Ashfaqkhan Unani

Ashfaqkhan Unani Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Ashfaqkhan Unani, Family doctor, niimh, Hyderabad.

05/12/2023

آگہی، کرب، وفا، صبر، تمنا، احساس
میرے ہی سینے میں اترے ہیں یہ خنجر سارے
بشیر فاروقی

جہیز اور مروجہ بارات وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً ۚ فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُو...
04/12/2023

جہیز اور مروجہ بارات
وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً ۚ فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا (4:4)
اور عورتوں کو ان کے مہر راضی خوشی دے دو، ہاں اگر وہ خود اپنی خوشی سے کچھ چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہو کر کھاؤ پیو۔
کسی شخص سے مال اگر کسی دباؤ کے تحت لیا جائے تو وہ جائز نہیں ہوتا۔ آپ بحیثیت داماد کسی کے سامنے اپنی درخواست رکھتے ہیں تو یہ درخواست ممکن ہے آپ کی نگاہ میں ہلکی درخواست ہو لیکن جن کے سامنے آپ کی درخواست جا رہی ہے وہ کس حیثیت سے لے رہے ہیں یہ دیکھنا ضروری ہے۔ رب کریم نے مذکورہ آیت کریمہ میں جو ذکر کیا کہ اگر بطیب خاطر اور مکمل رضامندی کے ساتھ کسی کا مال دوسرے تک جا رہا ہے تو وہ جائز ہوگا اس کے علاوہ اگر عادتا اور رسم و رواج کے طور پر یا لوگوں کے درمیان ایک چلن ہے یا اس ڈر سے کہ بچی کے اوپر ظلم نہ ہو تھوڑا سا مال اور دے دیتے ہیں اتنا سارا تو خرچ کیا ہی ہے، اگر نہیں کرتے ہیں تو بچی کے اوپر پریشر آنے کا اندیشہ ہے وغیرہ وغیرہ، اگر اس طرح کی کوئی بھی شکل بیچ میں رہی اور اس کی وجہ سے مال دیا جا رہا ہے تو آپ یاد رکھیے یہ جائز اور درست نہیں ہوگا یہ حرام ہی رہے گا۔
دل کی چاہت کے ساتھ، دل کی رضامندی کے ساتھ اگر کسی کا مال کسی تک پہنچ رہا ہے تو وہ جائز ہے۔ اگر رضامندی کے بغیر وہ مال کسی کو دیا جا رہا ہے تو وہ جائز اور درست نہیں ہوگا۔ اس لیے اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ مال سسرال والوں کی طرف سے آرہا ہے تو وہ کس حیثیت سے آرہا ہے، قرض کی حیثیت سے آرہا ہے یا ہدیے کے طور پر، یا ہبہ کے طور پر دیا جا رہا ہے اس بات کا ہمیں خاص خیال کرنا ہے۔
اس لئے جہیز اور بارات کسی طور پر جائز نہیں۔ بلکہ شوہر پر فرض ہے کہ وہ منکوحہ کو بطور مہر مال ادا کرے۔ اور بغیر اجازت کے بیوی سے شوہر اس مہر میں سے بھی نہیں لے سکتا تو پھر وہ بیوی کے والدین کو جہیز اور بارات پر خرچ کرنے کے لئے مجبور کیسے کرسکتا ہے۔ اس لئے مال کا ناجائز طریقے سے حاصل کرنا اور ناجائز جگہ پر خرچ کرنا دونوں حرام ہے۔

02/12/2023
*جہیز کا روگ کیسے رکے*ڈاکٹر اشفاق احمد، حیدرآبادیہ سمجھنا ضروری ہے کہ جہیز ایک بیماری ہے جو لالچ سے پیدا ہوئی ہے، جب تک ...
01/08/2022

*جہیز کا روگ کیسے رکے*
ڈاکٹر اشفاق احمد، حیدرآباد
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جہیز ایک بیماری ہے جو لالچ سے پیدا ہوئی ہے، جب تک بنیادی سبب root cause دور نہیں ہوں گے بیماری کا ازالہ ممکن نہیں، وہ بنیادی سبب کیا ہے اس کی توجیہ ضروری ہے اور ہر ایک کے نزدیک مختلف توضیحات ہوسکتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کی میراث کی ضمانت دے دو تو جہیز کی روایت رک جائے گی۔میراث تو دور کی بات ہے جو مرنے کے بعد نافذ ہوتا ہے۔'کون جیتا ہے تیرے زلف کے سر ہونے تک'۔ جب والدین زندگی ہی میں اولاد کے درمیان عدل و انصاف سے کام نہیں لیتے تو ان کے وارثین سے کیسے عدل کی توقع کی جاسکتی ہے۔
*ضرورت ایجاد کی ماں ہے*: جہیز کے پھیلاؤ کا بنیادی سبب والدین کا اپنی زندگی میں بیٹے اور بیٹیوں کے درمیان عدل کا قائم نہ رکھ پانا ہے، یہ ناانصافی دو طریقوں سے ہوتی ہے: تعلیمی اور اقتصادی
*تعلیمی فرق*: بیٹوں کو اعلی تعلیم دلانا اور بیٹیوں کو اس سے محروم رکھنا
*اقتصادی فرق*: کبھی کوئی جائداد خرید کر بیٹوں کے نام کردینا اور بیٹیوں کو محروم کردینا
اس کی وجہ یہ ہے کہ لڑکی کو غیر سمجھا جاتا ہے یہ سوچ کر کہ یہ دوسرے کے گھر چلی جائے گی، ، اور ایک غیراسلامی تصور کہ نسل لڑکوں سے چلتی ہے، جب کہ اللہ کے رسول ﷺ کی نسل لڑکی ہی سے آگے بڑھی۔
*حل*: والدین کو چاہئے کہ بیٹیوں کو empowered सशक्त بااختیار بنائیں، خواہ اعلی تعلیم دلاکر یا ان کے نام پراپرٹی کرکے یا زیورات سے مالا مال کریں، اور اسلام نے تو شادی کے بعد بھی لڑکی ہی کو اپنی پراپرٹی کا مالک بنایا ہے، اس کی اجازت کے بغیر شوہر بھی نہیں خرچ کرسکتا، اور اگر شوہر غریب ہو تو اس کو زکوۃ بھی دے سکتی ہے۔ جب بیٹیاں empowered ھوں گی تو سسرال میں بھی ان کی عزت ہوگی،
*دلیل*: والدین کا اپنی زندگی میں مال کی تقسیم "ہبہ" کرنا ہے اور ہبہ کا قاعدہ یہ ہے کہ لڑکا اور لڑکی دونوں کو برابر دیا جائے یعنی جتنا لڑکے کو دیا جائے اتنا ہی لڑکی کو بھی دیا جائے جیسا کہ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے ثابت ہے۔
سمعت النعمان بن بشير يخطب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اعدلوا بين ابنائكم اعدلوا بين ابنائكم".
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما نے خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”(لوگو!) اپنے اولاد کے درمیان انصاف کرو، اپنے بیٹوں کے درمیان انصاف کرو“ (سنن نسائي 3717)
عن النعمان بن بشير، ان اباه نحله غلاما فاتى النبي صلى الله عليه وسلم يشهده، فقال:" اكل ولدك نحلت" , قال: لا، قال: فاردده"
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ان کے والد ان کو لے کر نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ میں نے اپنے اس لڑکے کو ایک غلام ہبہ کیا ہے تو آپ نے فرمایا کہ : کیا تو نے اپنی سب اولاد کو اسی طرح ایک ایک غلام ہبہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا نہیں توآپ نے فرمایا کہ اس کو لوٹالو۔ (البخاری: فی الھبۃ، باب الھبۃ للولد، برقم: 2586، ومسلم: الھبات، باب کراھۃ تفضیل بعض الأولاد فی الھبۃ، برقم: 4177)
اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ میرے باپ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ آپ کو میرے اس صدقہ (ہبہ) پر گواہ بنائیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ : کیا تم نے اپنی سب اولاد کے ساتھ یہی سلوک کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی سب اولاد کے درمیان انصاف کرو۔ پس میرے باپ واپس آئے اور اس صدقہ (ہبہ) کو واپس کر لیا۔ (البخاری: الھبۃ، باب الاشھاد فی الھبۃ، برقم: 2587، ومسلم: فی الھبات ، باب کراھۃ تفضیل بعض الأولاد فی الھبۃ، برقم: 4181)
ان تمام مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ ہبہ میں (اپنی زندگی میں مال تقسیم کر نے میں) اولاد (لڑکا ، لڑکی) کے درمیان انصاف اور مساوات ضروری ہے لیکن اس انصاف اور مساوات کی تفسیر میں اختلاف واقع ہوا ہے ایک رائے تو یہ ہے کہ جتنا لڑکا کو دیا جائے اتنا ہی لڑکی کو بھی دیا جائے اور دوسری رائے یہ ہے کہ وراثت کے مطابق لڑکے کو دوہرا اور لڑکی کو اکہرا دیا جائے ۔ مگر حدیث کے ظاہری الفاظ سے پہلی ہی رائے کی تائید ہوتی ہے لہذا جب کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو کچھ ہبہ کرے تو سب کو برابر دے یعنی جتنا لڑکے کو دے اتنا ہی لڑکی کو بھی دے۔ (ملاحظہ ہو: سبل السلام 3 / 938، التعلیقات السلفیۃ علی سنن النسائی: 2 / 126، فتح الباری: 5 / 214، 215، نیل الاوطار: 4 / 110، 112، فتاویٰ نذیریہ: 2 / 286، 289)۔
جہیز کو ختم کرنے کا یہی ایک ذریعہ ہے جو والدین اپنی زندگی میں کرسکتے ہیں، وہ اپنے وارثین سے کوئی امید نہ رکھیں کہ ان کے بیٹے ان کے مرنے کے بعد اپنی بہنوں کو میراث دیں گے الا ماشاء اللہ، بیٹوں کے لئے تو ایک دلیل ہوجائے گا کہ والد چاہتے تو زندگی میں دیتے یا وصیت کرجاتے۔
*ایک نظر ادھر بھی*: سادہ نکاح کی آڑ میں بعض والدین لڑکی اور لڑکے میں تفریق کا شکار ہیں جسے دور کرنے کی اشد ضرورت ہے، بیٹے کی شادی میں تو دھوم دھام سے خرچ کریں گے لیکن بیٹی کی شادی میں کوشش یہ ہوتی ہے کہ کم سے کم پیسے میں یا بغیر اس کا حق ادا کئے ہوئے اس کو رخصت کردیں۔
بپوتی میں دونوں کے حقوق برابر ہیں، اگر باپ اپنے لڑکے کے ولیمہ میں اپنا مال خرچ کررہا ہے تو لڑکی کے نکاح کے موقع پر اتنی رقم لڑکی کے اکاؤنٹ میں جمع کرے، اسی طرح زیورات میں بھی کوئی تفریق نہ کرے، آج لڑکا اپنی فیملی کے ساتھ باپ کے مکان میں رہ رہا ہے لیکن اگر لڑکی بچوں کے ساتھ آجائے تو بوجھ لگنے لگتی ہے، دادا بن کر خرچ کرنے پر خوشی ہوتی ہے لیکن نانا بن کر خرچ کرنے پر گراں محسوس کرتے ہیں، آخر یہ تفریق کیوں؟
مانا کہ جہیز کے نام پر کچھ نہیں دیا جاسکتا لیکن لڑکے کی شادی پر جتنا خرچ کرتے ہیں اتنی رقم لڑکی کو دینے سے کس نے روکا ہے، زندگی میں باپ کے مال کے استحقاق میں لڑکا لڑکی دونوں برابر ہیں، وراثت کی تقسیم تو موت کے بعد ہوتی ہے۔
غور کریں تو اسلامی عدل کے مطابق والدین اپنی تمام اولاد کے درمیان عدل وانصاف کرنے کے مکلف ہیں۔ تمام بچوں کی حتی الامکان یکساں پرورش وپرداخت اور تعلیم وتربیت کریں۔
نکاح کے بعد بیٹے اور بیٹیوں دونوں کے تعلق سے والدین کی ذمے داری ختم ہوجاتی ہے۔ تو نکاح کے بعد اگر بیٹا اپنی فیملی کے ساتھ باپ کے مکان میں رہ سکتا ہے تو بیٹی اپنی فیملی کے ساتھ کیوں نہیں رہ سکتی۔ اگر بیٹی شادی کے بعد اپنے باپ کے گھر کو چھوڑ دیتی ہے تو پھر لڑکے کو بھی شادی کے بعد باپ کے گھر سے الگ ہوکر اللہ کی وسیع سرزمین میں گھوم پھر کر اپنی روزی روٹی اور الگ آشیانے کا انتظام بذات خود کرنا چاہیے۔اسلامی عدل تو یہی ہے۔
والدین کی زندگی کے آخری سانس تک ان کی اراضی وجائداد اور تمام متعلقات والدین ہی کی ملکیت میں رہیں۔ اور والدین کی زندگی میں آبائی گھر، اراضی، جائداد (بپنس) کے ذرے ذرے پر جتنا حق لڑکوں کا ہو اتنا ہی حق لڑکیوں کا بھی ہو۔ اس لئے ہمیں اس ناحیے سے بھی سوچنا ہوگا، اور اپنی ترجیحات بدلنی ہونگی۔
کتنے والدین زندگی ہی میں بیٹیوں کی شادی کرنے کے بعد ان سے لاتعلق ہوجاتے ہیں اور ان کے حقوق سلب کرکے بیٹوں کو دے دیتے ہیں۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بیٹیوں کے حقوق شادی کے بعد ختم نہیں ہوجاتے بلکہ قرابت داری اور صلہ رحمی کو ہمیشہ باقی رکھنے کی ضرورت ہے۔ وَءَاتِ ذَا ٱلْقُرْبَىٰ حَقَّهُۥ وَٱلْمِسْكِينَ وَٱبْنَ ٱلسَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا (الإسراء - 26)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «لا يدخل الجنة قاطع» "قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہو گا"۔
جہیز کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ بیٹی کے مال کو سسرال کے سبھی لوگ استعمال کرکے ختم کردیتے ہیں، بعد میں اگر کبھی بیٹی پر خدانخواستہ کوئی برا وقت آئے تو اس کے پاس ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہوتی، جب کہ اس کے نام پاپرٹی کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہ اپنے اچھے برے وقت میں اس سے استفادہ کر سکتی ہے اور آپ کی بیٹی सशक्त ہونے سے نفسیاتی طور پر ایک مضبوط اعصاب کی مالک ہو کر زندگی گزار سکتی ہے، شوہر کے ذمہ بیوی کو صرف نان ونفقہ اور سکنی فراہم کرنا ہے پراپرٹی کا مالک بنانا ذمہ داری نہیں کیونکہ شوہر کے ذمہ دیگر قرابت داروں کے بھی حقوق ہوسکتے ہیں۔ پراپرٹی کا مالک وہ اپنے والدین کے مال سے بن سکتی ہے۔
میری اس تحریر پر بہت سے اخوان کو کلام ہوسکتا ہے، لیکن ارادے نیک ہیں، اللہ تعالی ہمیں صحیح سمجھ بوجھ عطا فرمائے اور نیک عمل کی توفیق بخشے۔ تقبل یا رب العالمین۔

تمہارے ساتھ یہ موسم فرشتوں جیسا ہے تمہارے بعد یہ موسم بہت ستائے گا
30/07/2022

تمہارے ساتھ یہ موسم فرشتوں جیسا ہے
تمہارے بعد یہ موسم بہت ستائے گا

30/07/2022

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

30/07/2022
17/05/2018

Today on let's take pledge to lead a healthy life following principles. Follow the link below to know more about the advices as per Ayurveda to control and prevent Hypertension.
http://www.ccras.nic.in/sites/default/files/viewpdf/faq/HYPERTENSION.pdf

Address

Niimh
Hyderabad
500059

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Ashfaqkhan Unani posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Ashfaqkhan Unani:

Share

Category