Al-Nawaz Hospital,Sadiqabad

Al-Nawaz Hospital,Sadiqabad Al-Nawaz Hospital is located at Daras Hakeem Sher Muhammad in Sadiqabad. The Hospital provides moder

سوال: بچے کو ماں کا دودھ پلانے سے ماں کو کیا فائدے ہوتے ہیں؟جواب:ماں کا دودھ صرف بچے کے لیے مکمل اور قدرتی غذا ہی نہیں ب...
04/06/2025

سوال: بچے کو ماں کا دودھ پلانے سے ماں کو کیا فائدے ہوتے ہیں؟

جواب:

ماں کا دودھ صرف بچے کے لیے مکمل اور قدرتی غذا ہی نہیں بلکہ ماں کی جسمانی، ذہنی اور جذباتی صحت کے لیے بھی بے شمار فوائد کا باعث بنتا ہے۔ جدید سائنسی تحقیق کے مطابق، دودھ پلانے سے ماں کو درج ذیل طبی و نفسیاتی فوائد حاصل ہوتے ہیں:

1. خون کا بہاؤ (Postpartum Bleeding) کم ہو جاتا ہے:

ڈلیوری کے فوراً بعد بچہ دودھ چوسنا شروع کرتا ہے، جس سے ماں کے جسم میں آکسی ٹوسن (Oxytocin) ہارمون کی مقدار بڑھتی ہے۔ یہ ہارمون رحم کو سکڑنے میں مدد دیتا ہے، جس کے نتیجے میں رحمی خون بہنا جلد رک جاتا ہے اور بچی ہوئی پلیسنٹا کے ٹکڑے باہر نکل جاتے ہیں۔

2. بریسٹ کینسر اور اووری کینسر کا خطرہ کم ہوتا ہے:

تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ جو خواتین اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں، ان میں بریسٹ کینسر اور اووری کینسر کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ دودھ پلانے سے ہارمونی توازن بہتر ہوتا ہے، اور خطرناک خلیات کے بڑھنے کی رفتار کم ہوتی ہے۔

3. ہڈیوں کی صحت بہتر رہتی ہے:

دودھ پلانے کے دوران کیلشیم عارضی طور پر کم ہو سکتا ہے، لیکن جیسے ہی ماں دودھ پلانا بند کرتی ہے، ہڈیوں میں کیلشیم کی بھرپائی تیز رفتاری سے ہوتی ہے، جس سے مستقبل میں آسٹیوپوروسس (ہڈیوں کی کمزوری) کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔

4. وزن میں قدرتی کمی:

دودھ پلانا ایک توانائی طلب عمل ہے۔ روزانہ تقریباً 500 کیلوریز دودھ بنانے میں خرچ ہوتی ہیں، جس سے حمل کے دوران بڑھا ہوا وزن تیزی سے کم ہونے لگتا ہے — بغیر کسی سخت ڈائٹ یا ورزش کے۔

5. قدرتی مانع حمل (Natural Birth Spacing):

دودھ پلانے سے ماں کے جسم میں ہارمونز اس طرح متاثر ہوتے ہیں کہ ovulation (بیضہ بننے کا عمل) کچھ عرصے کے لیے رک جاتا ہے۔ خاص طور پر اگر ماں صرف دودھ پلائے اور بچے کو کوئی اور خوراک نہ دے، تو یہ قدرتی مانع حمل کا کام کرتا ہے۔

6. نفسیاتی صحت میں بہتری:

دودھ پلانے سے ماں کے دماغ میں آکسی ٹوسن اور پرولیکٹن جیسے ہارمونز بڑھتے ہیں جو پیار، سکون اور ذہنی راحت کا باعث بنتے ہیں۔ اس سے ڈپریشن اور اینزائٹی (اضطراب) سے بچاؤ میں مدد ملتی ہے — خاص طور پر "Postpartum Depression" سے۔

7. پیشاب کی نالی کے انفیکشن (UTIs) کا خطرہ کم:

بعض مطالعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دودھ پلانے والی خواتین میں پیشاب کی نالی کے انفیکشنز کی شرح نسبتاً کم ہوتی ہے، کیونکہ ان کا مدافعتی نظام بہتر حالت میں ہوتا ہے۔

8. انیمیا (خون کی کمی) کا خطرہ کم:

چونکہ دودھ پلانے سے حیض (ماہواری) کا عمل کچھ عرصے کے لیے رک سکتا ہے، اس سے آئرن کی مقدار محفوظ رہتی ہے، اور یوں انیمیا کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔

9. بلڈ پریشر اور دل کی بیماریوں کا خطرہ کم:

دودھ پلانے والی خواتین میں ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس اور دل کی بیماریوں کا خطرہ کم ہوتا ہے، خاص طور پر اگر وہ طویل عرصہ تک دودھ پلاتی رہیں۔

ماں کا دودھ پلانا ایک قدرتی عمل ہے جو ماں اور بچے دونوں کے لیے جسمانی، جذباتی اور ذہنی صحت کے اعتبار سے بے حد مفید ہے۔ یہ ایک ایسی نعمت ہے جو نہ صرف بچے کو بیماریوں سے محفوظ رکھتی ہے بلکہ ماں کی زندگی کو بھی صحت مند اور خوشگوار بناتی ہے

28/05/2025

پولیو کا خطرہ اب بھی باقی ہے، لیکن ہم سب مل کر اس کا خاتمہ کر سکتے ہیں!
اپنے بچوں کو اس خطرناک بیماری سے بچانے کے لئے انھیں ہر مہم میں 2 قطرے پولیو ویکسین کے لازمی پلوائیں جب تک وہ 5 سال کے نہ ہو جائیں۔ آئیے، ہمارے بچوں کے لیے ایک صحت مند، خوشحال پاکستان کو یقینی بنائیں۔

20/01/2025
Flagyl ka be-Jaa istimal!!
10/01/2025

Flagyl ka be-Jaa istimal!!

اکثر والدین ہم سے ایک سوال پوچھتے ہیں کہ جب ان کے بچے باہر پیشاب کرتے ہیں تو انہیں پیشاب پر چیونٹیاں نظر آتی ہیں.. کیا ی...
06/01/2025

اکثر والدین ہم سے ایک سوال پوچھتے ہیں کہ جب ان کے بچے باہر پیشاب کرتے ہیں تو انہیں پیشاب پر چیونٹیاں نظر آتی ہیں.. کیا یہ ذیابیطس یا پھر گردے کی بیماری کی علامت ہے یا کچھ اور؟
آئیے اس کا سائنسی جواب دیکھتے ہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ اگر آپ کا بچہ معمول کے مطابق گروتھ کر رہا ہے، اسکا وزن بڑھ رہا ہے، اس کی پیاس نارمل اور پیشاب کرنے کی روٹین نارمل ہے تو یہ ذیابیطس کی علامت نہیں ہے، اس لیے بالکل پریشان نہ ہوں اور کسی ٹیسٹ کی ضرورت نہیں۔ پھر سوال ہوتا ہے کہ اگر یہ ذیابیطس یا شوگر نہیں ہے تو چیونٹیاں بچوں کے پیشاب کی طرف کیوں راغب ہوتی ہیں؟
درحقیقت ہمارے پیشاب میں شوگر کے علاوہ اور بھی بہت سے کیمیکل ہوتے ہیں جیسے یوریا، پروٹین اور دیگر چیزیں جو ہماری خوراک پر منحصر ہوتی ہیں ۔یہ تمام کیمکلز ھمارے پیشاب میں آسکتے ہیں اور کم و بیش موجود ہوتے ہیں۔ان کاہونا ذیابیطس یا شوگر کی علامت ہرگز نہیں۔چیونٹیاں ان کیمکلز کی طرف راغب ہوتی ہیں اور جب بھی کوئ بچہ یا بڑا باہر کھلی جگہ پیشاب کرے گا تو آپکو اس پر نظر آٸیں گی ۔

ایک سوال کا جواب کہ ڈاکٹرز فارمولا کیوں نہیں لکھتے۔* Omeprazole  :یہ ایک دوائی ہے جو معدے کی تیزابیت کو کم کرنے کے لیے ا...
31/12/2024

ایک سوال کا جواب کہ ڈاکٹرز فارمولا کیوں نہیں لکھتے۔

* Omeprazole :

یہ ایک دوائی ہے جو معدے کی تیزابیت کو کم کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اس ایک دوائی کو پاکستان میں بہت ساری کمپنیاں مختلف ناموں سے بیچ رہی ہیں۔ آپ یہی ایک دوائی مختلف ناموں سے ساتھ منسلک تصاویر میں دیکھ سکتے ہیں۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں ان میں آپ کو کون سی خریدنی چاہیے؟

ترقی یافتہ ممالک میں یہ ہوتا ہے کوئی بھی دوائی سخت چیکنگ کے بعد مارکیٹ میں آتی ہے تو آپ کسی بھی کمپنی کی لے لیں، تھوڑا سا اثر کم یا زیادہ ہو گا لیکن فائدہ سب سے ہو گا۔ پاکستان یا دیگر غیر ترقی یافتہ ممالک میں کوالٹی کو پرکھا نہیں جاتا تو بہت سی دوائی بنانے والی کمپنیاں سستی اور فضول دوائی بنا کر بیچ رہی ہیں، جن میں اصل دوائی بس برائے نام ہی ہوتی ہے، وہ دوائی لے کر کھا بھی لیں تو اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ طے کرنا کہ آپ کو کس کمپنی کی دوائی لینی ہے، بہت اہم ہوتا ہے۔

اگر ڈاکٹر کمپنی کے دیے گئے نام کے بجائے، اس میں موجود دوائی کا نام پرچی پر لکھ کر دیں گے تو یہ اختیار میڈیکل سٹور والے کو مل جائے گا کہ وہ کس کمپنی کی دوائی دے اور ان کو یہ اختیار ملنا چاہیے یا نہیں، اس کا فیصلہ آپ تحریر کے آخر میں خود کر لیجیے گا۔

عام انسان یہ طے نہیں کر سکتا کہ وہ یہ دوائی کس نام سے لے کیوں کہ اسے نہیں پتا کس کمپنی کی دوائی زیادہ اچھی ہو گی۔ اس لیے اسے بھروسہ کرنا پڑے گا ڈاکٹر پہ یا میڈیکل سٹور والوں پہ۔ میرا خیال یہ ہے کہ مریض کو ڈاکٹر پہ بھروسہ کر کے اس کی بتائی دوائی لینی چاہیے۔ (آپ کو مجھ سے اختلاف ہو سکتا ہے)

اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر جانتا ہے، کون سی دوائی کس مریض کے لیے کتنی ضروری ہے۔ اگر مریض ٹھیک دوائی نہیں لے گا تو اسے کتنا نقصان ہو گا۔ کس دوائی کا کیا اثر ہونا ہے اور کیا نہیں۔ ڈاکٹر کو پتا ہے کہ میں نے مریض کا علاج کرنا ہے اور اس کا علاج کتنا ضروری ہے۔ عام میڈیکل سٹور والا یہ سب نہیں جانتا، اس لیے کم علمی کی وجہ سے اس کا مشورہ قابل بھروسہ نہیں۔

کچھ کمپنیاں اچھی دوائی بناتی ہیں اور اس کی قیمت رکھتی ہیں دو سو روپے، میڈیکل سٹور والے کو وہ دوائی ایک سو پچاس میں ملتی ہے، اب اسے وہ دوائی بیچنے سے پچاس روپے کا فائدہ ہو گا۔
کچھ کمپنیاں بری دوائی بناتی ہیں اور اس کی قیمت رکھتی ہیں ایک سو ستر روپے، میڈیکل سٹور والے کو یہ دوائی صرف پچاس روپے میں مل جاتی ہے۔ اب اسے ایک ڈبی بیچنے سے ایک سو بیس روپے کا فائدہ ہو گا۔

اس کے خیال میں دونوں میں دوائی تو ایک ہی ہے، تو وہ آپ کو دوائی دے گا ایک سو ستر والی اور آپ پہ احسان بھی چڑھائے گا کہ اس نے آپ کی بچت کروا دی۔ حالانکہ درحقیقت آپ کا شدید نقصان ہو گیا۔

کچھ ڈاکٹرز اپنی فارمیسی بناتے ہیں اور اس میں دوائیاں رکھتے ہیں تاکہ ان کی مریضوں کے ساتھ فارمیسی سے بھی کمائی ہو سکے۔ اب اگر وہ اپنی فارمیسی پہ دو سو والی اچھی دوائی دے رہے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر وہ وہی میڈیکل سٹور والا کام کریں گے کہ فضول دوائی ایک سو ستر میں دے دیں تو ظلم کریں گے، جرم کریں گے۔

اب اگر کوئی دوائی ہو جس کا فائدہ دو سو والی دوائی کے برابر ہو اور اس کی قیمت تین سو رکھی ہوئی ہو اور ڈاکٹر یا میڈیکل سٹور والا پھر بھی مہنگی دوائی لکھ کر دے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ دونوں کا اثر برابر ہونا ہے تو بھی یہ ظلم ہو گا، جرم ہو گا۔

ہر دوائی بنانے والی کمپنی مشہوری کے لیے بندے رکھتی ہے، جن کا کام یہ ہے کہ وہ اس کمپنی کی دوائی بیچنے میں اہم کردار ادا کریں۔ ان بندوں کو فارما ریپ کہا جاتا ہے۔ یہ ڈاکٹرز کو بھی لالچ دیتے ہیں اور میڈیکل سٹور والوں کو بھی لالچ دیتے ہیں۔ ڈاکٹرز کو لالچ یہ دیا جاتا ہے کہ انھیں مہنگے گفٹس دے دیے جاتے ہیں یا دوسرے ممالک کے دورے کروا دیے جاتے ہیں۔ میڈیکل سٹور والوں کے لیے لالچ یہ ہوتا ہے کہ دوائی انھیں انتہائی کم قیمت پہ مل جائے اور ان کا منافع بہت زیادہ ہو جائے۔ آپ یقین کریں گے ایسی دوائیاں بھی موجود ہیں جن کی ڈبی پہ قیمت پانچ سو روپے لکھی ہوتی ہے اور وہ میڈیکل سٹور والوں کو پینتیس روپے کی مل جاتی ہیں۔ اب یہ والی دوائی کتنا فائدہ دے سکتی ہے، اس کا اندازہ آپ خود ہی لگا لیجیے۔

یہ جو غلط دوائی بکتی ہے، اس ناجائز کام میں یہ تینوں حصہ دار ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر، میڈیکل سٹور اور فارما ریپ والے۔ لیکن وہی بات کہ سب برے نہیں ہوتے، ان تینوں میں ہی بہت سے اچھے لوگ موجود ہیں۔

کچھ ڈاکٹرز ایسی لکھائی میں دوائی لکھتے ہیں جو صرف ان کی فارمیسی سے ملے، یہ ناجائز حرکت ہے۔ کچھ میڈیکل سٹور والے یہ کرتے ہیں کہ پرچی پہ لکھی ہوئی دوائی کے بجائے وہی دوائی کسی اور کمپنی کی دے دیتے ہیں، جس سے انھیں زیادہ فائدہ ہو رہا ہوتا ہے، یہ بھی ناجائز حرکت ہے۔

اب اگر آپ ڈاکٹر پہ بھروسہ کر سکتے ہیں تو جو دوائی اس نے لکھ کر دی ہے، میڈیکل سٹور سے وہی دوائی لیجیے، اسی نام سے۔ وہ کسی اور نام سے دوائی دے تو اسے واپس کر دیں۔ اگر آپ میڈیکل سٹور والے پہ بھروسہ کر سکتے ہیں تو اس سے پوچھ لیجیے کہ آپ کو یہ دوائی کس نام سے لینی چاہیے۔

میرے خیال میں آپ کو کرنا یہ چاہیے کہ اگر کوئی ڈاکٹر جناتی لکھائی میں دوائی لکھ کر دے، جس کی کسی کو سمجھ نہ آ رہی ہو تو ڈاکٹر کو وہیں ٹوک دیجیے اور ان سے کہیے کہ کچھ صاف لکھائی میں دوائی لکھ کر دیں۔ اگر وہ آپ کی بات نہیں مانتے تو ان کا بائیکاٹ کیجیے اور ان کے بجائے کسی اور ڈاکٹر سے علاج کروا لیجیے۔

میڈیکل سٹور پہ جائیں تو اس سے دوائی لے کر یقینی بنائیں کہ اس نے وہی دوائی دی ہے، جو پرچی پہ لکھی ہوئی ہے۔
پہلے والی بات دہراؤں گا کہ میرے خیال میں آپ کو ڈاکٹر پہ ہی بھروسہ کرنا چاہیے کیونکہ آپ کا علاج وہی کر رہا ہے اور وہی علم رکھنے والا ہے۔ اور ڈاکٹرز اگر اخلاقی اور انسانی اقدار کی پرواہ نہ بھی کریں تو وہ یہ ضرور چاہیں گے کہ ان کی دوائی سے مریض ٹھیک ہو جائے کیونکہ مریض ٹھیک نہیں ہو گا تو ان کی اپنی ریپوٹیشن بھی خراب ہو گی، مریض ان کے پاس آنا چھوڑ دیں گے۔ اس لیے وہ ضروری دوائی ٹھیک لکھ کے دینے پہ مجبور ہیں۔
باقی آپ میری بات نہ ماننا چاہیں تو آپ کی مرضی، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔

اس سب کے علاوہ ایک بہت بڑا مسئلہ جعلی ادویات کی خرید و فروخت ہے۔ اس دو نمبری میں مکمل طور پہ میڈیکل سٹورز والے ہی شامل ہوتے ہیں جو جعلی کمپنیوں سے جعلی ادویات لیتے ہیں اور ان کی معمولی سی قیمت ادا کر کے انھیں اصل قیمت پہ بیچتے ہیں۔ جس ملک میں سرخ مرچوں میں اینٹوں کو بورا شامل کر کے بیچ دیا جائے، وہاں دوائی کے نام پہ کیا کیا نہیں کھلایا جا سکتا۔ دوائی میں تو ذائقہ اور رنگ کا خیال رکھنے کی بھی کوئی شرط نہیں۔ لیکن خیر یہ موضوع چونکہ مقبول بیانیہ نہیں، اس لیے اس پہ کوئی بات نہیں کرتا۔

(یہ جو لوگ کمنٹس میں آ کر مجھے بتانے لگ جاتے ہیں کہ فلاں ڈاکٹر اتنا برا ہے اور فلاں اتنا برا، ان سے عرض ہے کہ ہوش کے ناخن لیا کریں اور تحریر کا مدعا سمجھ لیا کریں۔ میں نے سب ڈاکٹرز کا ٹھیکہ نہیں اٹھایا ہوا، نہ ہی میں ان سب کو ڈیفنڈ کر رہا ہوں۔ جو برے ہیں، مجھے بھی ان سب سے شدید نفرت ہے اور میں بھی انھیں برا ہی سمجھتا ہوں۔ میں آپ کو صرف بنیادی معلومات دینے کی کوشش کر رہا ہوں۔ آپ کو یقین نہیں کرنا تو نہ کیجیے لیکن بحث سے گریز کیجیے۔ آپ کو ڈاکٹرز سے نفرت ہے تو ان کے پاس مت جائیے لیکن ان کے خلاف اپنا بغض کہیں اور جا کر نکالیے۔)

اس بچے کو کھانسی اور سینے میں جکڑن کی شکایت کے ساتھ ہمارے ہسپتال لایا گیا تھا۔جب میں نے اس کی شرٹ کو اوپر کیا تو تصویر م...
25/12/2024

اس بچے کو کھانسی اور سینے میں جکڑن کی شکایت کے ساتھ ہمارے ہسپتال لایا گیا تھا۔
جب میں نے اس کی شرٹ کو اوپر کیا تو تصویر میں دکھایا گیا منظر تھا۔
ماں نے بچے کے سینے پر بھر کر ٹیلکم پاؤڈر لگایا تھا۔
ہم نے ماں کو اس کے مضر اثرات کے بارے میں بتایا اور اسے اگلی بار بچوں کے لیے استعمال نہ کرنے کا مشورہ دیا ۔

اکثر ہم سے یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ کیا ٹیلکم پاؤڈر بچے کے لیے محفوظ ہیں؟
اس کا جواب نہیں ہے.
وجہ یہ ہے کہ بچے انہیں سانس کے زدیعے پھیپھڑوں میں لے سکتے ہیں جس سے پھیپھڑوں کے مسائل جیسے کھانسی، گھرگھراہٹ اور سینے میں جکڑن پیدا ہو سکتی ہے۔

اس لیے تمام والدین کے لیے پیغام ہے کہ بچوں کے لیے ٹیلکم پاؤڈر کے استعمال سے گریز کریں...

07/12/2024

Intralesional Injection is a procedure used to treat a variety of dermatological conditions by injecting the drugs directly into the skin lesion. Some of the conditions treated with intralesional injections include:

Alopecia areata: A condition causing hair loss
Keloid and hypertrophic scars: Excess scar tissue formation.
Discoid lupus erythematosus: A chronic skin condition causing sores
Granuloma annulare: A skin condition causing raised, ring-like lesions
Hypertrophic lichen planus: A chronic inflammatory skin condition
Localized psoriasis: A skin condition causing red, scaly patches
Acne cysts and inflamed epidermoid cysts: Severe forms of acne.
Small infantile hemangiomas: Benign tumors made up of blood vessels.
Cutaneous sarcoidosis: A condition causing small, red bumps on the skin.

Difference in hair density After 3rd session of PRP for hair.PRP.GFRP.Skin Whitening Injections.Mesotherapy.Micro needli...
01/12/2024

Difference in hair density After 3rd session of PRP for hair.

PRP.
GFRP.
Skin Whitening Injections.
Mesotherapy.
Micro needling.

For appointment :Call or Whatsapp on 03077972948

27/08/2024

Address

Sadiqabad

Opening Hours

Monday 09:00 - 23:00
Tuesday 09:00 - 23:00
Wednesday 09:00 - 23:00
Thursday 09:00 - 23:00
Friday 09:00 - 23:00
Saturday 09:00 - 23:00
Sunday 09:00 - 23:00

Telephone

+923006745358

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Al-Nawaz Hospital,Sadiqabad posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Al-Nawaz Hospital,Sadiqabad:

Share

Category