
29/12/2024
عمرو عیار ۔ اک نئی شروعات!
تبصرہ: ڈاکٹر حامد حسن
مجھے یاد نہیں میں کب سے عمرو عیار کے پیچھے پڑا ہوں۔ بچپن میں عمرو کی کہانیاں پڑھی تو تھیں لیکن کون سی اور کتنی یاد نہیں۔ پھر عمران سیریز کے چکرویو میں پھنسا تو اس دشت کا ایسا راہی ہوا کہ الحفیظ الامان۔ جب خود لکھنے کی جوت جاگی تو افسانچوں کی اوٹ سے علی ارسلان اور علی گوہر جنمے، جن کو تا حال قلم و قرطاس سے باہر اشاعتی روش پر نہیں دوڑا سکا۔ لیکن محسن مدا ایسا ہوشیار نکلا کہ سیدھا ’اخبار جہاں‘ جا ٹھہرا۔
محترم امجد جاوید صاحب کا جی بوائے پڑھا تو خیال آیا بچوں کے لیے کون سا کردار پرکشش رہے گا۔ جواب میں چند سال قبل کی کامک سیریز یاد آئی جس کی صرف ایک ہی قسط، کتابی شکل میں مجھ تک پہنچی تھی جو کراچی سے (اردو اور انگلش دونوں زبانوں میں) شائع ہونے والی ”عمرو عیار“ تھی۔ یہ کامک سیریز کیا یاد آئی، کچھ عرصہ قبل پڑھی ہوئیں داستان امیر حمزہ اور طلسم ہوشربا یاد آئیں اور میں نے مکرر (دس دس چھوٹی کتابوں پر مشتمل) دونوں کا خلاصہ ایک بار پھر پڑھ لیا۔ یوں مارچ 2023 میں بچوں کے لیے ناول ”عامر عیار“ کا جنم ہوا۔ عمرو عیار کا جدید مگر دیسی ورژن جو قانون کی حکمرانی چاہتا ہے۔ دوسرا ناول لکھنے کی فرصت نہیں ملی۔ لیکن پاکستانی انڈسٹری میں اچانک اس کردار، ”عمرو عیار“ کی انٹری ہوئی اور سوشل میڈیا پر اس نام کی فلم کا چرچا شروع ہو گیا۔
ٹریلر دیکھا تو اندازہ ہوا کہ زبردست فلم ہو گی۔ اس لیے شدت سے انتظار میں جت گئے۔ سال گزار دوسرا سال آ گیا اور پھر فلم رلیز ہو گئی۔ پہلا تبصرہ ہی ایسا مایوس کن کہ دل خراب ہو گیا۔ ویسے بھی سینما تک رسائی ممکن نہیں تھی، دل خراب ہوا تو فلم دیکھنے کا خیال بھی نہ بنا۔ دوسرا تبصرہ بھی مایوس کن خیالات کا حامل ملا۔ اس کے بعد تو منفی تبصرہ جات کی لائن لگ گئی۔ ان سب میں مثبت بات صرف یہی تھی کہ پاکستانی انڈسٹری کی ایک اچھی کوشش ہے جو موضوع کے حوالے سے فلاپ ہے۔
کافی عرصہ ٹھنڈ میں گزار لیکن چند دن قبل اچانک فلم والے گروپ میں عمرو عیار اپلوڈ ہوئی، میں نے ڈاؤنلوڈ بھی کر لی اور بچوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنے کا وقت تلاشنے لگا۔ لیکن میری مصروفیات!
پھر دو روز قبل عامر عیار کے دوسرے ناول پر گفتگو کے دوران ایک دوست نے پوچھا، عمرو عیار دیکھی؟ ممکن ہے اس سے آپ کو عامر عیار کے لیے بھی کوئی چیز مل جائے۔ (ویسے ان کا مدعا عمرو عیار پر تبصرے کا تقاضا کرنا تھا جو کہ حاضر ہے۔) تو میں نے فلم دیکھنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔
طویل تمہید کے بعد عرض گزار ہوں کہ میری رائے فلم ”عمرو عیار“ کے لیے ستر فیصد مثبت ہے اور تیس فیصد منفی۔ تفصیلاً عرض کرتا ہوں۔ سب سے پہلے تو آتا ہوں فلم کے نام پر۔ بچے بالے آج بھی اسے عُمرو عیار پڑھتے ہیں اور ناواقف حضرات بھی۔ جبکہ یہ لفظ عین پر زبر کے ساتھ ’عَمر عیار‘ ہے، جسے ’عُمر‘ سے منفرد کرنے کے لیے ’و‘ کے لاحقے کے ساتھ ”عَمرو عیار“ لکھا اور عَمر عیار پڑھا جاتا ہے۔ تو فلم کا نام انگریزی میں یو ایم آر یو یعنی وہی بچوں والا ”عُمروْ“ ہی کیا گیا۔ جو کہ خاص طور پر اس لیے غلط ہے کہ ہیرو کا نام عَمرو ہے اور خود عَمرو عیار اسے ”عُمروْ“ کہنے پر ٹوک دیتا ہے کہ ”عُمروْ نہیں، عَمرو!“
آگے بڑھتے ہیں اور میرے خیال میں سیدھے سبھاؤ اسکورنگ کے پیمانے پر ہی بات کرتے چلتے ہیں۔ تو نام کے لیے دس میں سے پانچ نمبر کیونکہ نام عوام کے لیے تو ٹھیک ہے لیکن کردار کے لیے بالکل غلط!
کہانی: کہانی کو دس میں سے نو نمبر اور یک لفظی تبصرہ، ”بہترین!“
بصری ابلاغیات میں ’ڈی سی کومکس‘ نے سب سے پہلے ”سپر مین“ سے ایک جہانِ تخیل کی ابتدا کی۔ جس کے بعد مارویل نے اس میدان میں قدم رکھا۔ درمیان میں چھوٹی موٹی چیزیں بھی شامل ہوئیں لیکن ان دونوں کی کاوشوں تک کوئی نہ پہنچ سکا۔ زمانہ گزرا جب ’ڈی سی کامکس‘ نے پہلی بار ’ملٹی ورس‘ یعنی ”کثیر الکائناتی“ نظریہ پیش کیا اور ’فلیش‘ نامی کردار الگ الگ دنیاؤں کا راہی ہوا۔ اس کثیر الکائنات نظریے نے لکھنے، کہنے اور دکھانے والوں کو مجبور کیا کہ وہ بھی اس نظریے پر کچھ نہ کچھ لکھ کر، کہہ کر اور دکھا کر قارئین، سامعین اور ناظرین کو ورطہ حیرت میں مبتلا کریں۔
پاکستان میں یہ پہلی کاوش ہے کہ جو اس کثیر الابعاد اور کثیر الکائناتی نظریے پر بنائی گئی ہے۔ طلسمِ ہوشربا کو جدیدیت کا رنگ دینا اپنے آپ میں ایک عمدہ اقدام ہے۔ آج کے دور میں شاید طلسمِ ہوش ربا کی اس کے علاوہ کوئی توجیہہ دی بھی نہیں جا سکتی۔ پہلے منظر سے آخری منظر تک کہانی پن میں کہیں کوئی فرق یا جھول بالکل نہیں آیا۔ جس کسی نے بھی بچپن میں عمرو عیار کی کہانیاں پڑھی ہیں، اس عمرو عیار کو پردہ سیمیں پر دیکھنا اس کے لیے تسکین کا باعث ہے۔ اس ’کہانی پن‘ کے لیے بھی دس میں سے نو نمبر۔
ہدایت کاری:
دس میں سے نو نمبر کہ ہداہت کار نے ہر اداکار سے اس کی حیثیت اور صلاحیت کے مطابق نہ صرف کام لیا ہے بلکہ مجموعی طور پر ایک خوبصورت شاہکار تشکیل دیا ہے۔
اداکاری:
فلم میں کردار کے لحاظ سے ہر اداکار کے پاس اپنا حصہ تھا۔ جو تقریباً ہر کسی نے بھرپور انداز سے نبھایا۔ پھر بھی اگر نمبروار بتایا جائے تو میری نظر میں پہلے نمبر پر حمزہ علی عباسی بطور عمرو عیار کہ جنھوں نے عمرو عیار کا کردار سو فیصد عمدگی کے ساتھ ادا کیا۔ فلم کے منفی کردار، فاران طاہر یعنی ”لقا“ نے علی حمزہ یعنی عمرو عیار سے کم جوہر نہیں دکھائے لیکن چونکہ منفی کردار تھا اس لیے کم از کم مجھ سے تو ہمدردی حاصل نہیں کر سکتا۔ پھر بھی اداکاری کے لحاظ سے ان دونوں کو ہی پہلا نمبر ملتا ہے۔
ان کے بعد علی کاظمی دوسرے نمبر پر بطور معاذ، جس نے اتنی شاندار اداکاری کی کہ کردار کو امر کر دیا۔
تیسرے نمبر پر صنم سعید بطور مینا اور سلمان شوکت بطور اعظم اچھے رہے۔ ہیرو یعنی عثمان مختار کو بھی تیسرے نمبر پر رکھا ہے کیونکہ یہ بھائی صاحب کہانی کا مرکز ہونے کے باوجود اداکاری کے حوالے سے فاران طاہر، علی حمزہ اور علی کاظمی جتنا متاثر نہیں کر سکے۔
باقی کرداروں میں گرو یعنی منظر صہبائی، سیمی راحیل، عدنان صدیقی و دیگر تمام نے اپنے اپنے کردار کے مطابق بہت اچھا کام کیا۔ ماسوائے ثنا عرف چھینو نے۔ نہ جانے کیوں پوری فلم میں چہرے پر یکساں تاثرات کی وجہ سے ان کا کردار ذرا بھی متاثر نہیں کر پایا۔
بصری اثرات:
فلم کے ویژول ایفیکٹس نہایت شاندار ہیں، ان کے لیے بھی دس میں سے نو نمبر!
مصنف، ٹیم اور اصلی عمرو عیار:
اب میں اصل مدعے پر آتا ہوں کہ مصنف نے جو کہانی لکھی وہ اپنے لحاظ سے نہایت شاندار ہے۔ جو لوگ بچپن میں عمرو عیار کی کہانیاں پڑھتے رہے ہیں، ان کی تسکین کا سامان تو کرتی ہے لیکن مرکزی کردار، عمرو عیار کی ٹریٹمنٹ یہ بتاتی ہے کہ مصنف نے اصلی طلسمِ ہوشربا کبھی پڑھی ہی نہیں۔ بلکہ شاید فلم کی پوری ٹیم طلسمِ ہوش ربا کی حقیقت سے ناواقف ہے۔ تعارف کے طور پر جو ابتدائیہ فلم میں سنایا گیا اس میں سب سے بڑی اور بنیادی غلطی ”عیار“ کی تعریف ہے۔ ’عیار‘ کبھی بھی بادشاہوں کے لڑاکا نہیں تھے اور نہ ہی کبھی لڑنے والی سپاہ کا حصہ تھے۔ کجا یہ کہ عیاروں کو نہ صرف لڑاکے بلکہ سپاہ سالار بھی بتایا گیا۔ یہی بنیادی غلطی اصل کردار کو عمرو عیار سے کوسوں دور کر دیتی ہے۔
اگر عیار کو عام فہم یا انگریزی میں ترجمہ کیا جائے تو کسی حد تک جاسوس یا اسپائے ان معنوں پر پورا اترتا ہے، نا کہ فرنٹ وارئیر!
اس لیے عیاروں کے گروہ کی بجائے ساحروں/جادوگروں کا گروہ بنایا جاتا تو کہانی سے میل بھی کھاتا۔ بہرحال آگے بڑھتے ہیں۔
آخر طلسمِ ہوشربا ہے کیا کہ جس کو اس طرح ایک الگ سی دنیا کے طور پر برتا گیا ہے۔ طلسمِ ہوش ربا ایک الگ دنیا نہیں بلکہ ایک ملک ہے۔ کوہ قاف کے سلسلے میں طلسمِ ہوش ربا، طلسمِ نور افشاں، طلسمِ آئینہ وغیرہ جیسے ممالک آباد ہیں۔ کوہ قاف کی حد کوہِ عقیق سے شروع ہوتی ہے اور نہ جانے کہاں تک جاتی ہے۔ طلسمِ ہوشربا کا بادشاہ ’افراسیاب‘ ہے، طلسمِ نور افشاں کا بادشاہ ’کوکب‘ اور طلسمِ آئینہ کی ملکہ ’آئینہ جادو‘ ہے۔ اس جادو نگری کے آغاز کرنے والے سامری اور جمشید تھے جو ویسے تو مر کھپ چکے لیکن تمام جادوگروں کے لیے خدا کا درجہ رکھتے ہیں۔ پونے دو سو کے قریب خداؤں کے باوجود ان کا موجودہ خداوند ”لقا“ ہے کہ ’بختیارک‘ جس کا وزیر ہے۔
داستانِ امیر حمزہ کا صرف ایک باب کہ جس میں امیر حمزہ اس خودساختہ خدا ”لقا“ کے خلاف صف آرا ہوتے ہیں، ”طلسمِ ہوش ربا“ کے عنوان سے سات جلدوں میں بیان کیا گیا ہے۔ عمرو عیار کو اسی باب میں کھل کر اپنے جوہر دکھانے کا موقع ملا۔ جس کو یار لوگوں نے اندازِ غلط سے لکھنا شروع کیا اور ’چوں چوں کا مربہ‘ بچوں کی کہانیوں کی صورت میں صفحہ قرطاس پر پھیل کر ہر جا جا پہنچا۔ یہی عمرو عیار کی کاپی بلکہ بےجوڑ کاپی ہی فلم میں اٹھائی گئی اور اسے پردہ سیمیں پر سجا کر رکھ دیا گیا۔
اگر طلسمِ ہوش ربا کے عمرو عیار کو سامنے رکھ کر پوری فلم کی نمبرنگ کی جائے تو دس میں سے دو سے زیادہ نمبر نہیں بنتے کیونکہ فلم میں ”خداوندِ لقا“ کو افراسیاب کا ایک معمولی ہرکارہ بنا دیا گیا جو کہ بہت بڑا جھوٹ ہے۔ میرے نزدیک فلم بلاشبہ معیاری اور دلچسپ ہے لیکن عمرو عیار کے کردار سے ہرگز میل نہیں کھاتی۔ جدیدیت کے چکر میں عمرو عیار کا روپ ہی ختم کر کے رکھ دیا گیا۔
آخرش اربابِ اختیار سے درخواست ہے کہ ایسے کسی بھی پراجیکٹ کے لیے کسی مستند ماہر سے رائے لے لی جائے تو ہر قسمی کمی بیشی کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ مجموعی طور پر فلم کے لیے میری طرف سے دس میں سے سات نمبر!
خیراندیش
ڈاکٹر حامد حسن
پسِ نوشت: افسوس اس بات کا ہے کہ ابن صفی کے علی عمران اور داستان امیر حمزہ کے عمرو عیار دونوں کو نئے لوگوں نے جدت کے نام پر ان کی اصل روح سے کوسوں دور کر دیا ہے۔ اسی طرح نئی آنے والی پاکستانی اینیمیشن فلم ”کرونیکلز آف عمرو عیار“ سے بھی اتنی امیدیں نہیں رہیں۔
8:45pm
29-12-2024