صبح
ایک گلاس نیم گرم پانی میں 2 کھانے کے چمچ سیب کا سرکہ اور آدھی چمچ شہدہفتہ میں 3 یا 4 بار ہر روز نہیں
اور باقی دنوں میں صرف نیم گرم پانی
اس کے 2 گھنٹے بعد دو انڈوں کی سفیدی- (انڈے کی زردی کے اندر 365 کیلوریز ہوتی ہیں جبکہ سفیدی میں صرف 15 کیلوریز ہوتی ہیں)
دوپہر
چھوٹے سائز کی چپاتی دہی اور سبزی کے سالن کیساتھ اور
ایک گھنٹے بعد ایک کپ گرین ٹی شوگر کے بغیر
شام کو آم اور کیلا چھوڑ کر کوئی بھی فروٹ
یا 10 یا 15 بادام
یا ایک Bowl سلاد
رات
رات کو کچھ بھی نہیں کھانا
لیکن کچی سبزی ، سلاد یا بادام کھاسکتے ہیں لیکن شام 6 بچے تک کھا لیں ۔ سوتے وقت کچھ مت کھائیں۔
جو چیزی زیادہ کھانی ہیں
کھیرے ۔ بندگوبھی ، سلاد
مرغی کا سینے کا پیس( یہ زیادہ یعنی ہر دوسرے دن سٹیم روسٹ کر کے کھانا ہے کیونکہ اس کے اندر 167 کیلوریز ہوتی ہیں اور پروٹین وافر مقدار میں ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ جسم کو پروٹین ہضم کرنےکیلئے وافر مقدار میں انرجی لگانی پڑتی ہے ۔ مثلا آدھا چیشٹ پیس کھانے میں 100 کیلوریز لگانی پڑتی ہے )
دن میں کسی بھی وقت ورزش لازمی کریں ۔
جو چیزیں نہیں کھانی
کاربوہائیڈریٹ (بیکری )اور فیٹ(چکنائیاں) ہائی کیلوریز میں آتی یہ بند کرنی پڑتی ہیں تب ہی آپ کا وزن کم ہوگا ۔
(بند گوبھی ، کھیرا، انڈے کی سفیدی، کچی سبزیاں سوائے جو زمین کے اندر اگتی ہیں چونکہ ان کے اندر شوگر زیادہ ہوتی ہے لہذا موٹاپا کم نہیں کرتیں لیکن جو زمین کے اوپر اگتی ہیں وہ کھا سکتے ہیں )
فائبر ( بیج یا دالیں یا بادام ، لیکن کچھ دالیں نہیں کھا سکتے مثلا ۔ دال چنا اور دال ماش، چنے ابال کے کھا سکتے ہیں)
تین سفید چیزیں چھوڑ دیں ۔ چاول ، چینی اور نمک
اگر آپ کا دل گوشت کھانے کا کررہا ہے تو مرغی کا آدھا چیشٹ پیس لیموں نمک کالی مرچ اور سپائیسی کھانے کا دل کر رہا ہے تو تکہ مصالحہ ڈال کر 15 منٹ کیلئے رکھ دیں اور پانی ڈالے بغیر کوکر میں 5 منٹ دم دیں ۔ یہ آپ کا گوشت بغیر گھی کے تیار ہے۔ ہلکا شوربہ بھی ہوگا اور وہ آپ گھر کے آٹے کی درمیانی روٹی کیساتھ کھا سکتے ہیں ۔ یہ آپ ہفتہ میں دو دفعہ کھا سکتے ہیں ۔
سافٹ ڈرنک اور بیکری آئٹم میں ہائی کیلوریز ہوتی ہیں لہذا مت استعمال کریں۔
09/06/2024
توجہ سےمریض کی تکلیف کو سننا-(To Listen)
let the patient talk
سننا بھی ایک فن ہے اس فن سے فائدہ اٹھائیں-
مریض کو بولنے دیں اپنی تکالیف بیان کرنے دیں اور درمیان میں مت ٹوکیں اور خاموش رہیں ہوسکتا ہے وہ آپ کے بولنے پر بہت کچھ بھول جائے اس دوران بات سنتے بھی جائیں اور مختصر الفاظ میں علامات قلمبندبھی کرتے جائیں۔
بعض اوقات صرف سننے سے ہی آپ مطلوبہ دوا تک پہنچ سکتے ہیں کبھی یہ طویل اور کبھی مختصر لمحات پر بھی منتج ہوسکتا ہے ۔
جیسے ایک مریضہ کلینک میں داخل ہوتی ہے کھڑے کھڑے آپ سے مخاطب ہوتی ہے
ڈاکٹر صاحب :-
مجھے موٹاپا ہورہا ہے میرا پیٹ اور کولہے بھاری ہورہے ہیں لگتا ہے کولہوں پر چربی چڑھ رہی ہے ان کو کم کرنے کی دوا ہے آپ کے پاس ؟
لیکن ایک بات کا خیال رکھئے گا میری چھاتی کم نہ ہوں ایسی دوا دیں جس سے صرف پیٹ اور کولہے ہی کم ہوں ۔
لیک کین کی چھاتیاں سڈول اور پرکشش ہوتی ہیں مریضہ انہیں کسی صورت کم نہیں کرنا چاہتی اگر آپ نے ذرا سی بھی غلطی کردی تو خیر نہیں۔
آپ نے سوشل میڈیا پر دیکھا ہوگا فلاں عورت نے 4 یا اس سے زیادہ بچوں کو جنم دیا یہ لیک کین ہوتی ہیں کیونکہ ان بچوں کا دودھ صرف لیک کین ہی پورا کرسکتی ہے دودھ اتنا وافر ہوتا ہے ایسے ہی بہتا رہتا ہے ۔
ڈاکٹر گلزار احمد مرحوم نے کسی کتاب میں ذکر کیا تھا کہ لیک کین کے سب سے نزدیک جو دوا پڑتی ہے وہ کالی بائیکروم ہے اب ان دونوں دواؤں کا آپس میں کیا تعلق ہے ؟
کسی کے علم میں ہو تو کامنٹ میں ضرور بتائیں۔
بہت شکریہ
08/06/2024
ہڈی ٹوٹ جائے تو کیا کریں؟
انسانی جسم کا ستون ہڈی کے بھروسے کھڑا ہے اگر ہڈی ٹوٹ جائے تو بات معذوری اور محتاجی تک چلی جاتی ہے پاک پروردگار ہمیشہ اپنا محتاج رکھے ۔
چار سال قبل ایک روڈ ایکسیڈنٹ کے دوران میرے بیٹے کی ٹانگ دو جگہ سے ٹوٹی تو حسب روایت ہسپتال کا رخ کیا گیا آپریشن اور دو ہفتوں کے مروجہ طریقہ علاج سے فراغت پانے کے بعد بچے کو گھر لایا گیا تو موجودہ بیماری کیساتھ چند مزید اضافی تکالیف میں مبتلا تھا خوراک پر توجہ دی گئی اور چند دواؤں کے استعمال کے بعد موڈ مزاج میں تبدیلی واقع ہوئی اور بہتری کے اثرات نظر آئے ۔ ایلو پیتھک ادویات بند کردی گئیں کیونکہ ان کے استعمال سے اے ایل ٹی بڑھ رہا تھا چونکہ ہاسپٹل میں کسی دوا سے ہاتھ روکنے پر قادر نہیں تھا اسلئے خاموشی سے جو دوا انہوں نے منگوائی لا کر دے دی بس اسی انتظار میں تھا کہ جلد سے جلد گھر پہنچیں اور اس مسئلے کو اپنے طریقے سے ہینڈل کیا جائے۔
ہڈی بعد میں ٹوٹتی ہے پہلے چوٹ مسلز اور نروز کو متاثر کرتی ہے جن کی مرمت کئے بغیر علاج مکمل نہیں ہوتا ۔ جب بات اپنی فیملی کی ہو تو آپ اپنے تجربات میں مکمل آزاد ہوتے ہیں جذبات رونا دھونا آڑے آتا ہے لیکن ایسے میں اعصاب کا قوی ہونا بہت ضروری ہوتا ہے بلکہ کرنا پڑتا ہے ۔
