Abdul Nasir Jakhrani

Abdul Nasir Jakhrani Abdul Nasir Jakhrani Is an Educationist and Social Activist 📕🎓

09/05/2025

آغا خان یونیورسٹی
فضائی اور ڈرون حملوں سے تحفظ

پناہ لیں

آپ کو ایسی جگہ پناہ لینی چاہیے جو زیر زمین ہو جیسے تہہ خانے یا سب وے ٹنل۔ ترجیحاً ایسی دیوار کے قریب رہیں جس میں کھڑکیاں یا شیشہ نہ ہو، لیکن دیوار سے ٹیک نہ لگائیں کیونکہ زوردار جھٹکا یا دھماکہ نقصان دے سکتا ہے۔

اگر آپ باہر ہوں تو قریبی عمارت میں چلے جائیں۔

اگر زیر زمین پناہ گاہ دستیاب نہ ہو تو کسی عمارت کے نچلے حصے میں پناہ لیں۔

کھڑکیوں سے دور رہیں۔ کھڑکیوں کو پلاسٹک شیٹ اور ٹیپ سے ڈھانپ دیں۔

کھلے مقام پر پناہ لینا

اگر کوئی عمارت دستیاب نہ ہو تو زمین کی سب سے نچلی جگہ، جیسے نالی یا کھڈا، تلاش کریں اور لیٹ جائیں۔

چونکہ بم کے ٹکڑے اوپر کی طرف اڑتے ہیں، اس لیے زمین کی نچلی سطح سب سے زیادہ محفوظ ہے۔

منہ کے بل لیٹ جائیں اور اپنے بازوؤں میں سر چھپا لیں۔

دیگر حفاظتی اقدامات

دھماکے کے دوران اپنے جسم کو کسی غیر آتشگیر کپڑے سے ڈھانپیں۔ اگر کچھ نہ ہو تو جیکٹ، اخبار یا کوٹ بھی مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

آنکھیں بند رکھیں تاکہ ملبہ آنکھوں میں نہ جائے۔

منہ کو تھوڑا سا کھلا رکھیں تاکہ دھماکے سے ہونے والی چوٹ سے پھیپھڑے محفوظ رہیں۔

---

کریں:

گھر میں سب سے محفوظ کمرہ چنیں، جیسے باتھ روم جو مضبوط ہوتے ہیں اور کھڑکیاں کم ہوتی ہیں۔

پلاسٹک شیٹ اور ٹیپ تیار رکھیں تاکہ کھڑکیوں پر لگا سکیں۔

میز، گدے اور کتابوں سے عارضی پناہ گاہ بنائیں۔

زمین پر لیٹ جائیں، ہاتھوں سے سر ڈھانپ لیں، منہ تھوڑا سا کھلا رکھیں۔

پینے کے پانی (مثلاً باتھ ٹب میں) اور خوراک کا ذخیرہ کر لیں، بجلی اور گیس بند کر دیں۔

---

نہ کریں:

حملے کو مت دیکھیں۔

حملے کی تصاویر مت لیں۔

کھڑکیوں کے قریب پناہ نہ لیں۔

دیوار سے ٹیک نہ لگائیں۔

کھلے میدان میں بڑے گروپ میں اکٹھے نہ ہوں۔

---

ایک معمولی غلطی کو نظرانداز نہ کریں – فوری اطلاع دیں

فائر: 1600 | سیکیورٹی: 1900 | S.I.R.C: 2222

17/04/2025

*نصیراباد ڈویژن – ضلع صحبت پور سفارش کلچر اور بااثر شخصیات کی اثر رسوخ سے بےروزگار نوجوانوں کے ساتھ ظلم و زیادتی جاری ہے۔ سیاسی سفارش اور انتظامیہ کی بے بسی کے تحت کسی غریب شخص کے بیٹے کے میڈیکل سیٹ دوسروں کو دینا انتہائی افسوس کن ہے۔ اور انھیں غیر مقامی کرار دینا انتہائی افسوس کن ہے

ظفر علی ولد جعفر خان جکھرانی نے ایم بی بی ایس کے لیے ٹیسٹ دیا۔ وہ ضلع صحبت پور تحصیل فرید آباد یونین کونسل ٹھل گوٹھ ہمت علی جکھرانی کا رہائشی ہے۔ وہ ساتویں نمبر پر آیا ہوا تھا، مگر اسے غیر لوکل قرار دے دیا گیا۔ یہ ناانصافی ہے۔ ۔ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والا بچہ جب محنت اور دل کی لگن سے تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو حکومت بلوچستان کا یہی حال ہے۔ جس کے تحت کسی سیاسی سفارش کے تحت کسی اور کو مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جو حق دار ہے وہ مایوس رہے اور اس کے والدین محنت مزدوری کر کے اپنے بچے کو تعلیم حاصل کرواتے ہیں تو پھر غریب عوام کے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا۔ غریب عوام کے حقوق کی حق تلفی کی جا رہی ہے۔

متاثرہ لڑکے اور ورثا نے اعلیٰ حکام اور کمشنر نصیر آباد ڈویژن سے گزارش کی ہے کہ نوٹس لے کر غریب بچے کو حق دلوایا جائے۔ بصورت دیگر احتجاج کیا جائے گا۔۔

جکھرانی اتحاد بلوچستان

سلامت باتے جناب محترم امان اللّٰہ کنرانی صاحب
25/03/2025

سلامت باتے جناب محترم امان اللّٰہ کنرانی صاحب

12/03/2025
11/03/2025
10/03/2025

افغانستان کی شاہی داستان: تخت، تلوار اور بغاوتوں کی گونج

افغانستان—یہ وہ سرزمین ہے جہاں اقتدار ہمیشہ تلوار کی دھار پر رہا۔ جہاں ہر بادشاہ نے تاج پہنا تو ایک ہاتھ میں اقتدار اور دوسرے میں بے رحم بغاوتوں کا خوف تھاما۔ کچھ نے تاریخ میں سنہری الفاظ سے اپنا نام لکھوایا، تو کچھ خون اور سازشوں میں بہہ گئے۔ یہ کہانی ہے افغانستان کے ان بادشاہوں کی، جنہوں نے فتوحات کے پرچم بلند کیے، شکستوں کا سامنا کیا، اور بعض تو اپنے ہی محلوں میں تنہائی کی موت مرے۔

ابتدا: جب افغان بغاوت کی چنگاری بھڑکی (1707 - 1747)

18ویں صدی کے اوائل میں افغانستان صفویوں کے تسلط میں تھا، مگر ایک شخص تھا جسے غلامی قبول نہ تھی۔ میرویس نیکہ—قندھار کا ایک بہادر قبائلی سردار۔ اس نے 1707 میں صفوی حکمرانوں کے خلاف بغاوت کی، اور اپنے ہنر، تدبر اور جنگی مہارت سے قندھار کو آزاد کر لیا۔ یہ آزادی کی پہلی چنگاری تھی، مگر یہ زیادہ دیر تک جل نہ سکی۔ 1715 میں میرویس کی وفات کے بعد، افغان قیادت کمزور ہونے لگی۔ اس کا بیٹا عبدالعزیز خان تخت نشین ہوا، مگر صرف دو سال بعد ہی درباری سازشوں میں مارا گیا۔

پھر ایک اور جنگجو نے میدان سنبھالا—اشرف ہاٹک، جس نے صرف افغانستان ہی نہیں، بلکہ ایران کے تخت پر بھی قبضہ کر لیا۔ اشرف کی حکمرانی نے دنیا کو دکھایا کہ افغان کتنے طاقتور ہیں، مگر قسمت ہمیشہ ایک سی نہیں رہتی۔ 1729 میں ایرانیوں نے جوابی حملہ کیا، اور اشرف ہاٹک تاریخ کے اوراق میں دفن ہو گیا۔

احمد شاہ ابدالی کا عروج: افغان سلطنت کا آغاز (1747 - 1772)

1747 میں قندھار میں ایک تاریخی جرگہ منعقد ہوا، جہاں افغان سردار جمع ہوئے اور ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا جس نے آنے والی صدیوں تک افغانستان کی پہچان بننا تھا—احمد شاہ ابدالی۔ وہ صرف ایک بادشاہ نہیں، بلکہ ایک فاتح تھا۔ اس نے ہندوستان پر نو بار حملے کیے اور 1761 میں پانی پت کی تیسری جنگ میں مرہٹوں کو عبرتناک شکست دی۔ اس کے دور میں افغانستان کی سلطنت وسیع ہو گئی، جو مشرق میں پنجاب سے مغرب میں ایران اور شمال میں بخارا سے جنوب میں بحیرہ عرب تک پھیلی ہوئی تھی۔

مگر اقتدار کا کھیل ظالم ہوتا ہے۔ احمد شاہ ابدالی 1772 میں دنیا سے رخصت ہوا، اور اس کے بعد سلطنت بکھرنے لگی۔

سلطنت کا زوال: سازشوں اور تخت کی جنگ (1772 - 1826)

احمد شاہ کے بعد اس کا بیٹا تیمور شاہ درانی بادشاہ بنا۔ وہ کابل کو دارالحکومت بنانے والا پہلا افغان حکمران تھا، مگر اپنے باپ کی طرح مضبوط نہ تھا۔ 1793 میں اس کی موت کے بعد، اس کے بیٹوں کے درمیان تخت کے لیے خونریز جنگیں چھڑ گئیں۔

زمان شاہ درانی تخت پر بیٹھا، مگر اسے معزول کر دیا گیا۔ اس کے بعد محمود شاہ درانی آیا، مگر اس کی حکومت بھی زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکی۔ شاہ شجاع درانی، جو کبھی بادشاہ بنتا اور کبھی جلاوطنی میں چلا جاتا، آخرکار انگریزوں کے ہاتھوں مارا گیا۔

بارکزئی خاندان کی آمد اور برطانوی مداخلت (1826 - 1879)

1826 میں ایک نیا خاندان اقتدار میں آیا—بارکزئی خاندان، جس کی قیادت دوست محمد خان نے کی۔ وہ انگریزوں اور روسیوں کے درمیان پھنسا رہا۔ 1839 میں انگریزوں نے اس کی حکومت کا تختہ الٹ کر شاہ شجاع کو دوبارہ بادشاہ بنا دیا، مگر افغان عوام نے بغاوت کر دی۔ جلد ہی دوست محمد خان واپس آیا اور 1863 میں طبعی موت تک حکمرانی کی۔

اس کے بیٹے شیر علی خان نے دو بار حکومت سنبھالی، مگر برطانوی حملے کے بعد 1879 میں جلاوطنی میں مر گیا۔

افغانستان میں جدیدیت کی پہلی کوششیں (1880 - 1929)

1880 میں عبدالرحمان خان تخت نشین ہوا۔ وہ سخت گیر بادشاہ تھا، جس نے اپنے مخالفین کو بے دردی سے کچلا۔ اس کے بعد حبیب اللہ خان نے حکومت سنبھالی اور جدید اصلاحات کیں، مگر 1919 میں اسے قتل کر دیا گیا۔

اس کے بعد اس کا بیٹا امان اللہ خان آیا، جو افغانستان کو برطانیہ سے مکمل آزادی دلانے والا پہلا حکمران تھا۔ اس نے تعلیمی اصلاحات، خواتین کے حقوق، اور جدید قوانین متعارف کرائے، مگر قدامت پسندوں نے اس کے خلاف بغاوت کر دی اور 1929 میں اسے معزول کر دیا گیا۔

شاہی خاندان کا زوال اور سیاسی بحران (1933 - 1978)

1933 میں افغانستان میں ایک طویل مدتی استحکام آیا، جب محمد ظاہر شاہ تخت نشین ہوا۔ اس کے دور میں ملک نسبتاً پرامن رہا، مگر 1973 میں اس کا اپنا چچا زاد محمد داؤد خان اسے معزول کر کے جمہوریہ افغانستان کا اعلان کر دیتا ہے۔

یہ ایک نئی ابتداء تھی، مگر افغان تاریخ میں سکون کہاں!

انقلاب، جنگ اور طالبان (1978 - 2001)

1978 میں کمیونسٹ انقلاب آیا اور افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ 1979 میں سوویت یونین نے حملہ کر دیا، اور اگلے 10 سال تک افغان جنگجوؤں (مجاہدین) اور روسی فوج کے درمیان خوفناک جنگ جاری رہی۔

1992 میں سوویت فوج واپس چلی گئی، مگر افغانستان خانہ جنگی میں ڈوب گیا۔ 1996 میں طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا اور سخت قوانین نافذ کیے۔ مگر 2001 میں نائن الیون حملوں کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کر دیا اور طالبان حکومت کا خاتمہ کر دیا۔

افغانستان، ہمیشہ جنگ میں!

افغانستان کی تاریخ ایک مسلسل جنگ کی داستان ہے۔ یہاں ہر بادشاہ نے اقتدار کے لیے جنگ لڑی، کوئی فتوحات کے ساتھ امر ہوا، تو کوئی سازشوں کا شکار ہو گیا۔ آج بھی یہ سرزمین عالمی سیاست اور طاقت کے کھیل کا میدان بنی ہوئی ہے۔

یہ کہانی ختم نہیں ہوئی—یہ تاریخ آج بھی لکھی جا رہی ہے!

عجیب و غریب تاریخ

10/03/2025

صوبہ سرحد (پختونخوا) کا 1937 سے 1946 اور پھر پاکستان بننے کے بعد 1947-48 میں رہنے والے انگریز گورنر جارج کنینگھم نے اپنی ڈاٸری میں (جو برٹش لاٸبریری لندن میں پڑی ہے) لکھا ہے کہ جب 1939 میں یورپ میں دوسری جنگ عظیم شروع ہونے والی تھی تو ہمارے ساتھ بڑی فکر سرحد (پختونخوا) کے قباٸلی علاقوں کی تھی کہ یہاں سے ہماری انڈین سلطنت کے لۓ خطرہ زیادہ ہے اور ہمارے حریف جرمنی اٹلی اور روس ہمارے لۓ مشکلات پیدا کر سکتے ہیں تو ہم نے پختونخوا اور قباٸلی علاقوں کو کنٹرول کرنے کے لۓ سیاسی اسلام کی استعمال کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کے لۓ پشاور سے لیکر وزیرستان تک مختلف علماۓکرام کی پیسوں کے عوض روس کے خلاف فتوے دینے اور عام لوگوں میں جہاد کی تبلیغ کرنے کے لۓ خدمات حاصل کرلی .
مخصوص علماۓ کرام نے مسجدوں میں , اخباروں میں اور گاوں گاوں جا کر پختونوں میں یہ تبلیغ شروع کر لی کہ اگر روس برٹش انڈیا پر حملہ کرتا ہے تو ہم سارے پختون انگریزوں کا دفاع کرینگے جو اہل کتاب ہے اور روس کے خلاف لڑینگے جو ملحد ہیں اور خدا کو نہیں مانتے ۔ جارج کنینگھم لکھتا ہے کہ ایک سال کی محنت کے بعد سارے پختون بیلٹ میں روس کے خلاف جہاد کا جزبہ زوروں پر تھا اور سارے قباٸلی ایجنسیوں سے ملکان صاحبان نے جرگوں اور خطوط کے زریعے نہ صرف روس کے خلاف لڑنے کی یقین دہانی کراٸ بلکہ جنگ کیلۓ بناٸ گٸ وار فنڈ میں بہت پیسے جمع کرواۓ ۔
جارج کنینگھم اگے لکھتا ہے کہ جب جرمنی (ہٹلر) نے سب کو حیران کر کے اچانک روس پر حملہ کیا تو اب ہمارے خلاف جرمنی خطرے کی گھنٹی تھی کہ وہ قباٸلی علاقوں انگریزوں کے لۓ مشکلات پیدا کریگی تو ہم نے اپنے پروپیگینڈے کا روخ روس کی بجاۓ جرمنی پر مرکوز کر دیا اور بہت سے علماۓکرام نے بھی پوچھنا شروع کر دیا کہ اب ہم کس قسم کے فتوے دے کیونکہ انگریزوں کی طرح جرمنز بھی تو اہل کتاب ہیں ۔ گورنر کنینگھم لکھتا ہے کہ کرم ایجنسی کے دورے کے موقع پر میں نے قباٸلی ملکان کے ذھنوں میں یہ بات بیٹھا دی اور یہ مثال دی کہ اگر پاڑہ چنار بازار میں ایک پاگل کتا لوگوں کو کاٹنا شروع کر دے تو اپ یہ معلوم کۓ بغیر کہ کتا کس کا ہے سارے شیعہ اور سنی مل کر اس کتے کو مارتے ہو ۔ اسی طرح اب ہٹلر اور جرمنز اگر چہ اہل کتاب ہے لیکن اس کی مثال باولے کتے کی ہے اور اس کو نقصان پہنچانا مسلمان اور انگریزوں کی مشترکہ مذہبی ذمہ داری ہے ۔
گورنر لکھتا ہے کہ میری یہ مثال صرف کرم ایجنسی نہیں بلکہ پورے قباٸلی بیلٹ میں اگ کی طرح پھیلی اور مذہبی فتوے کی شکل اختیار کر لی اور ہم سارے لکھے اور متعین کردہ علماۓ کرام میں باقاعدگی کے ساتھ پروپیگینڈے کے لۓ پیسے تقسیم کرتے رہے اور وہ جرمنز اور اٹالینز کے خلاف فتوے شایع کرتے رہے اور ہر گاوں میں انگریزوں کے حق اور جرمن مخالف مسلسل کامیابی کے ساتھ تبلیغ کرتے رہے اور یوں قباٸلی علاقے جنگ کے دوران 1939 سے 1945 تک خاموش اور جرمنی کے اثر و رسوخ سے پاک رہےاور نہ کوٸ بہت بڑی مشکل پیش آٸ سواۓ وزیرستان کے فقیر ایپی (حاجی میرزالی خان) کے جنکو انگریز سرکار اخر تک نہ خرید سکی اور نہ ہی خاموش کرا سکی ۔ پورے جنگ کے دوران قباٸلی علاقوں کے لوگ علماۓ کرام کے فتووں اور تبلیغ کے تابع رہی ۔

بہ شکریہ گل مکئ

وراثت صرف جائیداد کی نہیں ہوتی۔نام، کردار، اخلاق، ظرف، تعلقات، فطرت یہ سب بھی وراثت میں جاتے ہیں۔جب والد کی وراثت تقسیم ...
10/03/2025

وراثت صرف جائیداد کی نہیں ہوتی۔
نام، کردار، اخلاق، ظرف، تعلقات، فطرت
یہ سب بھی وراثت میں جاتے ہیں۔

جب والد کی وراثت تقسیم ہو تو سب اولادوں کے حصّے میں جائیداد آ ہی جاتی ہے

مگر نام، کردار، اخلاق، ظرف، تعلقات، فطرت یہ صرف اس طرف سفر کرتے ہیں جو خود کو اس کے قابل بناتا ہے۔

باقی سب بڑے گھر، حویلیاں، زمین، فیکٹری، مِل لے کے دیواروں سے ٹکریں مارتے رہتے ہیں۔

بڑا وہ ہوتا ہے جس کا ظرف بڑا ہوتا ہے۔ کردار بڑا ہوتا ہے۔ عمل بڑا ہوتا ہے۔

ایک کے منہ سے نوالہ چھین کے دوسرے کے منہ میں دینا کوئی بڑائی ہے نا اعلیٰ ظرفی۔

خود کو اپنے والدین کی اصل legacy (وراثت) کا اہل بنائیں جائیداد تو مل ہی جاتی ہے آج کل مراثیوں کے پاس سب سے زیادہ مال و دولت ہے۔ خاندانیت قیمتی ہے۔

Address

Sohbatpur
Sohbatpur

Opening Hours

Monday 02:00 - 15:00
Tuesday 02:00 - 15:00
Wednesday 02:00 - 15:00
Thursday 14:00 - 15:00

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Abdul Nasir Jakhrani posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share