Dr Saima Mohammad Nawaz

Dr Saima Mohammad Nawaz Dr Saima Muhammed Nawaz is a Clinical & Aviation Psychologist with a Doctorate degree in Clinical & Neurocogitive Psychology.

Dr Saima Mohammed Nawaz is a clinical psychologist with a Ms in Clinical and Doctorate in Neurocogitive Psychology.

Why some people are Hypersensitive یہ کبھی نوٹ کیا ہے کہ ایک چھوٹی سی بات پورا دن خراب کر دیتی ہے؟ کبھی دوست نے معمولی س...
13/09/2025

Why some people are Hypersensitive

یہ کبھی نوٹ کیا ہے کہ ایک چھوٹی سی بات پورا دن خراب کر دیتی ہے؟ کبھی دوست نے معمولی سی بات کہہ دی ہو یا کسی نے مذاق میں کچھ کہا ہو، اور پھر آپ کا دماغ وہی بات بار بار سوچتا رہے۔ آپ کا موڈ کئی گھنٹوں تک نیچے رہتا ہے۔ اگر یہ اکثر آپ کے ساتھ ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ فطری طور پر زیادہ حساس (Hypersensitive) ہیں۔ زیادہ حساس ہونے کا مطلب ہے کہ آپ کے جذبات اور دماغ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ گہرے ردعمل دیتے ہیں۔ یہ کوئی کمزوری نہیں، لیکن یہ چھوٹی باتوں کو بڑا محسوس کرا دیتا ہے۔ ایک چھوٹی سی صورتِ حال پورے دن پر اثر ڈال سکتی ہے۔

بچپن کے تجربات اس میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر آپ ایسے ماحول میں بڑے ہوئے جہاں زیادہ تنقید یا کم حوصلہ افزائی ملی، تو دماغ نے چھوٹی چھوٹی نشانیوں کو بھی محسوس کرنا سیکھ لیا۔ مثال کے طور پر، اگر بچپن میں استاد نے کلاس میں ڈانٹا تھا تو آج بھی کوئی آپ کو درست کرے تو آپ کو بےچینی محسوس ہو سکتی ہے۔ کچھ لوگ قدرتی طور پر زیادہ حساس اعصابی نظام کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ ان کا دماغ اور جسم جذبات، الفاظ اور حتیٰ کہ باڈی لینگویج کو بھی زیادہ گہرائی سے محسوس کرتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی ساتھی آپ کی پریزنٹیشن کے دوران ہنس دے، تو آپ گھنٹوں سوچتے رہ سکتے ہیں کہ کہیں آپ نے خود کو شرمندہ تو نہیں کر لیا۔

تناؤ اور بےچینی حساسیت کو اور بڑھا دیتے ہیں۔ جب دماغ پہلے ہی دباؤ میں ہو تو چھوٹی چھوٹی باتیں بڑی لگتی ہیں۔ کسی میسج کا جواب نہ آنا یا تاخیر ہو جانا آپ کو کئی گھنٹے یہ سوچنے پر مجبور کر سکتا ہے کہ آپ کو نظرانداز یا رد کر دیا گیا ہے۔ دوسروں سے اپنا موازنہ اور لوگوں کے فیصلے بھی حساسیت کو بڑھاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر دوسروں کی کامیابیاں دیکھ کر آپ اپنی زندگی پر سوال اٹھا سکتے ہیں، حالانکہ آپ بالکل ٹھیک جا رہے ہوں۔

زیادہ ہمدردی (Empathy) بھی حساسیت کو بڑھاتی ہے۔ دوسروں کے جذبات کو زیادہ گہرائی سے محسوس کرنا آپ کی توانائی کم کر دیتا ہے۔ اگر کوئی دوست پریشان ہو تو آپ اس کا دباؤ اتنا محسوس کر سکتے ہیں کہ سارا دن آپ کے موڈ پر اثر ڈالے۔ زیادہ حساس ہونے کا مطلب ہے کہ آپ کا موڈ جلدی بدل سکتا ہے۔ ایک چھوٹا سا واقعہ دماغ میں بار بار چلتا رہتا ہے اور آپ کے کام، بات چیت اور نیند پر اثر ڈالتا ہے۔ لیکن یاد رکھیں کہ یہ کوئی خامی نہیں ہے۔ جب آپ کو اپنی حساسیت کی وجہ سمجھ آ جائے تو آپ اس کو طاقت میں بدل
سکتے ہیں۔

10/09/2025
Why can't we forget some people?یہ سوچنے والی بات ہے کہ کئی سال گزر جانے کے بعد بھی کوئی شخص ہمارے ذہن میں کیوں آ جاتا ہ...
09/09/2025

Why can't we forget some people?

یہ سوچنے والی بات ہے کہ کئی سال گزر جانے کے بعد بھی کوئی شخص ہمارے ذہن میں کیوں آ جاتا ہے؟ آپ نہ اس سے ملتے ہیں، نہ بات کرتے ہیں، اور نہ ہی کبھی سوچنا چاہتے ہیں، پھر بھی اس کی موجودگی آپ کے خیالوں میں زندہ رہتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے دماغ چھوڑنے سے انکار کر رہا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی دماغ یادوں کو کبھی مکمل طور پر مٹاتا نہیں۔ یہ کمپیوٹر کی طرح ڈیلیٹ نہیں کرتا۔ جو کچھ ہم جیتے ہیں وہ سب کہیں نہ کہیں دماغ میں محفوظ رہتا ہے۔ وقت کے ساتھ جو چیز بدلتی ہے وہ یاد نہیں بلکہ اس کے ساتھ جڑی ہوئی جذباتی کیفیت ہوتی ہے۔

جب کوئی تکلیف دہ واقعہ پیش آتا ہے تو وہ یاد مضبوط جذبات کے ساتھ آتی ہے۔ یہ جذبات انکار، جرم کا احساس، اداسی یا محبت ہو سکتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ جذبات اکثر اپنی شدت کھو دیتے ہیں۔ یاد تو موجود رہتی ہے لیکن اس کا بوجھ کم ہو جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ وہ پس منظر میں چلی جاتی ہے اور دماغ اسے ایک طرح کے ذخیرہ خانے میں رکھ دیتا ہے جہاں سے وہ روزمرہ زندگی پر اثر نہیں ڈالتی۔ لیکن کبھی کبھی کوئی یاد بار بار اُسی شدت کے ساتھ واپس آتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے پیچھے موجود جذبہ ابھی تک پروسیس نہیں ہوا۔ ایسے میں دماغ اصل میں اس شخص کو نہیں بلکہ اس کے ساتھ جڑے ہوئے ادھورے جذبے کو تھامے رکھتا ہے۔

یہی وہ جگہ ہے جہاں خود احتسابی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یاد کو دھکیلنے کی بجائے خود سے پوچھیں کہ اس شخص کو سوچ کر اصل میں کیا احساس اُبھر رہا ہے؟ کیا آپ کو انکار محسوس ہوتا ہے؟ کیا آپ کو جرم کا احساس ہے؟ کیا یہ یاد کسی پرانے زخم یا صدمے کی یاد دلاتی ہے؟ یا پھر ایسا لگتا ہے جیسے کچھ ادھورا رہ گیا ہو؟ جب آپ ایمانداری سے یہ سوالات کھوجتے ہیں تو آہستہ آہستہ فرق سمجھ آنے لگتا ہے کہ اصل میں وہ شخص نہیں بلکہ اس کے ساتھ جڑا ہوا جذبہ آپ کو متاثر کر رہا ہے۔ اور جیسے ہی وہ جذبہ پروسیس ہو جاتا ہے، شدت خود بخود کم ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد یاد اپنی طاقت کھو دیتی ہے اور آپ کے خیالات پر پہلے جیسا اثر نہیں ڈالتی۔

یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اگر کئی سال بعد بھی کوئی ذہن میں آ جائے تو یہ بالکل نارمل ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کمزور ہیں یا کبھی آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ آپ کے اندر کا کوئی حصہ ابھی تک شفا مانگ رہا ہے۔ چھوڑ دینا اس بات کا نام نہیں کہ لوگوں کو دماغ سے مٹا دیا جائے۔ چھوڑنے کا مطلب یہ ہے کہ ان سے جڑا ہوا جذباتی بوجھ ہلکا کر دیا جائے۔ اور جب یہ بوجھ اُتر جاتا ہے تو آپ آزاد ہو جاتے ہیں۔ آزاد اس لیے نہیں کہ آپ بھول گئے، بلکہ اس لیے کہ وہ یاد آپ پر سے اپنا اثر کھو بیٹھتی ہے۔

Signs of Attention seeking behaviour یہ فطری بات ہے کہ ہم سب کو اپنے چاہنے والوں اور اردگرد کے لوگوں کی توجہ اچھی لگتی ہ...
02/09/2025

Signs of Attention seeking behaviour

یہ فطری بات ہے کہ ہم سب کو اپنے چاہنے والوں اور اردگرد کے لوگوں کی توجہ اچھی لگتی ہے۔ یہ ہمیں اہمیت اور تعلق کا احساس دیتی ہے۔ لیکن جب یہ ضرورت حد سے بڑھ جائے تو یہ "توجہ حاصل کرنے کا رویہ" (Attention-Seeking Behaviour) بن جاتا ہے۔ اس رویے کی جڑیں اکثر بچپن کی نامکمل ضروریات، کم خوداعتمادی، تنہائی یا چھپی ہوئی عدمِ تحفظ میں ہوتی ہیں۔ وقت کے ساتھ یہ رویہ تعلقات کو تھکا دیتا ہے، دوسروں میں جھنجھلاہٹ پیدا کرتا ہے اور حقیقی خیال رکھنے کو مجبوری جیسا بنا دیتا ہے۔ یہ اعتماد کو بھی کم کرتا ہے کیونکہ لوگ اس رویے کو فطری کے بجائے چالاکی سمجھنے لگتے ہیں۔

عام علامات درج ذیل ہیں:

اداس یا ناراض ہونے کا ڈرامہ کرنا: کچھ لوگ محض اس لیے اداسی یا غصہ ظاہر کرتے ہیں تاکہ دوسروں سے پوچھا جائے "کیا ہوا؟" یہ وقتی سکون دیتا ہے مگر تعلقات میں بوجھ بن جاتا ہے۔

بار بار شکایتیں کرنا: چھوٹی باتوں کو بڑھا چڑھا کر شکایت بنانا صرف ہمدردی لینے کے لیے ہوتا ہے۔ یہ رویہ دوسروں کو تھکا دیتا ہے۔

سوشل میڈیا پر ڈرامائی پوسٹیں کرنا: مبہم اور جذباتی پیغامات جیسے "مزید برداشت نہیں ہو رہا" صرف ردعمل لینے کے لیے ڈالے جاتے ہیں۔ وقتی توجہ ملتی ہے مگر اعتبار کم ہوتا ہے۔

بار بار کالز یا میسجز کرنا: بغیر ضرورت مسلسل رابطہ کرنا عدمِ تحفظ کی نشانی ہے، لیکن یہ رویہ دوسروں کو بوجھل لگتا ہے۔

ضرورت سے زیادہ تنقید کرنا: محض نمایاں رہنے کے لیے دوسروں پر تنقید کرنا منفی اثرات ڈالتا ہے اور عزت گھٹا دیتا ہے۔

کارنامے جتانا یا شیخی مارنا: اپنی کامیابیاں بار بار بیان کرنا وقتی داد دلاتا ہے لیکن آہستہ آہستہ دوسروں کو دور کر دیتا ہے۔

ہمیشہ مظلوم بننا: ہر وقت خود کو مظلوم ظاہر کرنا شروع میں ہمدردی دلاتا ہے، مگر وقت کے ساتھ لوگ دور ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ رویہ بناوٹی لگنے لگتا ہے۔

جذباتی بلیک میلنگ کرنا: الزام یا جرم کا احساس دلا کر توجہ حاصل کرنا تعلقات کو زہر آلود کر دیتا ہے۔

ضرورت سے زیادہ شور یا ڈرامائی انداز اپنانا: عوامی جگہ پر حد سے زیادہ شور مچانا یا ڈرامائی رویہ اپنانا وقتی توجہ دلاتا ہے مگر عزت کم کرتا ہے۔

ہر بات کو اپنی طرف موڑ لینا: گفتگو کو مسلسل اپنی ذات کے گرد گھمانا دوسروں کی دلچسپی ختم کر دیتا ہے۔

یہ سب رویے وقتی سکون تو دیتے ہیں مگر طویل مدت میں تعلقات کو نقصان پہنچاتے ہیں، احترام کم کرتے ہیں اور حقیقی خیال و
محبت کو ختم کر دیتے ہیں۔

Thought of the day
29/08/2025

Thought of the day

Address

Business Bay
Dubai
00000

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dr Saima Mohammad Nawaz posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Dr Saima Mohammad Nawaz:

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram