20/10/2024
ہم نے جناب ایسا وقت بھی دیکھا ہے۔۔۔
ایک دن گھر سے چند قدم دور دکان پہ چینی خریدنے گیا، ریٹ کا دکاندار سےپوچھا تو جواب ملا کہ سو روپے کلوہے۔ اس وقت بٹوہ پاس نہیں تھا تو پیسے بھی نہیں تھے،گھر ایا بٹوہ اٹھایا اور دکان پہ واپس گیا۔ ایک کلو چینی خریدنے کا دوکاندار کو کہا، تولنے کے بعد دوکاندار نے چینی مجھے دیا، میں نے اسے اپنے بٹوے سے سو روپے دینے کے لئے اگے کر دئیے اور کہا یہ لو جناب چینی کے پیسے۔ تو دوکاندار نے کہا بیس روپے اور دو۔ میں نے پوچھا بیس روپے کس چیز کا؟ تو اس نے جواباً کہا چینی کا، تو میں نے کہا کہ جناب چینی کے سو روپے تو میں نے دیئے ہیں۔ تو اس نے کہا چینی کے سوروپے نہیں ہیں ایک سو بیس ہے۔ میں نے حیرت سے پوچھا کہ ایک سوبیس کہا سے اگئے؟ ابھی جو پہلی بار میں ریٹ پوچھنے ایا تھا تو اپ نے تو ایک سو روپے کا کلو کہا تھا اب ایک سو بیس کیو؟ تو دکاندار نے کہا جناب اس وقت یہی ریٹ تھا اور ابھی ریٹ تبدیل ہو کے اوپر گیاہے ایک سو بیس پہ، تو اس لئے میں ایک سو بیس مانگ رہاہوں،کیا پتہ شام تک ایک سو پچاس تک نہ پہنچا ہو؟ میں نے پھر سے اعتراض کیا کہ اپ کو تو سستے ریٹ میں ملی ہے اور اپ نے اس ریٹ اور اپنی منافع کے حساب سے تو سو روپے ریٹ مقرر کیا ہے تو پھر میں ایک سو بیس کیودوں؟ تو دکاندار نے جواب دیا کہ اگر میں چینی کی قیمت کو حکومت کے ریٹ کے مطابق نہ بڑھاوُ تو پھر اگلے بار بازار سے مجھے ان پیسوں سے ایک بوری چینی نہیں ملی گی، اور اگر میں حکومت کے ساتھ ساتھ اپنے دکان میں چینی کا قیمت نہ بڑھاو اور منا فع سمیت وہی قیمت رکھو جو مجھے بازار سے ملی ہے تو دو چار بار بازار سے چینی خریدنے اور دکان میں فروخت کرنے کے بعد میرا سرمایہ ہی ختم ہو جائے گا۔
دکاندار کا یہ جواز سن کر بس چپ چاپ میں نے ایک سو بیس روپے پکڑائے، چینی اٹھائی اور خاموشی سے گھر کی طرف چل پڑا اور ساتھ ساتھ سوچا کہ اے مالک اس ملک کا کیا ہوگا؟
خیالی ۔۔۔۔
تو اپکے خیال میں یہ کس کی دور کی با ت ہو رہی ہے؟