Dr Sarfraz Ahmad Buzdar Child Specialist

Dr Sarfraz Ahmad Buzdar Child Specialist This Page is created for awareness of public regarding Infant and Child Health.

11/01/2024

زم زم تھراپی

پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفی نشتر میڈیکل کالج میں بچوں کے اسپیشلسٹ اور پروفیسر تھے، یہ آج کل سعودی عرب میں رہائش پذیر ہیں، یہ ہمارے آذر بائیجان کے ٹور میں شامل تھے، حلیے سے مولوی دکھائی دیتے تھے، باریش، ٹخنے ننگے اور سنجیدہ، میں شروع میں انھیں کٹڑ مولوی سمجھ رہا تھا لیکن جب ان کے ساتھ گفتگو شروع ہوئی تو یہ مختلف انسان نکلے۔

گفتگو کے دوران انھوں نے اپنی ایسی حیران کن داستان سنائی جس نے مجھے ششدر بھی کر دیا اور میرا ایمان بھی تازہ کر دیا، ڈاکٹر صاحب کو خوف ناک کینسر ہوگیا تھا لیکن اللہ نے انھیں جس طرح شفاء دی، یہ ایک معجزاتی داستان ہے، میں صدقہ جاریہ سمجھ کر یہ داستان آپ کی نذر کر رہا ہوں۔

ڈاکٹر غلام مصطفی کا تعلق ملتان سے تھا مگر انھوں نے تعلیم ملٹری کالج جہلم، گورنمنٹ کالج لاہور اور کنگ ایڈروڈ میڈیکل کالج سے حاصل کی، پورے ایجوکیشن کیریئر میں ٹاپ کرتے رہے، ہائوس جاب کے بعد سکن اسپیشلائزیشن کی، والدین بوڑھے تھے لہٰذا یہ میو اسپتال کی نوکری چھوڑ کر ملتان آ گئے، نشتر میڈیکل کالج میں"ڈرما ٹالوجی" کا ڈیپارٹمنٹ نہیں تھا لہٰذا ڈاکٹر صاحب نے بچوں کی بیماریوں میں اسپیشلائزیشن کر لی اور پریکٹس کے ساتھ ساتھ پڑھانے بھی لگے۔

یہ 2003 میں سنگاپور سے بچوں میں سینے کی بیماریوں پرا سپیشلائزیشن بھی کر آئے، یہ پاکستان میں اس فیلڈ میں پہلے اسپیشلسٹ تھے، ڈاکٹرصاحب 2018 میں امریکن اکیڈمی آف پیڈز کی دعوت پر امریکا گئے، وہاں انھیں اچانک پورے جسم پر خارش ہونے لگی، ڈاکٹر صاحب کے بقول خارش اس قدر شدید اور خوف ناک تھی کہ میں بیٹھ نہیں سکتا تھا۔

میرا دل کرتا تھا میں اپنا پورا جسم ناخنوں سے چھیل دوں، میں کیوں کہ خود سکن اسپیشلسٹ رہا ہوں لہٰذا میں نے پورے جسم پر مرہم کا لیپ کرنا شروع کر دیا لیکن آرام نہیں آیا، میں نے اس کے بعد خارش کی گولیاں کھانا شروع کر دیں، اس سے بھی آرام نہیں آیا تو پھر میں مرہم اور گولیاں دونوں استعمال کرنے لگا مگر افاقہ نہ ہوا، میں اس قدر خارش کرتا تھا کہ میرے جسم سے خون نکلنے لگتا تھا، میں نے اپنے دوست ڈاکٹر اعجاز حسین سے مشورہ کیا، یہ پاکستان کے سب سے بڑے سکن اسپیشلسٹ ہیں، انھوں نے بھی وہی ادویات تجویز کیں جو میں پہلے سے استعمال کر رہا تھا۔

بہرحال طویل بحث کے بعد ڈاکٹر اعجاز نے مجھے ٹیسٹ کرانے کا مشورہ دے دیا، میں نے ٹیسٹ کرائے تو ایل ایف ٹیز ابنارمل نکلے، اس کے بعد الٹرا سائونڈ کرایا، الٹرا سائونڈ میں جگر کے دائیں بائیں گڑ بڑ نظر آئی، ایم آر آئی کرائی اور اس کے بعد اینڈوسکوپی، ان تمام ٹیسٹوں میں میرے جسم میں"گروتھ" نظر آئی جس کے بعد بائیوآپسی ہوئی اور آخر میں"امپولا آف واٹر(Ampulla of Vater)کینسر" نکل آیا، یہ ایک نایاب قسم کا کینسر ہے، اس میں چھوٹی اور بڑی آنت کے جوڑ پر پھوڑا نکل آتا ہے اور اس کا زہر چند ماہ میں پورے جسم میں پھیل جاتا ہے، میں خود ڈاکٹر ہوں، میں اس کی شدت کا اندازہ کر سکتا تھا چناں چہ میں نے فوراً ملک کے نامور سرجن ڈاکٹر فیصل ڈار سے رابطہ کیا۔

یہ آج کل پی کے ایل آئی کے ڈین ہیں جب کہ اُس وقت یہ شفاء اسپتال اسلام آباد میں ہوتے تھے، مجھے انھوں نے اسلام آباد بلا لیا، میرا 11 گھنٹے طویل آپریشن ہوا اور میرے پیٹ سے آدھی انتڑیاں اور دوسرے متاثرہ اعضاء نکال دیے گئے، آپریشن لمبا اور خوف ناک تھا، بہرحال اللہ نے کرم کیا اور میری جان بچ گئی۔

