Dr Hamid Hassan

Dr Hamid Hassan وقت کا مرہم، درد کا درماں، احساسات کی دنیا!

عمرو عیار ۔ اک نئی شروعات!تبصرہ: ڈاکٹر حامد حسن مجھے یاد نہیں میں کب سے عمرو عیار کے پیچھے پڑا ہوں۔ بچپن میں عمرو کی کہا...
29/12/2024

عمرو عیار ۔ اک نئی شروعات!
تبصرہ: ڈاکٹر حامد حسن

مجھے یاد نہیں میں کب سے عمرو عیار کے پیچھے پڑا ہوں۔ بچپن میں عمرو کی کہانیاں پڑھی تو تھیں لیکن کون سی اور کتنی یاد نہیں۔ پھر عمران سیریز کے چکرویو میں پھنسا تو اس دشت کا ایسا راہی ہوا کہ الحفیظ الامان۔ جب خود لکھنے کی جوت جاگی تو افسانچوں کی اوٹ سے علی ارسلان اور علی گوہر جنمے، جن کو تا حال قلم و قرطاس سے باہر اشاعتی روش پر نہیں دوڑا سکا۔ لیکن محسن مدا ایسا ہوشیار نکلا کہ سیدھا ’اخبار جہاں‘ جا ٹھہرا۔
محترم امجد جاوید صاحب کا جی بوائے پڑھا تو خیال آیا بچوں کے لیے کون سا کردار پرکشش رہے گا۔ جواب میں چند سال قبل کی کامک سیریز یاد آئی جس کی صرف ایک ہی قسط، کتابی شکل میں مجھ تک پہنچی تھی جو کراچی سے (اردو اور انگلش دونوں زبانوں میں) شائع ہونے والی ”عمرو عیار“ تھی۔ یہ کامک سیریز کیا یاد آئی، کچھ عرصہ قبل پڑھی ہوئیں داستان امیر حمزہ اور طلسم ہوشربا یاد آئیں اور میں نے مکرر (دس دس چھوٹی کتابوں پر مشتمل) دونوں کا خلاصہ ایک بار پھر پڑھ لیا۔ یوں مارچ 2023 میں بچوں کے لیے ناول ”عامر عیار“ کا جنم ہوا۔ عمرو عیار کا جدید مگر دیسی ورژن جو قانون کی حکمرانی چاہتا ہے۔ دوسرا ناول لکھنے کی فرصت نہیں ملی۔ لیکن پاکستانی انڈسٹری میں اچانک اس کردار، ”عمرو عیار“ کی انٹری ہوئی اور سوشل میڈیا پر اس نام کی فلم کا چرچا شروع ہو گیا۔
ٹریلر دیکھا تو اندازہ ہوا کہ زبردست فلم ہو گی۔ اس لیے شدت سے انتظار میں جت گئے۔ سال گزار دوسرا سال آ گیا اور پھر فلم رلیز ہو گئی۔ پہلا تبصرہ ہی ایسا مایوس کن کہ دل خراب ہو گیا۔ ویسے بھی سینما تک رسائی ممکن نہیں تھی، دل خراب ہوا تو فلم دیکھنے کا خیال بھی نہ بنا۔ دوسرا تبصرہ بھی مایوس کن خیالات کا حامل ملا۔ اس کے بعد تو منفی تبصرہ جات کی لائن لگ گئی۔ ان سب میں مثبت بات صرف یہی تھی کہ پاکستانی انڈسٹری کی ایک اچھی کوشش ہے جو موضوع کے حوالے سے فلاپ ہے۔
کافی عرصہ ٹھنڈ میں گزار لیکن چند دن قبل اچانک فلم والے گروپ میں عمرو عیار اپلوڈ ہوئی، میں نے ڈاؤنلوڈ بھی کر لی اور بچوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنے کا وقت تلاشنے لگا۔ لیکن میری مصروفیات!
پھر دو روز قبل عامر عیار کے دوسرے ناول پر گفتگو کے دوران ایک دوست نے پوچھا، عمرو عیار دیکھی؟ ممکن ہے اس سے آپ کو عامر عیار کے لیے بھی کوئی چیز مل جائے۔ (ویسے ان کا مدعا عمرو عیار پر تبصرے کا تقاضا کرنا تھا جو کہ حاضر ہے۔) تو میں نے فلم دیکھنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔
طویل تمہید کے بعد عرض گزار ہوں کہ میری رائے فلم ”عمرو عیار“ کے لیے ستر فیصد مثبت ہے اور تیس فیصد منفی۔ تفصیلاً عرض کرتا ہوں۔ سب سے پہلے تو آتا ہوں فلم کے نام پر۔ بچے بالے آج بھی اسے عُمرو عیار پڑھتے ہیں اور ناواقف حضرات بھی۔ جبکہ یہ لفظ عین پر زبر کے ساتھ ’عَمر عیار‘ ہے، جسے ’عُمر‘ سے منفرد کرنے کے لیے ’و‘ کے لاحقے کے ساتھ ”عَمرو عیار“ لکھا اور عَمر عیار پڑھا جاتا ہے۔ تو فلم کا نام انگریزی میں یو ایم آر یو یعنی وہی بچوں والا ”عُمروْ“ ہی کیا گیا۔ جو کہ خاص طور پر اس لیے غلط ہے کہ ہیرو کا نام عَمرو ہے اور خود عَمرو عیار اسے ”عُمروْ“ کہنے پر ٹوک دیتا ہے کہ ”عُمروْ نہیں، عَمرو!“
آگے بڑھتے ہیں اور میرے خیال میں سیدھے سبھاؤ اسکورنگ کے پیمانے پر ہی بات کرتے چلتے ہیں۔ تو نام کے لیے دس میں سے پانچ نمبر کیونکہ نام عوام کے لیے تو ٹھیک ہے لیکن کردار کے لیے بالکل غلط!
کہانی: کہانی کو دس میں سے نو نمبر اور یک لفظی تبصرہ، ”بہترین!“
بصری ابلاغیات میں ’ڈی سی کومکس‘ نے سب سے پہلے ”سپر مین“ سے ایک جہانِ تخیل کی ابتدا کی۔ جس کے بعد مارویل نے اس میدان میں قدم رکھا۔ درمیان میں چھوٹی موٹی چیزیں بھی شامل ہوئیں لیکن ان دونوں کی کاوشوں تک کوئی نہ پہنچ سکا۔ زمانہ گزرا جب ’ڈی سی کامکس‘ نے پہلی بار ’ملٹی ورس‘ یعنی ”کثیر الکائناتی“ نظریہ پیش کیا اور ’فلیش‘ نامی کردار الگ الگ دنیاؤں کا راہی ہوا۔ اس کثیر الکائنات نظریے نے لکھنے، کہنے اور دکھانے والوں کو مجبور کیا کہ وہ بھی اس نظریے پر کچھ نہ کچھ لکھ کر، کہہ کر اور دکھا کر قارئین، سامعین اور ناظرین کو ورطہ حیرت میں مبتلا کریں۔
پاکستان میں یہ پہلی کاوش ہے کہ جو اس کثیر الابعاد اور کثیر الکائناتی نظریے پر بنائی گئی ہے۔ طلسمِ ہوشربا کو جدیدیت کا رنگ دینا اپنے آپ میں ایک عمدہ اقدام ہے۔ آج کے دور میں شاید طلسمِ ہوش ربا کی اس کے علاوہ کوئی توجیہہ دی بھی نہیں جا سکتی۔ پہلے منظر سے آخری منظر تک کہانی پن میں کہیں کوئی فرق یا جھول بالکل نہیں آیا۔ جس کسی نے بھی بچپن میں عمرو عیار کی کہانیاں پڑھی ہیں، اس عمرو عیار کو پردہ سیمیں پر دیکھنا اس کے لیے تسکین کا باعث ہے۔ اس ’کہانی پن‘ کے لیے بھی دس میں سے نو نمبر۔
