Anayah Children and Gynae Hospital Layyah

Anayah Children and Gynae Hospital Layyah

Comments

AOA Dear Dr.
If you are five years old medical graduate (MBBS) you are eligible for
TWO POSTGRADUATE DEGREES & Certification in Family Medicine
ON EXEMPTION BASED (ONLINE COURSE)

1- For MCPS Family Medicine
(PMC, CPSP, HEC Recognized & Saudi Commission)

2- For MRCGP int UK
(Degree by RCGP uk & PMC Recognized)
Appear in exam every May and November,

3- Certificate of Excellence in Family Medicine
ONE YEAR ONLINE Course

How to Process
Please send the following Documents on given address or whats app (03008031309) or scan email.
-MBBS
-PMDC
-House Job Certificate
-ID Card
-Pictures -1
Experience Certificate shows five years of experience OR Reference Letter by any other doctor.
Fee for RTMC- 3000/- (payable to CPSP)
Fee for complete Course: 48000/-

Monthly Online Sessions (all lectures, material available in google class room)

ONLINE APPLICATION FOR (Click below link)
https://forms.gle/LVaPsodDjtoVPttv6

Whatsapp: https://bit.ly/3B3XvCT

https://www.facebook.com/Familymedicinecme

https://www.youtube.com/channel/UClemsxaLx9BjQpO_bZfx3Aw/videos

Please see link below of our Introductory Module
https://classroom.google.com/c/MjkwODc1NjU1Njg1?cjc=l5gdzy5

Thank you & Best Regards
Chief Coordinator,
Whatsapp & Cell # 923008031309
Email: [email protected]
Please send your whats app number we will send you all details. Thanx

fully facilitated first ever children and gynae hospital under supervision of fcps consultants in la

Operating as usual

Photos from Anayah Children and Gynae Hospital Layyah's post 12/14/2022

copied
ڈاکٹر صاحب آپ بار بار بتا رہے ہیں کہ نومولود بچےکو گائےکا دودھ نہ دیں ۔
میں نے کئی ماؤں کو گائے یا بھینس کا دودھ بچوں کو دیتے دیکھاہے جنکے بچے ذیادہ تندرست نظر آتے ھیں ۔ وضاحت فرمایں۔۔۔
#جواب ۔
سب سے پہلی بات یہ کہ گا ئےکا دودھ قدرت نے گا ئے کے بچھڑ ے کے لئے بنا یا ہے ۔ بچھڑے کی غذا کی ضرو ریات انسان کے بچے سےبا لکل مختلف ہیں ۔ گائے کے بچھڑے کا معدہ اور نظام ہضم انسان کے نازک بے بی سے بالکل مختلف ہے ۔
جس طر ح ایک بالغ انسان گا ئے کی غذا ہضم نہں کر سکتا اسی طر ح بے بی کا معدہ بھی بچھڑ ے کا خوراک ہضم نہیں کر سکتا ۔اس لئے ما ں کا دودھ ایک نو مو لود بچےکے لئے بہتر ین غذا ہے ۔
اگر ما ں کا دودھ کسی وجہ سے میسرنہیں ہے تو دوسرے نمبر پر فا رمو لا یا ڈبے کا دودھ /formula milk ہے ۔
اگر چہ ڈبے کا دودھ گا ئے کے دودھ سے ہی بنا یا جاتا ہے مگر اس کو ایک بہت پیچیدہ طر یقہ سےگزار کر ما ں کےدودھ کے سا خت کے قریب ترکیا جا تا ہے ۔
کر یں ؛
»» گا ئے کے دودھ میں ائرن/iron بہت کم مقدار میں ہے اور جس شکل میں ہےا میں بہت کم مقدار میں جذب ہو تا ہے۔
»» گا ئے کے دودھ میں پروٹین/proteins اورمنرل/minerals کی مقدر بہت زیا دہ ہے جوکہ نو مو لود بے بی کے گردوں/kidneys کو نقصان پہنچا سکتا ہے ۔
»» گائےکےدودوھ میں جو لیپڈ کی مختلف شکل مو جود ہے ۔وہ انسا نی بے کے لئے مو زوں نہیں ۔
»» اور ایک انتہا ئی اہم چیز گائے کادودھ بہت ابتدائی عمر میں دینے سے کا و ملک الرجی/cow_milk_allergy کا رسک بہت بڑھ جا تا ہے جس سے بے بی کے انت سے خون بہتا ہےجو بظاہرپاخانے میں نظر نہیں آ تا مگر اگر مائیکروسکوپ/ microscope کے اندر دیکھے تو یہ اوکلٹ بلڈ/occult blood کی صورت میں نظرآتا ہے ۔
اس سے نہ صرف انت کو نقصان ہو تا ہےبلکہ خون میں مو جو د رہا سہا ائرن بھی پاخانے کے راستے ضائع ہو جا تا ہے ۔
»»ا گر گا ئے کا دودھ پینے والا بچہ بظاہرصحت مند نظر آئے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کی ذہنی اور جسما نی صحت بہتر ہے ۔
ہمیں نہیں معلوم ا س میں ائرن کی کمی کتنی ہے جو کہ ذہنی صحت/mental_health اور ائی کیو/IQ کے لئے ضروری ہے ۔
اور اسکا بھی اندازہ لگا نا اسان نہیں کہ بچے کے گر دوں پر کتنا بو جھ ہے -
»» ایک اور چیز کی وضاحت ضروری ہے کہ بچھڑے کیلئے جسامت کاجلدبڑھنا زیا دہ ضروری ہے ۔
اس لئے قدرت نے گائے کے دودھ میں پر و ٹیں ا ور منرل کی مقدار انسانی حد سے زیا دہ رکھا ہے ۔
انسان کے لئے پہلی تر جیح دما غ اور ذہنی صحت ہے اس لئے ماں کے دودھ میں سینکڑوں ایسے اجزا ہیں جو دماغ کے نشو نما میں مددکرتے ہیں۔۔
ایک سال کی عمر میں بچے کا ہا ضمہ اورگردے/kidneys اتنے میچو ر ہو تے ہیں کہ بے بی ارام سے گا ئے کا دودھ ہضم کرسکتا ہے ۔
ہمارا کام بچو ں کی صحت کے با رے میں جدید سا ئنسی معلومات فرا ہم کرناہے-
بچو ں کو جو بھی وا لدین پلا ئیں ان کی مر ضی ہے ۔
اللہ سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔آ مین !۔




11/26/2022

A free medical camp will be arranged tomorrow for children n women,free tests n free medicine will be provided

09/21/2022

پیدائشی/نارمل یرقان:
............

پیدائش کے وقت بچے کا جگر پوری طرح میچور نہیں ہوا ہوتا. بالخصوص اگر بچہ پورے دنوں کا نہ ہو یعنی "پری ٹرم بے بی" ہو یا اسکا وزن 2.5 کلو سے کم ہو. اسی لئیے ہر بچے کو کسی نہ کسی حد تک یرقان لازمی ہوتا ہے جو 2 ہفتوں میں خود ہی ٹھیک ہو جاتا ہے. اسی لئیے اسے "نارمل یرقان" کہتے ہیں.
(Physiological Jaundice)

البتہ اس میں دھیان رکھنے والی باتیں یہ ہیں:

. اگر پیدائش کے 24 گھنٹے کے اندر پیلاہٹ ظاہر ہو تو فوراً ہسپتال لے جائیں اور مکمل ٹیسٹس کروائیں. یہ نارمل والا یرقان نہیں ہے.

. اگر ماں کے خون کا گروپ نیگیٹو ہے تو بچے کا گروپ (ہسپتال میں) عموماً پیدائش کے وقت ہی چیک کر لیا جاتا ہے. اگر ایسا نہیں ہوا تو چیک کروائیں اور چائلڈ سپیشلسٹ سے مشورہ کریں.
اسی طرح اگر ماں کے خون کا گروپ "O" ہے، خواہ پازیٹو ہو یا نیگیٹو، تو بھی ایسا ہی کریں.

. 2 ہفتے تک بھی یرقان ٹھیک نہ ہو تو ہسپتال لے جائیں. ایسے میں بچے کا تھائرائڈ ہارمون کا ٹیسٹ ضرور کروائیں اور اگر وہ ماں کا دودھ پی رہا ہے تو صرف 24 گھنٹے کیلئے ماں کا دودھ بند کر دیں اور اس دوران فارمولا فیڈ کروائیں. لیکن یہ صرف اور صرف 24 گھنٹے کیلئے کرنا ہے. بعد میں واپس ماں کے دودھ پر لے آئیں.

. پیلاہٹ ٹخنوں یا پیروں تک بھی واضح محسوس ہو تو بھی فوراً ہسپتال لے جائیں.