میرا کینسر نایاب تھا، امریکا میں بھی آپریشن اور کیموتھراپی کے بعد مریض صرف اٹھارہ ماہ تک بچ پاتے ہیں، مجھے آپریشن کے بعد ریکوری میں تین ماہ لگ گئے، اس کے بعد کیموتھراپی کا مرحلہ آ گیا، میں ڈاکٹر ہوں، میں کیموتھراپی کی اہمیت اور تکلیف دونوں کو سمجھتا ہوں، میں جانتا ہوں آپریشن کے بعد کیموتھراپی ناگزیر ہوتی ہے لہٰذا میں نے کیموتھراپی شروع کرا دی، پہلا سیشن لیا، وہ اتنہائی تکلیف دہ تھا، میرا وزن گر گیا اور میں چلنے پھرنے کے قابل بھی نہ رہا، میں نے بڑی مشکل سے دوسرے سیشن کی تیاری کی لیکن انجیکشن سے قبل وہ معجزہ ہوگیا جس نے میری زندگی بدل کر رکھ دی، میرے بیٹے عبداللہ نے مجھے مشورہ دیا ابو اگر کیموتھراپی کے بعد بھی صرف 18 ماہ کی زندگی ہے تو پھر ہم اس اذیت سے کیوں گزر رہے ہیں؟ ہم کوئی اور طریقہ استعمال کیوں نہیں کرتے؟

بیٹے نے مجھے زم زم تھراپی ٹرائی کرنے کا مشورہ دیا، میں نے عبدالمالک مجاہد کی کسی کتاب میں لبنان کی ایک رقاصہ کے بارے میں پڑھا تھا، وہ سکن کینسر میں مبتلا ہوگئی تھی، اس کے پورے جسم پر پھوڑے نکل آئے تھے، اس کا خاوند اسے مکہ لے گیا، وہ وہاں آب زم زم پیتی تھی اور اسی سے نہاتی تھی، اللہ تعالیٰ نے اسے شفاء دے دی، مجھے بیٹے کا مشورہ اچھا لگا، میرے ایک عربی ڈاکٹر دوست سعودی عرب میں اعلیٰ عہدے پر تعینات ہیں، میں نے ان سے رابطہ کیا، انھوں نے مجھے ویزہ بھجوا دیا اور میں سعودی عرب پہنچ گیا، وہاں میرے تین کام تھے، میں روزانہ آٹھ سے دس لیٹر آب زم زم پیتا تھا، آب زم زم کی دعا پڑھتا تھا اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کرتا تھا، آپ یہ جان کر حیران ہوں گے تین ماہ بعد میرے جسم میں تبدیلی آنا شروع ہوگئی، مجھے ایسے محسوس ہونے لگا جیسے میرے جسم کے اندرونی زخم ٹھیک ہو رہے ہیں، اگلے تین ماہ میں صورت حال مزید بہتر ہوگئی یہاں تک کہ میں چھ ماہ کے بعد مکمل صحت یاب ہوگیا"۔

پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفی کا کہنا تھا دنیا میں امپولا آف واٹر کینسر کے مریض آپریشن اور کیموتھراپی کے باوجود اٹھارہ ماہ زندہ رہ سکتے ہیں جب کہ میں سال بھر میں مکمل صحت یاب ہوگیا، میرے ٹیسٹ ہوئے اوران سے کینسر غائب تھا، آپریشن کے دوران میرا لبلبہ بھی آدھے سے زیادہ کاٹ دیا گیا تھا مگر مجھے اس کے باوجود شوگر ہوئی اور نہ میں انسولین لگاتا ہوں، میرے سرجن ڈاکٹر فیصل ڈار نے ایک دن مجھے فون کیا اور ڈرتے ڈرتے پوچھا "آپ کون بول رہے ہیں؟" ان کا خیال تھا میرا فون میرے بیٹے یا کسی اہل خانہ کے پاس ہوگا لیکن میں نے جب انھیں بتایا "میں ڈاکٹر غلام مصطفی بول رہا ہوں" تو وہ بہت حیران ہوئے، میں الحمد للہ اب پانچ سال سے حیات بھی ہوں اور صحت مند بھی، نماز پڑھتا ہوں، اسپتال میں کام کرتا ہوں، صرف اور صرف آب زم زم پیتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں"۔

میں نے ان سے پوچھا "آپ سعودی عرب میں کیوں رہ رہے ہیں، آپ پاکستان آ جائیں" ان کا جواب تھا "پاکستان میں آب زم زم دستیاب نہیں، میں نے شروع میں مختلف لوگوں سے زم زم لیا مگر وہ جعلی نکلا، اصل زم زم بہت مہنگا تھا، میں افورڈ نہیں کر سکتا تھا لہٰذا میں سعودی عرب آ گیا، وہاں مجھے حرم شریف میں نماز کی سہولت بھی ہے، زم زم کی بھی اور یہ لوگ میری بے انتہا عزت بھی کرتے ہیں، میں وہاں پریکٹس کرتا ہوں اور عزت کے ساتھ زندگی گزارتا ہوں"۔

ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا " مجھے سعودی عرب نے شہریت کی پیش کش بھی کی، وہاں بچوں کے ڈاکٹروں کی قلت ہے، یہ مجھے وہاں رکھنا چاہتے ہیں مگر جس شخص کو پاکستان کا چسکا لگ جائے وہ کسی دوسرے ملک میں نہیں رہ سکتا" ڈاکٹر صاحب نے یہ داستان باکو شہر کے قدیم حصے میں واک کے دوران سنائی اور میں متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا، یہ اگر ڈاکٹر اور پروفیسر نہ ہوتے تو شاید میں ان کی بات پر یقین نہ کرتا مگر یہ میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور یہ ڈاکٹری پڑھاتے بھی ہیں اور باقاعدہ انٹرنیشنل لیول پر جدید میڈیکل سائنس پر لیکچر بھی دیتے ہیں۔

لہٰذا ہم ان کے تجربے کو صرف پازیٹو تھنکنگ یا اتفاق کہہ کر مسترد نہیں کر سکتے اور یہ اگر اس معاملے میں اکیلے ہوتے تو بھی اسے محض اتفاق کہا جا سکتا تھا جب کہ آب زم زم کی وجہ سے اب تک سیکڑوں لوگ مہلک بیماریوں سے شفاء یاب ہو چکے ہیں، ان میں بوسنیا کا نہادجے بھی شامل ہے، اسے 32سال کی عمر میں 2006میں جگر کا کینسر ہوا، ڈاکٹروں نے اسے جواب دے دیا، یہ 2007میں حج پر گیا، وہاں جی بھر کر آب زم زم پیتا اور اللہ اللہ کرتا رہا اور پھر معجزہ ہوگیا، یہ بھی صحت یاب ہوگیا، یہ آج بھی زندہ ہے اور روزانہ میڈیکل سائنس کا منہ چڑاتا ہے، ایسی بے شمار اور بھی مثالیں موجود ہیں، میں ہرگز یہ دعویٰ نہیں کرتا کینسر کے مریضوں کو علاج ترک کرکے آب زم زم کو علاج بنا لینا چاہیے۔

یہ بے شک سرجری اور علاج کرائیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ آب زم زم کو بھی ضرور ٹرائی کریں، رسول اللہ ﷺ نے اگر اسے شفاء قرار دیا ہے تو پھر اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوگی، دوسرا یہ پانی پانچ ہزار سال سے رواں ہے، خانہ کعبہ کی حدود میں چھوٹا سا کنواں ہے اور اس کا پانی پانچ ہزار سال بعد بھی کم ہو رہا ہے اور نہ ختم، یہ آج بھی قدیم زمانے کی طرح جاری ہے چناں چہ میری درخواست ہے آپ دواء اور ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ اسے بھی ٹرائی کر لیں ہو سکتا ہے یہ واقعی کام کر جائے کیوں کہ یہ حقیقت ہے شفاء علاج یا دواء میں نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ کی رضا میں ہوتی ہے اور آب زم زم اس کی رضا ہے، مجھے یقین ہے آپ کو مایوسی نہیں ہوگی۔
Copied

17/11/2023
07/08/2023

’’ ڈاکٹر صاحب ! میرا بیٹا پانچ سال کا ہے۔ اسے گندم سے الرجی ہے۔ گندم سے بنی ہوئی کوئی چیز نہیں کھا سکتا۔ بچپن میں مسلسل پیٹ خراب اور دستوں کی شکایت رہتی تھی۔ پیٹ میں درد اور کافی تکلفیں رہیں۔ جب کافی ٹیسٹ کروائے تو پتہ چلا کہ گندم سے الرجی ہے۔ ڈاکٹروں نے گندم بالکل بند کروا دی کہ اب ساری زندگی گندم نہیں کھا سکے گا۔ اب چاول یا مکئی کی روٹی استعمال کرتے ہیں۔ کوئی بسکٹ، بیکری آئٹم نہیں کھاسکتا۔ بہت پریشان ہوں۔ آخر کب تک وہ یہ پرہیز کرے گا؟ دوسرے بچے کچھ کھاتے ہیں وہ بھی دیکھ کر مانگتا ہے۔ کسی تقریب میں چاول کے سوا کچھ نہیں کھاسکتا۔ ایسا آخر کب تک چل سکے گا ؟؟

آپ پلیز کوئی علاج، کوئی دوا تلاش کریں کہ میرا بچہ ٹھیک ہوجائے‘‘۔
مجھے اس سے ملتے ملتے جلتے ایسے کئی کیسز ملتے ہیں جن کا ایک ہی مسئلہ تھا کہ وہ گندم سے بنی کوئی چیز نہیں کھاسکتے تھے، کھاتے تو فوراً پیٹ میں درد، دست، الٹیاں یا چھالے ہوجاتے ہیں۔ بہرحال ان خاتون کے بیٹے کا علاج کیا،اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اسے شفا نصیب ہوئی الحمدللہ، پھر اس نے سات سال بعد گندم کے پراٹھے کھائے، اب وہ سب کچھ کھارہا ہے۔

