Sultan Hospital, Jauharabad

Sultan Hospital, Jauharabad medical specialist, child specialist, ultrasound specialist radiologist

09/09/2025

بچوں کی ماں کو "بدمعاشی" کا موقع نہ دیں!

یہ بات شاید تلخ لگے لیکن حقیقت یہی ہے کہ اکثر گھروں میں سب سے زیادہ بچوں پر چیخنے چلانے والی، اور دوسروں رشتہ داروں کے بارے میں تلخ الفاظ استعمال کرنے والی شخصیت خود بچوں کی اپنی ماں ہوتی ہے۔ وہی ہستی جو بچوں کی پہلی پناہ گاہ ہونی چاہیے، کبھی کبھی نادانی یا غصے میں ان کے دل کو سب سے زیادہ زخمی کر دیتی ہے۔

ماں کا غصہ بعض اوقات بے جا ہوتا ہے۔ ذرا سی غلطی پر زور سے چیخ دینا، چھوٹی سی بات پر بچے کی شخصیت کو کچل دینے والے جملے بول دینا، یا اپنے ہی بھائی، بہن، دیور، نند، ساس، یا کسی اور رشتے دار کے بارے میں بچوں کے سامنے بار بار شکایتیں اور گالیاں دہرانا—یہ سب کچھ بچوں کے دل میں زہر گھول دیتا ہے۔ بچہ اپنی معصوم آنکھوں سے ماں کو دیکھتا ہے، اور یہ منظر اس کے اندر ایک ایسا خوف اور نفرت پیدا کر دیتا ہے جس سے وہ ساری زندگی لڑتا رہتا ہے۔

جب ایک ماں بچے سے کہتی ہے کہ "تم کبھی کچھ نہیں بنو گے"، "تم بالکل اپنے فلاں رشتہ دار کی طرح ہو"، "یہ رشتہ دار سب برے ہیں" یا "یہ تمہارے چچا/ماموں/خالہ/پھوپھی ایسے ہیں" تو بچہ نہ صرف اپنی شخصیت کو حقیر سمجھنے لگتا ہے بلکہ اپنے خاندان کے بڑے حصے کو دشمن سمجھنے لگتا ہے۔ یوں اس کا بچپن کدورتوں سے بھرنے لگتا ہے۔ وہ بچہ اعتماد کی بجائے خوف، محبت کی بجائے نفرت، اور عزت کی بجائے بداعتمادی کو سیکھتا ہے۔

ماں اگر روزانہ چیختی چلاتی رہے، ہر غلطی پر بچے کی عزتِ نفس توڑ دے، یا خاندان کے ہر رشتہ دار کو برا بھلا کہے، تو وہ صرف غصہ نکال رہی ہوتی ہے مگر بچے کے دل پر نقش اُبھرتے جاتے ہیں۔ بچے کے لیے یہ سب الفاظ مستقل "ریکارڈنگ" کی طرح ہیں۔ بعد میں وہ بڑے ہو کر اپنے آپ سے بھی نفرت کرنے لگتے ہیں، اپنے خاندان سے بھی دور ہو جاتے ہیں اور اکثر ایک تلخ مزاج یا بداعتماد شخصیت کے مالک بن جاتے ہیں۔

یاد رکھیں، بچے اپنے دل میں بہت کچھ دفن کر لیتے ہیں لیکن کچھ بھی بھولتے نہیں۔ ماں کے سخت جملے اور رشتہ داروں کے بارے میں نفرت انگیز باتیں ان کے لاشعور میں ہمیشہ کے لیے بیٹھ جاتی ہیں۔ ایک ایسا بچہ جو ہر وقت ڈانٹ اور نفرت سنتا ہے، وہ اپنے اندر خوشی اور سکون کی دنیا تعمیر نہیں کر سکتا۔

اس لیے ضروری ہے کہ ماں کو یہ باور کرایا جائے کہ اس کا سب سے بڑا کردار بچوں کو محبت، تحفظ اور اعتماد دینا ہے، نہ کہ انہیں چیخ چیخ کر خوفزدہ کرنا اور دوسروں کے بارے میں نفرت بھر دینا۔ ماں کو اپنے غصے اور زبان پر قابو پانا ہوگا۔ ورنہ وہ خود اپنی اولاد کے دل میں وہ زہر بو رہی ہے جو آنے والے کل میں خاندان کو توڑ دے گا اور بچے کو نفسیاتی مریض بنا دے گا۔

ماں کی عزت اپنی جگہ لیکن بچے کی معصومیت اور اس کی خود اعتمادی کا تحفظ اس سے کہیں زیادہ مقدم ہے۔ اس لیے بچوں کے باپ کو بھی چاہیے کہ وہ احترام کے ساتھ مگر واضح طور پر ماں کو روکیں کہ وہ اپنی زبان اور رویے سے بچوں کی نفسیات کو نہ کچلے۔ کیونکہ اصل ذمہ داری والدین دونوں پر ہے کہ بچے کا دل محبت سے بھرا ہوا ہو، نہ کہ چیخوں اور کدورتوں سے۔

آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے:
بچوں کی ماں کو بدمعاشی کا موقع نہ دیں، کیونکہ بچوں کا دل سب سے نرم ہوتا ہے، اور سب سے گہرا زخم بھی وہیں سے لگتا ہے جہاں سے اسے نرمی اور محبت کی سب سے زیادہ توقع ہوتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پس تحریر :
یہ تحریر منصور ندیم صاحب کی تحریر "رشتہ داروں کو بدمعاشی کا موقع نہ دیں" کے اسلوب اور وزن پر بطور مشق لکھی گئی ہے۔ اس کا مقصد صرف یہ سمجھانا ہے کہ اسی طرز کا نفرت انگیز بیانیہ کسی بھی رشتے کے خلاف گھڑا جا سکتا ہے۔ لیکن اسلام کی اصل تعلیم یہ ہے کہ رشتوں کو جوڑا جائے، نفرت اور قطع تعلقی کو ہرگز فروغ نہ دیا جائے۔ اللہ کریم نے رحم کے رشتے کو خاص طور پر اپنی رحمت سے جوڑا ہے اور جو اسے توڑنے کی کوشش کرتا ہے وہ اللہ کی رحمت سے دور کر دیا جاتا ہے۔

حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"الرحم معلقة بالعرش تقول: من وصلني وصله الله، ومن قطعني قطعه الله"
(صحیح بخاری، حدیث 5988، صحیح مسلم، حدیث 2555)

ترجمہ:
رحم (رشتہ داری) عرش سے لٹکی ہوئی ہے اور کہتی ہے: جو مجھے جوڑے گا، اللہ اسے جوڑے گا، اور جو مجھے کاٹے گا، اللہ اسے کاٹے گا۔

09/09/2025
Thanks for being a top engager and making it on to my weekly engagement list! 🎉 رفاقت حسین, Tariq Husnain, Ikram Awan, M...
09/09/2025

Thanks for being a top engager and making it on to my weekly engagement list! 🎉 رفاقت حسین, Tariq Husnain, Ikram Awan, Muhammad Fayyaz, Muhammad Zaid Langah, Malik Qutab Khan Awan, Malik Mujahid Iqbal

09/09/2025

انڈے کھانے کے بارے میں عام غلط فہمیاں اور حقائق 🥚

1: انڈے گرمی پیدا کرتے ہیں
ہمارے معاشرے میں یہ غلط فہمی عام ہے کہ روزانہ انڈہ کھانے سے "گرمی" ہوجاتی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ انڈہ پروٹین سے بھرپور غذا ہے، اور ہر شخص کو اپنے وزن کے مطابق فی کلو 0.8 گرام پروٹین روزانہ چاہیے۔ ایک انڈہ اس ضرورت کا تقریباً آدھا حصہ پورا کر دیتا ہے، جو کہ بالکل نارمل اور صحت بخش عمل ہے۔
اس کے برعکس، لوگ شوق سے تیل میں تلا ہوا سموسہ کھاتے ہیں جو فیٹس سے بھرپور ہوتا ہے اور موٹاپے سمیت کئی بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔ لیکن چونکہ "سموسے" کو صحت کے نقصان دہ اثرات کے ساتھ نہیں جوڑا جاتا، لوگ اسے ترجیح دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک انڈہ، ایک سموسے سے کہیں زیادہ فائدہ مند ہے۔

2: دیسی انڈہ، ولایتی انڈے سے بہتر ہے
انڈے کے خ*ل کی رنگت (براؤن یا سفید) کا تعلق مرغی کی نسل اور رنگت سے ہے، نہ کہ غذائیت سے۔ تحقیق یہ ثابت کر چکی ہے کہ دیسی اور ولایتی انڈے غذائی اعتبار سے برابر ہیں۔ یہ صرف ایک نفسیاتی دھوکہ ہے کہ دیسی انڈہ زیادہ طاقتور ہے۔

3: انڈے کھانے سے کولیسٹرول بڑھتا ہے
یہ سب سے بڑی غلط فہمی ہے۔ دراصل کولیسٹرول کا تعلق انڈے سے زیادہ فیٹس کی اقسام سے ہے۔ گھی یا تیل میں موجود ٹرانس اور سیچوریٹڈ فیٹس کولیسٹرول بڑھاتے ہیں، جبکہ انڈوں میں یہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔
لہٰذا انڈے کا کولیسٹرول دل کی بیماریوں کا باعث نہیں بنتا۔

4: انڈے کی زردی نقصان دہ ہے
اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ زردی فیٹس کی وجہ سے نقصان دہ ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ زردی میں موجود اومیگا تھری فیٹی ایسڈز، وٹامن بی اور دیگر منرلز جلد کو چمکدار بناتے ہیں، سوزش سے بچاتے ہیں اور جسم کو توانائی فراہم کرتے ہیں۔
لہٰذا زردی کھانا بالکل فائدہ مند ہے۔

5: روزانہ انڈے کھانا نقصان دہ ہے
جیسا کہ بتایا گیا، جسم کو روزانہ تقریباً 30 گرام پروٹین چاہیے۔ ایک انڈہ تقریباً 10 سے 15 گرام پروٹین فراہم کرتا ہے، جو بچوں اور بڑوں کی پروٹین کی بڑی ضرورت پوری کر دیتا ہے۔
انڈے میں موجود وٹامنز، منرلز اور اومیگا تھری ہمیں توانا اور صحت مند رکھتے ہیں۔ اس لیے ایک یا دو انڈے روزانہ کھانا بالکل محفوظ ہے۔

6: کچا انڈہ زیادہ طاقتور ہے
یہ بالکل غلط ہے۔ کچے انڈے میں اکثر سالمونیلا بیکٹیریا موجود ہوتا ہے جو خطرناک بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔ لہٰذا کچے انڈے پینے سے طاقت نہیں ملتی بلکہ بیمار ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

✅ یاد رکھیں:

روزانہ ایک یا دو انڈے کھانا صحت کے لیے فائدہ مند ہے۔

انڈے نہ "گرمی" پیدا کرتے ہیں اور نہ ہی یرقان کا باعث بنتے ہیں۔

اصل انتخاب یہ ہے کہ آپ پرانی غلط فہمیوں کے ساتھ جیتے ہیں یا پھر سچائی کو اپنا کر ایک صحت مند زندگی گزارتے ہیں۔

🥚✨ انڈے دراصل قدرت کی طرف سے ایک مکمل اور سستی غذا ہیں جو بچوں اور بڑوں کے لیے یکساں فائدہ مند ہیں۔

07/09/2025

*7ستمبر1965_یوم_فضائیہ*

*‎ *

وہ قوم کبھی بھی ناکام نہیں ہوسکتی جو اپنے ماضی سےتعلق نہیں توڑتی
اپنےشہداء، مجاہدوں
غازیوں اور ہیروز کی قربانیوں کو فراموش نہیں کرتی
کیونکہ انکے کارنامے اور کامیابیاں نوجوان نسل کیلئےمشعل راہ ثابت ہوتی ہیں

03/09/2025

میری ماں کی ایک آنکھ تھی اور وہ میرے سکول کے کیفیٹیریا میں خانسامہ تھی جس کی وجہ سے میں شرمندگی محسوس کرتا تھا سو اُس سے نفرت کرتا تھا ۔ میں پانچویں جماعت میں تھا کہ وہ میری کلاس میں میری خیریت دریافت کرنے آئی ۔ میں بہت تلملایاکہ اُس کو مجھے اس طرح شرمندہ کرنے کی جُراءت کیسے ہوئی ۔ اُس واقعہ کے بعد میں اُس کی طرف لاپرواہی برتتا رہا اور اُسے حقارت کی نظروں سے دیکھتا رہا ۔
اگلے روز ایک ھم جماعت نے مجھ سے کہا “اوہ ۔ تمہاری ماں کی صرف ایک آنکھ ہے”۔ اُس وقت میرا جی چاہا کہ میں زمین کے نیچے دھنس جاؤں اور میں نے ماں سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا ۔ میں نے جا کر ماں سے کہا “میں تمہارھ وجہ سے سکول میں مذاق بنا ہوں ۔ تم میری جان کیوں نہیں چھوڑ دیتی ؟” لیکن اُس نے کوئی جواب نہ دیا ۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کیا کہہ رہا تھا ۔ میں ماں کے ردِ عمل کا احساس کئے بغیر شہر چھوڑ کر چلا گیا ۔
میں محنت کے ساتھ پڑھتا رہا ۔ مجھے کسی غیر مُلک میں تعلیم حاصل وظیفہ کیلئے وظیفہ مل گیا ۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں نے اسی ملک میں ملازمت اختیار کی اور شادی کر کے رہنے لگا ۔ ایک دن میری ماں ھمیں ملنے آ گئی ۔ اُسے میری شادی اور باپ بننے کا علم نہ تھا ۔ وہ دروازے کے باہر کھڑی رہی اور میرے بچے اس کا مذاق اُڑاتے رھے ۔
میں ماں پر چیخا ” تم نے یہاں آ کر میرے بچوں کو ڈرانے کی جُراءت کیسے کی ؟” بڑی آہستگی سے اُس نے کہا “معافی چاہتی ہوں ۔ میں غلط جگہ پر آ گئی ہوں”۔ اور وہ چلی گئی ۔
ایک دن مُجھے اپنے بچپن کے شہر سے ایک مجلس میں شمولیت کا دعوت نامہ ملا جو میرے سکول میں پڑھے بچوں کی پرانی یادوں کے سلسلہ میں تھا ۔ میں نے اپنی بیوی سے جھوٹ بولا کہ میں دفتر کے کام سے جا رہا ہوں ۔ سکول میں اس مجلس کے بعد میرا جی چاہا کہ میں اُس مکان کو دیکھوں جہاں میں پیدا ہوا اور اپنا بچپن گذارہ ۔ مجھے ہمارے پرانے ہمسایہ نے بتا یا کہ میری ماں مر چکی ہے جس کا مُجھے کوئی افسوس نہ ہوا ۔ ہمسائے نے مجھے ایک بند لفافے میں خط دیا کہ وہ ماں نے میرے لئے دیا تھا ۔ میں بادلِ نخواستہ لفافہ کھول کر خط پڑھنے لگا ۔ لکھا تھا.
“میرے پیارے بیٹے ۔ ساری زندگی تُو میرے خیالوں میں بسا رہا ۔ مُجھے افسوس ہے کہ جب تم مُلک سے باہر رہائش اختیار کر چکے تھے تو میں نے تمہارے بچوں کو ڈرا کر تمہیں بیزار کیا ۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ تم اپنے سکول کی مجلس مین شمولیت کیلئے آؤ گے تو میرا دل باغ باغ ہو گیا ۔ مُشکل صرف یہ تھی کہ میں اپنی چارپائی سے اُٹھ نہ سکتی تھی کہ تمہیں جا کر دیکھوں ۔ پھر جب میں سوچتی ہوں کہ میں نے ہمیشہ تمہیں بیزار کیا تو میرا دل ٹُوٹ جاتا ہے ۔
کیا تم جانتے ہو کہ جب تم ابھی بہت چھوٹے تھے تو ایک حادثہ میں تمہاری ایک آنکھ ضائع ہو گئی تھی ۔ دوسری ماؤں کی طرح میں بھی اپنے جگر کے ٹکڑے کو ایک آنکھ کے ساتھ پلتا بڑھتا اور ساتھی بچوں کے طعنے سُنتا نہ دیکھ سکتی تھی ۔ سو میں نے اپنی ایک آنکھ تمہیں دے دی ۔ جب جراحی کامیاب ہو گئی تو میرا سر فخر سے بلند ہو گیا تھا کہ میرا بیٹا دونوں آنکھوں والا بن گیا اور وہ دنیا کو میری آنکھ سے دیکھے گا.

03/09/2025

*حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کبھی کوئی خواہش نہیں کی*
*ایک دن مچھلی کھانے کو دل چاہا تو اپنے غلام یرکا سے اظہار فرمایا۔۔*
یرکا آپ کا بڑا وفادار غلام تھا ایک دن آپ نے فرمایا یرکا آج مچھلی کھانے کو دل کرتا ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے آٹھ میل دور جانا پڑے گا دریا کے پاس مچھلی لینے اور آٹھ میل واپس آنا پڑے گا مچھلی لے کے ۔۔
پھر آپ نے فرمایا رہنے دو کھاتے ہی نہیں ایک چھوٹی سی خواہش کیلئے اپنے آپ کو اتنی مشقت میں ڈالنا اچھا نہیں لگتا کہ اٹھ میل جانا اور اٹھ میل واپس آنا صرف میری مچھلی کے لئے؟
چھوڑو یرکا۔۔۔۔۔۔۔ اگر قریب سے ملتی تو اور بات تھی۔
غلام کہتا ہے میں کئی سالوں سے آپ کا خادم تھا لیکن کبھی آپ نے کوئی خواہش کی ہی نہیں تھی پر آج جب خواہش کی ہے
تو میں نے دل میں خیال کیا کہ حضرت عمر فاروق نے پہلی مرتبہ خواہش کی ہے اور میں پوری نہ کروں۔؟
ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔
غلام کہتے ہیں جناب عمرؓ ظہر کی نماز پڑھنے گئے تو مجھے معلوم تھا ان کے پاس کچھ مہمان آئے ہوئے ہیں عصر انکی وہیں ہوجائے گی۔
غلام کہتا ہے کہ میں نے حضرت عمرؓ کے پیچھے نماز پڑھی اور دو رکعت سنت نماز پڑھ کرمیں گھوڑے پر بیٹھا عربی نسل کا گھوڑہ تھا دوڑا کر میں دریا پر پہنچ گیا..
عربی نسل کے گھوڑے کو آٹھ میل کیا کہتے ؟؟
وہاں پہنچ کر میں نے ایک ٹوکرا مچھلی کا خریدا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی عصر کی نماز ہونے سے پہلے میں واپس بھی آگیا اور گھوڑے کو میں نے ٹھنڈی چھاؤں میں باندھ دیا تاکہ اس کا جو پسینہ آیا ہوا ہے وہ خشک ہو جائے اور کہیں حضرت عمر فاروق دیکھ نا لیں

غلام کہتا ہے کے کہ گھوڑے کا پسینہ تو خشک ہوگیا پر پسینے کی وجہ سے گردوغبار گھوڑے پر جم گیا تھا جو واضح نظر آرہا تھا کہ گھوڑا کہیں سفر پہ گیا تھا پھر میں نے سوچا کہ حضرت عمرؓ فاروق دیکھ نہ لیں ۔۔
پھر میں جلدی سے گھوڑے کو کنویں پر لے گیا اور اسے جلدی سے غسل کرایا اور اسے لا کر چھاؤں میں باندھ دیا۔۔ (جب ہماری خواہشات ہوتی ہیں تو کیا حال ہوتا ہے لیکن یہ خواہش پوری کر کے ڈر رہے ہیں کیونکہ ضمیر زندہ ہے)
فرماتے ہیں جب عصر کی نماز پڑھ کر حضرت عمر فاروق آئے میں نے بھی نماز ان کے پیچھے پڑھی تھی۔

گھر آئے تو میں نے کہا حضور اللہ نے آپ کی خواہش پوری کردی ہے۔
مچھلی کا بندوبست ہوگیا ہےاور بس تھوڑی دیر میں مچھلی پکا کے پیش کرتا ہوں۔
کہتا ہے میں نے یہ لفظ کہے تو جناب عمر فاروق اٹھے اور گھوڑے کے پاس چلے گئے گھوڑے کی پشت پہ ہاتھ پھیرا،
اس کی ٹانگوں پہ ہاتھ پھیرا اور پھر اس کے کانوں کے پاس گئے اور گھوڑے کا پھر ایک کان اٹھایا اور کہنے لگے یرکا تو نے سارا گھوڑا تو دھو دیا لیکن کانوں کے پیچھے سے پسینہ صاف کرنا تجھے یاد ہی نہیں رہا۔۔
اور یہاں تو پانی ڈالنا بھول گیا۔۔
حضرت عمرؓ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گئے اور کہنے لگے
"اوہ یار یرکا ادھر آ تیری وفا میں مجھے کوئی شک نہیں ہے
اور میں کوئی زیادہ نیک آدمی بھی نہیں ہوں،
کوئی پرہیز گار بھی نہیں ہوں ،
میں تو دعائیں مانگتا ہوں
اے اللہ میری نیکیاں اور برائیاں برابر کرکے مجھے معاف فرما دے۔۔
میں نے کوئی زیادہ تقوی اختیار نہیں کیا اور بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمانے لگے یار اک بات تو بتا اگر یہ گھوڑا قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں فریاد کرے کہ یا اللہ عمر نے مجھے اپنی ایک خواہش پوری کرنے کے لیے 16 میل کا سفر طے کرایا
اے اللہ میں جانور تھا،
بےزبان تھا
16 میل کا سفر ایک خواہش پوری کرنے کیلئے
تو پھر یرکا تو بتا میرے جیسا وجود کا کمزور آدمی مالک کے حضور گھوڑے کے سوال کا جواب کیسے دے گا؟"
یرکا کہتا ہے میں اپنے باپ کے فوت ہونے پر اتنا نہیں رویا تھا جتنا آج رویا میں تڑپ اٹھا کے حضور یہ والی سوچ (یہاں تولوگ اپنے ملازم کو نیچا دکھا کر اپنا افسر ہونا ظاہر کرتے ہیں)غلام رونے لگا حضرت عمرؓ فاروق کہنے لگے اب اس طرح کر گھوڑے کو تھوڑا چارہ اضافی ڈال دے اور یہ جو مچھلی لے کے آئے ہو اسے مدینے کے غریب گھروں میں تقسیم کر دو اور انہیں یہ مچھلی دے کر کہنا کے تیری بخشش کی بھی دعا کریں اور عمر کی معافی کی بھی دعا کریں۔“
صرف آپ ہی پڑھ کر آگے نہ بڑھ جائیں بلکہ اوروں کو بھی شریک کریں, یہ صدقہ جاریہ ہوگا, اس میں آپ کی تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز ثابت ہو ..
جزاک اللہ خیرا۔۔

منقول

02/09/2025

بسم اللہ الرحمن الرحیم



حسد: اپنوں کی کامیابی کیوں زہر لگتی ہے اور اس کا علاج

فریڈرک نیٹشے اپنی کتاب On the Genealogy of Morality میں ایک بڑی تلخ مگر سچی حقیقت بیان کرتا ہے:
“ہم اجنبی کی کامیابی کو آسانی سے برداشت کر لیتے ہیں، مگر اپنے دوست، رشتہ دار اور قریبی عزیز کی کامیابی ہمیں زہر کی طرح لگتی ہے۔ ان کی بلندی ہمیں اپنی پستی یاد دلاتی ہے، اور یہی وہ لمحہ ہے جب دل میں رنجش، کینہ اور حسد پیدا ہوتا ہے۔ یہی زہر رشتوں کو دشمنی میں بدل دیتا ہے۔”

یہ جملہ صرف مغرب کا نہیں بلکہ ہمارے معاشرے پاکستان اور بھارت کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ یہاں بہن بھائی، کزنز، حتیٰ کہ مائیں بھی کبھی کبھار اپنے بچوں کے دوستوں یا رشتہ داروں کی کامیابی پر حسد محسوس کرتی ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے جسے ماننا ضروری ہے۔



مسئلہ: قریبی رشتوں میں حسد کیوں زیادہ ہوتا ہے؟

1. ارتقائی وجہ

انسان نے ہمیشہ قریبی لوگوں کے ساتھ وسائل (زمین، کھانا، عزت) کے لیے مقابلہ کیا ہے۔ اس لیے ہمارے دماغ نے یہ عادت بنا لی کہ ہم زیادہ حسد اپنے ہی قریبی لوگوں سے کرتے ہیں نہ کہ اجنبیوں سے۔

2. دماغی سائنس

تحقیقات بتاتی ہیں کہ جب ہم حسد محسوس کرتے ہیں تو دماغ کا وہی حصہ متحرک ہوتا ہے جو جسمانی درد میں ہوتا ہے۔ اس لیے کسی قریبی کی ترقی ہمیں تکلیف دیتی ہے جیسے ہمیں جسمانی چوٹ لگی ہو۔

3. نفسیات

پاکستان اور بھارت میں لوگ اپنی خوشی دوسروں سے موازنہ کر کے ناپتے ہیں۔
• اگر میرا کزن اچھی نوکری لے لے، تو فوراً دل کہتا ہے: “ہم دونوں ایک جیسے تھے، وہ آگے کیسے نکل گیا؟”
• یہی سوچ حسد اور کینہ پیدا کرتی ہے۔

4. سماجی دباؤ

ہمارے والدین اور رشتہ دار اکثر بچوں کا آپس میں موازنہ کرتے ہیں:
• “دیکھو فلاں کے بیٹے کو نوکری مل گئی”
• “فلاں کی بیٹی ڈاکٹر بن گئی”
یہ تقابلی جملے ہمارے دلوں میں حسد کی جڑیں مضبوط کرتے ہیں۔



نقصانات
1. رشتے ٹوٹ جاتے ہیں – بہن بھائی، کزنز، دوست آپس میں دشمن بن جاتے ہیں۔
2. دماغی دباؤ – حسد سے انسان کا بلڈ پریشر اور ٹینشن بڑھ جاتی ہے۔
3. معاشرتی زہر – خاندانوں میں دوریاں، جھگڑے اور بداعتمادی عام ہو جاتی ہے۔



حل اور علاج

1. شکر گزاری

روزانہ تین چیزیں لکھیں جن پر آپ شکر گزار ہیں۔ یہ ذہن کو مثبت رکھتا ہے اور حسد کم کرتا ہے۔

2. موازنہ بدلنا

کسی کی کامیابی کو اپنی ناکامی نہ سمجھیں بلکہ یہ سوچیں:
“اگر وہ کر سکتا ہے تو میں بھی کر سکتا ہوں۔”

3. خود اعتمادی پیدا کریں

اپنی صلاحیتوں اور چھوٹی چھوٹی کامیابیوں پر توجہ دیں۔ کمزور Self-Esteem والے لوگ سب سے زیادہ حسد کرتے ہیں۔

4. مراقبہ اور سکون

روزانہ پانچ منٹ آنکھیں بند کرکے گہری سانس لیں اور دل میں دعا کریں:
“یا اللہ، میں اپنے دوست/بھائی/بہن کی کامیابی پر خوش ہوں۔ مجھے بھی توفیق دے۔”

5. کامیابی کو Celebrate کریں

اگر کوئی کزن یا دوست کامیاب ہو جائے، تو اس کو سچ دل سے مبارک دیں۔ یہ حسد کو محبت میں بدل دیتا ہے۔



نتیجہ

نیٹشے نے بالکل صحیح کہا کہ اپنوں کی کامیابی ہمیں اپنی کمزوری یاد دلاتی ہے، اور یہی احساس حسد بن کر رشتوں کو زہر آلود کر دیتا ہے۔ مگر یہی حسد اگر سمجھداری سے بدلا جائے تو دوا بن سکتا ہے۔

پاکستان اور بھارت جیسے معاشروں میں جہاں ہر وقت تقابل (comparison) کیا جاتا ہے، وہاں ہمیں یہ سیکھنا ہے کہ دوسروں کی ترقی کو اپنی ہار نہ سمجھیں بلکہ اپنی تحریک (motivation) بنائیں۔



👉 اگر ہم اپنی نئی نسل کو بچپن سے ہی یہ سکھا دیں کہ حسد تباہی ہے اور دوسروں کی کامیابی خوشی کا سبب ہے، تو ہمارے خاندان مضبوط ہوں گے، معاشرہ خوشحال ہوگا، اور پاکستان و بھارت ترقی کی نئی راہیں طے کریں گے۔

30/08/2025

انتہائی پڑھنے اور عمل کرنے کے قابل تحریر ۔۔۔

پینسل گم ہونے کے دو خوبصورت واقعات*

*پہلا:*
ایک ڈاکو کا کہنا ہے کہ:
میں چوتھی کلاس میں تھا ایک دن جب میں مدرسے سے گھر واپس آیا میری پینسل گم ہوگٸی میں نے جب اپنی والدہ کو بتایا تو انہوں نے مجھے سزا کے طور پر بہت مارا !!!
اور مجھے بہت زیادہ گالیاں دیں اور مجھےبے عقل کہا اور یہ کہ مجھ میں زمہ داری کا احساس نہیں اور بھی اس کے علاوہ جو بھی کہہ سکتی تھیں وہ کہا
اپنی والدہ کے اتنی سختی کےنتیجے میں میں نے خود سے پکا ارادہ کیا کہ اب اپنی والدہ کے پاس خالی ہاتھ نہ جاٶں گا اس کے لیے میں نے ارادہ کیا کہ میں اپنی کلاس کے ساتھیوں کے قلم چرا لوں گا
آنے والے دن میں میں نے منصوبہ بنایا اور میں نے ایک یا دو قلم چرانے پر اکتفاء نہ کیا بلکہ اپنی کلاس کے تمام لوگوں کے قلم چرا لیے کام کے شروع میں میں ڈرتے ڈرتے چوری کرتا تھا پھر آہستہ آہستہ مجھے حوصلہ ملا اور میرے دل میں ڈر کی کوئی جگہ نہ رہی ایک ماہ گزرنے کےبعد مجھے اس کام میں وہ لذت نہ رہی جو شروع میں تھی پھر میں نے ساتھ والی کلاسز میں جانے کا ارادہ کیا ایک کلاس سے دوسری کلاس تک جاتے جاتے آخر کار سکول کے پرنسپل کے کمرے تک چلا گیا
یہ سال عملی تجربہ لینے کا سال تھا اس میں میں نے نظری اور عملی دونوں طرح سے چوری کرنے کا سیکھا پھر اس کے بعد میں پیشہ ور ڈاکو بن گیا

*دوسرا:*

ایک والدہ کا کہنا ہے:
جب میرا بیٹا دوسری کلاس میں تھا وہ جب مدرسے سے واپس آیا تو اپنی پنسل گم کر کے آیا
میں نے اس سے پوچھا پھر آپ نے کس چیز کے ساتھ لکھا ؟
اس نے کہا: میں نے اپنے کلاس فیلو سے پینسل مستعار لی ,میں نے اس سے کہا : آپ نے اچھا کام کیا لیکن آپ کے کلاس فیلو نے کیا کیا جب اس نے آپ کو لکھنے کے لیے اپنی پینسل دے دی ؟
کیا اس نے آپ سے کچھ کھانا لیا یا پینے کی چیز یا کوئی مال ؟

اس نے کہا نہیں اس نے ایسا کچھ نہیں کیا
والدہ نے اس سے کہا: اے میرے بچے اس نے بہت ساری نیکیوں کا سودا کیا وہ آپ سے بہتر کیسے ہوا؟
کیوں نہ آپ بھی ایسی نیکیاں کمایٸں؟

اس نے کہا :یہ کیسے ہوگا؟

والدہ نے کہا: عنقریب ہم آپ کے لیے دو قلم خریدیں گے
ایک قلم سے آپ لکھیں گے اور دوسرے قلم کو ہم *قلم الحسنات* کا نام دیں گے!!!
اور ایسا ہم اس لیےکریں گے کہ اگر کوئی اپنا قلم لانا بھول جائے یا جس سے گم ہوجائے تو آپ اس کو یہ دے دیں گے اور جب ان کا کام مکمل ہوجائے گا تو آپ اس کو ان سے واپس لے لیں
اس سوچ سے میرا بیٹا بہت خوش ہوا اور اس پر عمل کرنے سے اس کی خوشبختی میں بہت اضافہ ہوا اس نے اپنےبیگ میں ایک قلم اپنے لکھنے کے لیے رکھا اور چھ قلم *قلم الحسنات*!!
اس واقعہ میں سب سے عجیب بات یہ تھی کہ میرے بیٹے کو مدرسے جانا سخت ناپسند تھا اور وہ پڑھنے میں بھی کمزور تھا
پھر جب اس نے اس سوچ پر تجربہ کیا تواسے مدرسے سے محبت ہوگٸی
اور یہ اس وجہ سے ہوا کہ وہ کلاس کا تارہ بن گیا تو سب اساتذہ اسے پہچاننے لگے اور سارے کلاس فیلوز مشکل میں اس کی تعریف کرتے
جس کسی کا قلم گم جاتا وہ اس سے قلم لیتا اور استادکوجب پتہ چلتا کہ کوئی اس لیے نہیں لکھ رہا کہ اس کے پاس قلم نہیں تو استاد کہتے کہاں ہے احتیاطی قلم رکھنے والا
نتیجتا میرے بیٹے کو مدرسے سے محبت ہوگٸی وہ آہستہ آہستہ پڑھائی میں بھی اچھا ہوگیا
اور خوبصورت بات یہ ہے کہ آج وہ اپنی تعلیم مکمل کرچکا ہے اس نے شادی کی اسے اللہ نے اولاد دی لیکن وہ آج بھی *قلم الحسنات* نہیں بھولا
اور آج وہ ہمارے شہر کے سب سے بڑے ویلفیٸر کا انچارج ہے

بہت اعلیٰ سبق ہے ماؤں کیلئے،
بچوں کو اچھی سوچ دینا انکے نہ صرف دنیاوی اعمال اور کردار سنوارتا ہے بلکہ آخرت بھی۔
جبکہ منفی سوچ اس کے برعکس اسکے اعمال کے ساتھ ساتھ آخرت بھی لے ڈوبتی ہے۔

اسی لیے قوموں کے کردار اور اخلاق کو سنوارنے میں ماؤں کا بہت بڑا کردار ہے۔
نوعمری کا زمانہ کتنی اہمیت رکھتا ہے کہ زندگی کے بعض تجربات یا تو بچے کا رخ راہ راست کی طرف کر دیتے ہیں ، دوسری صورت میں وہ گمراہی کے راستوں پر چل پڑتا ہے ۔

کھانا بناتے ہوۓ زیادہ بنا لیں کہ کسی اور کو بھی بھجوا دیں گے ۔
کپڑے لیتے ہوۓ کبھی ایک جوڑا اضافی لے لیں کسی اور کو دے دیں گے
سودا سبزی پھل آٹا خریدتے وقت کچھ چیزیں اایسی لے لیں جو کسی اور کو بھی دے دیں گے ۔
باہر جاتے ہوۓ کھلے پیسے ساتھ رکھیں کہ کسی کو دے دیں گے ۔
اپنے بچوں کی فیس کے ساتھ
کسی ایک اور کی فیس بھی لگا لیں۔
بعض دفعہ اپنا دل اداس بھی ہو تو دوسروں سے ملتے ہوۓ مسکرا لیں کہ مسکراہٹ ہی کسی اور کے کام آ جاۓ گی۔
اپنے لیۓ سادگی کیسے اپنائیں ؟
اس میں بھی کسی اور کو کچھ نہ کچھ دینے کا نسخہ ہی کار گر ہے ۔
جب کسی اور کو دینے کی فکر غالب آ جاۓ تو خود پہ لگانے کا شوق کم ہو جاتا ہے ۔
جب ذوق بدلتا ہے تو اس کے مطابق عمل بدل جاتا ہے ۔
جیسا ذوق ہو گا ویسی ہی زندگی گزرے گی ۔

منصورالحق

30/08/2025

روایت ہے کہ جب چنگیز خان نے نیشاپور کو خون میں نہلا دیا اور شہر کو مٹی میں ملا دیا، تو اس کے بعد وہ اپنی خوفناک فوج کے ساتھ ہمدان کی طرف روانہ ہوا۔
ہمدان کے لوگ ڈر کے مارے لرز رہے تھے، ہر چہرے پر خوف، اور ہر دل میں موت کا اندیشہ چھایا ہوا تھا۔
چنگیز خان نے حکم دیا کہ پورے شہر کو ایک وسیع میدان میں جمع کیا جائے۔ میدان میں خاموشی طاری ہو گئی، جیسے وقت رک گیا ہو۔
چنگیز خان نے بلند آواز میں کہا:

"میں نے سنا ہے کہ ہمدان کے لوگ نہایت ہوشیار، عقل مند اور سمجھ دار ہوتے ہیں۔ تمہاری عقل مندی مشہور ہے، کہتے ہیں: ‘ہمہ دانی و ہیچ ندانی’ – یعنی سب کچھ جانتے ہو، مگر پھر بھی کچھ نہیں جانتے۔"

پھر اس نے اعلان کیا:
"میں تم سے ایک سوال کروں گا۔ اگر جواب درست ہوا تو تم سب کو امان دی جائے گی۔ لیکن اگر جواب غلط ہوا… تو یہ میدان تم سب کی قبریں بن جائے گا۔ تمہاری قسمت کا فیصلہ یہی کرے گا!"

میدان میں موت جیسی خاموشی چھا گئی۔ لوگ کانپنے لگے۔
چنگیز خان نے نظریں گھمائیں، پھر گرج کر پوچھا:

"کیا میں خدا کی طرف سے آیا ہوں؟ یا اپنی مرضی سے؟"

کسی کے پاس ہمت نہ تھی جواب دینے کی۔ علماء، دانشور، اور بزرگ سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ یہ سوال صرف ایک دلیل نہیں تھا، بلکہ پورے شہر کی زندگی اور موت کا سوال تھا۔
ہر چہرہ پریشان، ہر آنکھ سوالی بنی ہوئی تھی۔ اور تب… ہجوم سے ایک سادہ سا چرواہا آگے بڑھا۔

نہ وہ عالم تھا، نہ دانشور۔ مگر اس کی آنکھوں میں بصیرت تھی، دل میں سچائی۔
چنگیز خان نے اسے دیکھا اور کہا:
"اگر میں جواب سنوں گا، تو تجھ سے سنوں گا!"

چرواہے نے بے خوفی سے چنگیز کی آنکھوں میں دیکھا اور کہا:

"نہ تم خدا کی طرف سے آئے ہو،
نہ تم اپنی مرضی سے آئے ہو…
تمہیں تو ہمارے اعمال نے یہاں پہنچایا ہے۔

جب ہم نے عقل والوں کو نظر انداز کیا،
علم والوں کو پیچھے دھکیلا،
اور جاہلوں، خوشامدیوں، اور نالائقوں کو عزت، طاقت اور قیادت دے دی—
تو پھر تم جیسے ظالم کا آنا طے تھا!

تم ہماری نادانی، بے انصافی اور بصیرت سے خالی قیادت کا نتیجہ ہو!"

میدان میں گہری خاموشی چھا گئ
چنگیز خان ساکت ہو گیا۔ شاید یہ سچائی اس کے دل تک اتر گئی تھی۔
اور پھر… اس نے سب کو چھوڑ دیا۔ کسی کا خون نہ بہایا۔

چنگیز جیسے فتنے آسمان سے نہیں اترتے۔
یہ قوموں کی اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
جب علم کو عزت نہ دی جائے، انصاف کو روند دیا جائے، اور نالائقوں کو قیادت ملے—
تو ظلم، تباہی اور چنگیز کی شکل میں قہر ضرور آتا ہے۔

منقول

Address

Amadavad

Telephone

+923036095691

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Sultan Hospital, Jauharabad posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Sultan Hospital, Jauharabad:

Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on LinkedIn
Share on Pinterest Share on Reddit Share via Email
Share on WhatsApp Share on Instagram Share on Telegram