03/08/2025
چاول کے استعمال کے بارے میں غلط فہمیاں:
اس آرٹیکل کے آغاز ہی میں میں یہ واضح اعلان کرنا چاہون گا کہ: ‘‘دنیا میں کوئی ایسی بیماری نہیں ہے جس میں چاول کھانے کی ممانعت ہو’’۔
تاہم ،یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ عوام الناس سے لے کر ماہر ڈاکٹروں تک، تقریباً ہر کوئی ہر بیماری میں چاول کھانے پر پابندی لگا دیتا ہے۔ یہ عمل اس قدر عام ہو چکا ہے کہ دیگر غیر ضروری غذائی پابندیوں(مثلاً مرچ، مصالحہ، نمک، گوشت، انڈا اور دودھ کی ملائی وغیرہ ) کے ساتھ ساتھ “چاول بند کرنا” گویا ڈاکٹروں کا ایک لازمی فریضہ بن گیا ہے۔
جیسا کہ اوپر وضاحت سے بیان کر دیا گیا ہے کہ، ایسی کوئی بیماری نہیں — بشمول ذیابطیس، ہائی بلڈ پریشر، گردوں کی بیماری، سینے یا جوڑوں کی بیماریوں کے — کہ جس میں چاول کھانا منع ہو۔
اگرچہ مختلف اناج اپنی شکل، ذائقے اور پروٹین کے مواد میں فرق رکھتے ہیں، لیکن ان میں موجود کاربوہائیڈریٹس اور فی گرام کیلوریز تقریباً یکساں ہوتی ہیں۔ ایک عام غلط فہمی، خصوصاً خواتین میں، یہ پائی جاتی ہے کہ مکئی موٹاپا نہیں بڑھاتی، اس لیے وزن کم کرنے کے لیے وہ گندم اور چاول چھوڑ کر مکئی کھانا شروع کر دیتی ہیں۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ تمام اناج برابر طور پر حرارے (کیلوریز) فراہم کرتے ہیں اور موٹاپے کا باعث بن سکتے ہیں۔ وزن کم کرنے کے لیے میٹھے، سافٹ ڈرنکس، فاسٹ فوڈ اور تمام اناج کی مقدار کم کرنا ضروری ہے — صرف چاول یا گندم چھوڑنا کافی نہیں۔
اس کے برعکس، ایک بیماری — سیلیک بیماری (Celiac Disease) — ضرور ہے جس میں زندگی بھر گندم، جو، رائی اور ان کی مصنوعات (جو گلوٹن پر مشتمل ہوں) سے پرہیز کرنا پڑتا ہے۔ ایسے مریضوں کے لیے چاول ایک اہم اور بنیادی غذا بن جاتا ہے۔
تو پھر لوگ چاول کھا کر تکلیف کیوں محسوس کرتے ہیں؟ اس کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ کھانے کے بارے میں مریض کا ذہنی رویہ اس کے ردِعمل پر گہرا اثر ڈال سکتا ہے۔یاد رکھئے کہ ‘‘کوئی بھی دوا اور غذا کے بارے میں جیسی سوچ رکھے گا، اسکے جسم پر ویسا ہی اثر ہو گا’’۔ جب ڈاکٹروں کی طرف سے چاول، گوشت، انڈے یا کسی اور چیز کے کھناے پر پابندی لگا دی جاتی ہے تو مریض ان چیزوں کو ذہن میں نقصان دہ اور خطرناک سمجھنے لگتا ہے — یہاں تک کہ وہ انہیں دل کے دورے یا فالج سے جوڑ دیتا ہے۔ اسلئے جب کبھی(مثلاً شادی یا کسی دعوت میں) ان چیزوں کو، میزبان کے اسرار پر، زبردستی کھا لیتا ہے، تو خوف اور اضطراب کی وجہ سے اسے بد ہضمی ہو جاتی ہے،اسے ڈکاریں آنے لگتی ہیں اور اسکا پیٹ خوف کے مارے پھول بھی جاتا ہے اور بعض مریض تو اتنا ڈر جاتے ہیں کہ خوف کے مارے کھائے ہوئے چاول اور گوشت کو الٹی کر کے باہر نکال دیتے ہیں۔
چاول کھانے کے بعد تکلیف کی ایک عام وجہ زیادہ کھانا بھی ہوتی ہے، نہ کہ چاول خود۔کھانا اگر مزیدار ہو اور کم مقدار میں کھایا جائے تو کبھی بھی بدہضمی کا باعث نہیں بنتا، چاہے وہ کچھ بھی ہو۔اور یہ بات بھی ذہن میں بٹھا لیجئے کہ جتنا مرچ مصالحہ اور روغن ہم ترکاری یا چاولوں(مثلاً گوشت کے پلاؤ، کابلی پلاؤ یا بریانی وغیرہ) میں استعمال کرتے ہیں اسکا مقصد خوراک کو مزیدار بنانا اور اس میں ایک اشتہا آمیز خوشبو پیدا کرنا ہوتا ہے، جو کھانے کو ذود ہضم بنا دیتا ہیں۔مرچ مصالحوں کی اتنی مقدار جو منہ نہ جلائے اتنی مقدار معدے کو بھی کچھ نہیں کہتی۔
آخر میں، ایک بات پر غور کیجیے: اگر واقعی چاول اتنا نقصان دہ ہوتا جتنا کہ عوام (اور کچھ لاعلم ڈاکٹر) سمجھتے ہیں، تو چین، جاپان، انڈونیشیا اور دیگر مشرقِ بعید کے وہ لوگ، جہاں چاول بنیادی غذا ہے، ہمیشہ بیمار رہتے اور جوانی میں مر جاتے۔ لیکن حقیقت اس خیال کے بالکل برعکس ہے۔ اسی طرح، اگر چاول واقعی ذیابطیس، ہائی بلڈ پریشر، گردوں یا سانس کی بیماریوں کو بڑھاتا تو ان علاقوں کے لوگ ان بیماریوں میں مبتلا ہو کر آخر کیا کھاتے؟ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے بیشتر حصوں میں چاول صحت اور بیماری دونوں حالتوں میں ایک غذائیت بخش، مقبول اور اچھی طرح برداشت کی جانے والی غذا ہے۔ شکریہ
پروفیسر ڈاکٹر انتخاب عالم