Dr Waheed Akhtar

Dr Waheed Akhtar الحمدللہ
پچھلے 30 سال سے بواسیر کے مریضوں کا کامیاب علاج کر رہے ہیں .

ڈاکٹروحید اختر صاحب بواسیر کے سپیشلسٹ ہیں اور الحمداللہ پچھلے ۳۰سال سے بواسیر ، بھگندر ، ناسور ، فسچولہ ، فشر کا کامیا ب...
09/10/2023

ڈاکٹروحید اختر صاحب بواسیر کے سپیشلسٹ ہیں اور الحمداللہ پچھلے ۳۰سال سے بواسیر ، بھگندر ، ناسور ، فسچولہ ، فشر کا کامیا ب علاج کر رہے ہیں پچھلے تیس سالوں میں پیچیدہ پیچیدہ بواسیر کے کیس آئے ہیں لیکن اللہ پاک نے تمام آنے والے مریضوں کو صحت عطا کی ہے اگر آپ بواسیر،بھگندر ، ناسور ، فسچولہ ، فشر کا علاج کروا کروا کے تھک چکے ہیں یا ڈاکٹر نے آپ کو آپریشن کا مشورہ دیا ہے تو برائے میربانی ایک دفعہ رابطہ ضرور کریں انشا اللہ ہمارے ایک کورس کے استعمال کے
بعد آپ کو ذندگی میں دوبارہ کبھی بھی بواسیر جیسی مرض کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا مزید معلوما ت کے لئے دئیے نمبر پر صرف واٹس ایپ کریں شکریہ صرف ایک دفعہ میڈسن لینے سے ہمیشہ کے لئے آپکی مایوسی یقین میں بدل جائے گی
0326-6810721

بیشتر افراد کو معدے کی تیزابیت کا سامنا کیوں ہوتا ہے؟متعدد افراد کو معدے کی تیزابیت کا سامنا ہوتا ہے اور یہ بہت عام مسئل...
02/10/2023

بیشتر افراد کو معدے کی تیزابیت کا سامنا کیوں ہوتا ہے؟
متعدد افراد کو معدے کی تیزابیت کا سامنا ہوتا ہے اور یہ بہت عام مسئلہ ہے۔

جب ہم کچھ کھاتے ہیں تو وہ غذائی نالی سے ہوکر معدے تک جاتا ہے۔

معدے میں موجود گیسٹرک گلینڈز ایسڈ تیار کرتے ہیں جو کھانا ہضم کرنے کے لیے اہم ہوتا ہے۔
مگر کئی بار یہ گلینڈز ضرورت سے زیادہ ایسڈ بناتے ہیں جس سے پیٹ اور سینے کے درمیان جلن کا احساس ہوتا ہے اور اسے ہی معدے میں تیزابیت کہا جاتا ہے۔
اس کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں۔

ناقص غذائی عادات
کھانے سے دوری یا کھانے کا کوئی وقت نہ ہونا بھی اس مسئلے کا باعث بن سکتا ہے۔

اسی طرح سونے سے کچھ وقت قبل کھانے، ضرورت سے زیادہ کھانا، نمک کے زیادہ استعمال اور غذاؤں میں فائبر کی کمی سے بھی اس مسئلے کا سامنا ہو سکتا ہے۔
مخصوص غذاؤں کا زیادہ استعمال
چائے، کافی، سافٹ ڈرنکس، بہت زیادہ مرچوں والی غذا، زیادہ چکنائی والی غذائیں جیسے پیزا اور تلی ہوئی غذاؤں کے زیادہ استعمال سے بھی معدے میں تیزابیت کا سامنا ہو سکتا ہے۔

مخصوص ادویات
درد کش ادویات، ہائی بلڈ پریشر کی ادویات، اینٹی بائیوٹیکس اور ڈپریشن کے علاج کے لیے استعمال کی جانے والی ادویات بھی اس مسئلے کا باعث بن سکتی ہیں۔
تمباکو نوشی
تمباکو نوشی کی عادت سے بھی اس مسئلے کا سامنا ہو سکتا ہے۔

جسمانی سرگرمیوں سے دوری
زیادہ وقت بیٹھ کر گزارنے والے افراد کو معدے میں تیزابیت کا سامنا بھی زیادہ ہوتا ہے۔

تناؤ
تناؤ اور انزائٹی کے شکار افراد میں بھی یہ مسئلہ عام ہوتا ہے۔
جسمانی وزن
جسمانی وزن زیادہ ہونے سے بھی معدے میں تیزابیت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

پیٹ کے بل سونا
سونے کا انداز بھی معدے میں تیزابیت کا باعث بن سکتا ہے، خاص طور پر پیٹ کے بل سونے کے عادت اس مسئلے کا باعث تصور کی جاتی ہے۔

Eid Milad Un Nabi
28/09/2023

Eid Milad Un Nabi

میٹھا،رسیلا چیکو -`چیکو میٹھا ہونے کی بناء پر توانائی بخش ہے اور جسمانی کمزوری کو دور کرتا ہے۔یہ ناصرف ذائقے دار ہوتا ہے...
25/09/2023

میٹھا،رسیلا چیکو -`
چیکو میٹھا ہونے کی بناء پر توانائی بخش ہے اور جسمانی کمزوری کو دور کرتا ہے۔یہ ناصرف ذائقے دار ہوتا ہے بلکہ صحت بخش بھی ہوتا ہے۔یہ خاصیت گلوکوز کی وجہ سے ہوتی ہے۔
یہ سدا بہار پھل ہے۔وسطیٰ امریکہ،میکسیکو،ہندوستان اور پاکستان میں اس کی متعدد اقسام دیکھنے کو ملتی ہیں۔کیلوریز سے بھرپور اس پھل کو آم،کیلا اور آلوچے کی صف میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
یہ گول اور بیضوی دونوں شکلوں میں دستیاب ہوتا ہے۔عام طور پر اس کی لمبائی 3 انچ تک اور وزن 150 گرام ہوتا ہے۔جس میں دو سے پانچ سیاہ رنگ کے بیج ہوتے ہیں۔جب یہ پھل کچا ہوتا ہے تو اس کی سطح سخت ہوتی ہے اور گودا سفید،اس لئے کہ اس میں دودھ کی رنگت کا رس ہوتا ہے۔جیسے جیسے پھل پکتا جائے رس کم ہو جاتا ہے اور گودے کی رنگت بھوری ہو جاتی ہے۔

یہ باآسانی ہضم ہونے والا پھل ہے جس میں وٹامنز اور معدنیات وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں چونکہ یہ میٹھا ہوتا ہے اس لئے اس کا شیک بھی بنایا جاتا ہے۔

ننھے منے چیکو کے 17 بڑے فوائد:
1۔یہ بینائی کے لئے مفید پھل ہے اس لئے کہ اس میں وٹامن A موجود ہے۔عمر رسیدہ افراد کے لئے بھی اکسیر پھل ہے اور بصارت کی کمزوری دور کرنے کے لئے بہترین قدرتی دوا ہے۔
2۔فوری توانائی کے حصول کے لئے بہترین پھل ہے۔زیادہ جسمانی مشقت کرنے والے افراد توانائی کی بحالی کے لئے استعمال کریں تو خود کو بہتر محسوس کریں گے یہ تھکن رفع کرنے والا پھل ہے۔

3۔یہ مانع سوزش ہے اور اندرونی ورم دور کرتا ہے۔نظام ہاضمہ بھی بحال رکھتا ہے۔معدے کی نالی کی سوزش کو بھی دور کرتا ہے۔
4۔یہ مانع تکسیدی افادیت رکھنے والا پھل اپنے اندر وٹامن A اور B بھی رکھتا ہے۔جلد کو تراوٹ دیتا اور کینسر کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔
5۔کیلشیم،فاسفورس اور آئرن یہ دونوں معدنیات اس میں موجود ہیں جن سے ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں۔

6۔چیکو میں فائبر بھی موجود ہے لہٰذا اسے کھانے سے قبض دور ہو جاتی ہے۔یہ بڑی آنت کی جھلی کو فائدہ پہنچاتا ہے۔
7۔بے حد مقوی یعنی طاقتور پھل ہے۔نئی متوقع ماؤں کو اسے ضرور کھانا چاہئے یہ زچگی کو آسان بناتا اور ابتدائی ماہ میں متلی کو روکتا ہے۔
8۔اس میں جراثیم کش صلاحیت بھی پائی جاتی ہے۔جبکہ پوٹاشیم،فولیٹ اور Niacin کے علاوہ آئرن کے امتزاج سے نظام ہاضمہ کو تقویت پہنچتی ہے۔

9۔یہ دست اور اسہال کو روکنے والا پھل ہے۔یہ بواسیر کا بھی خاتمہ کرتا ہے۔
10۔تھکن،اعصابی دباؤ،بے خوابی اور طبیعت کا ملال دور کرنے والا پھل ہے۔اعصاب کو پُرسکون کرتا ہے۔
11۔ٹھنڈک اور بلغم دور کرنے والا پھل ہے،پرانی کھانسی میں مجرب ہے۔
12۔وزن گھٹاتا اور موٹاپا کم کرتا ہے۔
13۔جسم سے فاسد مادوں کو خارج کرتا ہے۔
14۔
بالوں کی خوبصورتی اور افزائش کے لئے ضروری ہے کہ ہم مقوی غذائیں کھائیں اور انہیں ہضم بھی کریں۔چیکو کے بیجوں سے نکالا جانے والا تیل لگانے سے بال نرم و ملائم رہتے ہیں۔یہ ان میں باآسانی جذب ہو جاتا ہے۔چکناہٹ سے پاک ہے۔اگر سر میں کھجلی یا سوزش ہو رہی ہو تو اس کے بیجوں کے تیل سے افاقہ ہو سکتا ہے۔
15۔اس کے بیجوں کو پیس کر ان میں ارنڈی کا تیل ملا کر سر میں لگانے سے بال چمکدار اور نرم و ملائم ہو جاتے ہیں۔
16۔جلد کی خوبصورتی برقرار رکھنے والا پھل ہے۔خاص کر بڑھتی ہوئی عمر کے اثرات کو زائل کرتا ہے۔
17۔پھلوں کا پروٹین کبھی مضر صحت نہیں ہوتا بلکہ جسم کی افزائش میں مدد دیتا ہے۔ See less

Jumma Mubarak
22/09/2023

Jumma Mubarak

سنہرا دودھ ․․․ صحت بخش ٹانک -سنہرا دودھ دراصل ہلدی ملے دودھ کو کہا جاتا ہے،جسے برصغیر پاک و ہند کے لوگ صدیوں سے استعمال ...
21/09/2023

سنہرا دودھ ․․․ صحت بخش ٹانک -
سنہرا دودھ دراصل ہلدی ملے دودھ کو کہا جاتا ہے،جسے برصغیر پاک و ہند کے لوگ صدیوں سے استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں۔بھارت،پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے جنوبی ایشیائی ممالک میں اندرونی چوٹ اور جسمانی درد کی صورت میں ہلدی ملے دودھ کا پینا عام بات ہے،لیکن اب اس قدیمی نسخے کا استعمال جرمنی اور دیگر یورپی ممالک میں بھی بڑھ رہا ہے۔
اس کے اجزاء شفا بخش قوتوں کے حامل اور انسانی مدافعتی نظام کے لئے بھی مفید ہیں اور اگر آپ اسے اپنی پسند کے مطابق تیار کر لیں،تو یہ لذیذ بھی ہوتا ہے۔
سنہرے دودھ کے اجزاء اور خصوصیات
اس مشروب کی تیاری کے لئے پہلی چیز حلال ممالیہ جانوروں کا دودھ ہے،لیکن اگر آپ سبزی خور (Vegetarian) یا گوشت،دودھ اور جانوروں سے حاصل کی گئی کسی بھی قسم کی مصنوعات استعمال کرتے ہیں،تو اس صورت میں آپ سویا،بادام یا ناریل سے بنایا گیا دودھ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔

ہلدی دودھ کو نہ صرف سنہرا رنگ دیتی ہے،بلکہ اس کی افادیت بھی کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔ماہرین کے مطابق اس میں ایسا مانع تکسید جزو (اینٹی آکسیڈینٹ) پایا جاتا ہے،جو سوزش ختم کرتا ہے۔علاوہ ازیں،ہلدی نظامِ ہضم بہتر بنانے میں بھی معاون ثابت ہوتی ہے۔اگر سنہرے دودھ میں ہلدی کے ساتھ ادرک اور دار چینی بھی شامل کر لی جائے،تو امراضِ قلب لاحق ہونے کے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں۔

طبی ماہرین کے مطابق انسانی نظامِ ہضم بہتر بنانے میں ادرک خاصی معاون ثابت ہوتی ہے۔ادرک میں پائے جانے والے مادے کی دافع انسدادِ سوزش خاصیت بھی مسلمہ ہے،جو پٹھوں کا درد ختم کرنے کے لئے بہت کارگر ہے۔نیز،ادرک کا استعمال بلند فشارِ خون میں بھی کمی لاتا ہے۔سنہرے دودھ کی تیاری کے لئے دودھ 300 ملی لیٹر،ہلدی (پسی ہوئی) ایک چائے کا چمچ،شہد ایک چائے کا چمچ،دار چینی ایک ٹکڑا،ادرک کا پانی ایک چائے کا چمچ،کالی مرچ حسب ذائقہ،ناریل کا تیل ایک چائے کا چمچ درکار ہے۔
اس کے بعد ایک پتیلی میں دودھ ڈال کر ہلکی آنچ پر رکھ دیں۔جب ایک اُبال آ جائے،تو اس میں تمام اجزاء ایک ایک کر کے ڈالتے جائیں اور ساتھ ساتھ چمچ بھی چلاتے رہیں۔جب دودھ میں تمام اجزاء اچھی طرح مکس ہو جائیں،تو چھان کر گلاس میں انڈیل لیں۔لیجیے،صحت بخش اور لذیذ سنہرا دودھ تیار ہے۔ See less

چقندر بھی صحت کیلئے اچھا -چقندر پاکستان ،ہندوستان ،شمالی امریکا اور یوپ میں کثرت سے سبزی کے طور پر کاشت کیا جاتا ہے۔اگرچ...
19/09/2023

چقندر بھی صحت کیلئے اچھا -
چقندر پاکستان ،ہندوستان ،شمالی امریکا اور یوپ میں کثرت سے سبزی کے طور پر کاشت کیا جاتا ہے۔اگرچہ اس کی جنگلی قسم بھی ہوتی ہے،مگر اس کوغذا اور علاج دونوں کے لیے بے کارسمجھا جاتا ہے۔ یورپ میں اس کاپودا1548ء میں افریقہ سے لایا گیا اور اب یہ وہاں کی غذا اور صنعت میں آلو کے بعد سب سے مقبول سبزی ہے۔
چقندر کاتعلق پالک کے خاندان سے ہے، البتہ اس کاغذا کے طورپر کھایا جانے والاپسندیدہ حصہ جڑ ہے۔عام طورپر چقندر کارنگ اندرسے بھورا اور قرمزی ہوتا ہے،جسے لال کہا جاتا ہے۔اس کی ایک سفید قسم بھی ہوتی ہے۔چقندر کی جڑ اور پتے غذا کے طورپر کھائے جاتے ہیں۔یہ سلاد کے طور پر بھی کھایا جاتا ہے۔اسے اُبال کرکھاتے ہیں۔
گوشت کے ساتھ بھی پکایاجاتا ہے۔
اس کا اچارڈالتے ہیں۔اس سے یورپ میں شکر بنتی ہے۔کیوں کہ اس میں 24 فیصد شکر پائی جاتی ہے۔ چقندر سے حاصل ہونے والی چینی زیادہ سفید،چھوٹے دانوں والی اور مٹھاس میں گنے سے پھیکی ہوتی ہے۔ آئرلینڈ کے ساحلی علاقوں میں اسے زیادہ رسیلاہونے اور لذیدپتوں کی وجہ سے کاشت کیا جاتا ہے۔ پالک زیادہ کھانے سے گردے میں پتھری اور پیشاپ میں جلن پیدا ہوجاتی ہے۔
کیوں کہ پالک میں نمک ترشک (آگزیلیٹ) زیادہ ہوتا ہے،مگر چقندر کے پتوں میں ایسی کوئی بات نہیں ہوتی۔
چقندر کے نقصانات
چقندر میں غذائیت کم ہوتی ہے۔اسے کھانے سے پیٹ بھاری ہوجاتا ہے ۔یہ بادی ہوتا ہے۔ خون کو جلاتا ہے،اس لیے خون کی کمی(فقرالدّم) پیدا کرتا ہے۔سرکے یاالسی کے ساتھ کھانا مفید ہے۔ چقندر کی اکثر اقسام قبض پیدا کرتی ہیں، دیر ہضم ہوتی ہیں،اس لیے پیٹ میں ریاح پیدا کرتی ہیں۔
مفید کیمیائی اجزا
چقندر میں ایک کیمیائی جزو”بیٹن“ (Betin) پایا جاتا ہے۔یہ خون بڑھاتا ہے۔پیشاپ آور ہے۔معدے اور آنتوں میں اگرجلن ہوتو یہ اس کو رفع کرتا ہے۔سفید چقندر سے حاصل ہونے والا جزوقبض دُور کرتا ہے،جب کہ سرخ قسم حیض آور ہوتی ہے۔بیماری کے بعد کم زوری دور کرنے کے لیے لوگوں کو گلوکوس کی شکل میں چقندر کی شکردی جاتی ہے۔
اس کی جگہ اگر چقندر کھلایا جائے تو وہ بھی گلوکوس کاہی کام کرے گا۔جسم میں شکر کی موجودگی کم زوری کو ختم کرتی ہے۔
چقندر کاپانی مفید ہے
ہر قسم کی سبزی اور پھل کے اندر کثیر مقدار میں ایسا مادّہ ہوتا ہے ،جوقبض دور کرتا ہے۔سفید چقندر تسکین بخشتا ہے۔سیاہ قسم قابض ہوتی ہے۔اس کا عرق نکال کر لگانے سے خارش ،خاص کردادختم ہوجاتا ہے۔
جلد کی یہ بیماری پھپوندی کی وجہ سے ہوتی ہے۔چقندر کاعرق پھپوندی کوختم کرتا ہے۔چقندر کے عرق کواگر شہد کے ساتھ پیا جائے تو بڑھی تلّی کوکم کیاجاسکتا ہے۔جگر میں پیدا ہونے والی رکاوٹیں بھی چقندر اور شہد کے ذریعے سے کم ہوسکتی ہیں۔شہد یرقان ختم کرنے کابہترین علاج ہے۔طب جدید میں چوں کہ یرقان کے علاج میں گلوکوس دیاجاتا ہے ،اس لیے نئے نقطہ نظر سے شہد اور چقندر کاپانی یرقان میں مفید ہے۔
چقندر اور شہد کاپانی صفرے کی نالیوں میں پتھری یادوسرے اسباب سے پیدا ہونے والی رکاوٹوں کا علاج بھی ہے۔چقندر کاپانی اگران جگہوں پر لگایا جائے،جہاں سے بال اڑگئے ہیں،تو مفید ہے۔اس کے پانی سے سردھونے سے خشکی دور ہوجاتی ہے۔چہرے کے دانوں اور داغ دھبوں کوختم کرنے میں مفید ہے،ورم والے مقام پر اس کاپانی لگانے سے ورم ختم ہوجاتا ہے۔آگ سے جھلسی ہوئی جلد پر اس کا پانی لگانے سے آرام ملتاہے۔
چقندر کے پانی میں اگر شہد ملاکر کان میں ڈالا جائے تو ورم اور درد سے آرام ملتا ہے۔چقندر کے پتوں کاپانی نکال کر اس سے کلّی کرنا یااسے مسوڑوں پر ملنے سے دانت کادرد جاتا رہتا ہے۔بعض اطباّ کاکہنا ہے کہ ایسا کرنے کے بعد آیندہ درد نہیں ہوتا۔چقندر کے اجزا دست آور ہیں،جب کہ اس کاپانی دستوں کوروکتا ہے۔
چقندر کی جڑوں کارس نکال کر اگرناک میں ٹپکایا جائے تو سردرد اور دانت کادرد دور ہوجاتا ہے۔
اگر سر کے اطراف میں لگایا جائے تو آنکھوں کی جلن اور سوزش دور کرنے میں مفید ہے۔سفید چقندر کاپانی جگر کی بیماریوں پر اچھے اثرات ڈالتا ہے۔چقندر کے قتلوں کواُبال کر اس کی ایک پیالی اگر صبح ناشتے سے ایک گھنٹہ پہلے پی لیں تو پرنا قبض جاتا رہتا ہے اور بواسیر کی شدت میں کمی آتی ہے۔چقندر ایک مفید،مقوی غذا اور خارش کی متعدد قسموں کےٹٹ لیے قابل اعتماد دوا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے“میں نے دنیا میں کوئی چیز بے کار نہیں بنائی ہے۔ہر ایک میں حکمت موجود ہے اگر تم غور کرو تو تمھارے لیے کھلی کھلی نشانیاں ہیں۔
چقندر کے فوائد
چقندر جسم کے سدّے کھالتا ہے ۔اس کی سیاہ قسم قابض ہے۔چقندر کوکاٹ کر اگر سر پر ملاجائے توبال گرنا رک جاتے ہیں۔اسے پکاکر اور پانی میں گھوٹ کرلگانے سے سرکی جوئیں مرجاتی ہیں۔ چقندر کھانے سے جگر کاکام بہتر انداز میں جاری رہتا ہے۔چقندر کوکالے مسورکی دال کے ساتھ پکانا پیٹ کے لیے ثقیل ہے،لیکن سفید قسم کی مونگ کی دال کے ساتھ پکانا یاکھانا قولنج سے پیدا ہونے والی کمزوری کودور کرتا ہے۔سفید چقندر اسہال کودور کرتا ہے۔

سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اکثر سانس پھول جانا کسی بیماری کا نتیجہ تو نہیں ہوتا؟مختلف وجوہات یا صورتحال میں سانس پھول سکتا ہے، ج...
18/09/2023

سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اکثر سانس پھول جانا کسی بیماری کا نتیجہ تو نہیں ہوتا؟
مختلف وجوہات یا صورتحال میں سانس پھول سکتا ہے، جیسے آپ کہیں جلدی جانے کے لیے تیز چل رہے ہیں یا کوئی سخت ورزش کر رہے ہیں۔

مگر کسی عام کام جیسے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے سانس پھول جائے تو پھر ضرور متعدد افراد پریشان ہو جاتے ہیں۔

سانس پھولنے کو طبی زبان میں Dyspnea کہا جاتا ہے جس کے دوران ایسا لگتا ہے کہ جیسے سینے پر بہت زیادہ دباؤ ہے یا دم گھٹ رہا ہے
اس خوفزدہ کردینے والے تجربے کی متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں، جن میں کچھ سنگین بھی ہوتی ہیں۔
سانس لینے کا عمل بہت پیچیدہ ہوتا ہے
امریکا کے National Heart, Lung, and Blood Institute کے مطابق ہمارے پھیپھڑے، خون کی شریانیں، مسلز، دماغ اور سانس کی نالی متعدد اقسام کے ریسیپٹرز استعمال کرکے جسم کی ضروریات کے مطابق سانس لینے کے عمل کو ایڈجسٹ کرتے ہیں۔

جیسے اگر کوئی فرد دمہ کا شکار ہے تو اس عارضے میں سانس کی نالی تنگ ہوکر سوج جاتی ہے جبکہ زیادہ مقدار میں بلغم بننے لگتا ہے۔

اس کے نتیجے میں ہمارے جسم کے سنسرز بتاتے ہیں کہ جسم کو مناسب مقدار میں آکسیجن نہیں مل رہی اور خطرے کی گھنٹی بجنے لگتی ہے۔
ماہرین کے مطابق اس صورتحال میں ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہمیں ہوا کے حصول کے لیے زیادہ کوشش کرنا ہوگی۔

سانس پھولنا ہمیشہ کسی بڑے مسئلے کا اشارہ نہیں ہوتا
جی ہاں واقعی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے سانس پھول جانا ہمیشہ خطرے کی گھنٹی نہیں ہوتا بلکہ کئی بار ایسا جسم کے تیار نہ ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر کسی ریس کے دوران لوگ مختلف ورزشوں سے اپنے جسم کو تیار کرتے ہیں، درحقیقت ورزش سے قبل وارم اپ ضروری ہوتا ہے تاکہ جسم کو کام کرنے کے لیے تیار کرسکیں جبکہ آکسیجن کا بہاؤ بڑھ جائے۔
اس کے برعکس جب روزمرہ کی زندگی میں سیڑھیاں چڑھتے ہیں تو اس کے لیے کسی قسم کی تیاری نہیں کرتے، جب آپ کے مسلز تیسری یا 5 ویں منزل پر سیڑھیاں چڑھنے کے لیے تیار نہ ہوں تو یہ کام کرنے کی صورت میں جسم میں آکسیجن کی کمی ہوتی ہے اور سانس لینے میں عارضی طورپر مشکل محسوس ہونے لگتی ہے۔

آسان الفاظ میں اگر آپ گراؤنڈ فلور پر رہتے ہیں اور سیڑھیاں چڑھنے کے عادی نہیں تو پھر یہ کام کرنا کچھ مشکل محسوس ہوتا ہے۔

اگر سیڑھیاں چڑھنے جیسی معمولی جسمانی سرگرمیوں سے سانس پھول جاتا ہے اور یہ یاد نہیں کہ آخری بار ورزش کب کی تھی، تو ورزش کو معمول بنانے سے اس مسئلے سے بچنا ممکن ہے۔

ورزش کو عادت بنانے سے مسلز زیادہ بہتر کام کرنے لگتے ہیں اور کم آکسیجن پر بھی متاثر نہیں ہوتے
اس کے برعکس اگر آپ ورزش کرنے کے عادی ہیں اور پھر بھی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے سانس پھول جاتی ہے تو پھر ایسا ہونا ضرور تشویشناک ہے۔

اگر آپ جوان اور صحت مند ہیں اور پھر بھی عام سرگرمیاں جیسے سیڑھیاں چڑھنے، دکان سے سامان لانے یا ایسی ہی معمولی سرگرمیوں سے سانس پھول جاتا ہے تو اس صورت میں ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔

مختلف امراض بھی اس کے پیچھے ہو سکتے ہیں
مختلف امراض جیسے دمہ کے بارے میں تو آپ کو علم ہوگا کہ اس سے سانس پھول جاتی ہے۔
مگر کچھ اور سنگین مسائل جیسے نمونیا، ہارٹ اٹیک، ہارٹ فیلیئر اور پھیپھڑوں کے مختلف امراض بھی اس کی وجہ ہو سکتے ہیں۔

ہر بیماری میں سانس پھولنے کا میکنزم تھوڑا مختلف ہوتا ہے جس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ جسم کے کونسے حصے کے سنسرز اس عمل کا حصہ ہیں۔

ان سب کی دیگر متعدد علامات بھی ہوتی ہیں تو ضروری نہیں کہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے سانس پھول جانا واقعی صحت کی کسی سنگین خرابی کا نتیجہ ہو۔
مگر اوپر درج امراض کے سنگین اثرات کے پیش نظر بہت زیادہ سانس پھول جانے پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔

ڈاکٹر ہی یہ جانچ کر سکتے ہیں کہ آپ کسی بیماری کے شکار تو نہیں اور اس کے مطابق وہ اقدامات تجویز کریں گے۔

تو وجہ جو بھی ہو سانس کے مسائل کا سامنا ہونے کی صورت میں جتنی جلد ڈاکٹر سے رجوع کرلیں اتنا ہی بہتر ہوتا ہے۔

متعدد افراد کی وہ عام عادت جو جلد بوڑھا بنا سکتی ہےکیا آپ خود کو قبل از وقت بوڑھا ہونے سے بچانا چاہتے ہیں؟ تو تمباکو نو...
14/09/2023

متعدد افراد کی وہ عام عادت جو جلد بوڑھا بنا سکتی ہے
کیا آپ خود کو قبل از وقت بوڑھا ہونے سے بچانا چاہتے ہیں؟ تو تمباکو نوشی سے گریز کریں۔

تمباکو نوشی سے خون کے سفید خلیات کے کروموسومز کو نقصان پہنچتا ہے جس سے بڑھاپے کی جانب سفر تیز ہو جاتا ہے۔

یہ انتباہ چین میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا۔
ہوانگزو نارمل یونیورسٹی کی اس تحقیق میں لگ بھگ 5 لاکھ افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا تھا۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ تمباکو نوشی کے عادی افراد کے کروموسومز میں موجود ٹیلومیئرز کی لمبائی گھٹ جاتی ہے۔

خیال رہے کہ ٹیلومیئرز کروموسومز کے ایسے حفاظتی کیپس (caps) ہوتے ہیں جو ڈی این اے کو نقصان سے بچاتے ہیں۔

اگر ٹیلومیئرز کی لمبائی مختصر ہوجائے تو بڑھاپے کی جانب سفر تیز ہوجاتا ہے۔

تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ تمباکو نوشی سے بڑھاپے کی جانب سے سفر تیز ہو جاتا ہے جبکہ اس عادت کو ترک کر دینے سے یہ خطرہ کم کیا جا سکتا ہے۔
اس سے پہلے بھی تحقیقی رپورٹس میں تمباکو نوشی کی عادت اور ٹیلومیئرز کی لمبائی میں کمی کے درمیان تعلق کے بارے میں بتایا گیا ہے۔

مگر اس نئی تحقیق میں اس حوالے سے زیادہ ٹھوس شواہد پیش کیے گئے۔

تحقیق کے دوران تمباکو نوشی کے عادی افراد، اس عادت کو ترک کرنے والوں اور اس لت سے ہمیشہ دور رہنے والوں کے خون کے نمونوں کا جائزہ لیا گیا تھا۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ تمباکو نوشی کے عادی افراد کے کروموسومز کو نقصان پہنچتا ہے جس کے نتیجے میں جلد بڑھاپے کا خطرہ بڑھتا ہے، جبکہ اس عادت کو ترک کر دینے سے یہ اثر ریورس کرنا ممکن ہے۔
محققین نے بتایا کہ تمباکو نوشی زیادہ کرنے سے ٹیلومیئرز کی لمبائی پر بھی نمایاں منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ٹیلومیئرز کی لمبائی گھٹنے سے متعدد امراض جیسے ذیابیطس، مسلز کی کمزوری اور امراض قلب کا خطرہ بڑھتا ہے۔

اس تحقیق کے نتائج European Respiratory Society International Congress میں پیش کیے گئے۔

مچھلی اور احتیاط -مچھلی کھانے سے انسان کے بیمار ہو جانے یا پیٹ میں درد کے پیدا ہونے کے مختلف اسباب ہیں ۔کچھ مچھلیوں یاشی...
12/09/2023

مچھلی اور احتیاط -
مچھلی کھانے سے انسان کے بیمار ہو جانے یا پیٹ میں درد کے پیدا ہونے کے مختلف اسباب ہیں ۔کچھ مچھلیوں یاشیل فشری میں زہریلے مادے پیدا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے جو کہ پکانے سے بھی ختم نہیں ہوتی ۔مثلاً ”فیوگویا پفر “زہریلی مچھلی ہوتی ہے جو جاپان میں پائی جاتی ہے ۔اس کے علاوہ Paralytic شیل فشری کے لحاظ سے جراثیمی مچھلی ہوتی ہے ۔
یہ بھی جاپان اور جنوبی امریکہ میں پائی جاتی ہے ۔

بعض لوگ مچھلی سے جبکہ بعض انڈے کھانے سے الرجک ہوتے ہیں ‘ان کو ہم حساس طبیعت افراد کہتے ہیں لیکن کھانے سے بیمار ہونے کا سبب حساس ہونا نہیں بلکہ جراثیم کا غذا کے ہمراہ جسم میں داخل ہونا ہے ‘کیونکہ جراثیم کھانے کے ساتھ مل کر جب پیٹ میں داخل ہوتے ہیں تو وہ غذا سے مل کر زہریلی رطوبت خارج کرتے ہیں جس کی وجہ سے نظام ہاضمہ متاثر ہوتا ہے اور پیٹ میں تکلیف محسوس ہوتی ہے ۔

کھانے میں شامل ہونے والے یہ جراثیم مختلف اقسام کے ہوتے ہیں اور جسم کے اندر مختلف بیماریاں پیدا کرتے ہیں۔مثلاً سالمونیلا‘شجیلا‘اسٹافائلو کوکس اورکلو سٹریڈم یہ سب وہ مختلف جراثیم ہیں جو کہ گلی سڑی ‘
باسی مچھلی یا کچھ دوسری خراب اشیاء کے ساتھ جسم میں داخل ہوجاتے ہیں اور پیٹ میں تکلیف ‘آنت میں مروڑ ‘بد ہضمی اور پیچش جیسی بیماریاں پیدا کرتے ہیں ۔

مچھلی زیادہ کھانے سے بھی بدہضمی ہوسکتی ہے ۔عموماً یہ بات سنی جاتی ہے کہ مچھلی کھانے کے فوراً بعد دودھ نہیں پینا چاہئے اور زیادہ مچھلی کھانے یا اس کے بعد زیادہ دودھ پینے سے پیٹ خراب ہو جاتا ہے (البتہ کچھ لوگوں میں زیادہ کھانے کی صلاحیت ہوتی ہے اور ان کا پیٹ بھی کم ہی خراب ہوتاہے )تو اصل بات یہ ہے کہ دونوں اشیاء(دودھ یا مچھلی )میں سے کوئی بھی چیز اگر باسی ہے تو وہ پیٹ میں ضرور تکلیف کا سبب بنے گی ‘اس میں کوئی حقیقت نہیں کہ مچھلی کے بعد دودھ پینے سے کوئی تکلیف لاحق ہوجاتی ہے کیونکہ اصل میں تکلیف زیادہ مقدار کھالینے ‘کسی چیز کے باسی ہونے یا پھر اس سے الرجک ہونے سے پیدا ہوتی ہے ‘نہ کہ مچھلی کے اوپر دودھ پی لینے سے ۔

صفائی کا خیال
مچھلی خریدنے اور صاف کرنے کے بعد کھلی جگہ میں رکھنے کے بجائے اسے ہمیشہ فریج میں رکھنا چاہئے‘
اس سے مچھلی تازہ رہتی ہے ۔بعض لوگ مچھلی خریدنے کے بعد اسے کھلا رکھ چھوڑتے ہیں جس سے اس میں چراثیم نشوونما پانا شروع کردیتے ہیں اور مچھلی کا رنگ بھی تبدیل ہو جاتا ہے پھر مچھلی کے پکڑنے کے وقت کا اندازہ لگانا بھی بہت مشکل ہے ۔

اس کے علاوہ اس تالاب یا سمندر کے کنارے (جہاں سے مچھلی پکڑی جاتی ہے )پر پانی کی آلودگی کا جائزہ لینا بھی ضروری ہوتا ہے کیونکہ اگر مچھلی ایسی جگہ سے پکڑی جائے جو آلودہ ہوتو ایسی مچھلی میں بہت سے جراثیم موجود ہوتے ہیں اور اس کو کھانے سے انسان بیمار ہونے کے علاوہ زہر خوانی کا شکار بھی ہو سکتا ہے ۔
پھر ماہی گیر جب سمندر میں مچھلی پکڑنے جاتے ہیں تو وہ واپس بند رگاہ چند ہفتوں بعد ہی آتے ہیں اور دوران سفر جو مچھلی پکڑتے ہیں اسے کشتی میں جمع کرتے رہتے ہیں لہٰذا ایسی کشتی یا جہاز میں بھی صفائی کا معیار اعلیٰ ہونا چاہئے یا کم از کم کولڈ اسٹوریج کا تسلی بخش انتظام ہی ہو ۔
اس کے علاوہ وہ جگہ جہاں مچھلی اتاری جاتی ہے اس کی صفائی بھی بہت ضروری ہے ۔
کیونکہ اگر یہ تمام چیزیں صاف نہیں ہوں گی تو مچھلی میں مختلف جراثیم داخل ہو سکتے ہیں جو کہ مچھلی کی کو الٹی اور غذائیت کو متاثر کرتے ہیں ۔اسی لئے مچھلی پکڑنے کے سامان ‘کشتی اور کولڈا سٹوریج کا غلاظت سے پاک ہونا ضروری ہے ۔علاوہ ازیں ماہی گیروں کو اپنے ہاتھوں کی صفائی کا بھی خاص خیال رکھنا چاہئے ۔

اگر مچھلی کافی عرصے کی پکڑی ہوئی ہوتو ایسی مچھلی کو کھانے سے زہر خوانی ہو سکتی ہے ۔
کوشش یہ کرنی چاہئے کہ زیادہ دیر کی رکھی ہوئی مچھلی یا بغیر فریج کی مچھلی کو پکانے میں احتیاط کریں ۔مچھلی کے اندرونی اعضا ء مثلاً پیٹ ‘معدہ ‘تلی ‘گردہ‘جگر اور آنتیں وغیرہ بہ طور خوراک استعمال نہیں کرنی چاہئیں کیونکہ ان میں جراثیم ہوتے ہیں اور ان کے کھانے سے آدمی پیٹ کے درد ‘الٹی ‘دست ‘مروڑ اور گیس کی بیماری میں گرفتار ہوسکتا ہے ۔

اس ضمن میں شمال مغربی یورپ کے ممالک مثلاً فن لینڈ ‘روس‘سوئیڈن ‘جاپان اور جرمنی میں ہاف یا یکسیو (Half or Yaksav)جیسی خطر ناک بیماری عام ہے ۔یہ بیماری ان ممالک کے ایسے علاقوں میں ہوتی ہے جہاں کی آبادی سمندر کے کنارے یا جزیروں پر رہتی ہے اور اس بیماری کے پھیلنے کے بنیادی اسباب پانی کی آلودگی اور غلاظت ہیں ۔
اس میں بازو ‘ٹانگ اور کمر کی رگوں میں سخت تکلیف محسوس ہوتی ہے اور جس کا دورانیہ عموماً 24گھنٹے ہوتا ہے ۔
کبھی کبھار الٹیاں بھی ہوتی ہیں ۔پیشاب کا رنگ کالا یا بھورا ہوجاتا ہے اور یہ بیماری پرچ (Perch)‘بریم (Bream)‘روج (Roagh)‘ٹربوٹ (Turbot)‘اور لیک ٹراؤٹ (Lake Trout)نامی مچھلیوں سے ہوتی ہے ۔
یہ مچھلیاں چونکہ آلودہ اور غلاظت سے پُر پانی سے پکڑی جاتی ہیں اور ایسے پانی میں خورد بینی جاندار بھی شامل ہوتے ہیں لہٰذا وہ خوراک کے ہمراہ مچھلی کے جسم میں داخل ہوتے ہیں اور آہستہ آہستہ مچھلی کے گوشت تک پر اثر انداز ہو جاتے ہیں ۔

دراصل آلودہ پانی میں موجود نباتاتی پودے بلو گرین ‘الجی وغیرہ پانی میں ایک زہریلا مادہ خارج کرتے رہتے ہیں جو کہ غذا کے ساتھ مچھلی کے جسم میں داخل ہو کر گوشت کو آلودہ کر دیتا ہے اور اس کھانے سے انسان بیمار یا ز ہر خوانی کا شکار ہو جاتا ہے ۔مچھلی کے تالاب میں آلودہ پانی نہیں رہنا چاہئے کیونکہ ایک تو اس سے پانی میں آکسیجن کی کمی ہو جاتی ہے اور مچھلی کی نشوونما پر خراب اثر پڑتا ہے ۔دوم آلودگی یا غلاظت کی وجہ سے مچھلی میں مختلف جراثیمی بیماریاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں اور ایسی مچھلی کو کھانے سے انسان کا معدہ مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے اور یہ انسانی معدے کو سخت نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتی ہیں ۔ See less

سبز چائے۔مفید ترین سکن ٹانک -سبز چائے کو ایشیا میں ایک طویل عرصے سے مشروب کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے تاہم اب جرمن...
11/09/2023

سبز چائے۔مفید ترین سکن ٹانک -
سبز چائے کو ایشیا میں ایک طویل عرصے سے مشروب کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے تاہم اب جرمن کاسمیٹک انڈسٹری اسے جلد کے علاج کے لیے ایک ٹانک کے طور پر متعارف کروانے جارہی ہے ۔ سبز چائے خون کی نالیوں کے لیے بھی مفید قراردیا جاتا ہے ۔ تاہم اب سبز سبز چائے جلد کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی کریموں کا بھی ایک لازمی جزوبنتی جارہی ہے۔
جرمنی میں جلد بیماریوں کے ماہرین یا ڈرماٹولوجسٹس کی تنظیم سے تعلق رکھنے والی خاتون ماہر جلد کر سٹیانے بیرل کے مطابق سبزچائے اس وقت ایک مقبول ہوتا اور مرکب ہے ۔ مگر سبز چائے یورپ میں اس قدر مقبول کیسے ہوگئی ؟ اس کے جواب میں جرمنی میں کاسمیٹکس تیار کرنے والے اداروں کی ایسوسی ایشن کی برگٹ ہوبرکہتی ہیں “ وٹامنز معدنیات اور دیگر عناصر کی بدولت سبزچائے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جلد کے لیے بہتر ہوتی ہے یہاں تک کہ اسے بعض شیمپو میں بھی استعمال کیا جاتا ہے جس کا مقصد سرکی جلد کو سکون پہنچانا اور چکنے بالوں کو صاف کرنا ہوتا ہے ۔
یہ اینٹی آکسیڈنٹ یعنی عمل تکسید کو روکتا ہے اور دوبارہ جلد آنے میں بھی معاون ہوتا ہے ۔ بیرل کے مطابق سبزچائے پر سائنسدانوں نے کافی تحقیق کی ہے اور یہ خطرناک کیمیائی عوامل کو بھی روکتی ہے ۔ میونخ میں واقع نور کاؤیر اسکول آف کاسمیٹکس کی ایک استادالیگزنڈر اکیزلرکیہن کہتی ہیں کہ سبزچائے میں موجود کلوروفل جلد کو تازہ رکھتا ہے۔

چھوٹی سبز الائچی کو بھی آزمائیے -میرے ایک جاننے والے بہت اچھے اور مخلص انسان ہیں۔میری جب بھی ان سے ملاقات ہوتی ہے،وہ مجھ...
07/09/2023

چھوٹی سبز الائچی کو بھی آزمائیے -
میرے ایک جاننے والے بہت اچھے اور مخلص انسان ہیں۔میری جب بھی ان سے ملاقات ہوتی ہے،وہ مجھے دیکھ کر مسکراتے ہیں،فوراً جیب میں ہاتھ ڈالتے ہیں،ایک چھوٹی سبز الائچی نکال کر میری ہتھیلی پر رکھ کر بڑی گرم جوشی سے مصافحہ اور معانقہ کرتے ہیں ۔بعض اوقات تو وہ یہ بھی کرتے ہیں کہ فوراً الائچی جیب سے نکال کر کہتے ہیں کہ منھ کھولو اور میں جیسے ہی منھ کھولتا ہوں ،وہ میرے منھ میں الائچی ڈال دیتے ہیں ۔

میرے یہ شنا سا بہت خوش مزاج اور ہنس مکھ ہیں، اعلیٰ درجے کے مہمان نواز ہیں،انتہائی ملنسار اور انسان دوست ہیں۔
ایک بارمیں نے ان سے دریافت کیا کہ بھائی!آپ ہر وقت اپنے پاس الائچی کیوں رکھتے ہیں؟کہنے لگے اس ضمن میں ایک واقعہ سُن لیجیے،پھر آپ کی سمجھ میں سب کچھ آجائے گا۔

وہ کہنے لگے کہ ایک دفعہ میں مصر گیا۔میں قاہرہ ائیرپورٹ پر بیٹھا ہوا تھا۔

جس ہوٹل میں مجھے ٹھہر نا تھا،اس کی انتظامیہ سے میری بات چیت ہو چکی تھی اور ان کے ایک آدمی کو مجھے لینے کے لئے ائیر پورٹ آنا تھا۔اسے آنے میں دیر ہوئی ۔اتنے میں ایک مصری آیا اور میرے برابر میں آکر بیٹھ گیا۔اس نے بیٹھتے ہی مجھے سلام کیا اور پھر مسکرا کر اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک چھوٹی سبز الائچی نکالی،مجھے دی اور پھرمصری عربی میں مجھ سے کہا کہ اسے کھا لیجیے۔

مجھے چونکہ مصری عربی آتی ہے،اس لیے میں نے اس سے کہا کہ آپ نے یہ الائچی مجھے کیوں دی ہے؟وہ کہنے لگا چھوٹی الائچی کھانے سے منھ خوشبودار ہوجاتاہے اور مسوڑوں کی کوئی بھی بیماری قریب نہیں آتی ۔اس کے علاوہ اگر دانتوں سے خون آتاہو،مسوڑے گل گئے ہوں،منھ میں چھالے یا زخم ہوں ،چھوٹی الائچی کھانے سے یہ ساری بیماریاں ختم ہو جاتی ہیں۔مصری نے کہا کہ بہت زیادہ سگریٹ نوشی کرنے کی وجہ سے میرے منھ میں تکلیف رہنے لگی تھی۔
میں نے ایک مستند معالج کو دکھایا۔اس نے میرے منھ کا مکمل معائنہ کرنے کے بعد بتایا کہ میرے منھ میں سر طان کی علامتیں پیدا ہو چکی ہیں اور میں جلد ہی منھ کے سرطان میں مبتلاجاؤں گا۔اس نے مجھے مزید بتایا کہ میری زبان کا کچھ حصہ سر جری کے ذریعے کا ٹنا بھی پڑے گا۔یہ سُن کر میں بے حد خوف زدہ اور پریشان ہو گیا۔میں نے سگریٹ پینا ترک کر دی۔ایک دن پریشانی کے عالم میں نہ جانے میرے دل میں کیا آئی کہ میں نے ایک دکان سے اچھی خاصی مقدارمیں چھوٹی سبز الائچیاں خریدلیں اور روزانہ دو تین الائچیاں منھ میں ڈال کر چوسنی شروع کردیں۔
میرا دل بہت پریشان تھا اور اس کیفیت میں ،میں چند ہفتوں تک سگرٹ کی جگہ الائچیاں چوستا رہا۔رفتہ رفتہ میرے منھ کی تکلیف ختم ہونے لگی اور میں پہلے کی نسبت خود کو کافی صحت مند محسوس کرنے لگا۔
ایک دن میں اسی معالج کے پاس دوبارہ گیا اور اس سے کہا کہ سر!براہ کرم میرے منھ کا معائنہ کر لیجیے۔ معالج نے کہا آپ کی زبان کی تو سرجری ہونی تھی ،آپ کہاں غائب ہو گئے تھے؟بہر کیف اس نے میرے منھ کا معائنہ کیا ،میری رپورٹ دیکھی،پھر حیرت زدہ ہو کر بولا،میری گزشتہ تحقیق کے مطابق آپ کے منھ میں سرطان کی جڑیں پیدا ہو چکی تھیں اور سرطان آپ کے منھ میں پھیل رہا تھا ،لیکن میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ آپ کے منھ میں اب سرطان کی کوئی علامت نہیں ہے۔
آپ کس معالج سے علاج کروارہے تھے اور وہ آپ کو کون سی ادویہ دے رہا تھا،کیا آپ مجھے بتانا پسند کریں گے؟
میں نے معالج کو بتایا کہ جناب!میں چند ہفتوں سے روزانہ صرف چھوٹی سبز الائچیاں چوستا رہا ہوں۔بس یہی میری دوا تھی،جس سے مجھے سوفیصد فائدہ ہوا۔اس کے علاوہ میں نے کہیں سے کوئی بھی علاج نہیں کروایا۔معالج کو میری باتوں پر یقین نہیں آیا۔
اس نے مجھ سے کہا کہ آپ چند منٹ ٹھیریے،میں آپ سے بات کرتاہوں۔اتنا کہہ کر وہ اپنے کمپیوٹرکی طرف متوجہ ہوا اور کافی دیر تک کمپیوٹرپر کام کرتا رہا۔پھر میری طرف متوجہ ہوا اور مجھ سے کہا کہ میں انٹرنیٹ کے ذریعے چھوٹی سبز الائچی پر کی گئی تحقیقات پر سر سری نظر ڈال چکا ہوں اور یہ پڑھ کر مجھے بہت حیرت ہوئی ہے کہ چھوٹی الائچی منھ،ناک اور زبان کے سر طان کا خاتمہ کرنے میں مدد دیتی ہے۔
اس کے علاوہ الائچی دماغ کو روشن ،نظر کو تیز،یادداشت کو مضبوط کرتی اور بڑھاپے کی تیز رفتاری کو روکتی ہے۔جو شخص روزانہ الائچی کھائے گا،اس کے ہاں بیٹے زیادہ ہوں گے اور وہ معدے اور بواسیر کی بیماریوں سے بھی محفوظ رہے گا۔وہ معالج بول رہا تھا اورمیں حیرت سے سن رہا تھا۔بعدازاں اس معالج نے اُٹھ کر میری پیٹھ ٹھونکی اور کہا کہ آپ بہت خوش قسمت ہیں کہ سرطان کے چُنگل سے بچ گئے۔
میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور گھر چلا آیا۔
اس کے بعد میں نے چھوٹی سبز الائچی پر تحقیق کی تو پتا چلا کہ یہ فوائد سے مالا مال شے ہے۔مجھے خیال آیا کہ جس شے کو میں اپنے لیے پسند کرتا ہوں،اسے دوسرے لوگوں کے لیے بھی پسند کرنا چاہیے،تاکہ انھیں بھی فائدہ ہو،لہٰذا میں نے دوسروں کو بھی الائچی دینا شروع کر دی اور اس کے فوائد بھی بیان کرنے لگا۔
میرے ایک دوست، جو نزلے زکام کے دائمی مریض تھے۔میں نے انھیں چند الائچیاں دیں اور کہا کہ چند ہفتے ضرور کھائیے۔کافی عرصے بعد ان سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ بھائی!تمھارا بہت بہت شکریہ، الائچی کھانے سے میرا پرانا نزلہ زکام ختم ہو گیا۔ایک صاحب کی یادداشت بے حد کمزور تھی،ہر وقت اپنی کمزور یادداشت کا رونا روتے رہتے تھے۔میں نے انھیں چھوٹی الائچی کھانے کا مشورہ دیا۔
وہ سارا دن منھ میں الائچی رکھے چوستے رہتے اور اپنا کام کرتے رہتے۔چند ہفتوں بعد یاد داشت کا یہ عالم ہو گیا کہ ماضی کے دبے ہوئے قصے کہانیاں سب یاد آنے لگیں۔میری ان سے ملاقات ہوئی تو مجھے سینے سے لگالیا اورکہنے لگے کہ یار!تم نے مجھے نئی زندگی دی ہے،میں کس زبان سے تمھارا شکریہ ادا کروں۔
میرا خیال ہے کہ ہم سب کو روزانہ چھوٹی سبز الائچی چوسنے کی عادت ڈالنی چاہیے،اس لیے کہ مذکورہ فوائد کے علاوہ اس میں حیاتین کا خزانہ بھی چھپا ہوا ہے۔
یہ لا علاج بیماریوں کا بہترین علاج ہے،لیکن ایک بات ہمیں گرہ سے باندھ لینی چاہیے کہ اگر خدانخواستہ ہم میں سے کوئی بھی فرد کسی بیماری میں مبتلا ہے اور اس کا علاج کروارہا ہے تو اسے علاج ترک نہیں کرنا چاہیے،البتہ چھوٹی سبز الائچی کو بھی آزمانا چاہیے۔ See less

قبض جیسے مرض سے بچنا بہت آسانقبض ایسا مسئلہ ہے جس کا سامنا لگ بھگ ہر فرد کو ہی ہوتا ہے۔بزرگوں میں یہ زیادہ عام ہوتا ہے ...
06/09/2023

قبض جیسے مرض سے بچنا بہت آسان
قبض ایسا مسئلہ ہے جس کا سامنا لگ بھگ ہر فرد کو ہی ہوتا ہے۔

بزرگوں میں یہ زیادہ عام ہوتا ہے مگر ہر عمر کے افراد اس سے متاثر ہوسکتے ہیں۔

ہر فرد میں اس کی شدت یا علامات مختلف ہوسکتی ہیں اور وجوہات بھی مختلف ہوسکتی ہیں۔
جیسے جسم میں پانی کی کمی، ناقص غذا، مخصوص ادویات، کوئی بیماری، اعصابی نظام کو متاثر کرنے والے امراض یا ذہنی بیماریوں کے نتیجے میں قبض کا سامنا ہوسکتا ہے۔
مگر اچھی خبر یہ ہے کہ چند غذاؤں سے قبض سے ریلیف ممکن ہے یا اس کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔

ناشپاتی
یہ مزیدار پھل وٹامنز اور اینٹی آکسائیڈنٹس سے بھرپور ہوتا ہے جبکہ پانی اور فائبر کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے، جس سے قبض کی روک تھام میں مدد ملتی ہے یا ریلیف ملتا ہے۔

پوپ کارن
اکثر افراد سنیما میں فلم دیکھتے ہوئے اسے کھاتے ہیں مگر اسے کسی بھی وقت کھایا جاسکتا ہے، بس نمک اور چکنائی کی مقدار زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔
پوپ کارن میں فائبر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جو قبض سے بچانے کے لیے اہم ترین جز ہے۔

تربوز
اس پھل میں فائبر کی مقدار تو زیادہ نہیں مگر اس کا 92 فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہوتا ہے، جس سے آنتوں کے افعال بہتر ہوتے ہیں۔

اس سے ہٹ کر وٹامنز اور لائیکو پین جیسے اجزا بھی اس کا حصہ ہوتے ہیں جو معدے کے لیے مفید ثابت ہوتے ہیں۔
جو کا دلیہ
جو کا دلیہ بھی فائبر کے حصول کا اچھا ذریعہ ہے جبکہ یہ پانی کی کافی مقدار بھی جذب کرتا ہے جس سے ہاضمہ بہتر ہوتا ہے۔

بادام
بادام میں بھی فائبر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جبکہ یہ پروٹین اور صحت مند چکنائی کے حصول کا بھی اچھا ذریعہ ہے۔
سیب
سیب میں شکر کی ایک قسم sorbitol موجود ہوتی ہے جو جلاب جیسا کام کرتی ہے۔

اسی طرح یہ پھل فائبر اور پانی کے حصول کا بھی بہترین ذریعہ ہے جس سے آنتوں کے افعال بہتر ہوتے ہیں اور قبض سے ریلیف ملتا ہے۔
خشک آلو بخارے
خشک آلو بخارے نہ صرف قبض سے ریلیف کے لیے مؤثر ہیں بلکہ اس سے بچانے میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

اس میں بھی sorbitol نامی شکر موجود ہوتی ہے جسے ہمارا جسم ہضم نہیں کرپاتا جس کے باعث یہ جلاب جیسا کام کرتی ہے۔

بس اس کی زیادہ مقدار کھانے سے گریز کریں ورنہ ہاضمہ خراب بھی ہوسکتا ہے، اس کا جوس پینا بھی قبض سے ریلیف کے لیے مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
دالیں
دالوں میں فائبر کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے جو نظام ہاضمہ کی صحت بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ قبض سے نجات دلانے والا جز ہے۔

دہی
دہی میں پرو بائیوٹیکس کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جو معدے کو صحت مند رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے اور قبض کی روک تھام ہوتی ہے۔
کافی
یہ گرم مشروب بھی قبض سے ریلیف میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے، لیکن اس کی وجہ کیا ہے یہ ابھی سائنسدان جان نہیں سکے۔

پانی
چونکہ جسم میں پانی کی کمی قبض کا خطرہ بڑھانے کا باعث ہے تو مناسب مقدار میں پانی پینا قبض سے بچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

شکرقندی
شکرقندی میں موجود فائبر سے قبض کی روک تھام ہوتی ہے اور ہاضمہ کے افعال صحت مند ہوتے ہیں۔
انار
انار میں ایسے فائبر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جو آسانی سے جسم میں جذب نہیں ہوتا۔

فائبر کی یہ قسم نظام ہاضمہ کو صحت مند رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور قبض سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔

Address

Androon Ahmed Puri Gate Near Chowk Fwara Bahawalpur
Bahawalpur
61000

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dr Waheed Akhtar posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Dr Waheed Akhtar:

Share

Category


Other Doctors in Bahawalpur

Show All

You may also like