کا چہرے آنسوؤں سے تر تھا..
اماں جو اُس کے انتظار میں بیٹھی تھی
اُسکو روتا دیکھ کر فوراً اسکے پاس آئی..
میری دھی کیا ہوا
کیوں رو رہی ہے...
کسی نے کچھ کہا ہے کیا؟
بتا مجھے... میں ابھی..
اماں میں بہت بُری ہوں
نہ... میں ....
میں نے ہمیشہ تجھے اور ابا
کو اپنی باتوں سے پریشان کیا ہے..
ہمیشہ تم دونوں کو غریب ہونے
کا طعنہ دیا ہے.. جبکہ تم دونوں کے
بس میں تو کچھ نہیں تھا پھر بھی...
اور آپ دونوں میری باتیں ہنس کر ڈال دیتے تھے..
میں نے ہمیشہ خدا کی دی ہوئی
نعمت کی ناشکری کی اماں...
اماں میں تیری اچھی دھی نہیں ہوں...
میں نے ہمیشہ رزق کو برا بھلا بولا..
میں نے ہمیشہ ہر چیز کا گلہ کیا تم دونوں سے..
آج تک اماں میں نے کسی چیز پر شکر نہیں کیا..
اماں آج تک.. میں ہمیشہ شکوہ کرتی آئی ہوں
میں نے ہمیشہ دوسروں کی چیزوں کا اعلیٰ
اور خود کی چیزیں کو ناقض بولا ہے..
اماں میں نے ہمیشہ ہر چیز میں ناشکری کی ہے..
رونے کے باعث اُسکا سانس پھول گیا تھا..
پر وہ بولتی رہی..
جبکہ میں تو خوش نصیب تھی نہ..
تیری اور ابا کی بخت..
اماں مجھے مار میں بہت بُری ہوں. ..
نہ میری دھی...
نہ ایسے نہ بول تُو تو میری سوہنی دھی ہے
ایسے نہ بول..
اماں میں نماز پڑھ لو...
اپنے رب سے معافی مانگ لو...
اور تو کھانا لگا...
ہاں میں دال روٹی کھا لو گی..
اپنی ماں کے چہرے پر پریشانی
دیکھ کر وہ فوراً گویا ہوئی..
جا میری دھی...
نماز ادا کرنے کے بعد...
آج اُس نے زندگی میں پہلی بار
شکر کے لیے ہاتھ اٹھائے تھے...
وہ ہاتھ جو بس مانگتے یا
شکوہ کرتے ہی آئے تھے ...
آج وہ ہاتھ شکر کے لیے اٹھے تھے...
وہ بخت جو ہمیشہ اپنے بخت
پر گِلہ کرتی آئی تھی..
آج اپنے بخت پر اپنے
رب کی بے حد شکر گزار تھی...
میں نے جان لیا اے میرے رب!
کہ پیسہ, امیری ہی سب کچھ نہیں ہوتا...
اصل امیری تو وہ ہے جہاں احساس, پیار اور
خلوص سے بھرے لوگ...
میرے آس پاس ہیں...
تیرا شکر یا رب!!
کبھی کبھی ہدایت کے لیے
ساری زندگی کافی نہیں ہوتی..
تو کبھی ہدایت کے لیے
ایک لمحہ ہی کافی ہوتا ہے...
اور بے شک خدا جسے چاہے ہدایت دے...

01/06/2025

نادانی میں بِگڑتی نسلیں:
والدین کے نام ایک ہمدردانہ پیغام .!

ہم سب چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے کامیاب ہوں،
خوش ہوں، بااخلاق ہوں، اور ہمارے دل کا سکون بنیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف چاہنے سے سب کچھ ہو جاتا ہے؟ کیا والدین کبھی اپنی ہی نیتوں، محبتوں، خوابوں اور اُمیدوں کی نادانی میں، انجانے میں، بچوں کی شخصیت، مستقبل اور دل کو نقصان پہنچا بیٹھتے ہیں؟

جواب ہے، ہاں۔ اور یہ نادانی
ہی سب سے بڑی آزمائش ہے۔ کیونکہ نادانی میں
کی گئی تربیتی غلطیاں ہمیں گناہ محسوس نہیں ہوتیں، بلکہ ہمیں لگتا ہے کہ ہم تو بچوں کا بھلا ہی کر رہے ہیں۔ مگر درحقیقت، کبھی کبھی ہم اپنے بچوں کی روحانی جڑوں کو کاٹ رہے ہوتے ہیں، ان کے پروں کو کتر رہے ہوتے ہیں، اور پھر حیران ہوتے ہیں کہ " وہ اڑ کیوں نہیں پاتے " ۔

یہ تحریر آپ کے لیے ہے، میرے جیسے
اُن تمام والدین کے لیے جو اپنی نیت تو صاف رکھتے ہیں مگر سمت کا شعور نہیں رکھتے۔ جو محبت میں گرفتار ہو کر دانائی کو بھلا بیٹھتے ہیں۔ یہ اُن ماں باپ کے لیے ہے جو اپنی اولاد سے معافی مانگنے کو اپنی ہار سمجھتے ہیں، حالانکہ یہی رویہ اصل فتح کی پہلی سیڑھی ہے۔

میں اُن چند غلطیوں کا تذکرہ کروں گا جو والدین نادانی میں کرتے ہیں، اور جو بچوں کی شخصیت کو اندر سے دیمک کی طرح کھا جاتی ہیں:

🌿 بچوں سے یہ کہنا کہ "تم کچھ نہیں کر سکتے"۔ یہ جملہ ان کے اندر بے یقینی اور احساسِ کمتری کے بیج بوتا ہے

🌿 بچوں کی بات نہ سننا، ہمیشہ اپنی بات کو حتمی سمجھنا۔ اس سے بچہ سیکھتا ہے کہ اسے سنا ہی نہیں جائے گا، تو وہ دل کی بات چھپانے لگتا ہے

🌿 ان کے خوابوں اور دلچسپیوں کو نظر انداز کرنا۔ مثلاً بچہ مصور بننا چاہتا ہے اور ہم ڈاکٹر بنانے پر مُصر ہیں

🌿 ہر وقت موازنہ کرنا۔ "دیکھو فلاں کا بچہ کیسا ہے!" یہ جملہ بچے کی خودی کو مسل دیتا ہے

🌿 طنز کرنا۔ "واہ واہ! کیا بات ہے، تم تو بہت ہی عقل مند ہو!" یہ بات کبھی ہنسی میں کہی جاتی ہے مگر بچے کے دل پر نشان چھوڑ جاتی ہے

🌿 بچوں کے رشتوں میں غیر ضروری مداخلت کرنا۔ ان کے فیصلوں، دوستوں، جیون ساتھیوں پر حد سے زیادہ کنٹرول کی خواہش اکثر بغاوت یا اندرونی ٹوٹ پھوٹ کی طرف لے جاتی ہے

🌿 زبردستی ان پر تعلیم، یا فرائض تھوپنا،
بغیر محبت یا فہم کے۔ بچے اچھے کاموں سے بھی بھاگ جاتے ہیں .

🌿 ہر وقت تنقید کرنا، اور کبھی تعریف نہ کرنا۔
بچہ کبھی اپنے اندر خوبی تلاش ہی نہیں کر پاتا

🌿 بچوں کے سامنے آپس میں جھگڑنا۔ ان کا ذہن غیر محفوظ ہو جاتا ہے، اور وہ یا تو شدید خاموشی کا شکار ہو جاتے ہیں یا جارح مزاج بن جاتے ہیں

🌿 ان کی عمر کے مطابق بات نہ کرنا،
انہیں ہمیشہ کم عقل سمجھنا.

🌿 بچوں سے جھوٹ بولنا،
اور پھر ان سے سچ کی توقع رکھنا.

🌿 انہیں ان کی کمزوریوں پر شرمندہ کرنا،
جیسے کہ "تمہیں تو بات ہی نہیں کرنی آتی"

🌿 ان کے جذبات کو کمتر سمجھنا۔
"یہ تو بچہ ہے، اسے کیا پتا"۔ یہ رویہ بچوں کے اندر بے حس بننے کی بنیاد بن سکتا ہے

🌿 بچوں پر وہ خواب تھوپ دینا
جو ہم نے خود پورے نہ کیے ہوں.

🌿 ان کی کامیابی کو صرف
نمبروں یا عہدوں سے جوڑنا

🌿 بچوں کو ان کی مرضی سے جینے کی
اجازت نہ دینا

🌿 انہیں صرف دنیا کے خوف، رسوائی،
یا "لوگ کیا کہیں گے" کی بنیاد پر ڈرانا.

🌿 بچوں کو جذباتی طور پر بلیک میل کرنا۔ جیسے "اگر تم نے ایسا کیا تو میری جان نکل جائے گی"

🌿 ان کی غلطیوں پر بددعا دینا۔ یہ الفاظ ان کے دل میں کانٹوں کی طرح چبھتے ہیں.

🌿 بچوں سے کبھی معافی نہ مانگنا، یہ سوچ کر کہ ہم بڑے ہیں۔ حالانکہ معافی مانگنے سے دل صاف ہوتے ہیں، رشتے بہتر ہوتے ہیں

والدین،
یہ سب کچھ ہم میں سے اکثر نے کبھی نہ کبھی
کیا ہوتا ہے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہم ان غلطیوں کا ادراک کریں، رک جائیں، رجوع کریں۔ اور ہاں، اپنے بچوں سے جا کر کہیں کہ:

"بیٹا، ہم نے اپنی نادانی میں تم سے کچھ سخت باتیں کہیں، کچھ غلط فیصلے کیے۔ ہو سکتا ہے وہ تمہیں اندر سے توڑ گئے ہوں۔ ہم معذرت خواہ ہیں۔ ہمیں معاف کر دو۔ آج سے ہم سیکھنا چاہتے ہیں، تمہارا ہمدرد بننا چاہتے ہیں، تمہیں سننا چاہتے ہیں"

یہ جملہ کمزوری نہیں، بلکہ اصل طاقت ہے۔
یہ قیمتی باتیں ہمیں قابلِ احترام اساتذہ کرام
سلمان آصف صدیقی ، پروفیسر جاوید اقبال صاحب بچوں کی تربیت کے لئے سکھا رہے ہیں . یہی وہ رویہ ہے جو نسلیں بدل سکتا ہے۔ ورنہ ہم صرف علم کے قافلے کے وہ مسافر بن جائیں گے جو منزل کے قریب آ کر بھی نادانی میں گم رہتے ہیں.

اللہ ، آپ کو آسانیاں عطا فرمائے
محبت میں دانائی دے، اور ہمارے بچوں کو
ہم سے سکون ملے، زخم نہیں۔ آمین

جاوید اختر ارائیں
1 جون 2025

01/06/2025

کنٹرول ٹاور میں چوہا آگیا ہے .!

سر کا درد دماغ میں نہیں ہوتا
ہاں ،دماغ کی وجہ سے ہو سکتا ہے .!
تصور کریں کہ آپ ایئرپورٹ پر بیٹھے ہیں۔
سامنے ایک بلند و بالا کنٹرول ٹاور کھڑا ہے، جہاں سے پورے ایئرپورٹ کا نظام چلتا ہے۔ ہر جہاز کا اُڑنا، اترنا، سب کچھ اسی ٹاور سے کنٹرول ہوتا ہے۔ اب ذرا سوچیے کہ اچانک اس کنٹرول ٹاور میں ایک چھوٹا سا چوہا گھس آئے....!

بس پھر کیا..!
پورے ٹاور میں ہنگامہ برپا ہو جائے گا۔
کوئی چیخے گا، کوئی کرسی پر چڑھ جائے گا، کوئی چوہے کے پیچھے بھاگے گا۔ اس افراتفری میں ٹاور کا سارا دھیان جہازوں سے ہٹ جائے گا۔ جو جہاز اترنے والا تھا، وہ آسمان میں چکر کاٹ رہا ہے۔ جو اڑنے والا تھا، وہ رن وے پر کھڑا انتظار کر رہا ہے۔ پائلٹ پریشان، مسافر بے چین۔ ایک چھوٹے سے چوہے نے پورا نظام تہس نہس کر دیا۔

ہمارا دماغ بھی اسی کنٹرول ٹاور کی طرح ہے۔
یہ ہمارے جسم کا ہر کام سنبھالتا ہے۔ کب سونا ہے، کب جاگنا ہے، کب کھانا ہضم کرنا ہے، سب کچھ وہی طے کرتا ہے۔ لیکن اگر اسے کوئی چھوٹی سی بات پریشان کر دے — جیسے نیند کی کمی، ذہنی دباؤ، بھوک ، پیٹ کی خرابی، قبض ، یا منفی خیالات — تو پورا نظام لڑکھڑا جاتا ہے۔

اب ایک بات سمجھ لیجیے۔
اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ سر کا درد دماغ کے اندر ہوتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دماغ کے اندر درد محسوس کرنے والے خلیے ہوتے ہی نہیں!

درد دراصل دماغ کے اردگرد ہوتا ہے — ماتھے پر، کنپٹیوں پر، گردن کے پچھلے حصے میں، یا کھوپڑی کے آس پاس جہاں پٹھے اور نسیں ہوتی ہیں۔ دماغ تو بس خاموشی سے اپنے سگنلز بھیجتا ہے، لیکن جب اس پر دباؤ پڑتا ہے، وہ اردگرد کے پٹھوں کو تنبیہ دیتا ہے کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ نتیجہ؟ سر کا درد۔

آئیے اسے مزید سادہ انداز میں سمجھیں ۔
ہماری روزمرہ کی عادات، جیسے کہ تلی ہوئی چیزیں کھانا، پیزا ،پراٹھا ، کولڈ ڈرنکس پینا، ضرورت سے زیادہ کاربوہائیڈریٹس سفید آٹے یا چینی والی چیزیں زیادہ کھانا، یہ سب ہمارے جسم میں سوزش پیدا کرتی ہیں۔ یہ سوزش خون کے ذریعے دماغ تک سگنل بھیجتی ہے۔ ہمارا دماغ، جو کہ کنٹرول ٹاور ہے، فوراً الارم بجاتا ہے۔ اور یہ الارم ہمیں سر کے درد کی شکل میں محسوس ہوتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟
حل اتنا سادہ ہے کہ آپ حیران رہ جائیں گے۔
دماغ کو وہی چیزیں چاہییں جو ایک کنٹرول ٹاور کو چاہییں: سکون، صاف ماحول، اور توازن۔

اگر آپ وقت پر سوئیں، خوب پانی پییں، سادہ اور تازہ کھانا کھائیں، اور پیٹ کو صاف رکھیں، تو وہ “چوہا” خود ہی بھاگ جائے گا۔ یعنی وہ تمام چیزیں جو دماغ کو پریشان کرتی ہیں، جب ختم ہوں گی، تو سر کا درد بھی غائب ہو جائے گا۔

قدرت نے ہمیں بہت سی چیزیں دی ہیں
جو دماغ کو سکون دیتی ہیں۔ دہی، کھیرا، دلیہ، ناریل پانی، ہلدی والا دودھ، سبز چائے، پودینہ، نیم گرم پانی سے نہانا، سر کا ہلکا مساج، یوگا، صبح کی تازہ ہوا میں سانس لینا، یا دس منٹ خاموشی میں بیٹھنا — یہ سب دماغ کے لیے دوائیں ہیں۔

بات بالکل صاف ہے۔ پیٹ صاف رکھیں، نیند پوری کریں، اور زندگی میں سکون لائیں۔ یہی وہ نسخہ ہے جو دماغ کو دوبارہ متوازن کرتا ہے۔ جب دماغ متوازن ہوگا، تو نہ وہ چیخے گا، نہ گھبراہٹ پھیلائے گا، اور نہ ہی سر کا درد پیدا کرے گا۔

اللہ ، آپ کو آسانیاں عطا فرمائے
یہ کہانی صرف سنانے کے لیے نہیں،
غور ،فکر ، تحقیق کرنے کے لیے ہے۔ سوچیے، دیکھیے، اور اپنی زندگی میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں لائیے۔ ہماری کوشش یہی ہے کہ آپ کی زندگی آسان اور صحت مند ہو۔

جاوید اختر آرائیں
۳۰ مئی ۲۰۲۵

01/06/2025

آپ کی صحت کی طرف پہلا قدم!
مزید معلومات کے لیے نیچے دٸیے گٸے نمبر پہ رابطہ کریں_ شکریہ
0301 7258578

28/05/2025

جوتا: زندگی کا
خاموش ہمسفر ہے .!

جوتا کوئی معمولی چیز نہیں۔
یہ آپ کے سفر کا ایسا ساتھی ہے جو ہر قدم پر
ساتھ نبھاتا ہے، خاموشی سے، وفاداری سے۔ اس لیے جوتے کا انتخاب ویسے ہی کریں جیسے ایک اچھے ہمسفر کا انتخاب کرتے ہیں۔

یہ صرف فیشن کی چیز نہیں، بلکہ ایک ضرورت ہے۔ صبح سے شام تک، ہر گلی، ہر موڑ، ہر سیڑھی پر یہ آپ کے پاؤں کی طاقت بنتا ہے۔ اگر تھوڑا سا بھی ڈھیلا یا تنگ ہو، تو سفر اذیت بن جاتا ہے۔

اگر صرف دکھاوے کا ہو، تو چمکے گا ضرور،
مگر چلنے میں پاؤں زخمی کرے گا۔

جوتا زمین سے آپ کا پہلا رابطہ ہے۔ اگر یہ آرام دہ اور مضبوط ہو تو زندگی کا سفر بھی آسان لگتا ہے۔ ورنہ تھوڑا سا فاصلہ بھی تھکا دیتا ہے۔

اس لیے جوتا خریدتے وقت کچھ باتوں کا خیال رکھیں۔ اپنے پاؤں کا اصل سائز جانیں، کیونکہ ہر برانڈ کا سائز تھوڑا مختلف ہوتا ہے۔ جوتا ہمیشہ شام کے وقت خریدیں، جب پاؤں دن بھر کی تھکن سے تھوڑے پھول جاتے ہیں، تاکہ اصل فٹنگ سامنے آئے۔

چمڑا یا کپڑے والا جوتا بہتر ہوتا ہے
کیونکہ یہ پاؤں کو سانس لینے دیتا ہے۔
تلا مضبوط ہو، مگر نرم بھی ہو، تاکہ ہر سطح پر آرام ملے۔ انگلیوں اور ایڑی کے درمیان تھوڑی جگہ ہونی چاہیے، تاکہ پاؤں دبتے نہ ہوں۔

اپنی ضرورت کے مطابق جوتا لیں
چاہے دفتری کام ہو، دوڑ لگانی ہو، یا پیدل سفر۔
پاؤں کو سہارا دینے والا آرچ سپورٹ بھی چیک کریں۔ جوتا پہن کر دکان میں تھوڑا چلیں، کیونکہ چلنے سے ہی اصل فٹنگ کا پتا چلتا ہے۔