گندم الرجی !!! یا سیلیک ڈزیز ہے کیا؟

گندم سے الرجی مراد گندم میں موجود پروٹین سے الرجی ہے اس کے مریضوں کا کمزور مدافعتی نظام، گندم میں پائی جانے والی مختلف اقسام کی پروٹین کے خلاف ردعمل کا اظہار کرتا ہے۔ گندم میں موجود پروٹین ’’گلوٹین‘‘ (Gluten) سے پیدا ہونے والی الرجی کو گلوٹن الرجی بھی کہتے ہیں۔

اس الرجی کے سبب سے چھوٹی آنتوں میں سوزش اور ورم پیدا ہو جاتا ہے اور شدید نوعیت میں چھالے دیکھے جاسکتے ہیں جس سے مریض کی چھوٹی آنتوں میں غذائی اجزاء کا انجذاب متاثر ہوتا ہے۔

گو کہ پاکستان میں اس کا وقوع بہت کم تھا، لیکن اب اس کے کیس بڑی تواتر سے سامنے آرہے ہیں۔ میرے پاس اس وقت ایک ہفتے میں پانچ سے آٹھ مریض آتے ہیں۔ کسی بھی آبادی میں دو سے سات فیصد افراد متاثر ہوسکتے ہیں ۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جس میں مریض گندم سے بنی ہوئی کسی بھی غذا کا مسلسل استعمال نہیں کرسکتا۔ اس کا واحد علاج یہ ہے کہ گندم سے بنی اشیاء کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا جائے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ گندم ہماری غذا کا لازمی جزو ہے۔ روٹی، کیک، دلیہ، بسکٹ، مٹھائی، حلیم ہر ایک میں گندم موجود ہوتی ہے، پرہیزکریں تو کیسے کریں؟

اس الرجی کے شکار بچوں کا قد اور وزن، ان کی عمر کے حساب سے نہیں بڑھتا اور اس کی علامات بھی ڈائجسٹو ڈس آرڈر سے ملتی جلتی ہیں۔گندم الرجی ایک بار میں ایک یا کئی عضوی نظام کو متاثر کرسکتا ہے اور اس میں شامل ہوسکتا ہے:

گندم کھانے سے علاماتِ : ٭ دستوں کے ادوار/دیر تک رہنے والے دست، ٭ دائمی قبض کے ساتھ پیٹ میں ہوا اکٹھی ہونا، ٭ پیٹ میں ہوا کی وجہ سے تناؤ کا احساس، ٭ آئرن اور وٹامنز کی دائمی کمی، ٭ طبیعت کی خرابی، ٭ بہت ز یادہ تھکن، ٭ پیٹ میں درد جس کی وجہ واضح نہ ہو، ٭ ہڈیوں کا بھربھرا اور کمزور ہونا، ٭ وزن نہ بڑھنا )وزن میں کمی( اور قد ٹھیک نہ بڑھنا )بچوں کیلئے، ٭ پکے دانتوں کی او پری حفاظتی تہ کو نقصان گندم سے الرجی کے باعث سانس کے راستے کی تکالیف )چھینکوں اور زکام کی عالمات، دمہ(، پیٹ/آنتوں کی تکالیف )پیٹ میں شدید درد، قے، دست( یا گندم کو چھونے پر جلد کی سرخی یا دانوں (کانٹیکٹ الرجی) کی تکلیف ہو سکتی ہے۔ اس الرجی میں مبتلا لوگوں کو بنیادی طور پر سیلیئک کا باعث بننے والی پروٹین کی بجاے گندم کی کسی اور پروٹین کی وجہ سے ردعمل ہوسکتا ہے۔

احتیاطی تدابیر : جن لوگوں کو یہ الرجی ہو انہیں گندم اور اس سے متعلق (جیسے میدہ) ہر شے سے احتیاط کرنا چاہئے۔
ویٹ الرجی میں چار چیزوں سے احتیاط کرنا ہوتی ہے:

Barely,Rai, Oats, اور Wheat ۔

جن کا مخفف BROW بنتا ہے۔ویٹ الرجی کے شکار لوگوں کو چاہئے کہ وہ چاول کا استعمال کریں۔ پیکٹ میں بند شے (مثلا چاکلیٹ) خریدتے ہوئے اس پر دئیے گئے اجزاء کو ضرور پڑھ لینا چاہئے کہ آیا ان میں گندم وغیرہ سے متعلقہ کوئی شے تو نہیں۔ اچھی کمپنیاں تو باقاعدہ جلی حروف میں Wheat یا Oats یا Glutton لکھتی ہیں۔ سویا ساس میں بھی گلوٹن ہوتا ہے اس سے بھی احتیاط کرنا چاہئے۔ بعض کمپنیوں کے کارن سیریلز میں بھی اس کی ملاوٹ ہوتی ہے اگرچہ وہ لکھتے نہیں ۔

اگر آپ کے بچے ایسی کوئی علامت دیتے ہیں تو مکمل چیک اپ کروائیں، ٹیسٹ کروائیں۔

ویٹ الرجی ہونے کی بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ خون میں ہوموگلوبین کی مقدار باوجود آئرن سپلیمنٹ کے مسلسل کم رہتی ہے اور گاہے بگاہے موشن ہوجاتا ہے یا پیٹ میں گیس ہوجاتی ہے۔ ان علامات کے شکار لوگوں کو معالج کے مشورے سے ویٹ الرجی کا ٹیسٹ کروانا چاہئے۔

