Fahd Medicare

Fahd Medicare We provide facilities in Gynecology and CARDIOLOGY A Cardio and Gyne clinic

سلامڈاکٹرز کا عالمی دن; اے مسیحا تجھے سلامDoctors dayڈاکٹرکا شعبہ انسانیت کی خدمت کا بہترین ذریعہ ہے، مریض کو تکلیف سے ن...
01/07/2025

سلام

ڈاکٹرز کا عالمی دن; اے مسیحا تجھے سلام
Doctors day
ڈاکٹرکا شعبہ انسانیت کی خدمت کا بہترین ذریعہ ہے، مریض کو تکلیف سے نجات دلانا اور زندگی بچانا ڈاکٹرز کی اولین ترجیح ہے، ڈاکٹرز کے عالمی دن پر اہم تحریر

دنیا میں کوئی نہ کوئی شخص کسی نہ کسی شعبے سے وابستہ ہوتا ہےجو اس کے روزگار کا ذریعہ بھی اور اس سے دنیا کو فائدہ بھی ہوتا ہے۔ہر شعبہ اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے، ہر شعبے سے وابستہ افراد اس شعبے میں اپنی اپنی خدمات انجام دیتے ہیں۔انھی میں کچھ شعبے ایسے بھی ہیں جو انسانیت کی خدمت کے حوالے سے معتبر سمجھے جاتے ہیں جن میں شعبہ طب یعنی ڈاکٹرز کا شعبہ بھی شامل ہے۔

ڈاکٹرز جنھیں مسیحا بھی کہا جاتا ہے اور کسی بھی بیمار شخص کے لئے ڈاکٹر اسے تکلیف سے نجات دلانے اور زندگی بچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔مسیحائی کے بغیرانسانیت کا تصورممکن نہیں ہے۔ چھوٹی چھوٹی بیماریوں اورتکالیف میں سب سے پہلے ڈاکٹرز کی ضرورت پیش آتی ہے۔

ہر بیمار شخص کا علاج اور اس کی جان بچانا ڈاکٹرز کا فرض ہے خواہ اس کا تعلق کسی بھی رنگ، ذات ، مذہب یا نسل سے کیوں نہ ہو اس کا مقصد انسان کی جان بچانا ہے اور دنیا بھر کے ڈاکٹرز اس سوچ کے ساتھ اپنے شعبوں میں بے مثال خدمات انجام دے رہے ہیں ۔جو انسانیت سے محبت اور دوستی کا بہترین ثبوت ہے۔

یوں توبین الاقوامی طور پر منائے جانے والے دن دنیا بھر میں ایک ہی تاریخ کو منائے جاتے ہیں لیکن کچھ دن ایسے ہیں جن میں تاریخوں کی تبدیلی کے باعث انھیں مختلف ممالک میں مختلف تاریخ پر منایا جاتاہے انھیں میں ڈاکٹرز کا عالمی دن بھی ہے۔پاکستان بھر میں یہ دن یکم جولائی کو منایا جاتا ہے۔

یہ دن بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ یہ ان ڈاکٹرزکا دن ہےجو کسی بھی انسان کی جان بچانا اپنا فرض سمجھتے ہیں، ملک کے حالات، موسم اور اپنے آرام کی پروا کیے بغیر ان کی کوشش ہوتی ہے کہ مریض کو آخری سانس تک زندگی کی نوید سنائی جائے جو اُن کے پیشے کا بھی تقاضا ہے اور انسانیت کا بھی ۔

ڈاکٹرز کا عالمی دن منانے کا بنیادی مقصد عام انسان کو ڈاکٹرز کی اہمیت، افادیت اور ان کی ذمے داریوں سے متعلق آگاہ کرنا ہے۔ اس دن دنیا بھر میں میڈیکل اداروں اورڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام تقریبات، سیمینارز اور کانفرنسزمنعقد کی جاتی ہیں جن میں ڈاکٹرز کے شعبے کو نہ صرف سراہا جاتا ہے بلکہ ان میں مریضوں کی خدمت اورعلاج کے حوالے سے ضروری باتوں سے بھی آگاہ کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹراگر مریض کی جانب توجہ کرنے سے پہلے اس کو مسکرا کر دیکھ لے تو بیماری میں کافی حد تک کمی آجاتی ہے، انسان چھوٹی چھوٹی مسکراہٹوں کا طالب ہوتا ہے اور ایسے میں جب وہ کسی تکلیف یا بیماری سے لڑ رہا ہو ایسے میں کسی بھی خاص طور پہ ڈاکٹرز کی مسکراہٹ اور نرم رویہ اس کے لئے انرجی کا کام کرتا ہے۔

ڈاکٹرز کا مریض کے ساتھ برتاؤ
ڈاکٹرز کو سب سے پہلے مریض سے خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آناچاہئے، جس سے مریض کی آدھی بیماری دور ہوجاتی ہے۔

مریض کی بیماری کو اچھی طرح اس سے سننا اور اس سے متعلق سوالات کرنا۔

مریض کو اس کے مرض کے بارے میں بغیر کسی تکلف کے آگاہ کرنا۔

مریض کی ذہنی سطح تک پہنچنا اور اس کے مزاج کو دیکھتے ہوئے اس کے ساتھ برتاؤ کرنا۔

بیماری اگر بہت زیادہ خطرناک نہ ہو تو مریض کو بھرپور تسلی دینا۔

اس کو بیماری میں علاج کی اہمیت سے آگاہ کرنا۔

مریض کی نفسیات سے واقف ہونا اور اس کو اچھے الفاظ میں علاج کی ترغیب دینا۔

دوران علاج مریض کو دوائوں کی اہمیت اور پرہیز کے بارے میں آگاہ کرنا۔

علاج کے دوران مریض میں آرام کی اہمیت کو اجاگر کرنا۔

خود کو صاف ستھرا رکھنا ۔

کلینک اور اسپتال کی صفائی کا بہت زیادہ خیال رکھنا۔

مریض کا استقبال مسکراتے ہوئے کرنا ۔

مریض کوبد پرہیزی اور بے احتیاطی کے نقصانات کے حوالے سے آگاہ کرنا۔

مریض کی تکلیف پہ اسے اچھے الفاظ میں تسلی دینا۔

مریض اگر بیماری کی وجہ سے چڑچڑاہٹ کا شکار ہے تو ڈاکٹر اس کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرے۔

بیماری سنگین یا خطرناک ہو تو مریض کو اچھے انداز میں بتائے۔

مریض میں خوف پیدا نہ کرے۔

کہتے ہیں ڈاکٹر سے مرض چھپانا یا مرض کے بارے میں ڈاکٹر کو صحیح طریقے سے نہ بتانا خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہے، کیوں کہ ڈاکٹر ہی ایسا علاج تجویز کرتا ہے جس سے بیماری بھی دور ہوتی ہے اور تکلیف سے نجات بھی حاصل ہوتی ہے۔

مریض کے لئےضروری باتیں
ڈاکٹرز کواپنی بیماری کےبارے میں سب کچھ بلا جھجک بتائے۔

شرم اورلحاظ میں اپنی بیماری سے متعلق کوئی بھی بات ڈاکٹرز سے نہ چھپائے۔

بیماری کے حوالے سے ڈاکٹرز کی بات کو غور سے سنے اور سمجھے۔

اگر اپنی مدد آپ کے تحت کوئی دوا استعمال کی ہے تو ڈاکٹر کو اس کےبارے میں بتائے۔

اگر کوئی ایسی بیماری جو مورثی ہو یعنی خاندان یا فیملی میں کسی اور لاحق ہو تو ڈاکٹر سے اس کا ذکر ضرور کرے۔

