Corruptions of Isra Eye Hospital

  • Home
  • Corruptions of Isra Eye Hospital

Corruptions of Isra Eye Hospital Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Corruptions of Isra Eye Hospital, Hospital, .

ال ابراہیم آئی ہاسپٹل ایک کرپٹ ادارہقسط نمبر 14شفیع رحیمآئیے آج آپ کو ڈاکٹر فتاح میمن کے کرپشن کی داستان جو بڑی لمبی ہے ...
25/06/2022

ال ابراہیم آئی ہاسپٹل ایک کرپٹ ادارہ
قسط نمبر 14
شفیع رحیم
آئیے آج آپ کو ڈاکٹر فتاح میمن کے کرپشن کی داستان جو بڑی لمبی ہے اس کی ایک اور جھلک دکھاتے ہیں ـ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ فتاح میمن کے مختلف جعلی اکاؤنٹس ہیں جو ان کے دستء راست سلیم بڑدی آپریٹ کرتے ہیں ـ فتاح میمن ڈالر ذخیرہ اندوزی میں بھی ملوث ہیں وہ ڈالروں کی اسمگلنگ کرتے ہیں ـ فتاح میمن کے خلاف گواہی دینے کے لیے تمام ڈاکٹر اور ٹیکنیشن تیار ہیں ، ان کے خلاف ثبوت بھی موجود ہے ـ وہ ڈالرز کیسے حاصل کرتے ہیں ہم آپ کو بتاتے ہیں ـ فتاح میمن البصر انٹرنیشنل کی جانب سے افریکہ کے غریب ملکوں میں آئی کیمپ لگاتے ہیں ـ ان فری آئی کئمپس کی ادائیگی ان کو ڈالروں میں ہوتی ہے ـ یہ بات یاد رہے انٹر نیشنل کیمپ کی ساری ادائیگی ڈالروں میں ہوتی ہے اور ال بصر جو ایک اسلامی ادارہ ہے وہ یہ ادائیگی کیمپ ختم ہونے سے پہلے اس ہدایت کے ساتھ کرتا ہے کہ" مزدوروں کی مزدوری ان کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کی جائے ـ" اور یہ مکمل ادائیگی وہ کیمپ میں خدمت انجام دینے والے ڈاکٹروں اور ٹینیکشنز کے معاوضے کے طور پر ادا کرتا ہے مگر فتاح میمن خدمت انجام دینے والے ڈاکٹروں اور ٹیکنیشنز کو ڈالروں کی بجائے پاکستانی روپوں میں تین مہینے بعد ادا کرتا ہے اس طرح تین ماہ بعد ڈالروں کا ریٹ بھی اوپرچلا جاتا ہے ـ دوسری چالاکی فتاح میمن یہ کرتا ہے کہ وہ ڈاکٹروں اور ٹیکنیشنز کو کبھی مکمل معاوضہ ادا نہیں کرتا بلکہ کبھی %75 کٹوتی کرتا ہے اور کبھی %50 کٹوتی کرکے ادائیگی کرتا ہے باقی رقم خود رکھ لیتا ہے وہ بھی ڈالروں کی صورت میں تاکہ رقم بڑھتی رہے ـ اس طرح غریب الوطن اسٹاف کا معاوضہ مکمل ادائیگی کیے بغیر وہ ڈالروں کی ذخیرہ اندوزی کرکے وہ رقم ذاتی پراجیکٹس پر لگا دیتا ہے ـ اس کے اس ظالمانہ فعل کےخلاف اگر کوئی شخص احتجاج کرتا ہے تو اسے اس دھمکی کےساتھ بلیک میل کیا جاتا ہے "کام کرنا ہے تو ان ہی پئسوں پر کام کرو ورنہ تجھے فارغ کردیا جائے گا ـ" فتاح میمن سے پہلے ڈاکٹروں اور ٹیکنیشنز کو باقاعدہ ڈالروں میں کیمپ ختم ہونے کے فورأ بعد ادائیگی کی جاتی تھی تا کہ ڈاکٹر اور ٹیکنیشنز ملک سے باہر اپنے پیاروں کے لیے شاپنگ کرسکیں اور بقایا ڈالر اپنے ساتھ گھر لائیں مگر جب سے فتاح میمن نے چارج سنبھالا اور ڈالر کے ریٹ بھی تیزی کے ساتھ بڑھنے لگے تو کرپشن کے بےتاج بادشاھ بھوکے بھکاری فتاح میمن نے ڈاکٹر اور ٹیکنیشنز سے کہا اب أپ کو ڈالروں میں نہیں بلکہ پاکستانی کرنسی میں ادائیگی کی جائےگی وہ بھی تین ماہ بعد اپنا حصہ کاٹ کےـ کیمپ سیزن کے سارے ڈالر جو کروڑوں میں ہوتے ہیں ڈائریکٹر فتاح میمن کو منتقل کیے جاتے ہیں تاکہ ان کے ڈالروں کا ذخیرہ بڑھتا رہےـ ہمیں اس بات پر حیرانی ہوتی ہے کہ متعلقہ ادارے فتاح میمن کو ڈالروں کی ذخیرہ اندوزی کرنےجیسے گھناؤنے جرم میں گرفتار کیوں نہیں کرتے ـ اس شخص کو تو اب تک سلاخوں کےپیچھے ہونا چاہیے تھا
باقی آئندہ

آل ابراہیم آئی ہاسپٹل ایک کرپٹ ادارہقسط 13شفیع رحیمآج  ہم بات کرینگے ڈاکٹر صالح میمن اور ان کے لاڈلے داماد فتح میمن کے ظ...
23/06/2022

آل ابراہیم آئی ہاسپٹل ایک کرپٹ ادارہ
قسط 13
شفیع رحیم
آج ہم بات کرینگے ڈاکٹر صالح میمن اور ان کے لاڈلے داماد فتح میمن کے ظالمانہ کردار پر کہ اس ظالم انسان نے کس طرح فلاحی ادارے کو غریب ورکروں کے لیے ٹارچر سیل میں تبدیل کردیا ہے ۔ ادارے کے employees کو خوفزدہ کرنے کے لیے کیسے کیسے طریقے اختیار کر رکھے ہیں تاکہ وہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند نہ کرسکیں ۔ کس طرح ان کو ظلم کا شکار بنایا ہے ۔ ان کے ظلم کی داستان تو بہت طویل ہے ، سچ تو یہ ہے کہ صالح میمن اینڈ کمپنی نے employees کو ذہنی اور روحانی طور مفلوج کرکے رکھ دیا ہے ۔ اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ ہماری سیاسی قیادت نے ذاتی مفادات کی خاطر ان مظلوموں کو لاوارث چھوڑ دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ مظلوم ہر ظلم خاموشی سے سہہ رہے ہیں ۔ انسان کے قتل کی بدترین شکل اس کا معاشی قتل ہے۔اس طرح صالح میمن اینڈ کمپنی نے کئی نوجوانوں کا قتل کیا ہے ان کی زندگی برباد کی ہے ۔ یہ حقیقت ہے الابراہیم آئی ہاسپیٹل میں صالح میمن اینڈ فئملی نے ادارے کے ایمپلائیز کو ذہنی اور روحانی طور اس قدر دباؤ میں رکھا ہے جس کی مثال امریکی جنگی قیدیوں جن کو گوانتاناموبے جیل میں رکھا گیا تھا ان طالبان سے کسی طرح کم نہیں ۔ ادارے کے employees جو سینیئر اور تجربیکار ہیں جنہوں نے پچیس سے پینتیس سال ادارے کی خدمت کی ہے جنہوں نے افریکی ممالک میں رسک لے کر خطرناک بیمارہوں کا چئلنج قبول کرکے فری کئمپس میں گھر بیوی بچوں سے دور خدمات انجام دی ہیں ۔ جن کی وجہ سے ادارے کو اربوں ڈالر ملے ہیں ان کو نظرانداز کرکے اپنے عزیز قریب اور من پسند ناتجربے کار جن کو نہ عربی زبان آتی ہے نہ انگریزی ایسےافراد کو انتظامی پوسٹوں پر تعنیات کرنا ظلم نہیں تو کیا ہے ۔ جب سے ابوالمنافقین صالح میمن نے اپنے انتہائی نااہل کرپٹ داماد فتاح میمن کو ڈائریکٹر کی سیٹ پر بٹھایا ہے ایک بار بھی غریب ایمپلائیز کی تنخواہ نہیں بڑھائی گئی ۔ ان کی سروس کی وجہ سے جو کروڑوں ڈالر کمائے گئے بجائے اس کے کہ ایمپلائیز کی تنخواہیں بڑھائی جاتیں ، ان کو مراعات دے کر خوش کیا جاتا مگر ان کو ہر قسم کے نےbenifit سے محروم کرکے انہوں نے ذاتی جائدادیں بنائیں ۔ اپنے ذاتی ہسپتال بنائے محلات تعمیر کیے اور کروڑوں روپے ان محلوں کی تجوریوں میں بھر دیے ۔
ہمیں یقین ہے کہ صالح میمن اینڈ کمپنی کے محلات پر اگر FIA پلاننگ سے چھاپہ مارے تو کروڑوں روپے ان محلات نما گھروں سے برآمد ہوسکتے ہیں ۔
جب بھی employees نے کوشش کی تنخواہ کی بات کریں مگر ہر بار ایپلائیز کو دھمکی دی گئی اگر اسی تنخواہ پر کام کرنا ہے تو کرو ورنہ گھر چلے جاؤ۔ اسی طرح کئی ایمپلائیز کو جبری طور پر نوکریوں سے نکالا گیا ہے اور آج بھی تقریبا تمام ایمپلائیز ذھنی طور پر مفلوج ہیں اور کسی مسیحا کے انتظار میں ہیں کہ کب کوئی لیڈر مسیحا بن کر آتا ہے اور ان ظالموں کے ظلم سے ہمیں نجات دلاتا ہے ۔
ہمیں تعجب تو انسانی حقوق کی تنظیموں پر ہوتا ہے کہ آخر یہ تنظیمیں کس مرض کی دوا ہیں ۔ یہ اپنا حقیقی وجود بھی رکھتی ہیں یا صرف کاغذوں کے اندر موجود ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمی اگر حقیقی وجود رکھتیں تو صالح میمن اینڈ کمپنی کا کھیل ہمیشہ ہمیشہ کےلیے ختم ہوجاتا اور یہ ٹولہ سلاخوں کے پیچھے باقی زندگی گزارتا
نوٹ :۔۔اگلی قسط میں ہم آپ کو فتح میمن کے سیاہ کارناموں کے بارے میں تفصیل سے بتائین گے کہ کیسے فتح میمن اپنی ایمپلائز کو انٹرنیشنل کیمپوں میں بھیج کر ان کے کمائے گئے ڈالروں کو خرد برد کرتا ہے ۔
باقی اگلی قسط میں