ہدایت کاری:
دس میں سے نو نمبر کہ ہداہت کار نے ہر اداکار سے اس کی حیثیت اور صلاحیت کے مطابق نہ صرف کام لیا ہے بلکہ مجموعی طور پر ایک خوبصورت شاہکار تشکیل دیا ہے۔
اداکاری:
فلم میں کردار کے لحاظ سے ہر اداکار کے پاس اپنا حصہ تھا۔ جو تقریباً ہر کسی نے بھرپور انداز سے نبھایا۔ پھر بھی اگر نمبروار بتایا جائے تو میری نظر میں پہلے نمبر پر حمزہ علی عباسی بطور عمرو عیار کہ جنھوں نے عمرو عیار کا کردار سو فیصد عمدگی کے ساتھ ادا کیا۔ فلم کے منفی کردار، فاران طاہر یعنی ”لقا“ نے علی حمزہ یعنی عمرو عیار سے کم جوہر نہیں دکھائے لیکن چونکہ منفی کردار تھا اس لیے کم از کم مجھ سے تو ہمدردی حاصل نہیں کر سکتا۔ پھر بھی اداکاری کے لحاظ سے ان دونوں کو ہی پہلا نمبر ملتا ہے۔
ان کے بعد علی کاظمی دوسرے نمبر پر بطور معاذ، جس نے اتنی شاندار اداکاری کی کہ کردار کو امر کر دیا۔
تیسرے نمبر پر صنم سعید بطور مینا اور سلمان شوکت بطور اعظم اچھے رہے۔ ہیرو یعنی عثمان مختار کو بھی تیسرے نمبر پر رکھا ہے کیونکہ یہ بھائی صاحب کہانی کا مرکز ہونے کے باوجود اداکاری کے حوالے سے فاران طاہر، علی حمزہ اور علی کاظمی جتنا متاثر نہیں کر سکے۔
باقی کرداروں میں گرو یعنی منظر صہبائی، سیمی راحیل، عدنان صدیقی و دیگر تمام نے اپنے اپنے کردار کے مطابق بہت اچھا کام کیا۔ ماسوائے ثنا عرف چھینو نے۔ نہ جانے کیوں پوری فلم میں چہرے پر یکساں تاثرات کی وجہ سے ان کا کردار ذرا بھی متاثر نہیں کر پایا۔
بصری اثرات:
فلم کے ویژول ایفیکٹس نہایت شاندار ہیں، ان کے لیے بھی دس میں سے نو نمبر!
مصنف، ٹیم اور اصلی عمرو عیار:
اب میں اصل مدعے پر آتا ہوں کہ مصنف نے جو کہانی لکھی وہ اپنے لحاظ سے نہایت شاندار ہے۔ جو لوگ بچپن میں عمرو عیار کی کہانیاں پڑھتے رہے ہیں، ان کی تسکین کا سامان تو کرتی ہے لیکن مرکزی کردار، عمرو عیار کی ٹریٹمنٹ یہ بتاتی ہے کہ مصنف نے اصلی طلسمِ ہوشربا کبھی پڑھی ہی نہیں۔ بلکہ شاید فلم کی پوری ٹیم طلسمِ ہوش ربا کی حقیقت سے ناواقف ہے۔ تعارف کے طور پر جو ابتدائیہ فلم میں سنایا گیا اس میں سب سے بڑی اور بنیادی غلطی ”عیار“ کی تعریف ہے۔ ’عیار‘ کبھی بھی بادشاہوں کے لڑاکا نہیں تھے اور نہ ہی کبھی لڑنے والی سپاہ کا حصہ تھے۔ کجا یہ کہ عیاروں کو نہ صرف لڑاکے بلکہ سپاہ سالار بھی بتایا گیا۔ یہی بنیادی غلطی اصل کردار کو عمرو عیار سے کوسوں دور کر دیتی ہے۔
اگر عیار کو عام فہم یا انگریزی میں ترجمہ کیا جائے تو کسی حد تک جاسوس یا اسپائے ان معنوں پر پورا اترتا ہے، نا کہ فرنٹ وارئیر!
اس لیے عیاروں کے گروہ کی بجائے ساحروں/جادوگروں کا گروہ بنایا جاتا تو کہانی سے میل بھی کھاتا۔ بہرحال آگے بڑھتے ہیں۔
آخر طلسمِ ہوشربا ہے کیا کہ جس کو اس طرح ایک الگ سی دنیا کے طور پر برتا گیا ہے۔ طلسمِ ہوش ربا ایک الگ دنیا نہیں بلکہ ایک ملک ہے۔ کوہ قاف کے سلسلے میں طلسمِ ہوش ربا، طلسمِ نور افشاں، طلسمِ آئینہ وغیرہ جیسے ممالک آباد ہیں۔ کوہ قاف کی حد کوہِ عقیق سے شروع ہوتی ہے اور نہ جانے کہاں تک جاتی ہے۔ طلسمِ ہوشربا کا بادشاہ ’افراسیاب‘ ہے، طلسمِ نور افشاں کا بادشاہ ’کوکب‘ اور طلسمِ آئینہ کی ملکہ ’آئینہ جادو‘ ہے۔ اس جادو نگری کے آغاز کرنے والے سامری اور جمشید تھے جو ویسے تو مر کھپ چکے لیکن تمام جادوگروں کے لیے خدا کا درجہ رکھتے ہیں۔ پونے دو سو کے قریب خداؤں کے باوجود ان کا موجودہ خداوند ”لقا“ ہے کہ ’بختیارک‘ جس کا وزیر ہے۔
داستانِ امیر حمزہ کا صرف ایک باب کہ جس میں امیر حمزہ اس خودساختہ خدا ”لقا“ کے خلاف صف آرا ہوتے ہیں، ”طلسمِ ہوش ربا“ کے عنوان سے سات جلدوں میں بیان کیا گیا ہے۔ عمرو عیار کو اسی باب میں کھل کر اپنے جوہر دکھانے کا موقع ملا۔ جس کو یار لوگوں نے اندازِ غلط سے لکھنا شروع کیا اور ’چوں چوں کا مربہ‘ بچوں کی کہانیوں کی صورت میں صفحہ قرطاس پر پھیل کر ہر جا جا پہنچا۔ یہی عمرو عیار کی کاپی بلکہ بےجوڑ کاپی ہی فلم میں اٹھائی گئی اور اسے پردہ سیمیں پر سجا کر رکھ دیا گیا۔
اگر طلسمِ ہوش ربا کے عمرو عیار کو سامنے رکھ کر پوری فلم کی نمبرنگ کی جائے تو دس میں سے دو سے زیادہ نمبر نہیں بنتے کیونکہ فلم میں ”خداوندِ لقا“ کو افراسیاب کا ایک معمولی ہرکارہ بنا دیا گیا جو کہ بہت بڑا جھوٹ ہے۔ میرے نزدیک فلم بلاشبہ معیاری اور دلچسپ ہے لیکن عمرو عیار کے کردار سے ہرگز میل نہیں کھاتی۔ جدیدیت کے چکر میں عمرو عیار کا روپ ہی ختم کر کے رکھ دیا گیا۔
آخرش اربابِ اختیار سے درخواست ہے کہ ایسے کسی بھی پراجیکٹ کے لیے کسی مستند ماہر سے رائے لے لی جائے تو ہر قسمی کمی بیشی کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ مجموعی طور پر فلم کے لیے میری طرف سے دس میں سے سات نمبر!

خیراندیش
ڈاکٹر حامد حسن

پسِ نوشت: افسوس اس بات کا ہے کہ ابن صفی کے علی عمران اور داستان امیر حمزہ کے عمرو عیار دونوں کو نئے لوگوں نے جدت کے نام پر ان کی اصل روح سے کوسوں دور کر دیا ہے۔ اسی طرح نئی آنے والی پاکستانی اینیمیشن فلم ”کرونیکلز آف عمرو عیار“ سے بھی اتنی امیدیں نہیں رہیں۔

8:45pm
29-12-2024

الحمدللہ عامر عیار کی ایک چھوٹی سی کہانی۔۔۔ ٹائم ٹریول کے موضوع پر انعام کی حقدار ٹھہری ہے! بہت شکریہ شہزاد بھائی، بہت ش...
16/11/2024

الحمدللہ
عامر عیار کی ایک چھوٹی سی کہانی۔۔۔
ٹائم ٹریول کے موضوع پر انعام کی حقدار ٹھہری ہے!

بہت شکریہ شہزاد بھائی، بہت شکریہ کتاب دوست!
Shahzad Bashir - Author

کہانی کا ربط: (کتاب دوست ڈاٹ کام پر کہانی پڑھی جا سکتی ہے👇🏻)

https://magazine.kitabdost.com/%d8%b3%d9%81%d8%b1-%d8%b8%d9%81%d8%b1-%d9%b9%d8%a7%d8%a6%d9%85-%d9%b9%d8%b1%db%8c%d9%88%d9%84-%da%a9%db%81%d8%a7%d9%86%db%8c-%d8%b3%d9%88%d8%a6%d9%85-%d8%a7%d9%86%d8%b9%d8%a7%d9%85/

ڈاکٹر حامد حسن

افسانہ: قیدی سردار (اسیر)ڈاکٹر حامد حسنوہ لمحہ قاتل تھا جس نے ایک ساتھ دو خون کر کے مجھے اپنا اسیر بنا لیا۔ لیکن بات اسی...
01/09/2024

افسانہ:
قیدی سردار (اسیر)
ڈاکٹر حامد حسن

وہ لمحہ قاتل تھا جس نے ایک ساتھ دو خون کر کے مجھے اپنا اسیر بنا لیا۔ لیکن بات اسی پل کی کہاں تھی، بہت پہلے کی تھی۔ شاید کئی ماہ پہلے یا کئی سال پرانی۔ اب تو اس کا احساس ہی نہیں رہا تھا۔
بڑے سر کا حامل میں عام بچہ نہیں تھا۔ اماں کے بقول پیدائش کے وقت میں بالکل ٹھیک تھا۔ مگر چھے ماہ میں ہی میرا سر پھیلنے لگا تو عورتوں نے اماں کو ڈرانا اور ہَولانا شروع کر دیا۔
”سر بڑا ہو گیا تو جِن آنے لگیں گے۔۔۔“
”جنات اسے اٹھا لے جائیں گے۔۔“
”پانی پڑ جائے گا سر میں اگر اسی طرح بڑھتا رہا۔۔“
”سر پر دھاگا بندھواؤ۔۔۔“ کسی نے کہا اور اماں مجھے لے کر دھاگا بندھوانے نہر پار چل دی۔ پیر سائیں نے دھاگے کے نام پر کھجور کا بُنا ہوا چارپائی والا بان سر پر لپیٹ دیا کہ ”اسے مت کھولنا ورنہ سر بڑھتا بڑھتا جنات کا گھر بن جائے گا۔“
دو دن تک میں تنکوں کی چبھن برداشت کرتا اور روتا رہا۔ تیسرے دن اماں نے میکے کے لیے رختِ سفر باندھا اور گھر سے نکلتے ہی میرے سر کو جنات کے محافظ ’دھاگے‘ سے آزاد کر دیا۔
ایک ماہ تک سر کی بڑھوتری معمولی رہی تو سکھ کا سانس لیا۔ لیکن میرا سر معمول جیسا نہیں تھا بلکہ اس عمر کے دوسرے بچوں سے کچھ بڑا تھا۔ لہٰذا میرا نام ’دارا‘ سے سردار کر دیا گیا اور پھر یہ سردار واقعی بڑے سر والا بنتا چلا گیا۔
دھاگا پیر نے دوبارہ دھاگا باندھنے سے انکار کر دیا کہ دھاگا باندھنے کا وقت گزر چکا۔ میرا باپ اس دھاگے کے خلاف یوں ہوا کہ اس نے پیر سائیں کے آستانے پر دولے شاہ کے چوہے (چھوٹے سر والے بچے) دیکھ لیے تھے۔ شاید یہ اچھا ہی ہوا ورنہ میں بھی دولے شاہ کا چوہا ہی بن کہ رہ جاتا۔
سردار نام کی بھی عجب بات تھی۔ چار سال کی عمر میں کسی عورت نے ہی اماں کو بتایا کہ ’دارے کا سر بہت بڑا ہے۔۔۔‘ لیکن ماں نے جواب میں ’بڑے سر سرداروں کے ہوتے ہیں‘ کہہ کر اس عورت کو تو خاموش کرا دیا لیکن میں سردار ہو کر رہ گیا۔ اب سوچتا ہوں کہ میں سردار کہاں اور کب بن سکا ہوں۔ میں تو لمحے کا اسیر ہو کر رہ گیا تھا۔
وہ لمحہ پھر آ وارد ہوا ہے جو میرے بچپن کا ہی قاتل ہو گیا تھا۔ خاور اور سبطین میرے یار تھے اور انھی کے ساتھ کھیلتے ہوئے میں مٹی میں دفن ہو گیا۔ کھیل کھیل کی بات تھی، پہلے سبطین اور میں نے خاور کو مٹی میں دبایا اور پھر ان دونوں نے مجھے۔ مٹی پاٹنے والی کسّی سبطین کے ہاتھ میں تھی۔ مٹی اٹھا کر میرے جسم پر ڈالتے ڈالتے اچانک کسّی میرے پیر میں گھس گئی اور میرے پاؤں کا انگوٹھا جڑ سے کٹ گیا۔ وہ دونوں میری چیخوں سے ڈر کر بھاگ گئے اور میں درد میں لوٹ پوٹ ہوتا رہا۔
بچپن میں ہی میرے پیر کا انگوٹھا میرا ساتھ چھوڑ گیا۔ وہ
دونوں دوست میری خاموشی سے ایسے خوفزدہ ہوئے کہ دوستی ہی چھوڑ گئے۔ لیکن میں آدھا اسی انگوٹھے میں پھنسا پیچھے رہ گیا۔
جوانی آئی تو بڑے سر نے مجھے عجوبہ بنا دیا۔ خاور کا جنرل اسٹور چل پڑا، سبطین مشہور درزی ہو گیا اور میں، نام کا تو ’سردار‘ تھا مگر خواہشات و جذبات سے یکسر عاری ایک مشین نما مزدور۔ جوانی مجھ پر بھی ٹوٹ کر برسی اور میں اس حسینہ کی زلفوں کا اسیر بن بیٹھا جو نہ جانے کتنوں کے دلوں میں دھڑکتی تھی۔ اس سے پہلے کہ میں رانی سے اپنے جذبات کا اظہار کرتا، سبطین نے نہ صرف اس کے جسم کا ناپ لے لیا بلکہ اس کے جسم پر اپنے نام کا جوڑا تک سجا دیا۔ خاور بھی پیچھے نہ رہا اور رانی کی بہن کو اپنے جنرل اسٹور کی مالکن بنا کر مجھے اپنے خوابوں کا ’قیدی‘ بنا چھوڑ گئے۔
لیکن اب زمانے کا چلن مختلف ہو گیا تھا۔ میرا بڑا سر مجھے کچھ نہ کچھ کر دینے پر اکسانے لگا تھا۔ میں، جو سب کے دکھوں کا مداوا بن چکا تھا، سب کے کام کیا کرتا تھا، سب کا وزن ڈھویا کرتا تھا، سب کا مزدور تھا، ’سردار‘ بننے کا سوچ چکا تھا۔ باپ کا سایہ سر سے اٹھ چکا تھا، ماں گھر میں ایک بستر کی قیدی تھی اور میں سرداری کا سودا سر میں سمائے رانی اور مہارانی سے بھی اونچی ڈار تک اڑان بھرنے کو تیار تھا۔ لیکن وہی لمحہ ایک بار پھر میری راہ کا کانٹا بن گیا۔
رانی، سبطین کے کپڑوں کے نیچے کسی اور کے کپڑوں میں ملبوس نکلی تو سبطین نے میری نظروں کے سامنے اس کا گلا کاٹ دیا اور خاور کے ساتھ مل کر مجھے رانی کا قاتل قرار دے دیا۔ عدالت نے مجھے ’بےسَر‘ کا سردار ثابت کیا اور عقل سے پیدل کہہ کر فارغ کر دیا۔ نہ تو رانی دنیا میں رہی اور نہ ہی میری ماں۔ وہی سبطین اور خاور مجھے پھر لمحے کا اسیر کر گئے اور یوں میری جوانی بھی اسی لمحے کی قید میں چلی گئی۔
میں اب کیا ہوں، کون ہوں میں نہیں جانتا۔ میرے باپ نے میرا نام ’دارا‘ رکھا تھا، ماں نے مجھے ’سردار‘ بنا دیا اور میرے دوستوں نے مجھے بچپن سے ہی ”دولے شاہ کا کتا“ بنا کر رکھ دیا۔ میں آخر ہوں کیا؟ کہاں ہوں اور کیوں؟
وہ دیکھو وہ رہا سبطین جو اپنی دکان میں کپڑے کاٹنے اور سینے میں مصروف ہے۔ اور وہ رہا خاور۔۔۔ جو ایک کرسی پر سردار بنا ملازموں کی فوج سے اپنا سامان فروخت کرا رہا ہے۔ جبکہ میں ۔۔۔ میں میلے کچیلے، پھٹے ہوئے کپڑوں میں ملبوس سڑک پر کھڑا رال ٹپکا رہا ہوں۔ میرا بڑا سا سر سبطین کی پشت پر موجود رانی کی تصویر کی جانب ہے۔۔ نہیں وہ تصویر تو نہیں ہے۔۔۔ وہ تو رانی کا سر ہے، حسین و جمیل چہرے والا اور رانی کے لمبے سیاہ بال اس کی گردن سے بھی نیچے، سبطین کے سر کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں بلکہ اس سے بھی نیچے، سبطین کی گردن کی طرف۔۔۔ نہ جانے کب رانی اپنے قتل کا بدلہ لے گی۔
وہ ۔۔۔ وہ خاور اپنی دکان سے باہر نکلا ہے۔۔۔
سبطین کو آواز دے رہا ہے۔۔۔
وہ دونوں اکٹھے کہیں جا رہے ہیں۔۔
رانی کا سر سبطین کے جسم کے ساتھ ساتھ پرواز کر رہا ہے اور اس کے بال گردن کی طرف لپک رہے ہیں۔۔
سبطین کی گردن کی طرف۔۔۔
نہیں۔۔۔ صرف سبطین کی گردن نہیں۔۔۔
اب خاور کی گردن بھی ان بالوں کی گرفت سے دور نہیں رہی۔۔۔
وہ۔۔۔ بال لمبے ہوئے۔۔۔ اور لمبے ہوئے۔۔۔
وہ دیکھو۔۔ دونوں گردنیں جکڑی گئیں ۔۔۔ اور وہ دونوں ۔۔۔۔
وہ دونوں اب دیوار کی اوٹ میں، بہت سارے پتوں کے نیچے دبے پڑے ہیں۔۔۔
رانی کے بال میرے ہاتھوں میں ہیں اور اس کا سر میری گود میں۔۔۔
اور میں ۔۔۔ میں اب بھی بازار میں بیٹھا ہوں۔۔۔
سبطین اور خاور کی دکانوں کے درمیان میں۔۔
ہاں۔۔ میں دارا ہوں۔۔۔ سردار۔۔ اور رانی میری گود میں ہے۔۔ اور میں اسی رانی کی قید میں ہوں۔۔ میں دارا ہوں۔۔۔ رانی کا بڑے سر والا سردار!
******
06-02-2024
11:11pm

برقی اشاعت: عالمی اردو فکشن فورم
افسانہ نمبر: 39
تاریخ: 24 فروری 2024

(احباب کے پرزور اصرار پر ایک بار پھر پیش خدمت ہے۔۔۔ علی عمران کا مفصل تعارف، ابتدا سے۔۔۔ )                   علی عمران.....
30/06/2024

(احباب کے پرزور اصرار پر ایک بار پھر پیش خدمت ہے۔۔۔ علی عمران کا مفصل تعارف، ابتدا سے۔۔۔ )

علی عمران...... میری نظر میں!
ڈاکٹر حامد حسن : بہاولپور

مختصراً: علی عمران ایم ایس سی، پی ایچ ڈی (آکسن) چیف آف سیکرٹ سروس۔

کرم رحمان، محکمہ خُفیہ(انٹیلی جنس ڈپارٹمنٹ ) کے سربراہ، عمران کے والد گرامی ہیں۔ جس وقت عمران کی پیدائش ہوئی اس وقت رحمان اِسی محکمہ خفیہ میں انسپکٹر تھے۔ بعد میں اپنی محنت کے بل پر ترقی کرتے ہوئے سربراہی تک آن پہنچے۔ آج دنیا انھیں ”کرم رحمان“ سربراہ محکمہ خفیہ (ڈائریکٹر انٹیلیجنس) کی حیثیت سے جانتی ہے(کچھ لوگ عبدالرحمان بھی کہتے ہیں جو کہ غلط ہے)۔ بیٹے کے لئے وہ روائتی جاگیردار ہیں (کیونکہ خاندانی جاگیردار ہی ہیں، سونے پر سہاگہ یہ کہ چنگیزی النسل ہیں) لہٰذا چاہتے ہیں کہ بیٹا ”ملازم“ کی طرح جی حضوری کرتا رہے۔
والدہ کا نام تو شاید صرف رحمان صاحب ہی جانتے ہونگے ورنہ باقی سب بچے اور بڑے انھیں اماں بی اور بڑی بیگم ہی بلاتے ہیں۔ انتہائی محبت کرنے والی اور جذباتی، لیکن صرف خانہ داری کر نے والی خاتون ہیں۔ بیٹے عمران اور بیٹی ثریا سے بہت پیار کرتی ہیں۔ جب عمران کی الٹی سیدھی حرکتوں کو برداشت نہیں کر سکتیں تو اپنا جوتا اتار کر عمران کی (مقدور بھر) خوب پٹائی کرتی ہیں۔
بہن ثریا، بھائی سے پیار تو بہت کرتی ہے لیکن چنگیزی باپ کی چنگیزی بیٹی کسی سے ہار نہ ماننے والی ہے۔ اس لئے بھائی کے ساتھ اکثر جھگڑا ہی کرتی رہتی ہے۔ گھر میں اور بھی دو چار عم زاد بہنیں ہیں جو ثریا کے ساتھ مل کر عمران کو تنگ کرتی رہتی ہیں اور حظ اٹھاتی ہیں۔
عمران کی ایک صلاحیت جو بچپن سے دی گئی وہ یہ کہ اکثر کسی کام کو ایک ہی بار دیکھ کر سیکھ جانا تھی۔ کبھی ہی کچھ ایسا ہوتا جو ایک بار سے زیادہ دیکھنا یا سمجھنا پڑتا۔ مزاجاً عمران بچپن سے ہی خوش اخلاق اور پر مزاح تھا لیکن گھر والوں کی سختی اسے غیر سنجیدگی میں ڈھالنے لگی۔ رحمان صاحب اپنا حکم نافذ کرتے اور گھر والوں پر فرض ہو جاتا کہ عملدرآمد کیا جائے ورنہ سزا ملا کرتی۔ اس سختی کا نتیجہ یہ نکلا کہ عمران رحمان صاحب کے سامنے ان کا غلام بن کر رہتا اور ان کی پیٹھ پیچھے خوب ہلا گلا کرتا۔ اماں بی کی جوتیاں اس روش کو اور پختہ کرنے لگیں۔ پھر سکول جانا ہوا، مشنری سکول۔ والد صاحب نے داخل کرا دیا اور بے فکر ہو رہے کہ بیٹا پڑھ لکھ گیا۔ مشنری سکول میں پڑھائی تو اچھی ہوئی لیکن ایمان پر ضرب پڑی کیونکہ وہاں پڑھایا جاتا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں (نعوذبااللہ) جبکہ اماں بی کہتی تھیں کہ اللہ ایک ہے اس کا کوئی ہمسر نہیں۔ سکول میں اللہ کا ”لم یلد ولم یولد“ ہونا کہتا تو ڈانٹ پڑتی گھر میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کا پوچھتا تو اماں بی کا تھپڑ حال پوچھتا۔ رحمان صاحب کا ایمان تھا کہ میں مسلمان ہوں تو میرا بیٹا بھی مسلمان ہی رہے گا۔ لہٰذا بیٹا رہا تو مسلمان لیکن مذہب سے بیگانہ ہو گیا اور آہستہ آہستہ مزاج میں لاپرواہی اترتی چلی گئی۔ جیسے جیسے رحمان صاحب کی ترقی ہوتی گئی ویسے ویسے سختی میں بھی اضافہ ہوا اور عمران کے مزاج میں دوہرا پن پیدا ہوتا گیا۔
رحمان صاحب کے سامنے سیدھا سادھا اور ان کے بعد من موجی۔ ہر بات اور ہر معاملے کو غیر سنجیدہ لینا اور لاپروائی برتنا عمران کی عادت ہو گئی۔ جب دسویں امتیازی حیثیت سے پاس ہو گئی تو والد صاحب کا حکم جاری ہوا کہ ”ولائت سے اعلٰی تعلیم حاصل کی جائے“، لہٰذا جانا پڑا۔
اور پھر انگلستان کی فضاؤں نے عمران کو وہ سب عطا کیا جو کچھ اس کی خواہش تھا۔ حالانکہ رحمان صاحب نے یہاں بھی اپنا رعب جاری رکھنے کے لئے بیٹے کو اپنے ہی ایک دوست کے حوالے کیا تھا جو کہ پولیس چیف تھے۔ لیکن عمران کے لئے اچھا یوں ہوا کہ ”سر ڈیکن“ جاگیردار نہیں بلکہ لارڈ تھے۔ کالج اور یونیورسٹی سے سائنس کی ڈگریاں پھر کیمسٹری میں ڈاکٹریٹ، ان آٹھ سالوں میں انھوں نے جانچ لیا کہ پکا جاسوس کا پٹھا ہے اور جاسوسی کے جراثیم بکثرت ہیں تو جُرمیات (کرِمنالوجی) میں ماسٹرز کرایا، اپنے محکمے کے حل شدہ کیس تجزیہ کراتے رہتے۔عملی مشق کے لئے نئے کیس عمران کے سامنے پیش کر کے حل طلب کرتے اور خوش ہوتے کہ عمران کا دیا گیا مشورہ ہمیشہ کارگر ہوتا۔
یہاں عمران کی ایک اختراع سامنے آتی ہے جو کہ بعد میں عمران کا خطاب یا لقب قرار پائی یعنی ”پرنس آف ڈھمپ“۔ انگلستان کے لارڈ کے گھر کا فرد، شاہانہ رکھ رکھاؤ اور انگریز نوابین کے مابین تقریبات میں اپنا تعارف بحیثیت شہزادے کے کرانا ایک ضرورت تھی۔ بلاشبہ نواب یا جاگیردار خاندان سے تھا۔ لیکن ”پرنس آف ڈھمپ“ کچھ الگ تھا جو سننے والے کو ایک لمحے کے لیے تو ضرور ورطہ حیرت میں ڈال دیتا تھا۔ جب ”ڈھمپ“ کا محلِ وقوع پوچھا جاتا تو جواب ملتا، ”ہمالیہ کی ترائی میں ایک آزاد ریاست ہے جو نہایت کٹھن راہ گزار کی وجہ سے دنیا سے منقطع ہے“۔ لیکن عمران کے نزدیک اس کی ”عمرانیت“ کا عظیم شاہکار ہے۔ مطلب یہ کہ لفظ ”ڈھمپ“ صوتی تاثر کی ایک علامت ہے اور کچھ بھی نہیں۔
”جیسے کوئی بھاری چیز نیچے گرے اور آواز آئے... ڈھمپ!....“
انھیں دنوں سنگ ہی جیسے بین الاقوامی مجرم سے سامنا ہوا اور وہ عمران کو پولیس چیف کے پردے سے باہر کھینچ لایا۔ چونکہ ان دنوں سنگ ہی سے دوستی تھی اس لئے عمران ”چچا بھتیجے“ کا رشتہ استوار کر کے سنگ ہی کا زبردستی کا شاگرد بن بیٹھا۔ پھر دو چار روز میں ہی چچا کو حیران بھی کر دیا۔ سنگ ہی نے عمران کو اپنا جانشین بنانا چاہا تو عمران نے شرط رکھ دی کہ جرائم چھوڑ دیں تو میں حاضر ہوں۔ اس بات پر سنگ ہی نے چیلنج کر دیا اور نے بھی ضد بنا لی پس یہ جنگ آج بھی اسی بات کے لیے جاری ہے۔ اس شاگردی میں عمران کو دو تحفے ملے، ایک پستول کی گولیوں سے بچنے کا فن اور دوسرا جسم کی تمام رگوں کا علم۔ بعد میں سنگ ہی سے چھپنے کے لئے میک اپ کا طریقہ اور پھر جدید فنون حرب۔ بعد ازیں ان سب پہ بہت محنت کر کے عمران نے خود کو پختہ تر کر لیا۔
لندن کے دنوں کا سب سے بڑا تحفہ جو عمران کو ملا وہ تھا ایک حماقتوں سے بھرپور شخصیت کا لبادہ۔ ہر وقت ہر لمحہ حماقتوں کا ظہور لازم و ملزوم ٹھہرا۔ دوست، احباب اور (سر ڈیکن کے علاوہ) تمام گھر والے عمران کو احمق گردانتے اور اس کی حماقتوں سے لطف اندوز ہوتے۔ بہرحال جب عمران واپس آنے لگا تو لندن کے پولیس ڈیپارٹمنٹ نے اپنے سب سے بہترین جاسوس و کارکن کو وداع کیا۔ اِدھر پردیس سے واپسی پر محکمہ خفیہ کے سربراہ نے اپنے ”ناکارہ“ بیٹے کا استقبال کیا۔ ناکارہ اس لئے کہ جب والد محترم نے بیٹے کو کہا کہ اب یونیورسٹی میں لیکچرار ہو جاؤ تو بیٹے نے کچھ حماقتوں کے درمیان اس انداز میں انکار کیا کہ ”کرم رحمان“ چراغ پا ہو گئے اور غصے کی شدّت سے کچھ کہہ ہی نہ پائے۔ ”بچے پڑھا لوں گا... بوڑھے مجھ سے نہیں پڑھائے جاتے....“ یہ جملہ ”ہٹلر“ کو ”منہ چڑانے والا“ ہی تھا، تو ہٹلر جیسے والد کہاں برداشت کر سکتے تھے۔ پھر معمول ہی ہو گیا کہ باپ کے سامنے خوب حماقتیں کی جاتیں۔ نتیجتاً ”رحمان صاحب“ کو اپنے بیٹے کے لئے ”ناکارہ“ کے الفاظ ایجاد کرنے پڑے اور عمران پر ”ناکارگی“ کی مہر ثبت ہو گئی۔
گھر میں صورتحال یہ تھی کہ سب کو یقین تھا کہ چھوٹے صاحب کو بہت زیادہ پڑھائی کرنے کی وجہ سے کوئی دماغی خلل واقع ہو گیا ہے اور احمق ہو گئے ہیں۔ ماں بیٹے کو اپنے سامنے پا کر خوش تھی، بہن ثریا بھائی کی حرکتوں سے تنگ رہتی، عم زاد بہنیں حماقتوں سے لطف اندوز ہوتیں اور ملازمین عمران کے بھولپن سے اپنی مطلب براری کرتے۔ رحمان صاحب کو یہ سب پسند نہیں تھا لیکن وہ اماں بی کی وجہ سے چپ ہو جاتے۔ عمران اپنی احمقانہ حرکات سے بہنوں کا ناک میں دم کرتا، بھولپن دکھا کر ملازمین کو ناکوں چنے چبواتا اور گفتگو کے دوران ہکلا ہکلا کر اور غلط الفاظ بول کر مخاطب کو اپنے ہی بال نوچنے پر مجبور کر دیتا۔ ان سب کا مقصد صرف یہ تھا کہ کوئی ان کو کسی کام سے نہ ٹوکے۔
نہ جانے کیسے عمران کو انسپکٹر فیاض کا علم ہوا کہ محکمہ خفیہ میں سفارشی بھرتی شدہ ہے اور کارکردگی میں ”روایتی“ پولیس والا۔ لہٰذا اس سے دوستی کا تعلق بنا لیا۔ لطیفے، مزاحیہ حرکات اور ہنسی فیاض کو عمران کے پاس کھینچ لائے۔ فیاض جب بور ہوتا یا کبھی دوستوں میں اپنا مقام بنانا ہوتا تو عمران کو ساتھ لے جاتا اور دوستوں میں ڈپارٹمنٹ کے سربراہ کے بیٹے سے نجی تعلقات کے نہ صرف ثبوت پیش کرتا بلکہ ثابت کرتا کہ رحمان صاحب کا بیٹا اس سے کتنا گھل مل کر رہتا ہے۔ اسی چکر میں جب عمران نے اس کے ایک دو کیس نمٹائے تو اس کی لاٹری نکل پڑی۔ ہر کیس لے کر کوٹھی میں آ دھمکتا۔ عمران پہلے تو ہر طرح سے اس کا ساتھ دیتا رہا پھر اپنی حرکتوں سے زچ بھی کرنا شروع کردیا۔ دو سے چار، چار سے آٹھ اور پھر آٹھ سے نہ جانے کتنے کیس حل ہوئے اور انسپکٹر صاحب ترقی کرنے لگے۔ فیاض افسران کی آنکھوں کا تارا ہوا اور اس کی عمران کے ساتھ دوستی ”مُریدی“ میں بدل گئی۔
افسران کیس فیاض کے حوالے کرتے اور وہ آ کر عمران کے پاؤں پڑ جاتا، ہر طرح سے خوشامد کرتا اور جواب میں ہر قسم کی ذلت برداشت کرتا کیونکہ جانتا تھا کہ پکی پکائی کھیر اس کے حوالے کی جائے گی۔ حل شدہ کیس لے لے کر فیاض انسپکٹر سے کیپٹن کے عہدے تک پہنچ گیا۔ لیکن یہ سلسلہ آخر کب تک چلتا افسران کو شک ہوا اور فیاض پر نظر رکھی جانے لگی۔ محکمہ خارجہ کے سیکرٹری سر سلطان جو نہ صرف رحمان صاحب کے دوست تھے بلکہ خاندانی تعلقات بھی رکھتے تھے عمران کو کسی تقریب میں ملے اور انھیں عمران کے سلسلے میں کوئی اچنبھا ہوا کیونکہ انھیں محکمہ خارجہ کے لئے ایک خفیہ سروس بنانے کا حکم ہوا تھا اور وہ فیاض کی چھان بین میں عمران کا نام سن چکے تھے لیکن ملاقات ہونے پر عمران کے ظاہر نے انھیں مایوس کیا تھا۔ اتفاق سے محکمہ خارجہ کے کچھ کاغذات گم ہوئے جن کی تلاش کا کام محکمہ خفیہ کے کامیاب رکن کیپٹن فیاض کو دیا گیا۔ فیاض نے کونسا خود کچھ کرنا تھا، عمران کو بہ ہزار دقت آگے کیا اور عمران سر سلطان کی نظروں میں بھی آ گیا۔ فیاض کا راز کھُل گیا اور عمران کو سر سلطان اور چند دوسرے ”بڑے“ افسران کے کہنے پر اپنے باپ کے محکمہ میں ہی ”سپیشل آفیسر“ کے طور پر کام کرنے کی حامی بھرنی پڑی اور یہ وہ موقع تھا کہ جس کا رحمان صاحب کو وہم تک نہیں تھا۔ انھیں تو اس وقت بہت زیادہ حیرت ہوئی جب عمران نے حکمنامہ ان کے سامنے رکھا اور کام شروع کر دیا۔ پہلے تو یقین ہی نہ آیا لیکن پھر والد صاحب کو اپنا ناکارہ بیٹا اپنی ملازمت میں ”قبولنا“ پڑا کیونکہ حکم اوپر سے آیا تھا۔
فیاض کی قلعی کیا کھُلی مصیبت در مصیبت یہ ہوئی کہ محکمہ میں عمران ”سوکن“ بن کر وارد ہو گیا۔ اس پر طرہ یہ کہ صرف ڈائریکٹر صاحب کو جوابدہ تھا دوسرا کوئی اسے کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ پس وہ وہ کیس کھُلنے لگے جو کبھی کے بند پڑے تھے۔ رحمان صاحب پر بیٹے کے جوہر عیاں ہو رہے تھے لیکن دل ماننے کو تیار نہیں تھا۔ پھر ایک کیس ایسا ہوا کہ رحمان نے ڈائریکٹر انٹیلی جنس بن کر اپنے ماتحت کو حکم جاری کردیا کہ استعفی لکھ دو۔
ہوا یہ کہ ایک مجرم کو پکڑنے کے لئے عمران نے بھیس بدل کر ایک لڑکی ”روشی“ کے ساتھ مل کر مجرم کو چیلنج کیا اور اسے اس کے بل سے نکال کر قابو کر لیا۔ ڈائریکٹر صاحب کو طریقہ کار پسند نہ آیا تو بیٹے کو آفس بلا کر استعفی لکھنے کا کہا اور بولے، گھر جاؤ۔ جب پتا چلا کہ روشی بھی عمران کے ساتھ آ گئی ہے تو اسی وقت حکم دیا کہ اپنا ٹھکانہ ڈھونڈ لو تم پر کوٹھی کے دروازے بھی بند کر دئیے گئے ہیں۔ اماں بی نے خوب احتجاج کیا لیکن اب کی بار چنگیزی خون کا جوش ٹھنڈا نہ ہوا اور کوٹھی کو وداع کرنا پڑا۔ نیا ٹھکانہ بنانا کونسا مشکل تھا۔ فیاض کو پکڑا اور اس کے دو چار ”قبضہ شدہ“ فلیٹس میں سے ایک فلیٹ لے کر رہائش کر لی۔ فیاض نے بھی بخوشی ایک فلیٹ دے دیا کیونکہ محکمے سے عمران رخصت ہو رہا تھا اور اب وہ وہاں کا واحد شیر تھا۔ کوٹھی سے بےشک رابطہ ختم ہو گیا تھا لیکن ایک ملازم سلیمان عمران کو چھوڑنے پر تیار نہیں تھا اس لیے وہ بھی کوٹھی سے فلیٹ میں منتقل ہو گیا۔ ہو سکتا ہے سلیمان اماں بی کی طرف سے عمران کا خیال رکھنے کے لیے بھیجا گیا ہو۔ بہرحال سلیمان وہ شخص ہے جو بظاہر ایکسٹو کے راز سے واقف محسوس ہوتا ہے۔ لیکن درحقیقت وہ صرف ملازم قسم کا سچا انسان ہے جسے اپنے صاحب (مالک) کی ہر چیز کا خیال رکھنا ہے اور بس۔ یہ اور بات ہے کہ وہ عمران کا مزاج آشنا بن چکا ہے اور اس کی ہر قسم کی حماقت کا ساتھ دینا اپنا فرض سمجھتا ہے چاہے اس میں کسی کو تنگ کرنا بھی شامل ہو یہاں میری مراد فیاض سے بھی ہے۔
اب آگے بڑھتے ہیں، سر سلطان ایک مصیبت میں مبتلا ہو گئے۔کسی نے ان کی تحویل میں دئیے گئے کچھ کاغذات چوری کئے نہ صرف یہ بلکہ صورتحال ایسی بنا دی کہ صاف پتا چلتا کہ سر سلطان نے کاغذات خود فروخت کئے ہیں اور راز رکھنے کے لئے ایک قتل بھی فرما چکے ہیں۔ اب یہ اتفاق تھا کہ عمران وہیں موجود تھا اور باقاعدہ تحقیق و سُراغ کے بعد مجرم پکڑ لیا۔ سر سلطان کی جان کیا بچی انھوں نے عمران کے سر محکمہ خارجہ کی خفیہ سروس کی سربراہی تھوپ دی۔ عمران نے دو شرائط رکھیں اور منظور ہونے پر پیشکش قبول کر لی۔ پہلی شرط یہ تھی کہ چیف آفیسر خفیہ رہے گا اور کوئی اس کے نام پتہ سے آگاہ نہیں ہو گا۔ دوسری شرط یہ کہ ٹیم کی سلیکشن عمران یعنی چیف خود کرے گا۔ پس سیکرٹ سروس کی بنیاد ڈالی گئی اور دو ممبران جعفری اور ناشاد (جو پہلے ہی فیاض کے سلسلے میں کام کر چکے تھے) کے بعد خاور، نعمانی، چوہان، تنویر اور صدیقی ملٹری سروس سے سیکرٹ سروس میں لئے گئے اور جولیا نامی لڑکی کو باہر سے چھان بین کر کے ٹیم میں بطور پی اے شامل کیا گیا۔ یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے اور وہ یہ کہ جعفری اور ناشاد کی تحقیق صرف فیاض تک محدود رہی تھی، عمران کا صرف نام سامنے آیا تھا کہ اس کی پشت پر کوئی ”علی عمران“ ہے۔ سرسلطان کے سامنے تو عمران بعد میں آیا۔ دوسری بات یہ کہ اگر وہ عمران کے سامنے آتے تو کیا عمران ان کی چٹنی مربہ نہ بنا دیتا؟
ایک اور بات کہ سیکرٹ سروس کے ابتدائی ممبران میں تین دوسرے نام ملتے ہیں یعنی ساجد، پرویز اور سلطان، لیکن نہ ان کا کبھی کسی اور جگہ تذکرہ آیا اور نہ ہی کبھی یہ تینوں سامنے آئے۔ دوسری بات یہ کہ عمران کے سیکرٹ سروس میں بطور چیف شامل ہونے سے پہلے یہ ملٹری سروس کے پانچ افراد پر مشتمل تھی جن میں سے دو کے نام ایک جگہ کیپٹن زیڈ اور لیفٹیننٹ خان لیے گئے اور جنھیں عمران نے واپس ملٹری سروس میں بھیج دیا تھا۔
سیکرٹ سروس کا ڈھانچہ عمران نے یہ بنایا تھا کہ آٹھ ممبران کی ٹیم میں سے لڑکی یعنی جولیا بطور سیکرٹری چیف سے ممبران کےرابطے کا کام کرے گی باقی سات ممبران سارا کام کریں گے۔ چیف سے نہ ہی ممبران اور نہ ہی اعلٰی افسران میں سے کوئی واقف ہو گا۔ خود عمران نے کیونکہ روشی کے ساتھ مل کر ایک پرائیویٹ جاسوس کے طور پر کام شروع کیا ہوا تھا اور اسی حیثیت سے مشہور بھی ہو گیا تھا، اس لئے خود کو الگ ہی رکھنا پسند کیا۔ لیکن کچھ ہی دن میں اندازہ ہوا کہ الگ رہنا ممکن نہیں ہو گا۔ کیونکہ ممبران کو ایک لیڈر درکار تھا وہ اکیلے کام کرنے والے نہیں تھے۔ خاص طور پر ناشاد اور جعفری تو پرانے رنگ ڈھنگ کے عادی تھے اور انھیں نئی زندگی اختیار کرنے میں دقت کا سامنا تھا۔ روشی زیادہ وقت عمران کے ساتھ گزارنے کی کوشش کرتی تھی کیونکہ اسے اس قسم کی ہنگامہ پرور زندگی اچھی لگی تھی۔ اس میں ایک امید یہ بھی تھی کہ شاید عمران اس سے متاثر ہو جائے۔ لیکن عمران تو ایسا انسان ہی نہیں تھا۔ اس لئے روشی کو ناکامی ہی ہو رہی تھی۔ ہاں اس ہمہ وقت کے ساتھ نے روشی کو عمران کی چیف آفیسری کا رازدار ضرور بنا دیا تھا اور عمران کے اس اعتماد کو آج تک روشی نے کبھی ٹھیس نہیں پہنچائی۔
بات ہو رہی تھی سیکرٹ سروس کی تو صورتحال یہ تھی کہ جب بھی اور جیسے بھی کوئی کیس شروع ہوتا اِدھر عمران، روشی کے ساتھ مل کر کام کرتا اور دوسری طرف سروس کے ممبران کو بھی کام ذمے لگا دیتا۔ جب کیس ختم ہوتا تو مجرم کو یا تو اپنے ہاتھوں سے فیاض کے حوالے کر دیتا یا ممبران کو حکم ہوتا کہ عمران (بلیک میلر) نے مجرم کو پکڑ لیا ہے لہٰذا جا کر اس سے مجرم چھین لایا جائے۔ پس سیکرٹ سروس کے ممبران اپنے انجان چیف کو گھیرتے اور سو طرح سے ذلیل کر کے مجرم چھین لے جاتے لیکن جب فون پر اسی چیف کی آواز سنائی دیتی تو ہر ممبر کا خوف سے بُرا حال ہو جاتا۔ آہستہ آہستہ سیکرٹ سروس کا ڈھانچہ تبدیلی کا متقاضی ہو گیا اور عمران کو ایک اور ممبر ٹیم میں شامل کرنا پڑا۔ جسے عمران نے ڈمی چیف آفیسر کے طور پر تیار کرنا شروع کیا اور ”بلیک زیرو“ بطور کوڈ نام تجویز کیا۔ اس تبدیلی کی وجہ یہ تھی کہ عمران اپنا ایک الگ مقام بنا چکا تھا۔ وہ یہ کہ علی عمران ایک مسخرہ پرائیویٹ جاسوس ہے جو بلیک میلر ہے مجرموں کے خلاف ثبوت حاصل کر کے ان کو بلیک میل کرتا ہے اور فائدہ نہ ہونے کی صورت میں قانون کے حوالے کر دیتا ہے۔ یہ ایک ایسا روپ تھا کہ جس سے سیکرٹ سروس کے ممبران نفرت کرتے تھے۔ انھی دنوں ”یورپ کا زلزلہ“ عمران سے ٹکرا گیا اور عمران ایک اور ”تعلق“ میں بندھ گیا۔
تھریسیا بمبل بی آف بوہیمیا یعنی ”ٹی تھری بی“ جسے یورپ کا زلزلہ کہا جاتا تھا، ملک میں وارد ہوئی۔ اب یہ اتفاق تھا یا پھر عمران کا کوئی ذریعہ کہ اسے تھریسیا کی نہ صرف ملک میں آمد کا علم ہو گیا بلکہ وہ اس تک پہنچ بھی گیا۔ ایک احمق (علی عمران) کو سامنے پا کر تھریسیا نے اپنی مطلب براری کے لئے استعمال کرنا چاہا اور ناکامی مقدر ٹھہری۔ بدلہ لینے کے لئے تھریسیا سیکرٹ سروس کی نگرانی سے فرار ہوئی اور کچھ سرکاری راز چُرا کر علاقہ غیر میں گھُس گئی۔ سیکرٹ سروس پر پہلی ناکامی کی مہر لگی اور اس لاپروائی کے ذمہ دار جعفری اور ناشاد کو سروس سے نکال کر صفدر نامی ممبر ٹیم میں شامل کیا گیا۔ ٹیم کو اس وقت شدید حیرت کا سامنا کرنا پڑا جب آٹھویں خالی سیٹ پر عمران کو ”عارضی“ طور پر رکھ لیا گیا۔
ٹیم پہلی بار ایک رہنما کے ساتھ ملک سے باہر تھریسیا کی گرفتاری کے لئے نکلی۔ اس مہم میں تھریسیا گرفتار ہوئی اور اس کا شریک مجرم ”الفانسے“ مارا گیا۔ واپسی پر تھریسیا عمران سے اظہارِ محبت کر کے فرار ہو گئی کہ ”ایک دن تمہیں اپنا بنا کر رہوں گی....!“ اور عمران میاں اپنی پیشانی سہلاتے رہ گئے جہاں وہ اپنا نشان چھوڑ گئی تھی۔ بہرحال اس پہلی مہم کے نتیجے میں ممبران ایسے پریشان ہوئے کہ انھیں واپس ٹھیک ہونے میں کافی عرصہ لگا۔ اس مہم کے دوران جولیا نے ایک ایسا شاندار تجزیہ کیا کہ ایک جگہ عمران کو یہ تک کہہ دیا کہ تم ہی ایکسٹو ہو۔ یہاں عمران کی پیش بندی کام آئی کہ زیرِ تربیت بلیک زیرو بھی ساتھ تھا لہذا اس سے بات کرا کر جولیا کا شک دور ہوا اور اسی ”بلیک زیرو“ کی شہادت اس مہم کا سب سے بڑا نقصان تھا جسے ٹیم کے ممبران تو محسوس نہ کر سکے لیکن عمران کافی رنجیدہ ہوا۔ اب طاہر بطور بلیک زیرو سروس میں شامل کیا گیا۔ ممبران میں سے آہستہ آہستہ سب لوگ عمران کے عادی ہوتے چلے گئے۔
سیکرٹ سروس کے ہیڈ کوارٹر کے طور پر ایک شاندار عمارت دانش منزل کا انتخاب کیا گیا تھا۔ ایک اور عمارت رانا پیلس کے نام سے لی گئی جہاں عمران ”رانا تہور علی صندوقی“ کے نام سے کبھی کبھی رہنے آتا تھا جبکہ طاہر مستقل سکونت پذیر تھا۔ اس کے علاوہ بھی شہر میں کئی ایسے مقامات تھے جو سیکرٹ سروس کے ہنگامی معاملات کے لئے مخصوص کر لئے گئے تھے۔ روشی عمران سے ناامید ہو کر جدا ہو گئی تھی۔ جولیا کو صرف سیکریٹری کی بجائے بطور ممبر ترقی دینی پڑی، اس کی کئی وجوہات تھیں مثلاً سوئس ہونے کے باوجود یہاں کی شہریت لے لینا کہ ادھر کے لوگ بہت اچھے اور پیار کرنے والے ہیں، چیف ایکسٹو سے دلی لگاؤ، ٹیم ممبران کا آپس کا پیار اور شاید سب سے بڑھ کر ”عمران“ سے خاموش محبت۔ ویسے جہاں تک بات جولیا کی بطور پی اے سروس میں شامل ہونے کی ہے تو ایکسٹو کے احکامات آگے پہنچانے کے لیے ایک خاتون رکھنا عمران کی ”عمرانیت“ تھی صرف اس لیے کہ ممبران کو احساس رہے کہ ان سے اوپر ایک عورت ہے۔ وہ تو جولیا خود اتنی قابل نکلی کہ ٹیم میں بھی شامل ہو گئی۔
ایکسٹو اور عمران سے وقتاً فوقتاً تربیت نے جولیا کو ایک عام لڑکی سے ایک بہت اچھی سیکرٹ ایجنٹ بنا دیا تھا۔ شاید اسی تربیت نے ہی اسے عمران کے قریب کر دیا تھا اور یہ قربت تنویر کو اچھی نہیں لگتی تھی کیونکہ وہ خود جولیا سے متاثر تھا۔ حالانکہ سیکرٹ سروس کا کام ان خرافات کی اجازت نہیں دیتا لیکن محبت ایک ایسا آفاقی جذبہ ہے جو کسی کو کسی پر بھی فدا کر سکتا ہے۔ عمران اپنی ٹیم کے ہر ممبر اور ان کی دلی واردات سے واقف تھا اس لئے ”واضح“ پذیرائی کبھی نہیں کرتا تھا۔ غیر سنجیدگی اس کی فطرت ثانیہ تھی اور اس سے ہر کوئی نالاں رہا کرتا تھا ما سوائے جوزف کے۔ جوزف ایک حبشی تھا اور ایک مہم کے دوران عمران پر ایسا فدا ہوا کہ زندگی بھر کے لیے چمٹ گیا۔ بلانوش تھا شراب ایسے پیتا جیسے پانی ہو لیکن نشانے کا ایسا سچا کہ اندھیرے میں بھی آواز پر نشانہ لگانے پر قادر تھا۔ عمران نے شراب کی چھ بوتل یومیہ پلانا شروع کیا لیکن شراب چھڑانے کی کوششیں ابھی بھی جاری ہیں۔ آغاز سے ہی جوزف کی حیثیت عمران کے ذاتی ملازم کی تھی جس کا سیکرٹ سروس سے کوئی تعلق نہیں تھا اور جوزف عمران کا ایسا شیدائی کہ اسے عمران کے علاوہ کچھ سوجھتا ہی نہیں تھا۔ اسے اس سے غرض ہی نہیں رہتی کہ عمران نے کہاں رہنے اور کیا کرنے کا حکم دیا ہے، بس ذہن کے تمام دروازے کھڑکیاں بند کر کے عمران کی غلامی میں مست رہتا تھا۔
اب تذکرہ ہو جائے ان کا جو سیکرٹ سروس کا حصہ تو بنے لیکن اب یا تو سروس کا حصہ نہیں اور اگر ہیں تو کسی اور حیثیت سے۔ ان میں پہلے دو کا تذکرہ تو ہو چکا ہے یعنی ناشاد اور جعفری، جن کو ان کی لاپرواہی اور روائتی پولیس جیسے رویے کی بنا پر نکالا گیا۔ ان کے بعد ظفر الملک اور جیمسن کو سروس میں شامل کیا گیا جنھوں نے خاص طور پر تھریسیا کے خلاف عمران اور سروس کی طرف سے کام کیا۔ انھیں کے ہوتے ہوئے تھریسیا دانش منزل کو کافی نقصان پہنچا گئی جس کے باعث ایک ایسے ہیڈ کوارٹر کی ضرورت محسوس کی گئی جو جدید دور کے جدید تقاضوں کو پورا کر سکے۔ اس کے لیے ”ادارہ تحقیقاتِ نفسی“ یعنی ”سائیکو مینشن“ کی داغ بیل ڈالی گئی۔ ظفرالملک اور جیمسن اب سروس کے ذیل میں وزارت داخلہ کے لئے کام کرتے ہیں۔ ان کے بعد، ایک مہم میں تنویر کے شدید زخمی ہو جانے پر سارجنٹ نیمو کو سروس میں شامل کیا گیا۔ سروس میں صرف دو ممبران ہیں جو عمران کی باتوں کو سنجیدگی سے لیتے ہیں ایک صفدر اور دوسرا نیمو ورنہ باقی سب صرف مذاق اور ٹھٹھہ سمجھ کر تنگ ہی ہوتے رہتے ہیں۔
فیاض اب کیپٹن ہے اور عمران کے بارے میں باقی سب کی طرح اس کو بھی یہی معلوم ہے کہ ”عمران کا سیکرٹ سروس کے چیف ایکسٹو سے کوئی خاص تعلق ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے معاملات میں اکثر عمران کو شامل رکھتا ہے۔ یا دوسرے الفاظ میں سیکرٹ سروس کی طرف جانے کا راستہ عمران سے ہی مل سکتا ہے اور کسی سے نہیں کیونکہ عمران کے علاوہ سیکرٹ سروس کے ارکان سے کوئی واقف نہیں اور عمران خود کو ایکسٹو کا نمائندہ خصوصی کہا کرتا ہے۔“
تھریسیا اور سنگ ہی جب بھی ملک میں آتے ہیں عمران کے ہاتھوں ہمیشہ نقصان اُٹھاتے ہیں۔ ابھی تک نہ تھریسیا نے ہار مانی ہے، نہ سنگ ہی نے اور نہ ہی عمران نے۔ عمران کے چیف ہونے سے صرف تین لوگ ہی واقف ہیں سر سلطان، روشی، اور طاہر عرف بلیک زیرو۔
یہ سب تو تھا سیکرٹ سروس کا ڈھانچہ اور اس کا ارتقاء جس کے لیے عمران نے روزِ اول سے انتہائی محنت کی تھی۔ عمران کے لئے اگر یہ کہا جائے کہ عمران نے اپنی تعلیم، تجربہ اور اپنی ذہانت، سب کو استعمال کر کے کئی افراد کو ”کارآمد“ بنایا ہے تو بےبنیاد نہیں ہو گا۔ ان میں سیکرٹ سروس کے ممبران سے تو سب واقف ہیں، البتہ طاہر خفیہ شاگرد ہے جس پر شاید سب سے زیادہ محنت کی گئی ہے۔
آج کل حالات بہت بہتر ہیں۔ اماں بی کی طبیعت کافی بہتر رہتی ہے، رحمان صاحب بھی زیادہ نہیں بولتے، لیکن عمران کے ساتھ رویہ وہی ہے۔ سیکرٹ سروس ہمیشہ تازہ ترین حالات میں کام کرنے کے لیے تیار رہتی ہے، خاص طور پر صفدر اور نیمو۔ جوزف کبھی فلیٹ میں ہوتا ہے تو کبھی رانا پیلس۔ ادھر فیاض کا سلیمان بھی ہر وقت منتظر رہتا ہے کہ وہ کسی بہانے فلیٹ آئے اور سلیمان اپنی زبان کی کھجلی مٹا سکے، ورنہ گلرخ تو اس کی زبان ہی نہیں چلنے دیتی (سلیمان کی شادی گلرخ سے ہو چکی ہے)۔

آخر میں عمران کے چاہنے والوں کے لیے صرف ایک ہی پیغام دوں گا کہ چاہتے رہیں جس کو بھی چاہتے ہیں۔ عمران و ایکسٹو ایسی چیز ہی نہیں کہ جنھیں نہ چاہا جائے۔ آخر کو ہم بھی تو محترم ”ابنِ صفی“ کو چاہتے ہیں اور دل کی گہرائیوں سے ان کو یاد کرتے ہیں۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین ثم آمین!

ڈاکٹر حامد حسن : بہاولپور
_-_-_-_-_-_-_

Address

Bahawalpur

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dr Hamid Hassan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share