18/06/2025
آج پھر لاہور آیا ہوا ہوں تو یادیں آ رہی
//رفیق حیات////
ایک ٹک مجھے دیکھے جاتی ہیں
اپنی نظروں پہ کچھ نظر رکھیے
جانے کس وقت کوچ کرنا ہو
اپنا سامان مختصر رکھیے
ابھی کل کی ہی بات ہے جب ہماری شادی کو صرف پندرہ دن ہوئے تھے اور آپکو لینے میں رہبر ایکسپریس کے ٹرمینل پہ آیا ہوا تھا۔لاہور ساندہ میں رہتے ہوئے جب ہمیں کرائے کے گھر کی چابی ملی تو قریباً رات آٹھے بجے کا وقت تھا اور ہمیں لیٹ ہو جانے کے باعث کارپٹ نہیں ملا تھا اور یونہی اس رات گھر میں اللہ کے نام کے سوا ہمارے پاس کچھ نا تھا۔۔۔۔۔رفتہ رفتہ ہم چیزیں لیتے گئے اور گھر بنتا گیا۔۔۔۔آئو گھر بنائیں ہم ۔۔۔۔۔مل کے گھر بنائیں ہم ۔۔۔۔اپنا پیار تم لانا ۔۔۔۔۔
کیسے کیسے بچنے والی ہر ہر پائی سے ایک ایک برتن ،ایک ایک چارپائی لی گئی۔۔۔ ابھی میٹرس لے لیتے ۔۔۔۔تنخواہ پہ بیڈ لیں گے ۔۔۔۔۔اگلی تنخواہ پہ اے سی لیں گے ۔۔۔۔۔لوڈشیڈنگ کم ہے یو پی ایس رہنے دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرا ڈریس رہنے دیتے ابھی گراسری لے لیتے ۔۔۔۔۔
میری کال ہوتی تو آپ 24 گھنٹے اکیلی رہتی اور اکثر محبت سے بھرپور کھانا بناتی اور تین تین روڈ کراس کر کے جناح ہسپتال کھانا لے آتی ۔۔۔۔۔۔
دن گزرتے گئے ۔۔۔۔ہم نے لاہور میں ایک جہان تراشا،رشتے بنائے،اللہ پاک نے کرم فرمایا اور ہماری جھولی ہری ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے محمد نے شروع سے یہ رینٹ والا گھر ،ایک گاڑی اور صرف ماں باپ کو ہی دیکھا۔۔۔
لاہور رہتے ہوئے ممکن نہیں کہ ایک تنخواہ سے آپ survive کر سکیں۔چنانچہ مسلسل نیگیٹو بیلنس میں جانے کے بعد محمد کی پیدائش کے بعد ہم نے ڈسپنسری شروع کی اور 50 روپیہ فیس پہ مریض دیکھنے لگے اور ہمارے گھر کا رینٹ نکلنے لگا۔۔۔۔۔
ابھی آپکا اسلام آباد اور مری کا ہنی مون کا ٹرپ ادھار ہی تھا کہ میں چپکے سے ایک لاکھ جمع کر چکا تھا ۔۔۔۔۔۔طے یہ ہوا تھا 25 فروری کو ہم نے لاہور چھوڑ جانا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ادھر آپکا موبائیل چوری ہوا اور ادھر میری بائیک۔۔۔۔
آپکا داخلہ گائنی نشتر میں ہوا اور آنافانا جوائنگ کی ڈیٹ آن پہنچی۔۔۔۔۔
محمد اور آپکو ملتان کی بس پہ بٹھا کے روح میں یاس کے نشتر پروئے قبرستان نما گھر رونے آن بیٹھا ہوں جہاں ابراہیم علیہ السلام کی اسماعیل علیہ السلام اور اماں ہاجرہ کو گھاٹی کے دامن میں چھوڑنے کی قربانی یاد آ رہی
وہاں اداسی نے گھر میں خاص جگہ کو گھیرے میں لیا ہوا ہے اور وہ وزن گھیر رہی ہے
ہر ہر دیوار سے آپکی محبت کی خوشبو آ رہی۔۔۔۔
گلی میں گھر کو الوداع کہتی ہوئی روتی ہوئی تو برابر دکھ رہی ہے۔۔۔
کام والی اور اوپر والی باجی سے سسکیوں بھرا معانقہ فضا میں معلق ہو گیا ہے۔۔۔یہ برتن اب ان دھلے پڑے رہیں گے۔۔۔یہ بیڈ شیٹ اب چینج نہیں ہوگی۔۔۔یہ وہی گھر جسے محمد اپنا گھر سمجھتا تھا اور تھکا ہارا آتا ہی بیڈ پہ لیٹتے ہی سکون سے سو جاتا تھا آج کیوں سائیں سائیں کرنے لگا ہے۔۔۔۔محمد کی گاڑیاں بکھری پڑی ہیں۔
محمد کی بالز۔۔۔۔"بابا یہ بال ہے بال۔۔۔۔"
محمد کے الفاظ کانوں میں برابر گونج رہے۔دیوار سے ٹیک لگائے لگائے اب میں اپنے گھٹنوں پہ گر گیا ہوں۔۔۔اوہ سامنے اب مجھے جھولا دکھ رہا۔۔۔۔ہاں ہاں
چارپائی سے محمد کا بندھا ہوا خالی جھولا مجھے کھا رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ چراغ بے نظر ہے یہ ستارہ بے زباں ہے
ابھی تجھ سے ملتا جلتا کوئی دوسرا کہاں ہے
مرے ساتھ چلنے والے تجھے کیا ملا سفر میں
وہی دکھ بھری زمیں ہے وہی غم کا آسماں ہے
انہیں راستوں نے جن پر کبھی تم تھے ساتھ میرے
مجھے روک روک پوچھا ترا ہم سفر کہاں ہے