
20/07/2025
"ایک اور شیتل " (پاکستان میں آنر کلنگ سے متعلق ایک تحریر کیوں کہ ہم سب کے اندر ایک جرگہ رہتا ہے )
اکسویں صدی میں آنر کلنگ کے بارے میں لکھتے ہویے ایسا ہی لگتا ہے جیسے آپ آج کے دور میں ستی کی رسم کے بارے میں لکھ رہے ہوں یا زمانہ جاہلیت کے اس دور کے بارے میں لکھ رہے ہوں جب لڑکیوں کو اس جرم میں زندہ درگور کردیا جاتا تھا کہ وہ "لڑکی " کیوں ہے ؟ - اس موضوع پر میں اس سے پہلے بہت دفعہ لکھ چکا ہوں - زیادہ وقت اس لئے نہیں لگتا کہ بس نام بدلنے پڑتے ہیں اور وہ بدقسمت کہانی یکسر ایک سی رہتی ہے -
تاریخ اگست 2008 قبیلہ ارمانی بلوچستان: پانچ عورتیں جن میں تین کی عمر بیس سال سے کم ہے ؛ ان کو ادھ مووا کرکے زندہ دفن کردیا جاتا ہے کیوں کہ وہ قبیلے کے سردار کی مرضی سے نہیں بلکہ اپنی مرضی سی شادی کرنے کی جسارت کی خواہش رکھتی ہیں جس سے قبیلے کی "آنر" کو ٹھیس پہنچتی ہے -
تاریخ 28 مئی 2014 مقام : لاہور ہائی کورٹ کے صحن کا احاطہ: ایک حاملہ عورت فرزانہ اقبال کو اس کا باپ سنگسار کر کہ مار دیتا ہے کیوں کہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کرکہ خاندان کی "آنر" کو سنگسار کیا تھا اور گرفتار ہونے کہ بعد فخر سے کہتا ہے کہ اسے کوئی پچھتاوا نہی -
سال 2015، جگہ حافظہ آباد نہر: بیس سالہ صبا قیصر گولی سے مجروح چہرے کے ساتھ نہر کے کنارے کسی طرح زندہ پہنچتی ہے جس کو اس کے باپ اور چا چا نے خاندان سے باہر شادی کرنے پر گولی مار کر مردہ سمجھ کر نہر میں پھینک دیا تھا اور اپنے خاندان کی "آنر" کو چار چاند لگا ہی لئے تھے (گرل ان دا ریور - شرمین عبید چنایے )....لیکن معاشرہ اس قبیح فعل پر بات کرنے کی بجاے شرمین چنائی کے آسکر پر بات کرنے اور اس کو ملک کی بدنامی قرار دینے پر بضد نظر آتا ہے
تاریخ جولائی 2016 جگہ ملتان مشهور سوشل میڈیا ماڈل قندیل بلوچ کو اس کا نشئی بھائی گلا گھونٹ کر مار ڈالتا ہے کیوں کہ قندیل نے سوشل میڈیا پر قابل اعتراض کلپس لگایے ہوتے ہیں اورمفتی قوی کے ساتھ شوخ مزاجی کی ہوتی ہے - وجہ: بہن کی کمائی پر پلنے واالے غیرتمند بھائی کا جب نشہ اترتا ہے تو اس کی "آنر" اس پر چڑھ جاتی ہے جس کو بل آخروہ اتار ہی لیتا ہے .- مفتی قوی کے فتوے بھی جاری رہتے ہیں اور عوام ان کلپس کے ویوز بھی بڑھاتی رہتی ہے -
اور آج ؟
آج کردار کا نام شیتل بلوچ ہے پر کہانی مختلف نہیں ہے - آج بھی ایک لڑکی کو اپنی مرضی سے شادی کے جرم میں کوئی جرگہ موت کی سزا سناتا ہے اور سر عام دس پندرہ نام کے مرد اس عورت اور اس کے شوہر کو گولی مار کر اپنی "آنر " بحال کر لیتے ہیں - معاشرہ پھر سے سراپا احتجاج نظر آتا ہے - کوئی اس کو بلوچ روایات سے جوڑتا ہے تو کوئی اس کو بس بلوچستان کا مسلہ سمجھ کر پوری بلوچ قوم کے پیچھے پڑ جاتا ہے -
مجھے لگتا ہے بحثیت معاشرہ ہم سب اس قتل کے قصوروار ہیں کیوں کہ ہم سب کے اندر ایک "جرگہ " رہتا ہے جو کسی نہ کسی شیتل کو اپنی ہی بنائی ہوئی روایات ' اور آنر جن کا کسی مذھب کسی قانون سے کوئی تعلق نہیں ' بس معاشرے اور رواج سے تعلق ہے ' ان کی نذر چڑھاتا رہتا ہے -
یہ غلاظت کشمیر سے کشمور اور کراچی سے قلات تک یکسو پھیلی ہوئی ہے -
بلوچستان میں جرگہ پسند کی شادی کرنے پر موت کی سزاسناتا ہے اور اس جوڑے کو مار دیا جاتا ہے -
پختونخواہ میں جرگے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ' بس تعلقات کے شبے میں ہی دو بہنوں کو قتل کردیا جاتا ہے -
پنجاب میں کسی صبا قیصر کو اس کا باپ اور چچا پسند کی شادی کرنے پر گولی مار کر نہر میں پھینک آتا ہے اور پھر اس پر فخر محسوس کرتے ہویے جیل میں یہ کہتا ہے کہ جب میں باہر آونگا تو پھر سے اس کو قتل کرونگا -
گجرات کی دو بہنوں انیسہ اور عروج جو سپین میں پلی بڑھی ہوتی ہیں ' ان کی زبردستی کزنز کے ساتھ شادی کردی جاتی ہے ' اور جب وہ اس شادی کو ختم کرنا چاہتی ہیں تو ان کو بہانے سے پاکستان بلا کر قتل کردیا جاتا ہے کہ یہ طلاق لے کر خاندان کی آنر خراب کرنے والی تھیں -
سندھ میں کسی لڑکی کو کسی ایک گوٹھ کے ایک مرد کے گناہ کا کفارہ ادا کرنے کیلئے دوسرے گوٹھ کو وانی کر دیا جاتا ہے -
الغرض یہ کہانی اس ملک اور اس ملک کے اوورسیز سب کی ہی ہے - کیوں کہ ہم سب کے اندر ایک " جرگہ " رہتا ہے جو دوسرے کی غلطی پر جج اور اپنی گناہ کبیرہ پر وکیل بن جاتا ہے -
ہمارے اس معاشرے میں اس جرگے کی ایک قماش اور قسم ایسی بھی ہے جو عورت کو گولی نہیں مارتا ' لیکن اس کو پسند کی شادی نہ کرنے دے کر اور اپنی مرضی اس پر تھوپ کر کسی چاچے مامے کے بیٹے سے اس کی زبردستی شادی کرکے ہمیشہ کیلئے اس کیفیت میں چھوڑ آتا ہے جہاں وہ روز گولیاں کھاتی ہے ' روز مرتی ہے پر پھر بھی زندہ رہتی ہے - میرے نزدیک یہ والا طبقہ کسی طرح بھی اس ظالم بلوچ جرگے سے مختلف نہیں ہے - کیوں کہ دونوں کی سوچ کا ماخذ وہ "انا" اور " آنر " ہی ہے جو انسان سے اس کا فطری حق بھی چھین لینا چاہتی ہے جو خدا نے اس کو عطا کیا ہے -
شیتل جیسے یہ سب قتل بھی اسلام کا نام استعمال کرکے کیے جاتے ہیں - اس جرگے نے بھی یہ اصول لگایا ہوگا کہ " لڑکی ولی کی اجازت کے بغیر خود شادی نہیں کرسکتی ' اور جو ایسا کرے وہ زنا کے برابر ہے اور اس کی سزا موت ہے" - یہ وہ عام تاثر ہے جو ہمارے معاشرے میں ہر گھر میں پایا جاتا ہے - لیکن اسلام میں ولی کو جو تنبیہ کی گئی ہے اس کا کبھی ذکر نہی کیا جاتا کہ کوئی بھی ولی عورت کی پسند کے برعکس اس کا کہی نکاح نہی کرسکتا اور اگر ولی اور عورت کے پسند میں تصادم ہوجاے تو ترجیح عورت کی پسند کو حاصل ہے -
حدیث پاک میں ہے :
لا تنکح الايم حتی تستامر ولا تنکح البکر حتی تستاذن.
" غیر شادی شدہ کا نکاح اس سے پوچھے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کا بغیر اجازت نکاح نہ کیا جائے"۔
(بخاری، الصحيح، 5 : 974، رقم : 4843، باب لاتنکح الاب وغيره البکر والثيب الابرضاها، دار ابن کثير اليمامة، بيروت.)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک لڑکی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوئی اور عرض کی کہ میرے باپ نے میری ناپسندیدگی کے باوجود میرا نکاح کر دیا ہے، تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اختیار دے دیا کہ اسے منظور کر لے یا رد کر دے-
یہ باتیں لکھنا اس لئے ضروری ہیں کیوں کہ ان تمام مکروہ قتلوں ' رسموں اور جرگوں کو اسلام کا پہناوا پہنا کر جاذب نظر بنایا جاتا ہے - جب کہ یہ سب رسمیں اور جرگے وہ گندے نالے ہیں جن کو ہماری کہن پسندی نے اثاثہ بنا دیا ہے -
چلیں اب اس کتاب سے رہنمائی لے لیتے ہیں جو مرتے وقت شیتل نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی ٠
جورج ٹاون یونیورسٹی کے ایک عیسایی پروفیسرڈاکٹر جوناتھن براون اسلام پر تحقیق پر مبنی اپنی ریسرچ میں آنر کلنگ کے بارے میں لکھتے ہویے سورہ نور کی اس آیت کا ذکر کرتے ہیں:
وَالَّذِيۡنَ يَرۡمُوۡنَ اَزۡوَاجَهُمۡ وَلَمۡ يَكُنۡ لَّهُمۡ شُهَدَآءُ اِلَّاۤ اَنۡفُسُهُمۡ فَشَهَادَةُ اَحَدِهِمۡ اَرۡبَعُ شَهٰدٰتٍۭ بِاللّٰهِۙ اِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِيۡنَ (سورہ النور ٦)
اور جو لوگ اپنی عورتوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں اور خود ان کے سوا ان کے گواہ نہ ہوں تو ہر ایک کی شہادت یہ ہے کہ پہلے تو چار بار خدا کی قسم کھائے کہ بےشک وہ سچا ہے
وَيَدۡرَؤُا عَنۡهَا الۡعَذَابَ اَنۡ تَشۡهَدَ اَرۡبَعَ شَهٰدٰتٍۢ بِاللّٰهِۙ اِنَّهٗ لَمِنَ الۡكٰذِبِيۡنَۙ ﴿ سورہ النور ۸﴾
"اور عورت سے سزا کو یہ بات ٹال سکتی ہے کہ وہ پہلے چار بار خدا کی قسم کھاکے کہے کہ بےشک یہ جھوٹا ہے"
حضرت ابو ہریرہ(رضی اللہ) سے روایت ہے کہ ایک صحابی سعد بن عبیدہ (رضی اللہ) نے نبی پاک صلی اللہ وسلم سے پوچھا کہ اگر میری بیوی کسی اور مرد کے ساتھ دیکھی جایے تو مجھے کیا کرنا چاہیے- آپ نے فرمایا: اس کو اس وقت تک سزا نہی دی جاسکتی جب تک تم ایسے چار گواہ نہ لے آؤ جس نے ان کو قابل اعتراض حالت میں دیکھا ہو " ( مسند احمدی ابن حنبل١:٢٣٨:٣٩)
پس ثابت ہوا کہ جزا سزا کا اختیار صرف وقت کے قاضی کو دیا گیا ہے جو تحقیق اور گواہوں کی موجودگی میں فیصلہ کریگا نہ کہ کسی مامے چاچے کسی پنچایت یا جرگے کو جو "کسی قبیلے کسی برادری کی آنر " کی خاطر محض اپنے الزام اور بے تحقیق کی تحقیق کی بنیاد پر انسانیت کو بے آبرو کردیتا ہے - شیتل کے کیس میں تو معاملہ ہی سیدھا تھا کہ اس نے ایک جایز نکاح کیا تھا ' پھر بھی سزا دی گئی - - آج اگر آنر کے نام پر تکریم انسانیت کی یہ تذلیل یونہی جاری رہی تو وہ دن دور نہیں جب ہم زمانہ جہالت کے ان عربوں کو بھی پیچھے چھوڑدیں گے جو اپنی بیٹیاں پیدا ہوتے ہی زندہ دفنا دیتے تھے - کرتے تو وہ بھی ایسا قبیلے کی رسومات کی " آنر" میں تھے ہاں البتہ ایک فرق تھا: وہ یہ کہ دفنانے کے بعد وہ بھڑکیں مارتے ہویے نظر نہیں آتے تھے -
مجھے لگتا ہی شیتل نے مرتے وقت یہ جملہ
"صرف سُم ئنا اجازت اے نمے"
(صرف گولی مارنے کی اجازت ہے)
ہم سب کیلئے بولا کہ "گولی سے زیادہ سزا نہ دینا " ورنہ ہمارا معاشرہ گولی مار کر بھی آنر کے نام پر مرنے والے کی کردار کشی کر کر کے روحوں کو بھی سنگسار کردیتا ہے -
ایک بات کہوں- بہت چبھے گی - بہت بے غیرت ہوتے ہیں جو اپنی بیٹیاں، بہنیں اور بیویاں غیرت کے نام پر مار ڈالتے ہیں -
عمر گزرے گی امتحان میں کیا ...؟
داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا ...؟
میری ہر بات بے اثر ہی رہی
نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا ...؟
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا ...؟
اپنی محرومیاں چھپاتے ہیں
ہم غریبوں کی آن بان میں کیا ...؟
یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا ...؟
وہ ملے تو یہ پوچھنا ہے مجھے
اب بھی ہوں میں تری امان میں کیا ...؟
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا ...؟
"قلم کی جسارت وقاص نواز "