30/10/2025
                                            An old session.. 
”گہرے صدمات اور ٹوٹے دل والوں کے نام“
یہ سیشن اُن کے نام، جن کو کوئی شدید گہرا صدمہ پہنچا ہے، دل ٹوٹا ہے یا کسی بھی وجہ سے گہری چوٹ کھائی ہے۔“
یہ سیشن ایک لڑکی کا تھا جو سوشل میڈیا اور عملی زندگی میں اپنے دکھ درد اور تکلیفوں کی وجہ سے سہارا ڈھونڈ نے نکلی تھی۔
وہ اپنی بڑی سی چادر کو تھوڑا سا اور سمٹ کر میرے سامنے بیٹھتے ہی کہنے لگی:
انسان کو تکلیف یا بُرے وقت میں ہی کیوں اور زیادہ مسئلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لہجے میں بلا کا دکھ اور نمی تھی
اُس نے اپنا سر تھوڑا سا اُوپر اُٹھایا جیسے وہ ربّ سے کوئی شکوہ کرکے اپنی بڑی بڑی آنکھوں کے آنسو کو رکتی ہو۔
میرے والد کی ڈیت ہوئی، میں تپتے صحرا میں آگئی، بھوکی پیاسی تھی دور دور تک کوئی نخلستان نہیں تھا، کیا کرتی زندگی ہے چلنا تو پڑتا ہے، جاب ڈھونڈی اور جاب کرنے لگی۔
گھر کے حالات کچھ ٹھیک ہوئے تو مجھے بھی وقت کے ساتھ ساتھ صبر آنے لگا تھا لیکن کچھ دکھ عمروں کے ہوتے ہیں کہاں جان چھوڑتے ہیں۔
میں اکثر اداس رہتی تھی اور اب بھی ہوں، پہلے سیشن کے بعد کچھ بہتر ہو گئی تھی لیکن ساری باتوں کو یاد نہیں رکھ سکی تو عمل کیسے کرتی۔۔۔۔ لہجے میں تکلیف کے ساتھ شرمندگی کی آمیز تھی۔
اپنی جاب والی جگہ پر جب اداس ہوتی تو ایک سینئر مجھے حوصلہ دیتے تھے، ادھر ادھر کی باتیں کر کے دل بہلاتے۔
ایک دن کہنے لگے نمبر دے دو اپنا یا میرا لے لو اگر گھر میں کبھی اداسی ہوئی یا اور مسئلہ تو میں آپ کی مدد کر دیا کروں گا، میں نے نمبر دے دیا۔
دو تین بعد چھٹی والے دن اُن کے پیغامات آنے لگے کہ کیسی ہو ، کیا چل رہا ہے، دن کیسا ہے گھر میں سب کیسے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ سب ٹھیک ہیں اور مجھے کچھ خوشی ہوئی کہ چلو کوئی انسان تو دھارس بندھاتا ہے۔
تین چار ہفتوں بعد اُن کے بات کرنے کا سٹائل بدلنے لگا اور عجیب ذومعنی انداز میں باتیں کرنے لگے تو میں نے کہا صاف بات بتائیں کہ کیا کہنا چاہتے ہیں؟
اُنہوں نے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا اور ہماری بات چیت کا رُخ بدلنے لگا۔۔۔۔ چند ماہ بعد میں نے کہا کہ آپ رشتہ بھیجیں پلیز تو وہ مجھے نظر انداز کرنے لگے، باتیں کم سے کم ہوتیں گئیں۔۔۔۔
وہ کبھی کبھار پیغامات بھیجتے یا کال کرتے تو  میں نے جواب دینا چھوڑ دیا ، پہلی دفعہ میں آپ کے پاس اسی لئے آئی تھی گو کہ میں اپنی بات کہہ نہیں پائی تھی، وہ فرش کو تکتے ہوئے بھیگے لہجے میں بتا رہی تھی۔
پہلے سیشن کے بعد میں بہت فریش اور ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگی تھی لیکن اُن کو منع نہیں کر پائی، اُس گہری کالی آنکھوں والی لڑکی کا لہجہ بھیگتا تھا۔
اُن سینئر کی وجہ سے میں اور بہت پریشان ہو گئی تو ایک رشتے دار ہیں اُن کے بیٹے نے وجہ پوچھی تو میں نے کہا نہیں سب ٹھیک ہے۔
وہ ہر روز گھر آنے لگا اور مجھے پیغامات بھی کرنے لگا کہ بتاؤ کیوں پریشان ہو، میں نے جھوٹ بولا کہ گھر کے حالات کی وجہ سے ایسی ہوں، دو تین ہفتے اُس نے بھی نارمل بات کی اور پھر وہ بھی۔۔۔۔۔ بھیگے لہجے میں بے بسی بھی شامل ہو چکی تھی۔
اُس سے بھی بات کی کہ شادی کب کرو گے اُس نے بلاک کیا اور بات ختم۔۔۔۔ بے بسی، بے چادگی کے علاوہ میری پاس الفاظ نہیں کہ میں لہجے کو بیان کروں۔
سفید ہیروں کی ایک لڑی تھی جو اُس کی بڑی بڑی آنکھوں سے شروع ہو کر ہلکے بھورے رنگ کی بڑی چادر تک نظر آتی تھی اور اُس کے آگے اُس لڑکی کا دامن بھیگتا تھا۔
” نشہ بڑھتا ہے اگر شرابیں شرابوں سے ملیں۔۔۔۔  کرب،ذہنی اذیت، بے چارگی، بے بسی، بے سہارا اور آنسو۔۔۔۔ انسان کتنی تکلیف سہتا ہو گا۔۔۔۔“
میز پہ پڑی کتاب کو گھورتے ہوئے سوالیہ لہجے میں رُک رُک کر کہنے لگی ” تکلیف میں ہی انسان کو زیادہ مسئلوں کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے۔۔۔۔“
دیکھیں جی، دکھی موقعے ہر دھوکے کو اپنی طرف کھینچتے ہیں، یوں کہہ لیں کہ دکھ تکلیف ایک مقناطیس ہے اور دھوکے لوہا۔
لڑکیاں ویسے بھی ”ایوشنلی ریچ“ ( زیادہ جذباتی) ہوتی ہیں تو تکلیف اور دکھ کے موقعے پر یہ جذبات اور زیادہ ہو جاتے ہیں۔
ہماری عقلوں پہ پردہ انہی جذبات کی وجہ سے پڑتا ہے، ہم غموں کے سمندر میں ڈوب رہے ہوتے ہیں ، آنکھوں پہ جذبات کی پڑی ہوتی ہے تو ہم تنکے کو بھی مضبوط سہارا سمجھ کر پکڑنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ پکڑ لیتے ہیں۔
اُس تنکے کو پکڑنے کے بعد ہمیں غموں کے ساتھ ساتھ پچھتاؤں کی آگ کا بھی سامنا کرتے پڑتا ہے، ہمارے اندر سے ایک ہوک اُٹھتی ہے جو بے حد اذیتناک ہوتی ہے اور ایک خلش دل میں پناہ لیتی ہے کہ کاش۔۔۔۔ کاش۔۔۔۔ میں نے اس تنکے کو نہ پکڑا ہوتا، غموں کے سمندر میں رہتے ہوئے تیرنا سیکھ جاتی تو پچھتاؤں کی آگ میں نہ جلنا پڑتا۔
ابھی ”ڈولے بیراں دا کج نی ویگڑیا“ ابھی گرے ہوئے بیروں کا کچھ نہیں بگڑا۔
آپ آج سے تیرنا سیکھنا شروع کر دیں، ہم آپ کی مشق کروں گے اور جذبات کو نکیل کیسے ڈالنی ہے، جھوٹے سہاروں اور تسلی دلاسے دینے والوں کو اُن کی حد میں کیسے رکھنا ہے، سب سیکھائیں گے۔
 ہمارا دوسرا سیشن ختم چکا تھا۔
                                         
 
                                                                                                     
                                         
   
   
   
   
     
   
   
  