Dr. Waqas Nawaz

  • Home
  • Dr. Waqas Nawaz

Dr. Waqas Nawaz شکوہ ظلمت شب سے تو کیی بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاے جاتے

Contributing to Naya Pakistan by writings, poems, speeches ,videos and fundraising

"ایک اور شیتل " (پاکستان میں آنر کلنگ سے متعلق ایک تحریر کیوں کہ ہم سب کے اندر ایک جرگہ رہتا ہے ) اکسویں صدی میں آنر کلن...
20/07/2025

"ایک اور شیتل " (پاکستان میں آنر کلنگ سے متعلق ایک تحریر کیوں کہ ہم سب کے اندر ایک جرگہ رہتا ہے )

اکسویں صدی میں آنر کلنگ کے بارے میں لکھتے ہویے ایسا ہی لگتا ہے جیسے آپ آج کے دور میں ستی کی رسم کے بارے میں لکھ رہے ہوں یا زمانہ جاہلیت کے اس دور کے بارے میں لکھ رہے ہوں جب لڑکیوں کو اس جرم میں زندہ درگور کردیا جاتا تھا کہ وہ "لڑکی " کیوں ہے ؟ - اس موضوع پر میں اس سے پہلے بہت دفعہ لکھ چکا ہوں - زیادہ وقت اس لئے نہیں لگتا کہ بس نام بدلنے پڑتے ہیں اور وہ بدقسمت کہانی یکسر ایک سی رہتی ہے -

تاریخ اگست 2008 قبیلہ ارمانی بلوچستان: پانچ عورتیں جن میں تین کی عمر بیس سال سے کم ہے ؛ ان کو ادھ مووا کرکے زندہ دفن کردیا جاتا ہے کیوں کہ وہ قبیلے کے سردار کی مرضی سے نہیں بلکہ اپنی مرضی سی شادی کرنے کی جسارت کی خواہش رکھتی ہیں جس سے قبیلے کی "آنر" کو ٹھیس پہنچتی ہے -

تاریخ 28 مئی 2014 مقام : لاہور ہائی کورٹ کے صحن کا احاطہ: ایک حاملہ عورت فرزانہ اقبال کو اس کا باپ سنگسار کر کہ مار دیتا ہے کیوں کہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کرکہ خاندان کی "آنر" کو سنگسار کیا تھا اور گرفتار ہونے کہ بعد فخر سے کہتا ہے کہ اسے کوئی پچھتاوا نہی -

سال 2015، جگہ حافظہ آباد نہر: بیس سالہ صبا قیصر گولی سے مجروح چہرے کے ساتھ نہر کے کنارے کسی طرح زندہ پہنچتی ہے جس کو اس کے باپ اور چا چا نے خاندان سے باہر شادی کرنے پر گولی مار کر مردہ سمجھ کر نہر میں پھینک دیا تھا اور اپنے خاندان کی "آنر" کو چار چاند لگا ہی لئے تھے (گرل ان دا ریور - شرمین عبید چنایے )....لیکن معاشرہ اس قبیح فعل پر بات کرنے کی بجاے شرمین چنائی کے آسکر پر بات کرنے اور اس کو ملک کی بدنامی قرار دینے پر بضد نظر آتا ہے

تاریخ جولائی 2016 جگہ ملتان مشهور سوشل میڈیا ماڈل قندیل بلوچ کو اس کا نشئی بھائی گلا گھونٹ کر مار ڈالتا ہے کیوں کہ قندیل نے سوشل میڈیا پر قابل اعتراض کلپس لگایے ہوتے ہیں اورمفتی قوی کے ساتھ شوخ مزاجی کی ہوتی ہے - وجہ: بہن کی کمائی پر پلنے واالے غیرتمند بھائی کا جب نشہ اترتا ہے تو اس کی "آنر" اس پر چڑھ جاتی ہے جس کو بل آخروہ اتار ہی لیتا ہے .- مفتی قوی کے فتوے بھی جاری رہتے ہیں اور عوام ان کلپس کے ویوز بھی بڑھاتی رہتی ہے -

اور آج ؟
آج کردار کا نام شیتل بلوچ ہے پر کہانی مختلف نہیں ہے - آج بھی ایک لڑکی کو اپنی مرضی سے شادی کے جرم میں کوئی جرگہ موت کی سزا سناتا ہے اور سر عام دس پندرہ نام کے مرد اس عورت اور اس کے شوہر کو گولی مار کر اپنی "آنر " بحال کر لیتے ہیں - معاشرہ پھر سے سراپا احتجاج نظر آتا ہے - کوئی اس کو بلوچ روایات سے جوڑتا ہے تو کوئی اس کو بس بلوچستان کا مسلہ سمجھ کر پوری بلوچ قوم کے پیچھے پڑ جاتا ہے -

مجھے لگتا ہے بحثیت معاشرہ ہم سب اس قتل کے قصوروار ہیں کیوں کہ ہم سب کے اندر ایک "جرگہ " رہتا ہے جو کسی نہ کسی شیتل کو اپنی ہی بنائی ہوئی روایات ' اور آنر جن کا کسی مذھب کسی قانون سے کوئی تعلق نہیں ' بس معاشرے اور رواج سے تعلق ہے ' ان کی نذر چڑھاتا رہتا ہے -

یہ غلاظت کشمیر سے کشمور اور کراچی سے قلات تک یکسو پھیلی ہوئی ہے -

بلوچستان میں جرگہ پسند کی شادی کرنے پر موت کی سزاسناتا ہے اور اس جوڑے کو مار دیا جاتا ہے -

پختونخواہ میں جرگے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ' بس تعلقات کے شبے میں ہی دو بہنوں کو قتل کردیا جاتا ہے -

پنجاب میں کسی صبا قیصر کو اس کا باپ اور چچا پسند کی شادی کرنے پر گولی مار کر نہر میں پھینک آتا ہے اور پھر اس پر فخر محسوس کرتے ہویے جیل میں یہ کہتا ہے کہ جب میں باہر آونگا تو پھر سے اس کو قتل کرونگا -

گجرات کی دو بہنوں انیسہ اور عروج جو سپین میں پلی بڑھی ہوتی ہیں ' ان کی زبردستی کزنز کے ساتھ شادی کردی جاتی ہے ' اور جب وہ اس شادی کو ختم کرنا چاہتی ہیں تو ان کو بہانے سے پاکستان بلا کر قتل کردیا جاتا ہے کہ یہ طلاق لے کر خاندان کی آنر خراب کرنے والی تھیں -

سندھ میں کسی لڑکی کو کسی ایک گوٹھ کے ایک مرد کے گناہ کا کفارہ ادا کرنے کیلئے دوسرے گوٹھ کو وانی کر دیا جاتا ہے -

الغرض یہ کہانی اس ملک اور اس ملک کے اوورسیز سب کی ہی ہے - کیوں کہ ہم سب کے اندر ایک " جرگہ " رہتا ہے جو دوسرے کی غلطی پر جج اور اپنی گناہ کبیرہ پر وکیل بن جاتا ہے -

ہمارے اس معاشرے میں اس جرگے کی ایک قماش اور قسم ایسی بھی ہے جو عورت کو گولی نہیں مارتا ' لیکن اس کو پسند کی شادی نہ کرنے دے کر اور اپنی مرضی اس پر تھوپ کر کسی چاچے مامے کے بیٹے سے اس کی زبردستی شادی کرکے ہمیشہ کیلئے اس کیفیت میں چھوڑ آتا ہے جہاں وہ روز گولیاں کھاتی ہے ' روز مرتی ہے پر پھر بھی زندہ رہتی ہے - میرے نزدیک یہ والا طبقہ کسی طرح بھی اس ظالم بلوچ جرگے سے مختلف نہیں ہے - کیوں کہ دونوں کی سوچ کا ماخذ وہ "انا" اور " آنر " ہی ہے جو انسان سے اس کا فطری حق بھی چھین لینا چاہتی ہے جو خدا نے اس کو عطا کیا ہے -

شیتل جیسے یہ سب قتل بھی اسلام کا نام استعمال کرکے کیے جاتے ہیں - اس جرگے نے بھی یہ اصول لگایا ہوگا کہ " لڑکی ولی کی اجازت کے بغیر خود شادی نہیں کرسکتی ' اور جو ایسا کرے وہ زنا کے برابر ہے اور اس کی سزا موت ہے" - یہ وہ عام تاثر ہے جو ہمارے معاشرے میں ہر گھر میں پایا جاتا ہے - لیکن اسلام میں ولی کو جو تنبیہ کی گئی ہے اس کا کبھی ذکر نہی کیا جاتا کہ کوئی بھی ولی عورت کی پسند کے برعکس اس کا کہی نکاح نہی کرسکتا اور اگر ولی اور عورت کے پسند میں تصادم ہوجاے تو ترجیح عورت کی پسند کو حاصل ہے -

حدیث پاک میں ہے :
لا تنکح الايم حتی تستامر ولا تنکح البکر حتی تستاذن.
" غیر شادی شدہ کا نکاح اس سے پوچھے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کا بغیر اجازت نکاح نہ کیا جائے"۔

(بخاری، الصحيح، 5 : 974، رقم : 4843، باب لاتنکح الاب وغيره البکر والثيب الابرضاها، دار ابن کثير اليمامة، بيروت.)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک لڑکی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوئی اور عرض کی کہ میرے باپ نے میری ناپسندیدگی کے باوجود میرا نکاح کر دیا ہے، تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اختیار دے دیا کہ اسے منظور کر لے یا رد کر دے-

یہ باتیں لکھنا اس لئے ضروری ہیں کیوں کہ ان تمام مکروہ قتلوں ' رسموں اور جرگوں کو اسلام کا پہناوا پہنا کر جاذب نظر بنایا جاتا ہے - جب کہ یہ سب رسمیں اور جرگے وہ گندے نالے ہیں جن کو ہماری کہن پسندی نے اثاثہ بنا دیا ہے -

چلیں اب اس کتاب سے رہنمائی لے لیتے ہیں جو مرتے وقت شیتل نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی ٠
جورج ٹاون یونیورسٹی کے ایک عیسایی پروفیسرڈاکٹر جوناتھن براون اسلام پر تحقیق پر مبنی اپنی ریسرچ میں آنر کلنگ کے بارے میں لکھتے ہویے سورہ نور کی اس آیت کا ذکر کرتے ہیں:

وَالَّذِيۡنَ يَرۡمُوۡنَ اَزۡوَاجَهُمۡ وَلَمۡ يَكُنۡ لَّهُمۡ شُهَدَآءُ اِلَّاۤ اَنۡفُسُهُمۡ فَشَهَادَةُ اَحَدِهِمۡ اَرۡبَعُ شَهٰدٰتٍۭ بِاللّٰهِ‌ۙ اِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِيۡنَ‏ (سورہ النور ٦)
اور جو لوگ اپنی عورتوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں اور خود ان کے سوا ان کے گواہ نہ ہوں تو ہر ایک کی شہادت یہ ہے کہ پہلے تو چار بار خدا کی قسم کھائے کہ بےشک وہ سچا ہے

وَيَدۡرَؤُا عَنۡهَا الۡعَذَابَ اَنۡ تَشۡهَدَ اَرۡبَعَ شَهٰدٰتٍۢ بِاللّٰهِ‌ۙ اِنَّهٗ لَمِنَ الۡكٰذِبِيۡنَۙ‏ ﴿ سورہ النور ۸﴾
"اور عورت سے سزا کو یہ بات ٹال سکتی ہے کہ وہ پہلے چار بار خدا کی قسم کھاکے کہے کہ بےشک یہ جھوٹا ہے"

حضرت ابو ہریرہ(رضی اللہ) سے روایت ہے کہ ایک صحابی سعد بن عبیدہ (رضی اللہ) نے نبی پاک صلی اللہ وسلم سے پوچھا کہ اگر میری بیوی کسی اور مرد کے ساتھ دیکھی جایے تو مجھے کیا کرنا چاہیے- آپ نے فرمایا: اس کو اس وقت تک سزا نہی دی جاسکتی جب تک تم ایسے چار گواہ نہ لے آؤ جس نے ان کو قابل اعتراض حالت میں دیکھا ہو " ( مسند احمدی ابن حنبل١:٢٣٨:٣٩)

پس ثابت ہوا کہ جزا سزا کا اختیار صرف وقت کے قاضی کو دیا گیا ہے جو تحقیق اور گواہوں کی موجودگی میں فیصلہ کریگا نہ کہ کسی مامے چاچے کسی پنچایت یا جرگے کو جو "کسی قبیلے کسی برادری کی آنر " کی خاطر محض اپنے الزام اور بے تحقیق کی تحقیق کی بنیاد پر انسانیت کو بے آبرو کردیتا ہے - شیتل کے کیس میں تو معاملہ ہی سیدھا تھا کہ اس نے ایک جایز نکاح کیا تھا ' پھر بھی سزا دی گئی - - آج اگر آنر کے نام پر تکریم انسانیت کی یہ تذلیل یونہی جاری رہی تو وہ دن دور نہیں جب ہم زمانہ جہالت کے ان عربوں کو بھی پیچھے چھوڑدیں گے جو اپنی بیٹیاں پیدا ہوتے ہی زندہ دفنا دیتے تھے - کرتے تو وہ بھی ایسا قبیلے کی رسومات کی " آنر" میں تھے ہاں البتہ ایک فرق تھا: وہ یہ کہ دفنانے کے بعد وہ بھڑکیں مارتے ہویے نظر نہیں آتے تھے -

مجھے لگتا ہی شیتل نے مرتے وقت یہ جملہ

"صرف سُم ئنا اجازت اے نمے"
(صرف گولی مارنے کی اجازت ہے)

ہم سب کیلئے بولا کہ "گولی سے زیادہ سزا نہ دینا " ورنہ ہمارا معاشرہ گولی مار کر بھی آنر کے نام پر مرنے والے کی کردار کشی کر کر کے روحوں کو بھی سنگسار کردیتا ہے -

ایک بات کہوں- بہت چبھے گی - بہت بے غیرت ہوتے ہیں جو اپنی بیٹیاں، بہنیں اور بیویاں غیرت کے نام پر مار ڈالتے ہیں -

عمر گزرے گی امتحان میں کیا ...؟
داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا ...؟
میری ہر بات بے اثر ہی رہی
نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا ...؟
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا ...؟
اپنی محرومیاں چھپاتے ہیں
ہم غریبوں کی آن بان میں کیا ...؟
یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا ...؟
وہ ملے تو یہ پوچھنا ہے مجھے
اب بھی ہوں میں تری امان میں کیا ...؟
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا ...؟

"قلم کی جسارت وقاص نواز "

ہم نے ایک بچپن ساتھ جیا ہے -بہت سی یادوں میں ہم شراکت دار ہیں جیسے کہ باغوں میں جھولے — چھت پر گرمی میں کرکٹ کے گیند اور...
24/06/2025

ہم نے ایک بچپن ساتھ جیا ہے -بہت سی یادوں میں ہم شراکت دار ہیں جیسے کہ باغوں میں جھولے — چھت پر گرمی میں کرکٹ کے گیند اور بلے ‘ گھنٹوں انڈیا پاکستان کے مباحثے اور شادیوں پر بوتلوں کے سٹرا جوڑنے اور گیس نکالنے کے مقابلے — یہ سب ہماری یادوں کی وہ صندوقچی ہے جو وقت کے دھارے میں بہہ کر ہم نے تالا لگا کر کہی کونے میں کسی سٹور روم کسی برساتی میں رکھ دی تھی — زندگی مصروف رہی اور ہم گھنٹوں دنوں مہینوں اور سالوں کی فکر اور بھاگ دوڑ میں یہ بھول گیے کہ اصل کیلنڈر تو لمحے ہوتے ہیں جن کو ہماری مصروفیت نے بے وقعت بنادیا — آج ہم سب کزنز ان لمحوں کو جینے کیلئے پھر سے اکٹھے ہویے اور وقت کیسے گزرا پتا ہی نہی چلا - وہ گولڈن باول کا ہوٹل ہمیں پھپھو کے گھر کا گارڈن ہی لگ رہا تھا جہاں ہم بیٹھے پھر سے انڈیا پاکستان کے مقابلے کر رہے تھے —-ایسا لگا کہ پھر سے چاچو کی چھت پر دھوپ میں دس دس کھلاڑیوں والی کرکٹ کھیل رہے تھے جس میں ایک ہے بیٹس مین رائٹ اور لیفٹ ہینڈ بیٹنگ کرکے دس کھلاڑیوں کی باری پوری کرتا تھا — یہ ایک خوبصورت
ملاقات تھی جس نے پھر سے ایک دفعہ ہمیں یہ بتایا کہ خدا جس کرنسی میں ہمیں رزق دیتا ہے اس میں دولت کے ساتھ ساتھ فرصت اور صحبت بھی ایک اہم کرنسی ہے جس کو ہمیں اہمیت دینی چاہیے اور ملتے رہنا چاہیے کیونکہ

“Time is not always dated by days, months and years… sometimes Moments are the best calendar”

‏"چشم تخیل " (گنبد خضرا کے صحن سے ایک داستان )‏رات دو بجے کا وقت تھا  — مرے بائیں جانب جنت البقیع تھا  ‘ اوپر آسمان اور ...
12/06/2025

‏"چشم تخیل " (گنبد خضرا کے صحن سے ایک داستان )

‏رات دو بجے کا وقت تھا — مرے بائیں جانب جنت البقیع تھا ‘ اوپر آسمان اور نیچے زمین تھی اور مرے دائیں جانب وہ ہستی تھی جن کی وجہ سے یہ آسمان و زمین ‘ یہ نظام کائنات بنایا گیا تھا -یہ اس ہستی کا روضہ مبارک تھا جس کی وجہ سے سب سجایا گیا تھا - ستاروں ‘ سیاروں اور سورج چاند کو محو گردش کیا گیا تھا - دن کو جمود اور رات کو سکوت عطا کیا گیا تھا - مٹی کے اس پتلے کو اشرف المخلوقات اور خلیفہ بنایا گیا تھا — وہ ہستی جو تہجد میں جاگ جاگ کر مجھے یاد کرتی تھی اور “امتی امتی “ کہ کر اشکبار ہوتی تھی - وہ ہستی جو خالق کائنات کے سامنے میری وکالت کرتی تھی میری مغفرت کی فکر میں اپنے دن کی معرفت اور رات کی استراحت صرف کرتی تھی - آج میں اس ہستی کا مہمان تھا اور بڑا ہی نہال و خوش زمان تھا - مرے قلم پر جہاں وجداں تھا وہاں وہ ساتھ پریشاں تھا کہ کہی کسی لفظ کسی لہجے میں بے ادبی نہ ہوجاے ‘ پر پھر بھی وہ یہ تحریر لکھنے پر مصر اور نازاں تھا کیوں کہ یہ وقت بہت بیش بہاں تھا -

‏ مدینہ میں رہتے ہویے چشم تخیل کا استعمال ہو تو انسان چودہ سو سال پیچھے پہنچ سکتا ہے- یہ ووہی سرزمین ہے جہاں مواخات کا رشتہ قائم ہوا - جہاں حضرت ابو ایوب انصاری رضی الله کے گھر کے باہر نبی صلی الله علیھ وسلم کی اونٹنی رکی - اونٹنی کا رکنا اس ریاست کے قیام کا موجب بنا جو آج بھی تاریخ انسانی میں بہترین نظام اور نظام حکومت کی ایک مثال ہے - اس شہر کے چپے چپے سے ان دس سالوں کی یادیں جڑی ہیں جو اسلامی تاریخ کے بہترین دس سال تھے جہاں معلم انسانیت نے انسان کو انسان بننا سکھایا - اس کو اخوت ‘ اخلاق ‘ حسن سلوک ‘ عدل اور سخاوت کے وہ رہنما اصول سکھایے جو آج مغرب سے لے کر مشرق تک کسی بھی معاشرت کی اساس سمجھے جاتے ہیں -

‏میں یہاں بیٹھا اسی چشم تخیل کو زوم ان کر رہا تھا — میں سوچ رہا تھا کہ اس سرزمین کے چپے چپے پر پاک قدم پڑے ہونگے - مبارک ہاتھوں نے اسی صحن میں بیٹھ کر اپنے امتی یعنی میرے اور خاص میرے لئے دعائیں کی ہوں گی - یہی کہیں اصحاب صفہ کسی چبوترے پر بیٹھ کر کائنات کے بہترین معلم بیسٹ ‘ پروفسیر اور سب سے قابل ٹیچر سے روحانی اور موٹیوشنل لیکچر لیتے ہونگے - یہی ساتھ اماں عائشہ کا گھر ہوگا جہاں سے مومنوں کی ماں وہ سب احادیث سیکھتی اور یاد کرتی ہونگی جو ہم تک پہنچی - اسی صحن میں غزوہ بدر ‘ غزوہ احد اور غزوہ احزاب کی پلاننگ ہوئی ہوگی - اسی صحن میں حضرت سلمان فارسی رضی الله عنہ نے خندق کھودنے کایونیق مشورہ دیا ہوگا - یہی وہ برامدہ ہوگا جہاں غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی الله اپنے گھروں کا سارا سامان لے آیے ہونگے اور رسول پاک صلی الله علیھ وسلم کی خدمت میں نذر کردیا ہوگا کہ گھر پر بس الله اور اس کا رسول چھوڑ آیے ہیں - اسی آنگن میں حضرت عثمان غنی رضی الله نے الله کے نبی کی خواہش پر بئر رومہ کا کنواں خرید کر وقف کرنے کا اعلان کیا ہوگا اور “غنی “ کا ٹائٹل پایا ہوگا -اسی جگہ پر خیبر میں بہادری کی داستان رقم کرنے پر حضرت علی رضی الله کو شیر خدا کا لقب دیا گیا ہوگا - اسی رقبے میں خالد بن ولید رضی الله سیف الله قرار پایے گیے ہونگے - اسی جگہ پر حضرت فاطمہ رضی الله کی محبت اور پدری شفقت میں دنیا کے سب سے مشفق باپ محمد رسول الله صلی الله علیھ وسلم بیٹی کے آنے پر کھڑے ہوجاتے ہونگے - اسی صحن میں حضرت ابو لبابہ رضی الله عنہ نے کوئی غلطی سرزد ہوجانے پر خود کو کسی مینار سے باندھ لیا ہوگا اور تب تک نہی کھولا ہوگا جب خود رسول خدا نے ان کو آکر کھولا ہوگا اور ان کی مغفرت کی آیت بھی اسی جگہ نازل ہوئی ہوگی - اسی جگہ پر اور درجنوں سورتیں بھی نازل ہوئی ہونگی - یہاں ہی بہت سے اصحاب کے نکاح ہویے ہونگے - بہت سے جنازے پڑھےگیے ہونگے - اسی صحن میں محبوب خدا نے اماں عائشہ رضی اللہ کی گود میں دنیا سے پردہ فرمایا ہوگا —

‏ -الغرض سوچتا جاوں تو تخیل کے سمندر میں ڈوبتا جاوں - روتا جاوں کہ تب میں عدم میں کیوں تھا اس جنت میں کیوں نہی تھا -کسی پتھر کسی پرندے کی شکل میں کیوں نہی تھا - اصل میں کیوں نہی تھا الست میں گم کیوں تھا - ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ میرے ذہن میں ابو جہل آیا اور ابو لہب آیا - کعب بن اشرف آیا عتبہ اور شیبہ آیے کہ یہ سب بھی تو اس منور دور میں موجود تھے پر کیسے ذلیل و رسوا ہویے - کیسے راندہ درگاہ ہویے - تب آنکھوں نے خدا کا شکر بجا لایا کہ چودہ سو چھیالیس سال بعد ہی سہی شکر ہے مجھے جب بنایا تو اس کا امتی ہی بنایا کوئی مشرک کوئی منکر نہی بنایا - انہی پر اشک آنکھوں سے میں نے گنبد کا آخری دیدار کیا اور بوجھل قدموں اور لبریز آنکھوں سے واپس اسی مصنوعی مادی دنیا کی طرف چل دیا جہاں سے اگلی دفعہ پتا نہی کب بلایا جاوں ‘ کوئی پتا نہی —

‏تم اقبالؔ یہ نعت کہہ تو رہے ہو
مگر یہ بھی سوچا کہ کیا کر رہے ہو
‏کہاں تم کہاں مدح ممدوح یزداں
یہ جرأت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے

‏ قلم کی عقیدت وقاص نواز

وہ آخری کنکر “(منی سے جمرات تک قلم کی آپ بیتی )  “آج منی میں قیام کا آخری دن ہے - پچھلے چار دن سے ایسا لگ رہا ہے جیسے مہ...
08/06/2025

وہ آخری کنکر “
(منی سے جمرات تک قلم کی آپ بیتی ) “

آج منی میں قیام کا آخری دن ہے - پچھلے چار دن سے ایسا لگ رہا ہے جیسے مہاجر ہیں اور ہمارا کوئی گھر نہی - پر یہ بھی اسی جگہ اور انہی ساعات کا معجزہ ہے کہ جہاں پڑاؤ ڈالتے ہیں ووہی جگہ گھر لگنے لگتی ہے ‘ جہاں خیمہ زن ہوتے ہیں ووہی خیمہ بستی ہماری بستی بن جاتی ہے - کسی جگہ اجنبی نہی محسوس ہوتا - کسی جگہ ان کمفرٹیبل نہی لگتا - دو منٹ میں ہم صوفے بسترے سیدھے کرکے بیگ سیٹ کرکے اسی تین فٹ بایے آٹھ فٹ کی جگہ کو ایک کنال کا گھر بنا لیتے ہیں - ان دنوں میں ان پہاڑوں ‘ صحراؤں ‘ وادیوں اور خیموں سے ہمت الفت سی ہوگئی ہے - یہاں کی گرمی سے مانوسیت ہوگئی ہے - یہاں کے ساتھیوں سے دوستی اور محبت ہوگئی ہے - یہاں کے کچن ہمیں اب اپنا ڈرائنگ اور ڈائننگ روم لگنے لگیں ہیں - یہاں کے ورکرز رشتے دار لگنے لگیں ہیں - تو اب جب جانے کا وقت آیا ہے تو آج مجھے ویسے ہی اضطرابیت محسوس ہورہی ہے جو اس وقت ہوئی تھی جب میں پہلی دفعہ ہوسٹل کیلئے گھر سے نکلا تھا -

یہ دن خوبصورت تھے - عزیزیہ کے ہوٹل سے مزدلفہ کی رات تک ہر گزرتے دن کے ساتھ ہماری آسائشیں بتدریج کم ہوتی گئیں - عزیزیہ سے پرسنل کمرہ چھوڑ کر منی کے خیموں میں آیے جہاں ایک کیمپ میں 22 کے قریب لوگ موجود تھے - وہاں سے عرفات کے میدان میں گیے تو یہ تعداد بڑھ کر 50 تک ہوگئی پر اب تک ہمارے پاس پرسنل بسترا اور تکیہ چادر موجود تھا - اگلا پڑاؤ مزدلفہ کا میدان تھا جہاں نہ کمفرٹ بیڈ تھا ‘ نہ چھت نہ صوفہ تھا اور نہ تکیہ - مٹی کا بستر اور بازو کا تکیہ اور آسمان کی چھت کے ساتھ بھی ہم کمفرٹیبل تھے -

ان دنوں میں میرا فیورٹ دن عرفات کا دن اور فیورٹ رات مزدلفہ کی رات تھی - آدھے کلومیٹر پر جبل رحمت تھا جہاں حضرت آدم اور اما حوا (علیہ سلام ) کی ملاقات ہوئی تھی - جس کے دامن میں معلم انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی الله علیھ وسلم نے انسان کو انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ یہ سبق دیا تھا کہ تم سب برابر ہو اور اپنی عورتوں کے ساتھ سلوک بارے میں خدا کو جوابدہ ہو - بلاشبہ یہ خطبہ انسانی تاریخ کا سب سے جامع اور موثر موٹیوشنل لیکچر تھا - تو اسی جبل رحمت پر جہاں تاحد نگاہ کالے ‘ بھورے ‘ سرخ ‘ زرد اور گندمی گویا ہر رنگت کے لوگ ایک ہی یونیفارم میں موجود تھے ‘ تو یہ منظر گویا حشر کا تاثر دے رہا تھا کہ جیسے صور اسرافیل پھونکا جاچکا ہے اور اب دوسری دفعہ صور پھونکے جانے پر لوگ موت سے بیدار ہو رہے ہیں - میلے کفن کے ساتھ موت سے مضمحل اور حساب کی فکر سے مضطرب ہیں - حساب شروع ہونے کو ہے اور ہر کوئی اپنے اپنے گناہوں کی گنتی کر کے اندازے لگا رہا ہے کہ کونسا والا گناہ اس کو پل صراط کراس نہی کرنے دیگا اور ہر گناہ ہی اس کو ایسا نظر آتا ہے جو اس کے راستے کی دیوار بن جائیگا - ایسے میں وہاں کھڑے شرطے جو سب حاجیوں کو لائنوں میں منظم کر رہے تھے وہ گویا فرشتوں کا گمان دے رہے تھے جو روز حشر سب کو منظم کر رہے ہیں اور ساتھ اعلان کر رہے ہیں کہ ابھی زوال کے بعد عرفہ کا وہ وقت شروع ہوگا جس میں کوئی دعا رد نہی ہوتی تو اس وقت آپ کے پاس آخری موقع ہوگا کہ اپنے گناہ بخشوالو اور اس کے بعد حساب شروع ہوگا - کڑا حساب ہوگا - ووہی حساب جس کے بارے میں بچپن سے قران میں سنتے آیے تھے ‘ عرفہ کا دن اسی یوم حساب جیسا لگ رہا تھا - ووہی سخر دوپہر ‘ ووہی جھلسا دینے والی گرمی ‘ ووہی آپا دھاپی ‘ ووہی نفسا نفسی — گویا ہم مرنے سے پہلے مرنے کے بعد کے اٹھنے کی ڈرل کر رہے تھے -

اس دن حاجی یوں بلک بلک کر رو رہے تھے جیسے کوئی بچہ ماں کے سامنے روتا ہے اور ماں کا دل پھر پسج ہی جاتا ہے - حاجی بھی شائد اسی مامتا کو ذہن میں لاکر ستر ماؤں سے زیادہ چاہنے والی ذات سے التجا کر رہے تھے - سب کی زبان الگ الگ تھی پر سب کی آہ و فغان ایک سی تھی ‘ سب کے انسوووں کی زبان بول رہے تھے جو یونیورسل تھی - میں نے اس دن وہاں رحمت کے پہاڑ پر آنسوؤں کی برسات دیکھی جو زبان حال سے ایک ہی ورد کر رہی تھی کہ

رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ

جمرات پر کنکریاں مارنا بھی ایک عجیب احساس تھا - شیطان ک اتنے قریب سے میں نے پہلے نہی دیکھا تھا - ہاتھ بڑھا کر کنکری نکالی اور الله اکبر کہ کر جب اس کو دے ماری تو بہت خوش ہوا کہ آج شیطان قابو آ ہی گیا جو ورغلاتا تھا - برے کام اچھے کر کے دکھاتا تھا - آج اس کی خیر نہی - چھے کنکر مار ڈالے جب آخری کنکر نکالا اور ابھی مارنے ہی والا تھا تو وہ دیوار گویا مخاطب ہوئی کہ یہ کنکر خود کیلئے بچالے کہ ایک شیطان وہاں وہ تیرے دل میں بھی رہتا ہے ‘ ووہی جو تجھے اپنے عزیز و اقارب کے گھر نہی جانے دیتا اور قطع تعلقی کو تیرا حق سمجھ کر دکھاتا ہے - ووہی جو لوگوں کے حقوق غصب کرواتا ہےاور ملاوٹ و غیبت کرواتا ہے - ایک کنکر اس کو بھی تو مار کہ میں شیطان تو یہی رہ جاؤنگا اور لاکھوں حاجیوں سے کنکر کھاتا رہونگا پر وہ تیرے اندر کا شیطان تو ساتھ واپس لے جائیگا اور اس کی اپنے ساتھ امیگریشن کروائیگا - ایک کنکر اس کو بھی الله اکبر کہ مار تاکہ تیرا یہ حج حج مبرور ہوجاے اور ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے جیسا پاک ہونے کے بعد تو پھر سے غلیظ اور آلودہ نہ ہوسکے —جب میں نے یہ مکالمہ سنا تو مجھے معلوم ہوا کہ شیطان سے یہ میری پہلی ملاقات نہی تھی —میں نے الله اکبر کہ کر وہ آخری کنکر بھی دے مارا پر اس کنکر کے پیچھے میری طاقت سب سے کمزور تھی -

زندگی کے یہ سب سے خوبصورت پانچ دن بھی پلک جھپکنے میں گزر گیے - بہت دفعہ وقت سے بولا کہ ذرا آہستہ چل ‘ ذرا تو بھی رولے ‘ ذرا تو بھی سو لے پر چل تو آہستہ ‘ پر وقت حضرت انسان تھوڑی ہے جو موڈ ہونے پر سست ہوجاتا — اور ایموشنل ہونے پر چست ہوجاتا —

وہ نہی رکا اور یہ کہ کر گزر گیا کہ

غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی ایک اور گھٹا دی

لیکن آج اس بے نیاز وقت کو جواب دینے کیلئے میرے پاس بھی ایک جواب تھا جو زبان حال سے میری آنکھوں نے بہت مان اور ایک مہمان کے بھرم سے ان الفاظ میں دیا

موتی سمجھ کر شان کریمی نے چن لئے
قطرے جو تھے میرے عرق انفال کے

“قلم کی عبادت وقاص نواز “

‏“پتھر کا بستر اور بازو کا تکیہ “‏(مزدلفہ کے میدان سے کچھ جذبات کیوں کہ الفاظ بھی عبادت ہوتے ہے  )‏دو سفید چادروں کو اوڑ...
08/06/2025

‏“پتھر کا بستر اور بازو کا تکیہ “
‏(مزدلفہ کے میدان سے کچھ جذبات کیوں کہ الفاظ بھی عبادت ہوتے ہے )

‏دو سفید چادروں کو اوڑھے ایک دری کو پتھریلی سڑک پر بچھا کر اور کندھے کے بیگ کو تکیہ بنا کر جب کھلے آسمان کے نیچے لیٹا جہاں اس پاس پلاسٹک کی بوتلیں اور کاغذ تھے ‘ تو تب پتا چلا کہ میں ہوں کون ؟ کیا چیز ہوں ؟

‏مجھے آج بدھ والا وہ بابا ببت یاد آیا جو تھڑے پر بیٹھا اکتارہ بجاتا تھا اور جب اس کو بھیک مل جاتی تو وہ دعا دے کر چلاجاتا - مجھے آج جمعرات والی وہ مائی بھی بہت یاد آئی جو اسی طرح سڑک پر گھسیٹ گھسیٹ کر چلتی تھی ‘ دروازے کے نیچے سے آواز لگاتی تھی اور پھر دعا دے کر چلی جاتی تھی — آج میں ہی بدھ والا وہ فقیر بابا جس کا اکتارہ کھو گیا تھا ‘ اور جمعرات والی وہ ضعیف مائی بنا تھا جس کی حالت اس غربت کی غماز تھی-

‏مجھ میں اور جیل روڈ پر زمیں پر سویے اس نشئی میں اب کوئی فرق نہی تھا جس کو میں نے کبھی نوٹس بھی نہی کیا تھا - جس کی طرف میں نے کبھی دیکھا بھی نہی تھا - مجھ میں اور اردگرد پڑے کچرے میں اب زیادہ فرق نہی رہا تھا جس کو میں پاؤں تلے یا اپنی گاڑی کے ٹائر کے نیچے روند دیتا تھا یا گاربیج میں پھینک دیتا تھا -

‏اس بستی میں مجھے کوئی نہی جانتا تھا نہ میں کسی کو جانتا تھا - کوئی نہی تھا یہ کہنے کو کہ بیٹا ! اوپرصوفے پر آجاؤ -بھائی ! قالین پر ٹھیک سے بیٹھ جاؤ - کپڑے استری کرلو - ڈاکٹر صاحب !فریش ہوجاؤ - کمرہ فائیو سٹار ہونا چاہیے میاں صاحب !

‏یہی حال پندرہ لاکھ مسلمانوں کا تھا جو آج اپنا گھر بار بچے اپنا آرام سہولت استراحت ہر راحت چھوڑ کر دنیا کے کونے کونے سے آیے تھے اور اس جھگی بستی کا حصہ بنے ہویے تھے-
‏اپنی میں مارنا کیا ہوتا ہے - اپنی اوقات یاد کرنا کیا ہوتا ہے یہ مزدلفہ کی رات ہمیں بتاتی ہے -
‏ایسا لگتا ہے کہ مر کر جاگیں ہیں - برسوں بعد موت سے بیدار ہویے ہیں - کفن مٹی سے میلے ہیں - چہرے موت کی تھکن سے مضمحل ہیں - آج روز حشر ہے - ہم سب اپنے گناہوں پر مضطرب حساب کتاب شروع ہونے کے انتظار میں انگشت بدنداں بیٹھے ہیں - آس پاس چیختے یہ شرطے جیسے فرشتے ہیں جو ہمیں لائنوں میں منظم کر رہے ہیں - ہم اپنے گناہ یاد کرتے جاتے ہیں اور روتے جاتے ہیں کہ وقت بیت گیا - اب جیسے ہی یہ رات ختم ہوگی حساب شروع ہوجائیگا -

‏یہ سیلانی بستی بھی کیا بستی ہے - کیا امیر کیا غریب کیا سیٹھ صاحب کیا منشی کیا ڈاکٹر صاحب کیا مریض سب ہی مٹی کو بستر بنایے اور بازو کو تکیہ بنایے لیٹے ہیں - وہ بھی جن کو ایک بلب کی روشنی میں بھی نیند نہی آتی تھی وہ بسوں کی ہیڈ لائٹس میں سو رہے ہیں - وہ بھی جن کو ہلکی سی گھڑی کی ٹک ٹک بھی سونے نہی دیتی تھی وہ آج انجن کی آوازوں اور انجان لوگوں کے خراٹوں میں بھی محو خواب ہیں -

‏یہ سب کیوں ؟ کس کے لئے ؟ کس کے کہنے پر ؟
‏ یہ سب اس الله کیلئے ہے جو آج ہمارا میزبان ہے اور ہم اس کے مہمان ہیں - جو ہماری منزل ہے اور ہم اس کے مسافر ہیں - جو ہمارا منتظم ہے اور ہم اس کا انتظام ہیں - جو ہمارا سخی ہے اور ہم اس کے فقیر ہیں - ہماری یہ ریاضت یہ عبادت یہ حج اس کی حمد میں اور اپنی کسر نفسی میں لکھی میری یہ تحریر قبول ہوتا ہے کہ نہی ‘ یہ تو نہی پتا پر یہ ضرور پتا ہے کہ آج کے بعد ایک نیا شخص وجود میں آئیگا کہ آج اس “میں “کا کچومر نکل گیا ہے جو کہی کسی کو کسی محفل میں
‏بولنے نہی دیتی تھی - اس شخصیت کی شکست و ریخت اور پھر تعمیر نو ہوئی جو خود کو کوئی personality سمجھتی تھی - آج مرنے سے پہلے مر کر اٹھنے کی پریکٹس ضرور ہوئی ہے -
‏“میں بہت اہم تھا یہ میرا وہم تھا “ کی تجدید ہوئی ہے - مزدلفہ کی اس رات میں پہلے آسمان کے نیچے ہم نے آج اپنے آپ سے ملاقات کی ہے جس میں
‏بس پسینے
‏کی بدبو ہے ‘
‏کچرا ہے ‘
‏مٹی ہے اور معدے سے آنتوں تک بس غلاظت بھری ہے اور آنکھوں میں تیرتے اشکوں کے آئینے نے یہ پکچر اور بھی کلیر کردی ہے -

‏“ قلم کی عبادت وقاص نواز

‏"میری بچپن کی محبت " (ایک اوورسیز پاکستانی کی ڈائری کا ایک ورق )‏میں نے اب تک بہت سے تحریریں لکھیں جن میں حقائق اور حال...
09/05/2025

‏"میری بچپن کی محبت " (ایک اوورسیز پاکستانی کی ڈائری کا ایک ورق )

‏میں نے اب تک بہت سے تحریریں لکھیں جن میں حقائق اور حالات کا حقیقت پسندانہ تجزیہ لکھا، تنقید لکھی ' تردید لکھی' اصلاح لکھی ' تقابل لکھا ' انقلاب لکھا - نصیحت لکھی - لیکن میری اس تحریر میں ایسا کچھ نہیں ہوگا - میری اس تحریر میں بس محبت لکھی جائیگی اپنے وطن کیلئے - اس وطن کے لوگوں کیلئے - اسی معصومیت کے ساتھ جو انتالیس سال نہیں بلکہ نو سال والے وقاص میں پنہا تھی - اسی شدت کے ساتھ جو اس وقت کسی بیٹے کے دل میں پیدا ہوتی ہے جب اس کی ماں اس سے دور ہوتی ہے اور کوئی غیر اس کی شان میں گستاخی کر دیتا ہے - حقائق کا ادراک اور مصائب کا علم اپنی جگہ لیکن پھر بھی وہ آفاقی محبت کم نہیں ہوئی جو اس سرزمین کیلئے دل میں ہمیشہ موجود رہی ہے - جس کے تحت بچپن میں نغمے سنتے تھے تو آنکھیں نم ہوجاتی تھیں ' پرچم دیکھتے تھے تو بےساختہ سلوٹ مارتے تھے - آج اس سرزمین پر غاصب حملہ آور ہے - رات کے اندھیرے میں اکتیس سے زیادہ ہم وطن شہید کر دیے گیے ہیں - ان میں معصوم بچے بھی تھے ' وہ غنچے جو بن کھلے مرجھا گیے - ان میں عورتیں بھی تھیں جن کی کوکھ میں اس ملک کا متسقبل پنپنا تھا - وہ مرد بھی تھے جو اپنے گھروں کے کفیل تھے - وہ بوڑھے بھی تھے جو اپنے خاندان کیلیے سایہ ہوتے ہیں - سب سوتے میں نشانہ بنایے گیے -

‏میرے شہر لاہور پر ڈرون کی بارش کی گئی - میرے کھیلوں کے شہر سیالکوٹ میں جنگ کا کھیل کھیلا گیا - نور محل والے بہاولپور میں خون کی ہولی کھیلی گئی - میرے کشمیر میں میزائل داغے گیے - میری مسجدیں منہدم کی گئیں - میرے قران شہید کیے گیے - میرے منبر اور محراب کھنڈر بنادیے گیے - ان مسجدوں میں زیر تعلیم حفاظ زخمی کیے گیے - میری سرزمین مجروح ہے - میری فضاء دھویں سے مکدر ہے - میرا آسمان جنگ کے سائرن سے گونج رہا ہے - میرے سکول اور کالج بند ہیں - میرے ائرپورٹس جام ہیں - میں یہاں پردیس میں بے چین ہوں - میرے ماں باپ وہاں ولنرایبل ہیں - میں روز ان کو اپنی دعاؤں کے حصار میں دے کر سوتا ہوں پر پھر بھی نیند نہی آتی - مرے بہن بھائی وہاں ہیں - میں روز ان پر آیت الکرسی پھونکتا ہوں پر دل کو کھٹکا لگا رہتا ہے - میرا دیس میری جنم بھومی پاکستان وہاں ہے - میں روز کشمیر سے کشمور اور گلگت سے گوادر تک اس کے ساتھ لاکھ چھیانوے ہزار چھیانوے مربع کلومیٹر رقبے کو درود شریف کے ورد میں لپیٹنے کی کوشش کرتا ہوں پر وہ اضطرابیت نہیں جاتی جو کسی بھی بچے کو تب ہوتی ہے جب وہ پہلی دفعہ ماں باپ سے دور جاتا ہے - میں یہاں پردیس میں اپنے دیس کا وکیل بن کر رہتا ہوں - گوروں کے سامنے بھارت کی جارحیت بتلاتا ہوں اور کشمیر کا مقدمہ لڑتا رہتا ہوں - جب کوئی میرے وطن کے بارے میں منفی بات کرتا ہے تو میں ہر سیاسی اختلاف اور رنجش بھول کر ڈاکٹر سے ایک سفیر ایک ڈپلومیٹ بن جاتا ہوں - جنگ و جدل کے ان حالات میں میں منتظر ہوں کہ راستے کھلیں اور میں کسی طرح وہاں آؤں کہ یہ بےچینی ختم ہو جو انسان کو اس وقت ہوتی ہے جب زلزلہ آرہا ہو اور اس کا بچہ اس کی گود میں نہ ہو -

‏اس سرزمین کا ایک ایک شہری ' ایک ایک سپاہی ' ایک ایک فوجی ایک ایک مزدور ؛ ایک ایک کسان ؛ ایک ایک طالب علم ' ہر ایک پارٹی ' ہر ایک افسر لاکھ اختلاف کے باوجود مجھے عزیز ہے اور اس کو جب جب کسی اجنبی کے ہاتھ یوں گزند پہنچتی ہے ' میرا دل مضطرب ہوتا ہے ' آنکھیں پر نم ہوتی ہیں اور جسم کراہتا ہے - میرا یہ وطن میری رگوں میں بہتا ہے - میں اس کی آنکھوں سے دنیا کو دیکھتا ہوں - اس کے کانوں سے عالم کو سنتا ہوں - اس کے دماغ سے یہ الفاظ سوچتا ہوں - اس کے دل سے یہ جذبات محسوس کرتا ہوں - اس کے دیے گیے علم کی وجہ سے ہی میں نامور ہوں - اس کے دم سے ہی میں معزز ہوں - اپنی تمام تر تنقید کے باوجود ' اپنی ہر طرح کی تردید کے ہوتے ہویے بھی ' اپنی سب بغاوت لکھ کر بھی ' اپنی سب جسارت بول کر بھی --- میں اس وطن اور اس کے لوگوں سے بےپناہ محبت کرتا ہوں' اور یہی محبت میری ہر تنقید ہر تحریر کا سرچشمہ ہے -
‏ یہ وہ محبت ہے جو میں نے بچپن میں چھتوں پر جھنڈے لگا کر جمع کی ہے -
‏ لڑکپن میں برآمدے میں جھنڈیاں لگا کر اکٹھی کی ہے -
‏ سائکل پر پاکستان کا سٹیکر لگا کر منائی ہے -
‏ سکول میں فیسنی ڈریس شو میں محمد علی جناح بن کر سجای ہے -
‏ میری یہ محبت بیشمار ہے ' لامتناہی ہے -
‏ میری یہ محبت میری اس تحریر میں سمائی ہے -
‏ میرا دل غمگین ہے میری آنکھیں پر نم ہیں -
‏میرے ہاتھ سر بلند ہیں اور دل نے ایک ہی دعا منگوائی ہے -

‏خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
‏وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو

‏یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
‏یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

‏خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
‏حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

‏"قلم کی جسارت وقاص نواز "

‏⁦‪ ‬⁩

‏"پیکا ایکٹ کی منزل کی یہ دو سالہ مسافت "   (کیوں کہ میں وہیں کھڑا تھا )‏آج "پیکا ایکٹ" جیسے کالے قانون پر جب صحافی احتج...
31/01/2025

‏"پیکا ایکٹ کی منزل کی یہ دو سالہ مسافت " (کیوں کہ میں وہیں کھڑا تھا )

‏آج "پیکا ایکٹ" جیسے کالے قانون پر جب صحافی احتجاج کر رہے تھے تو میں ایک سائیڈ پر کھڑا ان کو دیکھ رہا تھا - وہ ہاتھوں میں علامتی زنجیریں پہنے ہویے تھے - منہ پر قفل لگارکھے تھے - اب کے وہ چیخ رہے تھے اور میں خاموش تھا -

‏پرمیں تو تب بھی وہاں کھڑا تھا جب دو سال پہلے دو صوبوں کی اسمبلیاں برخواست ہونے پر آئین کی روشنی اور سپریم کورٹ کے حکم پر بھی ان دو صوبوں میں انتخابات نہ کروا کر آئین شکنی کی گئی تھی - جب الیکشن کمیشن ایک پارٹی بن گیا تھا - تب میں وہی کھڑا تھا - چیخ رہا تھا کہ یہ کالے ہتھکنڈے سب کچھ کالا کردیں گے - پر تب یہ صحافی خاموش تھے اور اس آئین شکنی کی تاویلیں بتا رہے تھے -

‏میں تب بھی وہاں کھڑا تھا جب نو مئی ہوا تھا - - - گرفتار لوگوں میں سے جس نے استعفی دے دیا وہ صاف ہوگیا ' جس نے ثبوت مانگا وہ اندر ہوگیا - میں تب بھی چیخ رہا تھا اور تب بھی صحافی میری اس چیخ پر اپنی روز مراه زندگی میں مگن تھے - ان کے پروگرامز میں نو مئی کے دن کا آغاز دن بارہ بجے سے ہوتا تھا صبح نو بجے سے نہیں جب ایک مقبول لیڈر کو عدالت کے احاطے سے گریبان سے گھسیٹ کر لے جایا جارہا تھا -

‏میں 13 جنوری 2024 کو بھی سپریم کورٹ کے باہر کھڑا تھا اور سراپا احتجاج تھا کہ ملک کی مقبول ترین پارٹی سے اس کا نشان چھین لینا لاکھوں ووٹرز کے حق پر ڈاکا ڈالنا ہے - جب میں وہاں چیخ رہا تھا تو تب بھی میں نے صحافیوں کی فوج ظفر موج کو وہاں دیکھا جو بے نیاز تھی اور بے پرواہ تھی اور اس غلاظت کو انٹرا پارٹی الیکشن میں خامیوں سے جسٹیفائی کر رہی تھی - -

‏آٹھ فروری 2024 کو بھی میں پولنگ سٹیشن کے باہر کھڑا تھا اور چیخ رہا تھا کہ میرا ڈالا گیا ووٹ میرے امیدوار کو کیوں نہں پڑا؟ 2 + 2 = 22 کیسے ہوگیا ؟ میری حالت ہیجانی تھی اور تب بھی ان صحافیوں کی حالت بیگانی تھی -

‏میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر بھی کھڑا تھا جب 6 جج اپنے خاندانوں کو ہراساں کرنے پر خود انصاف کے طالب تھے - لیکن تب بھی میں ہی چیخ رہا تھا اور یہ صحافی تب بھی وہاں غاصب کے وکیل اور مغضوب کے ناقد بنے نظر آیے -

‏میں 23 اکتوبر 2024 کو بھی پارلیمنٹ کے ایک کونے میں کھڑا تھا اور چلا رہا تھا کہ یہ 26 ویں آئینی ترمیم غیرآئینی ہے - عدلیہ کو غیر فعال کرنے کی سازش ہے - یہی غیر فعال عدلیہ بعد میں کسی کو انصاف دینے کے قابل نہیں رہی گی - جب میں وہاں کھڑا پھیپھڑوں کے بل پر چیخ رہا تھا تو تب انہی صحافیوں کا اوپر والی گیلری میں قیام وطعام چل رہا تھا -

‏میں 26 نومبر کو بھی ڈی چوک پر کھڑا تھا - جب ہر طرف آنسو گیس تھی - دھواں تھا - گولیاں چل رہی تھیں ؛ میں ان کو گولیاں گنواتا رہا - یہ صحافی تب بھی وہاں کھڑے تھے - آتشی گولیوں کو ربڑ کی گولیاں اور سنایپرز کو ڈنڈا بردار سنگتری قرار دیتے رہے - میں لاشیں گنواتا رہا - یہ افسانے لکھتے رہے - میں ہسپتال کے سرد خانوں کے چکر لگاتا رہا ' یہ آبپارہ میں شریک دعوت رہے -

‏یہ سب ہوتا رہا - میں چیختا رہا - صحافی مسکراتے رہے - میں بلبلاتا رہا - وہ غاصبوں کے پیر دباتے رہے - میں سراپا احتجاج رہا - وہ پیکر بے حس رہے - اور پھر پیکا ایکٹ منظور ہوگیا -

‏پھر کیا ہوا ؟

‏زنجیریں جو میرے پاؤں میں تھی ' وہ اب علامتی ان کے ہاتھوں میں آگئیں-
‏ قفل جو میرے دروازے پر تھے ' وہ قفل ان کی زبانوں پر لگ گیے -
‏ فیک ایف ای آرز جو مجھ پر درج تھیں ' ان میں اب ان کے بھی نام درج ہونے لگے -
‏ میری گرفتاری جو ہمیشہ بغیر وارنٹ کے ہی ہوتی تھی ' اب ان وارنٹوں کے سایے ان کے سروں پر بھی منڈلانے لگے -
‏ وہ زبان بندی جس کی مجھ پر پابندی تھی ' وہ اب ان کو بھی ڈرانے لگی -

‏ اب یہ چیخ رہے ہیں اور سراپا احتجاج ہیں - آزادی راے کے علمبردار ہیں اور انسانی حقوق کی پامالی پر انگار ہیں - اور میں وہی کھڑا ہوں - میں خاموش ہوں - چپ سادھے ہوں کیوں کہ پچھلے ڈھائی سالوں کی آتش عبوری نے مجھے مضمحل کردیا ہے - میرے اعصاب شل کردئیے ہیں - لیکن اس فسطایت سے زیادہ مجھے جس چیز نے تھکایا ہے وہ مرے ملک کی صحافت کی مصلحت اور اخبار کا بیوپار ہے - میرا میڈیا ساہوکار ہے -میرا اینکر دوکاندار ہے - - یہ جو آج "پیکا ایکٹ " کی منزل کی مسافت طے ہوئی ہے ' اس کے سنگ میل انہی صحافیوں کی مصلحت اور ساہوکاری نے نصب کیے ہیں - آج یہ جو فسطائیت بام عروج پر پہنچی ہے ' اس کی سیڑھی انہی چینلز کے پروگراموں نے مہیاء کی ہے - یہ جو گھپ اندھیرا آج ہر سوں ہے ' یہ چراغ انہی کی پھونکوں سے بجھیں ہیں -میں رہ رہ کر سوچتا ہوں کہ ان ڈھائی سالوں کی آئین شکنی اور انسانی حقوق کی پامالی پر یہ اس طرح مضطرب کیوں نہیں ہویے ؟ ان کو کیوں لگا کہ وہ کالا دھواں جس میں ہر وقت میں کھانستا تھا ' ہانپتا تھا - ان کو آوازیں لگاتا تھا ' وہ دھواں ان کے پھیپھڑوں کو نہیں آلودہ کریگا ؟ کیوں ان کو لگا تھا کہ اس ہوا میں ان کے چراغ کبھی نہیں بجھیں گے - -- لیکن اپنی اس تھکن میں بھی ' اپنی اس نحیفی میں بھی ' اپنی اس خفت میں بھی ' اپنی اس رنجش میں بھی -- میں ان کے ساتھ کھڑا ہوں اور اپنی ساری طاقت جمع کرکے یہ آواز اٹھا رہا ہوں کہ

‏حق بات پہ کوڑے اور زنداں باطل کے شکنجے میں ہے یہ جاں
‏انساں ہیں کہ سہمے بیٹھے ہیں خونخوار درندے ہیں رقصاں

‏اس ظلم و ستم کو لطف و کرم اس دکھ کو دوا کیا لکھنا
‏ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

‬⁩ “قلم کی جسارت وقاص نواز”

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dr. Waqas Nawaz posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

  • Want your practice to be the top-listed Clinic?

Share