ال ابراہیم آئی ہاسپٹل ایک کرپٹ ادارہقسط نمبر  12شفیع رحیمنوٹ : ملیر میں یوں تو کاغذی شیروں کی کوئی کمی نہیں ۔ کوئی اس پا...
20/06/2022

ال ابراہیم آئی ہاسپٹل ایک کرپٹ ادارہ
قسط نمبر 12
شفیع رحیم
نوٹ : ملیر میں یوں تو کاغذی شیروں کی کوئی کمی نہیں ۔ کوئی اس پارٹی کا شیر ہے تو کوئی دوسری پارٹی کا شیر ہے ۔ کوئی اس گروپ کا شیر ہے تو کوئی کسی دوسرے گروپ کا ۔ مگر سچ یہ ہے کہ ایجوکیشن ہو سیاست ہو یا سماجی مسائل کا حوالہ ہو میں نے اب تک صرف ایک شخص کو کھرا اور سچا پایا ہے ۔ ان کی باتوں میں کوئی منافقت نہیں ہوتی ۔ وہ جو لکھتا ہے سچ لکھتا ہے اور اور جو کہتا ہے دوٹوک الفاظ میں کہتا ہے ۔ ایک وہی اصلی شیر ہے جن کا نام قاضی عبداللطیف ہے ۔ ملاحظہ ہو میری پوسٹ پر ان کا دلیرانہ تبصرہ۔
ملیر میں ملیر کے کرتا دھرتاؤں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ان لوگوں (( صالح میمن اینڈ کمپنی )) نے اتنا بڑا فراڈ کیا ہے لیکن ملیر کے نمائندے اور معززین خواب غفلت میں پڑے خراٹے لے رہے ہیں ـ یا یہ صالح میمن یا اس کے داماد اس قدر طاقتور اور دلیر ہیں کہ خود کو طورخم خان سمجھنے والے ملیر کے منتخب نمائندے ان سے ڈرتے ہیں اور کوئی ایکشن نہیں لیتے ـ لیکن ایسا نہیں ہے ـ
میں شروع سے یہ کہتا آرہا ہوں کہ ملیر میں تین قسم کے لوگ رہتے ہیں ـ مفاد پرست، منافق اور بزدل ـ ہمارے جتنے بھی سیاسی سماجی رہنما ہیں ان میں یہ تینوں خوبیاں ایک ساتھ پائی جاتی ہیں ـ یعنی یہ مفاد پرست ہیں، منافق ہیں اور ساتھ ساتھ بزدل بھی ہیں ـ یقینن یہ لوگ اس کرپٹ ٹولے سے اپنے ذاتی مفادات حاصل کر رہے ہیں ـ ورنہ یہ لوگ اس قدر خود کو لاتعلق کبھی نہ کرتے ـ ہمارے عام لوگوں میں تیس فیصد منافق ہیں باقی ستر فیصد بزدل ـ اگر یہ عام لوگ منافق اور بزدل نہ ہوتے تو بھی ہمارے لوگوں کے ساتھ اس وقت جو ہورہا ہے وہ کبھی نہ ہوتا ـ اگر عام لوگ منافق اور بزدل نہ ہوتے تو یہ ان کو کالر سے پکڑتے اور پوچھتے یہ سب کیا ہورہا ہے ـ یا یہ لوگ خود جاکر ان کرپٹ اور دھوکے باز لوگوں کو کالر سے پکڑ کرسڑک پر گھسیٹ کر لاتے اور باہر پھینک دیتے ـ یہ زمین اس پر بنی یہ عمارت نہ ہمارے سیاسی نمائندوں کے باپ کی ملکیت ہے کہ غیرمشروط طور پر اس کرپٹ ٹولے کے حوالے کرتے نہ ہی اس کرپٹ ٹولے کے باپ دادا کی جاگیر ہے جو اس طرح ہمارے نوجوانوں کا استحصال کر رہے ہیں ـ ہم جانتے ہیں اور ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہےیہ لوگ کس حال میں یہاں آئے تھے اور کس طرح منت سماجت کرکے انہوں نے یہ انتہائی قیمتی زمین اور عمارت حاصل کی تھی ـ اور جب کام نکلا تو کس طرح ان لوگوں نے گرگٹ کی طرح رنگ بدلا اور دھرتی کے اصل وارثوں کو آنکھیں دکھانا اور ذلیل کرنا شروع کیا ـ ہم نے تو بروقت اس کرپٹ ٹولے کے خلاف آواز اٹھائی تھی مگر حیف ہو یہاں کے مفادپرست منافق سیاسی نمائندوں کو جنہوں نے ان کو تحفظ فراہم کیا ـ لیکن اب بھی وقت ہے ان کو بڑی آسانی کے ساتھ روڈ دکھایا جاسکتا ہے ـ لیکن شرط یہ ہے کہ ملیر کے عام لوگ اپنے اندر اتحاد پیدا کرلیں اور جو اندر کام کر رہے ہیں وہ صرف ایک منٹ کےلیے ہمت کریں ، ان کے خلاف اٹھ کر کھڑے ہوجائیں ، جس طرح ان لوگوں نے ملیر کے لوگوں کو ہاتھ سے پکڑ کر گیٹ سے باہر دھکیلا ہے وہ صالح میمن اور اس کے دامادوں کو ہاتھ سے پکڑ کر باہر کا رستہ دکھائیں ـ
اور یہ ناممکن نہیں ـ
باقی آئندہ

17/06/2022

ال ابراہیم آئی ہاسپٹل ایک کرپٹ ادارہ
قسط نمبر 11
شفیع رحیم
یہ ہیں پروفیسر ڈاکٹر امیر بخش چنا ۔ اسرا اسلامک فاونڈیشن کے بنیادی پانچ ارکان میں سے ایک ۔ پروفیسر ڈاکٹر امیربخش چنا صاحب اس قسط میں آپ کو بتائیں گے کہ صالح میمن اینڈ کمپنی نے کس طرح دین اسلام اور اسرافاونڈیشن کو اپنے غلیظ مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔۔اور کس طرح اپنے مقاصد کےلیے لوگوں کو misguide کرکے فلاحی ادارے کے نام پر پیسہ بٹورتا رہا ہے ۔جھوٹ کے عالمی چئمپئن بھی صالح میمن سے پناھ مانگتے ہیں ۔۔فلاحی ادارے کے نام پر پیسہ ڈیفینس کے بنگلوں اور ذاتی پراجیکٹس پر خرچ ہوا اور بےتحاشہ پئسہ کنڈیارو ماتلی اور شکار پور کے سینٹروں میں منتقل کیاگیا ۔صالح میمن کے داماد فتح میمن ڈیفینس میں محل نما گھر میں رہتے ہیں جب کہ اس شخص کے پاس کنڈیارو میں ڈھنگ کا مکان تک نہ تھا۔ اس کرپٹ شخص نے سارا پیسہ غریبوں اور مفلسوں کے نام سے کمایا ہے۔۔۔فلاحی ادارے کے نام پر جتنی بھی رقم ملی ہے صالح میمن کے لاڈلےداماد فتاح میمن نے یہ پیسے اپنی جیب میں ڈال کر ڈیفینس میں نہ صرف ایک محل بنایا بلکہ اس محل میں اب بھی اربوں روپے موجود ہیں ۔ نیب اور ایف آئی کے خوف سے فتاح میمن ان پیسوں کو بئنکوں میں مختلف جعلی اکاؤنٹ بناکر شفٹ کرتے ہیں۔
ہم نیب اور ایف آئی سے درخواست کرتے ہیں کہ صالح میمن اور فتاح میمن کے خلاف تحقیقات کا آغاز کریں ۔ شواہد اکھٹا کریں ان کے مختلف بینک اکاونٹس کی چھان بین کریں تاکہ فلاحی ادارے کو غریب اور مفلس لوگوں کے نام پر جوپئسے ملتے ہیں وہ پئسے ان حرام خوروں سے محفوظ رہیں۔ ان کی طرف سے جو میگاکرپشن ہوا ہے انہیں سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے ۔
باقی آئندہ

ال ابراہیم آئی ہاسپٹل ایک کرپٹ ادارہ قسط 10شفیع رحیم آج کی قسط میں ہم بات کرینگے کہ کیسے فلاحی ادارے کا ایک ریٹائرڈ  ڈائ...
13/06/2022

ال ابراہیم آئی ہاسپٹل ایک کرپٹ ادارہ
قسط 10
شفیع رحیم
آج کی قسط میں ہم بات کرینگے کہ کیسے فلاحی ادارے کا ایک ریٹائرڈ ڈائریکٹر جو بڑھتی ہوئی عمر کی وجہ سے نہ صرف اپنا ہوش و حواس کھو بیٹھا ہے بلکہ ابھی تک ادارے سے چپکا ہوا ہے ـ
سوال یہ پیدا ہوتا ہے اس شخص کو اس عمر میں آرام کی ضرورت ہے مگر بجائے آرام کرنے کے وہ ادارے پر کیوں مسلط ہے ـ
آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں ـ
یہ شخص جو بڑھتی عمر کی وجہ سے اپنا ہوش و حواس کھوبیٹھا ہے گو اب اسے رٹائر ہوکر گھر بیٹھ جانا چاہیے تھا مگر رٹائرمنٹ سے قبل اس نے اپنے دونوں نااہل دامادوں میں سے ایک عبدالفتاح میمن کو ڈائریکٹر کی پوسٹ پر تعنیات کیا اور منظور میمن جو کوالیفائیڈ بھی نہیں ہے اسے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ مقرر کیا ـ اپنی بیٹیوں کو ایڈجسٹ کرنے کے ساتھ ساتھ خاندان کو کوئی ایسا فرد نہیں جسے کوئی نہ کوئی ذمیداری نہ دی گئی ہو ۔
دوسری طرف یہ سابق ڈائریکٹر سمجھتا ہے کہ مجھے اس فلاحی ادارے کا شروعاتی ڈائریکٹر مقرر کرکے اولڈ تھانہ ملیر کے لوگوں پر بڑا احسان کیا گیا ہے ـ اور میں نے یہاں ایک عظیم کارنامہ سر انجام دیا ہے ـ خود کو اعلی اور دوسروں کو نیچ سمجھنے والا یہ شخص بھول گیا ہے کہ عظیم لوگ کبھی غرور اور تکبر نہیں کیا کرتے ـ وہ انسانیت کی تذلیل نہیں کرتے ـ عظیم لوگ وہ ہوتے ہیں جو اللہ سے ڈرتے ہیں ـ کسی کا حق نہیں کھاتے کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرتے ـ کسی کو ستاتے نہیں نہ ہی اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں ۔اگر یہ شخص عظیم ہوتا تو نہ صرف خود اخلاق کی بلندیوں پر پورا اترتا بلکہ وہ اپنے followers داماد اور دیگر قریبی رشتہ داروں کی بھی بہترین تربیت کرتا ـ مگر افسوس نہ وہ اخلاق کا کوئی نمونہ ہے نہ ہی وہ لوگ جو ان سے کسی قسم کی وابستگی رکھتے ہیں ـ
جس کے متعصبانہ رویے اور ظالمانہ کردار کی وجہ سے اس کا اپنا فرزند اس سے شدید اختلافات رکھتے ہوئے اسے چھوڑ کر دیارغیر چلا گیا ہو وہ اخلاق اور کردار کی کن پستیوں میں گرا ہوا ہوگا اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں ـ
خیر اب اصل بات کی طرف آتے ہیں کہ یہ شخص خود کو اعلیٰ اور دوسروں کو ادنیٰ کیوں سمجھتا ہے ـ
اس شخص کی عادت ہے ہر وقت طعنہ زنی کرنا ـ میں نے ملیر والوں کے لیے گھر کے اندر بڑا ہاسپیٹل بنایا (یہ شخص ادارے کا کریڈٹ خود لیتا ہے حالانکہ اس ادارے کے اصل Trusty دوسرے لوگ ہیں ، اسے صرف اس کی عیارانہ فطرت کی وجہ سے اصل ٹرسٹیوں میں سے صرف دو اشخاص لے کر آئے تھے تاکہ دیگر تین ٹرسٹیوں کو جنہوں نے اس ادارے کی بنیاد ڈالی اور شروعاتی رقم فراہم کی تھی ان کو سائیڈ پر لگایا جاسکے) اس کی سوچ یہ ہے کہ اگر یہ ہاسپیٹل نہ ہوتا تو خدانخواستہ ملیر کےلوگ آنکھوں سے اندھے ہوجاتے اور بھوک سے مرتے ۔
اسے کہتے ہیں بڑی پوسٹوں پر بونے لوگوں کی تقرری ۔
اس بونے کردار کے شخص نے مفت میں قیمتی زمین اور بلڈنگ حاصل کرنے کے بعد نہ چاہتے ہوئے ملیر کے کچھ نوجوانوں کو سروس پر لگایا ـ بقول اس کے اگر وہ ان کو سروس پر نہ لگاتا ملیر کے یہ لوگ بھوکے مرتے ـ
اس کی اس بات کا جواب سخت الفاظ میں بھی دیا جاسکتا ہے مگر انتہائی نرم الفاظ میں ہم یہی کہیں گے کہ اگر تم کنڈیارو کے جنگلوں سے یھاں آکر اپنی اپنے بچوں کی روزی روٹی کماسکتے ہو تو ملیر والے کراچی شھر میں رہتے ہوئے کبھی بھوک سے نہ مرتے بلکہ ان کو بہتر روزی مل سکتی تھی ـ
دوسری بات یہ کہ تم اس طرح کا دعویٰ کرکے فرعون کی طرح خدائی کا دعویٰ کرتے ہو جب کہ روزی دینے والا تم نہیں بلکہ اس رب کریم کی ذات ہے جو اندھیری رات میں کالے پہاڑں کے اندر پتھر میں سیاہ چیونٹی کو بھی رزق دیتا ہے ـ
سچ تو یہ ہے کہ تم نے ملیر کی انتہائی قیمتی زمین اور اس پر تعمیر کی گئی عمارت دھوکے سے حاصل کرکے چند نوجوانوں کو بارہ پندرہ اٹھارہ ہزار کی سروس پر مقرر کرکے ملیر والوں پر کوئی احسان نہیں کیاـ بلکہ ملیروالوں نے تم پر احسان کیا ہے ـ انہوں نے اپنی انتہائی قیمتی زمین اور اس پر تعمیر کی گئی قیمتی عمارت تمھارے حوالے کردی ـ اور جواب میں ان کو طعنے ملے ۔ ان کو ذلیل کیا گیا اور اب تک ان کو تمھارا نفرت انگیز رویہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے ـ
کیا تمھارے علم میں یہ بات نہیں کہ اس علائقے اور اسی شھر میں ایل آر بی ٹیLRBT نے احسانء عظیم کیا ہے جو نہ صرف دوائیاں مفت فراہم کرتے ہیں بلکہ سرجریز لینس لیزر جدید آلات کی سرجریز معائنہ حتی کہ ٹرانسپورٹ کی سہولت اور ہر قسم کی جدید سھولتیں بلکل فری مہیا کرتا ہے ـ اس کے علاوہ POB ایک ادارہ ہے جو ٹرانسپورٹ کی سہولت دینے کے علاوہ ان کو کھانا پینا اور علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرتا ہے ۔ ملازمین کو اچھی تنخواہ اومراعات بھی دیتا ہے ۔ ایک ادارہ ال بصیر بھی ہے جو نہ صرف مفت علاج معالجے کی سہولیات بلکہ ٹرانسپورٹ اور کھانا پینا دیتا ہے ۔ جب کہ تم تو علائقے کے لوگوں سے علاج کے پیسے لیتے ہو اگر کوئی غریب سفید پوش درخواست کرتا ہے تو ان کی فائلوں میں پچاس جگہ زکواۃ اور فطرے کے الفاظ لکھواتے ہو اور فارم لگواتے ہو ـ کیونکہ تم جانتے ہو ملیر کے لوگ خود دار ہیں وہ اس چیز کو کبھی قبول نہیں کریں گے ـ اس طرح تم اپنی عیاری اور مکاری کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیًں دیتے کیونکہ تمھارا صرف ایک ہی مقصد ہے ـ
لوگوں کو لوٹنا پئسے کمانا اور آج تک تم اپنے اس مقصد میں کامیاب نظر آرہے ہو ...
مگر
اب نہ صرف تمھارے بلکہ تمھارے پورے ٹولے کے دن گنے جاچکے ہیں ـ الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے ـ
دس ، نو ، آٹھ ، سات ، چھہ ، پانچ ۔۔۔۔۔۔
باقی آئندہ