. بچہ سست ہو جائے اور فیڈ نہ لے(نپل کو چوس نہ سکے)، نڈھال پڑا رہے، تو بھی فوراً ہسپتال لے جائیں.

. بچے کو پانی، گلوکوز وغیرہ ہرگز نہ دیں. اس سے یرقان میں اضافہ ہو سکتا ہے.

. دھوپ لگوانے کا کوئی خاص فائدہ نہیں.

. یرقان کی شدت کیلئے ہسپتال میں
Serum Bilirubin
ٹیسٹ کیا جاتا ہے. یہ اگر ایک خاص حد سے زیادہ ہو تو بچے کو نیلی شعاؤں(الٹرا وائلٹ لائیٹ) میں رکھا جاتا ہے.

. ٹیسٹ کے دوران
Direct and Indirect
دونوں قسم کی "بلی روبن" چیک ہونی چاہیے. اگر ایسا نہیں ہوا تو اس پر اصرار کریں. یہ بہت ضروری ہے.
کبھی کبھی جگر کے آگے پتے کی نالی میں پیدائشی رکاوٹ ہوتی ہے. اگر اسکی بروقت تشخیص نہ ہو سکے تو جگر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے.

. یرقان زیادہ ہونے کی صورت میں اگر ہسپتال کی نرسری والے خون تبدیل کرنے کا کہیں تو بغیر کسی پس و پیش کے فوراً اجازت دے دیں. اسکا مطلب ہے کہ یرقان خطرناک حد تک جا چکا ہے اور دماغ کو مستقل نقصان پہنچا سکتا ہے جس سے بچہ ساری عمر کیلئے معذور ہو سکتا ہے.

. اگر بچے کا وزن 2.5 کلو سے کم ہے یا بچہ پورے دنوں کا نہیں (پری ٹرم بے بی) تو ان ساری احتیاطی تدابیر کو 2 سے ضرب دے دیں.

07/19/2022

5th free camp of series..
under supervision of seniors consultants..
free of cost transportation,surgery,hospital stay n meals....

07/10/2022

Eid mubarak to All muslims of world..

04/22/2022

. copied
ایک پیغام تمام والدین کے نام۔۔۔

سنگاپور میں امتحانات سے قبل ایک اسکول کے پرنسپل نے بچوں کے والدین کو خط بھیجا جس کا مضمون کچھ یوں تھا۔۔
" محترم والدین!
آپ کے بچوں کے امتحانات جلد ہی شروع ہونے والے ہیں میں جانتا ہوں آپ سب لوگ اس چیز کو لے کر بہت بے چین ہیں کہ آپ کا بچہ امتحانات میں اچھی کارکردگی دکھائے۔
لیکن یاد رکھیں یہ بچے جو امتحانات دینے لگے ہیں ان میں (مستقبل کے) آرٹسٹ بھی بیٹھے ہیں جنھیں ریاضی سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس میں بڑی بڑی کمپنیوں کے ترجمان بھی ہوں گے جنھیں انگلش ادب اور ہسٹری سمجھنے کی ضرورت نہیں ۔
ان بچوں میں (مستقبل کے) ادیب بھی بیٹھے ہوں گے جن کے لیے کیمسٹری کے کم مارکس کوئی معنی نہیں رکھتے ان سے ان کے مستقبل پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا۔
ان بچوں میں ایتھلیٹس بھی ہو سکتے ہیں جن کے فزکس کے مارکس سے زیادہ ان کی فٹنس اہم ہے۔
لہذا اگر آپ کا بچہ زیادہ مارکس لاتا ہے تو بہت خوب لیکن اگر وہ زیادہ مارکس نہیں لا سکا تو خدارا اسکی خوداعتمادی اور اس کی عظمت اس بچے سے نہ چھین لیجئے گا۔
اگر وہ محنت کے باوجود بہت اچھے مارکس نہ لا سکیں تو انھیں حوصلہ دیجئے گا کہ کوئی بات نہیں یہ ایک چھوٹا سا امتحان ہی تھا وہ زندگی میں اس سے بھی کچھ بڑا کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں!!!