کن چیزوں سے الرجی ہوجاتی ہے ڈاکٹر کو اچھی طرح بتائے۔

بیماری کب سے ہے اور کیا کیا محسوس ہوتا ہے یہ بتانے میں کسی تکلف سے کام نہ لے۔

ڈاکٹر کی ہدایات کوپوری یکسوئی کے ساتھ سنے اور اس پرعمل کرے۔

ایمرجنسی کی صورت میں اسپتال میں اپنے جذبات پر قابو رکھے ۔

کوئی بھی ایسا کام نہ کرے جس سے ڈاکٹر، مریض، اسپتال یا کلینک کو نقصان پہنچے۔

صبر کا دامن تھامے اور دوران علاج ڈاکٹر کو بارباربلاوجہ پریشان کرنے سے گریز کرے۔

ڈاکٹر جوعلاج تجویزکرے اس پرخاموشی سےعمل درآمد کرے۔

ڈاکٹرسے بڑا ڈاکٹر بننے کی کوشش ہرگز نہ کرے۔

ڈاکٹر زوباريه یاسمین
ایم بی بی ایس،ایف سی پی ایس (گائناکالوجسٹ)
سابق رجسٹرار شیخ زید ہسپتال لاہور
گائناکالوجسٹ اینڈ لیپروسکوپک سرجن
کیمرہ کے ذریعہ بچہ دانی نکالنا
حمل میں پیچیدگی بزریعہ کیمرہ
بانجھ پن کا مکمل علاج
بانجھ پن میں ٹیوب کا ٹیسٹ بزریعہ کیمرہ
کیمرہ کے ذریعہ انڈہ دانی کی رسولی کا نکالنا

ڈاکٹر فھدالحق
ایم بی بی ایس،
ڈپ کارڈ (گولڈ میڈلسٹ)
کنسلٹنٹ کارڈیالوجسٹ
ماہرامراض دل
شوگر،بلڈپریشر،کولیسٹرول،سانس کا پھولنا،سینے میں درد،دل کا دورہ،دل کے پھٹوں کا کمزور ہو جانا
اوقات کار: روزانہ 4 بجے شام سے 8 بجے تک
فھد مڈی کئیر آفیسر کالونی بھکر
مشورہ کے لیے آنے سے پہلے رابط کریں
0333-8055664
fans Fahd Medicare

باپ سے محبت کے عالمی دن کے موقع پر والد کے ساتھ الفت ومحبت اور ان کی خدمت کے جذبے کو بڑھانے کے عزم کو دنیا بھر میں دہرای...
15/06/2025

باپ سے محبت کے عالمی دن کے موقع پر والد کے ساتھ الفت ومحبت اور ان کی خدمت کے جذبے کو بڑھانے کے عزم کو دنیا بھر میں دہرایا جاتا ہے، کیونکہ درحقیقت باپ دنیا کی وہ عظیم ہستی ہے جو کہ اپنے بچوں کی پرورش کے لئے اپنی جان تک لڑا دیتا ہے۔ ہر باپ کا یہی خواب ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچے کو اعلی سے اعلی میعار زندگی فراہم کرے تاکہ وہ معاشرے میں باعزت زندگی بسر کرسکے اور معاشرتی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکے۔ اسلام نے خاندان کو خاص اہمیت دی ہے اور چونکہ معاشرہ سازی کے سلسلہ میں اسے ایک سنگ بنیاد کی حیثیت حاصل ہے، لہذا اسلام نے اس کی حفاظت کے لئے تمام افرد پر ایک دوسرے کے حقوق معین کئے ہیں اور چونکہ والدین کا کردار خاندان اور نسل کی نشو ونما میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔

صحیفہ کاملہ سجادیہ، حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی دعائوں کا مجموعہ ہے، جسے آپ کے فرزند حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے تحریر کیا، ایک دعا میں حقوق والدین کی اہمیت کو امام سجاد نے دعا کی صورت میں پیش کیا ہے، جو مندرجہ ذیل ہیں:

اے اللہ! تو اپنے خاص بندے حضرت محمد مصطفی (ص) اور انکے طیب و طاہر خاندان، اہل بیت اطہار (علیھم السلام) پر رحمت نازل فرما اور انہیں بہترین رحمت و برکت اور درود و سلام کے ساتھ خصوصی امتیاز بخش اور اے معبود! میرے ماں باپ کو بھی اپنے نزدیک عزت و کرامت اور اپنی رحمت سے مخصوص فرما۔ اے تمام رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والے۔

اے اللہ! محمد (ص) اور ان کی آل (علیہم السلام) پر رحمت نازل فرما اور ان کے جو حقوق مجھ پر واجب ہیں، ان کا علم بذریعہ الہام عطا کر اور ان تمام واجبات کا علم بغیر کمی و زیادتی کے میرے لیے مہیا فرما دے۔ پھر جو مجھے بذریعہ الہام بتائے، اس پر پابند رکھ اور اس سلسلہ میں جو بصیرت علمی عطا کرے، اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے، تاکہ ان باتوں میں سے جو تو نے مجھے سیکھائی ہیں، کوئی بات عمل میں آئے بغیر نہ رہ جائے اور اس خدمت گزاری سے جو تونے مجھے بتلائی ہے، میرے ہاتھ پیر تھکن محسوس نہ کریں۔
اے اللہ !محمد (ص) اور ان کی آل (علیہم السلام) پر رحمت نازل فرما کیونکہ تو نے ان کی طرف انتساب سے ہمیں شرف بخشا ہے۔ محمد (ص) اور ان کی آل (علیہم السلام) پر رحمت نازل فرما کیونکہ تو نے ان کی وجہ سے ہمارا حق مخلوقات پر قائم کیا ہے۔

اے اللہ! مجھے ایسا بنا دے کہ میں ان دونوں سے اس طرح ڈروں جس طرح کسی جابر بادشاہ سے ڈرا جاتا ہے اور اس طرح ان کے حال پر شفیق و مہربان رہوں جس طرح شفیق ماں (اپنی اولاد پر) شفقت کرتی ہے اور ان کی فرمانبرداری اور ان سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آنے کو میری آنکھوں کے لیے اس سے زیادہ دل چسپ قرار دے، جتنا چشم خواب آلود میں نیند کا خمار اور میرے قلب و روح کے لیے اس سے بڑھ کر مسرت انگیز قرار دے، جتنا پیاسے کے لیے جرعہ آب، تاکہ میں اپنی خواہش پر ان کی خواہش کو ترجیح دوں اور اپنی خوشی پر ان کی خوشی کو مقدم رکھوں اور ان کے تھوڑے احسان کو بھی جو مجھ پر کریں، زیادہ سمجھوں اور میں جو نیکی ان کے ساتھ کروں وہ زیادہ بھی ہو تو اسے کم تصور کروں۔

اے اللہ! میری آواز کو ان کے سامنے آہستہ، میرے کلام کو ان کے لیے خوشگوار، میرے مزاج کو نرم اور میرے دل کو مہربان بنا دے اور مجھے ان کے ساتھ نرمی و شفقت سے پیش آنے والا قرار دے۔
اے اللہ ! انہیں میری پرورش کی جزائے خیر دے اور میری اچھی تربیت پر اجر و ثواب عطا کر اور کم سنی مجھ سے بے پناہ محبتوں کا انہیں صلہ دے۔