ال ابراہیم آئی ہسپتال ایک کرپٹ ادارہقسط 9شفیع رحیمملیر کے علاقے اولڈتھانہ میں فلاحی ادارے کے نام پر شروع کیا جانے والا ا...
09/06/2022

ال ابراہیم آئی ہسپتال ایک کرپٹ ادارہ
قسط 9
شفیع رحیم
ملیر کے علاقے اولڈتھانہ میں فلاحی ادارے کے نام پر شروع کیا جانے والا الابراہیم آئی ہسپتال میں کرپشن، بے ضابطگیوں اور بےقاعدیوں کی فہرست بہت طویل ہے ـ صرف چارلاکھ ریال کی قلیل رقم سے شروع کیے جانے والے اس فلاحی ادارے کی بنیاد اس بات پر رکھی گئی تھی کہ یہاں آنکھوں کی تمام بیماریوں کا بلکل مفت علاج کیا جائے گا اور لوگوں کو اندھاہونے سے بچانے کےلیے مفت طبی سہولیات فراہم کی جائیں گی ـ عیاروں کے ٹولے نے ابوالعیار صالح میمن کو جو ایک انتہائی متعصب شخص ہے اسے انہوں نے فرنٹ مین کےطور پر استعمال کیا کیونکہ وہ صورت سے تو بڑا مومن نظر آتا ہے مگر اندر جن کا توے کی طرح کالا ہے ، اس شخص نے اپنی چٹ پٹی زبان کو استعمال کرتے ہوئے پیپلز پارٹی ملیر کے اس وقت کے نمائندوں اور اولڈتھانہ کے کچھ معززین کو لالی پاپ دے کر اولڈتھانہ کے غریب لوگوں کے گاؤں کی انتہائی قیمتی زمین جس پر وزیراعظم جونیجو کے سات نکاتی پروگرام کے تحت Basic Health Rural Center
کی کروڑوں کی عمارت تعمیر کی گئی تھی جس میں تقریبن سو بیڈ کی سہولیات موجود تھیں، وہ شاندار عمارت انہوں نے مفت حاصل کرلی ـ ابوالعیار صالح میمن نے پیپلزپارٹی کے ان نمائندوں اور معززین سے یہ وعدہ بھی کیاتھا کہ وہ سب اس فلاحی ہسپتال کو چلانے والے بورڈ کے میمبر بھی ہوں گے اور ان کی سفارشات اور مشوروں کے مطابق اس ادارے کو چلایا جائے گا ـ اس طرح ملیر کے ان سادھوؤں کو لالی پاپ دے کر انہوں نے اس بہت ہی قیمتی زمین اور اس پر تعمیرشدہ عمارت پر قبضہ تو کرلیا مگر بعد میں ان سب کو ایسے سائیڈ پر لگادیا گیا جس طرح دودھ سے مکھی کو نکالا جاتا ہے ـ
کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ علاقے کا کوئی حقیقی Social Activist کسی مسئلے پر اس ابوالعیار سے ملنے گیا تو گفتگو کے دوران اگر اس مقامی شخص نے ان سیاسی نمائندوں یا معززین کا ذکر چھیڑا تو اس شخص نے ان نمائندوں اور معززین کو گندے القابات سے نوازتے ہوئے ان سے اپنی لاتعلقی کا اظہار کیا ـ
یہ ابوالعیار اور اس کے چیلے بددیانت بھی اس قدر ہیں کہ انہوں نے شروع میں گیٹ کےسامنے جو "مفت اکھین جی ہسپتال " کا بورڈ لگایا ہواتھا ایک رات کو جیسے ہی اولڈتھانہ کے لوگ گہری نیند سوگئے تو انہوں نے وہ بورڈ اکھاڑ کر ہسپتال کی چھت پر رکھوادیا اور لگے غریب لوگوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے ـ اس طرح ال بصر کے فنڈز، فری آئی کئمپس اور ہسپتال سے اربوں روپے کماکر انہوں نے مختلف شہروں میں زمینیں لیں اور اپنے ذاتی ہاؤسنگ پروجیکٹس شروع کیے ـ ان عیاروں اور شاطروں نے بددیانتی کے ساتھ اس فلاحی ادارے سے کمائی گئی دولت کو انہوں نے اپنی ذاتی جائدادوں میں تبدیل کرنا شروع کیا ـ ان زمینوں کی تفصیل بھی بہت جلد قارئین کی خدمت میں پیش کی جائے گی جس سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ یہ ٹولہ کسی رعایت کا مستحق نہیں ـ ملیر کے چند مفکر قسم کے لوگوں کی رائے ہے کہ
" ان کی میگا کرپشن ،فراڈ، ملیر کے مقامی لوگوں کے ساتھ متعصبانہ رویہ دھوکہ دہی اور employees کے ساتھ بےرحمانہ سلوک کو دیکھتے ہوئے اگر انہیں موت کی سزا بھی ملی تو کم ہے ـ "
باقی آئندہ

ال ابراہیم ہاسپٹل ایک کرپٹ ادارہ شفیع رحیمقسط 8اس قسط میں ہم مختصرن  بات کریں گے کہ کیسے الابراہیم آئی ہاسپٹل کے ڈائریکٹ...
07/06/2022

ال ابراہیم ہاسپٹل ایک کرپٹ ادارہ
شفیع رحیم
قسط 8
اس قسط میں ہم مختصرن بات کریں گے کہ کیسے الابراہیم آئی ہاسپٹل کے ڈائریکٹر عبدالفتاح میمن نے مقامی اور غیرمقامی ٹئلینٹڈ نوجوانوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے ان کوالیفائیڈ دور و قریب کے عزیز رشتیداروں کو نوازا ہے۔
۔پہلے بات کرتے ہیں موجودہ مکڈیکل سپرنٹنڈنٹ کی جو لیاری جنرل ہاسپیٹل میں ریٹائرڈ فزیشن ہے لیاری اور انکل سریا ہسپتال میں بطور جنرل فزیشن کام کرچکا ہے ، ریٹائرمنٹ کے بعد ڈائریکٹر عبدالفتاح میمن نے اپنے داماد کو الابراہیم آئی ہاسپیٹل جو ایک فلاحی ادارہ ہے من مانی کرتے ہوئے اس فلاحی ادارے کا میڈیکل سپرنٹینڈنٹ مقرر کیا ۔ حالانکہ ان کو eye کے e کا بھی پتہ نہیں ۔ اگر یہ کہا جائے کہ ریل کے ڈرائیور کو جھاز اڑانے کے لیے کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔۔داماد بیچارہ چیختاچلاتا رہا مگر سسر نے اس کی ایک نہ سنی بلکہ یہ کہہ کر اس کا منہہ بند کردیا کہ :
"اگر تم ڈنگر ڈاکٹر (( جانوروں کا ڈاکٹر)) ہوتے تب بھی میں تمھیں اسی پوسٹ پر رکھتا "
اس بیچارے نے کہا سسر جی آئی میرا فیلڈ نہیں ہے کام کیسے چلے گا ۔ تو اس نے خالص سندھی میں اسے قوالی سناتے ہوئے کہا " اب زیادہ بات مت کر بس کام کر ۔۔۔ کیوں پریشان ہوتے ہو میں ہوں نا ۔"
آخر میں اس نے انتہائی بےبسی کے عالم میں کہا:
" اگر کسی نے اعتراض کیا تو کیا جواب دوں گا ؟ "
اس پر اس نے انتہائی ڈھٹائی سے کہا:
" جو بھی اعتراض کرے گا اسے کان سے پکڑ کر گیٹ سے باہر نکال دوں گا ۔ ویسے بھی یہاں کسی میں جرات نہیں تمھارے سسر کے سامنے ایک لفظ بول سکے ۔ بس آج کے بعد تم میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ہو باقی جو ہوگا میں سنبھال لوں گا ۔ "
یہ بات بھی سننے میں آرہی ہے کہ عبدالفتاح میمن کی دونوں ڈگریاں جعلی ہیں ۔ اس کی ایم بی بی ایس کے بعد ایف سی پی ایس کی ڈگریاں مشکوک ہیں۔۔خیر ایک سسر نے اپنے داماد کو فلاحی ادارے کا سپرنٹنڈنٹ بنایا اور ایک نے اپنے داماد کو ادارے کا ڈائریکٹر بنایا ۔ فلاحی ادارے کے ڈائریکٹر کے لیے ضروری ہے کہ موصوف کے پاس مطلوبہ ڈگریاں اور تجربہ ہونا چاہیے ۔ اس طرح نہ ڈائریکٹر موصوف کے پاس مطلوبہ ڈگریاں اور تجربہ ہے نہ ہی موصوف کے داماد جس کو اس نے ادارے کا سپرنٹنڈنٹ مقرر کیا ہے اس کے پاس مطلوبہ ڈگریاں اور تجربہ موجود ہے ۔ البتہ دونوں کے پاس ایک ڈگری مشترکہ ہے ۔ سپرنٹنڈنٹ منظور میمن صاحب ڈائریکٹر عبدالفتاح میمن کے داماد ہیں اور ڈائریکٹر موصوف خود ڈاکٹر صالح میمن کا داماد ہے ۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس ادارے میں کسی بھی اہم پوسٹ کے لیے کوالیفائیڈ ہونا ضروری نہیں نہ کسی ڈگری کا ہونا ضروری ہے بلکہ
ان کرتا دھرتاوں میں سے کسی بھی ایک کا داماد ، سانڈو ، بہنوئی ، چچا ، ماما ، بیوی ، بہو یا بیٹی ہونا ضروری ہے ۔ اقرباپروری کی مزید تفصیلات آئندہ قسط میں
جاری ہے

ال ابراہیم آئی ہاسپٹل ایک کرپٹ ادارہترجمان ال ابراہیم آئی ہاسپٹل کے ترجمان بی بی اور ایچ بی کے نامقسط نمبر 7  ماشاءاللہ ...
04/06/2022

ال ابراہیم آئی ہاسپٹل ایک کرپٹ ادارہ
ترجمان ال ابراہیم آئی ہاسپٹل کے ترجمان بی بی اور ایچ بی کے نام
قسط نمبر 7
ماشاءاللہ ماشاءاللہ آپ تو ال ابراہیم ہائی ہاسپٹل کے بڑے اچھے وکیل اور ترجمان ہیں ۔ انہوں نے آپ جیسے معلوم نہیں کتنے وکیل اور ترجمان رکھے ہوں گے ۔ آپ ماشاءاللہ دلیر اور بہت ہی قابل شخص ہیں ۔ آپ کی دلیری آپ کے نام اور آئی ڈی سے ہی نظر آرہی ہے جس میں کوئی تصویر نہیں کوئی نام اور پہچان نہیں اور قابلیت آپ کے تبصرے سے نظر آرہی ہے ۔ آپ نہ صرف ال ابراہیم آئی ہاسپٹل کے نمک حلال ترجمان ہیں بلکہ آپ ملیر والوں کے بھی بہت زیادہ ہمدرد اور غم خوار ہیں ۔ تیتر قسم کے لوگ ہرجگہ پائے جاتے ہیں اور لوگوں کی یہ قسم انتہائی ڈرپوک اور منافق ہوتی ہے ۔ آپ کا تعلق. بھی تیتر قسم کے لوگوں سے ہے جن کو شکاری لوگ اس کی قوم کے دیگر تیتروں کو شکار کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں . آپ کا کوئی قصور نہیں اس دنیا میں جتنے بھی قومیں نیست و نابود ہوئی ہیں ان کو نیست و نابود کرنے میں تیتر قسم کے لوگوں کا قوم دشمن کردار کار فرما رہا ہے ۔ میرے استاد نے مجھے تیترقسم کے لوگوں کے متعلق بہت پہلے سمجھا دیا تھا اس لیے آپ کا تبصرہ پڑھ کر مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی ۔ میرے استاد نے مجھے کہاتھا کہ جب آپ عمل کی دنیا میں قدم رکھوگے سیاسی سماجی یا قلمی اعتبار سے تو آپ کو کھرے کھوٹے کا پتہ چل جائے گا اور آج میرے استاد کی ایک ایک بات سچ ثابت ہورہی ہے ۔ جب سے میں نے ہاتھ میں قلم پکڑا ہے مجھے کھرے کھوٹے لوگوں اور درباریوں کی پہچان ہورہی ہے ۔ بڑی اچھی بات ہے آپ اپنی روٹی روزی کو حلال کریں میں اپنا کام جاری رکھوں گا اور آنے والی رکاوٹ کو پاوں کی ٹھوکر سے ہٹاتے ہوئے آگے اور آگے بڑھتا رہوں گا ۔ مجھے یقین ہے میں ان کرپٹ ، متعصب ، استحصالی اور ملیر دشمن قوتوں کے ظلم کے سامنے مضبوط بند باندھنے میں بہت جلد کامیاب ہوجاوں گا ۔
جناب ترجمان صاحب آپ کے اور ان کرپٹ لوگوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ میں ان کے ساتھ کیا کرنے جارہا ہوں اور اس وقت تک میں اپنے مقصد میں کس حد تک کامیاب ہوا ہوں ۔ عنقریب آپ سب کو(( لگ پتہ)) جائے گا ۔ باقی تفصیلی جواب میں آپ کو آنے والی قسط میں دوں گا تاکہ ملیر کے دوستوں کو ملیر میں رہنے والے تیتر قسم کے لوگوں کے بارے میں علم ہوسکے ۔
میں ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی ملیر کے تمام نمائندوں کی توجہ اس طرف دلانا چاہتا ہوں ۔ ہم نے آپ پر اعتماد کیا ہے ۔ آپ کو اپنا نمائندہ چن لیا ہے ۔ اس لیے نہیں کہ آپ ان استحصالی قوتوں کے ساتھ ہمارے مفادات کا سودا کریں ۔ اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے ۔ اب بھی وقت ہے ۔ ملیر کے اس ادارے میں ان لوگوں کی طرف سے جو لوٹ مار ہورہی ہے اس پر قابو پائیں ۔ ایسا نہ ہو کہ ان کے ساتھ آپ بھی کل کو کسی کاروائی کی زد میں آجائیں ۔
آپ کا بہت بہت شکریہ

ال ابراہیم آئی ہاسپٹل ایک کرپٹ ادارہایک دوست کے خط کے جواب میںقسط نمبر6 میرے دوست کئپٹن علی صاحب اسلام علیکم پیارے دوست ...
04/06/2022

ال ابراہیم آئی ہاسپٹل ایک کرپٹ ادارہ
ایک دوست کے خط کے جواب میں
قسط نمبر6
میرے دوست کئپٹن علی صاحب
اسلام علیکم
پیارے دوست مجھے بڑی خوشی ہوئی یہ جان کر کہ آپ ال ابراہیم آئی ہاسپٹل کی کرپشن اور استحصالی ٹولے کے خلاف لکھی گئی میری تحریریں نہ صرف بڑے شوق سے پڑھ رہے ہیں بلکہ ان کی کاپیاں بھی بنارہے ہیں ۔ آپ نے کہا ہے کہ آپ کے ایک دوست نے سوشل میڈیا کے متعلق سوال اٹھایا ہے ۔ اس سلسلے میں میں آپ کی مکمل۔رہنمائی کرتا ہوں تاکہ آپ کے دوست کو سوشل میڈیا کی طاقت کا علم ہوجائے ۔
دوست میں اور میری پوری ٹیم ال ابراہیم آئی ہاسپٹل کی کرپشن اور استحصالی ٹولے کے خلاف ایک بہترین پلاننگ اور حکمت عملی کے ذریعے کام کر رہے ہیں ۔ آپ بلکل درست فرماتے ہیں کہ ہمارے لوگوں کی اکثریت سوشل میڈیا کی طاقت اور اس کے بھرپور استعمال سے اب تک لاعلم ہے ۔ اگر سوشل میڈیا کی طاقت کا اندازہ لگانا ہے تو سوشل میڈیا کے خلاف حکمرانوں اور استحصالی قوتوں کے سوشل میڈیا کےخلاف تبصرے اور بیانات کو پڑھیں وہ سوشل میڈیا پر پابندی لگانے کے لیے کیسی کیسی منصوبہ بندیاں کرتے چلے آرہے ہیں مگر اب تک ان کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ آپ نے گوادر کے ایک عام مچھیرے مولانا ہدایت الرحمان کی مقبولیت اور پےدرپے کامیابیوں کے متعلق تو ضرور سنا ہوگا ۔ یہ سب ان کی محنت اور سوشل میڈیا کی طاقت کا کمال ہے ۔ اچھی بھلی طاقتور شخصیتیں سوشل میڈیا سے گھبراتی ہیں ۔ فیس بک ، واٹس اپ ، ٹوئیٹر ، یوٹیوب ، میسنجر، وغیرہ سب سوشل میڈیا کے حصے ہیں ۔ آج کون ہے جو سوشل میڈیا کو استعمال نہیں کر رہا ۔ تمام سیاستدان ، بہترین ٹیچرز ، دانشور ، فلاسفر ، ادیب شاعر محقق سوشل میڈیا کے ساتھ منسلک ہیں ۔ فیس بک صرف سیلفی کا نام نہیں ہے ۔ سیلفی تو صرف ایک entertainment. ہے ۔ جن کے پاس کہنے لکھنے کو کچھ نہیں ہوتا وہ سیلفیاں لیتے دکھائی دیتے ہیں ۔ یہ سوشل میڈیا تو ہے جس نے عمران خان کی حکومت ختم کی اور اب شہباز کو بھگانے کی تیاری ہورہی ہے ۔ سوشل میڈیا نہ ہوتا تو آج آپ کو جو ظلم اور جبر نظر آرہا ہے اس سے کئی گنا زیادہ ظلم و جبر ہوتا ۔ مجھے یقین ہے کہ میں نہ صرف اپنے لوگوں کو ان ظالموں کے ظلم سے نجات دلاوں گا بلکہ بہت جلد ان کے ٹین ٹپڑ بھی گول کردوں گا ۔ میں یہ جنگ کسی دوسرے کے آسرے پر نہیں لڑ رہا ہوں بلکہ اپنے ان دلیر اور انتہائی پڑھے لکھے دوستوں کے ساتھ یہ جنگ لڑ رہا ہوں اور ان سے جن بھی دور بھاگتے ہیں ۔ اور دوستوں کی اطلاع کےلیے عرض ہے کہ یہ تمام قسطیں مختلف نیوز گروپس میں شایع ہورہی ہیں ، پریس کلبوں اور دیگر ذرائع ابلاغ کو بھیجی جارہی ہیں ۔ یہ ایک مرحلہ وار پروگرام ہے جس کا پہلا حصہ نہ صرف آپ بلکہ پوری دنیا دیکھ رہی ہے ۔ میں نے یہ پانچ قسطیں تحریر کرکے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں اس کا آپ یا یہ لوگ اندازہ بھی نہیں لگا سکتے ۔ ان کو بہت جلد پتہ چل جائے گا کہ عیاری مکاری دھوکہ بازی ظلم اور بدزبانی کا نتیجہ کیا ہوتا ہے ۔
آپ کا بہت بہت شکریہ
باقی آئندہ

ال ابراہیم آئی ہسپتال ایک کرپٹ ادارہ قسط 5الابراہیم آئی ہاسُپٹل اولڈ تھانہ ملیر کی انتظامیہ نے  ڈاکٹروں اور لوئر اسٹاف ک...
30/05/2022

ال ابراہیم آئی ہسپتال ایک کرپٹ ادارہ
قسط 5
الابراہیم آئی ہاسُپٹل اولڈ تھانہ ملیر کی انتظامیہ نے ڈاکٹروں اور لوئر اسٹاف کا استحصال کرنے کے لیے مختلف حربے اختیار کیے ہیں جن میں سب سے گندا حربہ ہے ڈاکٹروں ، پیرامیڈیکل اسٹاف اور دیگر اسٹاف کی تنخواہیں انتہائی کم رکھنا تاکہ ان کو آسانی کے ساتھ بلیک میل کیا جاسکے اور ان کو دباؤ میں رکھنا آسان ہو ـ ہسپتال میں اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے اگر وہ سینیئر یا موسٹ سینیئر ہوجائیں تو کم تنخواہ ہونے کی وجہ سے وہ پریشر میں رہیں اور ان کو کم تنخواہ پر ہی کام کرنے پر مجبور کیا جاسکے ـ وہ ہمیشہ خوفزدہ رہیں ـ کبھی سینارٹی کلیم نہ کریں اور نہ ہی تنخواہ میں گریڈ یا سینارٹی کے اعتبار سے اضافے کا مطالبہ کرسکیں ـ آج بھی آپ کسی ڈاکٹر سے اس کی تنخواہ کے متعلق پوچھیں گے تو وہ گہری سوچ میں پڑجائے گا ـ کیونکہ اس کی تنخواہ اس قدر کم ہے کہ وہ اپنی تنخواہ کے متعلق کسی کو بتا نہیں سکتا ـ حقیقت یہ ہے کہ اسٹیل مل اور پورٹ قاسم کا مالی یا چوکیدار ال ابراہیم آئی ہاسپٹل کے ڈاکٹروں سے زیادہ تنخواہ لیتے ہیں ـ ان کی پینشن کی رقم بھی ال ابراہیم آئی ہاسپٹل کے ڈاکٹروں سے زیادہ ہوتی ہے ـ اب آپ باقی اسٹاف کی تنخواہ کا خود ہی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ان کی تنخواہ کیا ہوسکتی ہے ـ پندرہ سے بیس ہزار ۔ اس مہنگائی کے دور میں پندرہ بیس ہزار سے تو ایک بندے کا گزارہ نہیں ہوسکتا ۔ پورا گھر کیسے چلے گا ۔ پھر خودکو بھی میںmaintain رکھنا ہوتا ہے ۔ جوتے کپڑے ہر وقت صاف ستھرے ہونے چاہیں ۔ کیونکہ ڈیوٹی کچھ ایسی ہے ۔ میں بہت جلد آپ سب کو ادارے میں تیس پینتیس سال سروس کرنے والے ان employees کے بارے میں بتاؤں گا جنہوں نے اپنی جوانی میں اس ادارے میں قدم رکھا دن رات محنت کی اور جب تنخواہ اور سینارٹی کی بات کی گئی تو ادارے میں انتہائی جونیئر شخص نام نہاد ڈائریکٹر عبدالفتاح میمن جس کی تعلیمی قابلیت بھی مشکوک ہے اور جو خالص سندھی گالیوں کا اسپیلشٹ ہے اور اس کے سسر ڈاکٹر صالح میمن جس کے چہرے پر چوبیس گھنٹے بارہ بج رہے ہوتے ہیں ان کو نہ صرف ہراساں کیاگیا بلکہ انتہائی بھونڈے انداز میں ان کی نوکری ختم کرنے کی دھمکیاں دیں ـ کافی سینیئر ملازمین پر چوری یا پئسہ لینے کا الزام لگا کر نوکری سے فارغ کردیا گیاـ اس طرح ان غریبوں کی زندگیوں سے کھیل کر ان کو دربدر کیا گیا ،ان کی زندگیاں تباہ کی گئیں ـ یہ کنگلا شخص اب لگژری گاڑیوں کا مالک ہے اور پوش علاقوں میں اس نے محل نما بنگلے بنوائے ہیں جن کے دروازے آسٹریلیا سے کراکری لندن فرنیچر جرمنی اور بیلجیم سے منگوائے ہیں ـ ڈیڑھ کروڑ میں تو اس کرپٹ شخص کے صرف دروازے آئے ہیں ـ اگر اس ملک میں قانون ہوتا حکومت ہوتی تو ایسے لوگوں کو فورن گرفتار کرکے پھانسی پر چڑھایا جاتا ـ نہ جانے ملکی ادارے جو کرپشن کا خاتمہ کرنے کےلیے بنائے گئے ہیں وہ کیا کر رہے ہیں اور کس مرض کی دوا ہیں ـ
یہ تو چند باتیں ہیں جو میں نے بیان کی ہیں ـ ابھی تو ان کے کرپشن کی کہانی بہت طویل ہے ـ ابھی تو میں نے صرف ایک نام نہاد ڈائریکٹر کے بارے میں لکھا ہے جو ڈاکٹر صالح میمن کا داماد ہے ـ اس کی بیگم بھی اسی ہسپتال میں ڈھائی لاکھ سے تین لاکھ روپے وصول کرتی ہے اور ڈیوٹی کچھ بھی نہیں ـ اس طرح ڈاکٹر صالح میمن نے اپنے پورے خاندان کے افراد کو اس ادارے میں بہترین پوسٹوں پر جمع کیا ہے جو تقریبن دوڈھائی کروڑ تنخواہ کی مد میں وصول کر رہے ہیں ـ ان کی تفصیل میں ایک الگ قسط میں لکھوں گا اور آخر میں تمام اقساط کو یک جاہ کرکے ایک فائل نیب کو، ایک ایف آئی اے اور ایک فائل البصر کو دوں گا تاکہ ان کو پتہ چلے کہ ان کے فنڈز کو کس طرح غلط استعمال کیا جارہا ہے ـ اگر اس کرپشن میں البصر ملوث ہوا تو ایک فائل میں سعودی حکومت کے پاس بھی جمع کراؤں گا تاکہ انہیں بھی پتہ چلے کہ اس کے سعودی عربیہ کے لوگوں کے زکواۃ و صدقات کو کس طرح غلط لوگوں کے حوالے کرکے کرپشن کیا جارہا ہے ـ
باقی آئندہ

ال ابراہیم آنکھوں کا ہسپتال ایک کرپٹ ادارہقسط 4ملیر میں مفت کی زمین اور عمارت حاصل کرنے کےلیے ال ابراہیم آنکھوں کے ہسپتا...
26/05/2022

ال ابراہیم آنکھوں کا ہسپتال ایک کرپٹ ادارہ
قسط 4
ملیر میں مفت کی زمین اور عمارت حاصل کرنے کےلیے ال ابراہیم آنکھوں کے ہسپتال کے مکار ٹرسٹیوں نے خود کو پس منظر میں رکھ کر ایک انتہائی چالاک اور عیار شخص کو آگے کیا جس نے مقامی لوگوں کو دھوکہ دینے اور اہنے آپ کو نیک اور ایماندار ظاہر کرنے کےلیے ایک باریش شخص کو فرنٹ مین کے طور پر آگے رکھا جس نے انتہائی کامیابی کےساتھ ملیر کے نمائندوں کا اعتماد حاصل کرکے اپنے کام کا آغاز کیا ـ اس شخص کا طریقۂ واردات انتہائی مکارانہ تھاـ وہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے کا ماہر تھا اور مقامی معززین اور سوشل ورکروں کو discourage کرنے کا ہنر بھی خوب جانتا تھا ـ یہاں تک کہ عام سوشل ورکروں کو degrade کرنے کے لیے وہ مقامی معززین اور منتخب نمائندوں کے لیے منہہ سے نازیبا الفاظ بھی نکال لیتا اور ہسپتال دوسری جگہ شفٹ کرنے کی دھمکی بھی دیتا جس سے اناڑی سوشل ورکر گھبرا کر پیچھے ہٹ جاتے ـ اس کا نام صالح میمن ہے جو اب عمر کے اس حصے میں پہنچ گیا جہاں اسے نہ کچھ یاد رہتا ہے نہ ہی وہ کچھ لکھ پڑھ سکتا ہے ـ یہ شخص لومڑی کی طرح چالاک ہے جسے آگے لانے کا مقصد تھا کسی طرح ٹرسٹ کے ان حقیقی ڈائریکٹرز کو کسی نہ کسی طرح تنگ کرکے دیوار سے لگانا اور ادارے کو خالصتاً family institute بنانا تھا اور وہ اپنے اس مقصد میں تقریبن کامیاب نظر آتے ہیں ـ اسی شخص کی ہدایات کو follow کرتے ہوئے باقی سب نے بھی اپنا رویہ انتہائی خراب رکھا ہوا ہے ـ جیسے میں تیسری قسط میں لکھ چکا ہوں کہ یہ لوگ employees کے لیے منہہ سے خالص سندھی طرز کی گالیاں نکالتے ہیں یہاں تک کہ لیڈی ڈاکٹروں اور دیگر اسٹاف کو بھی یہ گالیاں دیتے ہیں جس کا گواہ میں خود ہوں ـ کافی دفعہ employees نے تنخواہ بڑھانے کے لیے ان کو درخواستیں لکھی ہیں جن پر ڈاکٹروں اور دیگر اسٹاف نے بھی دستخط کیے تھے اور ان سے اپیل کی تھی کہ ہماری تنخواہوں پر نظرثانی کی جائے ـ ان employees میں اکثریت ان کی ہے جن کی سروس کو پچیس سے پینتیس سال کا عرصہ گزرچکا ہے اور کچھ ڈاکٹر وہ ہیں جن کی qualification اور قابلیت ان سے بہت زیادہ ہے اور وہ نا صرف بااخلاق بلکہ باکردار اور محنتی بھی ہیں ـ حقیقت يہ ہے کہ اس ہسپتال کی کامیابی میں ان high qualified ڈاکٹروں اور تربیت یافتہ ٹیکنیشنز کا بہت بڑا ہاتھ ہے ـ اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو ان بدزبان اور بداخلاق نام نہاد ڈائریکٹرز کب کا اس ادارے کو بند کرچکے ہوتے اور مقامی لوگ ان کی اچھی خاصی دھلائی کرتے ـ مگر افسوس یہ لوگ ان کی تنخواہیں بڑھانے کےلیے کسی صورت تیار نہیں ہیں بلکہ سب کچھ وہ خود لوٹنا چاہتے ہیں ـ employees کی طرف سے تنخواہ بڑھانے کی درخواست پر بجائے ان کے ساتھ بیٹھ کر ان کے جائز مطالبے پر بات کرنے کے نام نہاد جاہل ڈائریکٹر عبدالفتاح میمن اور باریش بزرگ دکھائی دینے والے صالح محمد نے مل کر لیڈی ڈاکٹروں اور دیگر اسٹاف کے ساتھ غلط رویہ اختیار کیا جو ایک قابل مذمت عمل ہے ـ
جاری ہے

ال ابراہیم آنکھوں کا ہسپتال ایک کرپٹ ادارہقسط 3ہسپتال کے ڈائریکٹرز اور دیگر افسران بڑے دھوکے باز اور بدتمیز لوگ ہیں جن ک...
23/05/2022

