Knowledge is power

  • Home
  • Knowledge is power

Knowledge is power I create a new page please everyone follow me

ماضی، مستقبل اور حال یہ بولنے میں تو صرف الفاظ یا اگر ہم زیادہ سوچیں تو اردو زبان میں( زمانے ) لیکن دنیا میں وہ لوگ اکثر...
01/05/2025

ماضی، مستقبل اور حال یہ بولنے میں تو صرف الفاظ یا اگر ہم زیادہ سوچیں تو اردو زبان میں( زمانے ) لیکن دنیا میں وہ لوگ اکثر درست جانتے ہیں جن پر خود گزری ہو یا گزار رہا ہوں ۔

قیدی نمبر 1772 مرحوم جناب ذوالفقار علی بھٹو کی یوم ولادت 5 جنوری 1928 لڑکانہ اور اس کے آخری الفاظ جو پھانسی پر لٹکانے سے...
05/01/2025

قیدی نمبر 1772 مرحوم جناب ذوالفقار علی بھٹو کی یوم ولادت 5 جنوری 1928 لڑکانہ اور اس کے آخری الفاظ جو پھانسی پر لٹکانے سے پہلے ان کی منہ سے ادا ہوئی تھی
ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیئے جانے کی خبر انہیں سب سے پہلے کس نے سنائی، یہ خبر سن کر انہوں نے کس ردعمل کا اظہار کیا، بیگم نصرت بھٹو اور آنسہ بے نظیر نے ان سے آخری ملاقات کب کی، کس طرح کی، کیا کیا باتیں ہوئیں، بھٹو مرحوم نے اپنی آخری رات کس طرح گزاری وہ اپنی کال کوٹھڑی سے تختہ دار تک کیسے پہنچے؟ اس سلسلے میں آج تک بہت کچھ کہا جا چکا ہے، بہت کچھ لکھا جا چکا ہے مگر شاید پھر بھی مکمل تفصیل آج تک کسی نے نہیں لکھی ہے۔ 4 اپریل 8 بجے شام کو فوجی حکام کی طرف سے سپرنٹنڈنٹ جیل یار محمد کو حتمی طور پر ہدایت کر دی گئی کہ وہ بھٹو کو الصبح دو بجے پھانسی پر لٹکا دیئے جانے کی اطلاع دے دے اور اگر وہ وصیت لکھنا چاہتے ہوں تو اس کے لکھنے کی ہدایت کر دے، یار محمد خان نے اپنے دو ماتحت افسروں کاظم بلوچ اور مجید قریشی کو یہ ناگوار فریضہ ادا کرنے کیلئے بھیج دیا۔ مجید قریشی نے سوگوار لہجے میں کہا۔
”سر مجھے افسوس ہے آپ کی زندگی کا آخر وقت آن پہنچا ہے“۔ بھٹو نے بے یقینی کے انداز میں مجید قریشی کی طرف دیکھا، چند لمحے ان کے چہرے پر پریشانی رہی۔ ”What are you saing“ انہوں نے نہایت نحیف لہجے میں کہا۔
مجید قریشی نے جواباً کہا۔ ”I am very Sorry sir, the news is correct اس مرحلے پر بھٹو چند لمحے خاموش رہے پھر مجید قریشی سے سوال کیا۔ ”کیا بیگم نصرت کی ضیاءالحق کے ساتھ ملاقات نہیں ہو سکی؟“
”نہیں جناب، براہ راست رابطہ نہیں ہو سکا“ مجید قریشی کے ان الفاظ پر بھٹو چند لمحے پژمردہ سے رہے، پھر بولے ”Are you Sure, They will do, that"?“ مجھے یہ کہا گیا ہے کہ میں آپ کو وصیت لکھنے کیلئے کاغذ قلم پہنچا دوں“ مجید قریشی نے کاغذ اور قلم بھٹو کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا اور خود انہیں خدا حافظ کہہ کر کوٹھڑی سے باہر نکل آیا۔ بھٹو گھنٹہ بھر کاغذوں پر کچھ لکھتے رہے، پھر انہوں نے یہ سب کاغذ پھاڑ ڈالے، اور لیٹ گئے۔
ایک بجے کے قریب دوبارہ مجید قریشی کو بھٹو کے پاس بھیجا گیا۔ مجید قریشی نے دیکھا بھٹو بالکل بے حس پڑے تھے ، مجید قریشی گھبرا کر کوٹھڑی سے باہر آ گئے اور سپرنٹنڈنٹ جیل کو صورت حال سے آگاہ کیا، جیل حکام شدید پریشان ہو گئے۔
مجید قریشی کی پریشان کن اطلاع پر سپرنٹنڈنٹ جیل یار محمد ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ خواجہ غلام رسول، ڈاکٹر اصغر علی شاہ سمیت بھٹو کی کوٹھڑی کی طرف لپکے، مجید قریشی بدستور ان کے آگے آگے تھا، ان کے پیچھے انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات چودھری نذیر احمد اور کرنل رفیع عالم بھی بھٹو کے سیل کی طرف دوڑ پڑے۔ ان سب کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں، ان سب نے دیکھا بھٹو گہری اور پرسکون نیند سو رہے تھے، بلب کی روشنی میں ان کا پروقار چہرہ دمک رہا تھا، ڈاکٹر اصغر علی شاہ نے سوتے میں ان کی نبض دیکھی اور باقی لوگوں کو سر کے اشارے سے ان کے زندہ سلامت ہونے کی نوید دے دی، یار محمد خان سپرنٹنڈنٹ جیل نے مجید قریشی کو اشارہ کر کے کہا، ”صاحب کو اٹھا دو“ مجید قریشی نے بھٹو مرحوم کو آہستہ آہستہ جھنجھوڑا، نیند سے بیدار ہو کر بھٹو اٹھ کر بیٹھ گئے، مجید قریشی نے انہیں کہا کہ وہ اٹھ کر نہا لیں، ان کے آخری غسل کیلئے پانی تیار ہے، بھٹو چند لمحے خاموش رہے پھر بولے، میں پاک ہوں نہانے کی ضرورت نہیں ہے“۔
انہوں نے بھٹو کو موت کے وارنٹ کی عبارت پڑھ کر سنائی اور پوچھا سر آپ پھانسی گھاٹ تک چل کر جانا پسند کریں گے یا آپ کی سہولت کیلئے اسٹریچر منگوا لیا جائے، ”مجھے وصیت نہیں لکھنے دیتے تو پھر میں آپ لوگوں کے ساتھ تعاون نہیں کرتا“ یہ کہہ کر بھٹو دوبارہ لیٹ گئے۔ کرنل رفیع عالم نے برہم ہو کر کہا سٹریچر منگواﺅ، جلدی کرو، چار سپاہی سٹریچر لے کر آ گئے اور بھٹو کے ہاتھوں میں ہتھکڑی لگا دی اور ایک فوجی افسر نے آگے بڑھ کر بھٹو کو اٹھا کر سٹریچر پر بٹھا دیا اور سپاہیوں نے سٹریچر اٹھا لی۔ بھٹو نے ایک حسرت بھری نظر اپنی کال کوٹھڑی کی دیواروں پر ڈالی، جیسے ان دیواروں کو خدا حافظ کہا ہو۔ یہ چھوٹا سا قافلہ تقریباً پونے دو بجے بھٹو کی آخری قیام گاہ میں سے اس طرح نکلا کہ تمام بڑے افسر آگے آگے تھے، جیل کے چھوٹے افسر سٹریچر کے ساتھ کچھ فاصلے پر چل رہے تھے۔بھٹو انتہائی مدھم لہجے میں بولے۔
I am sorry for my county, she will be left alone without its leader.
انہوں نے یہ جملہ چونکہ بہت ہی مدھم لہجے میں کہا تھا، جیل اور فوج کے جن افسران نے یہ جملہ فاصلے سے سنا تھا وہ یہ سمجھے کہ بھٹو نے اپنی بیوی کیلئے یہ کا ہے کہ وہ اکیلی رہ گئی ہے۔ ان سے پوچھا گیا کیا وہ خود پھانسی کا چبوترا چڑھ سکیں گے، وہ نہایت خود اعتمادی کے ساتھ چبوترے کے زینے چڑھ گئے۔ انہوں نے آخری چبوترے پر پہنچ کر اپنا پاﺅں زور سے چبوترے پر مارا جیسے یہ دیکھا چاہتے ہوں کہ یہ واقعی تختہ ہے یا کسی ڈرامے کا حصہ۔
تارا مسیح نے ان کے چہرے پر نقاب چڑھایا گلے میں رسی ڈال کر گرہ لگا دی۔
ابھی پھانسی کا لیور نہیں کھینچا گیا تھا کہ انہوں نے تقریباً چیخنے کے انداز میں کہا ”Finish“ یہ آخری الفاظ تھے جو ان کے منہ سے نکلے تھے۔ اس وقت دو بج کر پانچ منٹ ہو چکے تھے۔ سپرنٹنڈنٹ نے اشارہ کیا اور پھانسی کا لیور گرا دیا گیا تختے نیچے گر گئے اور پاکستان کا سب سے بڑا لیڈر 11 فٹ گہرے گڑھے میں معلق ہو گیا۔یاد رہے ایک ملاقات میں تارا مسیح نے راقم کو بتا یا اتنے کو پھانسی دینے کا معاوضہ اسے صرف دس روپے ملا۔