03/19/2022
01/22/2022

*کیا موبائل اور لیپ ٹاپ سکرین آپ کے بچے کا دماغ متاثر کررہی ہے_؟*
___________________________________

آج کل بچوں کے ہاتھ میں پیدائش کے بعد سے ہی اسمارٹ فون، ٹیبلیٹ اور انٹرنیٹ سے چلنے والی دیگر الیکٹرانک ڈیوائس آجاتی ہیں۔ والدین کی اکثریت خود ہی بچوں کو ان چیزوں کی طرف راغب کرتی ہے اورجب وہ اس سے چپک جاتے ہیں تو بعد میں یہی والدین پریشان ہوتے ہیں کہ مبادا کہیں بچے کی آنکھوں کی بینائی متاثر نہ ہوجائے۔ حالانکہ اسکرین کا زیادہ تر سامنے رہنا صرف بینائی کو ہی نہیں بلکہ دماغ کے افعال او ر اس کی نشوونما کو بھی متاثر کر سکتاہے۔

امریکا کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے ریسرچرز حال ہی میں اس موضوع پر
The Adolescent Brain Cognitive Development
سے ابتدائی اعدادو شمار پر بنیاد کردہ ایک اسٹڈی سامنے لائے ہیں ۔ اس اسٹڈی میں امریکا میں 21 مقامات پر موجود9 سے 10سال کے 11ہزار بچے شامل تھے، جس کے دو بڑے نتائج یہ سامنے آئے۔

٭جو بچے دن میں سات گھنٹے سے زیادہ اسمارٹ فون، ٹیبلیٹ یا ویڈیو گیم کھیلتے تھے ان کا ایم آرآئی اسکین کیا گیا تو کچھ بچوں کے دماغ میں واضح فرق پایا گیا۔

٭وہ بچے جو دن میں دو گھنٹے سے زیادہ وقت اسکرین کے سامنے گزارتے تھے ، ان کے سوچنے سمجھنے اور لینگویج ٹیسٹ میں کم تر اسکور دیکھنے میں آیا۔

دماغ کو اسکین کرنے سے پتہ چلا کہ جو بچے بہت زیاد ہ اسکرین دیکھتے تھے ان کے دماغ کی جھلی (کارٹیکس ) قبل از وقت پتلی ہو چکی تھی۔ دماغی افعال میں اس جھلی کا کام سینسز(Senses)سے مختلف اقسام کی معلومات پر کام کرنا ہوتاہے۔

*کیا سکرین ٹائم کو اس خرابی کا الزام دیا جاسکتا ہے_؟*
مشی گن کے چلڈرن ہسپتا ل کے ایڈولسینٹ میڈیسن فزیشن ڈاکٹر ایلن سیلکی کا کہناہےکہ اس اسٹڈی سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک وقت میں دو چیزیں ایک ساتھ ہو رہی تھیں لیکن یہ کہنا مشکل ہےکہ وہ ایک دوسرے کو متاثر کررہی تھیں۔ مثال کے طور پر اسکرین کے سامنے بہت زیادہ وقت گزارنے والے بچوں کی تعلیمی کارکردگی کم ہو جاتی ہے لیکن ایسا بھی ہوسکتاہے کہ جن بچوں کو کچھ مخصوص ٹاسک پورے کرنے میں مشکل کا سامنا ہوتا ہو، ہوسکتاہے کہ وہ کسی نہ کسی وجہ سے اسکرین کے سامنے زیادہ وقت گزارتے ہوں۔

کچھ بچوں کے دماغی اسکین کے بعد یہ فرق سامنے آیا تو سوال یہی پیدا ہو اکہ ان تبدیلیوں کی وجہ سے دماغ کی جھلی متاثر ہو رہی تھی یا جھلی متاثر ہونے کی وجہ سے بچہ اسکرین کی طرف زیادہ مائل ہورہا تھا۔

اس سوال کا جواب آئندہ چند برس میں سامنے آجائے گا، اس کے علاوہ بھی مزید سوالوں کے جواب ملنے کی امید ہے۔ ماہرین کے مطابق نہ صرف یہ پتہ چل جائے گا کہ بچے کتنا وقت اسکرین کے سامنے گزارتے ہیں بلکہ ان کے اثرات بھی مزید واضح ہوجائیں گے، جس سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا آسان ہو جائےگا۔ یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ اسکرین کے سامنے وقت گزارنے کو نشے یا علت کا نام دیا جاسکتاہے یا نہیں۔

