Dr. Rida Batool

Dr. Rida Batool Im Heart Specialist Doctor It Sydney Australia You’re on your morning commute. You’re in a train, presumably. You see an overload of information. It’s too late.

You’ve got minutes to spend — but they’re only minutes. Your stop is approaching fast, yet you want to read the news for today. You launch a couple of the famous news websites on separate tabs, say, on your iPad or iPhone. You click a news item. It’s hard to understand the main point. Before you even reach the next news item, you’ve arrived. The news articles are too lengthy. Too Long; and therefore, you didn’t read. We’re here to fix that. We’re ;DR.RIDA BATOOL — we give you the summary, the synopsis, the main contention and the entire idea in one simple paragraph. Enough to get you to skim them. Browse a week’s worth of topics in a few minutes. So you don’t have to say, “Too Long; Didn’t Read”. We’re the news, but faster. We pull the news from popular sites. And we have fun while we’re at it. Too Long; Didn’t Read — above? Well we’re just faster news. Faster for us, faster for you.

انڈے کھانے کے بارے میں عام غلط فہمیاں اور حقائق 🥚1: انڈے گرمی پیدا کرتے ہیںہمارے معاشرے میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ روزانہ...
02/09/2025

انڈے کھانے کے بارے میں عام غلط فہمیاں اور حقائق 🥚

1: انڈے گرمی پیدا کرتے ہیں
ہمارے معاشرے میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ روزانہ انڈہ کھانے سے "گرمی" ہوجاتی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ انڈہ پروٹین سے بھرپور غذا ہے، اور ہر شخص کو اپنے وزن کے مطابق فی کلو 0.8 گرام پروٹین روزانہ چاہیے۔ ایک انڈہ اس ضرورت کا تقریباً آدھا حصہ پورا کر دیتا ہے، جو کہ بالکل نارمل اور صحت بخش عمل ہے۔
اس کے برعکس، لوگ شوق سے تیل میں تلا ہوا سموسہ کھاتے ہیں جو فیٹس سے بھرپور ہوتا ہے اور موٹاپے سمیت کئی بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔ لیکن چونکہ "سموسے" کو صحت کے نقصان دہ اثرات کے ساتھ نہیں جوڑا جاتا، لوگ اسے ترجیح دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک انڈہ، ایک سموسے سے کہیں زیادہ فائدہ مند ہے۔

2: دیسی انڈہ، ولایتی انڈے سے بہتر ہے
انڈے کے خ*ل کی رنگت (براؤن یا سفید) کا تعلق مرغی کی نسل اور رنگت سے ہے، نہ کہ غذائیت سے۔ تحقیق یہ ثابت کر چکی ہے کہ دیسی اور ولایتی انڈے غذائی اعتبار سے برابر ہیں۔ یہ صرف ایک نفسیاتی دھوکہ ہے کہ دیسی انڈہ زیادہ طاقتور ہے۔

3: انڈے کھانے سے کولیسٹرول بڑھتا ہے
یہ سب سے بڑی غلط فہمی ہے۔ دراصل کولیسٹرول کا تعلق انڈے سے زیادہ فیٹس کی اقسام سے ہے۔ گھی یا تیل میں موجود ٹرانس اور سیچوریٹڈ فیٹس کولیسٹرول بڑھاتے ہیں، جبکہ انڈوں میں یہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔
لہٰذا انڈے کا کولیسٹرول دل کی بیماریوں کا باعث نہیں بنتا۔

4: انڈے کی زردی نقصان دہ ہے
اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ زردی فیٹس کی وجہ سے نقصان دہ ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ زردی میں موجود اومیگا تھری فیٹی ایسڈز، وٹامن بی اور دیگر منرلز جلد کو چمکدار بناتے ہیں، سوزش سے بچاتے ہیں اور جسم کو توانائی فراہم کرتے ہیں۔
لہٰذا زردی کھانا بالکل فائدہ مند ہے۔

5: روزانہ انڈے کھانا نقصان دہ ہے
جیسا کہ بتایا گیا، جسم کو روزانہ تقریباً 30 گرام پروٹین چاہیے۔ ایک انڈہ تقریباً 10 سے 15 گرام پروٹین فراہم کرتا ہے، جو بچوں اور بڑوں کی پروٹین کی بڑی ضرورت پوری کر دیتا ہے۔
انڈے میں موجود وٹامنز، منرلز اور اومیگا تھری ہمیں توانا اور صحت مند رکھتے ہیں۔ اس لیے ایک یا دو انڈے روزانہ کھانا بالکل محفوظ ہے۔

6: کچا انڈہ زیادہ طاقتور ہے
یہ بالکل غلط ہے۔ کچے انڈے میں اکثر سالمونیلا بیکٹیریا موجود ہوتا ہے جو خطرناک بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔ لہٰذا کچے انڈے پینے سے طاقت نہیں ملتی بلکہ بیمار ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

✅ یاد رکھیں:

روزانہ ایک یا دو انڈے کھانا صحت کے لیے فائدہ مند ہے۔

انڈے نہ "گرمی" پیدا کرتے ہیں اور نہ ہی یرقان کا باعث بنتے ہیں۔

اصل انتخاب یہ ہے کہ آپ پرانی غلط فہمیوں کے ساتھ جیتے ہیں یا پھر سچائی کو اپنا کر ایک صحت مند زندگی گزارتے ہیں۔

🥚✨ انڈے دراصل قدرت کی طرف سے ایک مکمل اور سستی غذا ہیں جو بچوں اور بڑوں کے لیے یکساں فائدہ مند ہیں۔

یہ جاپان ہے جنابجاپان میں کوّوں کو ناپسندیدہ پرندوں میں شمار کیا جاتا ہے کیونکہ یہ کچرے کے تھیلے پھاڑ کر سڑکوں پر گندگی ...
11/08/2025

یہ جاپان ہے جناب

جاپان میں کوّوں کو ناپسندیدہ پرندوں میں شمار کیا جاتا ہے کیونکہ یہ کچرے کے تھیلے پھاڑ کر سڑکوں پر گندگی پھیلا دیتے ہیں، کھیتوں اور سبزی و پھل کی فصلوں کو نقصان پہنچاتے ہیں اور ان کی چیخ پکار بھی بہت شور مچاتی ہے۔

چونکہ جاپانی قانون جانوروں کو مارنے کی اجازت نہیں دیتا، اس لیے حل نکالنا ضروری تھا۔ حل یہ نکلا کہ کوّوں کی زبان سیکھی جائے اور ساؤنڈ ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا جائے۔

یہ کام محقق "ناوکی تسوکاہارا" کو سونپا گیا جو کوّوں کے رویے کا ماہر ہے۔ اس نے نہایت حساس آلات سے کوّوں کی آوازیں ریکارڈ کیں، بالکل ویسے جیسے فوجداری تحقیقات میں کیے جاتے ہیں، اور ساتھ ہی ہر آواز کے بعد کوّے کیا عمل کرتے ہیں، یہ بھی نوٹ کیا۔

ڈیٹا کے تجزیے سے تقریباً 40 الفاظ کا پتہ چلا، جیسے "مجھے کھانا مل گیا"، "آؤ یہاں محفوظ ہے" اور "خطرہ ہے، یہاں سے بھاگ جاؤ"۔

تحقیق درست ثابت ہونے کے بعد یاماجاتا کے حکام نے کوڑا جمع کرنے کے مقامات کے پاس اسپیکر لگائے جو کوّؤں کی زبان میں پیغام "خطرہ ہے، یہاں سے بھاگ جاؤ" بجاتے تھے۔ حیرت انگیز طور پر کوّے فوراً وہاں سے اڑ جاتے اور تب تک واپس نہ آتے جب تک صفائی کی گاڑیاں آکر کچرا اٹھا نہ لیتیں۔

پھر حکام نے ایک اور جگہ کوّؤں کے لیے کھانا رکھا اور وہاں اسپیکر سے "مجھے کھانا مل گیا" کا پیغام کوّؤں کی زبان میں چلایا۔ کوّے فوراً وہاں پہنچے اور وہیں کھانے لگے۔

اب جانوروں کے سائنس کے محکمے نے اس تجربے کو مزید آگے بڑھایا ہے اور پرندوں و جانوروں کی مختلف زبانیں سمجھنے کی ٹیکنالوجی پر کام جاری ہے۔

واقعی جاپان ہمیں حیران کرنے سے باز نہیں آتا۔

﴿وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي ٱلۡأَرۡضِ وَلَا طَائِرٖ يَطِيرُ بِجَنَاحَيۡهِ إِلَّآ أُمَمٌ أَمۡثَالُكُمۚ﴾

ترجمہ: اور زمین میں چلنے والا کوئی جاندار اور اپنے دونوں پروں سے اڑنے والا کوئی پرندہ ایسا نہیں مگر وہ بھی تمہاری ہی طرح ایک امت ہے۔

یہ آیت سورۃ الانعام (آیت 38) سے ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کو ایک منظم نظام اور اندازِ زندگی عطا کیا ہے، جیسے انسانوں کی اپنی معاشرت اور اصول ہیں۔۔۔

*مباشرت کے دوران آنے والی کمزوری* ۔یاد رکھیں ہر مباشرت سے پہلے اگر یہیں سوچیں گے کہ ٹائم نہیں لگنا کیا کروں گا خود کو کن...
08/08/2025

*مباشرت کے دوران آنے والی کمزوری* ۔

یاد رکھیں ہر مباشرت سے پہلے اگر یہیں سوچیں گے کہ ٹائم نہیں لگنا کیا کروں گا خود کو کنٹرول نہیں کر پارہا اور فورا منی نکل جائے گی بیگم بے عزت کرے گی میں بھی پریشان رہوں گا تو جناب یقینا ایسا ہی ہوگا کیونکہ آپ نے خود ہی خود کو اسی سوچ کا محتاج بنا لیا ہے ہمارے ذہن کو وہی نظر آتا ہے جو ہم اسے دکھاتے ہیں ہم اگر اسے اپنی ڈرائیو بہترین دکھائیں بہترین ڈرائیو امیج اپنے ذہن میں بار بار ، بار بار بناتے جائیں تو یقین کیجئے آپکا ذہن اپکو اسی طاقت 💪 کے فریم میں خود با خود لے آئے گا۔
یقین جانے میرے پاس ایسے بھی مریض آتے ہے جن کی تشخیص کے باد کوئی مسلا نہیں ہوتا اور پوچھنے پر جواب ملتا ہے کے میں نے بچپن میں کوئی غلط کاریاں نہیں کی پھر بھی نہ جانے کیوں میری ٹائمنگ 2 سے 3 منٹ سے زیادہ نہیں ہوتی بہت سارے حکیموں سے علاج کروا چکا ہوں پر کوئی فائدہ نہیں ہوتا اللہ پاک ایسے عقل کے اندھوں کو ہدایت دے۔
دوستوں یہ بات یاد رکھیں مرد حضرات جب بار بار اندر ہی اندر خود کو کمزوری کا طعنہ دیتے ہیں Low intemecy Drive یعنی مباشرت کے دوران آنے والی کمزوری کو بار بار ذہن میں دہراتے ہیں وہ پہلے سے زیادہ اپنا نقصان کرتے ہیں جتنی بار کمزوری کو یاد کریں گے ایک سٹیپ پیچھے آتے جائیں گے ۔ خود سے پیار کیجئے ہر کام سوچ سمجھ کر کیجئے سکون سے کیجئے سٹریس میں سوچی گئ ہر بات اور سٹریس میں کھائی گئ ہر خوراک بے کار جاتی ہے اور بار بار سوچی گئ بے کار سوچ اور جلدی جلدی سٹریس میں کھایا گیا کھانا ذہن کو ہمیشہ بیمار رکھتا ہے نظام ہضم کو مردہ کرتا ہے آپکی خوراک اور سوچ سے ملنے والے سٹریس کو آپکی باڈی اور آپکا ذہن اپنے اندر سنبھال کر رکھ لیتا ہے کہ اس انسان کو تو یہیں پسند ہے تو پھر میں اسی پہ چلتا ہوں کیونکہ آپ خود اپنی ذات کو اس پیٹرن پہ بار بار لا رہے ہیں آپکی سوچی گئی سوچ اچھی ہے یا بری یہ آپکے نیورونز آپکے ذہنی سسٹم کو نہیں پتا لیکن بار بار میموری میں ایک ہی طرح کا مواد پہنچتا رہے گا تو آپکا ذہنی سسٹم وہی path way اپنے لئے منتخب کرے گا آپکی پریشانی آپکو پہلے سے زیادہ معزور بنا دے گی ۔۔

جس بیماری کو ختم کرنا چاہتے ہیں اسے بار بار سوچنا چھوڑ دیں بلکہ اسکے against سوچیں ۔
مثلا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ سوچتے ہیں میں دو چار سیکنڈ میں Ej*****te کر جاتا ہوں مطلب میں روک نہیں پاتا کنٹرول نہیں رہتا ، یہ آپکی بیماری ہے یہیں سوچ بار بار نہیں سوچنی بلکہ یہ سوچنا ہے
" میں پندرہ منٹ تک خود کو کنٹرول کر سکتا ہوں کیونکہ میں خود کو جانتا ہوں " ۔۔۔۔
ہمیشہ اپنی بیماری کے الٹ سوچئیے آپکے نیورانز آپکے صرف بار بار سوچنے پر واقع آپکو پندرہ منٹ کا stamina مہیا کرنے کا انتظام خود با خود کریں گے جو کوئی گولی بھی نہیں کر سکتی انشاء اللہ ۔۔۔

بہت سے مرد حضرات مباشرت کے وقت شرم حیا ، کمزوری ، لاعلمی اور سادگی کی وجہ سے بھی اپنی بیگمات سے مکمل طور پر نہ جنسی معاملات پر نہ بات کر پاتے ہیں نہ مباشرت کو صحیح طریقے سے انجام دے پاتے ہیں ڈر خوف میں خود بھی مبتلا رہتے ہیں پریشان ہوتے ہیں اور بیگم کو بھی پریشان رکھتے ہیں جسکی بنیادی وجہ Low self esteem ہے جسم میں کمزوری نہیں بلکہ سوچ میں کمزوری ملتی ہے حوصلہ غریب ملتا ہے ، کونفیڈنس کی کمی کی وجہ سے ہی ایسا ہوتا ہے سب سے پہلے ایسے مرد حضرات اپنے والدین سے بے پناہ پیار کریں انہیں جپھی ڈالیں پیٹ بھر کر اپنے والدین سے پیار لیں دعائیں لیں تاکہ آپ میں کونفیڈنس بڑھے۔

*اگر پوسٹ اور چینل پسند آرہا ہے تو پلیز ری ایکٹ ضرور کر دیا کریں

📌 سانحہ بھوپال — ایک پوری بستی جب سانسوں کے ساتھ دفن ہو گئی!ایک ایسا المیہ جسے دنیا نے بھلا دیا، مگر زمین آج بھی اس کا م...
08/08/2025

📌 سانحہ بھوپال — ایک پوری بستی جب سانسوں کے ساتھ دفن ہو گئی!

ایک ایسا المیہ جسے دنیا نے بھلا دیا، مگر زمین آج بھی اس کا ماتم کر رہی ہے…

تاریخ: 3 دسمبر 1984
رات کی تاریکی ہر طرف چھائی ہوئی تھی، لوگ پرسکون نیند میں تھے۔
ماں بچے کو تھپکی دے رہی تھی، باپ اگلی صبح کے خواب آنکھوں میں بسائے سویا ہوا تھا...
لیکن پھر اچانک —
ہوا میں زہر گھل گیا۔
سانسیں بند ہونے لگیں، آنکھیں جلنے لگیں، حلق میں جیسے کوئی آگ اتر گئی۔
ہزاروں لوگ سوتے سوتے ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئے…!

یہ کوئی قدرتی آفت نہیں تھی،
یہ انسان کی غفلت، لالچ، اور بے حسی کا نتیجہ تھا۔

یونین کاربائیڈ انڈیا لمیٹڈ کے کیمیکل پلانٹ سے "میتھائل آئسو سائنائیٹ (MIC)" گیس کا اخراج ہوا۔
یہ پلانٹ امریکی کمپنی Union Carbide Corporation کی ملکیت تھا،
جس کے CEO تھے Warren Anderson —
وہ شخص جو چند دن گرفتار رہا، اور پھر "باعزت" امریکہ واپس بھیج دیا گیا…
جہاں وہ سزا کے بغیر 2014 میں مر گیا۔

⚠️ ایک رات… اور تباہی نسلوں تک پھیل گئی:

🔹 5 لاکھ سے زائد لوگ متاثر ہوئے
🔹 20 ہزار سے زیادہ جانیں چلی گئیں
🔹 عورتوں کے پیٹ میں پلتے بچے مر گئے
🔹 زمین، پانی اور فضا زہریلی ہو گئی
🔹 متاثرین آج بھی بیمار، معذور، اور انصاف کے منتظر ہیں

اور ستم ظریفی دیکھیے…
صرف 470 ملین ڈالر دے کر کمپنی نے "معاملہ ختم" کر لیا!
جیسے انسانوں کی لاشیں، آنکھوں کے آنسو، اور ماں کی گودوں کا خالی پن سب چند سکوں میں بیچا جا سکتا ہو۔

🎥 اس سانحے پر:

نیٹ فلکس پر ڈاکومنٹریز بنیں،
کتابیں لکھی گئیں،
عدالتوں میں پکاریں گونجیں…
مگر آج بھی بھوپال کی مٹی زہریلی ہے،
اور متاثرین صرف ایک لفظ کے منتظر ہیں: انصاف!

💔 سانحہ بھوپال ہمیں کیا سکھاتا ہے؟

✅ حفاظت اور احتیاط کسی بھی نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہے
✅ سرمایہ داری جب انسانیت سے بڑی ہو جائے تو قبریں ہی بستیاں بن جاتی ہیں
✅ طاقتور کے لیے قانون اکثر بےبس ہوتا ہے
✅ ایک لمحے کی غفلت پوری نسل کو دفنا سکتی ہے

🙏 اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ کہانی دنیا کو جاننی چاہیے،

تو اسے شیئر کریں،
کمنٹس میں اپنی آواز بلند کریں،
اور لوگوں کو یاد دلائیں کہ:
"بھوپال ایک بار جل چکا ہے، اب کوئی اور شہر نہ جلے!"















اومیگا 3 اور 6 فیٹی ایسڈز کا خزانہ کدو کے بیج صحت کو ڈھیروں فوائد فراہم کرتے ہیں۰ کدو کے بیج خواتین کے ہارمونل مسائل کو ...
06/08/2025

اومیگا 3 اور 6 فیٹی ایسڈز کا خزانہ کدو کے بیج صحت کو ڈھیروں فوائد فراہم کرتے ہیں

۰ کدو کے بیج خواتین کے ہارمونل مسائل کو بہتر بنانے میں مددگار ہیں

۰ بلڈ شوگر کی سطح کو متوازن رکھنے میں مدد دیتے ہیں

۰ اس میں موجود اومیگا 3 اور 6 فیٹی ایسڈز دل کے لیے فائدہ مند ہیں

۰ زنک کی موجودگی مدافعتی نظام کو بہتر بناتی ہے

۰ یہ بیج پروٹین فراہم کرتے ہیں جو جسمانی توانائی بڑھاتے ہیں

۰ ان میں موجود میگنیشیم اور زنک ہڈیوں کو مضبوط بناتے ہیں

۰ ان بیجوں میں موجود ٹرپٹوفین نیند کو بہتر بناتا اور دماغی سکون دیتا ہے

۰ اینٹی آکسیڈنٹس جلد کو چمکدار اور صحت مند بناتے ہیں

۰ فائبر سے بھرپور ہونے کی وجہ سے بھوک کم کرتے ہیں، وزن کم کرنے میں معاون ہیں

۰ یہ بیج کولیسٹرول کو کم کرنے میں مددگار ہیں

ان بیجوں میں موجود زنک بالوں کو مضبوط اور صحت مند بناتا ہے

۰ اس میں آئرن کی موجودگی خون کی کمی کو پورا کرتی ہے

۰ کدو کے بیج زخموں کے بھرنے کے عمل کو تیز کرتے ہیں

کدو کے بیج ناشتہ کے ساتھ یا اسنیک کے طور پر استعمال کیے جا سکتے ہیں

انہیں پیسنے کے بجائے ثابت کھائیں تاکہ غذائیت پوری ملے۔

پھٹکڑی ویسے تو عام سی چیز ہے جو ہر جگہ آسانی سے بہت کم قیمت میں دستیاب ہوجاتی ہے لیکن اسکی افادیت بہت زیادہ ہے۔ پھٹکری ب...
06/08/2025

پھٹکڑی
ویسے تو عام سی
چیز ہے جو ہر جگہ آسانی
سے بہت کم قیمت میں دستیاب ہوجاتی ہے
لیکن اسکی افادیت بہت زیادہ ہے۔ پھٹکری بظاہر کوئی خاص شے نہیں لیکن پھٹکری میں پوشیدہ ہیں صحت کے خزانے۔ اس کی طبی خصوصیت کے باعث مختلف بیماریوں کے علاج کے لئے اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ معاملہ زخموں کو صاف اور دور کرنے کا ہو، چہرہ کی خوبصورتی کی بات ہو یا دانتوں کی مضبوطی کی دونوں ہی صورتوں میں پھٹکری کا استعمال بہترین ہے۔
خارش:
خارش دوطرح کی ہوتی ہے اور دونوں ہی صورتوں میں تکلیف دہ ہوتی ہے۔ پھٹکری جلاکر راکھ بناکر اس میں ایک انڈے کی سفیدی ملاکر مساج کرنے سے ہر قسم کی خارش میں آرام آجاتا ہے۔
بیڈ سول:
بیماری کے باعث مستقل بستر پر لیٹے رہنے سے زخم ہوجاتے ہیں جو تکلیف کاباعث بنتے ہیں۔ پھٹکری باریک پیس کر انڈے کی سفیدی میں ملاکر زخموں کے اوپر لیپ کردیں۔
پیٹ درد:
پیٹ کا درد انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ جب بھی ایسا کوئی مسئلہ ہو تو پھٹکری کی ایک چٹکی کھاکر اوپر سے دہی کھالیں۔ پیٹ درد میں فوراً آرام آجاتا ہے۔
دانت کادرد:
دانتوں کے لئے پھٹکری کی بڑی افادیت ہے۔ پھٹکری کو جلاکر جب وہ پھول جائے تو اسے ہاتھ سے مل کر پاؤڈر بنالیں۔ ریٹھے کی گھٹلی کی راکھ اور پھٹکری کی راکھ ہم وزن لے کر دانتوں پر ملیں تو آرام آجاتا ہے۔
دانتوں کی بیماریاں:
پھٹکری اور کیکر کا کوئلہ ہم وزن لے کر باریک پیس کر کپڑے سے چھان کر رکھ لیں۔ اس کو دانتوں پر ملنے سے دانتوں کی تمام بیماریوں میں آرام ملتا ہے۔
کھانسی اور دمہ:
پھٹکری کو پانی میں حل کرکے دن میں تین بار ایک چھوٹا چمچمہ پینے سے کھانسی سے نجات مل جاتی ہے۔ شہد میں ملاکر صبح وشام لینے سے بھی آرام ملتا ہے۔
ناک کی بو:
اگر ناک سے بو آتی ہو تو پھٹکری کو پانی میں حل کرکے اس محلول سے ناک کی صفائی کریں۔ تو اس عمل سے ناک سے بو آنا بند ہوجاتی ہے۔
کیل مہاسے:
پھٹکری کو پیس کر کپڑے سے چھان کر پانی میں ملاکر پیسٹ بناکر صرف دانوں پر لگاکر بیس منٹ بعد دھونے سے دانے ٹھیک ہوجاتے ہیں۔
خشکی:
صرف ایک چٹکی پھٹکری اور ایک چٹکی نمک شیمپو میں ملاکر سر دھونے سے خشکی دور ہوتی ہے۔
جوؤں سے نجات:
بچوں کے سر میں جوئیں ماؤں کابڑا مسئلہ ہوتی ہیں۔ اگر پانی میں پھٹکری حل کرکے اس پانی سے سر دھویاجائے تو بالوں میں جوئیں نہیں پڑتی ہیں۔
پھٹی ایڑیاں:
پھٹکری جلاکر باریک پیس کر ناریل کے تیل میں ملاکر ایڑھیوں پر لگانے سے پٹھی ایڑیاں ٹھیک ہوجاتی ہیں۔
نکسیر کے لئے:
پھٹکڑی کوپانی میں گھول کر اس کے قطرے ناک میں ٹپکانے سے نکسیر کو آرام آجاتا ہے۔
زہریلی مکھی یا بچھو کے زہر کو دور کرنے کیلئے:
پھٹکڑی کو پانی میں گھس کر ڈنگ پر اور اس کے ارد گرد لگانے سے درد اور جلن کو فوری آرام آجاتا ہے۔
گردے اور مثانہ کی پتھری کے لئے:
دو ماشہ پھٹکڑی بریاں صبح و شام پانی کے ساتھ کھائیں۔ زیادہ تکلیف کے وقت دوپہر میں بھی کھائیں
زخموں کے لئے:
ایک ماشہ پھٹکڑی کو پاؤ بھر گرم پانی میں گھول کر دن میں دو بار زخموں کو دھونے سے زخم اچھے ہو جاتے ہیں۔ زخموں کا گنداپن دور کرنے کے لئے پھٹکری عجیب چیز ہے۔ اس سے گلا سڑا اور گندا گوشت دور ہوجاتا ہے۔
مرگی کا علاج:
ایک ماشہ پھٹکڑی بریاں دن میں دو بار گرم دودھ کے ساتھ کھانے سے مرگی دور ہوجاتی ہے۔

گلٹیوں کا علاج:
دو ماشہ پھٹکری بریاں گرم دودھ کے ساتھ کھائیں۔ گیہوں اور السی کے آٹے کو سرسوں کے تیل میں بطور پلٹس پکا کر ٹکیہ بنائیں پھر اس پر باریک پسی ہوئی پھٹکڑی ڈال کر گرم گرم گلٹی پر باندھ دیں۔ دن میں تین بار اس نسخہ کو آزمائیں

دانتوں سے خون آنے کا علاج:
ایک تولہ کوئلہ لکڑی جامن، ایک تولہ پھٹکڑی پیس کر دانتوں پر ملنے سے خون آنا بند ہوجاتا ہے۔
نوٹ: مزاجوں میں اختلاف کے سبب کسی بھی نسخے پر عمل پیرا ہونے سے قبل اپنے معالج سے مشورہ ضرور کرلیں۔

درختوں کے پتے اور ماہواری!گھر میں چاروں طرف عجیب سی بو تھی، جیسے کوئی مردہ چوہا کسی الماری کے پیچھے پڑا ہو، یا کوئی مری ...
06/08/2025

درختوں کے پتے اور ماہواری!

گھر میں چاروں طرف عجیب سی بو تھی، جیسے کوئی مردہ چوہا کسی الماری کے پیچھے پڑا ہو، یا کوئی مری ہوئی چھپکلی صوفے کے نیچے۔ کبھی ایسے لگتا کہ کچن کے سنک میں گوشت کو دھوتے ہوئے نیچے پائپ میں کچھ پھنس گیا ہے جو چاروں طرف بو پھیلا رہا ہے۔ لیکن بو کا کہیں سراغ نہیں ملتا تھا جو کبھی گندے موزوں سے اٹھنے والی سڑاند جیسی محسوس ہوتی اور کبھی کئی دن کے رکھے باسی سالن جیسی۔

ہر تھوڑی دیر بعد بو کا ایک جھونکا آتا اور سر میں ایک گرز سا لگتا، ٹیسیں اٹھتیں اور ہم پھر سے بے چین ہو جاتے۔

کیسی بو ہے یہ؟ کہاں سے آ رہی ہے؟ ہے؟ صفائی کی کہاں کمی رہ گئی؟ سب ملازم ہمارے ان سوالوں کا جواب دینے سے قاصر تھے۔

صوفے اپنی جگہوں سے کھسکا دیے گئے، پلنگوں کے نیچے جھانک لیا گیا، کچرے کے ڈبے خالی کر دیے گئے، کچن کی الماریوں سے سامان باہر ڈھیر کر دیا گیا۔ ٹوائلٹ میں فینائل بھر بھر کے پھینکی گئی، بستر کی چادریں بدلوا دی گئیں، دھلے ہوئے کپڑے پھر سے دھوبی کے پاس بھیج دیے گئے۔ سب نلوں میں گرم پانی ڈالا گیا، فریج خالی کر دیا گیا، جوتے دھوپ میں رکھے گئے، چھپکلی کے لئے سپرے کیا گیا، چوہوں کے لئے ٹریپ منگوایا گیا۔ بچوں کے پیمپر پہلے سے بھی جلد بدلوانے کا کہا گیا۔ سب کچھ ہوا لیکن اس بو نے ہمارا پیچھا نہ چھوڑا۔

ہم پاگل ہونے والے تھے یا ہو چکے تھے۔

کبھی وہ بو نزدیک آ جاتی، کبھی دور چلی جاتی۔ کبھی گھر کے ایک کونے میں تیز ہو جاتی، کبھی دوسرے میں، ابھی یہاں، کچھ دیر بعد وہاں۔
معمہ کسی طرح حل نہ ہوا۔

”باجی ایک بات کہوں؟“

ماسی حنیفاں جو دو دن سے ہماری پریشانی کی گواہ تھیں، ہمارے قریب آ کر بولیں

”کہو“

”میرا خیال ہے کہ بو کا تعلق اس نئی لڑکی سے ہے جسے آپ نے شیری بیٹی کے لئے رکھا ہے“

”حنیفاں، کچھ دن پہلے ہی تو آئی ہے وہ اور میں نے اسے نہانے دھونے اور کپڑے بدلنے کی سب ہدایات دی ہیں“
”جی، ٹھیک کہتی ہیں آپ لیکن مجھے محسوس ہوا ہے“

”تمہیں یہ شک کیسے ہوا؟“

”جی وہ جب بھی کچن کی طرف آتی ہے، بو محسوس ہوتی ہے۔ پھر جب وہ چلی جاتی ہے تو بو بھی غائب ہو جاتی ہے۔ جہاں سے گزرتی ہے، وہاں بو محسوس ہوتی ہے“

”اچھا چلو پھر پوچھو اس سے“

یہ گرما کے دن تھے۔ ہماری چھوٹی بیٹی کی آیا اپنی والدہ کی بیماری کی وجہ سے ایمرجنسی رخصت پہ جا چکی تھی۔ اب ہسپتال سے چھٹی تو نہیں لی جا سکتی تھی اس لئے عارضی بندوبست کے لئے کنوؤں میں بانس ڈلوا دیے۔ بالآخر ہسپتال کے چوکیدار نے کسی دور دراز کے دیہات سے ایک بیس بائیس سالہ لڑکی کے متعلق بتایا جو آیا گیری کا تجربہ تو نہیں رکھتی مگر ضرورت مند ہے۔ وہ تو ہم بھی تھے سو حامی بھر لی۔

دبلی پتلی، ڈری سہمی، جھکی ہوئی نظریں، چہرے اور جسم پہ غربت و ناداری کے نمایاں آثار، یہ تھی شیری کی نئی آیا، رضیہ!

لگتا تھا کہ شہر آنے کا پہلا موقع ہے، ہر چیز حیران نظر سے دیکھتی، ہر بات پہ بوکھلا جاتی اور کچھ بھی کہنے سے پہلے ہچکچاتی۔ خیر ہم نے اسے بنیادی باتیں سمجھائیں، بچی کے جملہ امور سے آگاہ کیا اور بتایا کہ گو کہ یہ گھر اجنبی ہے اور ہم بھی، لیکن ہم دونوں کوشش کریں گے کہ کوئی مشکل نہ ہو۔

اب ماسی حنیفاں جو تشخیص ہمیں بتا رہی تھیں اس نے ہمیں کچھ پریشان کر دیا تھا۔ لیکن ہم ماسی کو کچھ برسوں کے تجربے کے بعد جانتے تھے کہ وہ گہری نظر رکھتی ہے۔ ویسے تو اس کی ذمہ داری گھر کے اور کام تھے لیکن ضرورت پڑنے پہ ہماری مشیر بھی بن جایا کرتی تھی۔

”اف باجی کیا بتاؤں، غضب ہو گیا، اف اتنی گندی۔ سارا گھر ناپاک کر دیا، یہی تھی بو کی وجہ“

حنیفاں گال پیٹتی ہوئی آ رہی تھی۔

”کچھ بتاؤ تو؟“

ہم بوکھلا اٹھے تھے۔

”باجی، میں نے آپ کو منع کیا تھا، دور دراز دیہات کی لڑکی نہ بلائیں۔ انہیں کیا پتہ ہوتا ہے؟ جو خود کو نہیں سنبھال سکتی وہ بچی کو کیا سنبھالے گی“

”حنیفاں، بات کیا ہے آخر؟“

” اسے پچھلے دو دن سے ماہواری آئی ہوئی ہے“

”تو، ماہواری سے بو کا کیا تعلق؟“

”باجی، ماہواری کے لئے اس نے کچھ بندوبست نہیں کیا ہوا، بس شلوار میں ہی خون جذب ہوئے جا رہا ہے۔ ہو سکتا ہے ادھر ادھر قطرے بھی گرے ہوں۔ اور ماہواری میں وہ غسل خانے میں پانی بھی نہیں استعمال کرتی کہ جسم میں ہوا داخل ہو جائے گی سو پچھلے دو دن سے یونہی بیٹھی ہے۔ کمرے میں ہر طرف بو پھیلی ہے“

”اف خدایا“ ہمیں ابکائی آ گئی، بیسویں صدی کی دنیا اور عورت ابھی تک جنگلوں اور غاروں کے زمانے میں؟

”حنیفاں، پلیز اسے پیڈ استعمال کرنا سکھا دو، اور نہلوا دھلوا کے کپڑے بدلوا دو۔ اور اس کے بعد بیٹ مین کے ساتھ مل کے سارے رگز دھلوا کے باہر دھوپ میں ڈلوا دو، بستر کی چادریں دھوبی کے پاس بھیجنا نہ بھولنا“

”شام ڈھلے حنیفاں گھر جا چکی تھی۔ گھر میں صفائی مہم کامیابی سے ختم ہونے کے بعد بو آہستہ آہستہ جا رہی تھی لیکن ہمارا تاسف جانے کا نام نہیں لیتا تھا۔
سوچا رضیہ کو بلا کر کچھ بات ہی کر لیں۔

رضیہ نہا دھو کے کافی بہتر لگ رہی تھی، چہرے پہ پریشانی کے آثار کچھ کم تھے۔

ادھر ادھر کی باتوں کے بعد ہم نے اس سے کہا، دیکھو رضیہ ہم ڈاکٹر ہیں، تم سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں۔ تم گھبرانا نہیں، اور ٹھیک ٹھیک بتانا، یہ تمہاری صحت کا سوال ہے۔

”تمہیں ماہواری کس عمر میں آئی؟“

”جی میں چھوٹی تھی، ابھی تھوڑا سا قد بڑھا تھا کہ ماہواری آ گئی“

”پھر کس نے اس کے متعلق بتایا؟“

”اماں نے جی“

”اچھا اس کے لئے کیا استعمال کرتی تھیں؟“

اس نے سر جھکا لیا،

”شرماؤ نہیں بتاؤ“

”جی اماں شلوار کے اندر بہت سے پتے رکھ دیتی تھی اور ان کو ایک دھجی سے کس کے کمر سے باندھ دیتی تھی“

” پتے؟ یہ درختوں کے پتے؟ تمہارا مطلب ہے کہ یہ ہرے پتے۔“ ہمیں یقین ہی نہیں آ رہا تھا،

”جی“ اس نے اثبات میں سر ہلایا

”لیکن پتے کیوں؟ کوئی کپڑا یا روئی کیوں نہیں؟“

”کپڑا؟ وہ کہاں سے آتا جی؟“

”پرانے لباس، جو بوسیدہ ہو کر پھٹنے لگتے ہیں“

”ہمارے وہاں تو جی دو جوڑے ہوتے ہیں ہر عورت کے پاس، ایک اتارتی ہے تو دوسرا پہنتی ہے۔ ان میں سے جب ایک تار تار ہو جاتا ہے تو تب دوسرا بنتا ہے۔ وہ ایک چیتھڑوں جیسا لباس کیا کر سکتا ہے اور کتنی دیر کر سکتا ہے، ایک مہینہ؟ پھر اس کے بعد ؟ اور روئی کہاں سے خریدیں؟ اماں کہتی ہے کہ پیٹ میں روٹی ڈالنے کی فکر کریں یا ماہواری کا جھنجھٹ دیکھیں“

ہمارا دل ڈوبتا جا رہا تھا، ایسے گہرے پانیوں میں جن کی تہہ میں نہ جانے کیا کچھ رکھا تھا ہمارے لئے۔

”تو تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا جب ماہواری آئی“

”جی مجھے شرم آ رہی تھی، میں نے پتے ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن آپ کے گھر درخت ہی نہیں ہے کوئی“

ہمیں بے اختیار رونا آ گیا۔ اس لڑکی کی بے بسی پہ جو بیسویں صدی کو ہمارے ہمراہ دیکھ رہی تھی لیکن ہمارے جیسی نہیں تھی۔ وہ تو زمانہ قدیم کی باسی تھی جب زندگی محض پیٹ کی بھوک کا نام تھا۔

”سنو بیٹا رضیہ، پتے وغیرہ بھول جاؤ، ہم تمہیں پیڈ دیں گے۔ بس تمہارا کام یہ ہے کہ پانی سے اپنے آپ کو اچھی طرح دھونا ہے جب بھی فراغت کے لئے غسل خانے جاؤ، روزانہ نہانا بھی ہے“

”باجی ایک بات بتاؤں؟“

”ہاں ہاں ضرور“

”یہ جو آپ نے پہننے کو دیا ہے نا۔ یہ بہت اچھا ہے، مجھے گیلے پن کی چپچپاہٹ بھی نہیں ہے اور خارش بھی نہیں ہو رہی۔ وہ پتے بہت چبھتے تھے اور ماہواری کے بعد گندا پانی بھی آنا شروع ہو جاتا تھا“

وہ کچھ گھنٹوں میں ہی سہل زندگی کا فرق جان چکی تھی۔

ہمارا دل تھما، کچھ ثانیے دھڑکنا بھول گیا اور پھر تیز تیز بھاگنے لگا۔

ہم شہروں کے باسی، سائنس کی ترقی، علم و آگہی اور شہری سہولیات کے سائے میں زندگی گزارنے والے کیا اندازہ کر سکتے ہیں کہ سندھ کے گوٹھوں تھر کے صحراؤں، بلوچستان کے بنجر پہاڑوں، گلگت بلتستان کے دور دراز گاؤں، قبائلی علاقوں کی گھٹی ہوئی فضاؤں اور پنجاب کے دور افتادہ دیہات میں رہنے والی عورتیں اس بنیادی ضرورت سے کیسے نبٹتی ہوں گی؟
ماہواری کا جسم سے اخراج دوسرے ناگزیر خروج جیسا ہی ہے لیکن کیا کبھی کسی نے سوچا کہ اس ماہانہ مشکل سے عورت کیسے نبٹتی ہو گی؟

سکول کا سلیبس ترتیب دیتے ہوئے، پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے بناتے ہوئے اور قوم میں آگہی پھیلانے کا عزم کرتے ہوئے کیا کبھی کسی نے سوچا کہ جن علاقوں میں غربت و ناداری چاروں طرف پر پھیلائے بیٹھی ہے، وہاں زندگی کی نمو اپنے جسم میں رکھنے والی عورت کے لئے بھی کچھ ہونا چاہیے؟ سرکاری طور پہ پیڈز کی سہولت اور متعلقہ آگہی؟
ستر سالہ سفر میں کچھ فیصد عورتوں کو چھوڑ کے بدلا تو آج بھی کچھ نہیں، اور ہمیں علم ہے کہ ان خوش قسمت عورتوں پہ پدرسری معاشرہ مہربان نہیں ہوا۔ آگہی کی یہ شمع کچھ باشعور لوگوں کے ہاتھوں روشن ہوئی ہے۔ اکثریت پہ زندگی اتنی مہربان نہیں رہی کیونکہ عورت کے مسائل کو سمجھنا ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔

لیکن ہم بے اختیار سوچتے ہیں کہ ہمسائے میں بھی تو ہمارے جیسے لوگ بستے ہیں، غربت و ناداری بھی ہم جیسی ہے، معاشرتی دباؤ بھی کم نہیں لیکن اس کے باوجود اگر وہ' پیڈ مین ' نامی فلم بنا کر عورت کے مسائل بیان کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟ ہم اپنے مسائل کو کسی کونے میں چھپا کر کب تک سب اچھا کا راگ الاپتے رہیں گے؟

زندگی کو اپنے وجود سے رواں دواں رکھنے والی کی اپنی زندگی کس قدر بے چارگی، بے جا شرم، معاشرتی دباؤ اور پابندیوں کا شکار ہے۔ ایسے وجود سے پھوٹنے والی زندگی کی نمو معاشرے کی بقا میں کتنی کارآمد ہو سکتی ہے؟

کچھ ممالک غریب کیوں رہ جاتے ہیں؟ ایک سوال یہ ہے کہ مہاجرین اور تارکین وطن امریکہ میں محنتی، ہنر مند اور شکر گزار ہوتے ہی...
06/08/2025

کچھ ممالک غریب کیوں رہ جاتے ہیں؟

ایک سوال یہ ہے کہ مہاجرین اور تارکین وطن امریکہ میں محنتی، ہنر مند اور شکر گزار ہوتے ہیں، لیکن ان کے اپنے ملک کیوں غریب رہ جاتے ہیں؟ اس کا جواب دنیا کے سب سے بڑے معاشی سوالات میں سے ایک ہے۔

کئی دہائیوں سے ماہرین نے اس سوال کے جواب کی کوشش کی ہے، لیکن بہت سے جوابات غلط ثابت ہوئے۔ جیسے:

1. سرمایہ کاری (Investment):
1950 کی دہائی میں خیال تھا کہ اگر غریب ملکوں کو پیسہ اور مشینری دے دی جائے تو وہ ترقی کر جائیں گے۔ لیکن سویت یونین کی مثال سے معلوم ہوا کہ بغیر صحیح نظام کے سرمایہ کاری فائدہ نہیں دیتی۔ جب پیداوار کا تعلق صارفین کی حقیقی ضروریات سے نہ ہو، تو سرمایہ ضائع ہوتا ہے۔

2. تعلیم (Education):
لوگ سمجھتے تھے کہ تعلیم سے ترقی ہوگی، مگر تحقیق نے دکھایا کہ تعلیم میں اضافہ ہونے کے باوجود کئی ملکوں میں آمدنی نہیں بڑھی۔ تعلیم ترقی کا نتیجہ ہوتی ہے، اس کی وجہ نہیں۔

3. آبادی پر کنٹرول (Population Control):
بعض نے کہا کہ زیادہ آبادی غریبی کی وجہ ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ انسان پیداواری بھی ہے۔ آبادی کم ہونے سے ترقی نہیں آتی، بلکہ ترقی سے آبادی کم ہوتی ہے۔

صحیح جواب: مضبوط ادارے اور معاشی آزادی

مشہور ماہر آدم اسمتھ کے مطابق ترقی کے لیے ملک میں تین چیزیں ضروری ہیں: امن، آسان ٹیکس، اور انصاف کا نظام۔ اصل طاقت ملک کے ادارے اور قوانین ہوتے ہیں جو لوگوں کو اپنی جائیداد اور کاروبار کی حفاظت دیتے ہیں۔

جب لوگ اپنی ملکیت کے مالک ہوتے ہیں، تو وہ اسے بہتر بناتے ہیں اور مارکیٹ میں چیزوں کی قیمت سے پتہ چلتا ہے کہ کون سی چیز کتنی قیمتی ہے۔ یہ قیمتیں بتاتی ہیں کہ کہاں سرمایہ کاری فائدہ مند ہے۔

تحقیقات بتاتی ہیں کہ جن ملکوں میں زیادہ معاشی آزادی ہے، وہ زیادہ امیر اور خوشحال ہیں۔ جہاں لوگ آزاد ہیں، وہاں انسان اپنی صلاحیتوں سے ترقی کرتے ہیں، نئے کاروبار بناتے ہیں اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔
نتیجہ:

کسی ملک کی ترقی کا انحصار وہاں کے نظام اور قوانین پر ہے، نہ کہ صرف لوگوں کی محنت پر۔ اگر ادارے مضبوط ہوں اور لوگوں کو آزادی دی جائے، تو ملک خود بخود ترقی کرے گا۔
یہی وجہ ہے کہ مہاجرین اپنے ملک سے باہر جا کر ترقی کرتے ہیں، کیونکہ وہاں انہیں بہتر مواقع اور آزادیاں ملتی ہیں۔ اگر ان کے ملک بھی یہی نظام اپنائیں، تو وہ بھی ترقی کر سکتے ہیں۔

آپ کی بیوی کے آپ کے بارے میں کیا تاثرات ہیںجانیے طریقہ بہت ہی آسان ہے۔۔۔بازار سے ایک پیٹی اناروں کی خرید کر لائیے، پیٹی ...
05/08/2025

آپ کی بیوی کے آپ کے بارے میں کیا تاثرات ہیں
جانیے
طریقہ بہت ہی آسان ہے۔۔۔

بازار سے ایک پیٹی اناروں کی خرید کر لائیے،
پیٹی کو کچن میں رکھ کر خاموشی اختیار کیجیئے،
درج ذیل چار صورتیں آپ کے ساتھ پیش آ سکتی ہیں یا پھر ایک پانچویں صورت بھی ہو سکتی ہے مگر اس کا چانس ذرا کم ہی ہے

پہلی صورت:
شام کے وقت آپ کو ایک بڑی پلیٹ میں اناروں کے نکلے ہوئے دانے ملیں گے،
ساتھ میں کھانے کیلئے ایک چمچ بھی ہوگا یعنی دو یا تین اناروں کے دانے محنت کے ساتھ نکال کر اہتمام کے ساتھ پیش کئے گئے ہونگے،
یہ والی بیوی آپ سے محبت کرتی ہے،
اس کا خیال رکھا کیجئے

دوسری صورت:
آپ کو فقط ایک انار کے نکالے ہوئے دانے پلیٹ میں پیش کیئے جائیں گے،
تب جان لیجئے کہ یہ والی بیوی آپ کا احترام کرتی ہے اور آپ کی خدمت اپنے آپ پر عائد ایک ذمہ داری سمجھتے ہوئے کرتی ہے یا آپ کی خدمت کر کے بس ثواب کمانا چاہتی ہے۔

تیسری صورت:
آپ کی بیوی انار اٹھا کر آپ کے پاس آئے گی اور اسے چھیلنا شروع کرے گی،
اس سے محتاط رہئے کیونکہ یہ آپ کو دکھانا چاہتی ہے کہ وہ کیسے آپ کیلئے جان مارتی اور محنت کرتی ہے اور اس کا وجود آپ کیلئے کتنا فائدہ مند ہے۔
لہٰذا اسے اس کی محنتوں کا مناسب معاوضہ ملتا رہنا چاہیئے
یہ آپ کی زندگی میں راحت سے رہنا چاہتی ہے،
اس لیے اُسے وقتا فوقتا پیسوں کا مکھن لگاتے رہنا چاہیے۔

چوتھی صورت:
آپ کی بیوی پلیٹ میں ایک انار اور چھری رکھ کر لائے گی اور ارادی طور پر چمچ نہیں لائے گی،
تبھی اچانک آپ کو چھیلنے کا کہہ کر چمچ لینے جائے گی اور کچن سے کانی آنکھ دیکھتی رہے گی کہ آپ نے انار چھیلنا شروع کیا ہے کہ نہیں.
ایسی بیوی کے ہوتے ہوئے جان لیجیئے کہ آپ کی منجی آج نہیں تو کل صحن میں، چھت پر یا بیٹھک میں منتقل ہونے والی ہے اور وہ وقت بھی دور نہیں ہوگا، جب یہ بیوی آپکو بوڑھے، کمزور اور نکھٹو ہونے کے طعنے دینے شروع کر دے گی

پانچویں صورت:
آپ نے جب ہفتہ بھر اناروں کے متعلق کوئی بات نہ سننے پر جب خود سے کچن اور فریج میں جھانکا تو پتہ چلا کہ زوجہ محترمہ اور اس کے بچوں نے اناروں کو کئی دن پہلے ہی کھا پی کر ہضم بھی کر دیا تھا۔

تو ایسی 'نازک صورت' میں ہم سبھی آپکے لیے دُعا کریں گے.

شیطان کا خاموش وارپاکستان میں پائے جانے والے سانپوں میں سنگچور سب سے زیادہ زہریلا سانپ ہے۔ یہ اس قدر خاموشی سے حملہ کرتا...
05/08/2025

شیطان کا خاموش وار

پاکستان میں پائے جانے والے سانپوں میں سنگچور سب سے زیادہ زہریلا سانپ ہے۔ یہ اس قدر خاموشی سے حملہ کرتا ہے کہ نہ درد محسوس ہوتا ہے، نہ کوئی چیخ نکلتی ہے۔ اگر ایک گھنٹے کے اندر اندر اینٹی وینم نہ دیا جائے تو انسان کا نروس سسٹم فیل ہو جاتا ہے، اور دو گھنٹے کے اندر اندر موت یقینی ہو جاتی ہے۔

بالکل ایسے ہی، شیطان نے ہمارے گھروں میں ایک اور "سنگچور" چھوڑا ہے اور اس کا زہر بھی بڑا ظالم ہے، اس زہر کا نام "ناشکری" ہے۔
اس زہر نے ہمارے دلوں سے شکر گزاری کا جذبہ خاموشی سے ختم کردیا ہے، اور اس کا احساس تک نہیں ہونے دیا۔
اور اس کا سب سے مہلک ہتھیار فوڈ ویلاگنگ ہے۔

آج ہر گھر کا دسترخوان ایک ریویو پلیٹ فارم بن چکا ہے۔
کھانے کی میز پر نئی نسل کھانا کم کھاتی ہے اور اس پر تجزیہ زیادہ ہوتا ہے۔
"گوشت ٹینڈر نہیں ہے..."
"فلیور کمزور ہے..."
"برینڈڈ ہوٹل جیسا ذائقہ نہیں..."
"گارنشنگ تھوڑی کم ہے..."
"پلیٹنگ بہتر ہو سکتی تھی..."
"خوشبو متاثر کن نہیں..."

پچھلی نسل میں یہ زبانیں ماں کے ہاتھ کی دال پر بھی "الحمدللہ" کہتی تھیں۔ اب حال یہ ہے کہ بچوں کیلئے ہزاروں روپے کا کھانا بنایا یا منگوایا جائے تو بھی اس پر بیزاری اور بے دلی کے تاثرات سننے کو ملتے ہیں۔ یہ نسل پہلے فوٹو اور ویڈیو بناتی ہے، پھر سائیڈ پر بیٹھ کر فون استعمال کرتے ہیں اور آخر پہ برگر کا تقاضا چل رہا ہوتا ہے۔

کسی دن گھر میں دال یا سبزی بن جائے، تو چہروں پر مایوسی چھلکنے لگتی ہے۔ جملے سنائی دیتے ہیں جو ایک طرف اس گرمی کھڑے ہو کر کھانے پکانے والی ماوں کے دل کو زخمی کرتے ہیں اور دوسری طرف گھروں میں بے برکتی اور بے سکونی کا سماں رہتا ہے۔ اس سارے ماحول سے معلوم ہوتا ہے کہ ناشکری کا زہر نہ صرف زبان پر، بلکہ خون میں بھی شامل ہو چکا ہے۔

یہ زہر اتنا چالاک ہے کہ انسان کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ کتنا ناشکرا ہو چکا ہے۔
اللہ پاک نے ناشکرے انسان کیلئے جو الفاظ استعمال کیے ہیں اور تنبیہ کیلئے جو انداز اختیار کیا گیا ہے وہ شاید ہی کسی اور جگہ اختیار ہوا ہو
"خدا کی مار ہو ایسے انسان پر، یہ کتنا ناشکرا ہے!"
(سورۃ عبس، آیت 17)

یاد رکھیں، شیطان کے یہ وار خاموش ضرور ہیں، لیکن اس کا انجام بہت تباہ کن ہے۔ اس پر محاسبہ ضرو کریں۔

🌪️ “جب رسّی سے چلنے والا پنکھا بند ہوا — اور غلامی کی ہوا رک گئی” 🌪️"ہوا دینے والے غلاموں کی سانسیں بند ہو گئیں، جب ٹیکن...
05/08/2025

🌪️ “جب رسّی سے چلنے والا پنکھا بند ہوا — اور غلامی کی ہوا رک گئی” 🌪️

"ہوا دینے والے غلاموں کی سانسیں بند ہو گئیں، جب ٹیکنالوجی نے بٹن دبا دیا!"

🕰️ انگریز آیا، غلامی کی ہوا چلی

برصغیر پاک و ہند کی سرزمین پر جب انگریزوں کے قدم پڑے، تو انہوں نے صرف زمین ہی نہیں چھینی، بلکہ ہوا بھی اپنی مرضی سے چلوانی شروع کر دی! جی ہاں، یہ کوئی شاعری نہیں، بلکہ تلخ حقیقت ہے — انگریز جب دہلی، لکھنؤ، لاہور اور بمبئی کی حویلیوں میں اپنے جوتے اتارتے، تو چھت سے لٹکتے ہوئے کپڑے کے بڑے پنکھے جھومنے لگتے تھے… اور انہیں جھومانے والے ہوتے تھے گونگے بہرے غلام، جو فرش پر لیٹے اپنے پیروں سے رسیاں کھینچتے رہتے تھے۔

یہ خادم غلام نہیں، بلکہ "خاموش پنکھا آپریٹر" ہوتے تھے! انگریز کہتے تھے:

> "We want air… not ears!"
اسی لیے وہ گونگے بہرے خادم رکھتے تھے، تاکہ نہ سُن سکیں، نہ کہہ سکیں — صرف ہلتے رہیں!

⚙️ ٹیکنالوجی نے غلامی کا دم نکال دیا

پھر آیا بلب، موٹر، اور بٹن کا دور!
اور وہ دن بھی آیا جب غلام رسّیاں چھوڑ کر ہوا میں اُڑ گئے — اور برقی پنکھا چھت سے ہنسنے لگا جیسے کہہ رہا ہو:

> "اب میں ہوا دوں گا… بغیر کسی غلام کے!"

انگریز چلے گئے، پنکھے رہ گئے، مگر ان پنکھوں کی رسیاں… وقت کی دیوار پر سوال بن کر لٹک گئیں۔

🎭 انٹرفیئر: غلامی صرف زنجیر کا نام نہیں ہوتا… بعض اوقات رسی بھی غلامی کی علامت ہوتی ہے!

تحریر: پروفیسر فیصل غفور (ایم فل ہسٹری)

👣 مرچ مصالحے والا منظر

سوچو! سفید فام انگریز اپنے ہاتھ میں شراب لیے بیٹھا ہے، پاؤں کے نیچے قالین، سامنے ناچتی رقاصہ، اور اوپر ہلتا ہوا پنکھا — جس کے نیچے زمیں پر لیٹا خادم پسینے میں شرابور رسّی کھینچ رہا ہے… یہ ہے وہ "تہذیب" جس پر مغرب ناز کرتا ہے؟ یہ ہے وہ "تمدن" جسے برصغیر کے کچھ لوگ آج بھی فیشن سمجھتے ہیں؟

💡 ٹیکنالوجی کا طمانچہ

آج جب ہم ایئر کنڈیشنر آن کرتے ہیں یا ریموٹ سے پنکھا چلاتے ہیں، تو ایک لمحہ رک کر سوچیں —
یہ محض سہولت نہیں، آزادی کی نشانی ہے!
ٹیکنالوجی نے ہمیں غلامی کی رسّیوں سے آزاد کر دیا ہے۔
پنکھے اب بھی چل رہے ہیں… لیکن اب ان کی ڈور کسی انسان کے جسم سے بندھی نہیں، بلکہ مشینوں کی گردن میں ہے۔

📝 اختتامیہ:

پنکھا وہی ہے، گرمی وہی ہے، چھت بھی وہی ہے —
بدلا ہے تو صرف نظام!
جہاں پہلے گونگے غلام ہوا دیتے تھے، وہاں اب خاموش مشینیں کام کرتی ہیں۔
فرق صرف اتنا ہے کہ پنکھے کے نیچے اب انسان بیٹھتا ہے، اور اوپر غلامی نہیں چلتی… بجلی چلتی ہے۔

چوہیا کے نخرے، کھٹمل کا ظلم اور انسان میں ان کی باقیات                               Bruce Effectچوہیا جب حاملہ ہوتی ہے ...
05/08/2025

چوہیا کے نخرے، کھٹمل کا ظلم اور انسان میں ان کی باقیات

Bruce Effect

چوہیا جب حاملہ ہوتی ہے اور اسی وقت کوئی نیا چوہا اس کے آس پاس آ جائیں تو اس نئے چوہے کے ,"فیرامونز" کے زیر اثر چوہیا کا جسم اپنے حمل کو ضائع کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ان فیرامونز کے زیر اثر یا تو ایمبریو امپلانٹ نہیں ہو پاتا ہے یا وہ ابزارب ہو جاتا ہے۔ اس کو بروس ایفکٹ کہتے ہیں۔

Whitten Effect

جب ایک نر چوہا مختلف چوہیوں کے گروپ میں چھوڑا جاتا ہے، تو اس کے "فیرامونز" کے زیر اثر ان ساری "چوہیوں" کا ایسٹرس سائیکل ایک ساتھ ایڈجسٹ ہو جاتا ہے اور وہ سب چوہے کے ساتھ میٹنگ کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ یا ان سے پہلے تیار ہونے کی کوشش کرتی ہے اس عمل کو وہٹن ایفکٹ کہتے ہیں

Vandenbergh effect

اسی طرح جو چوہیا مرد چوہوں کی سنگت میں ہوتی ہے تو اس کا جسم جلدی بالغ ہوتا ہے اور وہ جلد از جلد بلوغت تک پہنچ کر میٹنگ (جنسی عمل) کے قابل بننا چاہتی ہے، اسکی جنسی گروتھ تیز ہو جاتی ہے۔ اس کو وینڈربرگ ایفکٹ کہتے ہیں۔

Lordosis Reflex

اسیطرح جب مادہ رودینٹ یا بلی وغیرہ جنسی طور پر تیار ہوتی ہے اور کوئی "نر" اسے پیچھے سے ٹچ کرتا ہے یا اس کے پیچھے کوئی نر آتا ہے، تو وہ ساکت ہو جاتی ہے اور اپنے کمر کو نیچھے جھکا دیتی ہے اور دم اوپر کر دیتی ہے یعنی کہ نر کے لیے 'جنسی عمل' کو آسان بنا دیتی ہے۔ اس کو لورڈوسس ریفلیکس کہتے ہیں۔

Traumatic Insemination

کھٹمل کا پینس سوئی کی طرح ہوتا ہے اور کبھی کبھار جب مادہ کھٹمل کسی بھی وجہ سے جنسی عمل کو کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی ہے تو وہ اپنے اس پینس سے "مادہ" کے جسم کو پھاڑ کر اپنے سپرمز ڈائریکٹلی ہی اس کے اندرونی اعضاء میں جمع کر دیتے ہیں جو بعد میں اس کے جنسی جگہ پہنچ کر اس کو حاملہ کر دیتے ہیں۔ اس کو ٹرامیٹک انسیمینیشن کہتے ہیں۔

S***m competition tactics

جانوروں میں سے اگر کسی کو پتہ ہو کہ مادہ کے ساتھ پہلے سے کسی نے جنسی عمل کیا یے تو وہ اس میں زیادہ سپرمز اور تیز ترین سپرمز چھوڑتے ہیں تاکہ بچہ ان کا پیدا ہو اور کچھ جانور تو "جنسی عمل" کے دوران مادہ کے جسم میں ایک قسم کا پلگ چھوڑ دیتے ہیں تاکہ وہ جنسی عمل دوبارہ نہ کر سکیں، کچھ جانور اس میں ایسے کیمیکلز چھوڑ دیتے ہیں جو 'مادہ' کی جنسی خواہش ختم کر دیتے ہیں یا دوبارہ جنسی عمل کو کامیاب ہونے نہیں دیتے ہیں اور کچھ جانور مادہ سے جنسی عمل کرنے کے بعد اس کی حفاظت کرتے ہیں اور اگر کوئی اور 'نر' مادہ کو اپروچ کرنے کی کوشش کرتا یے تو مہابھارت پر اتر آتے ہیں۔

Coolidge effect

بہت سارے جانوروں کے اندر جب "نر" ایک مادہ کے ساتھ بار بار میٹنگ کرتے ہیں تو اس کے لیے جنسی خواہش ختم ہوتی جاتی ہے اور اگر کوئی نئی مادہ آتی ہے تو دوبارہ سے جنسی خواہش عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ یہ عمل 'نر انسان' میں بھی پایا گیا ہے کہ ان کو "نئی عورت" چاہیے ہوتی ہے اور یہ کچھ جانوروں کے مادہ میں بھی ہوتا ہے اسکو کولیج ایفکٹ کہتے ہیں۔

Ovulatory shift Hypothesis

انسانی عورت جب اپنے ماہانہ سائیکل کے اوویولیٹری پیریڈ میں ہوتی ہے تو وہ بھی جنسی سگنل دیتی ہے۔ اس دورانیہ میں اس کا چہرہ برائٹ ہو جاتا ہے اور چہرے پر 'گلو' آ جاتی ہے، اس کی آنکھیں 'بڑی بڑی' نظر آنا شروع ہو جاتی ہے، بدن متناسب سا ہو جاتا ہے، اسکا لباس ایسا ہو جاتا ہے جس سے جنسی سگنل آ سکتا ہے یعنی ٹائٹ، تنگ یا چھوٹا لباس پہننا شروع کر دیتی ہے، چلنے پھرنے کا انداز بدل جاتا ہے اور مٹک مٹک کر چلنا شروع کر دیتی ہے، اس وقت آواز "لبھانے" والی ہو جاتی ہے، فلرٹ زیادہ کرتی ہے اور فٹ، طاقتور اور مردانہ خصوصیات کے حامل مردوں کی طرف اٹریکٹ ہوتی ہے تاہم یہ دورانیہ ہر مہینے میں محض کچھ دن کے لیے ہی ہوتا ہے۔ یاد رہے اس دورانیہ میں عورت کو "دیکھ" لینے سے مرد میں ٹیسٹوسٹیرون خود بخود بڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح خوبصورت عورت کو دیکھنے سے مرد کا دماغ بھی ماؤف ہو جاتا ہے۔

یہ سب لاشعوری طور پر بھی ہو سکتا ہے یعنی مرد و عورت کو شاید یہ پتہ بھی نہ چل رہا ہو لیکن ان پر ایسا "اثر" ہوتا ہیں۔ باقی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس تھیوری پر اکیڈمیا میں ڈیبیٹ بھی ہے اور 'بعض تحقیقات' کے مطابق یہ اثرات نہیں ہوتے ہیں یا بہت کم ہوتے ہیں اور کچھ کے مطابق ایسا ہوتا ہے۔ اس میں حقیقت یہی ہے کہ اس تھیوری کو سپورٹ حاصل ہے تاہم انکی ایپلیکیشنز میں کافی زیادہ Nuances ہے جو اگنور نہیں کی جا سکتی ہے۔ اس کو اپنی خام حالت میں ماننا Oversimplification ہے۔

Positive effects of s*x

اسی طرح جب انسانی مرد اپنا "مادہ منویہ" عورت کے جسم میں چھوڑتا یے تو اس کے اندر سپرم کے ساتھ باقی کیمیکلز بھی موجود ہوتے ہیں جو عورت کا موڈ ٹھیک کرتے ہیں، اس کی "انزائٹی و ڈیپریشن' کو ختم کرتا ہے، اس کی نیند اچھی کرتا ہے اور اس کی اپنے مرد سے محبت پیدا کرتا ہے۔ یہ بات مختلف تحقیقات سے پتہ چلی ہے کہ "کونڈوم" کے بغیر والے "جنسی عمل" کرنے والی عورتیں زیادہ خوش ہوتی ہے۔

یاد رہے "جنسی عمل" کے فوراً بعد انسان کو الجھن ہوتی ہے، اور اس کو برا برا سا لگتا ہے اور وہ Irritated سا محسوس کرتا ہے۔ اس کو Post co**al Dysphoria کہتے ہیں جو کم وقت کے لیے ہوتا ہے کیونکہ جب آپ "مزہ" سے نارمل حالت میں دوبارہ آتے ہیں تو برا سا لگتا ہے لیکن لانگ ٹرم میں اس عمل یعنی جنسی تعلقات (بغیر کونڈم) والے کا فایدہ ہوتا ہے۔

متفرق باتیں

اسیطرح انسانی عورت اس مرد کو زیادہ پسند کرتی ہے، جن کو اس کے آس پاس رہنے والی "باقی خواتین" پسند کرتی ہے اور ایسا مردوں میں بھی ہو سکتا ہے اسطرح کچھ تحقیقات کے مطابق عورت "خوبصورت" (لمبا قد چوڑے شانہ وغیرہ) مردوں اور "آمیر" مردوں کے ساتھ جنسی عمل میں زیادہ بار آرگیزم دیتی ہے اور ان آرگیزمز سے حمل ہونے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے۔

نوٹ) یاد رہے انسان شعوری جانور ہے اور یہ باتیں انسان کی شخصیت کا محض ایک حصہ ہے جو نظر بہت کم آتا ہے۔ ان کو پورا انسان نہیں کہا جا سکتا یے اور پورا اگنور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے تاہم انکا جاننا اچھی بات ہے اور یہ معلومات ہونی چاہیے ہیں اور سب سے اہم بات کہ یہ Correlations ہیں (انسان والے) Causation نہیں ہے۔

Address

Medical Center In Darlinghurst
Darlinghurst, NSW
2010

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dr. Rida Batool posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram

Category