راقم نے اپریل 84ءمیں لاہور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین کا جو انٹرویو اپنے ماہنامہ ”مون ڈائجسٹ“ لاہور میں شائع کیا تھا۔ اس انٹرویو میں مولوی مشتاق حسین نے کہا تھا کہ یحییٰ بختیار نے بھٹو کا کیس صحیح طور پر نہیں لڑا تھا اگر میں بھٹو کا وکیل ہوتا تو بھٹو بری ہو سکتے تھے۔ اس پر یحییٰ بختیار نے میرے خلاف کوئٹہ کی عدالتوں میں دو مقدمے دائر کر دیئے اور میں ان مقدمات کی پیروی کیلئے دس سال تک کوئٹہ کی عدالتوں میں جاتا رہا۔ یحییٰ بختیار نے میرے خلاف جوہر جامنے کا دعویٰ کیا تھا وہ جیت گیا تھا۔ عدالت نے مجھے ہرجانہ بمع خرچہ ادا کرنے کے احکامات جاری کر دیئے تھے۔ لیکن اسی دوران روزنامہ ”نوائے وقت“ کے ایڈیٹر جناب مجید نظامی نے میری یحییٰ بختیار سے صلح کروا کر میری جان چھڑا دی۔ میں ان کا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھلا سکتا۔

پت جھڑ میں بہاروں کی فضا ڈھونڈ رہا ہےپاگل ہے جو دنیا میں وفا ڈھونڈ رہا ہےخود اپنے ہی ہاتھوں سے وہ گھر اپنا جلا کراب سر ک...
03/01/2025

پت جھڑ میں بہاروں کی فضا ڈھونڈ رہا ہے
پاگل ہے جو دنیا میں وفا ڈھونڈ رہا ہے
خود اپنے ہی ہاتھوں سے وہ گھر اپنا جلا کر
اب سر کو چھپانے کی جگہ ڈھونڈ رہا ہے
کل رات تو یہ شخص ضیا بانٹ رہا تھا
کیوں دن کے اجالے میں دیا ڈھونڈ رہا ہے
شاید کے ابھی اس پہ زوال آیا ہوا ہے
جگنو جو اندھیرے میں ضیا ڈھونڈ رہا ہے
کہتے ہیں کہ ہر جا پہ ہی موجود خدا ہے
یہ سن کے وہ پتھر میں خدا ڈھونڈ رہا ہے
اس کو تو کبھی مجھ سے محبت ہی نہیں تھی
کیوں آج وہ پھر میرا پتا ڈھونڈ رہا ہے

کس شہرِ منافق میں یہ تم آ گئے ساغرؔ
اِک دوجے کی ہر شخص خطا ڈھونڈ رہا ہے

محبت صرف ایک خوبصورت احساس ہے جو اللّٰہ تعالیٰ نے انسانوں کے اندر پیدا کیا ہے تاکہ یہ دینا صحیح معنوں میں چل سکے ۔ ہر رش...
31/12/2024

محبت صرف ایک خوبصورت احساس ہے جو اللّٰہ تعالیٰ نے انسانوں کے اندر پیدا کیا ہے تاکہ یہ دینا صحیح معنوں میں چل سکے ۔ ہر رشتے میں اس خوبصورت احساس کی وجہ سے چار چاند لگ جاتے ہیں۔ نام جو بھی ہو لیکن رشتوں کو نکھار دیتا ہے۔
محبت یہ نہیں کہ دوسرے کو غلام بنایا جائے ،محبت تو یہ ہے کہ اس کا احساس کیا جائے۔ وہ غلط ہو تو اس کو تحمل سے سمجایا جائے ۔ کوئی پریشان ہو تو اس کی پریشانی کو دور کیا جائے۔ وہ اگر غلط راستے پر ہو تو اس کے صحیح راستے کا تعین کیا جائے۔ وہ اگر کوئی مصیبت میں ہو تو اس کا سہارا بنا جائے ۔ اس کے غم میں شامل ہوکر اس کے دکھ کو کم کیا جائے۔ خوشی کے لمحات کو اور بھی گوشوار بنایا جائے۔ غلط فہمیاں اگر پیدا ہو بھی جائے تو دوسرا ان غلط فہیمیوں کو دور کر کہ دوسرے کے احساس کو مجروح نہیں کرتا ۔ محبت یہ نہیں کہ بات بات پر دعوے و قسم کھائی جائے، نہیں بلکہ عمل کرکہ اس کے احساس کو محفوظ رکھتا ہے۔ تو اسے محبت ،پیار یا عشق کہتے ہیں

ایک دن بسلسلہ امتحان لاہور جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ جون کی دو تاریخ تھی گرمی کی شدت اور حبس بھی انتہا کی تھی۔ واپسی پہ رستے...
28/12/2024

ایک دن بسلسلہ امتحان لاہور جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ جون کی دو تاریخ تھی گرمی کی شدت اور حبس بھی انتہا کی تھی۔ واپسی پہ رستے سے میں نے ایک جگہ رک کر ٹھنڈی سردائی پی اور رکشہ لے کر جب نجی بس ٹرمینل پہ پہنچا تو ٹکٹ سنٹر پہ بیٹھے ملازم سے سیالکوٹ جانے کے لیے ٹکٹ مانگا تو اس نے بتایا کہ آپ کی گاڑی تین گھنٹے کے بعد ٹرمینل پہ آئے گی تو اس بابت آپ کو تین ساڑھے تین گھنٹے متعلقہ گاڑی کا انتظار کرنا ہو گا۔ یہ سنتے ہی ایک لمحہ تو پریشانی ہوئی کہ اتنا وقت انتظار تو بہت مشکل ہے اسی دوران میں سوچا کہ کسی اور بس سٹیشن سے پتا کر لوں کہ اگر کوئی گاڑی اسی لمحہ نکل رہی تو میں اس میں چلا جاؤں لیکن بے سود۔

انتظار کے علاوہ اور کوئی آپشن نہ بچا تھا کیوں کہ یہی بس تھی جو مجھے سب سے پہلے مل سکتی تھی۔ تو پھر اسی بس کے انتظار میں پہلے تو میں نے بیٹھنے کے لیے اک مناسب جگہ ڈھونڈنا چاہی لیکن بے سود۔ کیونکہ اس وقت ٹرمینل مسافروں سے کھچا کھچ بھرا پڑا تھا کہیں کوئی جگہ نہ مل سکی کچھ دیر تو میں کھڑا انتظار کرتا رہا اور اپنے ارد گرد اور ٹرمینل کے اندر اور باہر آتے جاتے مسافروں کو دیکھتا رہا۔ کچھ دیر تقریباً آدھا گھنٹا ایسے ہی کھڑے کھڑے انتظار کرنے کے بعد بالآخر ایک سیٹ خالی ہوتی نظر آئی۔

میں جلد از جلد وہاں براجمان ہونے کے لیے تیزی سے اس جانب بڑا اور اس سیٹ کو اپنے قبضہ میں کر لیا۔ ابھی اتنے میں تین گھنٹے بس کی آمد میں باقی تھے۔ جب میں گاڑی کی آمد کا انتظار کر رہا تھا تو مشاہدے میں آیا کہ ہر شخص کسی دوسرے مرد و عورت کو مختلف زاویہ سے دیکھ رہا تھا اور بقدر بساط منفی یا مثبت رائے دے رہا تھا یا کوئی خاندان اپنی ہی باتوں میں مشغول تھا۔ انہی بے چین ہستیوں کے درمیان میں نے ایک ننھی سی گڑیا کو دیکھا جو کہ ارد گرد سے قطعی لاتعلق، اپنے آپ میں ہی مگن تھی۔

اس کو کوئی فکر نہ تھی کہ کون آ رہا کون جا رہا کوئی کیا کر رہا یا کیسا دک رہا ہے۔ اس کی اس درجہ بے نیازی نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ وہ کون سی ایسی قوت ہے جس نے اس کو ہر چیز سے دور رکھا ہوا ہے کہ جس نے باقی سب کو پریشان کر رکھا ہے، وہ کیوں نہیں ارد گرد آتے لوگوں کو دیکھ رہی اتنا ابھی سوچا ہی تھا کہ اس کے ہاتھ میں مجھے اک چیز نظر آئی جس میں وہ کھوئی ہوئی تھی۔ وہ تھا لالی پاپ۔ جس نے اسے اپنے آپ میں اتنا مشغول کر دیا تھا کہ اس کے سامنے دنیا کی ہر چیز ہر رنگینی ماند پڑ گئی۔ وہ ارد گرد ساری چیزیں اس کے لیے بے مول تھیں۔

اس ایک لمحے نے زندگی کا فلسفہ سمجھا دیا اور بندگی کا حق بھی سکھا دیا کہ اگر بچے کو اپنی من پسند چیز مل جائے تو اس کے لیے باقی ماندہ تمام اجزاء میں دلچسپی ماند پڑھ جاتی ہیں۔ پھر جو اس کی من پسند چیز اس کے پاس ہوتی ہے تو وہی اس کے لیے سب کچھ ہوتا!

کاش کہ قناعت پسندی اور ارتکاز کا یہ مقام ہم بڑے بھی پا سکیں۔

آئیے آج ہم عشق اور محبت کے درمیان تفاوت پر بات چیت کریں گے جو محبت اور عشق کا مطلب ایک ہی سمجھتے ہیں۔ نادان لوگ ہیں۔ ایک...
27/12/2024

آئیے آج ہم عشق اور محبت کے درمیان تفاوت پر بات چیت کریں گے
جو محبت اور عشق کا مطلب ایک ہی سمجھتے ہیں۔ نادان لوگ ہیں۔ ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر اسے محبت سمجھ بیٹھتے ہیں‘ اور اگر کسی کی آنکھ میں ہلکا سا آنسو آ جائے تو اسے عشق کی انتہا سمجھ بیٹھتے ہیں۔