”غلط انجکشن“پچھلے ہفتے جب میں اپنے ہسپتال کے وارڈ میں صبح راٶنڈ کر رہا تھا تو مجھے  پیچھے سےایک آواز آئی ”ڈاکٹر صاحب میر...
08/07/2023

”غلط انجکشن“
پچھلے ہفتے جب میں اپنے ہسپتال کے وارڈ میں صبح راٶنڈ کر رہا تھا تو مجھے پیچھے سےایک آواز آئی ”ڈاکٹر صاحب میرے بچے کو دیکھیں، نرس نے اسے انجکشن لگا دیا ہے“
یہ آواز ہمارے لیے ایمرجینسی کا پیغام ہوتی ہے۔
میں فورأاس بچے کے پاس پہنچا تو اس کی سانسیں رک رہی تھی،ہونٹ سیاہ ہورہے تھے اور ہاتھ پاؤں پیلے پڑ گئے تھے۔
فاٸل دیکھی توپتا چلا کہ اس مریض کو ابھی او پی ڈی سے ڈاٸریا کے مسلے سےداخل کیا گیا تھا۔
بچےکی ماں اور دادی کا فوری ردعمل یہ تھا کہ جناب ہمارا بچہ تو بالکل ٹھیک تھا، نرس نے ہمارے بچے کو غلط انجکشن لگا دیا ہے۔
انھوں نے چیخنا رونا اور پورے خاندان کو فون ملانا شروع کردیا ... مختلف کمروں سے مریض بھی وہاں جمع ہونا شروع ہو گئے اور ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔
الحمدللہ صورتحال فوری طور پر نمٹائی گئی، بچے کو تھوڑی دیر مصنوعی سانس دی گٸ کی گئی اور بچے کی حالت کے مطابق انجیکچشن لگاۓ گئے .. بچہ ٹھیک ہو گیا تو سب نے سکون کی سانس لی .

یہ وہ کہانی ہے جو زیادہ تر وقت غلط انجیکشن کی صورت میں ہوتی ہےجس کی ہم خبریں سنتے ہیں۔
اب عوام کے لیے تھوڑی سی تفصیل کہ یہ انجیکشن آخر کار غلط کیوں ہو جاتا ہے ؟؟
انسانی جسم کے اندر جب بھی باہر کی کوٸ چیز داخل ہوتی ہے تو جسم اسکو رد کر سکتا ہے۔اس ردعمل کوالرجی کہتے ہیں۔ یہ چیز کچھ بھی ہو سکتی ہے جیسے خوراک (انڈا,مچھلی)، دھواں گرد، ادویات جیسے شربت گولی یا انجیکشن۔
الرجی کسی بھی دواٸ کے انجیکشن سے ہو سکتی ہے اور زیادہ تر وقت اس کا پہلے سے اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔ کچھ دوائیوں سے الرجی کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے جیسے پینسلن اینٹی بائیوٹک یا سانپ کی ویکسین وغیرہ اس لیے انکو لگانے سے پہلے تھوڑی مقدار میں ٹیسٹ خوراک لگاٸ جاتی ہے اور پھر اسے شروع کرتے ہیں، لیکن زیادہ تر دوائیوں میں چونکہ الرجی کا خطرہ بہت کم ہوتا ہے تو بغیر ٹیسٹ کے لگاٸ جاتی ہیں۔ بہرحال الرجی کا خطرہ پھر بھی رہتا ہے ۔
انجیکشن سے ہونے اولی الرجی کی نوعیت ہلکی خارش,بخار سے لے کر شدید رد عمل تک سکتی ہے جس میں سے دل کا رکنا، سانس کا بند ہونا اور موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔
عوام کے سمجھنے کے لیے اہم بات یہ ہے کہ عام طور پر ایمرجنسی یا وارڈ میں آنے والے زیادہ تر مریضوں کو وہی روٹین دوا دی جاتی ہے۔اب سب کو تو اس سے مسلہ نہیں ہورہا ہوتا ۔جسکو الرجی ہو گی اسکو مسلہ ہوگا ۔وہاں کام کرنے والے عملے کی کسی آنے والے مریض سے کوئی ذاتی دشمنی تونہیں ہوتی کہ وہ اسے غلط ٹیکہ لگا دے گا ۔ اگر وہی دوا دوسروں کے لیے ٹھیک کام کر رہی ہو اور الرجی ہو جائے تو یہ جسم کا ردعمل ہے جس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے اور اس میں ڈاکٹر یا نرس کی کوئی غلطی نہیں ہے۔
اب اگر خدانخواستہ یہ صورتحال آپ کے بچے کے ساتھ پیش آتی ہے تو کبھی بھی ہسپتال میں ہنگامہ آرائی شروع نہ کریں۔ اگر آپ براہ راست طبی عملے کو مورد الزام ٹھہرانا اور ہنگامہ شروع کر دیتے ہیں تو اس کا آپکے بچے کی جان پر اسکا اثر پڑے گا ۔ پہلے چند منٹ جو آپ کے بچے کی زندگی بچانے والے ہیں ضائع ہو جائیں گے۔ آپ اس ہنگامے سے کچھ نہیں حاصل کر پائیں گے بلکہ آپ کے بچے کا نقصان ہوگا۔
ہمیشہ اس صورت حال میں فوری طور پر اپنے ڈاکٹر کو بلاٸیں، انہیں اپنے بچے کی ابتدائی طبی امداد کرنے دیں۔
ہنگامہ آرائی کرنے سے مریض کی زندگی بچانے والے منٹ ہی ضائع ہوں گے جسکے دوران اس کی جان بچائی جا سکتی ہے۔

بچے کو نرم اور ٹھوس غذائیں کب اور کیسے شروع کروائی جائیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔🟥...
28/05/2023

بچے کو نرم اور ٹھوس غذائیں کب اور کیسے شروع کروائی جائیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
🟥 پہلے چھ ماہ تک بچے کی جسمانی و ذہنی نشوونما کے لیے ماں کا دودھ کافی ہوتا ہے۔ اس لئے اس عرصہ میں بچے کو صرف ماں کا دودھ دینا چاہیے۔
👈 ماں یا بچے کی کسی میڈیکل وجہ کی بنیاد پر جو بچے ماں کا دودھ نہیں لے پاتے، وہ ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق فارمولا ملک لے سکتے ہیں۔
👈لیکن ایک بات یاد رکھیں کہ ایک سال سے پہلے بچے کو ہر قسم کا کھلا دودھ نہیں دینا چاہیے جس کی درج ذیل وجوہات ہیں۔
1)۔اس میں آئرن کی مقدار کم ہوتی ہے اور بچے انیمیا(خون کی کمی) کا شکار ہو جاتے ہیں۔
2)۔ پروٹین اور منرلز ضرورت سے زیادہ مقدار میں ہوتے ہیں جو گردوں پر غیر ضروری بوجھ ڈالتے ہیں۔
3)۔ اس میں موجود پروٹین سے الرجی بھی ہو سکتی ہے۔
🟥جب بچہ 6 ماہ کا ہو جاتا ہے تو اس کی جسمانی و ذہنی نشونما کے لئے دودھ کے ساتھ ساتھ نرم غذائیں بھی ضروری ہوتی ہیں، اس لئے اس عمر میں نرم غذائیں شروع کر دینی چاہئیں۔
✔️ شروع کرنے سے پہلے درج ذیل نشانیاں دیکھ لیں کہ کیا آپ کا بچہ نرم غذائیں لینے کے لیے بالکل تیار ہے۔
👈 بچے کی بھوک بڑھ جاتی ہے اور وہ بھوک کی وجہ سے بار بار روتا ہے۔
👈 بچے کے آس پاس جب کوئی کھانا کھا رہا ہوتا ہے تو وہ اپنا منہ کھولتا ہے اور اپنے ہاتھ سے کھانا پکڑنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔
👈 بچہ اپنی گردن خود سے سنبھال لیتا ہے اور سہارے کے ساتھ بیٹھ سکتا ہے۔
🟥بچے کو کون سی نرم غذائیں دینی چاہئیں؟
اس میں ہمارے پاس بہت سی آپشنز موجود ہیں۔
👈 سبزیاں:
( آلو، گاجر، شکر قندی، گوبھی،کدو، گھیا کدو، شلجم وغیرہ)
👈 دالیں:
( مونگ دال، چنا دال، موٹا لوبیا، چنے وغیرہ)
👈فریش فروٹ:
( کیلا، آم، پپیتا، خربوزہ، سیب، آڑو وغیرہ)
👈 اجناس:
(چاول، گندم، سوجی، ساگودانہ)
👈انڈے کی زردی
🟥 نرم غذائیں دینے کا بہتر طریقہ کیا ہے؟
👈ضروری بات یہ ہے کہ 6-9 مہینے کے دوران کھانے والی سب چیزوں کو اکٹھا شروع نہیں کرنا بلکہ باری باری شروع کرنا ہے۔ یعنی ایک وقت میں صرف ایک چیز ہی دینی ہے۔ ایسا نہیں کہ صبح کچھ اور دیا ھے اور شام کو کچھ اور۔
مثلاً میشڈ ابلا آلو شروع کیا ہے تو اگلے کچھ دن (5-7) یہی دیا جائے اور ان دنوں میں اس کا مشاہدہ کیا جائے کہ
✔️ کیا اس چیز کا ٹیسٹ ڈیویلپ ہو گیا ہے؟
✔️ اس سے کوئی پیٹ کا مسئلہ تو نہیں ہو رھا؟
✔️ فوڈ الرجی کی علامات تو نہیں آ رہی؟
اگر سب کچھ ٹھیک رہتا ہے تو ہر پانچ سے سات دن کے بعد پہلی چیز بند کرتے جائیں اور اگلی چیز شروع کرتے جائیں۔ اس طرح سب چیزوں کی ایک ایک کر کے باری آ جائے گی اور فوڈ الرجی پیدا کرنے والی خوراک کی نشاندہی بھی ہو جائے گی۔
👈خدا نخواستہ اگر فوڈ الرجی یا پیٹ کی شدید علامات ظاہر ہوں تو فوری طور پر وہ چیز بند کر دیں اور اپنے ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
👈اسے جو بھی دیا جائے وہ مکمل ابال کر اور پیوری بنا کر دیا جائے۔
👈9-12 مہینے کے دوران کھانے والی سب چیزوں کو مکس کرکے دے سکتے ہیں۔
👈ان غذاؤں میں نمک معمولی مقدار میں شامل کریں اور چینی بالکل شامل نا کریں۔
👈شروع میں پتلا کھانا دیا جائے اور کم مقدار میں دیا جائے۔ پھر آہستہ آہستہ کھانا گاڑھا کر دیا جائے اور مقدار بھی بڑھا دی جائے۔
👈کوشش کی جائے کہ فریش فروٹس باقی سب چیزوں کے آخر میں متعارف کروائے جائیں۔ کیونکہ اگر میٹھی چیزیں پہلے متعارف کروا دی جائیں تو بچے کو باقی سب چیزوں کا ٹیسٹ ڈیویلپ کرنے میں دقت محسوس ہوتی ہے اور بعض اوقات کچھ کھانے والی چیزیں ریجیکٹ بھی کر سکتا ہے۔
🟥بچوں کو کتنی مقدار میں نرم غذائیں دینی چاہیں؟
🏥🏥🏥 6 سے 9 مہینے:
👈 بچے کی بھوک 75 فیصد ماں کے دودھ سے اور 25 فیصد نرم غذاؤں سے پوری کرنی چاہیے۔
👈ایک وقت میں صرف ایک قسم کا کھانا دیں جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے اور یہ کھانا پورا پکا ہوا ہونا چاہیے۔
👈شروع میں کچھ دنوں کے لیے پتلا کھانا دیں پھر آہستہ آہستہ تھوڑا گاڑھا کرتے جائیں۔ اور خیال رہے کہ یہ میشڈ یا پیوری فارم میں ہونا چاہیے اور اس میں کوئی ثابت پیس نہیں ہونا چاہیے تاکہ بچے کو چوکنگ نہ ہو۔
👈دن میں 2-3 بار دیں۔
👈شروع میں 2ـ3 چھوٹے چمچ جتنی مقدار دیں، اور روزانہ تھوڑی مقدار بڑھاتے رہیں۔
👈 9 ماہ کے آخر تک بچے کو تقریباً 125 مل کپ جتنی مقدار لے لینی چاہیے۔
👈کھانے کے درمیان میں تھوڑا پانی بھی پلا سکتے ہیں
🏥🏥🏥 9 سے 12 میہنے:
بچے کی بھوک 50 فیصد ماں کے دودھ سے اور 50 فیصد نرم غذاؤں سے پوری کرنی چاہیے۔
👈کھانے والی سب چیزوں کو مکس پکا کر دے سکتے ہیں۔
👈درمیانہ گاڑھا دیں اور اس میں غذا کے کچھ چھوٹے نرم ٹکڑے بھی ہونے چاہئیں تاکہ چبانے اور نگلنے کی عادت ڈیویلپ ہو سکے۔
👈دن میں 3-4 بار دیں۔
👈ھر بار تقریباً 125 مل کپ جتنی مقدار دیں۔
👈اس کے علاوہ فنگر فوڈ ( لمبی نرم غذائیں) دے سکتے ہیں تاکہ بچہ اپنے ہاتھ سے خود پکڑ کر کھانا سیکھے۔ جیسا کہ پکی ہوئی نرم گاجر کا لمبا ٹکڑا وغیرہ۔
👈کھانے کے درمیان میں پانی بھی پلا سکتے ہیں
🏥🏥🏥 1 سے 2 سال:
👈بچے کی بھوک 75 فیصد گھر میں پکے ہوئے ہر قسم کے کھانے سے اور 25 فیصد ماں کے دودھ سے پوری کرنی چاہیے۔
👈دن میں 3-4 بار دیں۔
👈ھر بار تقریباً 180 مل کپ جتنی مقدار دیں۔
🟥 درج ذیل چیزیں 1 سال عمر سے پہلے شروع نہیں کرنی چاہئیں جس کی وجوہات فوڈ الرجی، چوکنگ اور دیگر ہو سکتی ہیں۔
👈 ہر قسم کا گوشت
👈ہر قسم کا کھلا دودھ
👈شھد
👈 سی فوڈ
👈 ڈرائی فروٹ
👈 دانے دار پھل جیسا کہ انگور وغیرہ
👈 نمک
👈چینی
🟥 میں پر امید ہوں کہ اس پوسٹ سے آپ کو کچھ رہنمائی ملی ہوگی۔

