22/11/2025
پسِ پشت
ڈاکٹر حامد حسن
بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ ”تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں۔“ اگر اس مقولے کا نامعقول مطلب اخذ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بےشک تصویر کے دو رخ ہوا کرتے ہیں لیکن ایک سمت ہمیشہ خالی ہوتی ہے، جبکہ دوسری سمت تصویر۔ آپ اپنی ہی کوئی تصویر اٹھا کر دیکھ لیجیے، یا اپنا تصویری البم نکالنے اور دیکھ لیجیے۔ ہر پنّے میں دو تصویریں ٹھونسی گئی ہوں گی۔ کیونکہ دونوں تصویروں کا پشتی حصہ خالی یعنی سفیدی سے اٹا ہوتا ہے۔ اس لیے کوئی بھی تصویر کی پشت دیکھنا گوارا نہیں کرتا۔
یوں بھی اب تو رواج ہو گیا ہے کہ پشتی سمت دیکھنا گناہ سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر جس وقت آپ سفر میں ہیں۔ گلیوں سے باہر نکلیے، بازاروں میں خواتین ایک دکان کا سجا سجایا شوکیس دیکھتے دیکھتے اچانک دوسری سمت کی دکان پر لپکتی ہیں کہ جیسے ایک لمحے کی دیری سے جہاز پرواز کر جائے گا۔ پشتی سمت سے آنے والے بائیک کی آواز کانوں میں گھسنے کے باوجود قدم اٹھتے ہیں اور بائیک والے کو اپنی جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔
یہی حال سڑکوں کا ہے۔ رکشہ ڈرائیور، بائیک والے، حتیٰ کہ پیدل چلنے والے بھی لین اور پیچھے کی ٹریفک کا خیال کیے بغیر اچانک مڑتے ہیں اور آپ کے آگے آ جاتے ہیں۔ نتیجتاً ایک دھماکے کے ساتھ پلاسٹک، شیشہ اور کچھ ہڈیاں ٹوٹی پڑی ہوتی ہیں۔ گاڑیوں میں بےشک پیچھے دیکھنے کے لیے بیک مرر ہوتا ہے۔ لیکن پیچھے دیکھتا کون ہے؟ ”رواج ہی نہیں رہا۔“
جب سے الیکٹرک بائیک مارکیٹ میں وارد ہوئے ہیں زیادہ تر خواتین کے ہتھے چڑھے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ خواتین کی ترقی اتنی تیزی سے ہوئی ہے کہ ہر چوتھی بائیک اور ہر الیکٹرک سکوٹی پر خواتین ہی نظر آتی ہیں۔ پھر ہمارا قومی المیہ ہے کہ جب ٹریفک قوانین جاننے کا شوق مرد حضرات بھی نہیں رکھتے تو خواتین کہاں رکھیں گی۔ لہذا ہر ”دو پہیے“ والا یا والی پسِ پشت دیکھے بغیر ہی ہینڈل گھمانے کا کام کیا کرتا ہے۔
ویسے بھی ”دو پہیے“ پر پیچھے دیکھنے کا سسٹم کہاں ہوتا ہے؟ ہم لوگوں نے خواتین کو پیٹرول اور چارجنگ پر لگا دیا ہے کہ بائیک یا سکوٹی کی سانسوں کا بندوبست سب سے پہلے ہے۔ اس کے بعد صرف ریس ہی گھمانی ہے۔ اگر ”سامنے“ کوئی چیز آ جائے تو دائیں بائیں گھما دینا یا پھر بریک لگانی دینا، پیچھے کا جھنجھٹ نہیں پالنا، پیچھے والا اپنی گاڑی اور زندگی خود سنبھالے گا۔ اس کی ٹکر سے چاہے آپ کی ہڈیاں ٹوٹ جائیں، دے دینا دھن!
لیجیے! ہم بھی بہک کر کہاں آگے ہی آگے بڑھتے چلے گئے، پیچھے کی خبر ہی نہیں لی۔ کہیں ہم بھی رواج کے مطابق تو نہیں چلنا شروع ہو گئے؟ چلیں واپس چلتے ہوئے ایک سوال ہی پوچھ لیتے ہیں۔
کیا آپ کی بائیک یا سکوٹی پر ”پسِ پشت“ دیکھنے کے لیے بیک مرر ٹائپ کے کوئی شیشے ہیں؟
اگر نہیں تو پھر ہسپتال کے چکروں میں پھنسنے کا سوچ کر ہی گھر سے باہر قدم نکالئے گا۔۔۔ اوہ ۔۔۔ سوری۔۔۔ قدم نہیں، بائیک!
16-11-25
@12:40am
______________________
اشاعت بہ شکریہ: ہفت روزہ *نوائے خیرپور* بہاولپور
(22 نومبر تا 28 نومبر)