جوتا موسم کے حساب سے بھی ہونا چاہیے۔
بارش یا سردی ہو تو واٹر پروف یا گرم جوتے ضروری ہوتے ہیں۔ اور سب سے اہم بات: برانڈ سے زیادہ پاؤں کے سکون کو ترجیح دیں۔

یاد رکھیں، زندگی کے بڑے فیصلے بھی
جوتے کے انتخاب جیسے ہوتے ہیں۔ جو روز ساتھ دے، ہر موسم میں ساتھ نبھائے، دل کو بھائے اور جسم کو آرام دے، وہی اصل ہمسفر ہوتا ہے.

اللہ ، آپ کو آسانیاں عطا فرمائے
آخری بات یہی کہ، جوتا ہو یا زندگی کا کوئی بڑا فیصلہ—چاہے پیشہ ہو یا نظریہ—اسے دل سے چنیں۔ کیونکہ جو چیز آپ کے سفر کو سہولت دے،
وہی سفر کو یادگار بناتی ہے۔

جاوید اختر آرائیں
27 مئی 2025

28/05/2025

یہ واقعہ مصر میں پیش آیا:
”ایک چھوٹی سی 6 سالہ معصوم بچی سڑکوں پر ٹشو پیپرز بیچ رہی تھی، چہرے پر مسکراہٹ لئے یہ اِدھر سے اُدھر پھدکتی پھر رہی ہے، گاہکوں کو آتے دیکھ کر اپنی چھوٹی سی ٹوکری ان کے سامنے کرتی ہوئی کہتی: آپ کو ٹشو پیپرز چاہئیں؟

وہ ایک خاتون کے سامنے سے گزرتی ہے تو دیکھتی ہے کہ وہ رو رہی ہے، معصوم بچی اس کے پاس رک جاتی ہے، خاتون نے بھی اشک بار آنکھوں سے اس پیاری سی بچی کو دیکھا جو چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ لیے اسے ٹشو پیپر کا پیکٹ پیش کر رہی تھی، اس نے انجانے میں ٹشو پیپر نکالا اور اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھنے لگی۔ اس نے اپنے پرس سے ٹشو پیپرز کی قیمت نکالی اور بچی کو دینے کے لیے دیکھا تو وہ جا چکی تھی۔ وہ چھوٹی سی مسکراتی ہوئی بچی اسے بہت اچھی لگی۔ تھوڑی دور ایک خالی بنچ پڑا تھا، وہ خاتون وہاں جا کر بیٹھ گئی، کچھ سوچا اور پھر اپنے موبائل سے اپنے خاوند کو میسیج کیا:
”میں اپنے کیے پر نادم ہوں، جو کچھ ہوا، مجھے اس پر افسوس ہے، آپ جانے دیں، آپ کا موٴقف درست ہے۔“

اس کا خاوند ایک ہوٹل میں پریشان حال بیٹھا تھا کہ اسے بیوی کا یہ خوشگوار پیغام ملا، اس کے چہرے پر پرسکون مسکراہٹ چھا گئی۔ ان میاں بیوی کے مابین کسی بات پر جھگڑا ہوگیا تھا۔ اس خوشی میں اس نے ویٹر کو بلوایا اور بڑی خوشی سے اسے پچاس مصری پونڈ پکڑا کر کہا کہ یہ تمہارے ہیں، ویٹر کو اعتبار نہ آیا اور کہنے لگا: چائے کی قیمت تو صرف 5 پونڈ تھی؟! باقی تمہاری ٹپ ہے، وہ گویا ہوا…

اب ویٹر کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، ویٹر کو اتنی بڑی رقم کا ملنا کوئی معمولی بات نہ تھی، اس نے ایک فیصلہ کیا اور اس بوڑھی فقیر عورت کے پاس جا پہنچا، جو فٹ پاتھ پر کپڑا بچھائے چاکلیٹ اور ٹافیاں بیچ رہی تھی، اس نے ایک پونڈ کی چاکلیٹ خریدی اور اسے مسکراتے ہوئے دس پونڈ پکڑا دےئے۔ باقی پونڈ تمہارے لیے، اس نے کہا اور اپنے کام پر واپس چل دیا۔