اے اللہ! انہیں اگر میری طرف سے کوئی تکلیف پہنچی ہو یا میری وجہ سے وہ ناراض ہوئے ہوں یا ان کی حق تلفی ہوئی ہو تو اسے ان کے گناہوں کا کفارہ، درجات کی بلندی اور نیکیوں میں اضافہ کا سبب قرار دے، اے برائیوں کو کئی گنا نیکیوں سے بدل دینے والے۔
بارالہا ! اگر انھوں نے میرے ساتھ گفتگو میں سختی یا کسی کام میں زیادتی یا میرے کسی حق میں تساہلی سے کام لیا ہو یا اپنے وظائف میں کسی طرح کی کوتاہی کی ہو تو میں ان کو بخشتا ہوں اور اسے نیکی و احسان کا وسیلہ قرار دیتا ہوں اور پالنے والے! تجھ سے التماس کرتا ہوں کہ اس کا ماخذہ ان سے نہ کرنا۔ اس لیے کہ میں اپنی نسبت ان سے کوئی بدگمانی نہیں رکھتا اور نہ تربیت کے سلسلہ میں انہیں تساہلی کرنے والا سمجھتا ہوں اور نہ ان کی دیکھ بھال کو ناپسند کرتا ہوں، اس لیے کہ ان کے حقوق مجھ پر لازم و واجب، ان کے احسانات اور ان کے انعامات عظیم ہیں۔ وہ اس سے بالاتر ہیں کہ میں ان کو برابر کا بدلہ یا ویسا ہی عوض دے سکوں۔ اگر ایسا کر سکوں تو اے میرے معبود! وہ ان کا ہمہ وقت میری تربیت میں مشغول رہنا، میری محبتوں میں رنج و تعب اٹھانا اور خود پریشانیوں میں رہ کر مجھے سہولتوں کا سامان فراہم کرنا کہاں جائے گا۔

بھلا کیسے ممکن ہے ہے کہ وہ اپنے حقوق کا صلہ مجھ سے پاسکیں اور نہ میں خود ہی ان کے حقوق سے سبکدوش ہو سکتا ہوں اور نہ ان کی خدمت کا فریضہ انجام دے سکتا ہوں۔ رحمت نازل فرما محمد (ص) اور ان کی آل (علیہم السلام) پر اور میری مدد فرما اے مدد کرنے والوں میں بہترین مددگار اور مجھے ان تمام چیزوں کی ہدایت فرما جن کی ہدایت ضروری ہے۔ اے رہنمائی کرنے والوں میں بہترین رہنمائی کرنے والے اور مجھے اس دن جب کہ ہر شخص کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر زیادتی نہ ہوگی، ان لوگوں میں سے قرار نہ دینا جو ماں باپ کے عاق و نافرمانبردار ہوں۔

اے اللہ! محمد اور ان کی آل و اولاد (علیہم السلام) پر رحمت نازل فرما اور میرے ماں باپ کو اس سے بڑھ کر امتیاز دے جو مومن بندوں کے ماں باپ کو تو نے بخشا ہے۔ اے رحم کرنے والوں میں بہترین رحم کرنے والے۔ اے اللہ! ان کی یاد کو نمازوں کے بعد دن اور رات کے کسی لمحوں میں فراموش نہ ہونے دے۔ اے اللہ! اگر تو نے انہیں مجھ سے پہلے بخش دیا، تو انہیں میرا شفیع بنا اور اگر مجھے پہلے بخش دیا تو مجھے ان کا شفیع قرار دے۔ تاکہ ہم سب تیرے لطف وکرم کی بدولت تیری بزرگی کے گھر اور بخشش و رحمت کی منزل میں ایک ساتھ جمع ہوسکیں۔ یقینا تو بڑے فضل والا، قدیم احسان والا اور سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔

امام سجاد علیہ اسلام کی یہ دعا ہمیں والدین کے حقوق کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ ہمیشہ اپنے والدین کے حق میں دعا اور ہر نیک عمل میں ان کو شریک کرنا چاہئے ان کی خواہشوں کو اپنی خواہش پر مقدم رکھتے ہوئے، ان پر احسان کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور بجائے اس کے کہ ان سے احسان کی امید رکھیں خود کو ان کے سامنے خاضع اور حقیر پیش کرنا چاہئے، ہمیشہ جو انھوں نے ہمارے لئے کیا ہے، اسے احسان سمجھیں اور جو ہم ان کے لئے کریں اسکو فرض اور نیکی سمجھیں۔ ایسے ا عمال انجام دیکر ہی ہم والدین کے حقیقی مطیع و فرمانبردار ثابت ہوسکتے ہیں۔

Heart patients: what precautions to take in summersموسم گرما اور امراض قلبپچھلے چند دنوں میں درجہِ حرارت میں نمایاں اضاف...
11/06/2025

Heart patients: what precautions to take in summers

موسم گرما اور امراض قلب

پچھلے چند دنوں میں درجہِ حرارت میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
لوگ گرمی سے پریشان بھی ہیں اور اس کا ازالہ کرنے کیلیے طرح طرح کی تدابیر کرنے پہ بھی مجبور ہیں۔

ایسی صورتحال میں وہ لوگ جن کو دائمی امراض لاحق ہیں، وہ سب سے زیادہ رسک پہ ہوتے ہیں۔
ان کی قوت برداشت کم ہوتی ہے اور سخت موسم میں ان کے اعضاء جواب دے جاتے ہیں۔

امراض قلب میں مبتلا مریض بھی اسی کیٹیگری میں آتے ہیں۔
انجانے میں گرمی سے نمٹنے کیلیے کئی ایسی غلطیاں کر جاتے ہیں جن کی وجہ سے ان کی حالت پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو جاتی ہے۔

آج کی تحریر اسی موضوع پہ ہو گی۔
کیا غلطیاں ہوتی ہیں اور ان سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔

1. پانی کا استعمال۔
عموماً ہارٹ فیلیئر کے مریضوں کو کہا جاتا ہے کہ پانی کا استعمال کم کیا کریں۔ لیکن موسم گرما میں درجہِ حرارت بڑھنے کی وجہ سے آنے والے پسینے میں بہت سا پانی ضائع ہو جاتا ہے۔
اگر مریض پانی کا روزمرہ کا استعمال نہیں بڑھائیں گے تو ان کے اعضاء پہ لوڈ پڑتا ہے، گردوں پہ اثر ہوتا ہے، بلڈ پریشر کم ہوتا ہے، چکر آتے ہیں اور قوت مدافعت کم ہونے سے انفیکشن ہونے کا رسک بڑھ جاتا ہے۔
پانی کی کمی سے خون گاڑھا ہو جاتا ہے اور فالج، ہارٹ اٹیک اور بینائی ضائع ہونے کا رسک بڑھ جاتا ہے۔
یہاں اس بات کو سمجھنا بھی ضروری ہے کہ موسم گرما میں پانی کا استعمال بڑھانے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ آپ پانی کا بے دریغ استعمال کریں اور کٹورے کے کٹورے پی جائیں۔
پانی کے استعمال کو اعتدال پسندی سے بڑھائیں۔
اگر کسی کا سانس نہیں پھولتا، پاؤں اور ٹانگوں پہ سوجن نہیں ہے اور بار بار ہسپتال کی ایمرجنسی میں نہیں جانا پڑتا تو ایسے مریض دن میں 4 سے 8 گلاس پانی پی سکتے ہیں۔
جن لوگوں کا کام زیادہ گرمی میں ہوتا ہے یا جن کو پسینہ بہت زیادہ آتا ہے، وہ اس سے زیادہ پانی بھی پی سکتے ہیں۔
اگر کسی کا کام دن بھر اے سی (AC) والے ماحول میں ہو تو وہ پانی کی مقدار کو زیادہ مت بڑھائیں۔
ان مریضوں کو اپنے پیشاب کی مقدار اور رنگت پہ بھی نظر رکھنی چاہیے - کم مقدار یا گاڑھا پیلا پیشاب آنے والے مریضوں کو پانی کی مقدار بڑھانے کی ضرورت ہے۔

2. گرمی میں کام کرنا۔
امراض قلب کے مریضوں کو چاہیے کہ وہ ایسے اوقات میں کام یا مشقت مت کریں جن میں گرمی عروج پہ ہو۔
سخت موسم سے خود کو بچائیں (جیسا کہ دن 12 سے لے کہ 4 بجے).
درجہِ حرارت کم ہونے پہ اپنے باقی ماندہ کام کر لیں۔

3۔ لسی کا استعمال۔
لسی ہماری ثقافت کا حصہ بھی ہے اور خوراک کا بھی۔
امراض قلب کے مریض لسی کا استعمال کر سکتے ہیں لیکن اس میں نمک یا چینی ہرگز مت ڈالیں۔
اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ لسی کا ایک گلاس پانی کے ایک گلاس کے برابر تصور کیا جاتا ہے - لہذا اگر آپ ایک گلاس لسی پیئیں گے تو اپنی پانی کی استعمال ہونے والی مقدار میں سے ایک گلاس کم کر دیں۔

4. تربوز اور خربوزے کا استعمال۔
موسم گرما میں ان دونوں کی بہتات دیکھنے کو ملتی ہے۔
لوگ ان کا استعمال بھی بہت شوق سے کرتے ہیں۔
لیکن اس بات کا خیال رکھیں کہ امراض قلب اور بلڈ پریشر کے مریضوں کیلیے تربوز پہ نمک چھڑکنا منع ہے۔
اسی طرح ان کا استعمال بھی اعتدال پسندی سے کریں۔ ان دونوں پھلوں میں پانی کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے اور ان کا زیادہ استعمال ہارٹ فیلیئر اور ویلو (valves) کے مریضوں کی چھاتی میں پانی بھرنے کی وجہ بن سکتا ہے۔
ایک دن میں تربوز یا خربوزہ کا ایک چھوٹا باؤل (پیالہ) استعمال کیا جا سکتا ہے۔

5. مشروبات اور کولڈ ڈرنکس کا استعمال۔
کوشش کریں کہ سادہ پانی پیئیں۔ مشروبات کا استعمال منع نہیں ہے لیکن حتی الامکان کوشش کریں کہ سادہ پانی پیا جائے۔
کولڈ ڈرنکس کا استعمال امراض قلب کے مریضوں کیلیے نقصان دہ ہے۔

6. ٹھنڈے پانی کا استعمال۔
ٹھنڈ کی وجہ سے دل پہ بوجھ پڑتا ہے۔
اس کے علاوہ چھاتی کا انفیکشن ہونے کا رسک بھی بڑھ جاتا ہے۔
امراض قلب کے مریضوں کیلیے فریج میں ٹھنڈا کیا ہوا پانی یا برف ملا پانی پینا منع ہے۔
روم ٹیمپریچر پہ پانی ان مریضوں کیلیے موزوں ہے۔
لیکن اگر ٹھنڈا پانی پینا مقصود ہو تو گھڑا یا مٹی کا کولر خریدیں اور اس میں ڈالا ہوا پانی استعمال کریں۔

7. پیشاب آور ادویات۔
موسم گرما شروع ہونے پہ اپنے معالج سے رجوع کریں اور وہ آپ کی جسمانی صورتحال کے مطابق دوا ایڈجسٹ کر دیں گے۔
لیکن خود سے کوئی دوا کم نہ کریں۔

8. اے سی (AC) کا ٹیمپریچر 26 سے 28 پہ رکھیں۔
زیادہ ٹھنڈک سے امراض قلب کے مریض بگڑ سکتے ہیں۔
اسی طرح اے سی یا کولر کے بلکل سامنے مت بیٹھیں۔
گاڑی میں بھی اے سی کا رخ اپنے چہرے یا چھاتی کی طرف مت کریں۔

9. ورزش کے اوقات کو موسم کے مطابق ایڈجسٹ کریں۔
موسم گرما میں صبح طلوع آفتاب کے آس پاس یا شام کو ورزش یا واک کا معمول سیٹ کریں۔

10. دوا باقاعدگی سے استعمال کریں۔
موسم گرما میں بھی دوا کا استعمال انتہائی اہم ہے۔
اگر کسی دوا مسئلہ ہو رہا ہو تو اپنے معالج سے رجوع کر کہ اس کو ایڈجسٹ کرائیں۔

اپنا اور اپنے گھر والوں کا خیال رکھیں۔
بدپرہیزی اور چھوٹی چھوٹی باتوں پہ ضد کرنے سے اکثر اوقات نقصان پہنچتا ہے اور کبھی کبھار اس کا ازالہ ممکن نہیں ہوتا۔
صحت جیسی نعمت کی قدر بھی کریں اور اس کو برقرار رکھنے کی تدابیر کو بھی اپنائیں۔

07/06/2025
ہر سال 31مئی کو عالمی ادارہ صحت (WHO) اپنے شراکت دارممالک بشمول پاکستان، کے ساتھ مل کردنیا بھر میں انسدادِ تمباکو نوشی ک...
31/05/2025

ہر سال 31مئی کو عالمی ادارہ صحت (WHO) اپنے شراکت دارممالک بشمول پاکستان، کے ساتھ مل کردنیا بھر میں انسدادِ تمباکو نوشی کا عالمی دن(World No To***co Day)مناتا ہے۔ اس موقع پر عوامی آگہی مہم، تقریبات اور سیمینارز کے ذریعے تمباکو نوشی کے مضر اثرات کے بارے میں بتایا جاتا ہے اور اس بُری لت کو ترک اور علاج معالجے کی طرف مائل کرنے کی کوششیں کی جاتی ہے۔ رواں برس ورلڈ نو ٹوبیکو ڈے کا موضوع ’’تمباکو سے پرہیز، پھیپھڑوں کی صحت‘‘ ہے۔

تمباکو نوشی گلے اور منہ کے سرطان سمیت سانس کی جان لیوا بیماریوں کے خطرے میں مبتلا کر کے موت سے ہم کنار کر سکتی ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ تمباکو نوشی سے ہر سال 80 لاکھ افراد ہلاک ہوتے ہیں۔ ان میں سے 12 لاکھ تمباکو پینے والے لوگوں کے خارج ہونے والے دھوئیں سے ہلاک ہوئے۔

گرینڈ ویو ریسرچ کے تجزیہ سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ سنہ 2021 میں اس صنعت کی مالیت 850 ارب ڈالر تھی۔

تمباکو سے ہونے والی اموات کو کم کرنے میں مدد کے لیے عالمی کوششوں نے سنہ 2005 کے فریم ورک کنونشن برائے تمباکو کنٹرول کی شکل اختیار کی۔ اب تک 182 ممالک اس فریم ورک پر دستخط کر چکے ہیں۔

اگرچہ دنیا بھر میں تمباکو نوشی کرنے والوں کی تعداد آہستہ آہستہ کم ہو رہی ہے پھر بھی اس کی تعداد ایک ارب تیس کروڑ ہے۔ ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ ’ہر 10 سگریٹس میں سے ایک سگریٹ تمباکو کی غیر قانونی تجارت سے آتا ہے، جو کسی ضابطے کے تحت نہیں ہوتا۔

بچوں کی اموات
ترمیم
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے صحت کا تخمینہ ہے کہ دوسروں کی تمباکو نوشی کے دھوئیں سے متاثر ہونے والے افراد یعنی غیر فعال تمباکو نوشی سے ہر برس 65 ہزار بچوں کی موت واقع ہوتی ہیں۔ کسی دوسرے کے تمباکو کے دھوئیں سے متاثر ہونے والے بچوں کو بھی کان میں انفیکشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، جو ممکنہ طور پر سماعت میں کمی اور بہرے پن کا باعث بنتا ہے۔

کینسر پیدا کرنے والے مادے
ترمیم
ڈبلیو ایچ او کا اصرار ہے کہ ’تمام قسم کے تمباکو نقصان دہ ہیں اور تمباکو کی نمائش کی کوئی محفوظ سطح نہیں ہے۔

ڈبلیو ایچ او یورپی آفس میں تمباکو کنٹرول کی ٹیکنیکل افسر، انجیلا سیوبانو کا کہنا ہے کہ ’دوسرے لوگوں کے چھوڑے ہوئے دھوئیں میں سات ہزار سے زیادہ کیمیکل ہوتے ہیں، جن میں سے 70 کینسر کا سبب بن سکتے ہیں۔

’تمباکو نوشی نہ کرنے والوں کے لیے دوسروں کی جانب سے چھوڑے گئے دھوئیں سے پھیپھڑوں کے کینسر کا خطرہ 20 سے 30 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔‘

تمباکو کا دھواں ہمارے دلوں کی صحت کو بھی خراب کرتا ہے۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’ایک گھنٹہ سے بھی کم وقت تک دوسرے ہاتھ کے دھوئیں کا شکار ہونے سے دل کی شریانوں کی اندرونی تہ کو نقصان پہنچ سکتا ہے، جس سے دل کا دورہ پڑنے کا خطرہ بڑھ جاتا

21/05/2025
ماؤں کا عالمی دنویسے تو ماں کے رتبے اور اس کی عظمت کا احاطہ کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ لیکن دنیا بھر میں ماؤں کو خراج ...
11/05/2025

ماؤں کا عالمی دن
ویسے تو ماں کے رتبے اور اس کی عظمت کا احاطہ کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ لیکن دنیا بھر میں ماؤں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہر سال دنیا بھر میںمئی کے دوسرے ہفتے میں اتوار کے روز ماؤںکا عالمی دن (Mother's Day) منایا جاتا ہے۔ ویسے تو ہمارا ہر دن، ہر لمحہ، ہر ساعت، ہر گھڑی ماں سے محبت اور اس کے دوپٹےکے کونے میںلگی گرہ میںمقیّد ہے، اور ہم کبھی بھی اس کے التفات سے لمحہ بھر راہ فرار حاصل نہیںکرسکتے۔وہ ایک ایسی ہستی ہے جو جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتی ہے تو اپنی اولاد کی خوشی مانگنے میںاتنی مشغو ل ہوجاتی ہے کہ اپنے لیے کچھ بھی مانگنا بھول جاتی ہے۔ تاہم، ماؤںکا عالمی دن بھی ہرسال جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے۔ اس دن اپنی ماںسے خوب لاڈ پیار کرتے ہیں، انہیںتحائف دیتے ہیں اور انکے ساتھ بنوائی ہوئی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں۔جدید دور کی با ت کریں تو سب سے پہلے مد رز ڈے 1908ء میں اینا جاروِس نے اپنی ماں کی یاد میں گریفٹن، ویسٹ ورجینیا کےاینڈریو میتھڈسٹ چرچ میں منایا، جہاں آج انٹرنیشنل مدرز ڈے کی علامت کے طور پر ایک مزار موجود ہے۔ اینا جاروِس نے امریکا میںمدرز ڈے منانے کی کمپیئن 1905ء میںہی شروع کردی تھی، اسی سال ان کی ماںاینا ریوس کاانتقال ہوا تھا۔ اینا جاروِس امن کی علمبردا ر ایک ایکٹیوسٹ تھیں، جو امریکن سول وار کے دوران زخمی فوجیوںکی تیمار داری اور مرہم پٹی کرتی تھیں۔انھوں نے مدرز ڈے ورک کلب بھی قائم کیا تاکہ لوگوںتک صحت عامہ کے مسائل کی آگاہی پہنچا سکیں۔ اینا جاروِس کا مقصد اپنی ماں کو عزت واحترام دلوانا اور کم از کم ایک دن مائوںکے نام کروانا تھا، جو اپنی ساری زندگی بچوں کی پرورش اورانہیںعمدہ شہری بنانے میںتیاگ دیتی ہیں۔ اینا کا یقین تھا کہ ماںہی وہ ہستی ہے جو آپ کے لیے اس دنیا میںآپ سے زیادہ کوششیںکرتی ہے۔ہر سال مائوںکاعالمی دن منانے کے لیے مختلف ممالک میں ایک ہی دن مختص نہیںہے۔ پاکستان اور اٹلی سمیت مختلف ملکوں میں یہ دن مئی کے دوسرے اتوار منایا جاتاہے جبکہ کئی دیگر ممالک میںیہ دن جنوری، مارچ، اکتوبر یا نومبر میںمناکر مائوںکو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ تاہم اس دن کو منانے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ماں کی عظمت واہمیت کو محضایک دن تک محدود کردیا جائے کیونکہ اس ہستی نے بھی صرف ایک دن ہمار ا خیال نہیںرکھا بلکہ جوان ہونے اور شادی شدہ ہونے کے بعد بھی اپنے بچوں اور بچوںکے بچوںکا خیال رکھتی چلی آتی ہے۔آئیں اس برس عہد کریںکہ ہم اس عظیم ہستی کی دل و جان سے بھرپور خدمت کریںگے اور کوشش کریںگے کہ جو کچھ انھوںنے ہمارے لیے کیا اس کا کچھ فیصد ہیحق ادا کرسکیں۔ آپ اپنی ماں کو کسی بھی طریقے سے یہ احساس دلانے کی کوشش کرسکتے ہیں کہ آپ کی زندگی میں سب سے خاص اور محترم ہستی آپ کی ماں ہی ہیں۔نپولین کا یہ جملہ’’ تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو، میں تمہیں ایک مہذب اور تعلیم یافتہ نسل دوں گا‘‘۔ ماں کی تربیت اولاد کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتی ہے، اگر ہمیں نسلوں کو سنوارنا ہے تو آج مستقبل کی ہر ماں کو تعلیم سے استفادہ کرنا ہوگا۔ ماں ہر بچے کی پہلی درسگاہ ہے، جسے بچہ دنیا میں آنکھ کھولتے ہی پہلو میں سب سے پہلے محسوس کرتا ہے۔ بچہ اس دنیا میں سب سے زیادہ اپنی ماں سے متاثر ہوتا ہے۔ ماں کا اٹھنا، بیٹھا، ہنسنا، بات کرنا، غرض کہ ماں کا تمام تر رویہ بچے کی زندگی پر خاص اثرات مرتب کرتا ہے، جن کے سبب ماں کی ذمہ داری دُگنی ہوجاتی ہے۔ ماں کی بچے کے لیے کی گئی دیکھ بھال اس کے لیے ڈھال بن جاتی ہے لیکن ماں کی تعلیم اور معاشی کامیابی بچے کا مستقبل بناتی ہے۔بچے کی تربیت کا عمل اسی وقت شروع ہوجاتا ہے جب وہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے۔ ماںکا ہر عمل بچے کی تربیت کا پہلا قدم بن جاتا ہے لیکن ایک ناخواندہ یا تعلیم سے محروم ماں تربیت کے بہتر سلیقے سے محروم ہوسکتی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ایک پڑھی لکھی ماں اپنے بچوں کی صحیح تربیت کرسکتی ہے کیونکہ ایک تعلیم یافتہ ماں اس بات سے آگاہ ہوتی ہے کہ بچے کی تربیت کے لیے گھر کا ماحول کتنی اہمیت رکھتا ہے اور بچے کی درسی تعلیم کے علاوہ جنسی آگہی سے متعلق تعلیم بھی کتنی ضروری ہے۔وہ یہ بھی جانتی ہے کہ بچے کے لیے گھر کے پرسکون ماحول کے علاوہ بیرونی ماحول کتنے وقت کے لیے بہترین ہے۔ دوسری جانب ایک پڑھی لکھی ماں معیاری وقت (کوالٹی ٹائم) کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہوتی ہے۔ بچوں کو وقت دینے سے زیادہ والدین کے لیے یہ بات اہمیت رکھتی ہے کہ وہ دیے گئے وقت کو کتنا کارآمد بناتے ہیں۔ دنیا میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ بڑی بڑی مصروف اور عظیم عورتوں نے اپنے بچوں کو کوالٹی ٹائم دے کر ان کی بہتر انداز میں تربیت کی۔دنیا بھر میں اس وقت نئی نسل میڈیا کے منفی اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہے لیکن یہاں بھی ایک تعلیم یافتہ ماں بڑی خوبصورتی کے ساتھ میڈیا کو معلومات اور انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ بنادیتی ہے۔ وہ اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہوتی ہے کہ کس میڈیم کا کب اور کس طرح استعمال کرنا ہے اور بچے کے لیے بہترین اسکرین ٹائم کیا ہوسکتا ہے۔اگر مائیں پڑھی لکھی، باشعور اور سمجھدار ہوں گی تب ہی ایک معاشرہ ترقی کی جانب گامزن ہوسکتا ہے کیونکہ ایک باشعور عورت ہی وقت کے تقاضوں کے مطابق اپنے بچوں کی تربیت درست خطوط پر کر سکتی ہے۔ وہ بچے کو اچھے اور برے کی تمیز سکھاتے ہوئے معاشرے کا مفید شہری بناسکتی ہے۔

 fans
08/05/2025

fans

تھیلیسیمیا(Thalassemia)پاکستان اور دیگر جنوب ایشیائی ممالک میں بہت زیادہ پائی جانیوالی والی بیماری ہے۔ تھیلیسیمیا بین الاقوامی تنظیم کے مطابق،اس بیماری کے سب سے زیادہ شرح پاکستان میں ہے ، جہاں ایک اندازے کے مطابق 5-7 فیصد آبادی تھیلیسیمیا کےمرض میں مبتلا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں تقریباً 10 ملین افراد تھیلیسیمیا کا شکار ہیں ۔تھیلیسیمیا ایک جینیاتی بیماری ہے جو خون میں موجود ایک گروپ میں خرابیوں کی وجہ سے وجود میں آتی ہے ،یہ گروپ خون میں موجود سرخ خلیوں (Red Blood Cells) کے لحمیات (Protein) تک آکسیجن کی فراہمی کو روکتا ہے جس کی وجہ سے سرخ خلیوں (hemoglobin) کی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔ یہ حالت جینز میں تغیرات (mutations) کی وجہ سے ہوتی ہے جو سرخ خلیوں کی پیداوار کو قابوکرتے ہیں۔ تھیلیسیمیا دنیا کے بہت سے حصوں میں عام ہے، خاص طور پر بحیرہ روم کے ممالک،جنوب مشرقی ایشیا میں تھائی لینڈ، کمبوڈیا اور لاؤس (Laos) میں ۔ بحیرہ روم کے علاقے میں، سب سے زیادہ قبرص، یونان اور اٹلی میں اسکے مریض ہیں۔
بحیرہ روم کے علاقے اور جنوب مشرقی ایشیا کے علاوہ تھیلیسیمیا مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں بھی پایا جاتا ہے۔ ان خطوں میں ایران، عراق اور مصر جیسے ممالک میں یہ زیادہ عام ہے۔ تھیلیسیمیا دنیا کے دیگر حصوں میں بھی پایا جاتاہے، بشمول جنوبی اور وسطی امریکہ، کیریبین (Caribbean)، اور ریاست ہائے متحدہ کے کچھ حصوں میں ۔
پاکستان کے علاوہ، تھیلیسیمیا دیگر جنوب ایشیائی ممالک بشمول بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال میں بھی عام ہے۔ ہندوستان میں، یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ تھیلیسیمیا کے 40 ملین سے زیادہ کیریئرز ہیں، جن میں مہاراشٹر، گجرات اور پنجاب کی ریاستوں میں سب سے زیادہ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں۔ بنگلہ دیش میں تھیلیسیمیا سے تقریباً 7 فیصد آبادی متاثر ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ سری لنکا میں، یہ اندازہ تقریباً 2فیصدہے، جبکہ ملک کے شمالی اور مشرقی علاقوں میں اس کی شرح زیادہ ہے۔ نیپال میں، تھیلیسیمیا کا پھیلاؤ نسبتاً کم ہے، جس میں اندازے کے مطابق کیریئر کی شرح تقریباً 1فیصد ہے۔
جنوب ایشیائی ممالک میں تھیلیسیمیاکا زیادہ پھیلاؤ کئی عوامل کے مجموعے کی وجہ سےہے،مثلاً بیماری کے بارے میں آگاہی کی کمی اور جانچ اور علاج تک محدود رسائی میں تاخیراور کمی، خاندان میں متواتر شادیوں کی بلند شرح، ہم آہنگی کی شادیاں، جہاں افراد قریبی رشتہ داروں سے شادی کرتے ہیں، بہت سے جنوب ایشیائی ممالک میں یہ رواج عام ہیں جن کی وجہ سے تھیلیسیمیا اور دیگر جینیاتی امراض کا خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے ۔ تھیلیسیمیا کی جینیاتی بنیاد اس کے پھیلاؤ کی بلند شرح کا سب سے بڑا سبب ہے ، کیونکہ بہت سے کیریئرز اس بات سے واقف نہیں ہوتے کہ وہ اپنے بچوں کو یہ بیماری منتقل کررہے ہیں۔ علاج کی خدمات تک محدود رسائی بھی پھیلاؤ کی شرح میں اضافے کابڑا سبب ہے، کیونکہ افراد اس نگہداشت تک رسائی نہیںرکھتے جس کی انہیں ضرورت ہو تی ہے۔
جنوب ایشیائی ممالک میں تھیلیسیمیا کے زیادہ پھیلاؤ سے نمٹنے کیلئے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ان میں مرض کے بارے میں آگاہی میں اضافہ، شادی سے پہلے جانچ اور مشاورت کو فروغ دینا، جانچ اور علاج کی خدمات تک رسائی کو بہتر بنانا شامل ہے۔ تاہم، ان ممالک میں تھیلیسیمیا کی روک تھام اور انتظام کیلئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، اور جانچ اور علاج کے پروگراموں میں زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ تھیلیسیمیا کے شکار افراد صحت مند زندگی گزار سکیں۔
تھیلیسیمیا کی دو قسموں میں درجہ بندی کی جاتی ہے، الفا تھیلیسیمیا (Alpha Thalassemia) اور بیٹا تھیلیسیمیا (Beta Thalassemia) ، یہ اس بات پر منحصر ہے کہ کونسی گلوبن زنجیر متاثر ہوئی ہے۔ الفا تھیلیسیمیا الفا گلوبن جین میں تغیرات (mutations) کی وجہ سے ہوتا ہے، جبکہ بیٹا تھیلیسیمیا بیٹا گلوبن جین میں تغیرات (mutations) کی وجہ سے ہوتا ہے۔
الفا تھیلیسیمیا کی چار اقسام ہیں، جن کا انحصار الفا گلوبن جینز کی تعداد پر ہوتا ہے۔ الفا تھیلیسیمیا کی اس قسم میں، صرف ایک الفا گلوبن جین متاثر ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں خون کی ہلکی کمی ہوتی ہے۔ ہیموگلوبن ایچ (Hemoglobin H) کی بیماری میں، تین الفا گلوبن جین متاثر ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں معتدل سے شدید خون کی کمی ہوتی ہے۔ الفا تھیلیسیمیا میجر(Alpha Thalassemia Major) میں، چاروں الفا گلوبن جین متاثر ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں پیٹ میں پانی بھر جاتا (Fetal Hydrops) ہے، یہ ایسی حالت ہے جو عام طور پر مہلک ہوتی ہے۔
نوعیت کی شدت کے لحاظ سے بیٹا تھیلیسیمیا کی دو قسمیں ہیں۔ بیٹا تھیلیسیمیا کی ایک قسم میں، صرف ایک بیٹا گلوبن جین متاثر ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں خون کی ہلکی کمی ہوتی ہے۔ بیٹا تھیلیسیمیا میجر (Beta Thalassemia Major) میں، بیٹا گلوبن کے دونوں جین متاثر ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں خون کی شدید کمی (anemia)ہوتی ہے۔
بیٹا تھیلیسیمیا میجر کے علاج میں زندگی بھر خون کی منتقلی شامل ہو سکتی ہے۔تھیلیسیمیا خون کی کمی، تھکاوٹ اور دیگر صحت کے مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔ علاج میں خون کی منتقلی، آئرن کیلیشیم تھراپی، اور بون میرو ٹرانسپلانٹ شامل ہو سکتے ہیں۔سادہ زبان میں اگر شوہر اور بیوی چھپے ہوئے تھیلیسیمیا کا شکار ہیں تو آنے والا بچہ بڑے تھیلیسیمیا کا شکار ہو گا جس کا مطلب ہے تا حیات خون کی کمی کے باعث خون کی منتقلی اور عمر کی میعاد 15-17 سال۔
صحت مند سرخ خون کے خلیات کی کمی کی وجہ سے تھیلیسیمیا کے شکار افراد کو اکثر تھکاوٹ اور کمزوری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس مرض میں مبتلا افراد کی جلد پیلی یا زردی مائل ہو جاتی ہے۔خون کی کمی (anemia) سانس کی قلت کا سبب بن سکتی ہے، خاص طور پر جسمانی سرگرمی یا مشقت کے دوران۔تھیلیسیمیا کی شدید صورتوں میں، جسم بہت زیادہ سرخ خون کے خلیات پیدا کر سکتا ہے، جس کی وجہ سے تلی اور جگر بڑھ جاتا ہے۔تھیلیسیمیا کے شکار بچے صحت مند خون کے خلیات پیدا کرنے کی قدرتی صلاحیت نہیں رکھتے جس کے باعث لاغر اور ُکمزور رہ جاتے ہیں۔ یہ بیماری ہڈیوں کی خرابی کا سبب بھی بن سکتی ہے، خاص طور پر چہرے اور کھوپڑی کی ہڈیوں پریہ زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔
بچاؤ علاج سے بہتر ہے اسلئے اگر تھیلیسیمیا کی روک تھام کی جائے تو مریض اور انکے لواحقین کو بہت زیادہ جذباتی و ذہنی صدمے سے بچایا جا سکتا ہے اور اسکے لئے شادی سے پہلے مرد اور خواتین کا تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ کروا لیا جائے تو آنے والی نسلوں کو اس جان لیوا مرض سے بچایا جا سکتا ہے

01/05/2025

12/04/2025

تمام دنیا کی طرح پاکستان میں بھی آج ’’ عالمی یوم صحت ‘‘ منایا جا رہا ہے۔ 1950 سے تمام دنیا میں7 اپریل کو یوم صحت منایا ...
07/04/2025

تمام دنیا کی طرح پاکستان میں بھی آج ’’ عالمی یوم صحت ‘‘ منایا جا رہا ہے۔ 1950 سے تمام دنیا میں7 اپریل کو یوم صحت منایا جاتا ہے جس کا مقصد تمام دنیا کی توجہ انسانی صحت کی جانب مبذول کروانا ہے۔ رواں برس اس دن کی تھیم ہے ’’ صحت مند آغاز، پر امید مستقبل‘‘۔ ویسے تو جتنے بھی عالمی دن منائے جاتے ہیں ہم سب ان میں شامل ہوتے ہیں، سیمینار، رٹی رٹائی تقاریر، اور متعلقہ اداروں میں ’’ واک‘‘ منعقد کی جاتی ہے جو کبھی چار دیواری سے باہر نہیں نکلتی۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے یہ دن منانے کا درست طریقہ یہ ہو گا کہ ہم اپنے صحت کے نظام کی کمزوریوںکا جائزہ لیں اور انہیں دور کرنے کے طریقوں پر غور کریں۔ حکومت اور ریاستی ادارے تو اپنے محدود وسائل میں جو کچھ کر رہے ہیں اپنی جگہ ہمارے عوام کو بھی چاہئے کہ وہ اس بارے میں اپنی ترجیحات درست کریں ۔ سب سے پہلے تو تعلیم اور صحت شاید ہماری ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ صحت کی بات کی جائے تو ہماری عوام کی اکثریت ساری ذمہ داری حکومت پر ڈال دینے کی عادی ہے۔ زمینی حقیقت یہی ہے کہ تمام تر کوشش کے باوجود ، ہمارے جیسی معیشت کی حامل ریاست کے لیے عملی طور پر نا ممکن ہے کہ وہ عوام کو صحت کی تمام سہولیات بالکل مفت فراہم کر سکے۔ ہر شخص کو زیادہ نہیں تو کم از کم جتنے کا موبائل اس نے جیب میں رکھا ہوتا ہے اتنے پیسے تو اپنی اور اپنی اولاد کی صحت کے لے خرچ کرنے کے لیے تیار ہونا چاہئے۔ ہمارے ہسپتالوں میں معمول کا منظر ہے کہ جو مریض اور لواحقین چار پانچ سو روپے کی دوائی بازار سے خریدنے کو تیار نہیں کہ انھیں یہ مفت ملنی چاہئے وہ تیمار داری کے لیے آنے والے رشتے داروں کی خاطر داری پر ہزاروں روپے خرچ کرتے نظر آتے ہیں کہ ’’ ناک ‘‘ کا سوال ہے۔پاکستان کے نظام صحت کو درپیش مسائل کی بات کی جائے تو لمبی فہرست تیار ہو جائے گی۔ سب سے پہلے ہمارے یہاں آبادی کے لحاظ سے انفراسٹرکچر کی شدید کمی ہے۔ عالمی اداروں کے مطابق کسی بھی حکومت کو اپنے GDP کا پانچ سے دس فیصد تک صحت کے لیے مختص کرنا چاہئے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے کسی بھی حکومت کی جانب سے نے صحت پر خرچہ GDP کے تین فیصد سے نیچے ہی رہا ہے۔ صحت کے 70% سے زیادہ بڑے مراکز چند بڑے شہروں میں مرکوز ہیں۔ بیروزگار ڈاکٹروں کی فوج کے باوجود ابھی تک آبادی کے لحاظ سے پاکستان میں ڈاکٹروں کی شدید کمی ہے۔ یونیسف کے مطابق پاکستان میں ہر برس پچاس ہزار سے زیادہ بچے ٹائیفایڈ، اسہال اور دیگر ایسی قابل علاج بیماریوں کی وجہ سے انتقال کر جاتے ہیں جن کی وجہ گندگی اور غیر معیار پانی اور صفائی کے طریقے نہ ہونا ہی ۔ دنیا میں پاکستان تپ دق کے کیسز کے لحاظ سے پانچویں نمبر پر ہے اور ڈیڑھ سے دو کڑوڑ پاکستانی بی یا سی قسم کے یرقان ( ہیپا ٹائیٹس) کا شکار ہیں۔ ان دونوں بیماریوں کے پھیلنے کی وجوہات میں سے اہم ترین رہن سہن کے طور طریقے ہیں۔ ماں بچے کی صحت کی بات کریں تو پاکستان میں ماں بچے کی اموات کی شرح جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں ہر بیس منٹ میں ایک ماں دوران زچگی موت کے منہ میں چلی جاتی ہے۔ چالیس فیصد بچے غذاتی قلت کا شکار ہیں۔ ذہنی صحت کی بات کی جائے تو حالات سب سے زیادہ ابتر ہیں۔ اول تو ہمارے یہاں کسی کو کہا جائے کہ وہ کسی ذہنی بیماری کا شکار لگتا ہے تو وہ ڈنڈا اٹھا کر مارنے کو دوڑے گا۔ حالانکہ ہر ذہنی بیماری کا مطلب ’’ پاگل پن ‘‘ نہیں ہوتا۔ پورے ملک میں ذہنی امراض کے ماہر ڈاکٹروں اور کلینیکل سائیکولوجسٹس کی تعداد ایک ہزار سے بھی کم ہے ( چوبیس کڑوڑ سے زیادہ آبادی کے لیے) ۔ اس کے باوجود ہماری آبادی (خاص طور پر نوجوان) کی اکثریت ہر معاملے میں اپنے آپ کو عقل کل سمجھتی ہے اور پاکستان کیا تمام دنیا کے تمام مسائل کا حل انکے پاس موجود ہے۔ ہر چار میں سے ایک پاکستانی ذیابیطس کا شکار ہے اور پاکستان میں ہونے والی اموات میں سے تیس فیصد کی وجہ دل کی بیماریاں ہیں۔ دستیاب وسائل ، بڑھتی آبادی اور عوام کے رویے دیکھیں تو جو کچھ اور جتنا کچھ ہمارے ہسپتالوں میں میسر ہے ، غنیمت کیا اسکے لیے شکر کیا جانا چاہئے۔ ہماری عوام کو بھی اس سلسلے میں حکومت سے ’’ ڈو مور‘‘ کا مطالبہ کرنے کی بجائے زمینی حقائق کو سمجھتے ہوئے صحت کی ذمہ داری کا کچھ بوجھ خود بھی اٹھانے پر غور کرنا چاہئے۔ غریبوں کو مفت علاج کی سہولیات دینا اہم ہے لیکن جو لوگ متحمل ہیں وہ اگر برگرز، بریانیوں ، موبائل اور شادی بیاہ کے ساتھ ساتھ اپنی صحت پر بھی کچھ خرچ کر نے کی عادت ڈال لیں تو کوئی حرج نہیں ہو گا۔ دوسری جانب اہم ہے کہ صحت کے بجٹ میں تین سے پانچ فیصد کا اضافہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ ویکسینیشن، صفائی ستھرائی، اور بہتر غذا کے بارے میں عوامی آگاہی کی مسلسل مہم چلانے کی فوری ضرورت ہے۔ موجودہ دور میں سرکاری اور نجی شراکت داری کے بغیر کسی بھی نظام میں بڑی اور اہم بہتری لانا ممکن نہیں۔ اس لیے صحت کے شعبے میں بھی سرکاری اور نجی شراکت داری کو فروغ دینے کی کوششوں کی مخالفت برائے مخالفت نہیں ہونی چاہئے۔ ہاں یہ ضرور خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ اس قسم کی کوششوں کے نتیجے میں جو نظام تشکیل پائے وہ عام آدمی کے لئے فائدہ مند ہو۔ سب سے اہم یہ ہے کہ آدھے سے زیادہ بیماریاں ایسی ہیں کہ تھوڑی احتیاط سے بندہ بیمار ہی نہ ہو۔ اسکے لیے پرہیز، صحت مند طرز زندگی اور متوازن غذا کو فروغ دیا جائے تو ویسے ہی ہمارے ہسپتالوں پر بوجھ نصف کیا جا سکتا ہے۔ اس سب کے لے بین الاقوامی تعاون کے ساتھ ساتھ، حکومتی اقدامات، عوامی شعور اور نظام صحت میں فوری اور بڑی اصطلاحات کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں جدید ٹیکنالوجی جیسے ٹیلی میڈیسن، آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور موبائل ہیلتھ یونٹس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ اور دور دراز عوام کو صحت کی سہولیات فراہم کی جا سکتی ہیں۔ حکومتی ادارے اس سب پر کام کر رہے ہیں لیکن اسکو مزید بڑھانے اور بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔صحت کے نظام کی بہتری کے لیے فوری اقدامات ہماری اخلاقی ذمہ داری بھی ہے اور پاکستان کی معیشت اور خوشحالی کے لیے اقتصادی ضرورت بھی۔ بین الاقوامی یوم صحت کو ایک رسم کی بجائے ایک یوم عہد کے طور پر لیا جانا چاہئے کہ ہم اپنے نظام صحت کو بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ اور بھرپور کوشش کریں گے۔ بلاشبہ ہمارے طبی نظام کے درپیش چیلنجز بہت بڑے ہیں لیکن اگر حکومت، ادارے، طبی ماہرین، میڈیا اور سب سے بڑھ کر عوام ایک ہو کر مثبت کوشش کریں تو ان مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

Address

154#Officer Colony
Bhakkar
30000

Telephone

+923338055664

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Fahd Medicare posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Practice

Send a message to Fahd Medicare:

Share

Category