ہڈی دو جگہ سے مکمل ٹوٹ چکی تھی لیکن الحمدللہ زخم بالکل نہیں تھا آپریشن کے بعد ہلنے جلنے اور ٹانگ کی پوزیشن تبدیل کرنے میں درد اور تکلیف تھی جن ادویات کو زیر استعمال لایا گیا ان میں
سمفائیٹم :- ہڈی کو تیزی سے جوڑنے کیلئے ایک بہترین دوا ہے اسے ہڈیوں کا بائینڈنگ سلوشن کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔
ہائپیریکم :- کچلے جانے والی نروز پر خاص اثرات کی حامل ہے۔
روٹا:- جہاں مسلز گہرائی تک متاثر ہوجائیں وہاں آرنیکا سے دو قدم آگے ہے۔
تینوں ادویات کا استعمال مدر ٹنکچر میں شروع کیا گیا 3 دن بعد بیٹا نے بتایا پاپا درد تقریبا ختم ہوچکا ہے میرے اندر خوشی کے جذبات ہچکولے کھانے لگے 15 دن کی پریشانی اور ٹینشن کے بعد دل و دماغ نے تھوڑا سکون پایا بحرحال دو ماہ ادویات کا استعمال جاری رہا اور بچے کی پھرتیاں بتا رہیں تھیں کہ یہ اب دوبارہ پرواز کرنے کو بے چین ہے ۔ دوماہ بعد فزیو تھراپی شروع کی گئی جو کہ اہک ماہ جاری رہی تین ماہ بعد بیساکھیوں کے سہارے چلنا شروع کر دیا گیا ۔
الحمدللہ
چند اضافی ادویات جن کی ضرورت پڑ سکتی ہے
ٹیوبرکولینم:- ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد کچھ مریض لمبی ریسٹ کرنے کی بجائے کھیلنا کودنا اور دوڑنا شروع کردیتے ہیں اس بے احتیاطی کے نتیجے میں چونکہ جوڑ کچا ہوتا ہے ہڈی سے پیپ آنے لگتی ہے۔
بیلاڈونا:- مریض انتہائی حساس بستر کے نزدیک سے گزرنے نہ دے یا بستر کو ہاتھ بھی لگانے نہ دے شور سے انتہائی ذکی الحس
کلکیریا سلف:- زخم مندمل نہ ہورہے ہوں اور کھلتے چلے جائیں۔
اور دیگر مزاجی ادویات کی علامات آئیں تو ساتھ دی جاسکتی ہیں
یہ ادویات نہ صرف ہڈی کا مضبوط جوڑ لگانے میں مستعمل ہیں بلکہ کسی بھی چوٹ چاہے وہ مسلز کی ہو یا ہڈی کی بشرطیکہ گوشت پھٹ کر خون نہ نکلا ہو اوپر لگانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں ۔
بیرونی چوٹ کا درد دور کرنے کیلئے روئی کو دوا سے تر کر کے دو سے پانچ منٹ اوپر لگائیں اور انتظار کریں ۔ بارہا ان دواؤں نے میری اور ہومیوپیتھی کی لاج رکھی ہے ان ادویات نے خود مریضوں کی زبان سے کہلوایا واہ ڈاکٹر صاحب یہ دوا تو کمال کی ہے۔
طاقت:-
سمفائیٹم روٹا اور ہائپیریکم مدر ٹنکچر میں مفید ہیں
نوٹ:-
یہ ادویات مفادات عامہ کیلئے بھی ہیں اگر کسی حادثہ میں اللہ نہ کرے ہڈی ٹوٹ جائے یا فریکچر ہوجائے تو درج بالا تینوں ادویات بالترتیب 5 قطرے فی دوا صبح دوپہر رات دو یا تین ماہ استعمال کرنے سے ہڈی مکمل جڑ جائے گی اور بعد ازاں کسی بھی قسم کی پیچیدگی سے حفاظت رہے گی انشاءلله
04/06/2024
(آٹزم سیریز) ارجنٹم نائٹریکم
ڈاکٹر حسین قیصرانی
ایسے بچے ہر وقت جلدی میں ہوتے ہیں ، کھانا پینا بھی جلدی ، چلنا پھرنا بھی جلدی ، کھانا پینا جلدی سے مراد یہ ہے کہ غذا کو ایک طریقے سے چباتے نہیں ہیں بلکہ کھاتے جاتے ہیں ۔ تیز چلنے سے مراد یہ ہے کہ کام پر یا آس پاس کی چیزوں پر ان کا دھیان کم ہی ہوتا ہے بس دوڑے جاتے ہیں جلدی میں ۔ جب چھوٹے ہوتے ہیں تو کبھی ادھر گر رہے ہیں اور کبھی ادھر گر رہے ہیں آرام سکون ان کی زندگی میں نہیں ہوتا ۔ ان کے اندر جلد بازی کا جو بھوت سوار ہوتا ہے تو یہ انتظار بھی نہیں کر سکتے ۔ اگر کہیں جارہے ہیں تو پوچھیں گے ماما ہم کہاں پہنچے ہیں ، کب پہنچیں گے ، یہ کون سی جگہ ہے ۔ ہر وقت ڈسٹرب رہیں گے اور رکھیں گے ۔ اگر کسی نے گھر میں آنا ہے تو کہیں گے ماما فون کریں نا ، بابا کیوں نہیں آئے ۔ ان کو ہر وقت Anticipation ہونے لگ جاتی ہے ۔ یہ ڈرنا شروع ہوجاتے ہیں کہیں وہ نہیں آئیں گے ، کہیں رک جائیں گے ، کہیں کوئی مسئلہ نہ ہوجائے جب تک ان کے اندر رہیں گیں یہ ڈسٹرب ہونے اور کرنے والے رہیں گے۔
پریشانی یہ ہے کہ ہر چیز کی پریشانی ہے کہیں یہ نہ ہوجائے کہیں وہ نہ ہوجائے ہر چیز کی منفی پیش بندی رہے گی ۔ اگر کہیں جانا ہے تو یہ واضع طور پر اس چیز کر بیان نہیں کر سکتے لیکن ان کے ذہن میں یہ بات رہے گی کہ ماما پاپا کہیں پروگرام کینسل ہی نہ کردیں ، فلائیٹ کینسل نہ ہوجائے ، کہیں گاڑی ہی خراب نہ ہوجائے ۔ چونکہ یہ بچے ہوتے ہیں اپنی بات کو کھل کر بیان نہیں کر سکتے لیکن ان کے انگ انگ سے پیش بندی جھلک رہی ہوتی ہے ۔
کھلے ڈھلے بچے ہوتے ہیں اپنی بات کھل کر تے ہیں اور کسی نہ کسی مصروفیت میں رہتے ہیں جس میں ان کا جسم اور ذہن دونوں ہر وقت مصروف کار رہیں ۔ یہ جسمانی اور ذہنی طور پر بے چین ہوتے ہیں لہذا ایسی گیمز جو گھر سے باہر ہوں جس میں یہ گھنٹوں کھیل سکیں اس میں یہ بہت انجوائے کرتے ہیں ۔ کھلے ڈھلے ہونے اور باہر کھلے میں کھیلنے کی وجہ سے گھر کے اندر یا فلیٹس میں ان کی طبیعت بہت خراب ہوتی ہے اسی لئے انہیں تنگ ، بند جگہوں پر جیسے لفٹ میں ، رش والی جگہوں پر ان کی طبیعت بہت خراب ہوتی ہے ۔
یہ کہیں بھی پابندی سے بہت ڈرتے ہیں جیسے ہیئر ڈریسر کے پاس ان نے کپڑا چڑھا دینا ہوتا ہے ، سیدھے ہوکر بیٹھو ، چونکہ اسنے اپنے طریقے سے چلانا ہوتا ہے اور اس سے پہلے آدھا یا پورا گھنٹہ انتظار کیلئے بیٹھنا ہوتا ہے جس سے انہیں بہت کوفت ہوتی ہے اور حجام کے پاس اپنا ردعمل بھی دیتے ہیں ۔ ایسے بچوں کے بال کٹانا بہت مشکل کام ہے ۔ بالوں کی طرح انکے ناخن کاٹنا بھی بہت بڑا پراجیکٹ ہے کیونکہ کسی جگہ فکس ہونا ان کیلئے سوہان روح ہوتا ہے ۔
ان کو میٹھا بہت پسند ہوتا ہے ۔ ہر چیز میں میٹھا چاہئے ہوتا ہے لیکن میٹھے کیساتھ چٹ پٹا بھی بہت پسند ہوتا ہے ۔ کھانے پینے والے لوگ ہوتے ہیں میٹھے کیساتھ نمکین اور نمکین کیساتھ میٹھا کھاتے چلے جاتے ہیں اسی وجہ سے کھانے پینے میں بیلنس برقرار نہیں رکھ پاتے اسی وجہ سے انکا معدہ خاص طور پر میٹھا زیادہ کھانے سے اکثر خراب رہتاہے ۔ اور یہ میٹھا زیادہ کھانے سے باز رہ بھی نہیں سکتے چونکہ دوسری دوائیں سپریشن کرتی ہیں اسلئے ان کے معدہ کے مسائل بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔
انکو Stuck Feelings سے بہت کوفت ہوتی ہے کلاس روم میں بیٹھنا انکے لئے عذاب ہے گرمی انکو بہت بہت لگتی ہے ۔ جب بچےکو سکول میں داخل کرایا جاتا ہے تو مارچ کا مہینہ ہوتا ہے اور والدہ انکو جرابیں ٹوپی اور جیکٹ پہنا دیتی ہے لیکن یہ بچے نہ جراب ، نہ ٹوپی اور نہ ہی جیکٹ پہننا چاہتے ہیں کیونکہ زیادہ کپڑوں سے انہیں اتنی بےچینی اور گرمی لگتی ہے جس کا کوئی اندازہ نہیں ۔ اگر ہم سمجھ جائیں کہ ہر بچے کو لپیٹنے کی ضرورت نہیں ہوتی ویسے یہ بچے دبلے پتلے اور پھرتیلے بہت ہوتے ہیں اسی وجہ سے جب انکو ہم کپڑوں کے اندر باندھ کر رکھتے ہیں تو پھر انکا چڑچڑا پن انتہا کا ہوتا ہے اور اس پر وہ انتہائی ردعمل دیتے ہیں اور اگر کلاس روم میں ہوں تو بار بار کھڑے ہوں گے اور اپنے جسم کے اندر ہاتھ مارتے ہیں تو ٹیچر شکایت کرتے ہیں کہ آپ کا بچہ ٹک کر بیٹھتا نہیں ہے کہیں اسکے ساتھ دماغی مسئلہ تو نہیں ہے ۔
ایسے بچوں کو Anticipatory enxiety ہوتی ہے مثلا کل انہیں سکول جانا ہے ، میلے فنکشن پر جانا ہے ، کسی شادی پر جانا ہے ، سفر کرنا ہے ۔ ان کو بے چینی شروع ہوجاتی ہے اور یہ وقت سے پہلے تیار ہوجاتے ہیں اگر گھر والے تیار نہیں ہیں تو یہ کہیں گے کہ چلیں چلیں اور گھر والوں ہاتھ پاؤں ڈال دیتے ہیں ۔
کسی نئی جگہ پر جانے سے یا کسی انٹرویو ، پہلی بار سکول جانے سے ان کا پیٹ لوز ہوجاتا ہے یا پیشاب زیادہ آنا شروع ہوجاتا ہے ۔ انکی یہ کیفیت میٹھا زیادہ کھانے سے بھی پیدا ہوجاتی ہے ۔
انکو اونچائی سے بہت خوف ہوتاہے ، کسی پارک میں جو جھولا اوپر نیچے جاتا ہے اس پر نہیں بیٹھ سکتے یہ انکی خاص نشانی ہے ۔ اونچائی سے نیچے دیکھنا انکے لئے ٹھیک ٹھاک مسئلہ ہوتاہے ۔ بڑے شہروں کے بچے جیسا کہ ماں باپ بتاتے ہیں جب یہ اونچی بلڈنگ کے درمیان سے گزرتے ہیں تو ہاتھ چھڑا کر بھاگ پڑتے ہیں بہت زیادہ ڈر جاتے ہیں ۔ ان کو ایسا لگتا ہے جیسے یہ گر جائیں گیں ۔
ان کو لفٹ یا تنگ جگہوں سے بہت دقت ہوتی ہے ، ہجوم سے مسئلہ ہوتا ہے ، تنگ اور بند جگہوں کا خوف ہوتا ہے ، ان کو ہر اس جگہ سے مسئلہ ہوتا ہے جہاں تنگی پائی جائے ان کو یہ بھی مسئلہ ہوتا ہے کہ واش روم کا دروازہ کہیں باہر سے بند نہ ہوجائے اسی خوف سے یہ واش روم کا دروازہ تھوڑا کھول کر یا باہر کسی کو کھڑا کرکے استعمال کرتے ہیں ۔
سکول کی اسمبلی میں جہاں انہیں زیادہ دیر کیلئے کھڑا ہونا پڑے تو ان کو مسئلہ ہوتا ہے ایک تو جلدبازی کی کیفیت کی وجہ سے انتظار نہیں کرسکتے اور دوسرا انکو لگتا ہے کہ میں کمزوری محسوس کرکے گر جاؤں گا یا بیمار ہوجاؤں گا ۔ کسی ایسی جگہ جہاں انہیں زیادہ دیر کھڑا ہونا پڑے جہاں حرکت نہ کرنی پڑے تو یہ مسلسل حرکت کرتے رہتے ہیں ٹیچر دیکھ کر سمجھ سکتا ہے کہ ان بچے کیساتھ کچھ مسئلہ ہے یا ذہنی کمزوری ہے ۔ ان کی مجبوری ہے کہ یہ ایک جگہ آرام سکون سے نہیں کھڑے ہوسکتے ۔
ان کو تحریک ہوتی ہے کہ کہیں یہ پنکھا میرے اوپر گر نہ جائے ، کہیں میں بجلی کے سوئچ میں ہاتھ نہ لگا دوں ، چھری کہیں میں اپنے آپ کو نہ مار دوں ۔ یہ صرف وہم کی حد تک نہیں ہوتا بلکہ یہ باتیں کرتے بھی ہیں جس کی وجہ سے ماں باپ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ ہمارے بچے کیساتھ کوئی ذہنی مسئلہ تو نہیں ہے جس کو بنیاد بنا کر وہ ڈاکٹرز سے رابطہ کرتے ہیں ۔ اور ایک ہومیوپیتھ یہ بخوبی جانتا ہے کہ ایسے بچوں کو ارجنٹم نائیٹریکم کی چند خوراکوں کی ضرورت ہے ۔
اگر معاملات ایک حد تک رہیں تو ٹھیک کیونکہ مائنس پلس تو ہر انسان میں ہوتا ہے لیکن ان کو اچانک لفظ سے بہت تکلیف ہوتی ہے ماشاءاللہ یہ بچے بہت ایکٹیو اور ذہین ہوتے ہیں ان سے باقائدہ پلاننگ کے تحت جو کام مرضی کروالیں لیکن اگر ان کو اچانک یہ کہیں کہ یہ کام کردو ، یہ اٹھا کر لے آؤ ، یہ گلاس یہاں سے اٹھا کر وہاں رکھ دو ، یہ چیز مارکیٹ سے لیتے آؤ ان کو بہت تکلیف ہوتی ہے ۔ اچانک ان کو کوئی بھی کام کرنا پڑ جائے تو انکی جان جاتی ہے ۔
گاڑی کی درمیان والی سیٹ ان کو سخت ناپسند ہوتی ہے کھڑکی والی سیٹ جہاں باہر کے منظر سے لطف اندوز ہوں وہاں ان کا دل بہلا رہتا ہے ۔ خلاصہ یہ ہوا کہ جہاں ان کو پھنسے ہونے کا احساس ہو وہاں ان کے مسائل دوچند ہوجاتے ہیں ۔ آؤٹ ڈور کھیل میں یہ بہت اچھا پرفارم کرتے ہیں اور یہ بہت اچھے کھلاڑی ہوتے ہیں ، کھاتے پیتے بھی خوب ہیں میٹھا بھی اور چٹ پٹا بھی ، باقائدہ پلاننگ کیساتھ جتنا مرضی کام کروالیں کرتے جائیں گے کرتے جائیں گے ۔
طاقت :ـ۔
200 دن میں دو یا تین بار
03/06/2024
(آٹزم سیریز) اناکارڈیم
ڈاکٹر حسین قیصرانی
دماغی علامات کے لحاظ سے یہ ایک بہت اہم دوا ہے ۔ جسمانی علامات بھی ہوتی ہیں لیکن زیادہ تر دماغی علامات کیلئے ہی مریض رابطہ کرتا ہے ۔
اس دوا میں دو قسم کے مزاج پائے جاتے ہیں ۔
یا ہم یوں بھی کہ سکتے ہیں کہ پرائمری اور سیکنڈری ایکشن کی وجہ سے یہ پہلے یوں تھے اور جب ان کی مرض میں ترقی ہوئی تو بعد میں یوں ہوگئے ۔ پہلی قسم بعد کی بھی ہوسکتی ہے اور پہلے کی بھی۔
پہلی قسم کے بچوں میں چھوٹی عمر سے ہی اس کی علامات نظر آنا شروع ہوجاتی ہیں ۔ یا تو بہت سخت ہوتے ہیں ، ظالم بہت ظالم ، مار دھاڑ ، بات بھی ایسے کریں گے قتل کردوں گا ، چھری مار دوں گا ۔
ظالم کس طرح کے ہوتے ہیں اس کو ہم واضع کرتے ہیں ۔ جیسے بیٹھے کسی کو تھپڑ ، پتھر یا گھونسہ مار دیں گے ، بات ایسے کرتے ہیں جیسے کوئی ایموشن یا جذبہ نہیں ہوگا لیکن مرنے مارنے پر آجائیں گے ۔ ان کے رویے سے ایسا بالکل ظاہر نہیں ہوگا کہ یہ غصے میں ہیں یا ان کے اندر کوئی جذبات ہیں لیکن اس کے برعکس یک دم مکہ یا کک مار دیں گے ۔ بہت چھوٹی عمر میں ہی باتیں ساری کی ساری ایسے کریں گے جو مرنے مارنے والی ہوں ، اتنی دھمکیاں دیتے ہیں جیسے بہت ظالم ہوں اور دھمکی دیتے وقت ان کے چہرے پر ایسے کوئی جذبات نہیں ہوتے جیسے غصے میں ہوں بلکہ ان کے چہرے اور آنکھوں سے سفاکیت صاف جھلکتی ہے ۔ اگر اناکارڈیم کردار کو سمجھنا ہوتو انڈین فلم سٹار " ناناپاٹیکر" کے ڈائیلاک "مار دو" ایسے کردو ، ویسے کر دو وغیرہ
دوسری قسم کے بچوں میں ( اناکارڈیم کی یہ پکچر زیادہ دیکھنے میں آتی ہے )
اس سچوئیشن میں بچہ بہت ڈرا سہما ہوتا ہے ، بہت کنفیوژ ، ڈبل مائینڈڈ ، چھوٹی چھوٹی باتوں پر پریشان ، گناہ ثواب ، درست غلط ، حلال حرام ہر چیز کے متعلق اس کی اپنی ایک رائے ہوتی ہے ۔ لیکن وہ کوئی فکس نہیں ہوتی بلکہ سنی سنائی ہوتی ہے اور بحث بھی کرنا چاہتا ہے ۔ انکی باتوں میں تضاد اور تردید انتہا کی ہوتی ہے اور یہ ان کا بہت بڑا ایشو ہوتا ہے ۔ بے مقصد باتوں کو لیکر ان پر دلیلیں دینا اور بحث مباحثہ کرنا ان کا مزاج ہوتا ہے ۔
کھانے پینے میں بھی یہ کھانا چاہئے یہ نہیں کھانا چاہئے ۔ یہ صحت کیلئے ٹھیک ہے یہ نہیں ٹھیک ۔ یہ اچھا ہے یہ اچھا نہیں ہے ۔ ظاہر ہے والدین بچوں کو اچھے برے کی تمیز سکھاتے ہیں لیکن یہ اس چیز کو لیکر زندگی میں اپلائی کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ خود تذبذب کا ، کشمکش کا ، کسی بات پہ نہ کھڑے ہونے کا شکار ہوتے ہیں لیکن اس کیساتھ غیر لچکدار ، کٹر اور سخت بھی ہوتے ہیں ۔
یہ اس بات سے بہت ڈرتے ہیں کہ کسی کی آہ نہ لگ جائے ، کسی کی بددعا نہ لگ جائے ، اللہ تعالی ناراض نہ ہوجائے ۔ یہ کشمکش میں رہتے ہیں ، کنفیوژ رہتے ہیں ۔ ایسا نہ ہوجائے ویسا نہ ہوجائے ۔ یہ فیصلہ ہی نہیں کرسکتے یہ کپڑا پہنے وہ پہنے ، یہ خریدے یا نہ خریدے ، یہ کھاؤں یہ نہ کھاؤں ، کسی بات کا فیصلہ نہیں کر پاتے حتٰی کہ کوئی شرٹ پہننے کے بعد بھی سوچتے رہتے ہیں کاش وہ پہن لیتا ، ہر چیز میں ڈبل مائینڈڈ ہوتے ہیں حتی کہ نماز پڑھ رہے ہیں یا کسی اور کام میں مصروف ہیں تو ان کو یہ یاد نہیں رہتا کہ یہ کیا ہے یا نہیں کیا ہے ۔ ایک دم سے ان کی یادداشت واضع متاثر ہوتی ہے ۔
بہت دفعہ یہ دکان پر کچھ لینے جاتے ہیں بقایا لئے بغیر واپس آجاتے ہیں ایسا بھی ہوتا ہے خراداری کی پیسے دئے اور جو چیز لانی تھی وہ وہیں بھول آئے ۔ سائیکل گاڑی موٹر سائیکل وہیں بھول آتے ہیں اور خود پیدل گھر واپس آجاتے ہیں ۔ ان کی یادداشت ایکدم سے غائب ہوجاتی ہے ابھی کچھ رکھا اور بھول گئے کہ کہاں رکھا تھا ۔ یہ ساری کیفیات خوف اور ڈر کیساتھ بھی ہوتی ہیں۔ یعنی بیماری کا یا امتحان کا خوف ہے ہر چیز میں ڈر لازمی ہوگا اور ان کے چہرے سے نظر آرہا ہوتا ہے کہ یہ ڈرے سہمے ہوئے ہیں ۔ جب یہ زیادہ ڈر ، خوف اور پریشانی میں آتے ہیں تو مذہبی بھی ہوجائے ہیں۔ (یہ آگے چلکر پائی پولر بھی ہوسکتے ہیں یعنی خوش ہیں تو بے پناہ خوش ہیں کسی چیز کی فکر ہی کوئی نہیں اگر پریشان ہیں تو چھوٹی سی بات کو لیکر بیٹھ جائیں گے )
یہ بار بار کھاتے ہیں اور زیادہ کھاتے ہیں کیونکہ بھوک سے ان کی تمام تکالیف میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے ۔ اور کھانے کے بعد ذہنی اور جسمانی طور پر یہ پرسکون ہوجائے ہیں ۔ واک کے دوران اور کھانے پینے کے دوران بھی ۔ ان کا معدہ خالی ہو تو یہ بڑے ڈسٹرب ہوجاتے ہیں اور اپنی جیب میں کچھ نہ کچھ ذائقہ لازمی رکھتے ہیں نہیں تو معدہ میں تیزابیت اور جلن سی محسوس کرتے ہیں ۔ خاص طور پر معدے کے اوپر والے حصے میں جلن ہوتی ہے ۔ کچھ لوگوں کو سانس کی نالی میں کچھ پھنسا ہوا محسوس ہوتا ہے اور اس کو کھولنے کیلئے کچھ کھاتے پیتے رہتے ہیں اور دلچسپ یہ کہ کھانے پینے کے بعد گھنٹہ آدھ گھنٹہ یہ بہتر رہتے ہیں ۔
ان کو امتحان میں سوال جواب کے دوران کنفیوژن ہوجاتی ہے کہ یہ والا ٹھیک ہے یا وہ والا ٹھیک ہے یعنی ڈبل مائینڈڈ ہوجائیں گے اور فیصلہ نہیں کرسکیں گے ۔
یہ کچھ پروف کرنا چاہتے ہیں ہم کچھ کر کے دکھائیں گے ۔ یہ اگر غلط ہوں گے تو خواہ مخواہ اپنی وضاحتیں دیں گے یہ ثابت کرنے کیلئے کہ میں ٹھیک تھا ۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر وضاحتیں دینا شروع کردیں گے ۔ یعنی ہر چیز کے متعلق ان کی منطق اور تفصیل ہوگی اور سیدھی سی بات کو لمبے چوڑے اور پھیلا کر بات کریں گے ۔
ان کو قسمیں کھانے کا بھی مزاج ہوتا ہے کیونکہ یہ کنفیوژ ہوتے ہیں ان کو اپنی باتوں پر خود یقین نہیں ہوتا کہ یہ درست ہے یا غلط اسلئے دوسروں کو یقین دلانے کیلئے انہیں قسمیں کھانی پڑتی ہیں ۔ (میں مزاق نہیں کررہا ، اللہ پاک کی قسم ، پکی بات ہے ، آپ سمجھ رہے ہیں نا ) اس طرح بات کرتے ہیں کہ اگلا بندہ یقین کرلے ۔
بلکھڑ ہوتے ہیں کسی نے کوئی کام کہ دیا تو ایک دم بھول جائیں گے اسلئے کہ انہیں توجہ ہی نہیں ہوتی کہ کسی نے کیا کہاتھا کیونکہ ان کے دماغ میں کچھ اور ہی چل رہا ہوتا ہے ایک عجیب کی کشمکش ہوتی ہے جیسے ذہن پر کچھ غبار سا چھایا ہوا ہو۔
اپنی ہر ناکامی کا دوسروں کو الزام دیتے ہیں مثلا فیل ہوئے تو کہیں گے میری طبیعت خراب ہوگئی تھی ، میں نے ایسے کہا تھا پاپا نے ماما نے یوں نہیں کیا ، یہ اپنے آپ کو یہ نہیں سمجھتے کہ میں غلط ہوں بلکہ دوسرا کوئی وجہ بنا ہے ان کے فیل ہونے کی ۔ مثلا یوں کہیں گے پاپا نے مجھے سپورٹ نہیں کیا حقیقت میں ملک سے باہر جانا چاہتا تھا ، میں اس سکول میں پڑھنا چاہتا تھا ، گھر والوں نے چونکہ شفٹ کیا تو ایسا ہوگیا ۔ اس طرح کی کیفیت میں دوسروں کو الزام دیتے ہیں ۔
ان کو کچھ نہ کچھ پھنسا ہوتا ہے یوں ہوا تھا تو ایسے ہوگیا ۔ اگر صحت خراب ہوگی تو کہیں گے چونکہ میں نے یہ کھایا تھا تو ایسے ہوگیا ، چونکہ میرا آپریشن ہوا تھا تو ایسے ہوگیا ۔ مسلسل کشمکش کسی نہ کسی معاملے میں الجھے ہوئے رہیں گے ۔ پھنسے رہے گے۔
ان کو بو کا وہم ہوتا ہے جیسے آس پاس راکھ ہے یا فوم جل رہا ہے ۔ اس بو کی وجہ سے انہیں وہم اور وسوسے ہوتے ہیں جب بڑے ہوتے ہیں تو انہیں محسوس ہوتا ہے اگر باہر بو نہیں ہے تو ہمارے اندر کوئی بیماری اور خرابی ہے ۔
یہ گوگل بہت زیادہ کرتے ہیں اگر ان کے بال گر رہے ہیں بالوں کے پیچھے پڑ جائیں گے اور سوچیں گے بال کینسر کی وجہ سے گرتے ہیں کیونکہ ان کو کینسر کا خوف ہوتا ہے ۔
ہمارے ہاں اکثر لوگ پلاسٹک سرجری کرانے جاتے ہیں ، بال لگوانے جاتے ہیں ، ناک سیدھا کرانے جاتے ہیں یا اپنے چہرے کو سیٹ کراتے ہیں یہ سب اناکارڈیم ہوتے ہیں اور کسی بات سے مطمئن نہیں ہوتے کیونکہ اگر کسی ایک نے ان سے یہ کہ دیا کہ "یہ تم نے کیا کردیا " یہ بالکل فضول ہے اور چونکہ ان میں خوداعتمادی کی کمی ہوتی ہے ، کنفیوژن ہوتی ہے ، ڈبل مائینڈڈ ہوتے ہیں لہذا پھر اسی چیز کو پکڑ لیتے ہیں۔
طاقت: ہزار اور اس سے اوپر (ہزار میں ہفتہ یا دو ہفتہ دن رات )
02/06/2024
(آٹزم سیریز)اگاریکس
ڈاکٹر حسین قیصرانی
ان بچوں میں دو طرح کی پکچر بنتی ہے ۔
پہلے ہم ان بچوں کی پکچر بنائیں گے کیونکہ ایسا بہت کم بچوں میں ہوتا ہے ۔
یہ بچے عام طور پر بہت کمزور اور دوسروں پر انحصار کرنے کا رحجان پایا جاتا ہے ۔
خود اعتمادی کی کمی ہوتی ہے ۔
ڈرپوک ہوتے ہیں۔
چھوٹی چھوٹی باتوں جہاں صحت کا معاملہ آجائے خواہ وہ خود ہوں یا فیملی میں کوئی بیمار ہو بہت ڈسٹرب ہوجاتے ہیں ۔
دوسروں کیساتھ نظریں نہیں ملا سکتے ۔
درج بالا پکچر اگاریکس بچوں کی عام نہیں ہے ۔ بہت کم بچوں میں ایسا ہوتا ہے ۔ لیکن ہم نے ٹوٹیلٹی دیکھنی ہوتی ہے ۔ اگاریکس کی عام پکچر جن کیلئے والدین پریشان رہتے ہیں یا جو آٹزم کی طرف جاتےہیں اب ہم ان کی تفصیل بیان کریں گے۔
اگاریکس بچے بہت نڈر ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو سپائیڈر مین اور سپر مین سمجھتے ہیں اور اسی طرح کی حرکتیں کرتے ہیں ۔ کبھی دیوار اور کبھی درخت سے چھلانگ لگا دیں گے ۔ لیٹریچر میں ملتا ہے کہ یہ خطرناک جگہوں کی طرف راغب ہوتے ہیں مثلا روڈ پر نکل جائیں گے گاڑی کے اوپر کھڑے ہوکر جمپ لگادیں گے جس سے یہ ظاہر کریں گے کہ یہ نڈر بے خوف اور کسی چیز کی پرواہ نہ کرنے والے ہوتے ہیں اور ایسی حرکتیں کرنا جن سے کنفرم ہوتا ہے کہ ان کو یا دوسروں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں ۔ پریکٹیکل لائف میں گھروں میں چیزیں پھینکتے ہیں نہ صرف پھینکتے ہیں بلکہ دوسروں کو مارتے ہیں ۔ چھوٹا بچہ بھی فیڈر یا پانی کا گلاس ماں کے منہ پر مارتا ہے ایسا بہت سارے کیسز میں دیکھا گیا ہے ۔
تھوکتے ہیں پتہ نہیں ان کا کیا پرابلم ہر وقت تھوکتے رہتے ہیں (زبان پر بال کا احساس)
کہنا بالکل نہیں مانتے ۔ کہنا ماننا تو دور کی بات ان سے سوال کریں تو سوال کا جواب بھی نہیں دیتے ویسے بہت باتیں کریں گے بولے چلے جائیں گے لیکن سوال کرو تو اس سے بچیں گے ۔
تھوڑا سا بھی ان کی مرضی کے خلاف بات ہوتو اپنے بال کھینچنے اور اپنے آپ کو دانت سے کاٹنے کا رحجان پایا جاتا ہے ۔
غضب کے بیش فعال Hyperactive ہوتے ہیں اور گیمیں بھی اسی طرح کی کھیلتے ہیں جیسے آجکل کے زمانے میں اپنے آپ کو جان سینا ، ٹرپل ایچ یا انڈر ٹیکر سمجھتے ہیں اور اسی طرح کی حرکتیں کرتے ہیں اور اکثر چوٹیں کھاتے ہیں ۔
نہ صرف چوٹیں لگتی ہیں بلکہ جسم اور ذہن کے عدم توازن سے ان کے ہاتھ سے برتن گلاس پلیٹیں اکثر ٹوٹتی رہتی ہیں۔ اور گھر میں فساد کا باعث رہتے ہیں کیونکہ ان سے چیزیں صحیح طرح سے کنٹرول نہیں ہوتیں۔ اس میں دو فیکٹر ہوتے ہیں ایک تو ان کے جسم اور ذہن میں ہم آہنگی کا فقدان ہوتا ہے دوسرا یہ کر کچھ رہے ہوتے ہیں لیکن ان کے ذہن میں چل کچھ اور رہا ہوتا ہے اسی وجہ سے وہ معاملات کو پراپر ڈیل نہیں کر پاتے۔
چھوٹے بچوں میں ہر معاملہ تاخیر سے ہوتا ہے ۔ مثلا تاخیر سے چلنا ، بولنا اور سیکھنا
ہمت سے زیادہ بہادری دکھاتے ہیں اور بلاوجہ دکھاتے ہیں مثلا ان کو سائیکل دے دی جائے تو سپیڈ ماریں گے یک دم بریک لگائیں گے ون ویلنگ کریں گے ۔
کھیل کود میں انتہائی جذباتی ہوتے ہیں ۔ دیوانہ وار ، لگے رہیں گے اور کھیل کود میں کنٹرول سے باہر ہوجاتے ہیں۔ ایسی حرکتیں کرتے ہیں جو ان کو یا ان کے ساتھ والوں کو نقصان دیتی ہیں ۔
اگاریکس بچوں کی پرابلم یا شکایات
ان کے جسم عجیب طرح کا احساس ہوتا ہے جیسے ان کے جسم پر چیونٹیاں رینگ رہیں ہیں جس کی وجہ سے یہ عجیب طرح کا ری ایکشن دیتے ہیں منہ اور شکلیں بنائیں گے ، جھٹکے دیں گے جس کی وجہ سے ان کے متعلق رائے قائم ہونا شروع ہوجاتی ہے کیونکہ ماں باپ اور رشتہ دار ہمسارے تو پہل ہی ان سے تنگ ہوتے ہیں اور ساتھ اگر یہ بھی شامل ہوجائے کہ عجیب و غریب شکلیں بنائیں تو ان پر ایب نارمل ہونے کا لیبل لگ جاتا ہے کہ یہ بچے نارمل بچے نہیں ہیں ۔
بے آرامی ان کا بہت بڑا معاملہ ہے جسمانی اور ذہنی سطح دونوں پر اسی وجہ سے سکول میں ان کی پرفارمنس بہت کمزور رہ جاتی ہے ۔ اسی بے چینی اور چلبلے پن کی وجہ سے یہ صحیح طرح سے توجہ نہیں دے پاتے ہیں اور کسی بھی معاملے پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کر پاتے ۔ اسی وجہ سے ان کی یادداشت بھی کمزور ہوتی ہے جس کی وجہ سے معاملات کو سمجھتے میں دقت پیش آتی ہے ۔ آئیڈیا کو پکڑ نہیں سکتے ہیں یا کوئی نیا آغاز نہیں کرسکتے ۔ اور جوں جوں یہ بچے پروان چڑھتے ہیں ان کے معاملات کھل کر سامنے آنا شروع ہوجاتے ہیں ۔
ایک خاص چیز ان بچوں میں نظر آتی ہے وہ یہ کہ یہ بچے کھیلتے ، کودتے ، ناچتے گاتے الغرض جو کام بھی کریں گے اس میں ایک وحشی اور پاگل پن جھلکتا ہے ۔ ناچیں گے تو بالکل پاگلوں کی طرح اور گانے ایسے گائیں گے جیسے آجکل نوجوانوں میں اچھل کود زیادہ ہوگی کسی بھی چیز میں ترتیب ، نظام اور سسٹم نہیں ہوگا ۔ ہر بچے میں تھوڑا بہت ہوتا ہے لیکن ان میں بہت زیادہ ہوتا ہے ۔
ان کی حرکتیں بہت عجیب ہوتی ہے جب پریشان ہوں گے انتہائی پریشان جیسے کوئی مصیبت آگئی ہو چاہے چھوٹا سا مسئلہ ہی کیوں نہ ہو اور جب خوش ہوتے ہیں تو اتنا خوش ہوتے ہیں کہ حیران کر دیتے ہیں ۔ اسی لئے یہ بچے صحیح طرح سے ڈیل نہ ہوں تو مزید بڑے ہوکر Bipolar Disorder کی طرف جاتے ہیں یعنی خوشیاں اور انجوائے منٹ ہے تو کسی چیز کی کوئی پرواہ نہیں کہ دنیا کیسے چل رہی ہے ، گھر بار میں کیا ہے ، حالات کیسے ہیں کسی کا کوئی احساس نہیں ۔ اور اگر پریشان ہیں تو دنیا میں خوشی اور انجوائے منٹ ہے لیکن انہوں نے منہ بنایا ہوا ہوگا ۔ یعنی یہ ان کا مزاج جو ہے حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا نہیں ہے ، سچوئیشن کے مطابق اپنے کام کاج کو ڈیل نہیں کر پاتے ان کی ہر چیز پنڈولم کی طرح ہوتی ہے یعنی خوش تو خوش ، پریشان تو انتہائی پریشان یعنی درمیان میں نہیں رکتے یعنی اس پار یا اس پار ۔ یہی کیفیت ان کی آنکھوں میں بھی پائی جاتی ہے ان کا اپنی آنکھوں پر بھی کنٹرول نہیں ہوتا یعنی وہ روکنا چاہتے ہیں لیکن رکتی نہیں ہیں کبھی ادھر چلی جاتی ہیں اور کبھی ادھر ، اس کونے یا اس کونے ۔ اس چیز سے بھی ان کی پرسنیلٹی ، شکل اور حالت نارمل بچوں کی نہیں رہ پاتی ایک تو پہلے ہی اتنے مسائل کا شکار ہوتے ہیں تو ایسی حالت میں یہ سوسائٹی سے کٹ کر رہ جاتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں سوسائٹی ان کو قبول نہیں کر پاتی ۔
صبح کے وقت ان کی تمام علامات میں اضافہ ہوجاتا ہے جو بھی علامات ہیں ان میں صبح کے وقت اگراویشن دیکھی گئی ہے ۔ جوں جوں دن چڑھتا ہے شام آتی جاتی ہے ان کے مسائل کم ہوتے جاتے ہیں ۔ یہ وہ وجہ ہے کہ بچے رات کو سونا نہیں چاہتے کیونکہ رات کو ان کی تمام علامات میں افاقہ دیکھا گیا ہے اس کے بر خلاف صبح کو ان کی تمام علامات میں تیزی دیکھی گئی ہے ۔ مائیں بھی دیکھ کر حیران ہوتی ہیں کہ جن مسائل کی وجہ سے بچے کو سکول سے چھٹی کرائی تھی دن چڑھتے یا ڈھلتے ہی وہ ٹھیک ہوجاتے ہیں ۔
ان بچوں کو بول بستری کی شکایت بھی ہوتی ہے ۔ بول بستری میں ان کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اگر یہ پرجوش ہوئے ہیں چاہے وہ خوشی کی وجہ سے یا غم ، پریشانی ، ڈر یا خوف کی وجہ سے ہوئے ہیں تو یہ رات کو بستر پر پیشاب کر دیں گے ۔ اور ان کی بول بستری کے پیچھے جوشیلا پن ہوتا ہے ۔
فزیکل یہ سرد مزاج ہوتے ہیں اور انہیں سردیاں بہت تنگ کرتی ہیں ۔ یہ سردی سے اس قدر متاثر ہوتے ہیں کہ ان کے ہاتھ اور پیروں کی انگلیاں سردی سے سوج جاتی ہیں ، سرخ ہوتی ہیں ، جلن کرتی ہیں اور ٹچ کرنے سے تکلیف ہوتی ہے حتی کہ جوتے نہیں پہن سکتے ۔ سردیوں میں ان کے ہاتھ پاؤں گرم ہوتے ہی نہیں ہیں مسلسل ٹھنڈے رہتے ہیں ۔ ان کے ہاتھ پاؤں ہوتے تو ٹھنڈے سرخ اور سوجے ہوئے لیکن احساس جلن کا ہوتا ہے جس کی وجہ سے انہیں ٹچ نہیں کیا جاسکتا ۔
چونکہ یہ اپنے چلبلے پن کی وجہ سے نچلا نہیں بیٹھ سکتے لہذا انہیں چوٹیں بہت لگتی ہیں اور سکول سے غیر حاضر رہنے کی وجہ سے زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔
چونکہ ان کے جسم پر چونٹیاں رینگنے کا احساس ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ جسم کو مروڑتے رہتے ہیں اور ساتھ میں ان جو جسم میں جھٹکے بھی لگتے ہیں جو کہ کنٹرول سے باہر ہوتے ہیں ۔
ان کو ہر وقت محسوس ہوتا رہتا ہے جیسے ان کے مسلز اور جسم ان کے کنٹرول میں نہیں ہے جیسے کچھ لوگوں کو آنکھ مارنے کی عادت ہوتی ہے کیونکہ ان کے آنکھ کے مسلز ان کے کنٹرول سے باہر ہوتے ہیں ۔ بڑے بڑے سلجھے ہوئے لوگ بھی دیکھیں ان میں خواتین بھی شامل ہیں کہتے ہیں بہت شرمندگی ہوتی ہے ۔
ان بچوں کا بڑوں کی چال میں عجیب سی لڑکھڑاہٹ ہوتی ہے جیسے ڈانس کر رہے ہوں ۔
یہ آٹزم کا شکار ہوجاتے ہیں خاص طور پر تب جب ان کو ڈانٹ ڈپٹ پڑے یا سزا دی جائے ۔ ظاہر ہے سکول میں اپنی عجیب و غریب حرکتوں کی وجہ سے یہ پیچھے رہتے ہیں اسلئے ان کو اکثر سزا اور ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اور چونکہ ان کی علامات اور جذبات میں سزا اور ڈانٹ ڈپٹ میں اضافہ دیکھا گیا ہے اسلئے ان پر ایب نارمل بچوں کا لیبل لگتا چلا جاتا ہے ۔ ایک بچی کو سکول میں میڈم نے تھپڑ مار دیا بچی کو اسی وقت جھٹکے لگنے شروع ہوگئے۔
ان بچوں کی ایک خاص علامت یہ بھی ہے کہ غصے میں ان کے اندر اتنی انرجی آجاتی ہے کہ دو چار بندوں سے بھی نہیں سنبھالے جاتے اور کنٹرول سے باہر ہوجاتے ہیں اس لئے ان کے عزیز رشتہ دار اور والدین یہ سمجھتے ہیں ان کو جن آگئے ہیں ۔ غصہ میں سنبھالے اور پکڑے نہیں جاتے اور کنٹرول سے باہر ہوکر بھاگ جاتے ہیں اور ان کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی ہے یہ روڈ یا کوئی خطرناک جگہ ہے جس سے ان کی جان کو خطرہ بھی ہوسکتا ہے ۔
یہ بچے جب بڑے ہوتے ہیں تو عام پھنسی دانہ کو بھی کینسر بنا لیتے ہیں ۔
طاقت ۔ ہزار اور اوپر کی طاقتیں
31/05/2024
(آٹزم سیریز)ایتھوزا
ڈاکٹر حسین قیصرانی
سب سے اہم علامت یہ ہے کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو کچھ عرصہ کے بعد دودھ الٹ دیتا ہے ۔ بچہ دودھ پیتا ہے دودھ معدہ میں گرم ہوتا ہے الٹ دیتا ہے اور پھر بے سدھ پڑا رہتا ہے اور پھر دودھ پینے کیلئے تیار ہوتا ہے ۔ دودھ بہت بدبودار اور اکثر دہی کی طرح پھٹیاں بھی بن جاتی ہیں ۔ بچہ دودھ پیتا ہے اور پیتا چلا جاتا ہے اور معدہ قبول نہیں کرتا جس سے ملک الرجی کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ۔ اسطرح دودھ پر دودھ تبدیل ہوتے ہیں لیکن بچہ دودھ کو ہضم نہیں کرسکتا اور بعض اوقات بچہ اس صورتحال میں اسقدر آگے چلا جاتا ہے کہ اسے ڈائیریا ہوجاتا ہے ۔ ایسی صورتحال میں بچہ اسقدر کمزور ہوجاتا ہے کہ دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ بچہ بہت تکلیف اور کمزوری میں ہے ۔ اگر بچہ بچ جائے تو متواتر ادویات اور دودھ کی تبدیلی سے کچھ عرصہ تک کشمکش چلتی ہے اور کچھ نہ کچھ گزارا ہوجاتا ہے لیکن بچہ بہت کمزور ہوچکا ہوتا ہے اور قوت مدافعت بہت کمزور ہو چکی ہوتی ہے ۔ دودھ کی الرجی کیساتھ جب بات تھوڑی آگے بڑھتی ہے تو فوڈ کی اور الرجیز بھی آنا شروع ہوجاتی ہیں۔ پیٹ خراب رہتا ہے کمزوری رہتی ہے جو کچھ کھاتا ہے وہ ہضم نہیں ہوتا ۔ گلوٹن اور گندم سے الرجی کی شکایات آنا شروع ہوجاتی ہیں ۔ المختصر کہ بچہ معدہ کے امراض میں مبتلا رہتا ہے ۔ اسے کسی موڑ پر ایتھوزا دے دی جائے تو اس کی زندگی میں واضع تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں۔ اگر ایتھوزا نہ ملے تو بچہ جب بڑا ہوتا ہے اور متواتر دواؤں کے زیر اثر متواتر کمزوری ، ہر وقت یہ سوچنا کہ یہ دینا ہے یہ نہیں دینا ، یہ کھانا چاہئے یہ نہیں کھانا چاہئے ، بچہ اسطرح کھیل کود نہیں سکتا اور معاشرے سے کٹتا چلا جاتا ہے ۔
ایسا ہوتا کیوں ہے ؟
سب سے پہلے بچے کو Detached Feeling آتی ہے ۔ مثال کے طور پر والدین دونوں میں سے ایک کہیں شفٹ ہوجاتا ہے جیسے والد ساتھ تھے پھر وہ اپنے کام پر شہر سے باہر چلے گئے یا والدہ نے پیدائش کے بعد اپنی روٹین کی جاب شروع کی تو بچے کو یہ تبدیلی سمجھ نہیں آتی کیونکہ وہ اس ساری صورتحال میں اپنے آپ کو ڈسٹرب پاتا ہے اچانک ایک ماحول سے دوسرے ماحول میں آتا ہے اور والدہ یکدم سارے دن کیلئے باہر چلی جاتی ہے اور بچے کو کوئی اور سنبھالنا شروع کرتا ہے اور جب ماں سارا دن جاب پر گزار کر گھر آتی ہے تو بچہ زیادہ سے زیادہ دودھ پینے کی کوشش کرتا ہے حقیقت میں وہ محبت لے رہا ہوتا ہے اور وہ چاہ رہا ہوتا ہے کہ وہ Attach رہے اور اس لگاؤ میں وہ اتنا زیادہ دودھ پی جاتا ہے کہ کنٹرول نہیں کر پاتا اور یہی وہ وجہ ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ دودھ پینا چاہتا ہے ۔
جب بچہ تھوڑا اور بڑا ہوتاہے تو وہ ایک غم کے ماحول میں چلاجاتا ہے اور دوسرے بچوں سے کٹتا چلا جاتا ہے اور اسے جانوروں کیساتھ محبت ہونا شروع ہوجاتی ہے ۔ اگر خود سے کھیلے گا یا ڈرائینگ وغیرہ کرے گا تو وہ بہت دھیمے انداز میں کرتا ہے کوئی ایکٹیو نہیں ہوتا ۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو فیل کرتا ہے ، ہرٹ ہوتا ہے ، اپنے جذبات کا صحیح طرح سے اظہار نہیں کر پاتا ، اس کے اندر یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ اس کے جذبات کو صحیح طرح سے سمجھا ہی نہیں جا سکتا ۔
یہاں مجھے ایک چھوٹی بچی کا کیس یاد آرہا ہے اس کی والدہ نے بتایا کہ وہ جب تک گھر کے اندر رہتی ہے تو کسی سے بات نہیں کرتی جیسے دوسرے بچوں کی طرح ٹی وی ڈراموں میں گھسے رہتے ہیں لیکن وہ بس اپنی ڈرائینگ بتاتی رہتی ہے ۔ ہم نے اس کے اسرار پر گھر کے پاس باڑا بنایا ہوا ہے اور سخت گرمی میں اپنے کسی جانور کو دیکھ رہی ہے کبھی کسی کو اور انسے باتیں بھی کرتی ہے ۔ گھنٹوں بیٹھ سکتی ہے اور سردی اتنی زیادہ ہوتی ہے ہم باہر نہیں نکل سکتے یہ جانوروں کیساتھ باتیں کررہی ہوتی ہے کہ تمہیں سردی تو نہیں لگی اور ایسے باتیں کررہی ہوتی ہے جیسے اس کے دوست ہوں مگر گھر میں کسی سے بات تک نہیں کرتی۔ کیس ٹیکنگ کے دوران پتہ چلا کہ بچی کی پیدائش کے بعد ان کے والد ملک سے باہر چلے گئے تھے اور والدہ کی طبیعت خراب رہنے لگی تو بچی کو نانی نے پالا ۔ اس کیفیت میں بچی کو ملک الرجی ہوگئی تھی پھر گندم الرجی کے حوالے سے انہوں نے کیس ڈسکس کیا تو پتہ چلا کہ وہ ایتھوزا کیس تھی ۔ وہ بچی Introvert تھی اسے ایتھوزا کے بچوں کی طرح یہ احساس تھا کہ ماں باپ مجھ سے وہ پیار نہیں کرتے جو باقی چیزوں یا دوسرے بچوں سے کرتے ہیں۔ اور وہ جانوروں سے اسلئے پیار کرتے ہیں کہ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں جانور بھی دکھی ہیں اور ہم بھی دکھی ہیں اسلئے وہ جانوروں کو اپنا ہمراز سمجھتے ہیں۔ ان کو واضع اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ انسان ان کے جذبات کو سمجھ نہیں سکتے ۔
افکار علوی سرائیکی شاعر ہیں ان کی ایک مشہور نظم ہے مرشد اس میں ایک شعر ہے
انسان میرا درد سمجھ سکتے ہی نہیں
میں اپنے سارے زخم خدا کو دکھاؤں گا
شاعر کی یہ کیفیت ان کے اندر آجاتی ہے اسلئے وہ انسانوں سے کٹنا شروع ہوجاتے ہیں وہ کسی سے بات نہیں کرتے نہ سکول میں نہ گھر میں بلکہ اپنے آپ سے باتیں کرنا ، چپ رہنا ، گم سم رہنا یہ کیفیت انہیں اس لیول میں لے جاتی ہے کہ یہ نارمل بچے نہیں ہیں ۔ حالانکہ ان بچوں کا مسئلہ صرف اتنا ہی ہوتا کہ وہ اپنے خیالات کا کھل کر اظہار نہیں کرسکتے اس وجہ سے والدین ، فیملیز ، سکول ، کزن ، رشتہ دار ان کو لیبل کرنا شروع کردیتے ہیں ۔
فوبیاز ، ڈر ، وہم
اور پھر ان کے فوبیاز ایسے ہوتے ہیں جو ان کی طبیعت کو مزید خراب کرتے ہیں ۔ ان کا سب سے بڑا وہم ہوتا ہے کہ ان کے آس پاس چوہے ہیں ۔ جیسے بیڈ کے نیچے چوہے ہیں اس کونے میں چوہا ہے ادھر چوہا ہے اور ان کو چوہے نظر بھی آتے ہیں اور یہ چیختے ہیں روتے ہیں ۔ یہ سب تب ہوتا ہے جب یہ آٹسٹک فیز میں چلے جاتے ہیں عام حالات میں یہ کہتے ہیں کہیں چوہا تو نہیں ہے وغیرہ ۔ چوہا بلی اور کتے ان تین چیزوں سے ان کو لگتا ہے کہ کوئی گڑ بڑ ہے باقی جانوروں سے انہیں کوئی اتنا مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ دوسرے جانوروں کیساتھ یہ اچھا فیل کرتے ہیں ۔
یہ بچے رات کو دیر تک سوتے نہیں ہیں ان کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ اگر یہ سوئے تو ان کی موت واقع ہوجائے گی ۔ ایسے بچے رات دیر تک آنکھیں کھولے یونہی پڑے رہتے ہیں ۔
ان کو ایک اور وہم بھی ہوتا ہے کہ دم گھٹنے سے میری موت واقع ہوجائے گی ۔ رات 3 سے 4 بجے بھی ان کی نیند بھی ڈسٹرب ہوتی ہے جس میں کھانسی الٹی یا دم گھٹنا یا کوئی بھی تکلیف ہوسکتی ہے ۔
آنکھیں بند کرنے سے بھی ان کو ٹھیک ٹھاک مسئلہ ہوتا ہے کہ جیسے کوئی گڑ بڑ ہوجائے گی۔
درج بالا فوبیاز کی وجہ سے یہ معاشرے اور فیملی سے کٹتے چلے جاتے ہیں جیسے کسی فنکشن میں یا برتھ ڈے کے فنکشن میں یہ اعلان ہوگا کہ ان کو فوڈ الرجی ہے ان کو یہ چیز نہیں دینی ، کمزور تو وہ پہلے سے ہوتے ہیں ، بول وہ سکتے نہیں ، ان میں مایوسی ہوتی ہے لیکن پیار کی نہیں ہوتی بلکہ ان کو دنیا سے رشتہ داروں سے دکھ پہنچنے کا کہ انکی اس طرح کیئر نہیں کی جاتی ، ان باقی بہن بھائیوں کی طرح نہیں دیکھا جاتا ، ان کے دکھ درد کو سمجھا نہیں جاتا ۔
ایتھوزا بہت بڑی دوا ہے یہ ہر گھر میں ہونی چاہئے جہاں بچے دودھ الٹنا شروع کردیں وہاں اس دوا کی 200 پوٹنسی دن میں 3 بار دینے سے دودھ سے الرجی نہیں ہوگی۔ اور بعد کے معاملات جو آنے ہیں وہ نہیں آئیں گے ۔ اور ہوسکتا ہے الرجی کی وجہ سے ہائیپو یا پائیپر تھائیراڈزم کی طرف بھی چلے جائیں ۔
Be the first to know and let us send you an email when Haq Homoeo Clinic posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.