اسکرین کے سامنے زیادہ تر بیٹھے رہنے سے بچوں کے دماغ میں تبدیلی آنے کے مسئلہ سے قطع نظر ماہرین مختلف اسٹڈیز کے ذریعے یہ معلوم کرچکے ہیںکہ اس عادت سے بچوں میں موٹاپے اور نیند کی خرابی جیسے مسائل پیدا ہورہے ہیں کیونکہ جوں جوں نت نئی چیزیں جیسے کہ فیس بک، انسٹا گرام، اسنیپ چاٹ اورگیمز کی دیگر ایپس سامنے آرہی ہیں بچوں کے اسکرین ٹائم کادورانیہ بڑھتا جارہاہے۔ خاص طور پر رات میں موبائل فون کو تکتے رہنے سے نیند کی خرابی اور ڈپریشن کا عارضہ عام ہوتا جارہاہےا ور ماہرین اس تشویش میں مبتلا ہیں کہ کہیں الیکٹرونک ڈیوائسز لوگوں کے دماغ کو پگھلا نہ دیں۔

دی جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق موبائل فون کے استعمال سے بچوں کی دماغی صلاحیتیں متاثر ہو رہی ہیں، ساتھ ہی ان کو بڑے خطرات کا سامنا ہے۔ اگرچہ برین کینسر سے متعلق ڈیٹا ابھی تصدیق شدہ نہیں ہے، تاہم سائنسدانوں نے دریافت کیاہے کہ بچے اگر موبائل فون استعمال کرتے ہیں تو اس سے بچوں کی سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہوسکتی ہے، مزید یہ کہ ان کے رویّوں کے مسائل بھی سامنے آسکتے ہیں۔ یہاں تک کہ کلاس روم میں بھی ان کا موڈ اور قابلیت متاثر ہوسکتی ہے، خصوصاً اگر وہ وقفے کے دوران موبائل فون استعمال کریں۔ والدین بچوں کو موبائل فون اسکول لے جانے کی اجازت دے دیتے ہیں، جس میں وہ گیم کھیلتے ہیں، سوشل میڈیا اور چیٹنگ ایپس پردوستوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے ہیں، یہاں تک کہ پڑھائی کے دوران بھی وہ ایک دوسرے کو ٹیکسٹ میسیج بھیج رہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اہم لیکچر پر دھیان نہیں دے پاتے اور یوں پڑھائی میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔

12/31/2021

Child Psychology...

موجودہ دور کے بچے بدتمیز کیوں ہوتے جارہے ہیں 5 وجوہات

بچے اللہ تعالی کی نعمت ہیں جو اگر نہ ہوں تو انسان اُن کی طلب میں کیا کُچھ نہیں کرتا اور اگر ہوجائیں اور فرمانبردار نہ ہوں تو بھی انتہائی تکلیف دہ چیز ہے اور والدین کے لیے ایسے بچے درد سر بن جاتے ہیں اور اُنہیں وقت سے پہلے بُوڑھا کرنے کا باعث بن جاتے ہیں۔

نافرمانبرداری کا الزام آج کے دور کے بچوں پر عام لگایا جارہا ہے اور اس الزام کے پیچھے حقیقت بھی کُچھ ایسی ہی ہے ماہرین نفسیات کا کہنا ہے موجودہ دور کے بچے پچھلے عہد کے بچوں سے کہیں زیادہ گُستاخ اور نافرمانبراد ہیں اور اس کے پیچھے ماہرین کا کہنا ہے 5 وجوہات ہیں۔

نمبر 1 بچوں کی رشتہ داروں سے دُوری
آج کے دور کے والدین پسند نہیں کرتے کے کوئی دُوسرا اُن کے بچوں کو کوئی بات سمجھائے اور اس کی وجہ والدین خودمختار بننا چاہتے ہیں اور اگر کوئی دُوسرا اُن کی مدد کرنا چاہے حتی کہ بچے کے دادا دادی اور نانا نانی وغیرہ بھی تو وہ سمجھتے ہیں کے یہ اُن کی ذاتی زندگی میں دخل اندازی ہے اور دُوسرے لوگوں کو اپنی حد میں رہنا چاہیے۔
پچھلی نسلوں میں یہ چیز موجود تھی کہ وہ جانتے تھے کہ بچے کی تربیت میں رشتے داروں کا بڑا کردار ہوتا ہے چنانچہ وہ بچوں کو دوسرے رشتہ داروں کا ادب بھی سیکھاتے تھے مگر آج کے دور کے بچے رشتہ داروں مثلاً چاچا تایا ماموں وغیرہ کو اہمیت نہیں دیتے اور اگر وہ اُنہیں کوئی بات سمجھائیں تو بچوں سمیت اُن کے والدین بھی ناراض ہوجاتے ہیں اور یہ ایک بڑی وجہ ہے کہ بچے بڑوں کے ادب سے دُور ہوتے جارہے ہیں۔