سوال: بچے کو 1 سال کے بعد کتنا دودھ دینا چاہیے؟جواب :: امریکناکیڈمی آف پیڈیاٹریکز  تجویز کرتی ہے کہ 12 سے 24 ماہ کے چھوٹ...
24/05/2023

سوال: بچے کو 1 سال کے بعد کتنا دودھ دینا چاہیے؟

جواب :: امریکناکیڈمی آف پیڈیاٹریکز تجویز کرتی ہے کہ 12 سے 24 ماہ کے چھوٹے بچوں کو روزانہ 2سے 3 کپ (16–24 اونس) دودھ استعمال کریں ۔

2 سے 5 سال کی عمر کے بچے2سے 2.5 کپ (16–20 اونس) کم چکنائی والا دودھ پییں۔

اگر دودھ زیادہ دیا جائے تو بچے میں قبض، خون کی کمی کا سبب بن سکتا ہے

الحمدللہ آج (مورخہ 21 مئ 2023) الجھاد پبلک مڈل سکول منگڑوٹھ میں فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد کیا گیا جس میں 100 سے زائد مری...
21/05/2023

الحمدللہ آج (مورخہ 21 مئ 2023) الجھاد پبلک مڈل سکول منگڑوٹھ میں فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد کیا گیا جس میں 100 سے زائد مریضوں کا نہ صرف فری چیک اپ کیا گیا بلکہ انہیں مفت ادویات بھی فراہم کی گئ۔ اس موقع پر پرنسپل سکول جناب شا ھد خان ، عبدللہ خان اور منصور احمد خان بزدار کے تعاون کا تہ دل سے شکرگزار ہیں۔

Insha Allah
19/05/2023

Insha Allah

15/05/2023

الحمد للہ آج مورخہ 14 مئ 2023 کو الحامد کلینکس کا   با قا عدہ افتتاح کیا جس میں معزز مہمانان گرامی جناب ڈاکٹر محمد عمر ف...
14/05/2023

الحمد للہ آج مورخہ 14 مئ 2023 کو الحامد کلینکس کا با قا عدہ افتتاح کیا جس میں معزز مہمانان گرامی جناب ڈاکٹر محمد عمر فاروق قیصرانی صاحب، جناب صفدر شاہ صاحب، جناب منصور احمد ملک صاحب و دیگر نے شرکت کی۔ ہم تمام معزز مہمانان گرامی کے تہ دل سے شکر گزار ہیں کے انہوں نے اپنے قیمتی وقت سے ٹائم نکال کر تقریب کو چار چاند لگایئے۔

حال ہی میں سعودی عرب سے آنے کے بعد ایک 25 سالہ پاکستانی شخص کو متعدی وائرل بیماری کی تشخیص ہوئی ہے، جسے مونکی پوکس کہا ج...
08/05/2023

حال ہی میں سعودی عرب سے آنے کے بعد ایک 25 سالہ پاکستانی شخص کو متعدی وائرل بیماری کی تشخیص ہوئی ہے، جسے مونکی پوکس کہا جاتا ہے۔ محکمہ صحت کے حکام نے ملک میں ایم پی اوکس (منکی پاکس )کے پہلے کیس کی تصدیق کی ہے۔

مونکی پوکس (Monkeypox) معلومات عامہ

مونکی پوکس کیا ہے ؟

مونکی پوکس ایک وائرس کے ساتھ ہونے والی بیماری ہے۔ (وائرس ایک بہت چھوٹا سا جراثیم ہوتا ہے)

مونکی پوکس کیسے ہوتا ہے؟

مونکی پوکس عمومی طور پر جانوروں میں پائی جانے والی بیماری ہے۔ متاثرہ جانور سے یہ انسانوں کو بھی منتقل ہو سکتی ہے

اس کے علاوہ یہ متاثرہ انسان سے دوسرے انسان کو منتقل ہو سکتی ہے۔

مونکی پاکس کی علامات کیا ہیں ؟

بیماری کے پہلے 5 دنوں میں بخار، سر، کمر اور پٹھوں کا درد ، کمزوری، کھانسی، گلے کی خرابی اور ناک کا بند ہونا جیسی علامات ہوتی ہیں۔

ان 5 دنوں کے بعد جسم پر لال دانوں جیسے نشانات ابھرتے ہیں جو بعد میں پانی اور پیپ بھرے چھالوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔

مزید کچھ دنوں میں ان پر چھلکا آ جاتا ہے۔ جو کچھ وقت کے بعد سوک کر گر جاتا ہے۔

مونکی پاکس کی بیماری کتنا عرصہ چلتی ہے ؟

مریض کی جلد کے نشانات عمومی طور پر 10 دنوں میں ٹھیک ہو جاتے ہیں اور باقی علامت بھی دو تین ہفتوں میں ٹھیک ہو جاتی ہیں۔
جن افراد کی قوت مدافعت اچھی نہیں ہوتی ان میں بیماری شدّت اختیار کر لیتی ہے اور جان لیوا بھی ہو سکتی ہے۔

مونکی پاکس کی تشخیص کے لیے کونسا ٹیسٹ ہے ؟

پی سی آر ٹیسٹ سے مونکی پاکس کی تشخیص کی جاتی ہے

مونکی پاکس کا کیا علاج ہے ؟

زیادہ تر مونکی پاکس کے مریضوں کو جن میں بیماری کی شدّت زیادہ نہیں ہوتی ان کو صرف آرام کے ساتھ بخار اور درد کی ادویات اور علامات کے مطابق علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔

لیکن جن مریضوں کی بیماری شدّت اختیار کر لیتی ہے ان کو ہسپتال میں داخل کرنا پڑتا ہے اور وائرس کے خلاف کام کرنے والی ادویات کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔

ضروری پیغام

اگر کسی فرد میں اوپر بیان کردہ علامات ہوں تو اس کو اپنے ڈاکٹر سے فَوراً معائینہ کروانا چاہئیے تا بر وقت تشخیص اور علاج ہو سکے۔

Address

Al-Hamid Clinics Opposite Deputy Education Office College Road Taunsa Sharif
Taunsa

Opening Hours

Monday 16:00 - 21:00
Tuesday 16:00 - 21:00
Wednesday 16:00 - 21:00
Thursday 16:00 - 21:00
Saturday 16:00 - 21:00
Sunday 10:00 - 14:00

Telephone

+923209484970

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dr Sarfraz Ahmad Buzdar Child Specialist posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Dr Sarfraz Ahmad Buzdar Child Specialist:

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram