Rohani Masaile

Rohani Masaile this page is about spiritual issues and their solution . rohani masaile our un ka hl
share this page

01/12/2023

کیا ٹوتھ برش سے مسواک کی سنت ادا ہوجائے گی؟
سوال
کیا مسواک کرنا ضروری ہے یا ٹوتھ برش سے بھی دانتوں کی صفائی کی سنت ادا ہو جائے گی؟

جواب
اصل سنت درخت کی مسواک ہے، اگر درخت کی مسواک نہ ملے یا دانت نہ ہوں یا دانت و مسوڑھے کی خرابی کی وجہ سے مسواک کرنے سے تکلیف ہوتی ہو تو ہاتھ کی انگلی یا موٹے کھردرے کپڑے یا منجن، ٹوتھ پیسٹ یا ٹوٹھ برش سے مسواک کا کام لیا جاسکتا ہے، مگر مسواک ہوتے ہوئے اور مسواک کے استعمال پر قدرت ہوتے ہوئے مذکورہ تمام چیزیں مسواک کی سنت ادا کرنے کے لیے کافی نہیں؛ کیوں کہ یہاں دو چیزیں مطلوب ہیں: (1) مسواک کی سنت۔ (2) دانتوں کی صفائی۔ ان مذکورہ چیزوں سے دانتوں کی صفائی ضرور حاصل ہوجاتی ہے جو کہ بذاتِ خود مطلوبِ شرعی ہے، رسول اللہ ﷺ نے دانت صاف نہ کرنے پر بعض لوگوں سے ناراضی کا اظہار بھی فرمایا، لیکن مسواک کا صرف یہی مقصد نہیں ہے، بلکہ مسواک کے ستر تک فوائد بیان کیے گئے ہیں، لہٰذا ان اشیاء کے استعمال سے مسواک کی سنت کا پورا اجر حاصل نہیں ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 115):

"وفي النهر: ويستاك بكل عود إلا الرمان والقصب. وأفضله الأراك ثم الزيتون."

(کتاب الطهارۃ، سنن الوضو، ط:سعید)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 115):

"وعند فقده أو فقد أسنانه تقوم الخرقة الخشنة أو الأصبع مقامه، كما يقوم العلك مقامه للمرأة مع القدرة عليه."

(کتاب الطهارۃ، سنن الوضو،ط:سعید)

الفقه على المذاهب الأربعة (1/ 64):

"ومن السنن المؤكدة السواك، و لايشترط أن يكون من شجر الأراك المعروف، بل الأفضل أن يكون أشجار مرة، لأنه يساعد على تطييب الفم، وله فوائد معروفة، فهو يقوي اللثة، وينظف الأسنان، ويقوي المعدة، كي لا يصل إليها شيء من أدران الفم، والأفضل أن يكون رطباً، وأن يكون في غلظ الخنصر، وطول الشبر، فإذا لم يجد سواكاً فإنه - الفرشة - تقوم مقامه، وإذا لم يجدها استاك بإصبعه، ويقوم مقام السواك العلك - اللبان-."

(کتاب الطهارۃ، مباحث الوضو، مبحث بيان عدد السنين وغيرها من مندوبات، ونحوها،ط: دارالکتب العلمیة بیروت)

کفایت المفتی (2/ 322) میں ہے:

’’سوال : دانت صاف کرنے کے لیے کئی قسم کے برش ملتے ہیں، کیا ان سے دانتوں کو صاف کرنا جائز ہے؟

جواب : دانتوں کو مسواک سے صاف کرنا مسنون ہے، برش اگر پاک ہو تو اس کا استعمال اگرچہ طریقۂ مسنونہ کے موافق نہیں، تاہم مباح ہوگا ۔۔۔‘‘الخ

(کتاب الطہارۃ، مسواک سے دانتوں کو صاف کرنا مسنون ہے، ط: دارالاشاعت کراچی)

امداد المفتین (242) میں ہے:

’’مسواک کے بارے میں نبی کریم ﷺ سے جو صورت علی المواظبہ ثابت ہے وہ یہی ہے کہ لکڑی سے مسواک کی جائے اور لکڑیوں میں بھی پیلو درخت کی لکڑی زیادہ پسندیدہ ہے، لیکن اگر لکڑی کی مسواک اتفاقاً موجود نہ ہو تو انگلی سے یا موٹے کپڑے وغیرہ سے دانت صاف کرلینا مسواک کے قائم مقام ہوسکتا ہے ۔۔۔ برش کا اصل حکم بھی یہی ہے کہ اگر اتفاقاً مسواک موجود نہ ہو تو اس کا استعمال قائم مقام مسواک کے ہوجائے گا، لیکن بطورِ فیشن اس کی عادت ڈال لینا مناسب نہیں اور نہ بلاضرورت وہ مسواک کے قائم مقام ہوسکتا ہے۔‘‘

( کتاب الطہارۃ، وضو کی سنتوں، آداب اور اس کے مکروہات کا بیان، ط: دارالاشاعت کراچی)

فقط واللہ اعلم

25/09/2023
New Year pray....
19/07/2023

New Year pray....




14/07/2023

لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ

صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وٙآلہِ وَسَلَّم

ایصال ثواب تمام امت مسلمہ کے لیئے.

‏إِنَّ اﻟﻠَّﻪَ وﻣﻼَﺋِﻜَﺘﻪُ ﯾُﺼَﻠُّﻮنَ ﻋﻠَﻰ اﻟﻨَّﺒِﻲِّ ﯾﺎأَﯾُّﻬَﺎاﻟَّﺬِﯾﻦَ آﻣَﻨُﻮاﺻَﻠُّﻮاﻋﻠَﯿْﻪِ وﺳَﻠِّﻤُﻮاﺗَﺴْﻠِﯿﻤﺎ

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ،
اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ

Ameen Millions ameenSay ameen
22/06/2023

Ameen

Millions ameen
Say ameen

17/06/2023

*قیمتی ترین دن آ رہے ہیں۔ ذی الحج کے۔*

سال بھر کے دس عظیم ترین دن آ رہے ہیں. ان کا ایک ایک منٹ بہت قیمتی ہے. اس کو ان شاء اللہ ضائع نہیں ہونے دینا. اپنا شیڈول لکھ لیں تاکہ روٹین سے سب کام کر سکیں.

*کرنے کے کام*
*1: روزے*
*2: صدقات*
3: *تہلیل*
4: *زیادہ سے زیادہ دعائیں، چلتے پھرتے اور خاص کر سجدوں میں دعا.*

اپنے دن کا آغاز تہجد سے کریں.
روزہ رکھیں.
فجر کے بعد تلاوت کریں.
تمام نمازیں اول وقت میں ادا کریں. اشراق کے نفل پڑھیں.

دن کا آغاز صدقے سے کریں. جتنی استطاعت ہو روزانہ صدقہ کریں.

گھریلو کاموں میں زبان مسلسل اللہ کے ذکر سے تر رہے. اللہ کی بڑائی زیادہ سے زیادہ بیان کریں.

تکبیرات کثرت سے پڑھیں.
*اَللّٰهُ أَكْبَرُ، اَللّٰهُ أَكْبَرُ، لَا اِلٰهَ إِلَّا اَللّٰهُ وَاللّٰهُ أَكْبَرُ، اَللّٰهُ أَكْبَرُ وَ لِلّٰهِ الْحَمْدُ*

کم از کم 100 دفعہ تسبیح بیان کریں.
*سُبْحَانَ اللّٰهِ، وَالْحَمْدُلِلّٰهِ، وَلَا اِلٰهَ إِلَّا اَللّٰهُ، وَاللّٰهُ أَكْبَرُ.*

ممکن ہو تو ان دس دنوں میں روزانہ یا کبھی کبھار خود کھانا پکا کر کسی نہ کسی مسکین کو ایک سالن ضرور دیں۔ روٹی سالن زیادہ بنا لیں. کھانا کھلانا بہترین عمل ہے. جتنی وسعت ہے اتنے گھروں میں بھیج دیں.

اول وقت میں تمام نمازیں ادا کرنے کی کوشش کریں.
رات کو 2 نفل زائد ادا کرلیں.
دعاؤں کی کثرت کریں..

*ان دنوں میں کیا جانے والا کام پورے سال میں کیے جانے والے عمل سے بہترین ہے.*

آواز میں نرمی پیدا کرنے کی کوشش کریں. حسد سے بچنے کے لیے خود پر محنت کریں.
غیبت سے بچنے کی کوشش کرنی ہے.

اللہ تعالٰی ہم سب کو اپنی رضا کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین یا رب العالمین ۔۔.

16/06/2023

*ایک عجیب و غریب مزاحیہ اور علمی قصہ* 📝
امام جوزی رحمہ اللہ نے قاضی انطاکیہ کا ایک عجیب واقعہ نقل کیا ہےکہ وہ ایک دن اپنے کھیتوں کو دیکھنے شہر سے نکلے تو شہر کے باہر ایک چور نے دھر لیا۔چور نے کہا کہ جو کچھ ہے میرے حوالے کردیجئے ورنہ میری طرف سے سخت مصیبت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
قاضی نے کہا : خدا تیرا بھلا کرے ۔ میں عالم آدمی ہوں اور دین میں اس کی عزت کا حکم دیا گیا ہے ساتھ میں قاضی شہر بھی ہوں لہذا مجھ پر رحم کر۔
چور نے کہا :الحمدللہ !ایسا شخص جو بیچارہ فقیر نادار ہو اور اپنا نقصان پورا نہ کرسکے کے بجائے آج ایک ایسے شخص کو اللہ نے میرے قابو میں دیا ہے کہ اگر اس کو میں لوٹ بھی لوں تو شہر واپس جاکر اپنا نقصان پورا کرسکتا ہے ۔
قاضی نے کہا :خدا کے بندے تو نےرسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث نہیں سنی کہ دین وہ ہے جسے اللہ نے مقرر کیا اور مخلوق سب اللہ کے بندے ہیں اور سنت وہی ہے جو میرا طریقہ ہے۔ پس جس نے میرا طریقہ چھوڑ کر کوئی بدعت ایجاد کی تو اس پر اللہ کی لعنت ۔
چور نے کہا :میری جان! یہ حدیث مرسل ہے (جو شوافع کے ہاں حجت نہیں ) اور بالفرض اس حدیث کو درست بھی مان لیا جایئے تو آپ کا اس ’’چور‘‘ کے بارے میں کیا خیال ہے جو بالکل ’’قلاش‘‘ ہو فاقوں نے اس کے گھر میں ڈیرے ڈال دئے ہو ں اور ایک وقت کے کھانے کا بھی کوئی آسرا نہ ہو؟۔ایسی صورت میں ایسے شخص کیلئے آپ کا مال بالکل پاک و حلال ہے کیونکہ امام مالک رحمہ اللہ نے عبد اللہ ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت فرمایا کہ دنیا اگر محض خون ہوتی تو مومن کا اس میں سے کھانا حلال ہوتا۔
نیز علما کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر آدمی کو اپنے یا اپنے خاندان کے مارے جانے کا خوف ہو تو اس کیلئے دوسرے کا مال حلال ہے۔اور اللہ کی قسم میں اسی حالت سے گزررہا ہوں لہذا شرافت سے سارا مال میرے حوالے کردو۔
قاضی نے کہا :اچھا اگر معاملہ ایسا ہی ہے تو مجھے اپنے کھیتوں میں جانے دو وہاں میرے غلام و خادم نے آج جو اناج بیچا ہوگا اس کا مال میں ان سے لیکر واپس آکر آپ کے حوالے کردیتا ہوں ۔
چور نے کہا :ہرگز نہیں . ایک دفعہ میرے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد آپ دوبارہ واپس نہیں لوٹیں گے۔
قاضی نے کہا: میں آپ کو قسم دینے کو تیار ہوں کہ ان شاللہ میں نے جو وعدہ آپ سے کیا ہے اسے پورا کروں گا۔
چور نے کہا :مجھے حدیث بیان کی مالک رحمہ اللہ نے انہوں نے نافع رحمہ اللہ سے سنی انہوں نےعبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کہ :یمین المکرہ لاتلزم(مجبور کی قسم کا اعتبار نہیں)
اور مجبوری کی حالت میں جب کلمہ کفر بولنے کی اجازت ہے تو جھوٹی قسم بھی کھائی جاسکتی ہے ۔لہذا فضول بحث سے پرہیز کریں اور جوکچھ ہے آپ کے پاس میرے حوالے کردیں۔
قاضی اس پر لاجواب ہوگیا اور اپنی سواری ،مال کپڑے سوائے شلوار کے اس کے حوالے کردیا۔
چور نے کہا:شلوار بھی اتار کر دیں۔
قاضی نے کہا :اللہ کے بندے نماز کا وقت ہوچکا ہے ۔اور بغیر کپڑوں کے نماز جائز نہیں
نیز شلوار حوالے کرنے پر میری بے پردگی ہوگی جبکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ وہ شخص ملعون ہے جو اپنے بھائی کے ستر کو دیکھے۔
چور نے کہا: اس کا آپ غم نہ کریں کیونکہ ننگے حالت میں آپ کی نماز بالکل درست ہے کہ مالک رحمہ اللہ نے ہم سے حدیث بیان کی وہ روایت کرتے ہیں نافع رحمہ اللہ سے وہ عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ سے کہ
العراۃ یصلون قیاما و یقوم امامھم وسطہم
ننگے کھڑے ہوکر نماز پڑھیں اور ان کا امام بیچ میں کھڑا ہو۔
نیز امام مالک رحمہ اللہ بھی ننگے کی نماز کے جواز کے قائل ہیں مگر ان کا فتوی یہ ہے کہ کھڑے ہوکر نہیں پڑھیں گے بلکہ متفرق متفرق پڑھیں گے اور اتنی دور دور پڑھیں گے کہ ایک دوسرے کے ستر پر نظر نہ پڑے۔جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا فتوی یہ ہے کہ کھڑے ہوکر نہیں بلکہ بیٹھ کر پڑھیں ۔
اور ستر پر نظر پڑنے والی جو روایت آپ نے سنائی اول تو وہ سندا درست نہیں اگر مان بھی لیں تو وہ حدیث اس پر محمول ہے کہ کسی کے ستر کو شہوت کی نگاہ سے دیکھاجائے۔ اور فی الوقت ایسی حالت نہیں اور آپ تو کسی صورت میں بھی گناہ گار نہیں کیونکہ آپ حالت اضطراری میں ہے خود بے پردہ نہیں ہورہے ہیں بلکہ میں آپ کو مجبور کررہا ہوں ۔لہذا لایعنی بحث مت کریں اور جو کہہ رہاہوں اس پر عمل کریں۔
قاضی نے یہ سن کر کہا کہ خدا کی قسم قاضی اور مفتی تو تجھے ہونا چاہئے ہم تو جھگ ماررہے ہیں ۔ جو کچھ تجھے چاہئے لے پکڑ لاحول ولاقوۃالاباللہ ۔اور یوں چور سب کچھ لیکر فرار ہوگیا۔

بحوالہ: (کتاب الاذکیا ،لابن الجوزی ،ص۳۸۹)

30/05/2023

ایک یہودی کسی مسلمان کا پڑوسی تھا۔ اس یہودی کے ساتھ۔ اس کا مسلمان پڑوسی بہت اچھا سلوک کرتا تھا۔ اس مسلمان کی یہ عادت تھی کہ وہ ہر تھوڑی دیر بعد یہ جملہ کہتاتھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجنے سے ہر دعا قبول ہوتی ہے اور ہر حاجت اور مراد پوری ہوتی ہے۔ جو کوئی بھی اس مسلمان سے ملتا۔ وہ مسلمان اسے اپنا یہ جملہ ضرور سناتا اور جو بھی اس کے ساتھ بیٹھتا اسے بھی ایک مجلس میں کئی بار یہ جملہ مکمل یقین سے سناتا تھا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجنے سے ہر دعا قبول ہوتی ہے اور ہر حاجت اور مراد پوری ہوتی ہے۔ اس مسلمان کا یہ جملہ اس کے دل کا یقین تھا۔
اس نے ایک سازش تیار کی تاکہ اس مسلمان کو ذلیل و رسوا کیا جائے۔ اور ’’درود شریف‘‘ کی تاثیر پر اس کے یقین کو کمزور کیا جائے۔ اور اس سے یہ جملہ کہنے کی عادت چھڑوائی جائے۔ یہودی نے ایک سنار سے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی۔ اور اسے تاکید کی کہ ایسی انگوٹھی بنائے کہ اس جیسی انگوٹھی پہلے کسی کے لئے نہ بنائی ہو۔ سنار نے انگوٹھی بنا دی۔
وہ یہودی انگوٹھی لے کر مسلمان کے پاس آیا۔ حال احوال کے بعد مسلمان نے اپنا وہی جملہ ، اپنی وہی دعوت دہرائی کہ ’’حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجنے سے ہر دعا قبول ہوتی ہے ہر حاجت اور مراد پوری ہوتی ہے‘‘۔ یہودی نے دل میں کہا کہ۔ اب بہت ہو گئی۔ بہت جلد یہ ’’جملہ ‘‘ تم بھول جاؤ گے۔ کچھ دیر بات چیت کے بعد یہودی نے کہا۔ میں سفر پر جا رہا ہوں۔ میری ایک قیمتی انگوٹھی ہے۔ وہ آپ کے پاس امانت رکھ کر جانا چاہتا ہوں۔ واپسی پر آپ سے لے لوں گا۔ مسلمان نے کہا۔
کوئی مسئلہ نہیں آپ بے فکر ہو کر انگوٹھی میرے پاس چھوڑ جائیں۔ یہودی نے وہ انگوٹھی مسلمان کے حوالے کی اور اندازہ لگا لیا کہ مسلمان نے وہ انگوٹھی کہاں رکھی ہے۔ رات کو وہ چھپ کر اس مسلمان کے گھر کودا اور بالآخر انگوٹھی تلاش کر لی اور اپنے ساتھ لے گیا۔ اگلے دن وہ سمندر پر گیا اور ایک کشتی پر بیٹھ کر سمندر کی گہری جگہ پہنچا اور وہاں وہ انگوٹھی پھینک دی۔ اور پھر اپنے سفر پر روانہ ہو گیا۔ اس کا خیال تھا کہ جب واپس آؤں گا۔ اور اس مسلمان سے اپنی انگوٹھی مانگوں گا تو وہ نہیں دے سکے گا۔ تب میں اس پر چوری اور خیانت کا الزام لگا کر خوب چیخوں گا اور ہر جگہ اسے بدنام کروں گا۔ وہ مسلمان جب اپنی اتنی رسوائی دیکھے گا تو اسے خیال ہو گا کہ درود شریف سے کام نہیں بنا اور یوں وہ اپنا جملہ اور اپنی دعوت چھوڑ دے گا ۔ مگر اس نادان کو کیا پتا تھا کہ۔ درود شریف کتنی بڑی نعمت ہے۔ یہودی اگلے دن واپس آ گیا۔
سیدھا اس مسلمان کے پاس گیا اور جاتے ہی اپنی انگوٹھی طلب کی۔ مسلمان نے کہا آپ اطمینان سے بیٹھیں آج درود شریف کی برکت سے میں صبح دعا کر کے شکار کے لئے نکلا تھا تو مجھے ایک بڑی مچھلی ہاتھ لگ گئی۔ آپ سفر سے آئے ہیں وہ مچھلی کھا کر جائیں۔ پھر اس مسلمان نے اپنی بیوی کو مچھلی صاف کرنے اور پکانے پر لگا دیا۔ اچانک اس کی بیوی زور سے چیخی اور اسے بلایا۔ وہ بھاگ کر گیا تو بیوی نے بتایا کہ مچھلی کے پیٹ سے سونے کی انگوٹھی نکلی ہے۔ اور یہ بالکل ویسی ہے جیسی ہم نے اپنے یہودی پڑوسی کی انگوٹھی امانت رکھی تھی۔ وہ مسلمان جلدی سے اس جگہ گیا جہاں اس نے یہودی کی انگوٹھی رکھی تھی۔ انگوٹھی وہاں موجود نہیں تھی۔ وہ مچھلی کے پیٹ والی انگوٹھی یہودی کے پاس لے آیا اور آتے ہی کہا: حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجنے سے ہر دعاء قبول ہوتی ہے اور ہر حاجت پوری ہوتی ہے۔
پھر اس نے وہ انگوٹھی یہودی کے ہاتھ پر رکھ دی۔ یہودی کی آنکھیں حیرت سے باہر، رنگ کالا پیلا اور ہونٹ کانپنے لگے۔ اس نے کہا یہ انگوٹھی کہاں سے ملی؟۔ مسلمان نے کہا۔ جہاں ہم نے رکھی تھی وہاں ابھی دیکھی وہاں تو نہیں ملی۔ مگر جو مچھلی آج شکار کی اس کے پیٹ سے مل گئی ہے۔ معاملہ مجھے بھی سمجھ نہیں آ رہا مگر الحمد للہ آپ کی امانت آپ کو پہنچی اور اللہ تعالیٰ نے مجھے پریشانی سے بچا لیا۔ بے شک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے سے ہر دعاء قبول ہوتی ہے اور ہر حاجت و مراد پوری ہوتی ہے۔ یہودی تھوڑی دیر کانپتا رہا پھر بلک بلک کر رونے لگا۔ مسلمان اسے حیرانی سے دیکھ رہا تھا۔
یہودی نے کہا مجھے غسل کی جگہ دے دیں۔ غسل کر کے آیا اور فوراً کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت پڑھنے لگا اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ واشھد ان محمد عبدہ ورسولہ وہ بھی رو رہا تھا اور اس کا مسلمان دوست بھی۔ اور مسلمان اسے کلمہ پڑھا رہا تھا اور یہودی یہ عظیم کلمہ پڑھ رہا تھا۔ جب اس کی حالت سنبھلی تو مسلمان نے اس سے ’’وجہ‘‘ پوچھی تب اس نومسلم نے سارا قصہ سنا دیا۔ مسلمان کے آنسو بہنے لگے اور وہ بے ساختہ کہنے لگا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درودشریف بھیجنے سے ہر دعاء قبول ہوتی ہے ۔ اور ہر حاجت و مراد پوری ہوتی ہے۔
ایک آخری بات عرض کرتا چلوں کے اگر کبھی کوئی ویڈیو، قول، واقعہ،سچی کہانی یا تحریر وغیرہ اچھی لگا کرے تو مطالعہ کے بعد مزید تھوڑی سے زحمت فرما کر اپنے دوستوں سے بھی شئیر کر لیا کیجئے، یقین کیجئے کہ اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہو گا لیکن ہو سکتا ہے کہ، اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کردہ تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز ثابت ہوسکتی ہے۔ شکریہ.