محبت میں فیصلے بدلتے رہتے ہیں۔ حالات بدلتے ہیں۔ جذبات بدلتے ہیں۔ انتخاب بدل جاتے ہیں۔ انسان بدل جاتے ہیں‘ لیکن عشق؟ عشق آخری فیصلہ ہوتا ہے! عشق میں کچھ نہیں بدلتا۔ ہاں! اگر بدلتا ہے تو انسان کے جسم کا رنگ بدل جاتا ہے‘ لیکن عشق کا رنگ وقت کے ساتھ ساتھ اور پختہ ہوجاتا ہے۔محبت انسان کو بدل دیتی ہے‘ لیکن عشق انسان کو ادھورا کر کے بھی مکمل کر دیتا ہے۔ انسان کی جب تک سانسں چلتی رہتی ہیں، وہ کئی محبتیں کرتا ہے۔ شاید انسان کی آخری سانس تک تو محبت کا وجود اور تصور ہی اس کی زندگی سے ختم ہو جاتا ہے۔ عشق میں کبھی الوادع کا لمحہ نہیں آتا۔ عشق کا آخری مقام عاشق کی آخری سانس ہے۔

تم اتنا جو مسکرا رہے ہوکیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہوہم سے پوچھو کہ محبت میں خسارہ کیا ہے جان لے کر بھی کوئی پوچھے کہ ہارا ...
27/12/2024

تم اتنا جو مسکرا رہے ہو
کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو

ہم سے پوچھو کہ محبت میں خسارہ کیا ہے
جان لے کر بھی کوئی پوچھے کہ ہارا کیا ہے

ایک عمر کٹی جن کے وفاداری میں ہم
وہ کہتے ہیں کہ تم تو پاگل ہو تمھارا کیا ہے
Please like share and follow 👍🔥

برصغیر اور دنیا بھر کے اردو داں طبقے میں آج اردو کے عظیم شاعر مرزا اسداللہ بیگ خان غالب کے 223 ویں یوم پیدائش کا جشن من...
27/12/2024

برصغیر اور دنیا بھر کے اردو داں طبقے میں آج اردو کے عظیم شاعر مرزا اسداللہ بیگ خان غالب کے 223 ویں یوم پیدائش کا جشن منایا جا رہا ہے۔

مرزا اسداللہ خان غالب 27 دسمبر 1797 کو کالا محل، آگرہ میں پیدا ہوئے اور آپ کے والد کا نام عبداللہ بیگ اور والدہ کا نام عزت النسا بیگم تھا۔ 13 برس کی عمر میں آپ کی شادی امراؤ بیگم سے ہوئی لیکن غالب کی کوئی اولاد بھی پیدائش کے بعد جانبر نہ رہ پائی۔ ان سانحے کا غالب کی طبیعت پر گہرا اثر ہوا اور اس کا رنگ شاعری میں بھی نمایاں رہا۔
ہواہےشہکامصاحبپھرےہےاتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے

دہلی میں پرورش پانے والے غالب نے کم سنی ہی میں شاعری کا آغاز کر دیا تھا۔ غالب کی شاعری کا انداز منفرد تھا، جسے اس وقت کے استاد شعراء نے تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ان کی سوچ دراصل حقیقی رنگوں سے عاری ہے۔مرزا اسد اللہ خان غالب نے دیوان کے ڈھیر لگانے کے بجائے بہترین شاعری کے حامل چند ہزار اشعار کہے ہیں اور ان کے خطوط کو بھی اردو ادب میں خاص درجہ حاصل ہے۔غالب کی شاعری میں روایتی موضوعات یعنی عشق، محبوب، رقیب، آسمان، آشنا، جنون، انسانی معاملات، نفسیات، فلسفہ، کائناتی اسلوب اور ایسے ہی دیگر کا انتہائی عمدہ اور منفرد انداز میں بیان ملتا ہے۔سبزہ و گل کہاں سے آئےابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے۔مرزا غالب اپنے اس انداز سے یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ وہ اگر اس انداز میں فکری اور فلسفیانہ خیالات عمدگی سے باندھ سکتے ہیں تو وہ لفظوں سے کھیلتے ہوئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔

‏زندگی میں اونچی اڑان کے لئے" باز " بنیں ، "دھوکے باز" نہیں ۔
27/12/2024

‏زندگی میں اونچی اڑان کے لئے" باز " بنیں ، "دھوکے باز" نہیں ۔

کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہمتو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ
23/12/2024

کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم
تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ

Address


RIYADH

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Knowledge is power posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

  • Want your practice to be the top-listed Clinic?

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram