25/07/2025
تاریخ کے کئی صفحات پر عورتوں کا ذکر یا تو موجود ہی نہیں ہوتا، یا پھر یوں لگتا ہے جیسے ان کی شمولیت جان بوجھ کر نظر انداز کر دی گئی ہے۔ مگر کچھ لمحے ایسے بھی آتے ہیں جہاں عورتیں نہ صرف صف اول میں نظر آتی ہیں، بلکہ ایک واضح، باوقار اور بااثر کردار کے ساتھ سامنے آتی ہیں۔ فزیکل تھیراپی کی تاریخ بھی ایک ایسا ہی باب رکھتی ہے کہ جب خواتین نے اُس خلا کو پُر کیا بلکہ اس پیشے کی بنیاد، تشخص اور ترقی کا مرکزی کردار بنیں جسے مرد معالجین نے چھوڑ دیا تھا۔
میڈیکل سائنس کی تاریخ اکثر سرجن، سائنس دان اور موجد کے طور پر مردوں کے کارناموں سے بھری ملتی ہے۔ مگر فزیوتھیراپی اس امر میں طب کے دیگر شعبوں سے مختلف ہے کیوں کہ یہ پیشہ خواتین نے قائم کیا اور اس کی بنیاد سے لے کر ترقی تک، یہ عورتوں کے زیرِ قیادت رہا۔ صنفی کردار کی یہ رسمی تبدیلی ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ ایسے ماحول میں، جہاں عورتوں کو یا تو مریضہ یا محض مرد معالج کی مددگار کے طور پر دیکھا جاتا تھا، خواتین نے کیسے اس شعبے کو ایک باقاعدہ، سائنسی، اور باوقار پیشے کے طور پر منوایا؟
یہ سب کچھ ایسے دور میں ہوا جب طب کا رجحان جراحی، جرثومی نظریات، اور خردبینی اجسام کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس دوران مساج، برقی علاج، اور جسمانی حرکات پر مبنی علاج جیسے طریقے مرکزی طب سے کٹ چکے تھے۔ یہی وہ میدان تھا جو خواتین کے لیے کھلا رہ گیا تھا۔ لیکن یہاں قدم جمانا آسان نہ تھا۔ ایک طرف انہیں ریاستی سطح پر تسلیم کیے جانے کی جدوجہد کرنی تھی، اور دوسری جانب سماجی نظریات کا سامنا تھا جو عورت کو یا تو گھر کی چار دیواری تک محدود رکھتے تھے یا دایہ اور معلمہ جیسے کم مرتبہ شعبوں میں دھکیلتے تھے۔
اسی پس منظر میں ایک بیماری کا ابھار ہوا، جس نے عورتوں، طب، اور معاشرتی خیالات؛ تینوں کے بیچ تعلق کو نیا رخ دیا: نیوراستھینیا (Neurasthenia)۔
یہ اصطلاح 1869 میں امریکی معالج ڈاکٹر جارج بیئرڈ (George Beard: 1839-1883) نے وضع کی، اور انیسویں صدی کے آخر میں یہ دنیا کے ترقی یافتہ معاشروں میں سب سے زیادہ تشخیص کیے جانے والے امراض میں سے ایک بن گئی۔ عام طور پر اس مرض کا شکار وہ خواتین بنتیں جو تعلیم یافتہ، خوشحال، اور تولیدی عمر میں ہوتیں۔ علامات غیر واضح مگر تکلیف دہ تھیں: تھکن، بے خوابی، اضطراب، سر درد، بھوک میں خرابی، سر چکرانا، اور بے زاری۔ یہ تمام علامات آج کے کچھ نفسیاتی و جسمانی امراض فائبرو مائی الجیا (fibromyalgia)، دائمی تھکاوٹ کا سنڈروم (chronic fatigue syndrome)، یا بےچینی سے ہونے والی خودکار اعصابی شکایات (anxiety-related dysautonomia) سے مشابہت رکھتی ہیں۔
نیوراستھینیا صرف بیماری نہیں تھی، یہ ایک ثقافتی تصور بھی تھا، جو جنس، طبقے، اور نسل سے گہرا جڑا ہوا تھا۔
ہسٹیریا (hysteria) – جوعام طور پر جذباتی اور توجہ طلب خواتین سے جوڑا جاتا تھا - کے برعکس، نیوراستھینیا کو "اشرافیہ کی بیماری" سمجھا جاتا تھا۔ ٹام لُٹس (Tom Lutz: 1953)، American Nervousness, 1903 (1991) میں لکھتے ہیں کہ یہ بیماری اُن افراد کو لاحق ہوتی تھی جو تعلیم اور تہذیب کے بوجھ تلے دبے ’دماغی مزدور‘ کہلاتے تھے۔ ولیم مارس (William Mars: 1765-1836) نے اپنی کتاب (1908) Confessions of a Neurasthenic میں یہاں تک لکھا کہ نیوراستھینیا کا سب سے اچھا پہلو "نیوراستھینک حلقوں میں اٹھنا بیٹھنا" تھا، جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ یہ بیماری کس طرح سماجی امتیاز کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ تاہم مرد معالجین اس بیماری کو عموماً خواتین کے تولیدی نظام سے جوڑتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر عورت توانائی کا ایک محدود ذخیرہ رکھتی ہے، جو حیض، زچگی، اور بچوں کی پرورش میں صَرف ہو جاتا ہے اور اگر عورت اس کے علاوہ ذہنی یا جنسی سرگرمیوں میں مشغول ہو جائے، تو وہ اس کی صحت کے لیے مضر ہوتی ہے۔ آرام، زیادہ خوراک اور ذہنی سکون ہی صحت یابی کے واحد قابل عمل راستے بتائے جاتے تھے۔
ان غیرسائنسی تصورات کو اٹھارویں اور انیسویں صدی کے برقیات (electricity) اور حیوانی قوت (vitalism) کے نظریات سے اور بھی تقویت ملی، جو یہ دعویٰ کرتے تھے کہ تھکے ہوئے اعصاب کو برقی علاج (electrotherapy) کے ذریعے دوبارہ "چارج" کیا جا سکتا ہے۔ وکٹورین دور (1837-1901) میں برقی طبی آلات کی مقبولیت نے اس علاج کو مزید قانونی حیثیت دے دی جو غیر فعال، مشینی اور تربیت یافتہ غیر پیشہ ور خواتین کے ذریعے آسانی سے انجام دیے جا سکتے تھے۔
اسی نظریے کو لڑکیوں کی تعلیم کو محدود کرنے کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔ یہ دعویٰ کیا گیا کہ زیادہ تعلیم لڑکی کے نازک اعصابی نظام کو تھکا دے گی، جس سے بانجھ پن یا پاگل پن پیدا ہو سکتا ہے۔ آج کے معیارات کے لحاظ سے یہ گہرے جنسی تعصب پر مبنی خیالات، فزیکل تھیراپی کو طب کے اندر ایک خواتین کے لیے مخصوص شعبے کے طور پر ابھرنے کی بنیادی وجہ بنے۔
اسی طرح نیوراستھینیا سے وابستہ طبقاتی اور نسلی مفروضے بھی نظرانداز نہیں کیے جا سکتے۔ بیئرڈ نے زور دے کر کہا تھا کہ یہ بیماری صرف "زیادہ ترقی یافتہ" نسلوں کو متاثر کرتی ہے، خاص طور پر اینگلو سیکسن (Anglo-Saxons) قوم کو۔ کیتھولک اور غیر مغربی معاشروں کو اس قسم کے "مہذب" اعصابی عارضوں کا تجربہ کرنے سے قاصر سمجھا جاتا تھا۔ اس نظریے کے مطابق، نیوراستھینیا، نہ صرف جنسی بنیادوں پرمبنی ایک بیماری تھی بلکہ یہ نسلی اور تہذیبی برتری کا نشان بھی تھی۔۔۔ ایک ایسا عارضہ جو جدید زندگی کے لیے 'بہت زیادہ ترقی یافتہ' ہونے کی وجہ سے لاحق ہوتا تھا۔
یہ تعصبات یہیں ختم نہیں ہوتے بلکہ اس میں مریضہ کے مخصوص سماجی اور جسمانی شناخت کے تصورات بھی شامل ہوئے۔ زرد رنگت، نازک مزاج اور مردانہ سرپرستی پر انحصار کرنے والی یہ عورت انیسویں صدی کے آخر کے نسوانی مثالیات کی مظہر تھی۔ اس دور کی مصوری اور ادب میں ایسی خواتین کو افسردہ حالت میں، سماجی رسومات اور کورسٹ (corsets) میں جکڑا ہوا دکھایا گیا۔ کورسٹس، جو لڑکیاں پانچ سال کی عمر سے ہی پہننا شروع کر دیتی تھیں، ان کے جسم اور انداز کو خوبصورتی کے ایک غیر فطری معیار پر ڈھالتے تھے لیکن ان کے سنگین جسمانی اثرات تھے۔ اس سے پیٹ پر پریشر پڑتا، جگر اور تلی کے افعال متاثر ہوتے، خون کی واپسی کم ہوتی، پھیپھڑوں کی گنجائش محدود رہ جاتی اور اکثر بچہ دانی بھی متاثر ہوتی۔ بے مقصد سماجی رسومات (ناشتے کے لیے تیاری، پارک کی سیر، نمائشی خیرات، اور لاتعداد بار لباس بدلنے جیسی مصروفیات) سے بھری ہوئی یہ محدود زندگیاں ہی درحقیقت بہت سی خواتین میں نیوراستھینیا کی علامات کی اصل وجہ تھیں۔
اسی تناظر میں "ریسٹ کیور" (آرام کا علاج) نیوراستھینیا کے لیے سب سے مقبول علاج کے طور پر سامنے آیا۔ امریکی ماہر اعصابیات سائلس ویر مچل (Silas Weir Mitchel: 1829-1914)، جو کہ امیریکن سول وار کے دوران اعصابی چوٹوں پر اپنے کام کی وجہ سے مشہور تھے، نے اس علاج کو وضع کیا تھا۔ یہ علاج پدر شاہانہ طبی ماڈل کی کامل عکاسی کرتا تھا۔ خواتین کو ان کے گھروں سے نکال کر چھ سے آٹھ ہفتوں کے لیے خصوصی طبی مراکز میں تنہائی میں رکھا جاتا تھا۔ اس دوران انھیں پڑھنے، لکھنے یا کسی بھی ذہنی گفتگو میں حصہ لینے سے منع کیا جاتا تھا۔ بستر تک محدود ان خواتین کو چمچ سے بھاری بھرکم کھانا کھلایا جاتا اور ان کی خود مختاری سَلب کر لی جاتی تھی۔ یہ تمام اقدامات ان کی "اعصابی توانائی" کی بحالی کے لیے تجویز کیے جاتے تھے، اگرچہ ان پر بعد میں شدید تنقید کی گئی۔
یہ مکمل نظام بچوں جیسا سلوک کرنے اور آمرانہ طرز عمل پر مبنی تھا۔ ویر مچل نے مشہور طور پر کہا تھا کہ خواتین کو صحت یاب کرنے کے لیے ان کے ساتھ بچوں جیسا سلوک کرنا چاہیے۔ یہ ایک ایسا خیال تھا جو بعد میں فیمنسٹوں اور مریض مصنفین، دونوں کی شدید تنقید کا نشانہ بنا۔
"ریسٹ کیور" طب میں مردانہ اختیار پر ایک شدید تنقید بھی بن کر ابھرا۔ شارلٹ پرکنز گل مین (Charlotte Perkins Gilman: 1860-1935) کی نیم خود نوشت مختصر کہانی The Yellow Wallpaper (1892) اس علاج کے دوران ایک عورت کے پاگل ہونے کی ایک دل دہلا دینے والی داستان پیش کرتی ہے۔ دیگر قابل ذکر نیوراستھینک خواتین میں فلورنس نائٹنگیل (Florence Nightingale: 1820-1910)، ورجینیا وولف (Virginia Woolf: 1882-1941) اور جین ایڈمز (Jane Addams: 1860-1935)شامل تھیں، جن میں سے ہر ایک نے معاشرے اور طب دونوں کی طرف سے مسلط کی گئی پابندیوں کے خلاف مزاحمت کی۔
اگرچہ "ریسٹ کیور" کا بنیادی مقصد مریضوں کو تنہائی اور آرام فراہم کرنا تھا، لیکن اس میں طاقت بحال کرنے کے لیے کئی فزیکل تھیراپیز بھی شامل کی گئیں۔ ان میں مساج، برقی علاج اور جسم کی غیر ارادی حرکات (passive movements) خصوصاً اہم تھے۔ دلچسپ بات یہ کہ یہ کام ڈاکٹروں کے بجائے تربیت یافتہ مساج کرنے والی خواتین یا نرسوں کے ذمے تھا۔یہ خواتین اکثر اپنے مریضوں ہی کی طرح تعلیم یافتہ اور اونچے طبقے سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کا کردار ڈاکٹروں کے احکامات کو عملی جامہ پہنانے تک محدود نہیں تھا، بلکہ انہیں کئی پیچیدہ ذمہ داریاں نبھانی پڑتی تھیں۔ انہیں ایک ہی وقت میں مضبوط بھی ہونا پڑتا تھا اور نرمی سے کام لینا بھی، پیشہ ورانہ رویہ بھی رکھنا پڑتا تھا اور سماجی طور پر خوش اخلاق بھی بننا پڑتا تھا۔ وہ ڈاکٹروں کی ہدایات پر عمل تو کرتی تھیں، لیکن ساتھ ہی انھیں مریضوں کے نفسیاتی مسائل کو سمجھنے کی بھی صلاحیت درکار ہوتی تھی جیسا کہ معروف فرانسیسی ڈاکٹر گلبرٹ بیلے (Gilbert Ballet: 1853-1916) نے 1908 میں اپنی تحقیق میں نشاندہی کی تھی کہ اس علاج کی کامیابی کا انحصار بڑی حد تک نرس یا مساج کرنے والی خاتون کی صلاحیتوں پر تھا کہ وہ نہ صرف ڈاکٹروں کی ہدایات پر عمل کرے، بلکہ تنہائی کے شکار مریض کے ساتھ ایک بہتر تعلق بھی قائم رکھ سکے۔
اگرچہ ان خواتین تھراپسٹس کا کردار انتہائی اہم تھا، مگر تاریخ کے صفحات میں ان کی آوازیں گم ہو چکی ہیں۔ ڈاکٹروں اور مریضوں کے بیانات تو تفصیل سے محفوظ ہیں، لیکن مساج کرنے والی ان خواتین کے اپنے خیالات اور تجربات کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ حالانکہ یہ خواتین الیکٹروتھیراپی اور سویڈش تھیراپیز میں ماہر ہوتی تھیں، اور لِنگ (Per Henrik Ling: 1776-1839) کی طبی جمنا سٹکس جیسی تربیتی نظاموں سے گزری ہوتی تھیں۔ ان خواتین کا کام نیم خود مختار نوعیت کا ہوتا تھا۔ ڈاکٹر انہیں صرف اس علاج کے لیے ملازم رکھتے تھے جو یا تو بار بار دہرانے والے ہوتے تھے، یا جو ڈاکٹروں کے لیے "غیر اہم" سمجھے جاتے تھے۔ انیسویں صدی کے اس دور میں جب خواتین کے پاس پیشہ ورانہ مواقع نہ ہونے کے برابر تھے، خاص طور پر متوسط اور اعلیٰ طبقوں میں، مساج کی تربیت حاصل کرنا نہ صرف روزگار کا ذریعہ تھا بلکہ ایک مقصد کا احساس بھی دیتا تھا۔
مگر یہ کردار ایک پیچیدہ دوہرا معیار رکھتا تھا۔ ایک طرف تو ان خواتین کو ڈاکٹروں کے طبی احکامات پر عمل درآمد کروانا پڑتا تھا (جو کبھی کبھار انہی جیسی دیگر خواتین پر لاگو ہوتے)، اور دوسری طرف انہیں بڑھتی ہوئی نسوانی حقوق کی تحریک کے نئے شعور کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہونا پڑتا تھا۔ نرسنگ کے برعکس ، جو ایک "پارسا اور قربانی دینے والی عورت" کے روایتی تصور پر زور دیتی تھی اور خواتین کے حق رائے دہی کی تحریک کا حصہ بن چکی تھی، فزیکل تھیراپی کے شعبے کو سائنس اور طب کے میدان میں مردوں کی اجارہ داری والے تصورات کو اپنانا پڑتا تھا۔ ایک مساج تھیراپسٹ کو صرف ایک ہمدرد نگہداشت کارہ بن کر نہیں رہنا تھا، بلکہ اسے اس علاج کے جدید طبی آلات اور طریقوں میں بھی کامل مہارت حاصل کرنی پڑتی تھی۔
ان تمام خواتین نے ایک غیر معمولی کام سرانجام دیا۔ انہوں نے طب کے وسیع میدان میں ایک پسے ہوئے،شعبے کو اپنایا اور آہستہ آہستہ اسے ایک باقاعدہ پیشہ بنایا، جسمانی علاج کو ایک معتبر اور قابل احترام شعبۂ طب میں تبدیل کر دیا۔ نیوراستھینیا کے مریضوں کے ساتھ ان کا کام، اگرچہ زیادہ تر تسلیم نہیں کیا گیا مگر یہ وہ سماجی و طبی ڈھانچہ فراہم کرتا ہے جس پر بعد میں جدید فزیکل تھیراپی تعمیر ہوئی۔ یہ کہ انھوں نے یہ کامیابی کیسے حاصل کی، ایک ایسے معاشرے میں جہاں انہیں بولنے کا حق، خودمختاری اور عزت تک نہیں دی جاتی تھی، طب کی تاریخ کی سب سے قابل ذکر مگر نظر انداز کی گئی کہانیوں میں سے ایک ہے۔
آنے والی قسط میں ہم دیکھیں گے کہ کیسے 1894 میں ان خواتین نے "Society of Trained Masseuses" کی بنیاد رکھی، جو نہ صرف بدنامی سے بچاؤ کے لیے تھی، بلکہ فزیوتھیراپی کو ایک باقاعدہ پیشہ بنانے کی پہلی اینٹ بھی تھی۔
حوالہ جات:
Lutz, T. (1991). American nervousness, 1903: An anecdotal history. Cornell University Press.
Beard, G. (1869). Neurasthenia, or nervous exhaustion. The Boston Medical and Surgical Journal, 80(13), 217-221.
Williams, K. E. (2004). Women on the verge: The culture of neurasthenia in nineteenth-century America. Iris & B. Gerald Cantor Center for Visual Arts at Stanford University.
Mitchell, S. W. (1900). Fat and blood: an essay on the treatment of certain forms of neurasthenia and hysteria. JB Lippincott.
Gilman, C. P. (1899). The Yellow Wallpaper. Small & Maynard.
Ballet, G. (1908). Neurasthenia. Henry Kimpton.