بوڑھی خاتون بار بار اس 10 پونڈ کے نوٹ کی طرف دیکھ رہی تھی، جو اسے بغیر کسی محنت اور صلے کے مل گئے تھے۔ اس کے چہرے پر بے حد مسکراہٹ تھی۔ اس کا دل مارے خوشی کے بلیوں اچھل رہا تھا، اس نے زمین پر بچھائے ہوئے اپنے سامان کو سمیٹا اور سیدھی قصاب کی دکان پر جا پہنچی، اسے اور اس کی پوتی کو گوشت کھائے کتنی مدت گزر چکی تھی۔ ان کا گوشت کھانے کو جی چاہتا تھا، مگر ان کے وسائل اجازت نہیں دیتے تھے، آج ان کی خواہش پوری ہو رہی تھی۔
اس نے مسکراتے ہوئے گوشت خریدا اور گھر چل دی۔ بوڑھی اماں نے بڑی محنت اور شوق سے گوشت پکایا اور ننھی سی پیاری سی پوتی کا انتظار کرنے لگی کہ وہی تو اس کی کل کائنات تھی، آج وہ گوشت کھا کر کتنی خوش ہوگی؟
وہ سوچوں میں گم تھی کہ ٹشو پیپرز بیچنے والی اس کی پوتی مسکراتی ہوئی گھر میں داخل ہوئی، آج اس کے چہرے پر عام دنوں سے زیادہ مسکراہٹ تھی۔

قارئین کرام! کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم بھی اس ٹشو پیپر بیچنے والی بچی کی طرح مسکراہٹیں تقسیم کریں، لوگوں میں خوشیاں بانٹیں، رسول کریم کی حدیث پر غور کریں۔ رسول کریم نے ایک حدیث میں اپنی امت کی رہنمائی فرمائی اور چہرے کی مسکراہٹ کی جانب توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ تمہارا اپنے بھائی کے ساتھ مسکراتے ہوئے چہرے سے پیش آنا بھی صدقہ ہے۔“
تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3085) (وانظر: مسند احمد (3/344، 360) (صحیح)»

🌿 درد سے دوستی نہیں، اس سے نجات ضروری ہے!دواؤں کے بغیر، جدید فزیوتھراپی سے علاج کریں – محفوظ، مؤثر اور جلد آرام!ڈاکٹر رو...
22/05/2025

🌿 درد سے دوستی نہیں، اس سے نجات ضروری ہے!
دواؤں کے بغیر، جدید فزیوتھراپی سے علاج کریں – محفوظ، مؤثر اور جلد آرام!
ڈاکٹر روبینہ ارشاد (DPT)
🎓 گلاب دیوی چیسٹ ہسپتال، لاہور سے تعلیم یافتہماہرامراضِ جسمانی بحالی و فزیوتھراپی
📌 علاج کی سہولیات:
✅ لقوہ، فالج
✅ بچوں میں کمزوری
✅ گردن، کمر، کندھوں، جوڑوں، بازو، ٹانگوں اور گھٹنوں کے درد
✅ پولیو، پیدائشی معذوری، اپریل کارڈور، آرتھن پولیو
📍 Location: Iftikhar Clinic, Near Church, Kachehri Road, Pakpattan
📞 Contact: 0301-7258578

Address

Ch.surfraz Ahmad Hosptal DHQ Road Pakpattan
Pakpattan

Opening Hours

Monday 16:00 - 19:00
Tuesday 16:00 - 19:00
Wednesday 16:00 - 19:00
Thursday 16:00 - 19:00
Friday 16:00 - 19:00
Saturday 16:00 - 19:00

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Healing hands Physicaltherapy Clinic posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram