Mental Health - Psychiatry

Mental Health - Psychiatry Facing depression, anxiety, panic attacks, stress, or relationship challenges? You’re not alone. Reach out—we're here to help you heal and grow.

Compassionate, confidential support for mental health and marriage issues is just a message away.

30/10/2025

An old session..

”گہرے صدمات اور ٹوٹے دل والوں کے نام“
یہ سیشن اُن کے نام، جن کو کوئی شدید گہرا صدمہ پہنچا ہے، دل ٹوٹا ہے یا کسی بھی وجہ سے گہری چوٹ کھائی ہے۔“

یہ سیشن ایک لڑکی کا تھا جو سوشل میڈیا اور عملی زندگی میں اپنے دکھ درد اور تکلیفوں کی وجہ سے سہارا ڈھونڈ نے نکلی تھی۔

وہ اپنی بڑی سی چادر کو تھوڑا سا اور سمٹ کر میرے سامنے بیٹھتے ہی کہنے لگی:

انسان کو تکلیف یا بُرے وقت میں ہی کیوں اور زیادہ مسئلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لہجے میں بلا کا دکھ اور نمی تھی

اُس نے اپنا سر تھوڑا سا اُوپر اُٹھایا جیسے وہ ربّ سے کوئی شکوہ کرکے اپنی بڑی بڑی آنکھوں کے آنسو کو رکتی ہو۔

میرے والد کی ڈیت ہوئی، میں تپتے صحرا میں آگئی، بھوکی پیاسی تھی دور دور تک کوئی نخلستان نہیں تھا، کیا کرتی زندگی ہے چلنا تو پڑتا ہے، جاب ڈھونڈی اور جاب کرنے لگی۔

گھر کے حالات کچھ ٹھیک ہوئے تو مجھے بھی وقت کے ساتھ ساتھ صبر آنے لگا تھا لیکن کچھ دکھ عمروں کے ہوتے ہیں کہاں جان چھوڑتے ہیں۔

میں اکثر اداس رہتی تھی اور اب بھی ہوں، پہلے سیشن کے بعد کچھ بہتر ہو گئی تھی لیکن ساری باتوں کو یاد نہیں رکھ سکی تو عمل کیسے کرتی۔۔۔۔ لہجے میں تکلیف کے ساتھ شرمندگی کی آمیز تھی۔

اپنی جاب والی جگہ پر جب اداس ہوتی تو ایک سینئر مجھے حوصلہ دیتے تھے، ادھر ادھر کی باتیں کر کے دل بہلاتے۔

ایک دن کہنے لگے نمبر دے دو اپنا یا میرا لے لو اگر گھر میں کبھی اداسی ہوئی یا اور مسئلہ تو میں آپ کی مدد کر دیا کروں گا، میں نے نمبر دے دیا۔

دو تین بعد چھٹی والے دن اُن کے پیغامات آنے لگے کہ کیسی ہو ، کیا چل رہا ہے، دن کیسا ہے گھر میں سب کیسے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ سب ٹھیک ہیں اور مجھے کچھ خوشی ہوئی کہ چلو کوئی انسان تو دھارس بندھاتا ہے۔

تین چار ہفتوں بعد اُن کے بات کرنے کا سٹائل بدلنے لگا اور عجیب ذومعنی انداز میں باتیں کرنے لگے تو میں نے کہا صاف بات بتائیں کہ کیا کہنا چاہتے ہیں؟

اُنہوں نے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا اور ہماری بات چیت کا رُخ بدلنے لگا۔۔۔۔ چند ماہ بعد میں نے کہا کہ آپ رشتہ بھیجیں پلیز تو وہ مجھے نظر انداز کرنے لگے، باتیں کم سے کم ہوتیں گئیں۔۔۔۔

وہ کبھی کبھار پیغامات بھیجتے یا کال کرتے تو میں نے جواب دینا چھوڑ دیا ، پہلی دفعہ میں آپ کے پاس اسی لئے آئی تھی گو کہ میں اپنی بات کہہ نہیں پائی تھی، وہ فرش کو تکتے ہوئے بھیگے لہجے میں بتا رہی تھی۔

پہلے سیشن کے بعد میں بہت فریش اور ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگی تھی لیکن اُن کو منع نہیں کر پائی، اُس گہری کالی آنکھوں والی لڑکی کا لہجہ بھیگتا تھا۔

اُن سینئر کی وجہ سے میں اور بہت پریشان ہو گئی تو ایک رشتے دار ہیں اُن کے بیٹے نے وجہ پوچھی تو میں نے کہا نہیں سب ٹھیک ہے۔

وہ ہر روز گھر آنے لگا اور مجھے پیغامات بھی کرنے لگا کہ بتاؤ کیوں پریشان ہو، میں نے جھوٹ بولا کہ گھر کے حالات کی وجہ سے ایسی ہوں، دو تین ہفتے اُس نے بھی نارمل بات کی اور پھر وہ بھی۔۔۔۔۔ بھیگے لہجے میں بے بسی بھی شامل ہو چکی تھی۔

اُس سے بھی بات کی کہ شادی کب کرو گے اُس نے بلاک کیا اور بات ختم۔۔۔۔ بے بسی، بے چادگی کے علاوہ میری پاس الفاظ نہیں کہ میں لہجے کو بیان کروں۔

سفید ہیروں کی ایک لڑی تھی جو اُس کی بڑی بڑی آنکھوں سے شروع ہو کر ہلکے بھورے رنگ کی بڑی چادر تک نظر آتی تھی اور اُس کے آگے اُس لڑکی کا دامن بھیگتا تھا۔

” نشہ بڑھتا ہے اگر شرابیں شرابوں سے ملیں۔۔۔۔ کرب،ذہنی اذیت، بے چارگی، بے بسی، بے سہارا اور آنسو۔۔۔۔ انسان کتنی تکلیف سہتا ہو گا۔۔۔۔“

میز پہ پڑی کتاب کو گھورتے ہوئے سوالیہ لہجے میں رُک رُک کر کہنے لگی ” تکلیف میں ہی انسان کو زیادہ مسئلوں کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے۔۔۔۔“

دیکھیں جی، دکھی موقعے ہر دھوکے کو اپنی طرف کھینچتے ہیں، یوں کہہ لیں کہ دکھ تکلیف ایک مقناطیس ہے اور دھوکے لوہا۔

لڑکیاں ویسے بھی ”ایوشنلی ریچ“ ( زیادہ جذباتی) ہوتی ہیں تو تکلیف اور دکھ کے موقعے پر یہ جذبات اور زیادہ ہو جاتے ہیں۔

ہماری عقلوں پہ پردہ انہی جذبات کی وجہ سے پڑتا ہے، ہم غموں کے سمندر میں ڈوب رہے ہوتے ہیں ، آنکھوں پہ جذبات کی پڑی ہوتی ہے تو ہم تنکے کو بھی مضبوط سہارا سمجھ کر پکڑنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ پکڑ لیتے ہیں۔

اُس تنکے کو پکڑنے کے بعد ہمیں غموں کے ساتھ ساتھ پچھتاؤں کی آگ کا بھی سامنا کرتے پڑتا ہے، ہمارے اندر سے ایک ہوک اُٹھتی ہے جو بے حد اذیتناک ہوتی ہے اور ایک خلش دل میں پناہ لیتی ہے کہ کاش۔۔۔۔ کاش۔۔۔۔ میں نے اس تنکے کو نہ پکڑا ہوتا، غموں کے سمندر میں رہتے ہوئے تیرنا سیکھ جاتی تو پچھتاؤں کی آگ میں نہ جلنا پڑتا۔

ابھی ”ڈولے بیراں دا کج نی ویگڑیا“ ابھی گرے ہوئے بیروں کا کچھ نہیں بگڑا۔

آپ آج سے تیرنا سیکھنا شروع کر دیں، ہم آپ کی مشق کروں گے اور جذبات کو نکیل کیسے ڈالنی ہے، جھوٹے سہاروں اور تسلی دلاسے دینے والوں کو اُن کی حد میں کیسے رکھنا ہے، سب سیکھائیں گے۔

ہمارا دوسرا سیشن ختم چکا تھا۔

Aslam o alikum and very good morning everyone!!Have a little laugh and a wonderful day!! 😊💐
30/10/2025

Aslam o alikum and very good morning everyone!!
Have a little laugh and a wonderful day!! 😊💐

29/10/2025

Today's Session...


دیکھیں جی، میں نے پہلے ہی کہا تھا — صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے،
بس مسئلہ یہ ہے کہ ہم اکثر پھل پکنے سے پہلے ہی درخت ہلا دیتے ہیں۔ 😅

میں نے مسکراتے ہوئے ڈائری کھولی اور کہا،
“یاد ہے وہ دن جب میں نے کہا تھا کہ اگر آپ کسی کو جاننا چاہتی ہیں تو اپنی ہر بات اُس سے شیئر کرنا بند کر دیں؟
اگر وہ واقعی پرواہ کرتا ہے، تو تین چار دن بعد خود پوچھے گا۔
ورنہ خاموشی کا دروازہ کھول کر، عزت کے ساتھ باہر نکل آئیں — کیونکہ جہاں دل کی باتوں میں دلچسپی نہیں، وہاں رشتہ صرف وہم رہ جاتا ہے۔”

نوجوان لڑکی مسکرائی، مگر اُس مسکراہٹ میں ایک اداس حقیقت چھپی تھی۔
بولی:
“ڈاکٹر صاحب، آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے تھے۔
میں نے شیئرنگ بند کی تو باتیں ختم ہو گئیں۔
اور تب سمجھ آئی کہ وہ کبھی سننے والا تھا ہی نہیں۔
میرا راستہ بدل چکا ہے، کیونکہ میں حقیقت جان چکی ہوں…”

میں نے نرم لہجے میں کہا:
“دیکھیں، جب بھی کسی نیوٹرل انسان یا ماہرِ نفسیات سے مشورہ لیں،
تو اُس کی بات کو اپنے جذبات پر فوقیت دیں —
کیونکہ اکثر دل ہمیں وہاں لے جاتا ہے جہاں دماغ پہلے ہی انتباہ دے چکا ہوتا ہے۔”

Sometimes silence reveals more truth than words ever could.

29/10/2025

Yesterday's session...


”بیوی / خاوند، اور ایک اچھا دوست“

یہ ہمارا پانچواں سیشن تھا۔ شادی کو چار سال ہو چکے تھے، مگر رشتہ دن بدن جھگڑوں، تلخیوں اور خاموش جنگوں میں الجھتا جا رہا تھا۔
چھوٹی چھوٹی باتیں ”بلا“ بن کر دونوں کو نگل رہی تھیں۔
ہر دوسری بات انا کا مسئلہ بن جاتی، اور پھر وہی معمولی بات ہفتوں کا طوفان بن جاتی۔

نوجوان پہلے اکیلا آیا۔
بولا:
“ڈاکٹر صاحب، میں تھک گیا ہوں۔ سر میں ہر وقت درد رہتا ہے۔ کسی چیز میں دل نہیں لگتا۔ دفتر میں بھی چھوٹی چھوٹی باتوں پہ غصہ آ جاتا ہے۔ میں خود کو پہچان نہیں پا رہا…”

پہلا سیشن مکمل ہوا۔ میں نے کہا:
“کپل تھراپی کروائیں، یہ زخم دونوں کے ہیں — دوا بھی دونوں کو چاہیے۔”
وہ مان گیا۔
اگلے سیشن میں دونوں میاں بیوی سامنے بیٹھے تھے۔

میں نے الگ الگ سنا، پھر ساتھ بھی۔
دلچسپ بات یہ تھی کہ دونوں میں سچائی تھی — کوئی جھوٹ، کوئی ڈرامہ نہیں۔ بس ایک چیز تھی… تھکن۔
رشتے سے، باتوں سے، خود سے۔

میں نے نرمی سے کہا:
“دیکھیں جی، آج سے ایک اصول بنا لیں۔
جب کوئی بات بری لگے یا بحث شروع ہو جائے تو دل میں چار سوال کریں:”

1️⃣ کیا یہ بات دس منٹ بعد بھی اتنی اہم ہو گی؟
2️⃣ کل یہ بات میرے لیے کوئی معنی رکھے گی؟
3️⃣ ایک ہفتے بعد کیا یہ جھگڑا یاد بھی رہے گا؟
4️⃣ کیا یہ بات ایک سال بعد ہمارے رشتے کو مضبوط کرے گی یا توڑ دے گی؟

اگر جواب ’نہیں‘ میں ہو — تو خاموش ہو جائیں، گہری سانس لیں، اور نرمی سے کہیں:
“یہ بات اتنی اہم نہیں کہ ہم اپنی انرجی اور محبت ضائع کریں۔”

دیکھیں جی،
رشتے بنائے نہیں جاتے، نبھائے جاتے ہیں۔
اور انہیں نبھانے کے لیے پیار، ایثار، نرم دلی، عزت، برداشت…
اور سب سے بڑھ کر — میٹھی زبان درکار ہوتی ہے۔

سیشن کے اختتام پہ، جب وہ جانے لگے،
میں نے نوجوان کو واپس بلایا اور کہا:

“ہم اُس عورت کو کبھی کسی دوسری عورت سے نہیں بدل سکتے،
جس سے ہمیں بیوی اور بیسٹ فرینڈ والی ویبز آتی ہوں۔”

نوجوان مسکرایا، آنکھوں میں نمی تھی مگر دل میں سکون۔
اُس لمحے مجھے یقین ہو گیا — یہ رشتہ بچ گیا ہے۔

“The best relationships aren’t perfect, they’re protected — with patience, love, and understanding.”

29/10/2025

Autumn 🍂 vibes ❤️❤️

29/10/2025

ذہنی بیماری کو ہم نے کلنک یا سٹیگما بنا دیا ہے۔
حالانکہ ذہنی بیماری کی تشخیص ہونا اس بات کا اعلان نہیں کہ آپ کمزور ہیں —
یہ صرف یہ بتاتی ہے کہ آپ انسان ہیں،
جو محسوس بھی کرتا ہے، تھکتا بھی ہے، اور کبھی کبھار ٹوٹ بھی جاتا ہے۔

دماغ بھی جسم کی طرح ایک عضو ہے۔
جب جسم کے اعضا بیمار ہو سکتے ہیں تو ذہن کیوں نہیں؟
ذہن کا بیمار ہونا شرم نہیں، ایک حقیقت ہے —
اور سب سے بہادر وہ ہے جو مدد مانگنے کی ہمت رکھتا ہے۔

“Mental illness is not a weakness — it’s a sign that you’ve been strong for too long.”

29/10/2025

ڈپریشن — Depression


ڈپریشن دورِ حاضر کی سب سے عام اور خاموش تباہ کن بیماریوں میں سے ایک ہے۔
یہ بیماری صرف ذہن کو نہیں، بلکہ جسم، جذبات اور روح کو بھی تھکا دیتی ہے۔

ڈپریشن کے مریض عام طور پر بے خوابی، ذہنی انتشار، تھکن، اداسی اور بے مقصدیت کا شکار ہوتے ہیں۔
شدید صورت میں یہ کیفیت انسان کو خودکشی جیسے خطرناک خیال تک بھی لے جا سکتی ہے۔

پہلے ڈپریشن کو درمیانی عمر یا بڑھاپے کی بیماری سمجھا جاتا تھا،
لیکن آج — نوجوان بھی اس کے شکنجے میں جکڑے جا رہے ہیں۔

یہ کیوں ہو رہا ہے؟
ماہرینِ نفسیات کے مطابق، اس کی سب سے بڑی وجہ ہے
سماجی اور معاشی تبدیلیاں، اکیلا پن، رشتوں کی کمزوری، اور بے پناہ دباؤ۔

آج ہر شخص دوڑ میں ہے —
بہتر زندگی، زیادہ کمائی، اچھی نوکری، خوبصورت دکھنے، اور دوسروں سے آگے نکلنے کی دوڑ۔
مگر اس دوڑ میں انسانی تعلقات پیچھے رہ گئے ہیں۔
خاندان، دوستی، محبت — سب ”نوٹیفکیشن“ کی طرح وقتی ہو گئے ہیں۔

🔹 ڈپریشن کی دو بڑی اقسام:
1️⃣ سادہ ڈپریشن (Simple Depression) — جو وقتی حالات کی وجہ سے ہوتا ہے، اور اکثر خود ہی بہتر ہو جاتا ہے۔
2️⃣ کلینیکل ڈپریشن (Clinical Depression) — جو لمبے عرصے تک رہتا ہے، اور اس کے لیے ماہرِ نفسیات کی مدد لازمی ہوتی ہے۔

اگر افسردگی کی کیفیت ہفتوں تک قائم رہے، نیند، بھوک یا دلچسپی میں کمی آئے،
یا زندگی بوجھ لگنے لگے — تو فوراً کسی پروفیشنل سے رجوع کریں۔

😌 لیکن یاد رکھیں — ڈپریشن کا علاج ممکن ہے!
اور اس کا آغاز آپ خود سے کر سکتے ہیں۔

🌿 اپنے ذہن و دل کو بہتر بنانے کے چند آسان اصول:

1️⃣ مثبت سرگرمیاں شروع کریں۔
سستی، کاہلی، اور فارغ وقت — ڈپریشن کے بہترین دوست ہیں۔
کچھ نیا کریں، مصروف رہیں، اور اپنی انرجی کو مثبت رخ دیں۔

2️⃣ دوسروں کی مدد کریں۔
کسی کے چہرے پر مسکراہٹ لانا خود کے لیے بھی ایک تھراپی ہے۔
Empathy heals — both ways.

3️⃣ مثبت سوچ اپنائیں۔
زندگی کے ہر پہلو کو منفی زاویے سے دیکھنا چھوڑیں۔
چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں خوش ہونا سیکھیں —
کبھی کسی مذاق پہ دل کھول کر ہنسنا بھی ”دوائی“ بن جاتا ہے۔

4️⃣ ورزش کو زندگی کا حصہ بنائیں۔
روزانہ 30 منٹ واک یا جوگنگ — ذہنی تناؤ کو کم کر دیتی ہے۔
ورزش، قدرتی اینٹی ڈپریسنٹ ہے۔

5️⃣ روشنی اور ہوا میں جئیں۔
اندھیرے کمروں اور بند کھڑکیوں سے باہر نکلیں۔
سورج کی روشنی، تازہ ہوا، اور کھلی جگہ — ذہن کو روشنی بخشتی ہے۔

اور سب سے بڑھ کر —
کبھی کسی کو، خاص طور پر خود کو، تحقیر کا نشانہ نہ بنائیں۔
انسان کی توہین سب سے بڑا زہر ہے —
یہ ضمیر کو زخمی کرتی ہے، اور ضمیر کی خلش ہی سب سے بڑا عذاب ہے۔

✨ “Healing begins the day you stop being cruel to yourself.”

29/10/2025

Today's session..

آج پانچ سیشنز کے بعد یہ کہنے پہ مجبور ہو گیا ہوں۔۔

”مرد اپنی عزتّ خود کھو رہے ہیں، عورت آزادی نہیں مانگتی بلکہ وہ حق مانگتی ہے جس کو کبھی مذہب کارڈ اور کبھی اپنی روایات کے نام پر غلط رنگ دے کر دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔“

“A woman doesn’t seek freedom, she seeks fairness.”

29/10/2025

Today’s session...


میں نے آہستہ کہا،
"آپ در در کی ٹھوکریں کھانا چھوڑ دیں۔"

اُس نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور فوراً پوچھا،
"ڈاکٹر صاحب، در در کی ٹھوکروں سے کیا مطلب؟"

میں مسکرایا اور بولا،
"دردر کی ٹھوکریں وہ ہیں جو انسان اپنی سیلف ایسٹیم کی کمزوری کی وجہ سے خود کھاتا ہے۔
وہ سمجھتا ہے کہ مہنگے کپڑے، خوبصورت جوتے، چمکتی گاڑی، قیمتی گھڑی یا برانڈیڈ فون…
یہ سب اُس کی عزت، وقار اور پہچان ہیں۔"

مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سب صرف وقتی تسکین دیتے ہیں۔
اصل عزت، اصل اطمینان اور اصل طاقت اندر سے آتی ہے —
جب آپ اپنی خودی، اپنی قدر اور اپنی صلاحیت پہ یقین کرنا سیکھتے ہیں۔

میں نے کہا،
"آپ اپنی Self-Esteem پر کام شروع کریں۔
مرر لرننگ (Mirror Learning) اپنائیں —
اُن لوگوں کے قریب رہیں جو آپ سے بہتر ہیں، جو مثبت ہیں، جو خود پہ یقین رکھتے ہیں۔
اُن سے سیکھیں کہ وہ مشکل حالات میں خود کو کیسے سنبھالتے ہیں،
کیسے اپنی توانائی کو ضائع نہیں ہونے دیتے۔"

جب آپ دوسروں کی خوبیاں سیکھنا شروع کرتے ہیں،
تو وہ خوبیاں آپ میں ریفلیکٹ ہونے لگتی ہیں۔
یہی خوبصورت ترین ترقی ہے — اندر کی ترقی۔

“When you stop chasing validation, you start finding peace.”

29/10/2025

لوگ کیا کہتے ہیں؟ کیوں کہتے ہیں؟ کیسے کہتے ہیں؟
صدقِ دل سے کہیے، اس سے ہمیں کیا لینا دینا؟ 😏

دنیا تو اُس وقت بھی بولتی تھی جب فرشتے زمین پر نہیں اُترے تھے!
آپ خوبصورت تھے، خوبصورت ہیں، اور خوبصورت رہیں گے —
بس شرط یہ ہے کہ آپ خود کو پہچانیں، مانیں، اور اپنی خامیوں سمیت قبول کریں۔

جب آپ خود کو قبول نہیں کریں گے،
تو لوگ یقیناً “ایکسپرٹِس آف کریٹیسزم” بن جائیں گے۔ 🎭
اس لیے اپنی قدر خود کریں —
کیونکہ خود سے ناراض لوگ دنیا سے کبھی خوش نہیں رہ سکتے۔

“The moment you start accepting yourself, the world starts adjusting.”

29/10/2025

Today's Session...


یہ سیشن اُن سب کے نام جن کے گھر میں ماں، بہن یا بیٹی کا رشتہ موجود ہے — کیونکہ یہ کہانی ان سب سے جڑی ہوئی ہے۔

ایک لڑکی کی طلاق کو آٹھ ماہ گزر چکے تھے، مگر وہ ابھی تک اُس دکھ، اُس ذلت اور اُس خالی پن سے باہر نہیں نکل پائی تھی۔
پہلا سیشن شوہر اور طلاق سے جڑی کہانی پہ ہوا،
دوسرا سیشن طلاق کے بعد کے زخموں پر،
اور آج کا سیشن — نئے سرے سے جینے کے ہنر پہ۔

آج اُس کے والد صاحب بھی سیشن میں شامل تھے۔
اکیلے، تھکے ہوئے، چہرے پہ ندامت، مگر لہجے میں وہی پرانی سماجی روایات۔

بولے:
“ڈاکٹر صاحب، اگر یہ چپ رہتی، برداشت کر لیتی تو سب ٹھیک ہو جاتا۔ چند سال کی بات تھی۔ آخر قربانی تو دینی پڑتی ہے نا؟ کبھی کبھار ہاتھ اُٹھ ہی جاتا تھا تو زبان درازی کی وجہ سے ہی اُٹھتا ہو گا…”

میں خاموشی سے سنتا رہا۔
جب وہ رک گئے تو نرمی سے پوچھا:

“کیا شادی سے پہلے آپ کی بیٹی بدتمیز تھی؟ گھر میں کسی سے اونچی آواز میں بات کرتی تھی؟”
انہوں نے فوراً کہا: “نہیں۔”

“کبھی سکول، کالج، یونیورسٹی سے شکایت آئی؟”
“نہیں۔”

“بیگم کی وفات کے بعد گھر کس نے سنبھالا؟”
“اسی نے۔”

“کبھی آپ کی عزت پر حرف آیا؟ کبھی کسی نے کردار پر انگلی اٹھائی؟ بے حیا کہا؟”
“نہیں، کبھی نہیں…”

میں مسکرایا، اور دھیرے سے کہا:
“تو پھر آپ نے ایک ایسے انسان کی بات پر کیسے یقین کر لیا،
جو آپ کی بیٹی کو صرف چند مہینوں سے جانتا تھا…؟”

“وہ کم پڑھے لکھے انسان کا احساسِ کمتری روز کے معمولات کا حصہ تھا۔
اپنی ناکامی چھپانے کے لیے وہ اُسے ذلت کے طوفانوں میں دھکیلتا رہا۔
خود اپنی ازدواجی ذمہ داریاں پوری نہ کر سکا،
اور فون پہ اپنی ہوس مٹاتا رہا…”

میں رکا، سانس بھری اور نرمی سے کہا:
“یہ آپ کی بیٹی کی غلطی نہیں تھی، یہ اُس معاشرے کی غلطی ہے
جو بیٹی کے صبر کو کمزوری سمجھتا ہے۔”

بزرگوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
انہوں نے اپنی بیٹی کے آگے ہاتھ جوڑ دیئے اور گلے لگا لیا۔
میں اٹھ کر آفس سے باہر آ گیا۔
کیونکہ کچھ مناظر، الفاظ سے زیادہ بولتے ہیں۔

🔸 یاد رکھیں:
اگر کسی بیٹی، بہن یا ماں کی طلاق ہو جائے تو فوراً شوہر کی کہانی پر یقین مت کریں۔
اکثر طلاقوں میں لڑکی کے کردار پہ انگلی اٹھا کر کیس بند کر دیا جاتا ہے۔
کبھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ —
"وہ باشعور تھی، اس لیے ایک جاہل کے ساتھ نبھا نہ کر سکی۔"

سوچ بدلیں — ہم مرد ہمیشہ "آلوئیز رائیٹ " نہیں ہوتے۔

“Don’t judge her story by the version told by the one who broke her.”

29/10/2025

Today's session…

اگر آپ کا دل اپنی اولاد کے لیے بہت نرم ہے، تو اس نرمی کا آدھا حصہ ہی سہی، اپنی زبان میں بھی شامل کر لیجیے۔
محبت صرف دل میں رکھنے سے نہیں، لہجے میں جھلکنے سے پروان چڑھتی ہے۔ ❤️

نرمی دل میں ہو تو یہ انسانیت ہے،
اور اگر زبان میں بھی ہو تو یہ جنت ہے۔ 🌿

“Let your heart’s softness reflect in your words — that’s where love truly begins.”

Address

Grafton Street
Dublin

Telephone

+92518467276

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Mental Health - Psychiatry posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram

Category