14/05/2023

ایک ڈاکٹر صاحبہ کا بیان کردہ عجیب واقعہ جو کسی بھی انسان کی زندگی بدل سکتا ہے

ڈاکٹر راشدہ کاظمی جو کہ پاکستان ملٹری کی میڈیکل کور میں میجر کی پوسٹ پر ہیں وہ بتاتی ہیں کہ ایک بار ان کے پاس ایک فوجی آفیسر کو لایا گیا جو عہدے کے لحاظ سے کرنل تھے مگر انہوں نے اپنے آپ کو باقی بیج کی نسبت بہت زیادہ سنبھال کر رکھا ہوا تھا ان کی ٹانگ میں گولی لگی تھی جس کی وجہ سے ٹانگ ضائع ہو چکی تھی ان کو بیہوش کر کے آپریشن کے ذریعے ان کی ٹانگ کاٹ دی گئی آپریشن کافی لمبا ہو گیا تھا ان کو ظہر سے پہلے آپریشن تھیٹر لایا گیا تھا اور عشا کی اذان ہو رہی تھی جب ان کو فارغ کر کے آئی سی یو منتقل کر دیا گیا تھا صبح تک وہ بیہوش رہے تھے فجر کی اذان سے کچھ دیر قبل ان کو ہوش آیا تھا ان کو سپیشل کمرہ دیا گیا تھا انہوں نے ہوش میں آتے ہی سب سے پہلے وقت پوچھا تھا تو ان بتا گیا کہ فجر کا وقت ہے جس پر انہوں نے فوراً وضو کی خواہش کا اظہار فرمایا تھا ۔۔۔۔۔

ان کو بتایا گیا کہ وہ اس وقت ایسی حالت میں نہیں ہیں کہ وضو کر سکیں تو کرنل محمد حیات صاحب پریشان ہو گئے ان کی بیوی نے میری مدد سے ان کے بستر پر پلاسٹک شیٹ ڈالی اس کے بعد مجھے باہر بھیج دیا گیا تھوڑی دیر بعد ایک نوجوان جو کہ کرنل صاحب کا بیٹا تھا کمرے کی طرف آیا مجھے سلام کر کے اندر داخل ہو گیا
کچھ ہی دیر میں مجھے بھی اندر بلا لیا گیا تب تک فجر کی اذان ہو چکی تھی میں اندر داخل ہوئی تو بستر سے پلاسٹک شیٹ اتار کر سائیڈ پر رکھ دی گئی تھی کرنل صاحب سکون سے لیٹ کر نماز ادا کر رہے تھے اور ان کی بیوی و بیٹا باوضو کھڑے تھے تا کہ پہلے کرنل صاحب نماز مکمل کر لیں بعد میں باری باری وہ دونوں ماں بیٹا نماز پڑھ لیں گے میں بھی مسلمان فیملی سے تھی مگر اسلامی فرائض سے کوسوں دور تھی مجھے نہیں یاد آخری بار کب نماز پڑھی تھی جب کرنل صاحب کے بیوی ، بیٹے نے نماز ادا کر لی تو انہوں مجھے نماز پڑھنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ آپ نماز پڑھ لیں اور آرام کر لیں ہم کو ایمرجنسی ہو گی تو ہم آپ کو بلا لیں گے میں نے ان کے کہنے پر شرمندگی سے بچنے کے لئیے وضو کیا اور نماز کی نیت باندھ لی نماز مکمل کی تھی کہ دوسری شفٹ نے چارج لے لیا میں گھر چلی گئی چونکہ میں مسلسل چوبیس گھنٹے ڈیوٹی کر کے آئی تھی اب چوبیس گھنٹے میرا آرام کا وقت تھا جب اس سے اگلے میں ڈیوٹی پر گئی تو کرنل صاحب کافی بہتر محسوس کر رہے تھے ان کا بیٹا جا چکا تھا بیٹی اور داماد ان کے پاس تھے جن کو جانے کے لئے وہ بار بار کہہ رہے تھے اسی دوران ان کی بیوی بھی آرام کر کے دوبارہ آ پہنچی تھیں ۔۔۔۔۔

کرنل محمد حیات صاحب کی بیوی نے آ کر اپنی بیٹی اور داماد کو رخصت کر دیا تھا خود شوہر کی خدمت پر مامور تھیں جب ظہر کا وقت آیا تو وہ بیٹے کی منتظر تھیں تا کہ وہ آئے اور بستر پر پلاسٹک کور ڈال کر کرنل صاحب کو وضو کروا سکیں مگر ان کا بیٹا لیٹ تھا مجبوراً انہوں نے مجھ سے ریکوئسٹ کی میری مدد سے کرنل صاحب کی نیچے پلاسٹک شیٹ ڈال کر مجھے کمرے سے باہر بھیجا ان کو وضو کروایا اور پھر کرنل صاحب نے نماز ادا کی
جب کرنل صاحب نماز ادا کر چکے تو میں بھی اندر آ گئی اور ان کی مسز کو ہسپتال میں بنی نماز کے لئیے مخصوص جگہ پر لے گئی اور کہا کہ آپ تسلی سے نماز پڑھ لیں میں کرنل صاحب کا خیال رکھ لوں گی
ان کو چھوڑ کر کرنل صاحب کے پاس پہنچی جن کے ہونٹ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں ہل رہے تھے میں نے ان سے پوچھا کہ آپ اتنی تکلیف میں تھے پھر بھی آپ نے نماز نہیں چھوڑی اس کی کیا وجہ ہے ؟
کرنل صاحب نے جواب دیا کہ اس کے پیچھے ایک کہانی ہے میں نے سننے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے بتایا کہ

میرے والدین میں علحدگی ہو گئی تھی میں نے والد صاحب کے پاس پرورش پائی تھی
میں بالغ ہونے تک ماں سے نہیں ملا تھا بلکہ مجھے یہ ہی بتایا گیا تھا کہ تمہاری ماں مر چکی ہے میں والد صاحب کے ساتھ پنڈی میں مقیم تھا کہ ایک دن پختہ عمر کے ایک مرد میرے والد صاحب کے پاس آئے والد صاحب نے مجھے کمرے سے باہر بھیج دیا اور خود ان سے بات چیت کرنے لگے
انسانی فطرت کے ہاتھوں مجبور میں بھی بیرونی دروازے کے پاس کھڑا ہو کر والد صاحب اور اس اجنبی کی گفتگو سننے کی کوشش کر رہا تھا مگر ناکام رہے تھا مجھے محض ایک ففرہ سنائی دیا تھا جب میرے والد صاحب نے دھاڑ کر کہا تھا کہ دفعہ ہو جاؤ میرے گھر سے ورنہ یہیں مارے جاؤ گے اور تمہارا کی والی وارث بھی نہیں بنے گا پھر دروازہ کھلا اور وہ اجنبی شخص باہر نکل گیا میں اس سے پہلے گلی میں پہنچ گیا تا کہ اس سے ملاقات کر سکوں ۔۔۔۔۔

گلی میں جب میری اس شخص سے ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے کسی اپنے کی طرح گلے لگایا چوما اور کہا میں تمہارا ماموں ہوں تمہاری ماں کا آخری وقت ہے وہ بس ایک بار تم سے ملنا چاہتی ہے اگر ہو سکے تو آ جانا ساتھ ہی مجھے ایک کاغذ کا ٹکڑا پکڑایا جس پر ایڈریس درج تھا اور خود چل دئیے
میرے ماموں چلے گئے مگر میں صدمے ، حیرانگی پریشانی اور تکلیف کی وجہ سے ان کو آواز بھی نہیں دے پایا تھا جب کچھ ہواس بہال ہوئے تو میں نے اس بات کی تصدیق کا فیصلہ کیا والد صاحب سے جھوٹ بولا کہ اپنے دوست کے ساتھ اس کے رشتہ داروں کی طرف شادی پر جا رہا ہوں
گاڑی نکالی کچھ پیسے ساتھ لئیے اور متعلقہ ایڈریس پر چل دیا جب میں متعلقہ گاؤں پہنچا تو اسی پتے پر چلا گیا اور دستک دی تو مجھے سے تعارف مانگا گیا میں نے اپنا بتایا تو مجھے دو منٹ کا انتظار کرنے کا کہا گیا
اتنی دیر میں اندر سے چند خواتین بچوں اور دو تین مردوں کی آوازیں ابھریں دروازہ کھولا گیا سامنے چارپائی پر صاف ستھرے بستر پر ایک خاتون لیٹیں تھی جو انتہائی کمزور تھیں مجھے دیکھ کر انہوں نے ہاتھ اوپر اٹھا لئیے تھے اور ان کی آنکھوں کو دیکھتے ہی بنا کوئی ثبوت مانگے میں ان کے سینے سے لگ گیا تھا
میں اکثر والد صاحب سے کہتا تھا میری آنکھیں اتنی خوبصورت کیوں ہیں جب کہ میرے دادھیال میں کسی کی آنکھیں اتنی خوبصورت نہیں ہیں تو مجھے جواب دیا جاتا تھا کہ تیری آنکھیں تیرے پردادا پر گئی ہیں اور آج جب اس نحیف خاتون کی آنکھیں دیکھیں تو مجھے جواب مل گیا تھا کہ میری آنکھیں میری ماں پر گئی ہیں ۔۔۔۔۔۔

اچانک سے مجھے اپنے گالوں پر گہری نمی کا احساس ہوا تو میں نے سرا اٹھا کر دیکھا میری ماں کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور اتنی خاموشی سے رو رہی تھیں کہ ان کے سینے سے لگا میں جان ہی نہیں پایا تھا کہ وہ رو رہی ہیں
میں نے ان کے آنسو پونچھے انہوں نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں رکھا اور میں باقی رشتہ داروں سے ملنے لگا اپنے ننھیال والوں سے مل کر مجھے پہلی بار محسوس ہوا تھا کہ رشتوں کا خلوص کیا ہوتا ہے ۔۔۔
میری ماں کینسر کی مریضہ تھی ان کا جگر ختم ہو چکا تھا انہوں مجھے کہا تھا بیٹا تھوڑے فاصلے پر بیٹھنا میرے سانس لینے سے اندر سے بد بو آتی ہے تم کو تکلیف ہو گی تو میں نے اپنی ماں کا منہ چومتے ہوئے کہا تھا ماں سے بد بو نہیں ہمیشہ خوشبو آتی ہے
شام تک سارے گاؤں میں پتہ چل چکا تھا کہ میری ماں کا بیٹا( میں ) آ چکا ہے لوگ مجھے دیکھنے اور ملنے آ رہے تھے میری ماں کی کل دولت ایک بکری تھی میری والدہ نے میرے ماموں سے کہا تھا بکری بیچ کر مجھے پیسے لا دو
میں نے ماں سے پوچھا ان کو پیسوں کی کیا ضرورت ہے تو انہوں کے کہا وہ میرے سر سے وار کر ان لوگوں کو دینا چاہتی ہیں ماں کی بات سن کر میں رو پڑا گاڑی میں پڑے لاکھوں روپے لا کر ماں کے قدموں میں رکھے اور کہا اب میری ماں کو کوئی چیز بیچنی نہیں پڑے گی
میں نے وہ رقم ماں کے سر اور قدموں سے وار کر بانٹنا شروع کر دی تب کہیں سے اذان سنائی دی میری والدہ نے ماموں کو کہا کہ مجھے باہر لیجائے میں نے وجہ پوچھی تو ماموں نے کہا کہ میں بتاتا ہوں
باہر لے جا کر انہوں نے وجہ بتائی کہ میری ماں وضو کرنا چاہتی ہیں اور وہ خود نہیں کر سکتیں تو میری ممانی اور مامو زاد بہنیں ان کو وضو کرواتی ہیں میں فوراً گھر کی طرف دوڑا تب میری ممانی میری ماں کا چہرہ دھو رہی تھی میں نے ان کے ہاتھ سے پانی پکڑ لیا اور کہا کہ ماں آج بھی آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو محتاجی ہے آپ مجھے حکم تو کرتیں جتنا مذہب اجازت دیتا اتنا وضو میں خود اپنی ماں کو کروا دیتا
میری ماں نے جواب دیا کہ میں نے سوچا پتہ نہیں تو کتنی صاف ستھری جگہ پر پلا ہو گا تجھے یہ دیکھ کر بھی برا نہ لگ جائے کہ میری ماں اس طرح سے وضو کرتی ہے اس لئیے تھے باہر بھیج دیا
ماں کی بات سن کر میں رو پڑا اور کہا کہ
" میں واقع ہی بہت صاف ستھری اور نفیس جگہ پر رہا ہوں مگر وہ جگہ تمہارے دل اور نیت سے صاف نہیں تھے "
ساتھ ہی رونے لگ پڑا میری باوضو ماں نے مجھے گلے لگا لیا مجھے نہ صرف چومنے لگیں بلکہ میرے آنسو پینے لگیں اور کہنے لگی بیٹا اسی بات کا افسوس ہے کہ تو میرے دل اور دماغ میں رہا مگر کبھی میری زندگی میری گود میں نہیں رہا ۔۔۔۔۔۔۔

میں نے اپنے سہارے پر بیٹھا کر اپنی والدہ کو نماز پڑھائی اور جب وہ نماز پڑھ چکی تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ اتنی تکلیف میں ہیں اور پھر بھی نماز پڑھتی ہیں آپ چھوڑ دیا کریں جب صحت یاب ہو جائیں تو پڑھ لینا
میری والدہ صاحبہ نے میرا ماتھا چوما اور مجھے انتہائی نرمی سے کہا کہ بیٹا نماز میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے
آنکھوں ٹھنڈک کیا ہوتی یہ مجھ سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا کیونکہ تو میری آنکھوں کی ٹھنڈک بن کر اس وقت میرے پاس بیٹھا ہے
تیرے بغیر میں کتنی تکلیف میں تھی یہ میں جانتی ہوں یا میرا خدا جانتا ہے اور بالکل ایسے ہی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت نماز نہیں پڑتی تو ان پر کیا گزرتی ہے یہ وہ جانتے ہیں یا ان کا خدا جانتا ہے

میری ماں نے مجھ سے کہا تھا اسلام حکم دیتا ہے کہ اگر تم پانی ڈوب رہے ہو اور تم کو اذان سنائی دے تو بھی تم پر فرض ہے کہ تم نماز کی نیت باندھ لو میں تو محض بیمار ہوں
بیٹا تو میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اور تو نماز پڑھے گا تو مجھے نہ صرف اس دنیا میں تیری طرف سے ٹھنڈک پہنچے گی بلکہ قبر میں بھی تیرے اعمال کی وجہ سے مجھے اجر و ثواب پہنچے گا نماز پڑھنے کے لیے کسی جزا سزا کی وجہ کا ہونا ضروری نہیں ہے بس نماز پڑھنے کے لئے دو وجوہات ہی کافی ہیں کہ نماز اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی امت کے لئے تحفہ ہے اور نماز میرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے
اگر ہو سکا تو کبھی نماز نہ چھوڑنا میں نے نماز قائم کرنے کا وعدہ کر لیا اور ماں کو لٹا کر نماز پڑی شام کو میری والدہ صاحبہ نے میرے لئیے سبزی خود کاٹنے کی کوشش کی مگر کمزوری کی وجہ سے نہ کر سکیں تو انہوں نے میری ماموں زاد کو پاس بٹھایا اور ان کو بتایا کہ کس طرح سبزی کی ہانڈی بنا لائیں
میری والدہ صاحبہ کی پسند پر بنی ہانڈی آ گئی بہت محنت و کوشش کے بعد میری والدہ صاحبہ نے نوالہ توڑ کر میرے منہ میں ڈالا اور یقین کریں میں نے اتنا لذیذ کھانا پہلے کبھی نہیں کھایا تھا غالباً یہ میری ماں کے ہاتھ کا ذائقہ تھا ۔۔۔۔

عشا کے بعد دیر تک میری ماں مجھ سے باتیں کرتی رہی پھر میری ماموں زاد کے ذریعے سونے کا ایک لاکٹ مجھے دیا اور کہا یہ تیری پڑھائی کے لئیے سنبھال کر رکھا ہوا تھا مگر تجھ پر نہیں لگا سکی
میں نے والدہ صاحبہ کے ہاتھ سے ہار پکڑ لیا اور ان کے ماضی کے متعلق کوئی سوال نہ کیا وہ یہاں کیسے پہنچیں؟ میں ایسا سوال کر کے ان کے چہرے پر چھائی خوشی کو غم میں نہیں بدل سکتا مجھ کو ایسے سوالات سے ماموں اور سب گھر والوں نے منع بھی کیا تھا اور بتایا تھا کہ جتنا ان چند گھنٹوں میں تمہاری ماں بولی اور ہنسی ہے اتنا پچھلے دو سال میں نہیں ہنسی اور ساتھ ہی مجھے بتایا گیا کہ میری والدہ محض تین دن کی مہمان ہے تو میری ساری ہنسی سمٹ گئی
میں نے زیادہ سے زیادہ وقت ماں کے قریب گزارا میں نے ماں سے لاکھ ان کی خواہشات کے متعلق پوچھا انہوں نے بس مجھے نماز قائم کرنے اور دین پر چلنے کی نصیحت کی ۔۔۔
جب عشا کی نماز کے بعد امام صاحب کو میرا تعارف دیا گیا تو وہ خاص طور پر مجھے ملنے آئے اور مجھے الگ لے جا کر بتایا کہ اگر آپ صاحب استطاعت ہیں تو یہ پیسہ ان لوگوں میں نہ بانٹیں بلکہ اپنے ماموں کو دے دیں
آپ کے ماموں نے اپنا گھر زمین سب کچھ بیچ کر آپ کی والدہ صاحبہ کے علاج پر لگا دیا ہے یہاں تک بچوں کی پڑھائی بند کروا کر وہ پیسہ بھی بہن کے علاج پر لگا دیا تمہارے ماموں کے اونچا بولنے کی آواز زندگی ایک بار گاؤں والوں نے سنی اور وہ بھی تب جب تمہاری والدہ کی طبیعت خراب تھی اور وہ تمہاری ممانی کو آوازیں دے رہی تھی مگر تمہاری ممانی کو سنائی نہیں دی تمہارے والد صاحب داخل ہوئے تو انہوں بیٹیوں اور بیوی کو ڈانٹ کر کہا کہ میری بہن کو آواز کیوں دینا پڑی تم میں سے ایک ہر وقت ان کے پاس کیوں نہیں بیٹھی رہتی ۔۔۔۔

میں نے امام مسجد صاحب سے کہا کہ مجھے اس کے علاؤہ بھی بتائیں کہ میری ماں یا ماموں نے کسی کا کوئی قرض دینا ہے جس پر امام صاحب نے جواب دیا کہ مجھے اس کا کوئی علم نہیں اس کے ساتھ امام صاحب شکریہ ادا کر کے اٹھ گئیے ۔۔۔ ۔
میری ماں نے رات کو مجھے اپنے پاس سلانے سے منع کیا اور کہا کہ میں تکلیف کی وجہ سے کراہتی ہوں تو تمہاری نیند خراب ہو جائے گی مگر میں نے کہا ماں جی آج رات کو میں نے سونا ہی کب ہے آج ساری رات آپ کے چہرے کو دیکھ دیکھ کر حج کرنا ہے
میری ماں نے مجھے محبت سے اپنے سینے لگایا مجھے چوما اور اپنے پاس ہی لٹا لیا میں تھوڑی دیر بعد اٹھ کر بیٹھا اور ماں کی ٹانگیں دبانے لگا مجھے میری والدہ صاحبہ نے آخری الفاظ جو کہے وہ یہ تھے کہ
" نماز قائم رکھنا دین پر چلنا اور اگر اپنے باپ جیسی خصلتوں کے مالک نہ ہوئے تو اپنے ماموں اور ان کی بیٹیوں کا خیال و لحاظ کرنا کرنا
اپنے باپ کا ماضی جاننے کی کوشش نہ کرنا نہ کبھی اپنے باپ سے نفرت کرنا "
اس کے ساتھ ہی میری والدہ نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے سینے پر رکھا اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے لگیں ۔۔۔۔

وہ ذکر کرتے کرتے نجانے کب سو گئیں رات بارہ بجے کے بعد ماموں آئے تا کہ میری والدہ صاحبہ کی خبر گیری کر سکیں جوں ہی ان کی نظر میری والدہ پر پڑی تو وہ دوڑے مجھ سے پوچھا تم کو پتہ چل رہا تمہاری ماں کی سانسیں نہیں چل رہی ہیں ؟
میں جو ماں کے قدموں کو دبا رہا تھا میرے ہاتھ رک گئیے تھے گاڑی میرے پاس تھی میں نے ماں کو ہسپتال پہنچایا جہاں انہوں نے ڈیڑھ دو گھنٹے پہلے کی موت ڈکلئیر کر دی
صبح سحری کے وقت والدہ صاحبہ کو لے کر گھر پہنچے مجھے لگا کہ فجر کی اذان ہونے والی ہے تو میں نے وضو بنانا شروع کر دیا اسی دوران میرے ماموں کی سرگوشی بھری آوز میرے کانوں میں پڑی وہ میری ممانی کو کہیں سے پیسوں کا انتظام کرنے کا کہہ رہے تھے تا کہ کفن کا انتظام کر سکیں
جبکہ میری ممانی ان کو جواب دے رہی تھی کہ ان کے بھائی اور باقی گاؤں والے جس کے پاس بھی جائیں وہ کہتے ہیں تم کو ادھار پیسے دے دیں تو تم لوگ واپس کیسے کرو گے ؟
گھر بار بیچ کر تو علاج پر لگا چکے ہو ؟
میرے ماموں خاموش ہو کر گھر سے باہر نکل گئیے میں بھی ان کے پیچھے نکل گیا وہ گاؤں کے کافی بڑے چوہدری کے پاس گئیے چوہدری کی بجائے اس کا منشی آیا جس سے انہوں نے رقم کا تقاضا کیا منشی میرے ماموں کا پیغام لے کر واپس چوہدری کے پاس گیا تو چوہدری نے جواب میں کہہ بھیجا گھر باہر بیچ کر بہن کے علاج پر لگا دیا ہے بیٹیاں بیچ کر کفن دفن پر لگا دو ؟
اتنے سخت الفاظ سننے کے باوجود میرے ماموں بنا کوئی رد عمل دئیے گھر کی طرف چلے آئے راستے میں اذان ہوئی تو وہ مسجد کی طرف مڑ گئیے میں بھی ان کے پیچھے مسجد میں پہنچا اور ان کو کہا کہ اپنی ماں کے کفن دفن کا انتظام میں خود کروں گا ۔۔۔
میری بات سن کر انہوں نے منع کیا اور کہا بہن کے کفن دفن کا انتظام بھائیوں کی زمہ داری ہوتی ہے میں کر لوں گا ساتھ ہی مامو رو پڑے اور ان کو دیکھ کر میں بھی رو پڑا
انہوں نے اپنی بہن کو سسک سسک کر مرتے دیکھا تھا اور میں نے برسوں ماں کی جدائی سہی اب برسوں اور سہنی پتہ نہیں قبر میں بھی ملاقات ہوتی یا نہ ہوتی
اسی دوران باقی نمازیوں نے آ کر ہم کو حوصلہ فیا سب لوگ نماز پڑھنے کے بعد ہمارے ساتھ ہمارے گھر ہی آ گئیے تا کہ ہمارے دکھ میں شامل ہو سکیں میں نے اپنے پاس موجود ساری رقم ماموں کے حوالے کر دی اور والدہ صاحبہ کے کفن دفن سے فارغ ہو کر راتوں رات راولپنڈی آیا یہاں سے مزید پیسے لے صبح سے پہلے اپنی ماں کی قبر پر پہنچا کیوں کہ مجھے مولوی صاحب نے حکم دیا تھا کہ کچھ دن صبح فجر کی نماز سے لے کر سورج نکلنے تک اور عصر کی نماز کے بعد سورج غروب ہونے تک کا وقت اپنی ماں کی قبر پر گزارنا لہذا سورج نکلنے کے بعد میں مامو کے گھر پہنچا
میں نے مولوی صاحب کے ذریعے سب سے پہلے اس شخص کا کھوج لگایا جس نے میرے ماموں سے گھر خرید رکھا تھا اس کو اس کی رقم دی اور کہا کہ اب وہ گھر کا تقاضہ نہ کرے باقی کی رقم سے دیگر اخراجات کے ساتھ ساتھ والدہ صاحبہ کے ایصال ثواب کے لئے کچھ فلاحی کام کروائے

جن میں گاؤں کا سب سے بڑا مسئلہ نکاسی آب کا تھا سیوریج کے پانی کے لئیے کوئی زمین نہ تھی میں نے اسی چوہدری صاحب جنہوں نے میری ماں کے کفن کے لئیے میرے ماموں کر ادھار دینے سے انکار کیا تھا سے دگنی قیمت پر دس مرلہ زمین خریدی اس میں سارے گاؤں کا سیوریج کا پانی ڈالا مزدور لگا کر پورے گاؤں کی گلیاں ٹھیک کروائیں مسجد کی چھت کے متعلق بتایا گیا وہ بارش میں ٹپکتی ہے میں نے مسجد کی چھت پکی کروا دی ۔۔۔۔۔

دس دن رہنے کے بعد میں واپس آیا تو چاہ کر بھی والد صاحب سے پہلے جیسا رویہ نہ رکھ پایا مگر والدہ صاحبہ کے حکم پر میں نے والد صاحب سے ماضی جاننے کی بلکل بھی کوشش نہ کی اور نہ کبھی اپنی نماز چھوڑی والد صاحب کی ناراضگی مول لیتے ہوئے اپنی ماموں زاد سے شادی کر لی اور اس اللہ کی بندی نے ثابت کر دیا کہ میری ماں کی نسل میں کتنی وفا تھی ۔۔۔۔۔

میری والدہ صاحبہ گزر چکی ہیں میں کامیابی کے عروج پر پہنچ چکا ہوں بہت کچھ بدل چکا ہے میری والدہ صاحبہ کی خاطر میرے ماموں جان نے جو کچھ لگایا اس سے کہیں زیادہ ان لوٹا چکا ہوں مگر آج بھی ان کا احسان مند اور شکر گزار ہوں کہ میری والدہ صاحبہ کی خدمت انہوں نے غلاموں سے بڑھ کر کی میری والدہ صاحبہ فوت ہو گئی مگر میں نے مامو ممانی اور والد صاحب کو تین تین حج کروائے میں نے خود اپنی بیگم کے ساتھ حج کیا ہے اور والدہ صاحبہ کی وفات کے بعد کبھی نماز نہیں چھوڑی اس لئیے نہیں کہ یہ میری والدہ کی آخری نصیحت تھی بلکہ اس لئیے کہ نماز میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے
اگر میری کوئی نماز قضا ہو جاتی ہے تو میں فورآ ہی اگلی نماز کے ساتھ اسے ادا کر لیتا ہوں ۔۔۔۔ ۔۔۔۔

کرنل محمد حیات صاحب کی داستان مکمل ہو گئی میں ان کے والد صاحب ماموں ممانی میں سے کسی کا انجام نہ پوچھ سکی مگر ان کی اس داستان کے بعد میں نے بھی کبھی نماز نہیں چھوڑی کیوں کہ مجھے بھی سمجھ آ گئی ہے کہ نماز میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔۔۔۔۔
تحریر: شازل سعید۔۔۔۔۔۔

07/04/2023

‏کھڑی فصلوں پہ بارش سے نہ ہم کو آزما رازق...!!
بندھے ہاتھوں کی مِنّت سُن مِرے مشکل کشا رازق...!!

سنہرے ریشمی سِٹّوں میں دانے سر بسجدہ ہیں...!!
مِیری مٹّی کو اشک و خون کے نم سے بچا رازق...!!
اِلٰہی آمین یا رب العالمین

07/04/2023

Imame kaaba ka pegham ....

04/07/2022

*قربانی کے گوشت سے متعلق احکام*


1⃣ قربانی کے بڑے جانور میں ایک سے زائد شُرکاء ہوں اور وہ باہمی گوشت تقسیم کرنا چاہیں تو اندازے سے گوشت تقسیم کرنا جائز نہیں، بلکہ محتاط طریقے سے وزن کرکے ہی تقسیم کیا جائے تاکہ سب کو برابر حصہ پہنچے، البتہ اگر ہر حصے میں کچھ کلیجی، کچھ سری پائے اور کھال رکھ دیے جائیں تو ایسی صورت میں پھر باہمی رضامندی سے اندازے سے بھی تقسیم کرنا جائز ہے۔
2️⃣ اگر قربانی میں شریک افراد ایک ہی جگہ رہتے ہوں اور ان کا کھانا پینا مشترک ہو اور وہ گوشت تقسیم نہ کرنا چاہیں تو یہ بھی جائزہے۔ (فتاویٰ قاضی خان، رد المحتار، فتاوی ٰمحمودیہ، احسن الفتاویٰ)

*قربانی کے گوشت کے تین حصے بنانا مستحب ہے:*
قربانی کرنے والا اگر اپنے حصے کا سارا کا سارا گوشت خود ہی رکھنا چاہے تب بھی جائز ہے البتہ بہتر یہ ہے کہ گوشت کے تین حصے کیے جائیں: ایک حصہ اپنے گھر کے لیے رکھے، ایک حصہ رشتہ داروں کے لیے اور ایک حصہ غریبوں میں تقسیم کرے۔ (فتاویٰ عالمگیریہ، البحر الرائق، رد المحتار، جواہر الفقہ، فتاویٰ محمودیہ، تکملۃ فتح الملہم)

❄️ *مسئلہ:* اگر کوئی شخص قربانی کا گوشت سارا کا سارا کسی کو صدقہ یا ہدیہ کردے تو بھی جائز ہے، البتہ بہتر یہ ہے کہ خود بھی اس میں سے کچھ نہ کچھ کھا لے۔ (رد المحتار)

*قربانی کا گوشت ہر شخص کو دینا جائز ہے:*
قربانی کا گوشت امیر، غریب، سید، مسلم، غیر مسلم سب کو دینا جائز ہے۔ (فتاویٰ عالمگیری، فتاویٰ محمودیہ)

*گوشت کو ذخیرہ کرنے کی مدت مقرر نہیں:*
قربانی کا گوشت اپنی ضرورت کے لیے رکھنا جائز ہے، جس کے لیے کوئی مدت مقرر نہیں، بلکہ جتنی مدت کے لیے چاہے اس کو ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ (المحیط البرہانی)

*قربانی کا گوشت فروخت کرنے کا حکم:*
1⃣ قربانی کے گوشت کو کسی ایسی چیز کے عوض فروخت کرنا جائز ہے جس کو باقی رکھتے ہوئے اس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہو جیسے: اس کے عوض کتب خریدی جائیں، فرنیچر خریدا جائے، الماری، جوتے، کپڑے یا برتن خریدے جائیں وغیرہ۔
2️⃣ قربانی کے گوشت کو رقم کے عوض فروخت کرنا جائز نہیں، اگر کسی نے فروخت کرلیا تو کسی مستحقِ زکوٰۃ کو وہ رقم صدقہ کرنا واجب ہے۔ (رد المحتار، الاختیار، بدائع، اعلاء السنن)

*قربانی کا گوشت اُجرت کے طور پر دینے کا حکم:*
قربانی کا گوشت اجرت اور تنخواہ کے طور پر دینا جائز نہیں، یہی وجہ ہے کہ امام، مؤذن اورمعلم کو تنخواہ اور قصائی کو اجرت کے طور پر گوشت دینا جائز نہیں۔ (فتاویٰ قاضی خان، رد المحتار، امداد الفتاویٰ، امداد الاحکام)

*ایصالِ ثواب کے لیے کی گئی قربانی کے گوشت کا حکم:*
واضح رہے کہ کسی زندہ یا فوت شدہ مسلمان کے ایصالِ ثواب کے لیے جو قربانی کی جاتی ہے وہ نفلی قربانی کہلاتی ہے، اس کا حکم عام قربانی کے گوشت کی طرح ہے کہ اس کا سارا کا سارا گوشت خود رکھنا بھی جائز ہے، البتہ بہتر یہ ہے کہ اس کے تین حصے کیے جائیں: ایک حصہ اپنے لیے، ایک حصہ اپنے رشتہ داروں کے لیے جبکہ ایک حصہ غریبوں کے لیے۔ البتہ اگر میت نے اپنے مال یعنی ترکہ میں سے قربانی کرنے کی وصیت کی ہو تو اس کا گوشت سارا کا سارا صدقہ کرنا ضروری ہے۔ (رد المحتار)

Address


Telephone

+923464039238

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Rohani Masaile posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Rohani Masaile:

Videos

Share

Rohani masail our un ka hal

contact No: 03084872590 : whats app: 03464039238