نمبر 2 بچوں کے نخرے برداشت کیے جارہے ہیں
دور کے بچے اگر کوئی گُستاخی کرتے ہیں تو والدین اُن کی بدتمیزی کو برداشت کر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ابھی بچے ہیں اور جب بڑے ہوں گے تو یہ خودبخود سمجھنے لگ جائیں گے اور یہ ایک غلطی ہے کیونکہ بچے بہت تیزی سے سیکھتے ہیں اور اگر اُنہیں کسی غلط بات پر ٹوکا نہ جائے تو وہ اُس غلطی کو دہرائیں گے اور اُن کے اندر یہ بات نہیں آئے گی کہ وہ غلطی کر رہے ہیں لہذا بچوں کو ہر غلط کام پر روکنا بہت زیادہ ضروری ہے۔

نمبر 3 والدین بچوں کو مصروف رکھنے کے لیے شارٹ کٹ استعمال کر رہے ہیں
کُچھ ہی سال پہلے بچوں کو ریڈیو اور ٹی وی وغیرہ کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی اور اُنہیں کارٹون یا اپنا کوئی پروگرام دیکھنے کے لیے صبح سویرے اُٹھنا پڑتا تھا اور شام کو مخصوص وقت پر والدین سے درخواست کر کے اپنا پسندیدہ ٹی وی شو وغیرہ دیکھنا پڑتا تھا مگر آج کے دور کے بچوں کے پاس آئی پوڈز، ٹیبلٹ، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ وغیرہ موجود ہیں جن پر وہ بغیر کسی کی اجازت طلب کیے جب چاہے اور جتنی دیر چاہیں اپنے پروگرامز دیکھتے ہیں۔
چیزوں کی اس فراوانی کا ایک نقصان یہ ہے کہ بچے جو پہلے چھوٹی عمر میں اجازت لینا سکھتے تھے اب اپنی عُمر سے پہلے ان تمام چیزوں پر خود مختار ہو رہے ہیں اور اگر اُنہیں کوئی دوسرا بڑا ایسا کرنے سے منع کرتا ہے تو وہ ناراض ہوتے ہیں اور بدتمیزی کرتے ہیں۔

نمبر 4 آج کےبچے والدین کی نرمی کا فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتے ہیں
موجودہ دور میں والدین بچوں کی ہر بات سُنتے ہیں اور مانتے ہیں اور بچوں کی رائے کو اہمیت دیتے ہیں، بچوں کی رائے کو اہمیت دینا ایک اچھی بات ہے مگر جب ہر کام میں بچے دخل اندازی شروع کریں اور والدین اُنہیں سختی سے منع نہ کریں تو یہ چیز بچوں کی تربیت پر اثر انداز ہوتی ہے اور اُنہیں بدتمیز بناتی ہے۔

نمبر 5 والدین کا تمام وقت بچوں کے لیے

بچے لاڈ پیار اور والدین کے وقت کے حق دار ہوتے ہیں مگر والدین کو اپنی ذات کے لیے بھی وقت درکار ہوتا ہے اور یہ بات بچوں کو سمجھانا بہت ضروری ہے کہ والدین کی بچوں کے علاوہ بھی اپنی زندگی ہے جہاں اُن کو وقت دینا بہت ضروری ہے اور والدین کی اُس زندگی میں دخل اندازی کرنا بدتمیزی میں شُمار ہوتا ہے، مثال کے طور پر والد اگر گھر سے کہیں کام جارہا ہے تو عام طور پر بچے موٹر سائیکل یا گاڑی پر اُس کے ساتھ جانا چاہتے ہیں اور وہ اس کام کے لیے زد کرتے ہیں ایسے موقع پر والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو ادب سیکھائیں اور اُنہیں بتائیں کے کہ ضروری نہیں ہے کہ بچے ہر جگہ والدین کے ساتھ جائیں۔
اگر آپ کے ذہن میں بچوں کو ادب سیکھانے کے لیے ان پانچ باتوں کے علاوہ بھی کوئی بات آرہی ہے تو ہمارئے ساتھ ضرور شئیر کیجیے گا
♥♥

12/30/2021

بچوں کی بولنے کی جھجک دُور کرنے کے لیے ان 5 ہدایات پر عمل کریں

بچے معصوم ہوتے ہیں اور بڑوں کے تھوڑے سے غُصہ دیکھانے سے ڈر اور خوف کا شکار ہو سکتے ہیں خاص طور پر وہ بچے جو زیادہ حساس طبیعت کے ہوتے ہیں اُن میں یہ خوف جڑ پکڑ لیتا ہے، وہ کوئی بھی کام کرتے ہُوئے جھجکنا شروع کردیتے ہیں خاص طور وہ بچے جو ابھی بولنا سیکھ رہے ہوں وہ اس خوف سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور اُن کی زُبان الفاظ کو ادا کرنے میں اُن کا ساتھ نہیں دیتی۔

اس آرٹیکل میں ہم ماہرین کے مُطابق 5 ایسی ہدایات شامل کر رہے ہیں جن پر عمل کرکے والدین جہاں بچوں کو پُر اعتماد بنا سکتے ہیں وہاں اُنکے بچے اپنی زبان کو جلد سیکھ جائیں گے اور اچھے مکرر بننے میں اُن کی مدد ہوگی۔

نمبر 1 بچوں سے گفتگو

بچوں سے گفتگو کے دوران الفاظ کو بچوں کی طرح ادا نہ کریں اور آسان الفاظ کا چناؤ کرکے اُن سے ایسے ہی بات کریں جیسے کسی بڑے سے بات کر رہے ہیں تاکہ وہ بھی آپ سے ایسے ہی گفتگو کریں، یاد رکھیں لاڈ میں کی ہُوئی گفتگو بچوں کے بولنے کی صلاحیت پر اثر انداز ہوسکتی ہے اور بچے ویسا ہی تلفظ اپنا سکتے ہیں جو کے اُن کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔

نمبر 2 بچوں سے سوالات کریں

بچوں سے روزانہ اُن کے مختلف امور پر سوالات کریں اور اُن کے جوابات کو غور سے سُنیں اور اگر وہ کہیں غلط ہیں تو دھیمے لیجے کیساتھ اُن کو درُست کریں اور اپنے سوالات کو ایسے ہی کریں جسیے کسی بڑے سے سوال پُوچھا جا رہا ہو۔

نمبر 3 بچوں کی کہانیاں

چھوٹے بچے عام طور پر کہانیوں سے زیادہ سیکھتے ہیں اور اگر والدین اچھے نتائج کی کہانیاں اُنہیں سُنائیں تو وہ انہیں یاد کر لیتے ہیں اور اُن کی Vocabulary میں الفاظ کا اضافہ ہوتا ہے۔ اپنی کہانی سُنانے کے بعد بچے سے کہانی کے متعلق سوالات کریں تاکہ آپ کو پتہ لگ سے کہ اُس نے کہانی کتنی توجہ سے سُنی ہے۔

نمبر 4 بچوں کی بات سُننا
چھوٹے بچے جب آپ کو کوئی بات بتائیں تو اُسے توجہ سے سُنیں اور نظر انداز نہ کریں اور نہ ہی اُن کی گفتگو کے دوران اُن کی بات کاٹیں وگرنہ وہ بھی بات کو کاٹنا شروع کردیں گے جو کے اُن کے اخلاق کو متاثر کرے گی۔

نمبر 5 بچوں سے مثبت گفتگو
بچوں سے گفتگو کے دوران منفی باتیں نہ کریں اور ہمیشہ اُن سے مثبت گفتگو کریں کیونکہ وہ سب سیکھ رہے ہوتے ہیں اور آپ کی کوئی بھی غلط بات وہ بہت جلدی یاد کرلیتے ہیں اور پھر واپس آپ کو لوٹاتے ہیں ، بچوں سے ہنسی مذاق کی گفتگو کریں مگر یاد رکھیں اُنہیں طنز یا اُن کی کسی حرکت پر مذاق کا نشانہ نہ بنائیں وگرنہ اُن کے اندر آپ کے سامنے آنے اور کوئی کام کرنے کی جھجک پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہ
[email protected]

12/25/2021

second free camp of series..

10/09/2021

Insha Allah,11th october 2021 monday, inauguration of first stat of the art GYNAE AND CHILDREN hospital in history of district Layyah,under supervision of FCPS consultants with full n latest operation theater, facilities of neonatal resuscitation,nursery ,labortary and pharmacy..

Location

Category

Telephone

Website