Dr Jamil Hussain child-specialist

Dr Jamil Hussain child-specialist Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Dr Jamil Hussain child-specialist, Doctor, Bagh.

08/08/2025
29/07/2025

I got over 10 reactions on one of my posts last week! Thanks everyone for your support! 🎉

کھا کے وہ نان روغنی تین تیل میں ڈوبی سبزی کے ساتھ بولا شوگر ہے مجھے پرہیز ہے  پکی چاول اور گوشت کی
27/07/2025

کھا کے وہ نان روغنی تین تیل میں ڈوبی سبزی کے ساتھ
بولا شوگر ہے مجھے پرہیز ہے پکی چاول اور گوشت کی

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں معذور افراد کل آبادی کا تین فیصد سے بھی زیادہ ہے یہ تعداد تقریبا ایک کروڑ  سے بھی زیادہ ...
24/07/2025

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں معذور افراد کل آبادی کا تین فیصد سے بھی زیادہ ہے یہ تعداد تقریبا ایک کروڑ سے بھی زیادہ ہے۔ حقیقی تعداد اس سے بھی دگنی ہو سکتی ہے۔ ان معذور افراد میں ایک بڑی تعداد معمر حضرات کی ہے۔ مگر ہر سال لاکھوں بچے معذوری لے کے پیدا ہوتے ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ان میں سے اکثریت کو اس معذروی سے بچایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے کوئی کھربوں روپے کی ضرورت نہیں بس تھوڑا سا شعور بیدار کر کے معذور بچوں کی تعداد میں کمی کی جا سکتی ہے۔
ایک مثال ڈنمارک کی دی جاسکتی ہے جہاں ہر سال 20 سے 30 بچے ڈاؤن سنڈ روم کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ جبکہ 99 % بچوں کا دوران حمل تشخیص کے بعد اسقاط کردیا جاتا ہے۔ یہ 20 بچے وہ ہوتے ہیں جن کی یا تو حمل کے دوران الٹرا ساونڈ سے تشخیص نہ ہو سکی یا جن کے والدین نے اسقاط سے انکار کر دیا۔جبکہ پاکستان میں ڈاؤن سنڈروم سے پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ کیونکہ یہاں نہ ہی دوران حمل جینیاتی تشخیص کا رواج ہے اور نہ ہی اس کے متعلق لوگوں میں آگاہی۔

بدقسمتی سے اکثریت میں پائے جانے والے پیدائشی اور موروثی نقائص کا سائنسی علاج اب تک دریافت نہیں ہو سکا ہے۔ اور نہ ہی مستقبل قریب میں اسکی کوئی امید ہے۔ لیکن خوش قسمتی سے اکثر پیدائشی معذوری کا دوران حمل ابتدائی عرصے میں ہی پتا چلانا ممکن ہے ۔ 18 اور 22 ہفتے کے دوران ایک الٹرا ساونڈ ٹیسٹ جسکو anomaly scan کہتے ہیں ہر خاتون کا کروانا ضروری ہے۔ یہ ٹیسٹ کوئی ماہر ریڈیالوجسٹ ہی کر سکتا ہے۔ جس میں سر ، منہ ، چھاتی ، پیٹ اور دیگر اعضاء کے نقائص کا بڑی حد تک پتا چلایا جا سکتا ہے۔ اس طرح جینیاتی ٹیسٹ CVS کے ذریعے تھیلاسیمیا اور بے شمار دوسری بیماریوں کا حمل کے بہت ہی شروع میں پتا چلایا جا سکتا ہے۔ خاص طور پہ وہ خاندان جن میں کزن میرج اور جینیاتی نقص عام ہیں انکو یہ ٹیسٹ ضرور کروانے چاہیں۔
آج کل جدید ٹیکنالوجی کے دور میں بچے کے پیدا ہو نے کے بعد پتا چلے کہ اسکے سر میں پانی ہے۔اسکے حرام مغز میں سوراخ ہے۔ اسکے اعضاء کی مکمل نشوونما نہیں ہوئی ۔ اسکو ڈاؤن سنڈروم اور یا کوئی اور سنڈروم ہے۔ اسکو تھیلاسیمیا ہے۔ تو اس سے بڑی بد قسمتی اس خاندان یا اس بچے کے لیے کیا ہو گی۔
کیونکہ یہاں سے والدین اور بچے کے لیے آزمائش کا وقت شروع ہوتا ہے۔ اور جس کرب سے والدین گزرتے ہیں انہیں ہی خبر ہے۔
کیونکہ ہمارے جیسے تیسری دنیا کے پسماندہ ترین ملک میں ایسے بچوں کی نگہداشت ریاست کے بجائے ماں باپ کو خود کرنی پڑتی ہے۔
اگر ٹیسٹ کروا کے حمل کے ابتدا ہی میں اس مسئلے کا حل نکال لیا جائے تو والدین اور بچہ مستقل میں آنے والی شدید ترین آزمائش سے بچ سکتے ہیں۔

07/07/2025

بچوں کو بخار کے جھٹکوں سے کیسے بچایا جائے۔
چھے ماہ سے 5 سال تک بخار میں لگنےوالے جھٹکے عام طور پہ بخار کی وجہ سے ہو تے ہیں تاہم انکی دیگر وجوہات بھی ہو سکتی ہیں ۔
بخار میں لگنے والے جھٹکے عمومی طور پہ خطرناک نہیں ہوتے لیکن ان سے جڑی غلط فہمیاں ماں باپ اور خاندان کے لیے تکلیف دہ ہوتیں ہیں۔
عام طور پہ جن بچوں کو بخار میں جھٹکے ہوتے ہیں انکو معمولی سے بخار ہو جائے تو والدین انکو فوری ایمرجنسی میں لے جاتے ہیں تا کہ بچوں کو جھٹکے نہ لگنا شروع ہو جائیں۔ یا ان کو فوری ٹھنڈا کرنا شروع کردیتے ہیں ۔
جدید تحقیق کے مطابق اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
بخار میں جھٹکے لگنے ہوں تو کبھی 100 ڈگری پہ لگ جاتے ہیں اور کبھی 104 فارن ہائیٹ پہ بھی نہیں لگتے۔ کبھی ٹھنڈا کرنے کے دوران درجہ حرارت گرنے پہ بھی لگ سکتے ہیں۔
اہم یہ ہے کہ اگر بخار میں جھٹکے لگنے لگیں تو گھر میں کیا فرسٹ ایڈ دیں۔
یہ جاننا ضروری ہے۔

جھٹکے کے دوران بچے کو ایک سائیڈ پہ لٹا دیں۔
کپڑے ہلکے کر لیں۔
منہ میں کوئی چیز نہ ڈالیں۔
یہ کیفیت 3 سے پانچ منٹ تک ہو سکتی ہے۔
پھر بچے غنودگی میں چلے جاتے ہیں اور لگ بھگ آدھے گھنٹے کے اندر ہوش وحواس میں آ جاتے ہیں۔
اسکے بعد آپ ہسپتال معائنہ کے لیے لا سکتے ہیں۔
جھٹکوں کی حالت میں لے کے ہسپتال بھاگنا خطرناک عمل ہے ۔ بچہ کو سانس میں رکاوٹ کے ساتھ الٹی سانس کی نالی میں بھی جا سکتی ہے۔

04/07/2025

ہسپتال جراثیم کا گھر ہیں۔ بچوں کو بہت ضروری ہو تو ہسپتال لائیں۔ ہسپتالوں کے وارڈ میں داخلے کے لیے بہت احتیاط برتنی چاہے۔ کیونکہ ہسپتال میں لگنے والا جراثیم (hospital aquired infection)
بہت خطرناک ہوتا ہے۔ یاد رکھیں ہر کھانسی زکام یا سانس کی تکلیف نمونیا نہیں ہوتا اور نمونیا کی صورت میں بھی بہت کم ہسپتال میں داخلے کی ضرورت پڑتی ہے۔ زیادہ تر نمونیا او پی ڈی بنیاد پہ ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ نمونیا بنا کے بلا وجہ انجکشن لگانا عطائی نما ڈاکٹرز کا طریقہ واردات ہے۔ یاد رکھیں اپنے بچے کو ہسپتال داخل کرنے سے پہلے کسی ماہر ڈاکٹر سے ضرور مشورہ لے لیں ایسا نہ ہو آپکا بچہ بار بار ہسپتال داخل کرنا پڑے۔ خاص کر نوزائیدہ بچوں کا بلا وجہ ہسپتال ایڈمشن انتہائی خطرناک عمل ہے۔ اس کے لے ماہر ڈاکٹر کا تفصیلی دیکھنا اور ٹیسٹ کرنا بہت ضروری ہے۔

23/06/2025

نوزائیدہ اور ایک ماہ سے کم عمر بچوں کی دیکھ بھال اور علاج باقی بچوں کی نسبت مختلف ہے۔
ایک ماہر ڈاکٹر ہی محفوظ اور موثر علاج تجویز کر سکتا ہے۔ عطائی اور غیر تربیت شدہ بندے سے علاج کروانا بچے کی صحت اور سلامتی کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔۔۔
1-شیر خوار بچوں کو مناسب گرم رکھیں
2, حفاظتی ٹیکے لگوائیں
3,صرف ماں کا دودھ پلائیں۔۔ یاد رکھیں گائے , بھینس , بکری وغیرہ کا دودھ ایک سال سے کم عمر بچے کو کبھی نہ دیں۔ یہ بچے کو خون کی کمی کے علاوہ بہت سے دماغی اور جسمانی مسائل کا سبب بنتا ہے۔
4.چھے ماہ کے بعد ٹھوس غذا ہر صورت میں بچے کی خوراک میں شامل کریں۔۔
5۔ایک ماہ سے کم عمر بچے کو کسی قسم کا کوئی انجکشن رانوں یا کولہوں میں نہ لگوایںں۔۔ اگر بچے کو انفیکشن ہو جو تفصیلی چیک اپ اور ٹیسٹ کے بعد ہی پتا چلتا ہے تو ایک ماہ سے کم عمر بچے کو ہسپتال میں داخل کر کے اینٹی بائیوٹک دیے جاتے ہیں۔۔ انفیکشن کی صورت میں گھر پہ علاج خطرناک ہو سکتا ہے ۔
6, بخار کا ٹیکہ جو پییراسیٹامول ہوتا ہے ایک ماہ سے کم عمر بچے کو گوشت پہ نہ لگوائیں۔۔

7.ایک انجکشن اینٹی بائیوٹک گوشت پہ لگوا کے منہ کے ذریعے اینٹی بائیو ٹک دینا عمومی طور پہ سود مند نہیں ہے

کزن میرجز کے نقصانات کیا ہیں اور یہ کتنے لمبے عرصہ تک چل سکتی ہیں؟ صحیح سلامت اولاد کے لئے کزن میرج فقط پچاس سال تک ہی ک...
08/02/2025

کزن میرجز کے نقصانات کیا ہیں اور یہ کتنے لمبے عرصہ تک چل سکتی ہیں؟

صحیح سلامت اولاد کے لئے کزن میرج فقط پچاس سال تک ہی کامیاب چل سکتی ہے بعد میں خاندان بیماریوں کا گڑھ بن جاتا ہے اور لوگ اسے جادو ٹونے کا نام دے دیتے ہیں حالانکہ یہ سب بیماریاں کزن میرج کا نتیجہ ہوتی ہیں۔

فرسٹ کزن میرج جو کہ حقیقی طور پہ کزن میرج کہلوائی جا سکتی ہے وہ زیادہ سے زیادہ تین یا چار جنریشنز تک درست چل سکتی ہے۔ اس سے زیادہ میں بہت سی جینیاتی بیماریاں آ جاتی ہیں۔جن میں نفسیاتی مسائل جیسا کہ "جن چمٹ جانا" یا سکزو فرینیا سے لیکر بے اولادی تک سب ہیں۔

جیسا کہ اس وقت انگلینڈ میں مسلمان آبادی بس 5% ہے لیکن وہیں انگلینڈ کے ٹوٹل جینیاتی کیسز کا سب سے بڑا حصہ یہ آبادی رکھتی ہے جو کہ 30% ہیں۔ مطلب مسلمان آبادی کا بڑا حصہ کزن میرج کی وجہ سے جینیاتی بیماریوں کا شکار ہو چکا ہے۔

اس وقت پاکستان میں 29 ملین لوگ جنیٹک بیماریوں کا شکار ہیں جو کہ کزن میرج کا ہی نتیجہ ہیں۔ بیس کروڑ آبادی میں سے تین کروڑ جنیٹک ڈس آرڈر ایک بہت بڑا نمبر ہیں( یہ نمبر آج سے تین سال پہلے کا ہے)۔

اسی طرح سپین کے شاہی خاندان میں ایسی رسم تھی جس میں خون کو "پاک رکھنے" کی خاطر انٹربریڈنگ کی بجائے ان بریڈنگ کی جاتی تھی۔ پانچ جنریشن بعد پرنس چارلس پیدا ہوا جسکے سر کا سائز بہت چھوٹا، ٹانگیں پینسل جیسی اور وہ خوراک تک با آسانی نہیں نگل سکتے تھے۔ یہ خاندان چارلس دوئم کے بعد ختم ہو گیا تھا۔ کیونکہ چارلس بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا۔

اس سب کو ہم بائیولوجی میں Inbreeding coefficient سے جانتے ہیں۔ کزن میرج میں یہ coefficient 0.06 تک ہوتا ہے جبکہ پانچ جنریشنز کے بعد یہی کوایفشنٹ چارلس دوئم میں 0.2+ کی خطرناک ویلیو پہ چلا گیا تھا اسکا مطلب یہ تھا کہ ان میں جینیاتی تغیر بہت کم اور بیماریوں کے امکانات بہت زیادہ ہو چکے تھے۔

نیچے چارلس دوئم اور انکے والد کی تصویر موجود ہے۔ ایسی شادیوں کے نتیجے میں لموترا چہرہ، تنگ تھوڑی بہت کامن ہے۔

اسی وجہ سے امریکہ کی زیادہ تر ریاستوں میں فرسٹ، سیکنڈ غرضیکہ ہر طرح کی کزن میرج پہ پابندی لگی ہوئی ہے جبکہ باقی کی مہذب دنیا بھی یہ جان چکی ہے۔

اگر ہم سادہ الفاظ میں بات کریں تو صحیح سلامت اولاد کے لئے کزن میرج فقط پچاس سال تک ہی کامیاب چل سکتی ہے بعد میں خاندان بیماریوں کا گڑھ بن جاتا ہے اور لوگ اسے جادو ٹونے کا نام دے دیتے ہیں حالانکہ یہ کزن میرج کا نتیجہ ہوتی ہیں۔

کزن میرج کے نتیجے میں درج ذیل بیماریاں ہوتی ہیں اپنے گرد دیکھ کر تصدیق بھی کر سکتے ہیں۔

پیدائش کے بعد جلد ہی بچے کی موت،
بے اولادی،
پری ٹرم یا ست ماہی پیدائش،
بچے کا مختلف جینیاتی بیماریوں کیساتھ پیدا ہونا،
تھیلیسیمیا،
مرگی،
ڈمب نیس (جو کہ بہت کامن ہے) ،
پڑھنے میں مشکلات کا سامنا (یہ بھی کامن ہے)
بہرہ پن،
ابارشن،
نظام انہضام کی بیماریاں
سکزوفرینیا یا پھر جن چمٹ جانا
بائی پولر ڈس آرڈر
اینڈ سو آن آپ اپنے گرد ان بیماریوں کو بہت زیادہ دیکھ سکتے ہیں۔

اسی طرح ذیابطیس کی اقسام بھی جینیاتی ہیں اور بہت سی فیملیز میں اسی وجہ سے یہ چل رہی ہیں کیونکہ وہاں کزن میرجز حد سے زیادہ ہیں۔

اس معاشرتی رویے کو ہم اوپنلی روک نہیں سکتے لیکن اپنے طور پہ اس رویے کی مخالفت ضرور کرنی چاہیے۔ اور شعور پھیلانے کی مکمل کوشش کرنی چاہیے۔

ضیغم قدیر

25/12/2024

کیا چھے ماہ کے بچے کو دہی دیا جا سکتا ہے؟
جی۔ دیا جا سکتا ہے ۔ بہتر ہے کہ دہی سادہ ہو میٹھا نہ ہو۔

Address

Bagh

Telephone

+923055520351

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dr Jamil Hussain child-specialist posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Category