09/09/2025
بچوں کی ماں کو "بدمعاشی" کا موقع نہ دیں!
یہ بات شاید تلخ لگے لیکن حقیقت یہی ہے کہ اکثر گھروں میں سب سے زیادہ بچوں پر چیخنے چلانے والی، اور دوسروں رشتہ داروں کے بارے میں تلخ الفاظ استعمال کرنے والی شخصیت خود بچوں کی اپنی ماں ہوتی ہے۔ وہی ہستی جو بچوں کی پہلی پناہ گاہ ہونی چاہیے، کبھی کبھی نادانی یا غصے میں ان کے دل کو سب سے زیادہ زخمی کر دیتی ہے۔
ماں کا غصہ بعض اوقات بے جا ہوتا ہے۔ ذرا سی غلطی پر زور سے چیخ دینا، چھوٹی سی بات پر بچے کی شخصیت کو کچل دینے والے جملے بول دینا، یا اپنے ہی بھائی، بہن، دیور، نند، ساس، یا کسی اور رشتے دار کے بارے میں بچوں کے سامنے بار بار شکایتیں اور گالیاں دہرانا—یہ سب کچھ بچوں کے دل میں زہر گھول دیتا ہے۔ بچہ اپنی معصوم آنکھوں سے ماں کو دیکھتا ہے، اور یہ منظر اس کے اندر ایک ایسا خوف اور نفرت پیدا کر دیتا ہے جس سے وہ ساری زندگی لڑتا رہتا ہے۔
جب ایک ماں بچے سے کہتی ہے کہ "تم کبھی کچھ نہیں بنو گے"، "تم بالکل اپنے فلاں رشتہ دار کی طرح ہو"، "یہ رشتہ دار سب برے ہیں" یا "یہ تمہارے چچا/ماموں/خالہ/پھوپھی ایسے ہیں" تو بچہ نہ صرف اپنی شخصیت کو حقیر سمجھنے لگتا ہے بلکہ اپنے خاندان کے بڑے حصے کو دشمن سمجھنے لگتا ہے۔ یوں اس کا بچپن کدورتوں سے بھرنے لگتا ہے۔ وہ بچہ اعتماد کی بجائے خوف، محبت کی بجائے نفرت، اور عزت کی بجائے بداعتمادی کو سیکھتا ہے۔
ماں اگر روزانہ چیختی چلاتی رہے، ہر غلطی پر بچے کی عزتِ نفس توڑ دے، یا خاندان کے ہر رشتہ دار کو برا بھلا کہے، تو وہ صرف غصہ نکال رہی ہوتی ہے مگر بچے کے دل پر نقش اُبھرتے جاتے ہیں۔ بچے کے لیے یہ سب الفاظ مستقل "ریکارڈنگ" کی طرح ہیں۔ بعد میں وہ بڑے ہو کر اپنے آپ سے بھی نفرت کرنے لگتے ہیں، اپنے خاندان سے بھی دور ہو جاتے ہیں اور اکثر ایک تلخ مزاج یا بداعتماد شخصیت کے مالک بن جاتے ہیں۔
یاد رکھیں، بچے اپنے دل میں بہت کچھ دفن کر لیتے ہیں لیکن کچھ بھی بھولتے نہیں۔ ماں کے سخت جملے اور رشتہ داروں کے بارے میں نفرت انگیز باتیں ان کے لاشعور میں ہمیشہ کے لیے بیٹھ جاتی ہیں۔ ایک ایسا بچہ جو ہر وقت ڈانٹ اور نفرت سنتا ہے، وہ اپنے اندر خوشی اور سکون کی دنیا تعمیر نہیں کر سکتا۔
اس لیے ضروری ہے کہ ماں کو یہ باور کرایا جائے کہ اس کا سب سے بڑا کردار بچوں کو محبت، تحفظ اور اعتماد دینا ہے، نہ کہ انہیں چیخ چیخ کر خوفزدہ کرنا اور دوسروں کے بارے میں نفرت بھر دینا۔ ماں کو اپنے غصے اور زبان پر قابو پانا ہوگا۔ ورنہ وہ خود اپنی اولاد کے دل میں وہ زہر بو رہی ہے جو آنے والے کل میں خاندان کو توڑ دے گا اور بچے کو نفسیاتی مریض بنا دے گا۔
ماں کی عزت اپنی جگہ لیکن بچے کی معصومیت اور اس کی خود اعتمادی کا تحفظ اس سے کہیں زیادہ مقدم ہے۔ اس لیے بچوں کے باپ کو بھی چاہیے کہ وہ احترام کے ساتھ مگر واضح طور پر ماں کو روکیں کہ وہ اپنی زبان اور رویے سے بچوں کی نفسیات کو نہ کچلے۔ کیونکہ اصل ذمہ داری والدین دونوں پر ہے کہ بچے کا دل محبت سے بھرا ہوا ہو، نہ کہ چیخوں اور کدورتوں سے۔
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے:
بچوں کی ماں کو بدمعاشی کا موقع نہ دیں، کیونکہ بچوں کا دل سب سے نرم ہوتا ہے، اور سب سے گہرا زخم بھی وہیں سے لگتا ہے جہاں سے اسے نرمی اور محبت کی سب سے زیادہ توقع ہوتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پس تحریر :
یہ تحریر منصور ندیم صاحب کی تحریر "رشتہ داروں کو بدمعاشی کا موقع نہ دیں" کے اسلوب اور وزن پر بطور مشق لکھی گئی ہے۔ اس کا مقصد صرف یہ سمجھانا ہے کہ اسی طرز کا نفرت انگیز بیانیہ کسی بھی رشتے کے خلاف گھڑا جا سکتا ہے۔ لیکن اسلام کی اصل تعلیم یہ ہے کہ رشتوں کو جوڑا جائے، نفرت اور قطع تعلقی کو ہرگز فروغ نہ دیا جائے۔ اللہ کریم نے رحم کے رشتے کو خاص طور پر اپنی رحمت سے جوڑا ہے اور جو اسے توڑنے کی کوشش کرتا ہے وہ اللہ کی رحمت سے دور کر دیا جاتا ہے۔
حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"الرحم معلقة بالعرش تقول: من وصلني وصله الله، ومن قطعني قطعه الله"
(صحیح بخاری، حدیث 5988، صحیح مسلم، حدیث 2555)
ترجمہ:
رحم (رشتہ داری) عرش سے لٹکی ہوئی ہے اور کہتی ہے: جو مجھے جوڑے گا، اللہ اسے جوڑے گا، اور جو مجھے کاٹے گا، اللہ اسے کاٹے گا۔