ال ابراہیم آنکھوں کا ہسپتال ایک کرپٹ ادارہ
قسط 3
ہسپتال کے ڈائریکٹرز اور دیگر افسران بڑے دھوکے باز اور بدتمیز لوگ ہیں جن کو بات کرنے کا بھی ڈھنگ نہیں آتا اور اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر ڈائریکٹر یا مئنجر لکھتے ہوئے ان کو ذرا بھی شرم نہیں آتی کہ یہ عہدے اور الفاظ صرف پڑھے لکھے لوگوں کے لیے ہوتے ہیں جاہلوں یا جعلی ڈگری والوں کے لیے یہ عہدے بلکل نہیں ہوتے ـ میں یہ باتیں اس لیے لکھ رہا ہوں کیوں کہ مجھے ان کا کافی تجربہ ہوچکا ہے ـ سندھی زبان کی وہ کونسی خالص گالیاں نہیں ہیں جو یہ جعلی اور جاہل ڈاکٹر استعمال نہیں کرتے ـ مثال کے طور پر
چُتُو
میرے ............ پر لگے ہو تم
تمھاری ....... میں گولی ماروں گا
ماں بہن کی گالیاں وغیرہ ـ
مزے کی بات یہ کہ اس طرح کے گندے الفاظ استعمال کرتے ہوئے یہ جاہل اور جعلی لوگ لیڈیز اسٹاف کا بھی خیال اور احترام نہیں کرتے ـ یہ لوگ ملیر والوں کو انسان نہیں سمجھتے ـ مفت کی زمین اور مفت کی عمارت ملی جس سے یہ ارب پتی ہوگئے ـ پیدل آئے تھے اب ہر ایک کے پاس کروڑوں کی سواریاں ہیں ـ گاؤں میں ان کے گھر پکی اینٹوں کے بنی ہوئے تھے اور گھر کے دروازے کے سامنے جو گٹر کی نالی بنی ہوئی تھی اس میں لوگوں کا فضلہ تیرتا ہوا نظر آتا تھا ـ بدبو ایسی کہ ملیر کے لوگوں کا اگر وہاں سے گزر ہو تو الٹی کریں اور بیمار پڑجائیں ـ اب ان کے کراچی کے مہنگے ترین علاقے ڈیفینس میں محل نما گھر ہیں اور ان میں جو فرنیچر اور کراکری استعمال ہوا ہے وہ بھی جرمنی اور لندن سے درآمد کیا گیا ہے ـ ملیر میں سب سے پہلے انہوں نے میمن گوٹھ میں اپنے کام کا آغاز کیا تھا ـ وہاں دوسال تک انہوں نے ہسپتال چلایا مگر ان کو کوئی خاص کامیابی نہیں ملی ـ ناکامی کی چار وجوہات تھیں جو کچھ اس طرح سے تھیں :
(1) جس عمارت ميں یہ کام کر رہے تھے وہ عمارت چھوٹی تھی اور کام کو بڑھانے کےلیے ان کو مزید جگہ ملنے کی امید بھی نہ تھی ـ
(2) ان کی وہاں کی گئی کافی سرجریاں اناڑی ڈاکٹروں کی وجہ سےناکام ہوگئیں اور لوگ اپنی بینائی کھو بیٹھے ـ
(3) ان کو جن عربوں سے فنڈنگ ہورہی تھی ان کی سب سے اہم شرط یہ تھی کہ یہ ان کے مسلک کی تبلیغ کریں گے ـ
(4) چونکہ میمن گوٹھ کے لوگ سوفیصد دارالعلوم مجددیہ نعیمیہ سے منسلک ہیں ان کو ان کی تبلیغی سرگرمیاں بلکل بھی پسند نہیں تھیں ـ
اس طرح لوگوں کی سخت مخالفت کی وجہ سے یہ میمن گوٹھ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ـ میمن گوٹھ چھوڑنے سے قبل انہوں نے ملیر کے سیاسی لوگوں سے رابطہ کیا تاکہ انہیں کوئی متبادل جگہ مل سکے ـ اس وقت اولڈتھانہ میں جونیجو کے سات نکاتی پروگرام کے تحت موجودہ عمارت میں رورل ہیلتھ سینٹر قائم ہوچکا تھا جس میں علاقے کے لوگوں کو بنیادی صحت کی سہولتوں ملنی تھیں جس کی یہاں کے لوگوں کو اشد ضرورت بھی تھی ـ مگر سیاسی رہنماؤں اور اولڈتھانہ کے معززین نے علاقے کے لوگوں کی بنیادی ضرورت کو پس پشت ڈالتے ہوئے RHC کی عمارت اس مفاد پرست ٹھگ ٹولے کو دان کردی جو علاقے کے لوگوں کے ساتھ ایک بہت بڑی زیادتی تھی ـ ان کے اس قدم کے خلاف علاقے کے باشعور لوگوں نے سخت احتجاج بھی کیا ـ مگر اس ٹھگ ٹولے نے ان سیاسی نمائندوں اور معززین کو سہانے خواب دکھا کر ٹریپ کردیا تھا ـ اس لیے علاقے کے باشعور پڑھے لکھے طبقے کی آواز کو ان سنی کرکے انہیں تسلی دی گئی ـ اس طرح اولڈ تھانہ ملیر میں ان کی پوزیشن بہت مضبوط ہوگئی ـ باقی جو لوگ بھتے کے لیے کبھی کبھی ان کو تنگ کرتے تو یہ ان کا منہہ بند کرنے کے لیے کچھ رقم دیدیتے ـ اس عمارت میں ملیر کی عوام کو بیوقوف بناتے ہوئے ال ابراہیم آئی اسپتال کی بنیاد رکھی گئی اس لولی پاپ پر کہ ہم لوگوں کو مفت علاج کی سہولیات فراہم کریں گے اور ہسپتال میں مقامی نوجوانوں کو ترجیحی بنیاد پر سروس بھی دیں گے ـ اصل میں یہ سب فراڈ اور جھوٹ تھاـ ان کا مقصد اربوں روپے کی اس عمارت پر قبضہ کرنا تھا ـ اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے تھے ۔ اپنے مقصد میں کامیابی کے بعد انہوں نے مقامی سیاسی رہنماوں اور معززین کو بھی no response کرنا شروع کیا ـ شروع شروع میں یہاں گیٹ کے سامنے ان لوگوں کی طرف سے ایک بورڈ لگایاتھا جس پر سندھی میں تحریر تھا
" یہاں آنکھوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے "
اور وہ بورڈ ایک رات کو اکھاڑ لیا گیا جس کی ملیر کے نمائندوں اور معززین کو خبر تک نہ ہوئی ـ ویسے بھی ہمارے ملیر کے سادھو نمائندے اور معززین گہری نیند سورہے ہیں جن کو جگانے کےلیے بلوچی لیوا میں بجائے جانے والے سپر ڈھول کی ضرورت ہے مگر وہ ڈھول ملیر میں کسی کے پاس ہے ہی نہیں اور لیاری کے لیوا گروپ سے تعلق رکھنے والے فنکار وہ ڈھول ملیر کے فنکاروں کو دینے کےلیے تیار ہی نہیں ـ ان کا کہنا ہے کہ ملیرکے فنکاروں کو بجانے کےلیے ڈھول دینے کا مطلب ڈھول کی بےعزتی ہے اور ہم اپنے ڈھول کی بےعزتی نہیں چاہتے ـ
اس طرح یہ ٹھگ اور کرپٹ ٹولہ رفتہ رفتہ اپنی ناجائز دولت میں بڑی تیزی کے ساتھ اضافہ کرتا جارہا ہے ـ اسی ملیر کے ال ابراہیم اسپتال سے کمائے گئے ناجائز پئسوں اور مفت علاج کے میگا جھوٹ کے نام پر حاصل کیے گئے بیرونی فنڈوں کی مدد سے انہوں نے نہ صرف اپنی ذاتی جائدادیں بنالی ہیں بلکہ ال ابراہیم آئی ہسپتال کے ساتھ والی اور سامنے والی انتہائی قیمتی زمینیں خریدنے کے علاوہ انہوں نے حیدرآباد میں جو سستی زمین حاصل کی تھی اس میں توسیع کرتے ہوئے اسرا یونیورسٹی قائم کرلی ہے ـ اسرا یونیورسٹی کا چانسلر ڈاکٹر پروفیسر اشرف نذیر لغاری صاحب ہیں جو اس ٹرسٹ کے بنیادی ڈائریکٹر ہیں ـ سعودی عرب میں جن چارافراد نے ایک ایک لاکھ ریال جمع کرکے چارلاکھ ریال اکھٹے کیے تھے ـ ان میں ایک شخص ڈاکٹر پروفیسر اشرف نذیر لغاری ہیں ـ ان کو بھی اس ٹھگ ٹولے نے سائیڈ پر لگا دیا ہے اور طرح طرح سے تنگ کررہے ہیں ـ یہاں تک کہ ال ابراہیم میں قائم بی ایس وژن کالج کا الحاق بھی اسرا یونیورسٹی کے ساتھ ہے جس کا ڈائریکٹر عبدالحمید ٹالپر ہے جو نہ صرف ایک نااہل شخص ہے بلکہ بداخلاق و بدزبان بھی ہے جو خالص سندھی گالیاں زبان سے نکالتا ہے ـ معزز چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نذیر لغاری صاحب جب اس کالج کی وزٹ کو آئے تھے تو اس ٹھگ ٹولے نے بھاری رشوت کےعوض میمن گوٹھ تھانے کی پولیس کی خدمات حاصل کی تھیں اور رولز اینڈ ریگولیشن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خلاف قانون کالج میں داخل ہونے سے ان کو روک دیا تھا اس طرح انہوں نے بداخلاقی اور مجرمانہ فعل کا ارتکاب کیا تھا ـ ان کا مقصد یہ ہے کہ ڈاکٹر اشرف نذیر لغاری کو اس قدر تنگ کیا جائے تاکہ وہ اس ٹرسٹ سے دستبردار ہوجائیں اور ال ابراہیم آنکھوں کے ہسپتال اور ٹرسٹ پر ان کی مکمل اجارہ داری قائم ہوجائے ـ مگر ڈاکٹر صاحب ایک انتہائی شریف النفس اور باکردار شخصیت کے مالک ہیں ـ وہ ان کے ساتھ قانون اور اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے قانونی جنگ لڑ رہے ہیں ـ ٹھگوں کے اس ٹولے نے اسلام آباد میں بھی مہنگی زمینیں ٹرسٹ کے نام سے خریدی ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ـ
جاری ....

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Corruptions of Isra Eye Hospital posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your practice to be the top-listed Clinic?

Share